فسوں گری اور اسکی رسائی

فسوں گری اور اسکی رسائی

Sep 25, 2015

کیا اردو میں واقعی رزمیہ فکشن نہیں ہے ؟

مصنف

سیدعمران بلخی

شمارہ

شمارہ - ١

فسوں گری اور اسکی رسائی

سید عمران بلخی

اپنی غیر مطبوعہ کتاب پیراڈائم شفٹ سے کشید.کردہ

کیا اردو میں واقعی رزمیہ فکشن نہیں ہے ؟

ایپک فکشن جسے اردو میں رزمیہ افسانہ بھی لکھتے ہیں جن باتوں کا احاطہ کرتا ہے رزمیہ شاعری بھی کم وبیش انہیں باتوں کا احاطہ کرتی ہے۔

وہی جمالیات

وہی بیانیات

وہی احساسات

ویسی ہی کردار طرازی

وہی ترجمانیت

اس میں بھی تو ویسی ہی ہوتی ہے.....

ہاں پیرایا یا پیراہن الگ الگ ضرور ہوتا ہے.

ہاں ضوابط و اصول اور شروط الگ الگ ضرور ہوتے ہیں مگر دونوں کا محور اور مرکز ایک ہی ہوتا ہے اور دونوں ہی بشری مراسماتی مہندسہ کامیابی سے کرتے ہیں۔ دونوں میں ایک روحِ مشترک ہے۔

یہ یوں ہوتا ہے کہ الفاظ نثری برت کے ساتھ ہوں یا شعری برت کے ساتھ ہوں اذہان تک یکساں طور پر رساں ہوتے ہیں۔ چونکہ اذہان سے منسلک انسان ہیں اور انسانوں کے کاگنیشن سے وابستہ انکے ادراک ہیں اور انہی سے جڑے ہیں انکے اپنے اپنے مدرّکہ نظام

یہ بشری مدرڑکہ نظام ہی ہے جو افہامیاتیاتی منظّم کرتا ہے جس سے بات کی رسائی اور تفہيم ہوتی ہے..

دراصل کاگنیٹو ادراکی سسٹم نظام یا مدرّکہ نظام کو جو رچنا کے روپ سے نکل کر رچنے لگتی ہے وہی اظہار یہ اسے راغب کرتا ہے اور پھر قرات سے ذہن تعمیر ہونے لگتاہے اور انہیں تعمیرات پر بشرذاد کا بشری مراسماتی مہندسہ عمل پزیر ہوتا ہے۔

رزمیہ شاعری وہی بڑی شاعری ہے جو آفاقی ہو اور سہل ہو جسکا اظہاریہ ابہام تو رکھتا ہو مگر مبہم نہ ہو اور جسمیں پیوستہ بیان و متن کو کسی نہ کسی کاگنیشن, ادراکی یا سب کاگنیشن لئر یا ادراکی اطباق.کے کچھ یا مکمل سطحوں تک معنی و مطالب کے پیکراور تفاہیم میں ڈھالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ لازم وملزوم ہو جاتا ہے۔

ایپک یعنی رزمیہ جسمیں مثنوی کا ذکر, زکرِاولیٰ میں آتا ہے منظوم فسوں گری ہی ہے۔

اسکا خالق منظوم افسانہ گر ہی ہوتا ہے۔

یوں تو اصناف کے طور پر رزمیہ فکشن کی فسوں گری ایک الگ صنف اور رزمیہ شاعری کی فسوں گری الگ صنف اظہار ہے مگر دونوں میں موجود مشترکہ روح اور مماثل اقدار پر آنکنے میں رزمیہ فکشن یعنی رزمیہ ناول یا افسانہ اصل میں نثری آہنگ میں بڑی شاعری کے مماثلات رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے یا مماثل بنکر ابھرتا ہے بشرطِیکہ اس میں شاعری کے سارے لوازماتِ پنہاں منظّم ہوں جو کہ عموماً اعلیٰ فسوں گری کا عنصر ہی ہوتا ہے جسے رزمیہ ناول نگار یا رزمیہ افسانہ گر ہی رچتا ہے.

رزمیہ فکشن یا رزمیہ ناولوں میں الفاظ کے الوان پرت در پرت کھلتے اور پھیلتے ہیں یہاں الفاظ رنگوں کی عمومی صفات سے آگے ہوتے ہیں۔عمومی رنگوں کی آمیزش تو صرف بصری حسّیت عطا کرتی ہے اور یہی حسّیت معنویت کو جنماتی ہے اور پھر یہی معنویت اسکے بعد تفہیمیت کے پیکر ابھارتی ہے

مگر رزمیہ ناول یا رزمیہ فکشن کے اوصاف یہ ہوتے ہیں کہ الفاظ کے الوان در الوان رنگ ابھرتے ہیں ان میں لفظوں کی برت مابعدالافاظ, مابین الالفاظ, تحت الالفاظ, بیرونِ الفاظ, ماوراء الفاظ, در الفاظ, درونِ الفاظ معنویت عطا کرتے ہیں جو مختلف حسّیت(جو حواسِ خمسہ سے ماخوزہ میں سنچی ہوئ ہوتی ہے) سےمدرّکہ نظام سے ہوکرگزرتا ہوا ادراکی تفہیمات عطا کرتا ہے۔

الفاظ کی یہ کثیر الاضلاعتی برت کی آزادی دیگر اصناف سے رزمیہ ناول یا رزمیہ فکشن میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

رزمیہ شاعری میں الفاظ کو موسیقیت کی تابعداری کے تقاضے کو پورا کرنے کے شروط, نغمگی کی حاجت, غنائت کی ضرورت کو پورا کرنے کے تقاضے پھر اس کے ساتھ الفاظ کا اور مصویریت کی الوانیاتی فرحت کی توقع اسےحذّولذّ زیادہ عطا کر نے والی خلقت و تخلیق بنانے لگتی ہے۔ یہاں لفظ ایک محدود منظر نامے کاحصہ ہو کر آفاقیت اور دیگر درجہ پر فائض ہو تو سکتے ہیں مگر رزمیاتی شعر کی رسائ کے لئے کاگنیشن لئرس یعنی پرتیں ، ادارکی طبقات یا معرفاتی پرت کی نیوران سرکٹ (عصبہ برقی دور )کا پہلے سے بنا ہوا ہونا افہام کے لئے لازماََ شرط بن جاتی ہے۔

ایک بات اور کامل مشقِ سخن کے بعد اسی تخلیق کرنے کی قوّت و قدرت کو پھر بڑی شاعری میں ڈھالنے کے لئے شاعری کے ان تمام لوازمات کے ساتھ افہامی اور ادراکی سطح پر الفاظ جب برتے جانے لگتے ہیں تب اسی معنویت کے سنسار کی رچنا لفظوں کو کردار میں ڈھال کر رزمیہ شاعری کو شعری رچناگری کے ساتھ رچا جاتا ہے۔

یہ فسوں گری ہی ہے، قصّہ پن ہی ہے جو کہ دونوں رزمیہ میں موجود ہوتی ہے وہی رزمیہ فکشن یا رزمیہ ناول اور رزمیہ شاعری میں ایک متساوی عمل سے گزارتی ہے.....

وہی ہےجو افہامی نیوران سرکٹ کی تعمیر کرتی ہے۔ یہی ماخوزہ سے ادراک تک کا سفر طے کراتی ہے فسوں گری,سے ہٹ کر اگر رزمییہ نثر کی بات ہوگی تو بات تصوف کا احاطہ کرنے والی تخلیقات کی بھی ہوگی یقیناً فوادالفوائد,مکتوباتِ صدی اور دوصدی,فتوحاتِ مکّیہ وغیرہ ذکر میں لائے جائیں گے انکا بھی احاطہ کسی مضمون میں کبھی ہم کرلینگے.......

آئیے اس زمانے کی بات کرتے ہیں, فسوں گری اس زمانے میں ناولوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔

رزمیہ فکشن اس زمانے میں ویسے بھی لکھے جاتے رہے ہیں جنہوں نے اصلاً نظمیہ رزمیہ کی جگہ لے لی ہے۔

آگ کے دریا سے لے کر پلیتہ تک اردو رزمیہ فکشن کے سفرنامے کی داستان ضرور ہے مگر کیسی اور کتنی دلچسپ

اس نہج پر بھی بات کسی مضمون میں یقیناً ہوگی-

مگر موجودہ روش کی افہام کے لئے ان ناولوں سے الگ جب رزمیہ ناولوں اور رزمیہ فکشن اور شعری اور غیر شعری رزمیہ کو سمجھنا ہو تو درجہ ذیل سوالات سے ذہن کو گزارنا ہوگا.......

(1) کیا کلاسیکی رزمیہ بذات خود افسانوی یا فکشنل ہیں؟

(١ )اگر انہیں جدید تناظر ميں دیکھا جائے تو منظر نامہ کیسا ہوگا ؟

(ب )اگر انہیں قدیم تناظر میں دیکھا جائے تو کیسی تصویریں ابھرینگیں ؟

کیا یہ ممکن ہے کہ(ا)اور (ب) کا جواب پایا جاسکے؟

اگر(ا) اور (ب) کا جواب نفی ہے تو

رزمیہ کے کتنے اور کیا کیا اشکال و اقسام ہونگے ؟

رزمیہ کے کتنے اور کیا کیا متفرقات ہونگے؟

کیا یونان و روما جیسی ایک مخصوص ثقافت پر مبنی رزمیہ دیگر رزمیہ پر کیا اور کتنے اثرات رکھتے ہیں؟

اور کیا ہم ان کو افسانوی رزمیہ قرار دینے میں حق بجانب ہیں؟

(2)کیا رزمیہ میں افسانوی عناصر حقیقتاً ہوتے ہیں؟

(ا)کیا اسے جدید افسانوی یا فکشنیاتی تناظر میں ادب کی ایک صنف کے احاطے میں لایا جاسکتا ہے؟

(ب ) قدیم ادب کے تناظر ميں کیا اسکو تشکیلی یا موجدیائ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اگر (ا) اور (ب) کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ ادب کے کس زمرہ میں آئیں گے یا لائے جائیں گے؟

اگر (ا) اور (ب) کا جواب مثبت میں ہے تو اس کے کن کن اوصاف اور خصوصیات کو افسانوی اظہاریہ مانا جائگا......

رزمیہ وہ منظوم کلام ہے جو نظم کے درون میں تواریخ کو سموئے ہوئے برتتی ہو (اذرا پؤنڈ ).....

(3)انکے اس بیان کے تناظر میں الیاد,آئونید,اور,لوکان کی خانہ جنگی جیسی قدیم رزمیہ اپنےزمانے کی حقیقی یامان لی گئ تواریخی حقائق کے تناظر میں کہاں پرٹھہرتی ہیں آنکنا چاہئے؟.....

کیسے قدیم رزمیہ شعرا کی رزمیہ شعری تخلیقات تواریخ کے ابواب پر منقّش ہوے یا ہوئیں کیسے انکے زیر اثر کیسے کیسے تواریخ کے ابواب بدلے اور تغیرات پر انکے اثرات کیاکیا پڑے اور,کیا کیا ہوے؟

یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں. .

(4)کیا قدیم رزمیہ ایک کے مقابلتاً دوسرے سے زیادہ افسانوی ہیں اگر ایسا ہے تو کون سا رزمیہ کس رزمیہ سے کتنا زیادہ افسانوی ہے؟

(5)عموماً رزمیہ اور افسانوی تخلیقات کو کیسے آنکنا چاہئے یکساں؟ یا مختلف؟

(ا) جدید تخلیقات کے تناظر میں اسے کیسے دیکھینگے؟

(ب)قدیم تخلیقات کے تناظر میں انہیں کیسے دیکھنا چاہئے؟

اسے کیسے متفرقات کے روپ میں دیکھا جانا چاہئے۔

آنکتے وقت کیا دیکھنا چاہئے انوکھا پن لئے بیاناتی ابواب کو یا تحیرکن بیاناتی ابواب کو یا رزمیہ کے عناصر کو.... ؟

کیا رزمیہ کے اساطیری بیانیہ اہم ہیں یا حقیقتاً اسکا ایجادانہ مزاج؟

کیا سبھی قدیم رزمیہ یہی صفات اور یہی مزاج رکھتے ہیں؟

کیا رزمیہ کی ان بنیادوں پر تفریق کی جائے گی کہ کیا افسانوی ہے, کیا اور کتنا انوکھا پن ہے یا کیا کیا اور کتنا تحیّر کن ہے؟

آئے چند سوالات رزمیہ اور ناول کے حوالے سے بھی بصر گزار کر لئے جائیں .....

رزمیہ اور ناول.....

ناول کو فکشن یا افسانہ سے حقیقی طور پر کیا اور کون سی صفات اسے منفرد صنف کا درجہ عطا کرتے ہیں؟

کیا قدیم رزمیہ اور ناول کے عناصر یکساں ہوتے ہیں؟

وہ کیا عنصر ہے جو انکی باہمی تفریق کراتا ہے ؟ وہ کیا ہے جو ایک دوسرے سے ایک دوسرے کو مختلف بتاتا ہے ؟

کیا قدیم رزمیہ اور ناول کے اسلوب یکساں ہوتے ہیں؟ وہ کیا شئے ہے جو انکے باہمی فرق کو اجاگر کرتی ہے؟

کیا قدیم رزمیہ میں کرداروں یا انفرادی کردار کا ارتقاء اور اسکے تفکری عوامل کو ہی اہم ادبی افہام گردانتی ہے ، اسے لازم و ملزوم جانتی ہے؟

کیا کیا کچھ رزمیہ کو دوسری رزمیہ کے مقابلے میں ناول سے زیادہ قریب دیکھا جاسکتا ہے؟

کیا ایسی رزمیہ اور ناول کی نشاندہی ممکن ہے ؟

ناول کے ارتقاء میں رزمیہ نے کیا رول ادا کیا ہے ،کیاکیا اثرات ڈالے ہیں؟

ان سوالات نے یقیناً سوچ اور فکر کے در وا کیے ہیں۔

آئیے قبل اسکے کوئ رائے قائم کی جائے انگریزی ادب کی چند کتابوں کو ناشران نے کیسے قرات کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر دکھایا ہے کتنی بار انہیں رزمیہ فکشن کے خانے میں رکھا ہے اورپڑھت کی کیا اعدادو شمار رہے ہیں ۔

دیکھتے ہیں قارئین نے کیا ریٹنگ دی ہے اسے بھی نظر گزار کرتے چلیں...

یہ اسلئے بھی جان لینا اور سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں رزمیہ فکشن کے پائدان تک رسائی قاری کی قوت خرید کی اور اس کے ادراکی سفر کو جانے بغیر کیا ناشرین انکے درجات طے نہیں کرسکتے؟

یعنی قرأت کے بازار کا علم بھی ضروری ہے کیا ؟

کیا اسی سبب ناول کے آنے سے قبل ہی ان دنوں ڈھونڈورا پیٹا جاتا رہا ہے؟

کیا رزمیہ فکشن کی پرکھ اور نقد کے معیار کو متعین کیا جانا ہنوز باقی ہے؟

چونکہ افہام کا مدرّکہ نظام ہی ناول یا رزمیہ کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے سو قرات کی رغبت تحریروں کی تکرار کے ساتھ پڑھت کچھ تو ایسے اشارے دیتی ہی ہے کہ اس اعدادو شمار کو نظر گزار کرنا تفہیم کے لئے عین ضروری ہو جاتا ہے۔

اادب کے طالب علم ہونے کے سبب ادیب کو موجودہ صورت حال میں نظمیہ رزمیہ اور نثری رزمیہ کا تقابلی مطالعہ کرنا عین ضروری اور ناگزیر ہوجاتا ہے کیونکہ معاشرتی نظام کے اجتماعی شعور کے لئے مفاہیم و مطالب کے نیوران سرکٹ عصبہ کی برقی رو کا تعمیر ہونا تو اسی سفر سے ممکن ہے۔

بالا درجہ سوالات کی حدود میں تقابلی مطالعہ کے سبب ہی نظمیہ رزمیہ اور نثری رزمیہ کے مابین فرق کرانے والی لکیریں واضح طور پر ابھرتی ہیں

وہ خطوط بھی واضح طور پر دکھائی دینے لگتے ہیں جن میں دو اصناف کی مشترکہ روح نظر آنے لگتی ہے,وہ خطوط جو فکشن اور شاعری کےاجسام کی روحِ مشترک ہے وہ بھی اور وہ مشترکہ روح بھی جو اظہاریہ کی جان ہے جو انسان کا بشری مراسماتی مہندسہ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے یا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

وہی کامیاب بشری مراسماتی مہندسہ کے اوصاف جو دونوں اصناف میں یکساں موجود ہوتے ہیں کھل کر سامنے آ نے لگتے ہیں

اس زمانے کی انگریزی رزمیہ فکشن کے اثرات دیگر زبانوں کے ادب پر بھی پڑنے لگے ہیں......

چونکہ اب اظہاریہ اور لسان و بیان میں اشرفیہ سے زیادہ عوامیاتی در آئے ہیں اور عوامی روش کا دخول ظاہر ہونے لگا ہے تو اب ادب رزمیہ فکشن کے زریعہ عوام الناس اور عموم الناس تک رساں ہوتا ہے اور عوام الناس کی طلب بنتا جارہا ہے۔

اسی نثری رزمیہ یا رزمیہ فکشن میں جب شاعری کی وہ روح جو دونوں میں مشترکہ روپ لئے ہوتی اور شاعری کے ویسے ہی محرکات وعناصرِ روحانی اس میں بدرجہ اتّم موجود ہونے لگتے ہیں تو یہی رزمیہ فکشن شاعری سے بڑی شاعری بنکر ابھرنے لگتی ہے۔

میں جب یہ کہتا ہوں کہ افسانہ گر فسوں گری کے عمل کو معراج عطاکرتاہے اور اسکے زریعہ عمومی شاعری سے بڑی شاعری کی تخلیق شعریت کے تمام لوازمات کے حسّی عناصر کو برت کر فسوں گری کے معجزات وکرامات دکھاتا ہے

تو یہ بات انہیں مشترکہ ارواح کی تابع تخلیقات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کرتا ہوں

شاعری میں بھی ممکنات ِفسوں گری بدرجہ اتّم موجود ہوتے ہیں ہوسکتے ہیں ہوتے رہینگے۔ ایسا ابتدائ رزمیہ کاخاصّہ بھی رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ادب پاروں میں یہ زخیرہ یہ خزانہ ماضی میں بھی موجود تھا اور حال ميں بھی اسکے موجود ہونے کے امکانات ہیں۔

شاعر بھی بڑاافسانہ گر اپنی شعری رزمیہ کے زریعہ ابھر تا دیکھائی دے سکتا یے بشرطِ یہ کہ وہ نثری رزمیہ یا رزمیہ فکشن کے انہی مشترکہ ارواح کو اپنی شعری تخلیقات میں پروسکے جو اس کا خاصّہ ہیں اور رزمیہ فکشن کی وہی صفات و وصف والی روح کو پیوستہ محسوس کرائے

ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ فسوں گری اگر نثر میں بھی خارج از مذکورہ روح ہوگی تو یہی بات اس افسانہ گر پر بھی صادق نہیں آئے گی کہ وہ شاعری سے بڑی شاعری کر رہا ہے....

عین ممکن ہے اس زمانے یا آئندہ زمانے میں ایسی بھی شاعری ہو جو فکشن سے بڑا فکشن بن کر نثری شاعری میں ابھرے مگر موجودہ صورتِ حال میں تو فکشن ہی وہ اظہاریہ ہے جو یہ کام انجام دے رہا ہے

اور ایسی فکشن کی تخلیقات ہی شاعری سے بڑی شاعری کہی جاسکتی ہیں....

فسوں گری اور اسکی رسائی

سید عمران بلخی

اپنی غیر مطبوعہ کتاب پیراڈائم شفٹ سے کشید.کردہ

کیا اردو میں واقعی رزمیہ فکشن نہیں ہے ؟

ایپک فکشن جسے اردو میں رزمیہ افسانہ بھی لکھتے ہیں جن باتوں کا احاطہ کرتا ہے رزمیہ شاعری بھی کم وبیش انہیں باتوں کا احاطہ کرتی ہے۔

وہی جمالیات

وہی بیانیات

وہی احساسات

ویسی ہی کردار طرازی

وہی ترجمانیت

اس میں بھی تو ویسی ہی ہوتی ہے.....

ہاں پیرایا یا پیراہن الگ الگ ضرور ہوتا ہے.

ہاں ضوابط و اصول اور شروط الگ الگ ضرور ہوتے ہیں مگر دونوں کا محور اور مرکز ایک ہی ہوتا ہے اور دونوں ہی بشری مراسماتی مہندسہ کامیابی سے کرتے ہیں۔ دونوں میں ایک روحِ مشترک ہے۔

یہ یوں ہوتا ہے کہ الفاظ نثری برت کے ساتھ ہوں یا شعری برت کے ساتھ ہوں اذہان تک یکساں طور پر رساں ہوتے ہیں۔ چونکہ اذہان سے منسلک انسان ہیں اور انسانوں کے کاگنیشن سے وابستہ انکے ادراک ہیں اور انہی سے جڑے ہیں انکے اپنے اپنے مدرّکہ نظام

یہ بشری مدرڑکہ نظام ہی ہے جو افہامیاتیاتی منظّم کرتا ہے جس سے بات کی رسائی اور تفہيم ہوتی ہے..

دراصل کاگنیٹو ادراکی سسٹم نظام یا مدرّکہ نظام کو جو رچنا کے روپ سے نکل کر رچنے لگتی ہے وہی اظہار یہ اسے راغب کرتا ہے اور پھر قرات سے ذہن تعمیر ہونے لگتاہے اور انہیں تعمیرات پر بشرذاد کا بشری مراسماتی مہندسہ عمل پزیر ہوتا ہے۔

رزمیہ شاعری وہی بڑی شاعری ہے جو آفاقی ہو اور سہل ہو جسکا اظہاریہ ابہام تو رکھتا ہو مگر مبہم نہ ہو اور جسمیں پیوستہ بیان و متن کو کسی نہ کسی کاگنیشن, ادراکی یا سب کاگنیشن لئر یا ادراکی اطباق.کے کچھ یا مکمل سطحوں تک معنی و مطالب کے پیکراور تفاہیم میں ڈھالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ لازم وملزوم ہو جاتا ہے۔

ایپک یعنی رزمیہ جسمیں مثنوی کا ذکر, زکرِاولیٰ میں آتا ہے منظوم فسوں گری ہی ہے۔

اسکا خالق منظوم افسانہ گر ہی ہوتا ہے۔

یوں تو اصناف کے طور پر رزمیہ فکشن کی فسوں گری ایک الگ صنف اور رزمیہ شاعری کی فسوں گری الگ صنف اظہار ہے مگر دونوں میں موجود مشترکہ روح اور مماثل اقدار پر آنکنے میں رزمیہ فکشن یعنی رزمیہ ناول یا افسانہ اصل میں نثری آہنگ میں بڑی شاعری کے مماثلات رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے یا مماثل بنکر ابھرتا ہے بشرطِیکہ اس میں شاعری کے سارے لوازماتِ پنہاں منظّم ہوں جو کہ عموماً اعلیٰ فسوں گری کا عنصر ہی ہوتا ہے جسے رزمیہ ناول نگار یا رزمیہ افسانہ گر ہی رچتا ہے.

رزمیہ فکشن یا رزمیہ ناولوں میں الفاظ کے الوان پرت در پرت کھلتے اور پھیلتے ہیں یہاں الفاظ رنگوں کی عمومی صفات سے آگے ہوتے ہیں۔عمومی رنگوں کی آمیزش تو صرف بصری حسّیت عطا کرتی ہے اور یہی حسّیت معنویت کو جنماتی ہے اور پھر یہی معنویت اسکے بعد تفہیمیت کے پیکر ابھارتی ہے

مگر رزمیہ ناول یا رزمیہ فکشن کے اوصاف یہ ہوتے ہیں کہ الفاظ کے الوان در الوان رنگ ابھرتے ہیں ان میں لفظوں کی برت مابعدالافاظ, مابین الالفاظ, تحت الالفاظ, بیرونِ الفاظ, ماوراء الفاظ, در الفاظ, درونِ الفاظ معنویت عطا کرتے ہیں جو مختلف حسّیت(جو حواسِ خمسہ سے ماخوزہ میں سنچی ہوئ ہوتی ہے) سےمدرّکہ نظام سے ہوکرگزرتا ہوا ادراکی تفہیمات عطا کرتا ہے۔

الفاظ کی یہ کثیر الاضلاعتی برت کی آزادی دیگر اصناف سے رزمیہ ناول یا رزمیہ فکشن میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

رزمیہ شاعری میں الفاظ کو موسیقیت کی تابعداری کے تقاضے کو پورا کرنے کے شروط, نغمگی کی حاجت, غنائت کی ضرورت کو پورا کرنے کے تقاضے پھر اس کے ساتھ الفاظ کا اور مصویریت کی الوانیاتی فرحت کی توقع اسےحذّولذّ زیادہ عطا کر نے والی خلقت و تخلیق بنانے لگتی ہے۔ یہاں لفظ ایک محدود منظر نامے کاحصہ ہو کر آفاقیت اور دیگر درجہ پر فائض ہو تو سکتے ہیں مگر رزمیاتی شعر کی رسائ کے لئے کاگنیشن لئرس یعنی پرتیں ، ادارکی طبقات یا معرفاتی پرت کی نیوران سرکٹ (عصبہ برقی دور )کا پہلے سے بنا ہوا ہونا افہام کے لئے لازماََ شرط بن جاتی ہے۔

ایک بات اور کامل مشقِ سخن کے بعد اسی تخلیق کرنے کی قوّت و قدرت کو پھر بڑی شاعری میں ڈھالنے کے لئے شاعری کے ان تمام لوازمات کے ساتھ افہامی اور ادراکی سطح پر الفاظ جب برتے جانے لگتے ہیں تب اسی معنویت کے سنسار کی رچنا لفظوں کو کردار میں ڈھال کر رزمیہ شاعری کو شعری رچناگری کے ساتھ رچا جاتا ہے۔

یہ فسوں گری ہی ہے، قصّہ پن ہی ہے جو کہ دونوں رزمیہ میں موجود ہوتی ہے وہی رزمیہ فکشن یا رزمیہ ناول اور رزمیہ شاعری میں ایک متساوی عمل سے گزارتی ہے.....

وہی ہےجو افہامی نیوران سرکٹ کی تعمیر کرتی ہے۔ یہی ماخوزہ سے ادراک تک کا سفر طے کراتی ہے فسوں گری,سے ہٹ کر اگر رزمییہ نثر کی بات ہوگی تو بات تصوف کا احاطہ کرنے والی تخلیقات کی بھی ہوگی یقیناً فوادالفوائد,مکتوباتِ صدی اور دوصدی,فتوحاتِ مکّیہ وغیرہ ذکر میں لائے جائیں گے انکا بھی احاطہ کسی مضمون میں کبھی ہم کرلینگے.......

آئیے اس زمانے کی بات کرتے ہیں, فسوں گری اس زمانے میں ناولوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔

رزمیہ فکشن اس زمانے میں ویسے بھی لکھے جاتے رہے ہیں جنہوں نے اصلاً نظمیہ رزمیہ کی جگہ لے لی ہے۔

آگ کے دریا سے لے کر پلیتہ تک اردو رزمیہ فکشن کے سفرنامے کی داستان ضرور ہے مگر کیسی اور کتنی دلچسپ

اس نہج پر بھی بات کسی مضمون میں یقیناً ہوگی-

مگر موجودہ روش کی افہام کے لئے ان ناولوں سے الگ جب رزمیہ ناولوں اور رزمیہ فکشن اور شعری اور غیر شعری رزمیہ کو سمجھنا ہو تو درجہ ذیل سوالات سے ذہن کو گزارنا ہوگا.......

(1) کیا کلاسیکی رزمیہ بذات خود افسانوی یا فکشنل ہیں؟

(١ )اگر انہیں جدید تناظر ميں دیکھا جائے تو منظر نامہ کیسا ہوگا ؟

(ب )اگر انہیں قدیم تناظر میں دیکھا جائے تو کیسی تصویریں ابھرینگیں ؟

کیا یہ ممکن ہے کہ(ا)اور (ب) کا جواب پایا جاسکے؟

اگر(ا) اور (ب) کا جواب نفی ہے تو

رزمیہ کے کتنے اور کیا کیا اشکال و اقسام ہونگے ؟

رزمیہ کے کتنے اور کیا کیا متفرقات ہونگے؟

کیا یونان و روما جیسی ایک مخصوص ثقافت پر مبنی رزمیہ دیگر رزمیہ پر کیا اور کتنے اثرات رکھتے ہیں؟

اور کیا ہم ان کو افسانوی رزمیہ قرار دینے میں حق بجانب ہیں؟

(2)کیا رزمیہ میں افسانوی عناصر حقیقتاً ہوتے ہیں؟

(ا)کیا اسے جدید افسانوی یا فکشنیاتی تناظر میں ادب کی ایک صنف کے احاطے میں لایا جاسکتا ہے؟

(ب ) قدیم ادب کے تناظر ميں کیا اسکو تشکیلی یا موجدیائ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اگر (ا) اور (ب) کا جواب نفی میں ہے تو پھر یہ ادب کے کس زمرہ میں آئیں گے یا لائے جائیں گے؟

اگر (ا) اور (ب) کا جواب مثبت میں ہے تو اس کے کن کن اوصاف اور خصوصیات کو افسانوی اظہاریہ مانا جائگا......

رزمیہ وہ منظوم کلام ہے جو نظم کے درون میں تواریخ کو سموئے ہوئے برتتی ہو (اذرا پؤنڈ ).....

(3)انکے اس بیان کے تناظر میں الیاد,آئونید,اور,لوکان کی خانہ جنگی جیسی قدیم رزمیہ اپنےزمانے کی حقیقی یامان لی گئ تواریخی حقائق کے تناظر میں کہاں پرٹھہرتی ہیں آنکنا چاہئے؟.....

کیسے قدیم رزمیہ شعرا کی رزمیہ شعری تخلیقات تواریخ کے ابواب پر منقّش ہوے یا ہوئیں کیسے انکے زیر اثر کیسے کیسے تواریخ کے ابواب بدلے اور تغیرات پر انکے اثرات کیاکیا پڑے اور,کیا کیا ہوے؟

یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں. .

(4)کیا قدیم رزمیہ ایک کے مقابلتاً دوسرے سے زیادہ افسانوی ہیں اگر ایسا ہے تو کون سا رزمیہ کس رزمیہ سے کتنا زیادہ افسانوی ہے؟

(5)عموماً رزمیہ اور افسانوی تخلیقات کو کیسے آنکنا چاہئے یکساں؟ یا مختلف؟

(ا) جدید تخلیقات کے تناظر میں اسے کیسے دیکھینگے؟

(ب)قدیم تخلیقات کے تناظر میں انہیں کیسے دیکھنا چاہئے؟

اسے کیسے متفرقات کے روپ میں دیکھا جانا چاہئے۔

آنکتے وقت کیا دیکھنا چاہئے انوکھا پن لئے بیاناتی ابواب کو یا تحیرکن بیاناتی ابواب کو یا رزمیہ کے عناصر کو.... ؟

کیا رزمیہ کے اساطیری بیانیہ اہم ہیں یا حقیقتاً اسکا ایجادانہ مزاج؟

کیا سبھی قدیم رزمیہ یہی صفات اور یہی مزاج رکھتے ہیں؟

کیا رزمیہ کی ان بنیادوں پر تفریق کی جائے گی کہ کیا افسانوی ہے, کیا اور کتنا انوکھا پن ہے یا کیا کیا اور کتنا تحیّر کن ہے؟

آئے چند سوالات رزمیہ اور ناول کے حوالے سے بھی بصر گزار کر لئے جائیں .....

رزمیہ اور ناول.....

ناول کو فکشن یا افسانہ سے حقیقی طور پر کیا اور کون سی صفات اسے منفرد صنف کا درجہ عطا کرتے ہیں؟

کیا قدیم رزمیہ اور ناول کے عناصر یکساں ہوتے ہیں؟

وہ کیا عنصر ہے جو انکی باہمی تفریق کراتا ہے ؟ وہ کیا ہے جو ایک دوسرے سے ایک دوسرے کو مختلف بتاتا ہے ؟

کیا قدیم رزمیہ اور ناول کے اسلوب یکساں ہوتے ہیں؟ وہ کیا شئے ہے جو انکے باہمی فرق کو اجاگر کرتی ہے؟

کیا قدیم رزمیہ میں کرداروں یا انفرادی کردار کا ارتقاء اور اسکے تفکری عوامل کو ہی اہم ادبی افہام گردانتی ہے ، اسے لازم و ملزوم جانتی ہے؟

کیا کیا کچھ رزمیہ کو دوسری رزمیہ کے مقابلے میں ناول سے زیادہ قریب دیکھا جاسکتا ہے؟

کیا ایسی رزمیہ اور ناول کی نشاندہی ممکن ہے ؟

ناول کے ارتقاء میں رزمیہ نے کیا رول ادا کیا ہے ،کیاکیا اثرات ڈالے ہیں؟

ان سوالات نے یقیناً سوچ اور فکر کے در وا کیے ہیں۔

آئیے قبل اسکے کوئ رائے قائم کی جائے انگریزی ادب کی چند کتابوں کو ناشران نے کیسے قرات کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر دکھایا ہے کتنی بار انہیں رزمیہ فکشن کے خانے میں رکھا ہے اورپڑھت کی کیا اعدادو شمار رہے ہیں ۔

دیکھتے ہیں قارئین نے کیا ریٹنگ دی ہے اسے بھی نظر گزار کرتے چلیں...

یہ اسلئے بھی جان لینا اور سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں رزمیہ فکشن کے پائدان تک رسائی قاری کی قوت خرید کی اور اس کے ادراکی سفر کو جانے بغیر کیا ناشرین انکے درجات طے نہیں کرسکتے؟

یعنی قرأت کے بازار کا علم بھی ضروری ہے کیا ؟

کیا اسی سبب ناول کے آنے سے قبل ہی ان دنوں ڈھونڈورا پیٹا جاتا رہا ہے؟

کیا رزمیہ فکشن کی پرکھ اور نقد کے معیار کو متعین کیا جانا ہنوز باقی ہے؟

چونکہ افہام کا مدرّکہ نظام ہی ناول یا رزمیہ کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے سو قرات کی رغبت تحریروں کی تکرار کے ساتھ پڑھت کچھ تو ایسے اشارے دیتی ہی ہے کہ اس اعدادو شمار کو نظر گزار کرنا تفہیم کے لئے عین ضروری ہو جاتا ہے۔

اادب کے طالب علم ہونے کے سبب ادیب کو موجودہ صورت حال میں نظمیہ رزمیہ اور نثری رزمیہ کا تقابلی مطالعہ کرنا عین ضروری اور ناگزیر ہوجاتا ہے کیونکہ معاشرتی نظام کے اجتماعی شعور کے لئے مفاہیم و مطالب کے نیوران سرکٹ عصبہ کی برقی رو کا تعمیر ہونا تو اسی سفر سے ممکن ہے۔

بالا درجہ سوالات کی حدود میں تقابلی مطالعہ کے سبب ہی نظمیہ رزمیہ اور نثری رزمیہ کے مابین فرق کرانے والی لکیریں واضح طور پر ابھرتی ہیں

وہ خطوط بھی واضح طور پر دکھائی دینے لگتے ہیں جن میں دو اصناف کی مشترکہ روح نظر آنے لگتی ہے,وہ خطوط جو فکشن اور شاعری کےاجسام کی روحِ مشترک ہے وہ بھی اور وہ مشترکہ روح بھی جو اظہاریہ کی جان ہے جو انسان کا بشری مراسماتی مہندسہ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے یا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

وہی کامیاب بشری مراسماتی مہندسہ کے اوصاف جو دونوں اصناف میں یکساں موجود ہوتے ہیں کھل کر سامنے آ نے لگتے ہیں

اس زمانے کی انگریزی رزمیہ فکشن کے اثرات دیگر زبانوں کے ادب پر بھی پڑنے لگے ہیں......

چونکہ اب اظہاریہ اور لسان و بیان میں اشرفیہ سے زیادہ عوامیاتی در آئے ہیں اور عوامی روش کا دخول ظاہر ہونے لگا ہے تو اب ادب رزمیہ فکشن کے زریعہ عوام الناس اور عموم الناس تک رساں ہوتا ہے اور عوام الناس کی طلب بنتا جارہا ہے۔

اسی نثری رزمیہ یا رزمیہ فکشن میں جب شاعری کی وہ روح جو دونوں میں مشترکہ روپ لئے ہوتی اور شاعری کے ویسے ہی محرکات وعناصرِ روحانی اس میں بدرجہ اتّم موجود ہونے لگتے ہیں تو یہی رزمیہ فکشن شاعری سے بڑی شاعری بنکر ابھرنے لگتی ہے۔

میں جب یہ کہتا ہوں کہ افسانہ گر فسوں گری کے عمل کو معراج عطاکرتاہے اور اسکے زریعہ عمومی شاعری سے بڑی شاعری کی تخلیق شعریت کے تمام لوازمات کے حسّی عناصر کو برت کر فسوں گری کے معجزات وکرامات دکھاتا ہے

تو یہ بات انہیں مشترکہ ارواح کی تابع تخلیقات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کرتا ہوں

شاعری میں بھی ممکنات ِفسوں گری بدرجہ اتّم موجود ہوتے ہیں ہوسکتے ہیں ہوتے رہینگے۔ ایسا ابتدائ رزمیہ کاخاصّہ بھی رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ادب پاروں میں یہ زخیرہ یہ خزانہ ماضی میں بھی موجود تھا اور حال ميں بھی اسکے موجود ہونے کے امکانات ہیں۔

شاعر بھی بڑاافسانہ گر اپنی شعری رزمیہ کے زریعہ ابھر تا دیکھائی دے سکتا یے بشرطِ یہ کہ وہ نثری رزمیہ یا رزمیہ فکشن کے انہی مشترکہ ارواح کو اپنی شعری تخلیقات میں پروسکے جو اس کا خاصّہ ہیں اور رزمیہ فکشن کی وہی صفات و وصف والی روح کو پیوستہ محسوس کرائے

ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ فسوں گری اگر نثر میں بھی خارج از مذکورہ روح ہوگی تو یہی بات اس افسانہ گر پر بھی صادق نہیں آئے گی کہ وہ شاعری سے بڑی شاعری کر رہا ہے....

عین ممکن ہے اس زمانے یا آئندہ زمانے میں ایسی بھی شاعری ہو جو فکشن سے بڑا فکشن بن کر نثری شاعری میں ابھرے مگر موجودہ صورتِ حال میں تو فکشن ہی وہ اظہاریہ ہے جو یہ کام انجام دے رہا ہے

اور ایسی فکشن کی تخلیقات ہی شاعری سے بڑی شاعری کہی جاسکتی ہیں....

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024