کرونا اب چلے جاؤ

کرونا اب چلے جاؤ

Mar 23, 2021

نظم

مصنف

فرحین  چودھری

شمارہ

شمارہ - ١٣

نظم : کرونا  اب چلے جاؤ              


کرو نا اب چلے جائو

اجاڑ ی بستیاں تم نے

ہوا وٗں کو رلایا ہے

کیا ہے زیر انساں کو خدائی کا گماں

دل میں لئے ۔۔۔

خدا کو بھول بیٹھا تھا

قام اپنا گنوا بیٹھا

دلایا یاد اب تم نے کہ

فانی ہے جہاں سارا

ہے سارا کھیل سانسوں کا ۔ ۔

مداری کا تماشا ہے یہی دو چار پل اپنے

ہوا ئوں میں اڑے جتنا مگر

[ ] خاکی تو خاکی ہے

کرو نا تم بھی آئے ہو

اسی یزداں کے کہنے پر جسے ہم سب بھلا بیٹھے ہمیں بھیجا گیا تھا کیوں ۔

ہمیں کس سمت جانا تھا

!کوئی وعدہ نبھانا تھا

ذرا ناراض ہے ہم سے جھنجھوڑا ہے ہمیں اس نے ۔دلائے یاد ہیں وعدے

کرو نا شکریہ تیرا

بہت کچھ یاد آیا ہے

کوئی مبحوس ہوتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے

جو پھیلیں موت کے سائے

یا جیون لاک ٹائون ہو

ہر اک رستے پہ جب خوف کا آسیب پھرتا ہو

جسے ناموں اور نسلوں کی کوئی پہچان ہی نہ ہو

تو دل پر کیا گزرتی ہے ؟

بہت نادم ہے شائید اب یہ نائب

گڑگڑاتا ہے

ہے سجدہ ریز اےخالق ۔ !!

تیری مخلوق ہے ساری

یہ ناداں بے وقوف انساں ۔

تیری شفقت تیری طاقت کے آگے پیچ ہیں سارے

مگر اس موت کئ چادر تلے ۔۔۔

ہر روز کتنے پھول کھلتے ہیں

نئی قلقاریاں آواز دیتی ہیں ۔

فضائوں میں رچی خوشبو یہ نیلا آسماں پیغام دیتے ہیں

وہ جلدی مان جائے گا

ذرا سا امتحاں لے کر

وہ جلدی مان جائے گا

--------------------------

فرحین  چودھری‍

نظم : کرونا  اب چلے جاؤ              


کرو نا اب چلے جائو

اجاڑ ی بستیاں تم نے

ہوا وٗں کو رلایا ہے

کیا ہے زیر انساں کو خدائی کا گماں

دل میں لئے ۔۔۔

خدا کو بھول بیٹھا تھا

قام اپنا گنوا بیٹھا

دلایا یاد اب تم نے کہ

فانی ہے جہاں سارا

ہے سارا کھیل سانسوں کا ۔ ۔

مداری کا تماشا ہے یہی دو چار پل اپنے

ہوا ئوں میں اڑے جتنا مگر

[ ] خاکی تو خاکی ہے

کرو نا تم بھی آئے ہو

اسی یزداں کے کہنے پر جسے ہم سب بھلا بیٹھے ہمیں بھیجا گیا تھا کیوں ۔

ہمیں کس سمت جانا تھا

!کوئی وعدہ نبھانا تھا

ذرا ناراض ہے ہم سے جھنجھوڑا ہے ہمیں اس نے ۔دلائے یاد ہیں وعدے

کرو نا شکریہ تیرا

بہت کچھ یاد آیا ہے

کوئی مبحوس ہوتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے

جو پھیلیں موت کے سائے

یا جیون لاک ٹائون ہو

ہر اک رستے پہ جب خوف کا آسیب پھرتا ہو

جسے ناموں اور نسلوں کی کوئی پہچان ہی نہ ہو

تو دل پر کیا گزرتی ہے ؟

بہت نادم ہے شائید اب یہ نائب

گڑگڑاتا ہے

ہے سجدہ ریز اےخالق ۔ !!

تیری مخلوق ہے ساری

یہ ناداں بے وقوف انساں ۔

تیری شفقت تیری طاقت کے آگے پیچ ہیں سارے

مگر اس موت کئ چادر تلے ۔۔۔

ہر روز کتنے پھول کھلتے ہیں

نئی قلقاریاں آواز دیتی ہیں ۔

فضائوں میں رچی خوشبو یہ نیلا آسماں پیغام دیتے ہیں

وہ جلدی مان جائے گا

ذرا سا امتحاں لے کر

وہ جلدی مان جائے گا

--------------------------

فرحین  چودھری‍

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024