فہیم شناس کاظمی کی مزاحمتی نظمیں
فہیم شناس کاظمی کی مزاحمتی نظمیں
Feb 10, 2019
آگ معبد سے نکل آئی ہے
فہیم شناس کاظمی
آگ
معبد سے
خداوند کے زنداں سے سر شام نکل آئی ہے
اب صنم ہو کہ علم اور حرم
کوئی نہیں بچ سکتا
شاخ در شاخ چلے
شہر در شہربڑھے
سبز پیڑوں کو
کھلونوں کو
پرندوں کو جلاتی ہوئی آگ
لہر در لہر بڑھے
ہو وہ بغداد کہ تہران کہ روم
بچ نہیں سکتا مرے کوزہ گر!
یہ ترا عجزِہنر
اور دامن بھی سلامت نہ رہے
کوئی افسانہ بھی باقی نہ رہے
آگ شوریدہ و سفاک....
بہت ہی سرکش
دیوتا وں سے چُرائی ہوئی آگ
اپنے معبد سے نکل آئی ہے
رقص کرتی ہوئی
اور سانپ سی لہراتی ہوئی
شمس تبریز و قلندر بھی نہیں
آگ سے کون لڑے
کون کہے
راکھ ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں
..........................
صبر کی چادر تہہ کر دی
فہیم شناس کاظمی
کوئی آگ پیئے کہ زہر پیئے
یا سانپ ڈسے کی موت مرے
اب دھوپ کے جل تھل دریا سے
کوئی اپنے مُنہ میں ریت بھرے
ہم نے توپیالہ اُلٹ دیا
اور اُلٹ دیا
ہر اِک منظر
جب شام کی آنکھیں خون ہوئیں
اور بودلہ بوٹی بوٹی تھا
یہ بستی ظلم کی ظلمت میں
تب کچی دھوپ چباتی تھی
اور دریا پیتی جاتی تھی
مسواک زمین میں گاڑ دی ہے
اب رات سے رات نکالی ہے
اور آگ میں ڈالی مست دھمال
اور راکھ میں راکھ ملا دی ہے
اب خیر کی ختم ہوئی اُمید
اب پھانکو ریت
اور دھوپ پیو
یا سانپ ڈسے کی موت مرو
ہم نے تو پیالہ اُلٹ دیا
اور صبر کی چادر تہہ کر دی
........................
ہر عہد کے عمرو عیار کے نام
فہیم شناس کاظمی
اس کی زنبیل
قلندر کا پیالہ ہے نہ دل
اس کی زنبیل میں، پوشیدہ ہوس کے صد جال
اس آنکھوں سے تو بے شرمی بھی شرماتی ہے
گر سنہ لہجے میں
وہ بھیک کی فریاد کہ مچلی جائے
اس کی آواز سے زخمی ہو سماعت سب کی
اس کی ترتیب میں تہذیب کا اک لمحہ نہیں
اس کی شائستگی سے ایک زمانہ لرزے
اس کے کردار سے ہر شخص بخوبی واقف
اور سب کہتے ہیں
سب اچھا ہے
عمرو عیّا ر ہے اور لوگ بہت سادہ ہیں
سارے مکّار ہیں ہمراز اس کے
افراسیّاب،
سارے لشکر کو کہیں بیچ نہ دے
اس کا دل جذبہ و احساس سے خالی یکسر
جس میں الفاظ نہیں
صرف اعداد سنپولوں کی طرح پلتے ہیں
اس کا کچھ ٹھیک نہیں ،
اس کی حرکت پہ ذرا آنکھ رکھو
وائے ہو وائے نحوست اس کی
اس پہ سر کھول کے روئیں اس کے
اس کی زنبیل کی ہر چیز لہو رنگ ہوئی
اس نے جس جا بھی قدم رکھّا ، نئی جنگ ہوئی
اس کا دیںایک ہے بس صرف ہوس
اس کی زنبیل نہیں بھر سکتی
چاہے قاروں کا خزانہ ہو کوئی
چاہے فرعون کا ہو جاہ و جلال
چاہے شدّاد کے زرّیں باغات
اس کی زنبیل نہیں بھر نے کی
اس کی زنبیل میں دوزخ بھر دو
.......................
خواب جو نسلیں نگل گیا
فہیم شناس کاظمی
اور پھر خواب کی تجسیم ہوئی
خواب وہ خواب کہ آنکھوں میں لہو بھر آیا
ایسی تجسیم کہ ہر رنگ بکھرتا جائے
جو بھی منظر ہے وہ دھندلا ٹھہرا
سرکٹے
جسم کٹے
عزتِ سادات گئی
اس پہ بھی شکر کیا
خاک پر سجدہ کیا
پہلے اک خواب کو ہم روتے تھے
اور پھر روئے ہم آنکھوں کے لیے
اس پہ بھی شکر کیا
زرد آنکھوں سے لہو بہتا رہا
شام جنگل میں کہےں بین کرے
روشنی ڈوب گئی دریا میں
خواہشیں برف ہوئیں
چار اطراف سے یلغار ہوئی
اور پھر رات ہوئی
خواب کی تجسیم ہوئی
میں نے جھیلے ہیں یہاں کتنے عذاب
جن کا ممکن ہی نہیں کوئی حساب
بجھ گئیں آنکھیں لیے سارے خواب
.......................
یہ لوگ کیا ہیں
فہیم شناس کاظمی
یہ شہر خواب کی مردم شماری کرنے والے
سب پریشاں ہیں
یہ کیسی زخم آنکھیں ہیں
جوسپنوں کو جنم دیتی ہیں
کیسے لوگ ہیں
جو رات بھر چکرائے پھرتے ہیں
خیال و خواب کی گلیوں میں
گھر کو یاد کرتے ہیں
نہ روتے ہیں نہ ہنستے ہیں
یہ کیسے پھول ہیں جو مسکراتے ہیں
دلوں کے جلتے صحرا میں
یہ کیسی آتشِ نادیدہ ہے، کہ جو
جلاتی جارہی ہے گھر
مچلتی رقص کرتی جارہی ہے اپنی مستی میں
ہمارے خواب کی مردم شماری کرنے والے
سخت حیراں اور پریشاں ہیں
یہ کیسا شہر ہے
یہ لوگ کیا ہیں
اپنی محرومی پہ کیسے مسکراتے ہیں
........................
اور خدا خاموش تھا
فہیم شناس کاظمی
ایک بوسے کی طلب میں
جسم کبڑے ہوگئے
زندگی پانی ہوئی
آسماں سے کہکشاﺅں کی بہار
آگ برساتی رہی
زندگی فٹ پاتھ پر
ایک روٹی کی طلب میں
ہاتھ پھیلاتی رہی
قطرہ قطرہ بے بسی تیزاب سی
جسم پگھلاتی رہی
ردّی چنواتی رہی
نیٹی جیٹی پر کھڑی خلقِ خدا
ہنستی رہی
اور خدا خاموش تھا
............................
حادثہ
فہیم شناس کاظمی
رات ہی رات میں
راستے شہر سے جنگلوں کو مڑے
نیند گم ہوگئی
خوب صورت، حسیں، خوب رُو لڑکیاں
عورتیں بن گئیں
بہتے پانی میں ان کو بہایا گیا
خواب زادے ہوئے داستانوں میں گم
رات ہی رات میں
اژدھے نوجوانوں کا دل کھا گئے
نیٹی جیٹی پہ سب لا پتہ ہوگئے
آن کی آن میں
شہر کیسے مٹا
خوا ب کیسے جلا
..........................
آگ معبد سے نکل آئی ہے
فہیم شناس کاظمی
آگ
معبد سے
خداوند کے زنداں سے سر شام نکل آئی ہے
اب صنم ہو کہ علم اور حرم
کوئی نہیں بچ سکتا
شاخ در شاخ چلے
شہر در شہربڑھے
سبز پیڑوں کو
کھلونوں کو
پرندوں کو جلاتی ہوئی آگ
لہر در لہر بڑھے
ہو وہ بغداد کہ تہران کہ روم
بچ نہیں سکتا مرے کوزہ گر!
یہ ترا عجزِہنر
اور دامن بھی سلامت نہ رہے
کوئی افسانہ بھی باقی نہ رہے
آگ شوریدہ و سفاک....
بہت ہی سرکش
دیوتا وں سے چُرائی ہوئی آگ
اپنے معبد سے نکل آئی ہے
رقص کرتی ہوئی
اور سانپ سی لہراتی ہوئی
شمس تبریز و قلندر بھی نہیں
آگ سے کون لڑے
کون کہے
راکھ ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں
..........................
صبر کی چادر تہہ کر دی
فہیم شناس کاظمی
کوئی آگ پیئے کہ زہر پیئے
یا سانپ ڈسے کی موت مرے
اب دھوپ کے جل تھل دریا سے
کوئی اپنے مُنہ میں ریت بھرے
ہم نے توپیالہ اُلٹ دیا
اور اُلٹ دیا
ہر اِک منظر
جب شام کی آنکھیں خون ہوئیں
اور بودلہ بوٹی بوٹی تھا
یہ بستی ظلم کی ظلمت میں
تب کچی دھوپ چباتی تھی
اور دریا پیتی جاتی تھی
مسواک زمین میں گاڑ دی ہے
اب رات سے رات نکالی ہے
اور آگ میں ڈالی مست دھمال
اور راکھ میں راکھ ملا دی ہے
اب خیر کی ختم ہوئی اُمید
اب پھانکو ریت
اور دھوپ پیو
یا سانپ ڈسے کی موت مرو
ہم نے تو پیالہ اُلٹ دیا
اور صبر کی چادر تہہ کر دی
........................
ہر عہد کے عمرو عیار کے نام
فہیم شناس کاظمی
اس کی زنبیل
قلندر کا پیالہ ہے نہ دل
اس کی زنبیل میں، پوشیدہ ہوس کے صد جال
اس آنکھوں سے تو بے شرمی بھی شرماتی ہے
گر سنہ لہجے میں
وہ بھیک کی فریاد کہ مچلی جائے
اس کی آواز سے زخمی ہو سماعت سب کی
اس کی ترتیب میں تہذیب کا اک لمحہ نہیں
اس کی شائستگی سے ایک زمانہ لرزے
اس کے کردار سے ہر شخص بخوبی واقف
اور سب کہتے ہیں
سب اچھا ہے
عمرو عیّا ر ہے اور لوگ بہت سادہ ہیں
سارے مکّار ہیں ہمراز اس کے
افراسیّاب،
سارے لشکر کو کہیں بیچ نہ دے
اس کا دل جذبہ و احساس سے خالی یکسر
جس میں الفاظ نہیں
صرف اعداد سنپولوں کی طرح پلتے ہیں
اس کا کچھ ٹھیک نہیں ،
اس کی حرکت پہ ذرا آنکھ رکھو
وائے ہو وائے نحوست اس کی
اس پہ سر کھول کے روئیں اس کے
اس کی زنبیل کی ہر چیز لہو رنگ ہوئی
اس نے جس جا بھی قدم رکھّا ، نئی جنگ ہوئی
اس کا دیںایک ہے بس صرف ہوس
اس کی زنبیل نہیں بھر سکتی
چاہے قاروں کا خزانہ ہو کوئی
چاہے فرعون کا ہو جاہ و جلال
چاہے شدّاد کے زرّیں باغات
اس کی زنبیل نہیں بھر نے کی
اس کی زنبیل میں دوزخ بھر دو
.......................
خواب جو نسلیں نگل گیا
فہیم شناس کاظمی
اور پھر خواب کی تجسیم ہوئی
خواب وہ خواب کہ آنکھوں میں لہو بھر آیا
ایسی تجسیم کہ ہر رنگ بکھرتا جائے
جو بھی منظر ہے وہ دھندلا ٹھہرا
سرکٹے
جسم کٹے
عزتِ سادات گئی
اس پہ بھی شکر کیا
خاک پر سجدہ کیا
پہلے اک خواب کو ہم روتے تھے
اور پھر روئے ہم آنکھوں کے لیے
اس پہ بھی شکر کیا
زرد آنکھوں سے لہو بہتا رہا
شام جنگل میں کہےں بین کرے
روشنی ڈوب گئی دریا میں
خواہشیں برف ہوئیں
چار اطراف سے یلغار ہوئی
اور پھر رات ہوئی
خواب کی تجسیم ہوئی
میں نے جھیلے ہیں یہاں کتنے عذاب
جن کا ممکن ہی نہیں کوئی حساب
بجھ گئیں آنکھیں لیے سارے خواب
.......................
یہ لوگ کیا ہیں
فہیم شناس کاظمی
یہ شہر خواب کی مردم شماری کرنے والے
سب پریشاں ہیں
یہ کیسی زخم آنکھیں ہیں
جوسپنوں کو جنم دیتی ہیں
کیسے لوگ ہیں
جو رات بھر چکرائے پھرتے ہیں
خیال و خواب کی گلیوں میں
گھر کو یاد کرتے ہیں
نہ روتے ہیں نہ ہنستے ہیں
یہ کیسے پھول ہیں جو مسکراتے ہیں
دلوں کے جلتے صحرا میں
یہ کیسی آتشِ نادیدہ ہے، کہ جو
جلاتی جارہی ہے گھر
مچلتی رقص کرتی جارہی ہے اپنی مستی میں
ہمارے خواب کی مردم شماری کرنے والے
سخت حیراں اور پریشاں ہیں
یہ کیسا شہر ہے
یہ لوگ کیا ہیں
اپنی محرومی پہ کیسے مسکراتے ہیں
........................
اور خدا خاموش تھا
فہیم شناس کاظمی
ایک بوسے کی طلب میں
جسم کبڑے ہوگئے
زندگی پانی ہوئی
آسماں سے کہکشاﺅں کی بہار
آگ برساتی رہی
زندگی فٹ پاتھ پر
ایک روٹی کی طلب میں
ہاتھ پھیلاتی رہی
قطرہ قطرہ بے بسی تیزاب سی
جسم پگھلاتی رہی
ردّی چنواتی رہی
نیٹی جیٹی پر کھڑی خلقِ خدا
ہنستی رہی
اور خدا خاموش تھا
............................
حادثہ
فہیم شناس کاظمی
رات ہی رات میں
راستے شہر سے جنگلوں کو مڑے
نیند گم ہوگئی
خوب صورت، حسیں، خوب رُو لڑکیاں
عورتیں بن گئیں
بہتے پانی میں ان کو بہایا گیا
خواب زادے ہوئے داستانوں میں گم
رات ہی رات میں
اژدھے نوجوانوں کا دل کھا گئے
نیٹی جیٹی پہ سب لا پتہ ہوگئے
آن کی آن میں
شہر کیسے مٹا
خوا ب کیسے جلا
..........................