دو نظمیں : جمیل الرحمن

دو نظمیں : جمیل الرحمن

Mar 25, 2021

‘‘پرومیتھیوس‘‘ اور ’’ایک نئی عمر کی خواہش ’’

پرومیتھیوس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کسی پتھر کی طرح اپنے آپ سے بندھا ہوا ہوں

میں اپنی لکھی ہوئی نظموں کی آگ میں جلتا

اور ایک بچھڑی ہوئی محبت کی بانہوں میں راکھ ہو جاتا ہوں

میری نظمیں مجھ میں وہ پھول کھلانے سے قاصر ہیں

جن کے موسم مصلحت کیش ہوا کے قبضے میں ہیں

میں ایک برہنہ شاخ کی طرح

درختوں سے جھڑتے پتوں میں اپنا ستر ڈھونڈتا

اور باغ کی کسی روش پر دھول ہو جاتا ہوں

میں دھول اور راکھ کی وہ کتھا ہوں

جسے زندگی کی پیشانی پر

بھبھوت کی طرح مل دیا گیا ہے

میں اُن علامتوں کا نوحہ ہوں

جن کے سچ کو تسلیم نہیں کیا گیا

مگر جن کے جھوٹ کو بھی

بزم آرائی کی اجازت نہ مل سکی

وقت لوہے اور سیمنٹ کو پھلانگ کر سلیکون کی طرف نکل گیا

اور کاغذ کی لاش پر

کمپیوٹر کی سکرین کی کوری چادر آگری

جس پر بے حسی نے اپنے آپ کو از سرِ نو تحریر کیا

کوک اور کافی سے مہکتی راہداریوں میں

اسٹاک ایکسچینج کے اعدادوشمار

بلبلوں کی طرح ابھرتے اور پھوٹتے رہے

اور لوگوں نے نیون سائینوں کے تلے

ایک دوسرے کو پڑھنا چھوڑ دیا

میں موت اور زندگی کے درمیان

معلّق

اپنی نظموں کی آگ میں مسلسل جلتے ہوئے

اُس محبت کی بانہوں میں راکھ ہو رہا ہوں

جس کے قدموں کے نشان بھی اُس کی آہٹوں کی طرح کھو گئے ہیں

یہ نظمیں آتشِ رفتہ کا سراغ پا سکیں

نہ اُن آیتوں کی طرح دلوں پر منکشف ہوئیں

جنہیں نئے مکہ کے سرداروں نے جھٹلا دیا

اور انہی پتھروں سے ان کا استقبال کیا

جن سے یہ فرّاٹے بھرتی ابھری تھیں

کیا ہوا کے بازوﺅں سے اُن کی طاقت

اور مجھ پر برستے بادل کے پانی سے تاثیر چھن گئی ہے

یا میں وہ پرومیتھیوس ہوں

جسے آگ چرانے کے جرم میں

دل کی چٹان سے یونہی بندھا رہنا ہوگا؟!

جمیل الرحمن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک نئی عمر کی خواہش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برسوں کی آبلہ پائی کا بوجھ سنبھالے

میرے قدم کسی راستے میں جم نہیں سکے

سائینس نے میری کم وقعتی اور بے حیثیتیمیں

اپنے تیزناخن گاڑ دیے

فلسفہ مجھے کائینات کے مرکز سے بے دخل کرنےپر تلا رہا

ادب مجھے اُن راستوں میں لے گیا

جن میں دُور دُور تک گھاس اُگی ہوئی تھی

 

تکنیکی ارتقاءمجھے ایک خودکار مشین میںڈھالنا چاہتا ہے

مگر مجھے میری محبت کے وفور نے نڈھال

اوراپنے اندر نہاں دوسرے کی بے ثمر کھوجنے

شکستہ حال کر دیا ہے

اب میرے مشکیزے میں شراب کی ایک بوند

اور خرجین میں ستّو کی ایک پھانک تک باقینہیں

 

اُس نے مجھے اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے

میرے پاس اپنی طرف لوٹنے کے سوا

اب اور کوئی راستہ نہیں

اُس صبح کی طرح

جو اپنی آنکھوں میں دھڑکتا ہوا دل

اور پیشانی پر نور لیے طلوع ہوتی ہے

معصوم قلقاریوں میں

ایک نئی نکور عمر کا آغاز کرنے کے لیے!

  جمیل الرحمن

پرومیتھیوس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کسی پتھر کی طرح اپنے آپ سے بندھا ہوا ہوں

میں اپنی لکھی ہوئی نظموں کی آگ میں جلتا

اور ایک بچھڑی ہوئی محبت کی بانہوں میں راکھ ہو جاتا ہوں

میری نظمیں مجھ میں وہ پھول کھلانے سے قاصر ہیں

جن کے موسم مصلحت کیش ہوا کے قبضے میں ہیں

میں ایک برہنہ شاخ کی طرح

درختوں سے جھڑتے پتوں میں اپنا ستر ڈھونڈتا

اور باغ کی کسی روش پر دھول ہو جاتا ہوں

میں دھول اور راکھ کی وہ کتھا ہوں

جسے زندگی کی پیشانی پر

بھبھوت کی طرح مل دیا گیا ہے

میں اُن علامتوں کا نوحہ ہوں

جن کے سچ کو تسلیم نہیں کیا گیا

مگر جن کے جھوٹ کو بھی

بزم آرائی کی اجازت نہ مل سکی

وقت لوہے اور سیمنٹ کو پھلانگ کر سلیکون کی طرف نکل گیا

اور کاغذ کی لاش پر

کمپیوٹر کی سکرین کی کوری چادر آگری

جس پر بے حسی نے اپنے آپ کو از سرِ نو تحریر کیا

کوک اور کافی سے مہکتی راہداریوں میں

اسٹاک ایکسچینج کے اعدادوشمار

بلبلوں کی طرح ابھرتے اور پھوٹتے رہے

اور لوگوں نے نیون سائینوں کے تلے

ایک دوسرے کو پڑھنا چھوڑ دیا

میں موت اور زندگی کے درمیان

معلّق

اپنی نظموں کی آگ میں مسلسل جلتے ہوئے

اُس محبت کی بانہوں میں راکھ ہو رہا ہوں

جس کے قدموں کے نشان بھی اُس کی آہٹوں کی طرح کھو گئے ہیں

یہ نظمیں آتشِ رفتہ کا سراغ پا سکیں

نہ اُن آیتوں کی طرح دلوں پر منکشف ہوئیں

جنہیں نئے مکہ کے سرداروں نے جھٹلا دیا

اور انہی پتھروں سے ان کا استقبال کیا

جن سے یہ فرّاٹے بھرتی ابھری تھیں

کیا ہوا کے بازوﺅں سے اُن کی طاقت

اور مجھ پر برستے بادل کے پانی سے تاثیر چھن گئی ہے

یا میں وہ پرومیتھیوس ہوں

جسے آگ چرانے کے جرم میں

دل کی چٹان سے یونہی بندھا رہنا ہوگا؟!

جمیل الرحمن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک نئی عمر کی خواہش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برسوں کی آبلہ پائی کا بوجھ سنبھالے

میرے قدم کسی راستے میں جم نہیں سکے

سائینس نے میری کم وقعتی اور بے حیثیتیمیں

اپنے تیزناخن گاڑ دیے

فلسفہ مجھے کائینات کے مرکز سے بے دخل کرنےپر تلا رہا

ادب مجھے اُن راستوں میں لے گیا

جن میں دُور دُور تک گھاس اُگی ہوئی تھی

 

تکنیکی ارتقاءمجھے ایک خودکار مشین میںڈھالنا چاہتا ہے

مگر مجھے میری محبت کے وفور نے نڈھال

اوراپنے اندر نہاں دوسرے کی بے ثمر کھوجنے

شکستہ حال کر دیا ہے

اب میرے مشکیزے میں شراب کی ایک بوند

اور خرجین میں ستّو کی ایک پھانک تک باقینہیں

 

اُس نے مجھے اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے

میرے پاس اپنی طرف لوٹنے کے سوا

اب اور کوئی راستہ نہیں

اُس صبح کی طرح

جو اپنی آنکھوں میں دھڑکتا ہوا دل

اور پیشانی پر نور لیے طلوع ہوتی ہے

معصوم قلقاریوں میں

ایک نئی نکور عمر کا آغاز کرنے کے لیے!

  جمیل الرحمن

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024