دو افسانے : محموداحمد قاضی
دو افسانے : محموداحمد قاضی
Apr 2, 2021
کرونا دور کی بدلی بدلتی ہوئی دنیا کا عکسس محمود قاضی کے منجھے ہوئے قلم سے ۔
چُپ
محمود احمد قاضی
گلی چپ ہے اور یہ کئی دنوں سے متواتر چپ ہے۔
ماحول سے سرا سیمہ ہوئی چڑیا اُڑتی اُڑتی تھکتی تھکتی ایک محلے سے دوسرے محلے اور ایک گلی سے دوسری گلی کو پھلانگتی، کوٹھوں، منڈیروں کو چھوڑتی اِدھر آ جاتی ہے۔ اِدھر بھی وہی سب کچھ ہے۔ گھروں کے صحن تو اب رہے ہی نہیں۔ لوگوں نے پتہ نہیں کس ڈر اور خوف کے تحت اپنے صحنوں کو کنکریٹ سے ڈھک لیا ہے۔ چھوٹے سے جنگلے چھتوں پر نصب ہیں جہاں سے صرف نیچے جھانکا جا سکتا ہے، نیچے اُترا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک تین منزلہ مکان کی چھت پر اُترتی ہے۔ یہاں کی بے پناہ ویرانی اس کا استقبال کرتی ہے۔ چھت خالی ہے کسی دانے دُنکے کے بغیر۔ وہ خرابی بسیار کے بعد اِدھر آئی ہے۔ پیٹ پوجا کے لیے اُدھر بھی کچھ نہیں تھا اور کھا جا ادھر بھی کوئی نہیں اور اِدھر سارے گھر بنجر ہو چکے ہیں۔ وہ ایک گھر کے روشن دان سے جھانکتی ہے۔ گھر کا بزرگ صحن میں آرام کرسی میں دھنسا آج کا اخبار پڑھ رہا ہے۔
”ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگلے دنوں میں یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔“ بڑی بی اس سے دو میٹر کے فاصلے پر بیٹھی اونگھ رہی ہے۔ مُوڑھے پر اس کے جسم کا بوجھ دہرا ہوا پڑا ہے۔ بڑا بیٹا پچھلے ایک ماہ سے اپنی لانڈری کی دکان بند کئے گھر پر پڑا ہے۔ وہ چڑچڑا ہو گیا ہے ہر ایک کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ بیوی کو بات بات پر جھڑکتا ہے۔ بچوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔ وہ پاس آنا چاہتے ہیں۔ اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہاتھ سے انہیں پرے رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔ بچے حیران ہو کر اسے تکتے ہیں۔ ہمارے ابا کو ہوا کیاہے۔ بات بُوت ہی نہیں کرتا۔ باہر جانے سے بھی منع کرتا ہے۔ کہتا ہے، باہر مت جانا۔ باہر پولیس ہے۔ وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ نانکے، دادکے سب چھوٹ گئے۔ نہ کہیں آنا نہ جانا، ناکے لگے ہیں۔ سکولوں پہ تالے لگے ہیں۔ چوکیدار اسکول کے گیٹ پر کھڑا وہاں اپنی موجودگی کا بہانہ کرتا ہے۔ اُستانیاں گھر پر پڑی سوئی رہتی ہیں۔ مائیں بے زار ہیں۔ نندیں بھاوجیں آپس میں خوب لڑتی ہیں۔ اب لڑائی کسی اور بات پر نہیں ہوتی۔ ایک دوسری سے کہتی ہے۔ میرے قریب مت آﺅ۔ مجھ سے فاصلہ رکھو۔ باپ بیٹے سے کہتا ہے، ماسک پہنو، گلوز استعمال کرو۔ سارے گھر والوں کے لیے ہدایات درج ہیں۔ سینی ٹائزر استعمال کرو یا صابن سے ہاتھ بار بار دھوﺅ، کم از کم بیس سیکنڈ تک۔ کھانے پینے کی چیزوں میں وٹامن سی اور ڈی زیادہ استعمال کرو۔ مثلاً کینو، پالک، شملہ مرچ وغیرہ کھاﺅ، اپنی امیونٹی کو بڑھاﺅ۔
محدود رہو، محفوظ رہو۔
ہر طرف ایک جیسی خبریں ہیں اور ان میں تکرار ہے، تاکید ہے
چھینکو تو احتیاط سے، کھانسو تو بھی احتیاط سے۔
احتیاط، احتیاط، احتیاط۔
چڑیا تاک جھانک بند کر کے نیچے اُترتی ہے۔ گلی کا فرش کسی کھانے پینے والی چیز کے بغیر یوں صفا پڑا ہے جیسے ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو کہ کہیں کوئی چڑیا ہی نہ دانہ چگ لے۔ وہ اُڈاری مارتی ہے۔ اس کی اڑان نہایت پھسپھسی ہے۔ وہ پھدکنے پر اکتفا کرتی ہے پھر اُڑ کر ایک گھر کی منڈیر پر آ پہنچتی ہے۔ یہ کھلے صحن والا مکان ہے۔ وہ اِدھر اُدھر احتیاط سے دیکھتی ہوئی نیچے آتی ہے۔ یہاں بھی کچھ نہیں۔ میاں ایک بیمار مرد ہے۔ وہ علیحدہ ایک کمرے میں پڑا ہے۔ اس کے نزدیک کوئی نہیں ہے۔ اس کے سرہانے تپائی پر چند ایک دوائی کی شیشیاں ہیں۔ ایک نوجوان آتا ہے۔ کمرے کے دروازے میں کھڑے ہو کر بار بار سپرے کرتا ہے۔ بیمار کا سینہ پھول پچک رہا ہے۔ اسے تیز بخار ہے۔ وہ بڑی دِقّت سے سانس لے رہا ہے۔
ایک دوسرے سے کہتا ہے
کیا خیال ہے
ہسپتال
نہیں ابو ادھر ہی ٹھیک ہیں، بیٹی کُرلاتی ہے
تم جانتی ہو۔ وہ جب سے ایران سے آئے ہیں تب سے ایسے ہی ہیں۔
تو کیوں نہ انھیں اُدھر پراپر قرنطینہ میں....
نہیں۔ بیٹی پھر چیختی ہے۔
کچھ بھی نہیں۔ سب فراڈ ہے
نصرت، یہ سچ ہے۔ یہ Covid-19 ....
کچھ بھی ہے۔ میں....
سب روہانسے ہو رہے ہیں
چڑیا ہَوَنکتی ہے۔ بھوکے پیٹ اوپر اٹھنا اس کے لیے محال ہو رہا ہے۔ اس کی خالی پوٹ میں اینٹھن ہے۔ ایک طرح کی بے کلی ہے، بے چینی ہے، دماغ سُن ہے۔ ایسے لگتا ہے وہ اپنی چونچ کو کھولنا بھول چکی ہے۔
پانی
پانی کدھر ہے۔ کیا وہ بھی نایاب ہوا جاتا ہے۔
وہ واش بیسن پر آ ٹکتی ہے۔ پانی کی ٹونٹی قدرے لیک کر رہی ہے۔ وہ ٹونٹی پر بیٹھ کر نیچے گرتے پانی کے قطرے کے بھیتر میں میں اپنی چونچ رکھتی ہے۔ ایک قطرہ، دوسرا قطرہ۔ اسے مزہ آنے لگتا ہے۔ یہ تو آبِ حیات ہے۔ پوٹ چونکہ خالی ہے اور سُکڑی ہوئی ہے اس لیے محض پانی کو قبول نہیں کر پاتی۔ اسے لگتا ہے سارا پانی باہر آ جائے گا۔ وہ اسے اپنے اندر روکنے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔
اسے خاصی تگ ودو کرنی پڑ رہی ہے۔
برآمدے میں لگے ٹی وی پر بھاشن دیا جا رہا ہے۔ ایک اشتہار آتا ہے۔
تھیلیسیمیا کے ایک لاکھ مریض بچوں کے لیے ڈونرز کی جانب سے خون درکار ہے۔ آئیے جلدی کیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے اور .... اگر آپ سنٹر پر نہیں آ سکتے تو آپ کی ایک فون کال پر عملہ آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ یوں آپ باہر آنے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ ٹِکر چلنا شروع ہوتا ہے اس پر فون نمبر درج ہے۔ یہ ڈونرز کی رہنمائی کے لیے ہے۔
چڑیا اُڑنے کی کوش میں وہیں ڈھے پڑتی ہے۔ گھر کا ایک بچہ اس کی طرف لپکتا ہے۔ ماں کہتی ہے۔ نہیں۔ بچہ وہیں رُک جاتا ہے۔ دُبک جاتا ہے۔ بچے کی آنکھوں میں کئی طرح کے اس کی عمر کے حوالے سے سوالات ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اور یہ کب تک ہو گا۔ ہم کتنی دیر تک اپنے اسکول کی کتابوں سے دور رہیں گے۔ ممی پاپا کب تک ہاتھوں کے اشاروں سے پرے ہونے کا مشورہ دیتے رہیں گے۔ کھیلنے کودنے کب جانا ہو گا۔
پلے لینڈ، پیزا، آئس کریم، کیک
ہمجولی، دوست
چڑیا بچے کی پہنچ سے دور ہو کر ایک طرف ہو جاتی ہے۔ سہم جاتی ہے
دروازے پر دستک ہوتی ہے
ہوتی رہتی ہے
بڑا بیٹا اونچی آواز سے کہتا ہے
Dont Bother to knock, we are in isolation.
اِنَّ لِلّٰہِ وَاِّن الیہِ رَاجع ±ون
مریض کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جاتا ہے، انہیں بند کرنے کے لیے، ابھی ایک وین آئے گی۔ وہ لاش کو ایک بیگ میں بند کر کے لے جائیں گے۔ جنازے پر کوئی نہیں جا سکتا۔ سب خاموشی سے، صبر سے، سکون سے روتے ہیں۔ انہوں نے ایسے مرنے والوں کے لیے علیحدہ قبرستان مختص کئے ہیں۔ وہاں انہیں کم از کم دس فٹ کی گہرائی میں دفن کیا جائے گا۔
لِیک کرنے والی ٹونٹی سے پانی کی بوندیں بہنا بند ہو چکی ہیں۔ چڑیا تذبذب میں ہے۔ ادھر رہے یا یہاں سے کوچ کرے....
_______
آواز نہیں
محمود احمد قاضی
اس سجری سویر کو جب وہ بستر چھوڑتا ہے تو اسے لگتا ہے۔ ٹھنڈ پہلے سے زیادہ ہے۔ وہ پاﺅں چپل میں گھساتا ہے۔ قریبی صوفے پر پڑی ادھورانی صرف ان ہی اوقات میں پہنی جانے والی جرسی پہن لیتا ہے۔ سر پر اُونی ٹوپی بھی اوڑھتا ہے۔ واش روم جانے والے راستے پر ہوتا ہے تو اس کی مڈبھیڑ ایک عورت سے ہوتی ہے جس نے ماسک پہن رکھا ہے اور اس کے ہاتھ دستانوں میں چھپے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ یہ کون عورت ہے۔ واش روم سے واپسی پر اس کی ملاقات دو پھول مخانے سے بچوں سے ہوتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی عمر کے حساب سے ماسک اور دستانے پہن رکھے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر کہتے ہیں۔
صبح بخیر!
وہ جان جاتا ہے یہ اس کے صاحبزادے ہیں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ جس عورت کی اس سے سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے وہ یقینا اس کی زوجہ ہے لیکن یہ ماسک، دستانے یہ سب کے سب ان میں کیوں ملفوف ہیں۔ وہ برآمدے میں آ کر شیو کا سامان لیے میز کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ چکتا ہے تو وہی عورت آ کر اس کی شیو کا گرم پانی والا مگا لا کر رکھ دیتی ہے۔ مہر ثبت ہو جاتی ہے کہ یہ واقعی اس کی منکوحہ ہے۔ وہ خاموشی سے شیو کرنے لگتا ہے۔ سارے وقت میں اس کا دھیان کچن کی طرف رہتا ہے جدھر اس کی بیوی مصروف ہے۔ بچوں نے ٹیلی ویژن آن کر لیا ہے۔ نیوز ریڈر کہہ رہا ہے آپ سے درخواست ہے کہ جب آپ باہر نکلیں اور وہ بھی شدید ضرورت کے تحت تو آپ کو چاہیے کہ آپ نے ماسک ضرور پہن رکھا ہو۔ گھر میں داخلے کے وقت دروازے کے ہینڈل پر سینی ٹائزر کا استعمال ضرور کریں۔ اپنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن کے ریموٹ کو بھی مناسب طریقے سے سینی ٹائز کیجیے۔
وہ بچوں کے قریب آتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر اس وقت کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ وہ بچوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا تم ابھی تک بے خبر ہو! اس کی کمر پر بیوی کُوکتی ہے
کیسی خبر!
یہی کہ صرف ہمیں ہی نہیں ساری دنیا کو کورونا نے دبوچ لیا ہے۔
یہ کیا بلا ہے؟
ایک وائرس، مہلک وائرس جو چائنا کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے ایک شہر ووہان کی جانب سے۔
وہ جلدی جلدی مختلف چینل بدلتا ہے۔ ہر طرف کورونا کی پکار ہے۔ دہائی ہے۔
وہ کپڑے بدل کر، باہر کی اَور جانے کو ہوتا ہے۔
بیوی راستہ روکتی ہے۔ کدھر!
دفتر! اور کدھر
اے میرے بے خبر شوہر نامدار تمہیں خبر ہو کہ تمہارا دفتر بند پڑا ہے۔ وہاں سے فون آیا تھا۔ تمہیں حاضری سے مستشنا قرار دے دیا گیا ہے، تاحکم ثانی!
کیا بکواس ہے!
یہ بکواس نہیں، حقیقت ہے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ کان بھی کھلے رکھو کہ ادھر سارا کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ دنیا وہ نہیں جو تم نے رات کو سوتے وقت چھوڑی تھی۔ اب زمانہ اور ہے۔ اس وقت تک کافی اموات ہو چکی ہیں۔ دنیا میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی پیدا ہو چکی ہے اور ہمارے ہاں تو جو تھوڑے بہت نہ ہونے کے برابر ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر خود بیمار یعنی مرمت طلب صورت میں پڑے ہیں۔ اس وقت زیادہ ملکوں میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ ہے۔ ہر طرف پَین ڈیمک کی یلغار ہے۔ دنیا کے پاس صرف سوائے صحت سے متعلق ضروری اشیا کی کمی اور تھروٹک کے کچھ نہیں نکلا۔
وہ سنتا ہے لیکن باہر جانے سے باز نہیں آتا۔ باہر گلی خاموش پڑی ہے۔ چھوٹا بازار، بڑا بازار لُگا پڑا ہے۔ شٹر نیچے ہیں۔ بڑی سڑک ٹریفک سے خالی ہے۔ سوائے اس کے کہ کبھی کبھار ایدھی اور چھیپا والوں کی کوئی ایمبولینس آتی جاتی دکھائی دے جاتی ہے۔ وہ جو کہ شور شرابے کا عادی ہو چکا ہے اسے لگتا ہے وہ کسی اجنبی دیس میں پھر رہا ہے۔ اسے ڈر سا لگنے لگتا ہے۔
ادھر سے پولیس کی گاڑی آتی ہے۔ اس کے پاس رک جاتی ہے۔
ہاں جی کدھر.... اس مٹرگشت کا مطلب؟
وہ میں....
وہ میں کیا.... واپس جاﺅ اور گھر بیٹھو۔
گھر....!
ہاں گھر.... اور وہاں بھی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھو۔ آئندہ ضرورت کے بغیر اور ماسک کے بغیر نظر آئے تو دھرلئے جاﺅ گے۔ اب جاﺅ
وہ ادھر سے کھسک لیتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے اگر اس نے بات نہ مانی تو اس کا واجا وج سکتا ہے۔
وہ یہاں وہاں دیکھتا ہے۔ بازار مکمل طور پر بند ہے۔ البتہ میڈیکل سٹور کھلا ہے، وہ وہاں جاتا ہے۔ ماسک خریدتا ہے۔ ماسک اسے بلیک میں دستیاب ہوتا ہے۔ اصل قیمت سے کہیں زیادہ اسے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ واپسی پر ایک بلی ہلکی سی میاﺅں کے ساتھ اس کا راستہ کاٹتی ہے۔ وہ اسے سست سی لگ رہی ہے۔ شاید بھوکی ہے۔ وہ آ کر دھم سے گھر میں ایک کرسی پر خود کو ڈھیر کر دیتا ہے۔ بیوی اس کے دائیں ہاتھ کو سینی ٹائز کرتی ہے۔ اس کا بیٹا داخلے کے دروازے کے ہینڈل کو سینی ٹائز کرتا ہے۔ وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ دیر بعد ناشتہ اس کے سامنے آتا ہے۔ وہ بے رغبتی سے اپنے اندر کچھ ٹھونستا ہے۔ اسے لگتا ہے اس کے گھر والے اس سے اشاروں کنایوں میں بات کر رہے ہیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ محسوس کرتا ہے۔ کہیں یہ لوگ اس خاموشی کو بھی سینی ٹائز نہ کرنے لگیں۔ دوپہر کا کھانا، رات کا کھانا۔ بچے اپنی ٹیبلٹ پر گیموں میں مگن۔ بیوی گھر کے کاموں میں مصروف اور وہ خود بے کار بیٹھا رہتا ہے۔ اب سوچنے کے لیے بھی کچھ نہیں بچا۔
ٹیلی ویژن پر پکار ہوتی ہے۔
یہ فراڈ ہے۔ کورونا ورونا کچھ نہیں
یہ حکومت کا فنڈز بٹورنے کا ایک اور انداز ہے۔
ایک مائی، ایک بابا، ایک لڑکا کسی چینل کے مائک کے آگے نمودار ہو کے بولتے ہیں۔
ہم بھوکے ہیں! ایک للکار ابھرتی ہے۔
ہمیں کھانے کے لیے کچھ دو۔
ہمیں روزگار دو، ہم سے ہماری روزی مت چھینو
ایک اِذن سے لاک ڈاﺅن جزوی طور پر بحال ہوتا ہے۔
یہ ناکافی ہے۔ لوگ پھنکارتے ہیں۔
حکومت کے سربراہ کی گھومنے والی کرسی دائیں بائیں جھولتی ہے۔
ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ لوگوں کو گھر بٹھا کر کھانے کو دیں۔
مکمل لاک ڈاﺅن!
نہیں جزوی لاک ڈاﺅن!
تکرار جاری ہے۔
ہر رات بارہ بجے کے بلیٹن میں مرنے والوں کی تعداد بتائی جاتی ہے اور متاثرہ افراد کی نئی کھیپ کی اطلاع دی جاتی ہے۔ زمین گردش میں ہے۔ جب کہ دنیا اپنی جگہ سے ہل چکی ہے۔ اگلی صبح، اگلی رات، اگلا وقت، اگلا زمانہ
اب لوگوں کے چہرے ایک دوسرے کی طرف نہیں، ہونٹ ہلتے ہیں، آواز نہیں
کیا یہ وہی سیّارہ ہے؟ خلا میں سفر کرتے کرتے ہم نے کہیں اپنا مدار ہی تو نہیں چھوڑ دیا۔ کیا ہم بھٹک گئے؟ مگر یہ کہے گا کون، سنے گا کون، آواز تو ہے ہی نہیں۔
_______
چُپ
محمود احمد قاضی
گلی چپ ہے اور یہ کئی دنوں سے متواتر چپ ہے۔
ماحول سے سرا سیمہ ہوئی چڑیا اُڑتی اُڑتی تھکتی تھکتی ایک محلے سے دوسرے محلے اور ایک گلی سے دوسری گلی کو پھلانگتی، کوٹھوں، منڈیروں کو چھوڑتی اِدھر آ جاتی ہے۔ اِدھر بھی وہی سب کچھ ہے۔ گھروں کے صحن تو اب رہے ہی نہیں۔ لوگوں نے پتہ نہیں کس ڈر اور خوف کے تحت اپنے صحنوں کو کنکریٹ سے ڈھک لیا ہے۔ چھوٹے سے جنگلے چھتوں پر نصب ہیں جہاں سے صرف نیچے جھانکا جا سکتا ہے، نیچے اُترا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک تین منزلہ مکان کی چھت پر اُترتی ہے۔ یہاں کی بے پناہ ویرانی اس کا استقبال کرتی ہے۔ چھت خالی ہے کسی دانے دُنکے کے بغیر۔ وہ خرابی بسیار کے بعد اِدھر آئی ہے۔ پیٹ پوجا کے لیے اُدھر بھی کچھ نہیں تھا اور کھا جا ادھر بھی کوئی نہیں اور اِدھر سارے گھر بنجر ہو چکے ہیں۔ وہ ایک گھر کے روشن دان سے جھانکتی ہے۔ گھر کا بزرگ صحن میں آرام کرسی میں دھنسا آج کا اخبار پڑھ رہا ہے۔
”ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگلے دنوں میں یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔“ بڑی بی اس سے دو میٹر کے فاصلے پر بیٹھی اونگھ رہی ہے۔ مُوڑھے پر اس کے جسم کا بوجھ دہرا ہوا پڑا ہے۔ بڑا بیٹا پچھلے ایک ماہ سے اپنی لانڈری کی دکان بند کئے گھر پر پڑا ہے۔ وہ چڑچڑا ہو گیا ہے ہر ایک کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ بیوی کو بات بات پر جھڑکتا ہے۔ بچوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔ وہ پاس آنا چاہتے ہیں۔ اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہاتھ سے انہیں پرے رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔ بچے حیران ہو کر اسے تکتے ہیں۔ ہمارے ابا کو ہوا کیاہے۔ بات بُوت ہی نہیں کرتا۔ باہر جانے سے بھی منع کرتا ہے۔ کہتا ہے، باہر مت جانا۔ باہر پولیس ہے۔ وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ نانکے، دادکے سب چھوٹ گئے۔ نہ کہیں آنا نہ جانا، ناکے لگے ہیں۔ سکولوں پہ تالے لگے ہیں۔ چوکیدار اسکول کے گیٹ پر کھڑا وہاں اپنی موجودگی کا بہانہ کرتا ہے۔ اُستانیاں گھر پر پڑی سوئی رہتی ہیں۔ مائیں بے زار ہیں۔ نندیں بھاوجیں آپس میں خوب لڑتی ہیں۔ اب لڑائی کسی اور بات پر نہیں ہوتی۔ ایک دوسری سے کہتی ہے۔ میرے قریب مت آﺅ۔ مجھ سے فاصلہ رکھو۔ باپ بیٹے سے کہتا ہے، ماسک پہنو، گلوز استعمال کرو۔ سارے گھر والوں کے لیے ہدایات درج ہیں۔ سینی ٹائزر استعمال کرو یا صابن سے ہاتھ بار بار دھوﺅ، کم از کم بیس سیکنڈ تک۔ کھانے پینے کی چیزوں میں وٹامن سی اور ڈی زیادہ استعمال کرو۔ مثلاً کینو، پالک، شملہ مرچ وغیرہ کھاﺅ، اپنی امیونٹی کو بڑھاﺅ۔
محدود رہو، محفوظ رہو۔
ہر طرف ایک جیسی خبریں ہیں اور ان میں تکرار ہے، تاکید ہے
چھینکو تو احتیاط سے، کھانسو تو بھی احتیاط سے۔
احتیاط، احتیاط، احتیاط۔
چڑیا تاک جھانک بند کر کے نیچے اُترتی ہے۔ گلی کا فرش کسی کھانے پینے والی چیز کے بغیر یوں صفا پڑا ہے جیسے ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو کہ کہیں کوئی چڑیا ہی نہ دانہ چگ لے۔ وہ اُڈاری مارتی ہے۔ اس کی اڑان نہایت پھسپھسی ہے۔ وہ پھدکنے پر اکتفا کرتی ہے پھر اُڑ کر ایک گھر کی منڈیر پر آ پہنچتی ہے۔ یہ کھلے صحن والا مکان ہے۔ وہ اِدھر اُدھر احتیاط سے دیکھتی ہوئی نیچے آتی ہے۔ یہاں بھی کچھ نہیں۔ میاں ایک بیمار مرد ہے۔ وہ علیحدہ ایک کمرے میں پڑا ہے۔ اس کے نزدیک کوئی نہیں ہے۔ اس کے سرہانے تپائی پر چند ایک دوائی کی شیشیاں ہیں۔ ایک نوجوان آتا ہے۔ کمرے کے دروازے میں کھڑے ہو کر بار بار سپرے کرتا ہے۔ بیمار کا سینہ پھول پچک رہا ہے۔ اسے تیز بخار ہے۔ وہ بڑی دِقّت سے سانس لے رہا ہے۔
ایک دوسرے سے کہتا ہے
کیا خیال ہے
ہسپتال
نہیں ابو ادھر ہی ٹھیک ہیں، بیٹی کُرلاتی ہے
تم جانتی ہو۔ وہ جب سے ایران سے آئے ہیں تب سے ایسے ہی ہیں۔
تو کیوں نہ انھیں اُدھر پراپر قرنطینہ میں....
نہیں۔ بیٹی پھر چیختی ہے۔
کچھ بھی نہیں۔ سب فراڈ ہے
نصرت، یہ سچ ہے۔ یہ Covid-19 ....
کچھ بھی ہے۔ میں....
سب روہانسے ہو رہے ہیں
چڑیا ہَوَنکتی ہے۔ بھوکے پیٹ اوپر اٹھنا اس کے لیے محال ہو رہا ہے۔ اس کی خالی پوٹ میں اینٹھن ہے۔ ایک طرح کی بے کلی ہے، بے چینی ہے، دماغ سُن ہے۔ ایسے لگتا ہے وہ اپنی چونچ کو کھولنا بھول چکی ہے۔
پانی
پانی کدھر ہے۔ کیا وہ بھی نایاب ہوا جاتا ہے۔
وہ واش بیسن پر آ ٹکتی ہے۔ پانی کی ٹونٹی قدرے لیک کر رہی ہے۔ وہ ٹونٹی پر بیٹھ کر نیچے گرتے پانی کے قطرے کے بھیتر میں میں اپنی چونچ رکھتی ہے۔ ایک قطرہ، دوسرا قطرہ۔ اسے مزہ آنے لگتا ہے۔ یہ تو آبِ حیات ہے۔ پوٹ چونکہ خالی ہے اور سُکڑی ہوئی ہے اس لیے محض پانی کو قبول نہیں کر پاتی۔ اسے لگتا ہے سارا پانی باہر آ جائے گا۔ وہ اسے اپنے اندر روکنے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔
اسے خاصی تگ ودو کرنی پڑ رہی ہے۔
برآمدے میں لگے ٹی وی پر بھاشن دیا جا رہا ہے۔ ایک اشتہار آتا ہے۔
تھیلیسیمیا کے ایک لاکھ مریض بچوں کے لیے ڈونرز کی جانب سے خون درکار ہے۔ آئیے جلدی کیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے اور .... اگر آپ سنٹر پر نہیں آ سکتے تو آپ کی ایک فون کال پر عملہ آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ یوں آپ باہر آنے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ ٹِکر چلنا شروع ہوتا ہے اس پر فون نمبر درج ہے۔ یہ ڈونرز کی رہنمائی کے لیے ہے۔
چڑیا اُڑنے کی کوش میں وہیں ڈھے پڑتی ہے۔ گھر کا ایک بچہ اس کی طرف لپکتا ہے۔ ماں کہتی ہے۔ نہیں۔ بچہ وہیں رُک جاتا ہے۔ دُبک جاتا ہے۔ بچے کی آنکھوں میں کئی طرح کے اس کی عمر کے حوالے سے سوالات ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اور یہ کب تک ہو گا۔ ہم کتنی دیر تک اپنے اسکول کی کتابوں سے دور رہیں گے۔ ممی پاپا کب تک ہاتھوں کے اشاروں سے پرے ہونے کا مشورہ دیتے رہیں گے۔ کھیلنے کودنے کب جانا ہو گا۔
پلے لینڈ، پیزا، آئس کریم، کیک
ہمجولی، دوست
چڑیا بچے کی پہنچ سے دور ہو کر ایک طرف ہو جاتی ہے۔ سہم جاتی ہے
دروازے پر دستک ہوتی ہے
ہوتی رہتی ہے
بڑا بیٹا اونچی آواز سے کہتا ہے
Dont Bother to knock, we are in isolation.
اِنَّ لِلّٰہِ وَاِّن الیہِ رَاجع ±ون
مریض کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جاتا ہے، انہیں بند کرنے کے لیے، ابھی ایک وین آئے گی۔ وہ لاش کو ایک بیگ میں بند کر کے لے جائیں گے۔ جنازے پر کوئی نہیں جا سکتا۔ سب خاموشی سے، صبر سے، سکون سے روتے ہیں۔ انہوں نے ایسے مرنے والوں کے لیے علیحدہ قبرستان مختص کئے ہیں۔ وہاں انہیں کم از کم دس فٹ کی گہرائی میں دفن کیا جائے گا۔
لِیک کرنے والی ٹونٹی سے پانی کی بوندیں بہنا بند ہو چکی ہیں۔ چڑیا تذبذب میں ہے۔ ادھر رہے یا یہاں سے کوچ کرے....
_______
آواز نہیں
محمود احمد قاضی
اس سجری سویر کو جب وہ بستر چھوڑتا ہے تو اسے لگتا ہے۔ ٹھنڈ پہلے سے زیادہ ہے۔ وہ پاﺅں چپل میں گھساتا ہے۔ قریبی صوفے پر پڑی ادھورانی صرف ان ہی اوقات میں پہنی جانے والی جرسی پہن لیتا ہے۔ سر پر اُونی ٹوپی بھی اوڑھتا ہے۔ واش روم جانے والے راستے پر ہوتا ہے تو اس کی مڈبھیڑ ایک عورت سے ہوتی ہے جس نے ماسک پہن رکھا ہے اور اس کے ہاتھ دستانوں میں چھپے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ یہ کون عورت ہے۔ واش روم سے واپسی پر اس کی ملاقات دو پھول مخانے سے بچوں سے ہوتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی عمر کے حساب سے ماسک اور دستانے پہن رکھے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر کہتے ہیں۔
صبح بخیر!
وہ جان جاتا ہے یہ اس کے صاحبزادے ہیں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ جس عورت کی اس سے سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے وہ یقینا اس کی زوجہ ہے لیکن یہ ماسک، دستانے یہ سب کے سب ان میں کیوں ملفوف ہیں۔ وہ برآمدے میں آ کر شیو کا سامان لیے میز کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ چکتا ہے تو وہی عورت آ کر اس کی شیو کا گرم پانی والا مگا لا کر رکھ دیتی ہے۔ مہر ثبت ہو جاتی ہے کہ یہ واقعی اس کی منکوحہ ہے۔ وہ خاموشی سے شیو کرنے لگتا ہے۔ سارے وقت میں اس کا دھیان کچن کی طرف رہتا ہے جدھر اس کی بیوی مصروف ہے۔ بچوں نے ٹیلی ویژن آن کر لیا ہے۔ نیوز ریڈر کہہ رہا ہے آپ سے درخواست ہے کہ جب آپ باہر نکلیں اور وہ بھی شدید ضرورت کے تحت تو آپ کو چاہیے کہ آپ نے ماسک ضرور پہن رکھا ہو۔ گھر میں داخلے کے وقت دروازے کے ہینڈل پر سینی ٹائزر کا استعمال ضرور کریں۔ اپنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن کے ریموٹ کو بھی مناسب طریقے سے سینی ٹائز کیجیے۔
وہ بچوں کے قریب آتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر اس وقت کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ وہ بچوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا تم ابھی تک بے خبر ہو! اس کی کمر پر بیوی کُوکتی ہے
کیسی خبر!
یہی کہ صرف ہمیں ہی نہیں ساری دنیا کو کورونا نے دبوچ لیا ہے۔
یہ کیا بلا ہے؟
ایک وائرس، مہلک وائرس جو چائنا کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے ایک شہر ووہان کی جانب سے۔
وہ جلدی جلدی مختلف چینل بدلتا ہے۔ ہر طرف کورونا کی پکار ہے۔ دہائی ہے۔
وہ کپڑے بدل کر، باہر کی اَور جانے کو ہوتا ہے۔
بیوی راستہ روکتی ہے۔ کدھر!
دفتر! اور کدھر
اے میرے بے خبر شوہر نامدار تمہیں خبر ہو کہ تمہارا دفتر بند پڑا ہے۔ وہاں سے فون آیا تھا۔ تمہیں حاضری سے مستشنا قرار دے دیا گیا ہے، تاحکم ثانی!
کیا بکواس ہے!
یہ بکواس نہیں، حقیقت ہے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ کان بھی کھلے رکھو کہ ادھر سارا کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ دنیا وہ نہیں جو تم نے رات کو سوتے وقت چھوڑی تھی۔ اب زمانہ اور ہے۔ اس وقت تک کافی اموات ہو چکی ہیں۔ دنیا میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی پیدا ہو چکی ہے اور ہمارے ہاں تو جو تھوڑے بہت نہ ہونے کے برابر ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر خود بیمار یعنی مرمت طلب صورت میں پڑے ہیں۔ اس وقت زیادہ ملکوں میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ ہے۔ ہر طرف پَین ڈیمک کی یلغار ہے۔ دنیا کے پاس صرف سوائے صحت سے متعلق ضروری اشیا کی کمی اور تھروٹک کے کچھ نہیں نکلا۔
وہ سنتا ہے لیکن باہر جانے سے باز نہیں آتا۔ باہر گلی خاموش پڑی ہے۔ چھوٹا بازار، بڑا بازار لُگا پڑا ہے۔ شٹر نیچے ہیں۔ بڑی سڑک ٹریفک سے خالی ہے۔ سوائے اس کے کہ کبھی کبھار ایدھی اور چھیپا والوں کی کوئی ایمبولینس آتی جاتی دکھائی دے جاتی ہے۔ وہ جو کہ شور شرابے کا عادی ہو چکا ہے اسے لگتا ہے وہ کسی اجنبی دیس میں پھر رہا ہے۔ اسے ڈر سا لگنے لگتا ہے۔
ادھر سے پولیس کی گاڑی آتی ہے۔ اس کے پاس رک جاتی ہے۔
ہاں جی کدھر.... اس مٹرگشت کا مطلب؟
وہ میں....
وہ میں کیا.... واپس جاﺅ اور گھر بیٹھو۔
گھر....!
ہاں گھر.... اور وہاں بھی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھو۔ آئندہ ضرورت کے بغیر اور ماسک کے بغیر نظر آئے تو دھرلئے جاﺅ گے۔ اب جاﺅ
وہ ادھر سے کھسک لیتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے اگر اس نے بات نہ مانی تو اس کا واجا وج سکتا ہے۔
وہ یہاں وہاں دیکھتا ہے۔ بازار مکمل طور پر بند ہے۔ البتہ میڈیکل سٹور کھلا ہے، وہ وہاں جاتا ہے۔ ماسک خریدتا ہے۔ ماسک اسے بلیک میں دستیاب ہوتا ہے۔ اصل قیمت سے کہیں زیادہ اسے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ واپسی پر ایک بلی ہلکی سی میاﺅں کے ساتھ اس کا راستہ کاٹتی ہے۔ وہ اسے سست سی لگ رہی ہے۔ شاید بھوکی ہے۔ وہ آ کر دھم سے گھر میں ایک کرسی پر خود کو ڈھیر کر دیتا ہے۔ بیوی اس کے دائیں ہاتھ کو سینی ٹائز کرتی ہے۔ اس کا بیٹا داخلے کے دروازے کے ہینڈل کو سینی ٹائز کرتا ہے۔ وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ دیر بعد ناشتہ اس کے سامنے آتا ہے۔ وہ بے رغبتی سے اپنے اندر کچھ ٹھونستا ہے۔ اسے لگتا ہے اس کے گھر والے اس سے اشاروں کنایوں میں بات کر رہے ہیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ محسوس کرتا ہے۔ کہیں یہ لوگ اس خاموشی کو بھی سینی ٹائز نہ کرنے لگیں۔ دوپہر کا کھانا، رات کا کھانا۔ بچے اپنی ٹیبلٹ پر گیموں میں مگن۔ بیوی گھر کے کاموں میں مصروف اور وہ خود بے کار بیٹھا رہتا ہے۔ اب سوچنے کے لیے بھی کچھ نہیں بچا۔
ٹیلی ویژن پر پکار ہوتی ہے۔
یہ فراڈ ہے۔ کورونا ورونا کچھ نہیں
یہ حکومت کا فنڈز بٹورنے کا ایک اور انداز ہے۔
ایک مائی، ایک بابا، ایک لڑکا کسی چینل کے مائک کے آگے نمودار ہو کے بولتے ہیں۔
ہم بھوکے ہیں! ایک للکار ابھرتی ہے۔
ہمیں کھانے کے لیے کچھ دو۔
ہمیں روزگار دو، ہم سے ہماری روزی مت چھینو
ایک اِذن سے لاک ڈاﺅن جزوی طور پر بحال ہوتا ہے۔
یہ ناکافی ہے۔ لوگ پھنکارتے ہیں۔
حکومت کے سربراہ کی گھومنے والی کرسی دائیں بائیں جھولتی ہے۔
ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ لوگوں کو گھر بٹھا کر کھانے کو دیں۔
مکمل لاک ڈاﺅن!
نہیں جزوی لاک ڈاﺅن!
تکرار جاری ہے۔
ہر رات بارہ بجے کے بلیٹن میں مرنے والوں کی تعداد بتائی جاتی ہے اور متاثرہ افراد کی نئی کھیپ کی اطلاع دی جاتی ہے۔ زمین گردش میں ہے۔ جب کہ دنیا اپنی جگہ سے ہل چکی ہے۔ اگلی صبح، اگلی رات، اگلا وقت، اگلا زمانہ
اب لوگوں کے چہرے ایک دوسرے کی طرف نہیں، ہونٹ ہلتے ہیں، آواز نہیں
کیا یہ وہی سیّارہ ہے؟ خلا میں سفر کرتے کرتے ہم نے کہیں اپنا مدار ہی تو نہیں چھوڑ دیا۔ کیا ہم بھٹک گئے؟ مگر یہ کہے گا کون، سنے گا کون، آواز تو ہے ہی نہیں۔
_______