اداریہ - ' شمارہ -‘٦ سلمی جیلانی
اداریہ - ' شمارہ -‘٦ سلمی جیلانی
Mar 16, 2018
اردو ادب پر عصرحاضرکےالمیوں اور شدت پسندی کے اثرات
اداریہ شمارہ ۔۶
اکیسویں صدی میں شدت پسندی سے دوچار روہنگیا اور دوسرے معاشرتی گروہ اور ادبی ردعمل
سلمیٰ جیلانی
دیدبان اون لائن ادبی جریدہ اپنے چھٹے شمارے کے ساتھ پوری دنیا کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لئے حاضر خدمت ہے -گزشتہ تمام شماروں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی عصر حاضر کے المیوں کو موضوع سخن بنانے کی کوشش کی گئی ہے -انسانی معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے والا شدت پسندی کا عنصر اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی نائن الیون کے سانحے کے بعد سے اپنے زوروں پر ہے دہشت گردی کی جو لہر اٹھی ہے وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی اگرچہ اس کا بیج بیسویں صدی کے آخر میں ہی بو دیا گیا تھا مگر یہ فصل بہت سے سر کاٹ لے گئی اور کاٹے چلی جا رہی ہے یہ لہر اس وقت برما کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور وہاں کی روہنگیا آبادی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے .ہندستان میں بھی اسی طرح کے شدت پسند رویوں نے اس قدر زور پکڑا ہے کہ وہاں کی اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے سے قاصر ہیں یہی نہیں پاکستان میں ہزارہ برادری بھی اسی دہشت گردی کا شکار ہے .بلوچستان اور کشمیر میں روزانہ ہی انسانی المیے جنم لے رہے ہیں - مشرق وسطہ میں لگنے والی یہ آگ شام ، عراق ، یمن اور فلسطین کو بری طرح جھلسا رہی ہے ، دنیا میں پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے لیکن اس کی جڑ وہی شدت پسندی ہے جس نے کروڑوں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے -جہاں لاتعداد بچے بوڑھے جوان مرد اور عورتیں بھوک ، بیماری اور دوسرے اندوہناک مسائل سے نمٹ رہے ہیں -
بظاہر دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو خود غرضی اور بے حسی جیسے سرد رویوں نے افراد کو اتنا ہی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے * ترکی کی مشھور ناول نگار ایلف شفق پناہ گزینوں کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے
ایک جرمن مصنف کا حوالہ دیتی ہے جو اکیسویں صدی کے سیاہ ترین المیہ کے بارے میں کہتا ہے *مصور پال کلی
Paul Klee
نے انیس سو بیس میں ایک فرشتے کی تجریدی پینٹنگ بنائی تھی جس میں وہ ایک ایسی غیر یقینی صورت حال سے دوچار دکھائی دیا گیا ہے جیسے کسی چوکھٹے میں پھنس کر رہ گیا ہو ایسے میں اس کے چہرے پر جو بے بسی اور خوف کے تاثرات ہیں وہی پینٹنگ کی خاص بات ہے یہی تاثر اسے پناہ کی تلاش میں بھاگتے ایک پناہ گزین کے چہرے پر اس وقت نظر آیا جب وہ اپنی بچی کچی متاع حیات ایک چھوٹے سے تھیلے کو بغل میں دبائے اپنے چھوٹے سے بچے کو گود میں لئے ادھر ادھر چھپنے کی کوشش میں مصروف تھا اور اس کی شدید سراسیمگی کی حالت سے بے خبر ہنگری کی فلم رپورٹر اس کی وڈیو بنانے میں لگی تھی تب اس نے رپورٹر کی جانب ایسی نظروں سے دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہو کیا واقعی ایسا بھی ممکن ہے جب ا س کے جیسا ہی ایک انسان اس کے دکھ سے بے خبر اس کی تکلیف کا مداوا کرنے کے بجائے محض اپنے فائدے کے لئے اس کی تکلیف کو کیش کرنے میں مصروف ہو اور اس بے بس انسان کو دوسرے انسان کی بے حسی پر یقین نہیں آ رہا ہو -شائد اکیسویں صدی کے اسی سیاہ ترین المیہ کو بیسویں صدی کے اوائل میں اس آرٹسٹ نے فرشتے کی بے بسی سے تعبیر کیا تھا - گویا اسے آنے والے دور میں انسانوں کی حد درجہ بڑھی ہوئی بے حسی کا ادراک ہو گیا تھا اور اس کا فرشتہ ایسے ہی ابن الوقت انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا میں پھنس کر حیران و پریشان کھڑا رہ گیا تھا - جب ہم اپنے اطراف دیکھتے ہیں پھٹتے ہوئے بموں اور جلتی ہوئی لاشوں کے درمیان لوگ کھڑے سلفیاں لے رہے ہوتے ہیں اور گینگ ریپ ہوتی ہوئی عورتوں کی داد رسی کرنے کے بجائے ان کی ویڈیوز یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہی انسانیت کی خدمت ہے -تو اس وقت ایلف شفق کی یہ مثال بہت عام اور بے معنی سی محسوس ہوتی ہے کہ اس دور کے سیاہ ترین المیے اپنے انتہا کو پہنچ چکے ہیں -دیدبان کے اس شمارے میں موجود تخلیق کاروں کے احساس کو نظموں ، افسانوں اور مضامین کی صورت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ گلوبلائزیشن جنگوں اور بے حسی کے تناظر میں ادب کو پروان چڑھایا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ آج کا ادیب نیرو کی طرح چین کی بنسی نہیں بجا رہا بلکہ ہر لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کو اپنی نظموں اور کہانیوں میں جذب کر کے ادب کے قارئین تک پہنچا رہا ہے - --------------------
*The turmoil of today's world: leading writers respond to the refugee crisis- Guardian 12 Sept 2015
اداریہ شمارہ ۔۶
اکیسویں صدی میں شدت پسندی سے دوچار روہنگیا اور دوسرے معاشرتی گروہ اور ادبی ردعمل
سلمیٰ جیلانی
دیدبان اون لائن ادبی جریدہ اپنے چھٹے شمارے کے ساتھ پوری دنیا کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لئے حاضر خدمت ہے -گزشتہ تمام شماروں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی عصر حاضر کے المیوں کو موضوع سخن بنانے کی کوشش کی گئی ہے -انسانی معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے والا شدت پسندی کا عنصر اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی نائن الیون کے سانحے کے بعد سے اپنے زوروں پر ہے دہشت گردی کی جو لہر اٹھی ہے وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی اگرچہ اس کا بیج بیسویں صدی کے آخر میں ہی بو دیا گیا تھا مگر یہ فصل بہت سے سر کاٹ لے گئی اور کاٹے چلی جا رہی ہے یہ لہر اس وقت برما کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور وہاں کی روہنگیا آبادی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے .ہندستان میں بھی اسی طرح کے شدت پسند رویوں نے اس قدر زور پکڑا ہے کہ وہاں کی اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے سے قاصر ہیں یہی نہیں پاکستان میں ہزارہ برادری بھی اسی دہشت گردی کا شکار ہے .بلوچستان اور کشمیر میں روزانہ ہی انسانی المیے جنم لے رہے ہیں - مشرق وسطہ میں لگنے والی یہ آگ شام ، عراق ، یمن اور فلسطین کو بری طرح جھلسا رہی ہے ، دنیا میں پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے لیکن اس کی جڑ وہی شدت پسندی ہے جس نے کروڑوں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے -جہاں لاتعداد بچے بوڑھے جوان مرد اور عورتیں بھوک ، بیماری اور دوسرے اندوہناک مسائل سے نمٹ رہے ہیں -
بظاہر دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو خود غرضی اور بے حسی جیسے سرد رویوں نے افراد کو اتنا ہی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے * ترکی کی مشھور ناول نگار ایلف شفق پناہ گزینوں کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے
ایک جرمن مصنف کا حوالہ دیتی ہے جو اکیسویں صدی کے سیاہ ترین المیہ کے بارے میں کہتا ہے *مصور پال کلی
Paul Klee
نے انیس سو بیس میں ایک فرشتے کی تجریدی پینٹنگ بنائی تھی جس میں وہ ایک ایسی غیر یقینی صورت حال سے دوچار دکھائی دیا گیا ہے جیسے کسی چوکھٹے میں پھنس کر رہ گیا ہو ایسے میں اس کے چہرے پر جو بے بسی اور خوف کے تاثرات ہیں وہی پینٹنگ کی خاص بات ہے یہی تاثر اسے پناہ کی تلاش میں بھاگتے ایک پناہ گزین کے چہرے پر اس وقت نظر آیا جب وہ اپنی بچی کچی متاع حیات ایک چھوٹے سے تھیلے کو بغل میں دبائے اپنے چھوٹے سے بچے کو گود میں لئے ادھر ادھر چھپنے کی کوشش میں مصروف تھا اور اس کی شدید سراسیمگی کی حالت سے بے خبر ہنگری کی فلم رپورٹر اس کی وڈیو بنانے میں لگی تھی تب اس نے رپورٹر کی جانب ایسی نظروں سے دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہو کیا واقعی ایسا بھی ممکن ہے جب ا س کے جیسا ہی ایک انسان اس کے دکھ سے بے خبر اس کی تکلیف کا مداوا کرنے کے بجائے محض اپنے فائدے کے لئے اس کی تکلیف کو کیش کرنے میں مصروف ہو اور اس بے بس انسان کو دوسرے انسان کی بے حسی پر یقین نہیں آ رہا ہو -شائد اکیسویں صدی کے اسی سیاہ ترین المیہ کو بیسویں صدی کے اوائل میں اس آرٹسٹ نے فرشتے کی بے بسی سے تعبیر کیا تھا - گویا اسے آنے والے دور میں انسانوں کی حد درجہ بڑھی ہوئی بے حسی کا ادراک ہو گیا تھا اور اس کا فرشتہ ایسے ہی ابن الوقت انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا میں پھنس کر حیران و پریشان کھڑا رہ گیا تھا - جب ہم اپنے اطراف دیکھتے ہیں پھٹتے ہوئے بموں اور جلتی ہوئی لاشوں کے درمیان لوگ کھڑے سلفیاں لے رہے ہوتے ہیں اور گینگ ریپ ہوتی ہوئی عورتوں کی داد رسی کرنے کے بجائے ان کی ویڈیوز یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہی انسانیت کی خدمت ہے -تو اس وقت ایلف شفق کی یہ مثال بہت عام اور بے معنی سی محسوس ہوتی ہے کہ اس دور کے سیاہ ترین المیے اپنے انتہا کو پہنچ چکے ہیں -دیدبان کے اس شمارے میں موجود تخلیق کاروں کے احساس کو نظموں ، افسانوں اور مضامین کی صورت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ گلوبلائزیشن جنگوں اور بے حسی کے تناظر میں ادب کو پروان چڑھایا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ آج کا ادیب نیرو کی طرح چین کی بنسی نہیں بجا رہا بلکہ ہر لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کو اپنی نظموں اور کہانیوں میں جذب کر کے ادب کے قارئین تک پہنچا رہا ہے - --------------------
*The turmoil of today's world: leading writers respond to the refugee crisis- Guardian 12 Sept 2015