اداریہ - ' شمارہ -٤ ‘ سلمی جیلانی

اداریہ - ' شمارہ -٤ ‘ سلمی جیلانی

Mar 16, 2018

موجودہ عالمی انتشار کے اردو ادب پر اثرات

اداریہ

دیدبان ادبی جریدہ شمارہ چہارم 

سلمی جیلانی  

دیدبان اون لائن ادبی  جریدہ شمارہ چہارم قارئین کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش خدمت ہے اس کے ساتھ ہی عصر حاضر کی تین ادیب خواتین ڈاکٹر نسترن فتیحی ، سبین علی اور سلمیٰ جیلانی کی زیر ادارات یہ جریدہ اپنی اشاعت کے دوسرے سال میں داخل ہو گیا، اس ایک سال کی قلیل مدت میں اردو ادب کے نامور اور نوآموز قلم کاروں کے نہایت بیش قیمت قلمی تعاون نے زرخیز ادبی ، اور علمی مواد کی یکجائی اس ویبسائٹ پر ممکن بنائی دیدبان کی ادبی حلقوں میں مقبولیت کے پیش نظر اس کے منتخب مضامین اور دیگر نثر  کتابی شکل میں پیش کرنے کی کوشش اپنے اختتامی مراحل میں ہے اور جلد ہی کاغذ پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہو گی  چونکہ ہر دور میں زندہ ادب اس معاشرے کے مسائل اور رہن سہن کی عکاسی کرتا ہے جس میں اس کا ادیب و شاعر سانس لیتا ہے جہاں اس کی سوچ و فکر پروان چڑھتی ہے دید بان کا موجودہ شمارہ موجودہ عالمی انتشار  کے  اردو ادب پر اثرات  کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے میڈیا کی بالا دستی اور ذرائع ابلاغ کی وافر فراہمی نے جہاں معلومات کے حصول کو آسان بنا دیا ہے وہیں ہر سطح پر در آنے والی شدت پسندی اور ایسے  گروہوں کی طرف سے کی جانے والی ذہن سازی نے  صورت حال کو مبہم  اور گنجلک بنا دیا ہے ایسے میں دور جدید کا ادب  گہرے مشاہدے کا متقاضی ہے جہاں ادیب باطن کی پیچیدہ وادیوں میں گم ہونے کے بجائے اپنے اطراف کی تہذیبی زندگی کو باطنی کیفیات سے انسلاک کرتے ہوئے ایسے ادب پاروں میں ڈھالتا ہو جو معاشرے کے حقیقی روپ کو ایسے  رنگوں میں پیش کریں جو بیک وقت الجھتے اور بکھرتے ہوئے دکھائی دیں اور اس کے ساتھ ہی قاری کی تخلیقی وجدان کی آبیاری کرتے ہوئے اس کی فکر کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ  آگاہی کی نئی راہوں سے روشناس ہو سکے بیسویں صدی نے جہاں دو بڑی عالمی جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی عظیم تباہی کو اپنے جلو میں سمویا وہیں دنیا کو تعمیر کے نئے آہنگ سے روشناس کرایا لیکن اس کے ساتھ ہی طبقاتی نا  ہمواری نے پھیل کر اسے  ترقی یافتہ و ترقی پذیر بلاکوں میں تقسیم کر دیا اور آخر الذکر بلاک  جسے تیسری دنیا کا نام دیا گیا گوناگوں مسائل کا گھر بن گئی جن میں دن بدن عفریت کی طرح پھیلتی ہوئی بے روزگاری اور اس سے بھی بڑھ کر عقائد و نظریات میں در آنے والی شدت پسندی نے نا ختم ہونے والی خانہ جنگی اور تباہی کو بڑھاوا دیا - مارکسسٹ  ایرک ہوبس بون Erik Hobsbawan ، کارل جون کاؤتسکی Karl Johann Kautsky اور دیگر  ہم خیال دانش وروں نے عالمگیریت کا جو نظریہ پیش کیا اور بغیر سرحدوں کی دنیا کا جو خواب دیکھا تھا جس کے مطابق دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو عالمگیریت ہی مزید تباہی سے بچا سکتی ہے اور ملکی سرحدوں اور قومیتوں کی معنوی حثیت ختم ہو جانے جنگ کی بنیادوں پر طاقت کا توازن قائم کرنے والی بین القوامی سیاست اپنی موت آپ مر جائے گی متحدہ یورپ اور یورو کی شکل میں اس خواب کی تعبیر بھی کسی حد تک دنیا نے دیکھی لیکن اکیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی عالمگیریت کے ذریعے پائیدار امن کا قیام خواب و خیال ہی ثابت ہوا مشرق وسطہ میں پناہ گزینوں کا  عظیم انسانی بحران جس کی اہم کڑی ہے شام اور عراق میں ہونے والی خانہ جنگی نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا جو دوسری جنگ عظیم جس کے نتیجے میں پچاس لاکھ سے بھی زیادہ لوگ ہلاک ہوئے سے بھی بڑی تباہی کہی جا سکتی ہے ، لاکھوں بے خانماں برباد لوگ سردی بھوک اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یورپ کے گرد پھیلے خار دار تاروں کی باڑوں کے پیچھے پناہ گزین کیمپوں میں اپنے ہولناک مستقبل کے اندھیروں سے  خوف زدہ ترقی یافتہ دنیا کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں جبکہ  ترقی یافتہ دنیا شدت پسندی ، جنگ اور دہشت گردی کے اس عفریت کو تیسری دنیا تک ہی محدود رکھنے کی کوشش میں اپنی سرحدوں کو قومی بنیادوں پر مزید مستحکم کرنے میں پوری طرح منہمک اپنے عالمگیریت کے خواب کو خود ہی مسمار کرنے میں لگے ہیں چونکہ اردو کا ادیب بھی ایسے ہی معاشرے میں رہنے اور سانس لینے پر مجبور ہے جہاں جھوٹ اور منافقت کے زہریلے کاروبار نے فضاء کو مسموم کر دیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی تہذیبی روایتوں کو نئے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے نئی معنوی حیثیت سے روشناس کرایا جائے اور جدید راستوں کی ناہمواریوں کو علاقائی اور مقامی تقاضوں سے باہم منسلک کیا جائے تاکہ زمینی حقائق سے رو گردانی اور ایک یوٹوپیا کی تخلیق کا الزام نہ لگایا جا سکے  اور عالمگیریت کے اس خواب کو زندہ تعبیر کیا جائے ایسی ہی کچھ تخلیقات کو دیدبان چہارم میں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے آج کا تخلیق کار عالمی افق پر کس طرح کے استعارے اور تشبیہات لے کر ابھرتا ہے جو ایسے پیچیدہ اور گنجلک دور کی صحیح معنوں عکاسی کرتے ہوئے تادیر زندہ رہنے کا اعلان بھی کرتے ہوں، میری اپنی ذاتی رائے میں اردو کے ادیب کو مزید جرأت اظہار کی ضرورت ہے دیدبان پر بڑھتی ہوئی ترجموں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ موجودہ دور کا تخلیق کار  دنیا کو طبقاتی اور لسانی تقسیم سے بلند جذباتی اور فکری طور ہم آہنگ دیکھنے کے خواہش مند ہے  جنگ اور تباہی سے دور صرف انسانیت کی سربلندی کے لئے یکجا ہونے کا خواب دیکھتا ہے اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی اب تک پیش کی جانے والی کارکردگی پر تنقیدی اور تخلیقی آراء کا بھی بے چینی سے انتظار رہے گا سو کھلتا ہے  دروازہ خاور دیدبان شمارہ چہارم کی صورت میں 

 سلمیٰ جیلانی٥ اپریل ٢٠١٧

اداریہ

دیدبان ادبی جریدہ شمارہ چہارم 

سلمی جیلانی  

دیدبان اون لائن ادبی  جریدہ شمارہ چہارم قارئین کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش خدمت ہے اس کے ساتھ ہی عصر حاضر کی تین ادیب خواتین ڈاکٹر نسترن فتیحی ، سبین علی اور سلمیٰ جیلانی کی زیر ادارات یہ جریدہ اپنی اشاعت کے دوسرے سال میں داخل ہو گیا، اس ایک سال کی قلیل مدت میں اردو ادب کے نامور اور نوآموز قلم کاروں کے نہایت بیش قیمت قلمی تعاون نے زرخیز ادبی ، اور علمی مواد کی یکجائی اس ویبسائٹ پر ممکن بنائی دیدبان کی ادبی حلقوں میں مقبولیت کے پیش نظر اس کے منتخب مضامین اور دیگر نثر  کتابی شکل میں پیش کرنے کی کوشش اپنے اختتامی مراحل میں ہے اور جلد ہی کاغذ پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہو گی  چونکہ ہر دور میں زندہ ادب اس معاشرے کے مسائل اور رہن سہن کی عکاسی کرتا ہے جس میں اس کا ادیب و شاعر سانس لیتا ہے جہاں اس کی سوچ و فکر پروان چڑھتی ہے دید بان کا موجودہ شمارہ موجودہ عالمی انتشار  کے  اردو ادب پر اثرات  کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے میڈیا کی بالا دستی اور ذرائع ابلاغ کی وافر فراہمی نے جہاں معلومات کے حصول کو آسان بنا دیا ہے وہیں ہر سطح پر در آنے والی شدت پسندی اور ایسے  گروہوں کی طرف سے کی جانے والی ذہن سازی نے  صورت حال کو مبہم  اور گنجلک بنا دیا ہے ایسے میں دور جدید کا ادب  گہرے مشاہدے کا متقاضی ہے جہاں ادیب باطن کی پیچیدہ وادیوں میں گم ہونے کے بجائے اپنے اطراف کی تہذیبی زندگی کو باطنی کیفیات سے انسلاک کرتے ہوئے ایسے ادب پاروں میں ڈھالتا ہو جو معاشرے کے حقیقی روپ کو ایسے  رنگوں میں پیش کریں جو بیک وقت الجھتے اور بکھرتے ہوئے دکھائی دیں اور اس کے ساتھ ہی قاری کی تخلیقی وجدان کی آبیاری کرتے ہوئے اس کی فکر کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ  آگاہی کی نئی راہوں سے روشناس ہو سکے بیسویں صدی نے جہاں دو بڑی عالمی جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی عظیم تباہی کو اپنے جلو میں سمویا وہیں دنیا کو تعمیر کے نئے آہنگ سے روشناس کرایا لیکن اس کے ساتھ ہی طبقاتی نا  ہمواری نے پھیل کر اسے  ترقی یافتہ و ترقی پذیر بلاکوں میں تقسیم کر دیا اور آخر الذکر بلاک  جسے تیسری دنیا کا نام دیا گیا گوناگوں مسائل کا گھر بن گئی جن میں دن بدن عفریت کی طرح پھیلتی ہوئی بے روزگاری اور اس سے بھی بڑھ کر عقائد و نظریات میں در آنے والی شدت پسندی نے نا ختم ہونے والی خانہ جنگی اور تباہی کو بڑھاوا دیا - مارکسسٹ  ایرک ہوبس بون Erik Hobsbawan ، کارل جون کاؤتسکی Karl Johann Kautsky اور دیگر  ہم خیال دانش وروں نے عالمگیریت کا جو نظریہ پیش کیا اور بغیر سرحدوں کی دنیا کا جو خواب دیکھا تھا جس کے مطابق دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو عالمگیریت ہی مزید تباہی سے بچا سکتی ہے اور ملکی سرحدوں اور قومیتوں کی معنوی حثیت ختم ہو جانے جنگ کی بنیادوں پر طاقت کا توازن قائم کرنے والی بین القوامی سیاست اپنی موت آپ مر جائے گی متحدہ یورپ اور یورو کی شکل میں اس خواب کی تعبیر بھی کسی حد تک دنیا نے دیکھی لیکن اکیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی عالمگیریت کے ذریعے پائیدار امن کا قیام خواب و خیال ہی ثابت ہوا مشرق وسطہ میں پناہ گزینوں کا  عظیم انسانی بحران جس کی اہم کڑی ہے شام اور عراق میں ہونے والی خانہ جنگی نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا جو دوسری جنگ عظیم جس کے نتیجے میں پچاس لاکھ سے بھی زیادہ لوگ ہلاک ہوئے سے بھی بڑی تباہی کہی جا سکتی ہے ، لاکھوں بے خانماں برباد لوگ سردی بھوک اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یورپ کے گرد پھیلے خار دار تاروں کی باڑوں کے پیچھے پناہ گزین کیمپوں میں اپنے ہولناک مستقبل کے اندھیروں سے  خوف زدہ ترقی یافتہ دنیا کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں جبکہ  ترقی یافتہ دنیا شدت پسندی ، جنگ اور دہشت گردی کے اس عفریت کو تیسری دنیا تک ہی محدود رکھنے کی کوشش میں اپنی سرحدوں کو قومی بنیادوں پر مزید مستحکم کرنے میں پوری طرح منہمک اپنے عالمگیریت کے خواب کو خود ہی مسمار کرنے میں لگے ہیں چونکہ اردو کا ادیب بھی ایسے ہی معاشرے میں رہنے اور سانس لینے پر مجبور ہے جہاں جھوٹ اور منافقت کے زہریلے کاروبار نے فضاء کو مسموم کر دیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی تہذیبی روایتوں کو نئے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے نئی معنوی حیثیت سے روشناس کرایا جائے اور جدید راستوں کی ناہمواریوں کو علاقائی اور مقامی تقاضوں سے باہم منسلک کیا جائے تاکہ زمینی حقائق سے رو گردانی اور ایک یوٹوپیا کی تخلیق کا الزام نہ لگایا جا سکے  اور عالمگیریت کے اس خواب کو زندہ تعبیر کیا جائے ایسی ہی کچھ تخلیقات کو دیدبان چہارم میں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے آج کا تخلیق کار عالمی افق پر کس طرح کے استعارے اور تشبیہات لے کر ابھرتا ہے جو ایسے پیچیدہ اور گنجلک دور کی صحیح معنوں عکاسی کرتے ہوئے تادیر زندہ رہنے کا اعلان بھی کرتے ہوں، میری اپنی ذاتی رائے میں اردو کے ادیب کو مزید جرأت اظہار کی ضرورت ہے دیدبان پر بڑھتی ہوئی ترجموں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ موجودہ دور کا تخلیق کار  دنیا کو طبقاتی اور لسانی تقسیم سے بلند جذباتی اور فکری طور ہم آہنگ دیکھنے کے خواہش مند ہے  جنگ اور تباہی سے دور صرف انسانیت کی سربلندی کے لئے یکجا ہونے کا خواب دیکھتا ہے اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی اب تک پیش کی جانے والی کارکردگی پر تنقیدی اور تخلیقی آراء کا بھی بے چینی سے انتظار رہے گا سو کھلتا ہے  دروازہ خاور دیدبان شمارہ چہارم کی صورت میں 

 سلمیٰ جیلانی٥ اپریل ٢٠١٧

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024