اداریہ .' شمارہ -٢‘ نسترن احسن فتیحی
اداریہ .' شمارہ -٢‘ نسترن احسن فتیحی
Mar 16, 2018
اداریہ مادری زبان اردو اور اردو ڈائسپورا
دیدبان شمارہ ۔ ۲
اداریہ مادری زبان اردو اور اردو ڈائسپورا
نسترن احسن فتیحی
ایک زندہ زبان ہی ایک زندہ قوم کی علامت ہوتی ہے تاریخ اس بات کی پوری طرح شاہد ہے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ و جاوید رہی ہیں جنہوں نے اپنی لسانی ، اور ثقافتی شناخت کو زندہ رکھا ہے۔ ہر قوم کی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کا قومی تشخص ہوتا ہے، جو اس کی زبان میں جھلکتا ہے۔اس طرح ہر قوم اپنی ثقافتی زبان کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ اگر وہ مردہ ہو چکی ہو تو اس کو وہ زندہ کرتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں گم شدہ زبانوں کو زندہ کیا گیا ہے۔ یونانی زبان مردہ تھی۔حکومت یونان نے اس کا پڑھنا لازمی کر دیا ہے۔ عبرانی مردہ تھی، اسرائیل نے اسے سرکاری زبان قرار دے کر زندہ کر لیا۔ سنسکرت مردہ زبان تھی، حکومت ہند نے اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ مذہبی ضروریات اور تفاخر نے سنسکرت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ یہ زبان جو کبھی دھرم شالائوں اور جوگی سنیاسیوں تک محدود ہو گئی تھی بڑی محنتوں کے بعد اس کے بولنے والوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ گویا زبانیں ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں اس لئے قومیں یا لسانی اور تہذیبی گروہ اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہیں .عالم کاری کے اس دور میں عصر حاضر کا تہذیبی ،سیاسی ،سماجی اور ثقافتی منظر نامہ ہماری تہذیبی ،سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سوچ پر اثر انداز ہو رہا ہے اور ہماری لسانی اور اور تہذیبی رنگا رنگی کو گلوبل یک رنگی میں تبدیل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ اس کے مضر اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں زبانوں کے بارے میں بحرانی کیفیت ہے۔ بات رسم الخط کی نہیں خود زبانیں بھی مر رہی ہیں۔ اس وقت دنیا کی چھوٹی بڑی چھ ہزار زبانوں کا قتل عام جاری ہے، بہت سی مر چکی ہیں، اور بہت سی مر رہی ہیں۔ ہندوستان کی گیارہ معدوم زبانوں میں سے نو کا تعلق جزائر ِاندمان سے ہے جب کہ دو زبانیں بھارتی سر زمین سے تعلق رکھتی ہیں۔ تائی اَہُم بھارت کی مشرقی ریاست آسام اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی تھی لیکن آج یہ ختم ہو چکی ہے۔ جزائر اندمان کی زبانیں جو ختم ہو گئیں ان کے نام یہ ہیں: اکابیا، اکابو، اکاکاری، اکاجیرو، اکاکیدے، اکاکول، اکاکورا، اکربالے، اوراوکو جو وائے۔ ان زبانوں کو زندہ رہنا چاہئے تھا کیونکہ ان کا زندہ رہنا تہذیب کا زندہ رہنا ہے۔ زبان کی بقا ء اور ارتقا ء پر اس وقت تک آنچ نہیں آ سکتی جب تک کہ اس کی جڑیں اپنی تہذیب ،اپنی ثقافت کی گہرائی میں پیو ست رہتی ہیں.زبان و ادب اپنا ایک تاریخی اور ثقافتی سیاق رکھتا ہے جو اپنی زبان کے اعلی ترین اظہار کا تحفظ کرتا ہے .ہماری مادری زبان اردو پچھلے چھہ سو سال یعنی سولہویں صدی عیسوی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے توسط سے ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کی ساخت کی تشکیل میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا تعاون رہا ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔ ہماری مادری زبان اردو ایک ایسی زندہ زبان ہے جواپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ گویا یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے کیونکہ اس کی بنیاد مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے رہتےہیں نتیجتا اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی ، عربی فارسی ، پرتگالی، اطالوی، چینی ، انگریزی ، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشا یا ہندی سے لیے گئے ہیں۔ غیر زبانوں سے جو الفاظ براہ اردو زبان و ادب کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ماضی میں مشترک تھا مگر بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں یہ انار کے دانوں کی طرح بکھر گیا ہے جس کے نتیجے میں اردو کی بہت سی علا قایٔ شکلیں بن رہی ہیں . لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنی سرحدی ،علاقائی ،جغرافیائی ،اور سماجی مغائرت کے باوجود اردو کی یہ علا قایٔ شکلیں ماضی کی تہذیبی اور ثقا فتی مماثلت بھی رکھتی ہیں . اسی لئے ان کے امکانات یا خدشات ایک جیسے ہیں ،زندگی سے جھانکتی ہوئی سچائیاں بھی ایک ہیں ۔ اردومیں بے پناہ وسعت ہے اور یہ ہر چیز کا احاطہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اس زبان نے گذشتہ سو سالوں میں جتنی ترقی کی ہے وہ اس کے شاندار مستقبل کی ضامن ہے۔ آج ہماری مادری زبان اردو ایک نئ صورت حال سے دوچار ہے جہاں اس کے بولنے والےتارکین وطن یعنی ڈائسپورک Diasporic ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نئ صورت حال اردو کی سرحدوں کو وسیع سے وسیع تر کرتی جارہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اس ڈائسپورک Diasporic آبادی کا اردو سے لسانی و ثقافتی رشتہ ہنوز قایم ہے۔ مادری زبان کی طرف کشش فطری و جذباتی ہے وہ زبان جس کو انسان بچپن سے بولتا اور سنتا آیا ہے اسے وہ دل و جان سے چاہتا ہے۔ اس لیے بعض لوگ اس کو دل کی زبان کہتے ہیں۔ ڈائسپورا Diaspora کی دوسری زبان کاروباری ہوتی ہے جو اسے روزگار فراہم کر کے ترقی کے راستہ پر لے جا تی ہے۔اسے روٹی کی زبان کہہ سکتے ہیں۔ ڈائسپورک Diasporic آبادی کے لیے یہ دونوں پہلو ایک ہی زبان میں مل پانا تقریبا ناممکن ہے اس لیے اردو کے حوالے سے یہ بات صادق نہیں آسکتی۔لیکن زبان کے عمرانی (social)کردار سے شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔ معاشرے اور زبان کے درمیان قریبی رشتہ ہمیشہ سے رہاہے۔ سماج میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل، چاہے وہ سیاسی ہوں یا تہذیبی ، نظریاتی ہوں یا اقتصادی، زبان پر اپنے اثرات (بالواسطہ یا بلا واسطہ) ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا زبان پر غورو خوض کرتے وقت اس کی عمرانی فطرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی ڈائسپورک Diasporic آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اردو کی تہذیبی اور ثقافتی اہمیت کو سمجھے اور نئ نسل کو اس سے واقف کراۓ اس کے لیے لسانی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہےاس منصوبہ بندی کو کچھ اس طرح سے بروئے کار لایا جائے جونئ نسل کے لسانی ترقی میں مہارت پیش کر سکیں۔دریدا( Jacques Derrida) نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ...."میں خود کو صرف اپنی مادری زبان میں لوکیٹ کر سکتا ہوں ." تقریبا یہ کیفیت اردو قاری کی ہے۔ اردو ڈیاسپورا یعنی عالمی منظر نامے پر بکھرے ہوئے اردو زبان و ادب کے قاری اور تخلیق کار اپنی اسی مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی وراثت میں خود کو لوکیٹ کر رہے ہیں.اور نئی ٹیکنالوجی کی وساطت سے ایک دوسرے کے قریب آنے کی جستجو کرتے ہیں۔ .یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ یہ نیرنگیاں اردو زبان و ادب میں کس کس انداز میں جلوہ گر ہونگی . آج کے دور کا تخلیق کا ر اپنی نظریاتی اور فکری تخلیق میں اپنے عہد کی زندگی اور زمانہ کے نشیب و فراز سے متعلق سچایوں کو کس حد تک سمیٹ رہے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے .کیونکہ اب اس کے سامنے صرف اپنا سماج ، عقیدہ ، فرقہ یا طبقہ نہیں ہے ،بلکہ پورے عالم کی انسانیت پر ہو رہے مظالم اور طاقت کے مظاہرے اور اخلاقی ،سماجی و سیاسی پستی کی تلخ حقیقتیں عریاں ہو چکی ہیں جس سے وہ چاہ کر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا .کیونکہ ادب ہمیں سوچنا سکھاتا ہے ،یہ ادب ہی ہے جو وقت کے جبر کو برہنہ کر دیتا ہے ،ادب ایک مستقل مزاحمت ہے .زبان و ادب ہماری شناخت ہی نہیں ہماری طاقت ہے ،جو ہر حد بندی کو توڑتا ہے ،ادب اپنے وقت سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور یہ ادب ہی ہے جو ماضی اور مستقبل کو حال میں لاکر کھڑا کر دیتا ہے .ایک عمدہ ادب ہر تفریق کو مٹا کر انسان اور انسانیت کے وسیع و عظیم تر مفادات کو اپنے دائرے میں لاتا ہے .اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہر تخلیق کار اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروۓ کار لا کر اپنی تخلیق کے منفرد اور عظیم ہونے کا احساس دلاتا .
دیدبان کا مقصد اسے اپنے وقت کی توانا آواز بنانے کا ہے . مشاہیر ادب کی نگارشات کو دور دور تک پہنچانا ہمارا شوق ہی نہیں ،لازمہ بھی ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی – ہم نے اس شمارے میں بر صغیر پاک و ہند کی معتبر و معروف ہستیوں کے ساتھ کچھ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو بھی جگہ دی ہے کہ ان کی نمایندگی بھی ضروری ہے ..اس کے علاوہ ٢٠١٦ نے ادب کی دنیا کی بہت سی معروف اور معتبر ہستیوں سے ادب کا دامن خالی کر دیا مگر انکی تحریریں ادب کا لازوال سرمایہ ہیں ، اس اہم شمارے میں ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی سعی کر رہے ہیں ، اردو زبان کے ڈائیسپورک کلچر کے لئے یہ سارے نام بے حد اہم ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہند و پاک دونوں جگہ سے رہا اور اپنی زندگی کے سفر میں بیشتر تخلیق کار نے اس گلوب کے سرد گرم کو دیکھا اور اپنی تحریروں میں اپنے مشاہدات کو جگہ دی - ان کی حیات و خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے.صد افسوس کہ ایسے ناموں کی فہرست طویل ہو گئی ہے جو ادبی دنیا میں خلا پیدا کر گئے،ہم نے زیادہ سے زیادہ ناموں کی تفصیلات کو ایک سند کے طور پر اس میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے. ان میں سے جن معروف ہستیوں پر ہمیں الگ سے مضامین ملے اسے خراج عقیدت کے بینر تلے شامل کیا ہے اور باقی ناموں کو اسی بینرکے ساتھ ایک الگ پوسٹ میں شامل کیا گیا ہے . ہم نے نئی نسل کے ان شائقین کے لئے جسے اردو ادب میں تو دلچسپی ہے پروہ اردو زبان پر قادر نہیں ، ان کے لئے کوشش کی ہے کہ کچھ انگریزی میں مضامین اور ترجمے شامل کریں تاکہ وہ بھی اردو ادب سے فیض یاب ہو سکیں. میں ان سار ے ارباب قلم کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اپنا قلمی تعا ون دیا – خاص کر انہماک فورم کے منتظم سید تحسین گیلانی اور سیدہ تسکین کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فرض سمجھتی ہوں کہ انہوں نے مائیکرو فکشن کی پیشکش میں ہماری ہر ممکن مدد کی . دیدبان کے ان سارے قارئین کا بھی تہ دل سے شکریہ جنہوں نے ہماری اس ادنی کاوش کو ہر طرح سے سراہا اپنی رائے سے نوازا اور ہمیں ہر طرح کا تعاون فراہم کیا - میں دیدبان کی مجلس ادارت میں شَامل اپنی رفیق کار سلمی جیلانی اور سبین علی کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ٹیم ورک کی طاقت کا صحیح معنوں میں ادراک کرایا ،اور ایک خوبصورت خواب کو شرمندہ تعبیر کروایا . ہمیں آپ کے تاثرات اور مفید مشوروں کا آئندہ بھی انتظار رہے گا جن کی مدد سے اس آن لائین جریدے کو مزید بہتر اور معیاری بنایا جا سکے .
...............
دیدبان شمارہ ۔ ۲
اداریہ مادری زبان اردو اور اردو ڈائسپورا
نسترن احسن فتیحی
ایک زندہ زبان ہی ایک زندہ قوم کی علامت ہوتی ہے تاریخ اس بات کی پوری طرح شاہد ہے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ و جاوید رہی ہیں جنہوں نے اپنی لسانی ، اور ثقافتی شناخت کو زندہ رکھا ہے۔ ہر قوم کی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کا قومی تشخص ہوتا ہے، جو اس کی زبان میں جھلکتا ہے۔اس طرح ہر قوم اپنی ثقافتی زبان کو بہت عزیز رکھتی ہے۔ اگر وہ مردہ ہو چکی ہو تو اس کو وہ زندہ کرتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں گم شدہ زبانوں کو زندہ کیا گیا ہے۔ یونانی زبان مردہ تھی۔حکومت یونان نے اس کا پڑھنا لازمی کر دیا ہے۔ عبرانی مردہ تھی، اسرائیل نے اسے سرکاری زبان قرار دے کر زندہ کر لیا۔ سنسکرت مردہ زبان تھی، حکومت ہند نے اس کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ مذہبی ضروریات اور تفاخر نے سنسکرت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ یہ زبان جو کبھی دھرم شالائوں اور جوگی سنیاسیوں تک محدود ہو گئی تھی بڑی محنتوں کے بعد اس کے بولنے والوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ گویا زبانیں ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں اس لئے قومیں یا لسانی اور تہذیبی گروہ اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہیں .عالم کاری کے اس دور میں عصر حاضر کا تہذیبی ،سیاسی ،سماجی اور ثقافتی منظر نامہ ہماری تہذیبی ،سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سوچ پر اثر انداز ہو رہا ہے اور ہماری لسانی اور اور تہذیبی رنگا رنگی کو گلوبل یک رنگی میں تبدیل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ اس کے مضر اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں زبانوں کے بارے میں بحرانی کیفیت ہے۔ بات رسم الخط کی نہیں خود زبانیں بھی مر رہی ہیں۔ اس وقت دنیا کی چھوٹی بڑی چھ ہزار زبانوں کا قتل عام جاری ہے، بہت سی مر چکی ہیں، اور بہت سی مر رہی ہیں۔ ہندوستان کی گیارہ معدوم زبانوں میں سے نو کا تعلق جزائر ِاندمان سے ہے جب کہ دو زبانیں بھارتی سر زمین سے تعلق رکھتی ہیں۔ تائی اَہُم بھارت کی مشرقی ریاست آسام اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی تھی لیکن آج یہ ختم ہو چکی ہے۔ جزائر اندمان کی زبانیں جو ختم ہو گئیں ان کے نام یہ ہیں: اکابیا، اکابو، اکاکاری، اکاجیرو، اکاکیدے، اکاکول، اکاکورا، اکربالے، اوراوکو جو وائے۔ ان زبانوں کو زندہ رہنا چاہئے تھا کیونکہ ان کا زندہ رہنا تہذیب کا زندہ رہنا ہے۔ زبان کی بقا ء اور ارتقا ء پر اس وقت تک آنچ نہیں آ سکتی جب تک کہ اس کی جڑیں اپنی تہذیب ،اپنی ثقافت کی گہرائی میں پیو ست رہتی ہیں.زبان و ادب اپنا ایک تاریخی اور ثقافتی سیاق رکھتا ہے جو اپنی زبان کے اعلی ترین اظہار کا تحفظ کرتا ہے .ہماری مادری زبان اردو پچھلے چھہ سو سال یعنی سولہویں صدی عیسوی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے توسط سے ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کی ساخت کی تشکیل میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا تعاون رہا ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔ ہماری مادری زبان اردو ایک ایسی زندہ زبان ہے جواپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ گویا یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے کیونکہ اس کی بنیاد مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے رہتےہیں نتیجتا اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی ، عربی فارسی ، پرتگالی، اطالوی، چینی ، انگریزی ، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشا یا ہندی سے لیے گئے ہیں۔ غیر زبانوں سے جو الفاظ براہ اردو زبان و ادب کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ماضی میں مشترک تھا مگر بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں یہ انار کے دانوں کی طرح بکھر گیا ہے جس کے نتیجے میں اردو کی بہت سی علا قایٔ شکلیں بن رہی ہیں . لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنی سرحدی ،علاقائی ،جغرافیائی ،اور سماجی مغائرت کے باوجود اردو کی یہ علا قایٔ شکلیں ماضی کی تہذیبی اور ثقا فتی مماثلت بھی رکھتی ہیں . اسی لئے ان کے امکانات یا خدشات ایک جیسے ہیں ،زندگی سے جھانکتی ہوئی سچائیاں بھی ایک ہیں ۔ اردومیں بے پناہ وسعت ہے اور یہ ہر چیز کا احاطہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اس زبان نے گذشتہ سو سالوں میں جتنی ترقی کی ہے وہ اس کے شاندار مستقبل کی ضامن ہے۔ آج ہماری مادری زبان اردو ایک نئ صورت حال سے دوچار ہے جہاں اس کے بولنے والےتارکین وطن یعنی ڈائسپورک Diasporic ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نئ صورت حال اردو کی سرحدوں کو وسیع سے وسیع تر کرتی جارہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اس ڈائسپورک Diasporic آبادی کا اردو سے لسانی و ثقافتی رشتہ ہنوز قایم ہے۔ مادری زبان کی طرف کشش فطری و جذباتی ہے وہ زبان جس کو انسان بچپن سے بولتا اور سنتا آیا ہے اسے وہ دل و جان سے چاہتا ہے۔ اس لیے بعض لوگ اس کو دل کی زبان کہتے ہیں۔ ڈائسپورا Diaspora کی دوسری زبان کاروباری ہوتی ہے جو اسے روزگار فراہم کر کے ترقی کے راستہ پر لے جا تی ہے۔اسے روٹی کی زبان کہہ سکتے ہیں۔ ڈائسپورک Diasporic آبادی کے لیے یہ دونوں پہلو ایک ہی زبان میں مل پانا تقریبا ناممکن ہے اس لیے اردو کے حوالے سے یہ بات صادق نہیں آسکتی۔لیکن زبان کے عمرانی (social)کردار سے شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔ معاشرے اور زبان کے درمیان قریبی رشتہ ہمیشہ سے رہاہے۔ سماج میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل، چاہے وہ سیاسی ہوں یا تہذیبی ، نظریاتی ہوں یا اقتصادی، زبان پر اپنے اثرات (بالواسطہ یا بلا واسطہ) ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا زبان پر غورو خوض کرتے وقت اس کی عمرانی فطرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی ڈائسپورک Diasporic آبادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اردو کی تہذیبی اور ثقافتی اہمیت کو سمجھے اور نئ نسل کو اس سے واقف کراۓ اس کے لیے لسانی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہےاس منصوبہ بندی کو کچھ اس طرح سے بروئے کار لایا جائے جونئ نسل کے لسانی ترقی میں مہارت پیش کر سکیں۔دریدا( Jacques Derrida) نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ...."میں خود کو صرف اپنی مادری زبان میں لوکیٹ کر سکتا ہوں ." تقریبا یہ کیفیت اردو قاری کی ہے۔ اردو ڈیاسپورا یعنی عالمی منظر نامے پر بکھرے ہوئے اردو زبان و ادب کے قاری اور تخلیق کار اپنی اسی مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی وراثت میں خود کو لوکیٹ کر رہے ہیں.اور نئی ٹیکنالوجی کی وساطت سے ایک دوسرے کے قریب آنے کی جستجو کرتے ہیں۔ .یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ یہ نیرنگیاں اردو زبان و ادب میں کس کس انداز میں جلوہ گر ہونگی . آج کے دور کا تخلیق کا ر اپنی نظریاتی اور فکری تخلیق میں اپنے عہد کی زندگی اور زمانہ کے نشیب و فراز سے متعلق سچایوں کو کس حد تک سمیٹ رہے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے .کیونکہ اب اس کے سامنے صرف اپنا سماج ، عقیدہ ، فرقہ یا طبقہ نہیں ہے ،بلکہ پورے عالم کی انسانیت پر ہو رہے مظالم اور طاقت کے مظاہرے اور اخلاقی ،سماجی و سیاسی پستی کی تلخ حقیقتیں عریاں ہو چکی ہیں جس سے وہ چاہ کر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا .کیونکہ ادب ہمیں سوچنا سکھاتا ہے ،یہ ادب ہی ہے جو وقت کے جبر کو برہنہ کر دیتا ہے ،ادب ایک مستقل مزاحمت ہے .زبان و ادب ہماری شناخت ہی نہیں ہماری طاقت ہے ،جو ہر حد بندی کو توڑتا ہے ،ادب اپنے وقت سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور یہ ادب ہی ہے جو ماضی اور مستقبل کو حال میں لاکر کھڑا کر دیتا ہے .ایک عمدہ ادب ہر تفریق کو مٹا کر انسان اور انسانیت کے وسیع و عظیم تر مفادات کو اپنے دائرے میں لاتا ہے .اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہر تخلیق کار اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروۓ کار لا کر اپنی تخلیق کے منفرد اور عظیم ہونے کا احساس دلاتا .
دیدبان کا مقصد اسے اپنے وقت کی توانا آواز بنانے کا ہے . مشاہیر ادب کی نگارشات کو دور دور تک پہنچانا ہمارا شوق ہی نہیں ،لازمہ بھی ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی – ہم نے اس شمارے میں بر صغیر پاک و ہند کی معتبر و معروف ہستیوں کے ساتھ کچھ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو بھی جگہ دی ہے کہ ان کی نمایندگی بھی ضروری ہے ..اس کے علاوہ ٢٠١٦ نے ادب کی دنیا کی بہت سی معروف اور معتبر ہستیوں سے ادب کا دامن خالی کر دیا مگر انکی تحریریں ادب کا لازوال سرمایہ ہیں ، اس اہم شمارے میں ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی سعی کر رہے ہیں ، اردو زبان کے ڈائیسپورک کلچر کے لئے یہ سارے نام بے حد اہم ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہند و پاک دونوں جگہ سے رہا اور اپنی زندگی کے سفر میں بیشتر تخلیق کار نے اس گلوب کے سرد گرم کو دیکھا اور اپنی تحریروں میں اپنے مشاہدات کو جگہ دی - ان کی حیات و خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے.صد افسوس کہ ایسے ناموں کی فہرست طویل ہو گئی ہے جو ادبی دنیا میں خلا پیدا کر گئے،ہم نے زیادہ سے زیادہ ناموں کی تفصیلات کو ایک سند کے طور پر اس میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے. ان میں سے جن معروف ہستیوں پر ہمیں الگ سے مضامین ملے اسے خراج عقیدت کے بینر تلے شامل کیا ہے اور باقی ناموں کو اسی بینرکے ساتھ ایک الگ پوسٹ میں شامل کیا گیا ہے . ہم نے نئی نسل کے ان شائقین کے لئے جسے اردو ادب میں تو دلچسپی ہے پروہ اردو زبان پر قادر نہیں ، ان کے لئے کوشش کی ہے کہ کچھ انگریزی میں مضامین اور ترجمے شامل کریں تاکہ وہ بھی اردو ادب سے فیض یاب ہو سکیں. میں ان سار ے ارباب قلم کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اپنا قلمی تعا ون دیا – خاص کر انہماک فورم کے منتظم سید تحسین گیلانی اور سیدہ تسکین کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فرض سمجھتی ہوں کہ انہوں نے مائیکرو فکشن کی پیشکش میں ہماری ہر ممکن مدد کی . دیدبان کے ان سارے قارئین کا بھی تہ دل سے شکریہ جنہوں نے ہماری اس ادنی کاوش کو ہر طرح سے سراہا اپنی رائے سے نوازا اور ہمیں ہر طرح کا تعاون فراہم کیا - میں دیدبان کی مجلس ادارت میں شَامل اپنی رفیق کار سلمی جیلانی اور سبین علی کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ٹیم ورک کی طاقت کا صحیح معنوں میں ادراک کرایا ،اور ایک خوبصورت خواب کو شرمندہ تعبیر کروایا . ہمیں آپ کے تاثرات اور مفید مشوروں کا آئندہ بھی انتظار رہے گا جن کی مدد سے اس آن لائین جریدے کو مزید بہتر اور معیاری بنایا جا سکے .
...............