اداریہ شمارہ ۱۳'نسترن احسن فتیحی'
اداریہ شمارہ ۱۳'نسترن احسن فتیحی'
Apr 23, 2021
عالمگیر وبائی مرض کورونا اور ادب
اداریہ
عالمگیر وبائی مرض ’کورونا‘ اور ادب
نسترن احسن فتیحی
دیدبان کا بارہواں شمارہ ’مابعد کرونا نمبر‘ نومبر۰۲۰۲ میں منظر عام پر آچکا ہے ۔جسمیں دیدبان کی قابل مدیرہ سلمی جیلانی نے اپنے اداریہ میں تاریخ میں رونما ہونے والے پینڈیمک کےاثرات اور اس پر لکھے جانے والے مواد کا واضح اشارہ دیا ہے یعنی دنیا پہلی بار ایسی صورت سے دوچار نہیں ہوئی ۔۔ ماضی میں بھی کئی بار وباء نے انسانی زندگیوں کو تہ و بالا کیا ہے،جس میں سے ’اسپینش فلو‘ نے دنیا کو تقریباً ایسے ہی حالات سے دوچار کیا تھا۔
کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔influenza pandemic1918 جسے
جو دنیا کی ایک تہائی آبادی پر اثر انداز ہوئی تھی اور اس وباء سے پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی اموات (جو چار کروڑ تھی) سے زیادہ اموات ہوئی تھیں ۔مختلف ریسرچ کے مطابق اس وباء سے اس وقت پانچ سے دس کروڑ کے درمیان اموات ہوئی تھیں۔ مگر انسان کبھی ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتا، اسے بہت جلدی بھلا دیا گیا،اسی لئے اس کا ایک نام فارگوٹن پینڈیمک بھی رکھا گیا کیونکہ اس پرشروع میں خبروں کو چھپایا گیا تاکہ محاذ پر تعینات سپاہیوں کا حوصلہ نہ ٹوٹے۔ یہ پہلی عالمی جنگ جو۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ تک چلی ، اس وقت یہ وباء ۱۹۱۸ میں بیمار سپاہیو ں کے واپس اپنے گھروں کو بھیجنے کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیل گئی تھی۔
ہماری نسل کے لئے یہ قصہ پارینہ بن چکا تھا،مگرکس نے سوچا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دورمیں دنیا پھر ایک بارایک ایسی وباء کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیگی جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی ترقی کام نہیں آسکی ہے۔ ہم ایک سال سے زیادہ عرصے سے اس پینڈیمک سے جوجھ رہے ہیں ۔اور اب جبکہ کورونا کی تیسری لہر کی چپیٹ میں دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان بھی آچکے ہیں، ہم نے اپنا بہت کچھ کھو دیا ہے اور ہمارے کارپوریٹ میڈیکل کیئراور سرکاری سہولتوں کی چرمرائی ہوئی انتظامیہ کی ساری پول کھل چکی ہے۔
کرونا وائیرس کے موجودہ عالمگیر وبائی مرض نے عالم انسانیت کی تاریخ کو ایک ایسے کرب میں مبتلاء کر دیا ہے جس سے نجات ملتی نظر نہیں آ رہی ۔۔اس وباء نے عالم انسانیت کو ایک ایسی کروٹ دی ہے جہاں سے دنیا یکسرتبدیل ہو گئی ہے ۔ جس طرح عالمی جنگوں سے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی، جس طرح بٹوارے کے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی یا جس طرح سے موبائیل اور ٹیکنالاجی کے استعمال سے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی بالکل اسی طرح اس عالمگیر وبا سے ابھرنے والی دنیا اس کے پہلے والی دنیا سے بالکل مختلف ہوگی ۔ اس وبا کے زیر اثر ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے یہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ اور یہ عالمگیر وبا جس قدر طول پکڑتی جا رہی ہے اس کے دیرپا اثرات انسانی زندگیوں اور اس کی نفسیات کا حصٰہ بننے والے ہیں۔ آج عالم انسانی اس وباء کی زد میں ہے اور ذہنی ،نفسیاتی، معاشی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔
عصر حاضر کا ادب بھی بدلتے ہوئے وقت کی اس کروٹ کا عکاس ہے ۔اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی اس کی اہمیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے آنے والے وقت میں اس کروٹ کو محسوس کرنے کی جب جب ضرورت ہوگی لوگ انہی اوراق میں بدلتی ہوئی انسانی نفسیات، حالات اور حقیقت کو تلاش کرینگے ۔آج جب اس بدلی ہوئی دنیا میں ادیب اور فنکار کے موضوعات تبدیل ہو چکے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تحریروں کو یکجا کیا جائے۔۔ کیونکہ یہ فن پارے اس تاریخ کو رقم کر رہے ہیں جس نے عالم انسانیت کو حیرت،غم تشکیک اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے ۔
دیدبان کا یہ تیرہواں شمارہ وقت کی اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پچھلے شمارے کی طرح ’’ما بعد کرونائی ادب ‘‘ والے موضوع کی توسیع ہے۔ ابھی اس دور کے ادب کے معیار اور مقدار پر فیصلہ کرنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ ابھی تو اس پر بہت کچھ لکھا جائےگا مگر جو لکھا جا چکا ہے اس فن پارے کودیدبان کے اوراق پر سجانے کا سہرہ سلمی جیلانی اور سبین علی کے سر ہے ۔ جنہوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں سے اس آن لائین جریدے کو ہمیشہ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
اس شمارے میں موضوع کی مناسبت سے محمود احمد قاضی کے دو افسانے شامل کئے گئے ہیں۔ اس موضوع پر ان کاایک افسانوی مجموعہ ’’کنواں‘‘ ترتیب پا چکا ہے، جس کا انتساب ’’آج کے نام اور آج کے غم کے نام ہے۔‘‘ کرونا دور میں لکھے گئے یہ افسانے اور یہ انتساب عصر حاضر کے انتشار اور المیہ کی بھرپور عکاسی کرنے میں کامیاب ہیں۔ان افسانوں میں اس بدلی ہوئی دنیا کا عکس بھی ہے اور آج کے انسان کی الجھی ہوئی نفسیات کی کہانی بھی ۔۔۔ وقت کے اس خوفناک مذاق کا کرب بھی ہے اوراس سے نجات کی امید بھی ۔ محمود احمد قاضی صاحب کے ساتھ ساتھ دیدبان میں شامل ہونے والے سبھی فنکارکا ہم خلوص دل سے شکریہ ادا کرنا چاتے ہیں جنہوں نے شروع سے لے کر آج تک اس آن لایئن جریدے کو وقیع اور معیاری بنانے میں ہماراساتھ دیا ہے ۔ اس شمارے کے شرکا میں جناب نعیم بیگ صاحب، جناب جمیل الرحمن صاحب۔ جناب سید محمود ہاشمی صاحب ،جناب تنویر قاضی صاحب جناب علی محمد فرشی صاحب کا نام لینا چاہونگی جو دیدبان کی حوصلہ افزائی میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ اس شمارے میں ان لوگوں کی تحریریں خاصے کی چیز ہیں۔
ان کے علاوہ جناب منصف ہاشمی صاحب، جناب پرتپال سنگھ بیتاب،محترمہ عذرا قیصر نقوی ، محترمہ نیلم احمد بشیر،محترمہ ڈٓکٹر کوثر جمال، محترمہ انجم قدوائی، جناب راشد جاوید احمد، جناب آفتاب حسین ، محترمہ عشرت معین سیما،محترمہ غزالہ صدیقی،ڈاکٹر غلام شبیر رانا، جناب امداد چنا،جناب راجہ یوسف جناب طارق شمیم،محترمہ رابعہ سلیم،محترمہ عبیرہ احمد، جناب احمد نعیم ،محترمہ فرحین چودھری،محترمہ طاہرہ کاظمی ،جناب نودان ناصر اس شمارے کو وقار بخشنے میں پیش پیش ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کچھ نئے نام کو بھی دیدبان کے اوراق پر جگہ دی گئی ہے ۔
اس شمارے کے مصوؑر جناب یوسف شیخ صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہونگی کہ ان کی عنایت اور ان کی اعٰؑلی ظرفی ہے کہ ان کی یہ بیش قیمت پینٹنگس اس شمارے کی زینت بن سکیں، اور پہلے شمارے سے چلی آرہی کسی مصور اور اس کے فن کا تعارف پیش کرنے کی دیدبان کی اس روایت کو قائم رکھنے میں ہماری مدد کی۔ ہمارے دیدبان کی پہچان ، اس کا فخر اور اس کی روح یہ آرٹ ورک ہیں جومختلف اور اعلی پائے کے مصوروں کی عنایت اور کرم سے ہر شمارے کو سجانے میں ہمیں مدد کرتے ہیں اور ساری دنیا کے لوگ دیدبان کی اس منفرد خصوصیت کے شیدائی بنتے جا رہے ہیں۔ اس بار بھی سلمی جیلانی کی کوششوں سے یہ بیش قیمت اور نایاب تحفہ دیدبان کی زینت بنا میں جناب یوسف شیخ اور سلمی جیلانی کی مخلصانہ کاوشوں کو سلام کرتی ہوں ۔
آخر میں بہت مغموم دل کے ساتھ ہم دیدبان کی تین ایڈیٹرز جناب مشرّف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ تبسم فاظمہ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہینگے کہ وہ دیدبان کے ساتھ پہلے دن سے اپنی زندگی کے آخر لمحے تک جڑے رہے ۔ جن کے نام کےساتھ ابھی مرحوم لکھتے ہوئے انگلیاں انکاری ہیں ۔ کرونا دور نے ادبی دنیا کو یہ منحوس خبر دی کہ اچانک یہ دونوں اس دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ ابھی چند دنوں قبل تو انہوں نے اس شمارے کے لئے خود سے اپنی تحریریں بھیجی تھیں۔ ابھی تو تبسم نے فون پر کہا تھا کہ ’’آپا دیدبان کا مزاحمتی ادب‘‘ مل گیا جلد اپنی رائے اس پرلکھتی ہوں۔ دل غم سے چور ہے ۔ اس وباء نے ادب کے کیسے کیسے نابغہ روزگار ہم سے چھین لئے ہیں،ان سب بچھڑ جانے والوں نے ادب میں ایک ایسا خلا ءپیدا کر دیا ہے جو کبھی پر نہ ہو سکیگا۔دیدبان کے قارئین اور انتظامیہ کی طرف سے ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور خدا سے ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ اس شمارے کو مرتّب کرتے وقت ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ہم تخلیق کاروں کی تخلیق کے علاوہ ان کی جدائی کی اندوہناک خبر کو بھی اس کا حصّہ بنائینگے۔
باتیں تو بہت ہیں مگر اسے اس نوٹ کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ موجودہ بحران میں ہم اپنی زبان ، ادب ثقافت اور تہذیب کو بچانے میں اپنا جتنا کردار بھی ادا کر سکیں ہمیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمارے کردار ،اخلاق کی نشو و نما کرتی ہیں ۔ جینے کا مثبت نظریہ عطا کرتی ہیں اور مشکل وقت سے جوجھنے کا ہمیں حوصلہ عطا کرتی ہیں اپنا خیال رکھئے ۔ اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے دعا کے ساتھ احتیاط رکھنا لازمی سیکھئے اور رحم دلی اور سخاوت کو اپنا شیوہ بنائیے ۔
فی امان الّلہ ۔
نسترن احسن فتیحی
اداریہ
عالمگیر وبائی مرض ’کورونا‘ اور ادب
نسترن احسن فتیحی
دیدبان کا بارہواں شمارہ ’مابعد کرونا نمبر‘ نومبر۰۲۰۲ میں منظر عام پر آچکا ہے ۔جسمیں دیدبان کی قابل مدیرہ سلمی جیلانی نے اپنے اداریہ میں تاریخ میں رونما ہونے والے پینڈیمک کےاثرات اور اس پر لکھے جانے والے مواد کا واضح اشارہ دیا ہے یعنی دنیا پہلی بار ایسی صورت سے دوچار نہیں ہوئی ۔۔ ماضی میں بھی کئی بار وباء نے انسانی زندگیوں کو تہ و بالا کیا ہے،جس میں سے ’اسپینش فلو‘ نے دنیا کو تقریباً ایسے ہی حالات سے دوچار کیا تھا۔
کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔influenza pandemic1918 جسے
جو دنیا کی ایک تہائی آبادی پر اثر انداز ہوئی تھی اور اس وباء سے پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی اموات (جو چار کروڑ تھی) سے زیادہ اموات ہوئی تھیں ۔مختلف ریسرچ کے مطابق اس وباء سے اس وقت پانچ سے دس کروڑ کے درمیان اموات ہوئی تھیں۔ مگر انسان کبھی ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتا، اسے بہت جلدی بھلا دیا گیا،اسی لئے اس کا ایک نام فارگوٹن پینڈیمک بھی رکھا گیا کیونکہ اس پرشروع میں خبروں کو چھپایا گیا تاکہ محاذ پر تعینات سپاہیوں کا حوصلہ نہ ٹوٹے۔ یہ پہلی عالمی جنگ جو۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ تک چلی ، اس وقت یہ وباء ۱۹۱۸ میں بیمار سپاہیو ں کے واپس اپنے گھروں کو بھیجنے کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیل گئی تھی۔
ہماری نسل کے لئے یہ قصہ پارینہ بن چکا تھا،مگرکس نے سوچا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دورمیں دنیا پھر ایک بارایک ایسی وباء کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیگی جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی ترقی کام نہیں آسکی ہے۔ ہم ایک سال سے زیادہ عرصے سے اس پینڈیمک سے جوجھ رہے ہیں ۔اور اب جبکہ کورونا کی تیسری لہر کی چپیٹ میں دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان بھی آچکے ہیں، ہم نے اپنا بہت کچھ کھو دیا ہے اور ہمارے کارپوریٹ میڈیکل کیئراور سرکاری سہولتوں کی چرمرائی ہوئی انتظامیہ کی ساری پول کھل چکی ہے۔
کرونا وائیرس کے موجودہ عالمگیر وبائی مرض نے عالم انسانیت کی تاریخ کو ایک ایسے کرب میں مبتلاء کر دیا ہے جس سے نجات ملتی نظر نہیں آ رہی ۔۔اس وباء نے عالم انسانیت کو ایک ایسی کروٹ دی ہے جہاں سے دنیا یکسرتبدیل ہو گئی ہے ۔ جس طرح عالمی جنگوں سے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی، جس طرح بٹوارے کے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی یا جس طرح سے موبائیل اور ٹیکنالاجی کے استعمال سے پہلے کی دنیا اس کے بعد کی دنیا سے مختلف تھی بالکل اسی طرح اس عالمگیر وبا سے ابھرنے والی دنیا اس کے پہلے والی دنیا سے بالکل مختلف ہوگی ۔ اس وبا کے زیر اثر ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے یہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ اور یہ عالمگیر وبا جس قدر طول پکڑتی جا رہی ہے اس کے دیرپا اثرات انسانی زندگیوں اور اس کی نفسیات کا حصٰہ بننے والے ہیں۔ آج عالم انسانی اس وباء کی زد میں ہے اور ذہنی ،نفسیاتی، معاشی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔
عصر حاضر کا ادب بھی بدلتے ہوئے وقت کی اس کروٹ کا عکاس ہے ۔اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی اس کی اہمیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے آنے والے وقت میں اس کروٹ کو محسوس کرنے کی جب جب ضرورت ہوگی لوگ انہی اوراق میں بدلتی ہوئی انسانی نفسیات، حالات اور حقیقت کو تلاش کرینگے ۔آج جب اس بدلی ہوئی دنیا میں ادیب اور فنکار کے موضوعات تبدیل ہو چکے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تحریروں کو یکجا کیا جائے۔۔ کیونکہ یہ فن پارے اس تاریخ کو رقم کر رہے ہیں جس نے عالم انسانیت کو حیرت،غم تشکیک اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے ۔
دیدبان کا یہ تیرہواں شمارہ وقت کی اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پچھلے شمارے کی طرح ’’ما بعد کرونائی ادب ‘‘ والے موضوع کی توسیع ہے۔ ابھی اس دور کے ادب کے معیار اور مقدار پر فیصلہ کرنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ ابھی تو اس پر بہت کچھ لکھا جائےگا مگر جو لکھا جا چکا ہے اس فن پارے کودیدبان کے اوراق پر سجانے کا سہرہ سلمی جیلانی اور سبین علی کے سر ہے ۔ جنہوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں سے اس آن لائین جریدے کو ہمیشہ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
اس شمارے میں موضوع کی مناسبت سے محمود احمد قاضی کے دو افسانے شامل کئے گئے ہیں۔ اس موضوع پر ان کاایک افسانوی مجموعہ ’’کنواں‘‘ ترتیب پا چکا ہے، جس کا انتساب ’’آج کے نام اور آج کے غم کے نام ہے۔‘‘ کرونا دور میں لکھے گئے یہ افسانے اور یہ انتساب عصر حاضر کے انتشار اور المیہ کی بھرپور عکاسی کرنے میں کامیاب ہیں۔ان افسانوں میں اس بدلی ہوئی دنیا کا عکس بھی ہے اور آج کے انسان کی الجھی ہوئی نفسیات کی کہانی بھی ۔۔۔ وقت کے اس خوفناک مذاق کا کرب بھی ہے اوراس سے نجات کی امید بھی ۔ محمود احمد قاضی صاحب کے ساتھ ساتھ دیدبان میں شامل ہونے والے سبھی فنکارکا ہم خلوص دل سے شکریہ ادا کرنا چاتے ہیں جنہوں نے شروع سے لے کر آج تک اس آن لایئن جریدے کو وقیع اور معیاری بنانے میں ہماراساتھ دیا ہے ۔ اس شمارے کے شرکا میں جناب نعیم بیگ صاحب، جناب جمیل الرحمن صاحب۔ جناب سید محمود ہاشمی صاحب ،جناب تنویر قاضی صاحب جناب علی محمد فرشی صاحب کا نام لینا چاہونگی جو دیدبان کی حوصلہ افزائی میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ اس شمارے میں ان لوگوں کی تحریریں خاصے کی چیز ہیں۔
ان کے علاوہ جناب منصف ہاشمی صاحب، جناب پرتپال سنگھ بیتاب،محترمہ عذرا قیصر نقوی ، محترمہ نیلم احمد بشیر،محترمہ ڈٓکٹر کوثر جمال، محترمہ انجم قدوائی، جناب راشد جاوید احمد، جناب آفتاب حسین ، محترمہ عشرت معین سیما،محترمہ غزالہ صدیقی،ڈاکٹر غلام شبیر رانا، جناب امداد چنا،جناب راجہ یوسف جناب طارق شمیم،محترمہ رابعہ سلیم،محترمہ عبیرہ احمد، جناب احمد نعیم ،محترمہ فرحین چودھری،محترمہ طاہرہ کاظمی ،جناب نودان ناصر اس شمارے کو وقار بخشنے میں پیش پیش ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کچھ نئے نام کو بھی دیدبان کے اوراق پر جگہ دی گئی ہے ۔
اس شمارے کے مصوؑر جناب یوسف شیخ صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہونگی کہ ان کی عنایت اور ان کی اعٰؑلی ظرفی ہے کہ ان کی یہ بیش قیمت پینٹنگس اس شمارے کی زینت بن سکیں، اور پہلے شمارے سے چلی آرہی کسی مصور اور اس کے فن کا تعارف پیش کرنے کی دیدبان کی اس روایت کو قائم رکھنے میں ہماری مدد کی۔ ہمارے دیدبان کی پہچان ، اس کا فخر اور اس کی روح یہ آرٹ ورک ہیں جومختلف اور اعلی پائے کے مصوروں کی عنایت اور کرم سے ہر شمارے کو سجانے میں ہمیں مدد کرتے ہیں اور ساری دنیا کے لوگ دیدبان کی اس منفرد خصوصیت کے شیدائی بنتے جا رہے ہیں۔ اس بار بھی سلمی جیلانی کی کوششوں سے یہ بیش قیمت اور نایاب تحفہ دیدبان کی زینت بنا میں جناب یوسف شیخ اور سلمی جیلانی کی مخلصانہ کاوشوں کو سلام کرتی ہوں ۔
آخر میں بہت مغموم دل کے ساتھ ہم دیدبان کی تین ایڈیٹرز جناب مشرّف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ تبسم فاظمہ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہینگے کہ وہ دیدبان کے ساتھ پہلے دن سے اپنی زندگی کے آخر لمحے تک جڑے رہے ۔ جن کے نام کےساتھ ابھی مرحوم لکھتے ہوئے انگلیاں انکاری ہیں ۔ کرونا دور نے ادبی دنیا کو یہ منحوس خبر دی کہ اچانک یہ دونوں اس دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ ابھی چند دنوں قبل تو انہوں نے اس شمارے کے لئے خود سے اپنی تحریریں بھیجی تھیں۔ ابھی تو تبسم نے فون پر کہا تھا کہ ’’آپا دیدبان کا مزاحمتی ادب‘‘ مل گیا جلد اپنی رائے اس پرلکھتی ہوں۔ دل غم سے چور ہے ۔ اس وباء نے ادب کے کیسے کیسے نابغہ روزگار ہم سے چھین لئے ہیں،ان سب بچھڑ جانے والوں نے ادب میں ایک ایسا خلا ءپیدا کر دیا ہے جو کبھی پر نہ ہو سکیگا۔دیدبان کے قارئین اور انتظامیہ کی طرف سے ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور خدا سے ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ اس شمارے کو مرتّب کرتے وقت ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ہم تخلیق کاروں کی تخلیق کے علاوہ ان کی جدائی کی اندوہناک خبر کو بھی اس کا حصّہ بنائینگے۔
باتیں تو بہت ہیں مگر اسے اس نوٹ کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ موجودہ بحران میں ہم اپنی زبان ، ادب ثقافت اور تہذیب کو بچانے میں اپنا جتنا کردار بھی ادا کر سکیں ہمیں کرنا چاہئے کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمارے کردار ،اخلاق کی نشو و نما کرتی ہیں ۔ جینے کا مثبت نظریہ عطا کرتی ہیں اور مشکل وقت سے جوجھنے کا ہمیں حوصلہ عطا کرتی ہیں اپنا خیال رکھئے ۔ اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے دعا کے ساتھ احتیاط رکھنا لازمی سیکھئے اور رحم دلی اور سخاوت کو اپنا شیوہ بنائیے ۔
فی امان الّلہ ۔
نسترن احسن فتیحی