دلشاد نظمی کی مزاحمتی نظمیں

دلشاد نظمی کی مزاحمتی نظمیں

Mar 12, 2018

مصنف

دلشاد نظمی

شمارہ

شمارہ -٧

‍دیدبان شمارہ۔۷


ایک نظم ( فلسطین کے پس منظر میں )

 دلشاد نظمی 

جمشید پور. انڈیا

1

  با با کا اک باغ تھا پہلے 

 وہاں... تار کی باڑھ کے پیچھے...

 میری انگلی پکڑے لے جاتے تھے بابا 

ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے بہت مزہ آتا تھا.

 ہاشم... سعد.حلیمہ. زہرہ.. سب آتے تھے 

طرح طرح کے پھلوں سے باغ بھرا رہتا تھا... 

 صبح اذانیں جب دن کی دستک دیتی تھی 

پھیلتی تھی قہوے کے خو شبو جب گلیوں میں.  

بھری بھری رہتی تھی کھجوروں والی تھالی

کبسہ.. شاورما.. مندی کھاتے تھے مل کر 

 شور مچاتے دوڑتے تھے اسکول سے گھر تک 

 بہت حسیں وللہ ہمارے دن تھے پہلے... 

 تب کی بات ہے جب میں بہت ہی چھوٹا سا تھا.. 

 اکدن بکتر بند گاڑیاں باغ روندتے گلی محلوں میں گھس آئیں..  

مکیں گھروں سے باہر نکلے 

بہت شور اور چیخ وپکار تھی چاروں جانب. 

تو تو میں میں کےدوران اچانک چلنے لگی گولیاں

آگ دھواں اور گرد و غبار کا منظر.....

. موسم بدل چکا تھا

 لاشوں کے انبار لگے تھے.

 کٹی پھٹی اور جھلسی لاشیں. بینذدہ آوازیں بکھرے بکھرے اعضاء...

. عجب قیامت خیز سا منظر دکھا رہے تھے

 گدھ نما خونخوار فضا میں اڑن کھٹولے 

 آگ کے گولے پھینک رہے تھے

تکبیروں کے شامل نعرے گونج رہے تھے. 

 اقصی کے حرمت پہ جان نچھاور کرتا 

 ہر کوئی ایوبی لشکر کا تھا سپاہی. 

 خبریں لکھنے والے تجھ کو کیا کیا بتاؤں. 

ہجرت بھی شامل ہے اس میں.  

تیرہ برس کی عمرنے سب کچھ دیکھ لیا ہے.

 خود سے بنائے خیموں کی یہ لمبی قطاریں.

دیکھ رہے ہو. 

 یہیں مرا بھی اک خیمہ ہے.

 کبھی کبھی سامان بھری کچھلاریاں آ کر رک جاتی ہیں.

 کبھی کبھی معمولی دوائیں.. تھوڑا راشن مل جاتا ہے.

 لڑنے والے مجاہد کا پثمردہ چہرہ کھل جاتا ہے. 

 اب نہ خلیفۂ ثانی اور نہ ایوبی ہے 

 صدیوں بعد بھی دشمن اب تک وہی ہمارا. 

 چاروں جانب سرحدیں کلمہ گو کی ہیں لیکن 

 قبلہ اول کا ہے تحفظ اپنے زمہ. 

 کچھ بھی نہیں ہے پاس مرے پر.......

.... یہ تو دیکھو ہاتھ میں ہے اک ملبہ ذدہ بستی کا پتھر...

.. لڑوں گا آخری سانسوں تک میں.....

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 - قتل پہ ہنسنے والا طبقہ

موت پہ ہنسنے والے چہرے

وہ کچھ لوگ جو سچ کی لاش پہ کتیا جیسے لفظ سے

پرسہ دینے لگے ہیں. 

ساری دنیا جان چکی ہے. جان رہی ہے. 

بھیڑ میں رہ کر بھیڑ کے پیچھے. 

خود کو الگ تھلگ رکھ کر بھی

کون ریموٹ سنبھالے منظر بدل رہا ہے. 

 مچل رہا ہے پہلو بہ پہلو

 کچھ برسوں پہلے تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا. 

اتنا زیادہ.. 

عام اور خاص امواتیں پہلے بھی ہوتی تھیں

. لیکن پرسہ دیتا تھا تہذیب میں رہ کر 

دشمن بھی اپنے دشمن کو

 صدیوں سے تہذیب کا دامن تھامنے والا. 

گنگا جمنی رنگوں میں یہ رنگا تمدن

کیسے اب کہ وحشی حرکتیں> کرنے لگا ہے. 

قلم زبان اور فکر وظیفہ خوار ہیں سارے> اور جو نہیں ہیں

. ان کے قلم کی نوک کو توڑ کے 

جشن مناتا ہے اک فرقہ

بالکل ویسے ہی جیسے کہ 

اپنا تھوتھنا جوہڑ سے باہر کر کے آوارہ کتا

کتیا کتیا چیختا ہے انسانی قتل پہ

....................................

دلشاد نظمی .

3- اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں..

بھیڑیں گلے میں رہتی ہیں جس طرح سے

بھیڑ بن کر رہو .اور کچھ نہ کہو> منمناتے رہو.

نت نئے فرقے ہر دن بنا کر جیو .

روز تازہ نیا فتوی جاری کرو.

 سنگ باری کرو.> آہ و زاری کرو .

 .مسجدوں کو کرو *مسلکی *شان سے.

 ٹوپیاں .پگڑیاں .صافے سبھی مختلف. 

 انفرادی لگو دوسرے لوگوں سے...

 فرقہ ء ناجیہ.والے بس ایک تم 

 باقی سب . 

 سارے کافر...ہیں .گستاخ ہیں بے ادب 

 بن کے سنی وہابی و اہلحدیث

پارہ پارہ کرو قوم کا اتحاد...

زات میں اور علاقوں میں بھی بانٹ کر

اونچ اور نیچ کی کھائی چوڑی کرو.

بات بے بات پکڑو گریبان تم

قتل بھائی کا کردو یا خود ہی مرو.>

 خوب جلسے کرو...اور نکالو جلوس 

اور جی بھر کے دو گالیاں ہر گھڑی .

مال رکھو مگر دو نہ ہرگز زکاۃ. 

درگزر صلہ رحمی سے کیا واسطہ

 ہر خباثت سے لپٹو.لگاو گلے...

ہاں زمیں کو کھسکنے دو پیروں تلے

شرک اور بدعتوں کے پجاری بنو.

تم مداری بنو. اپنی ہی قوم میں ....

اتنے تقسیم ہو جاو کہ ایک دن 

 تنہا دشمن کہے .رک ابھی آتا ہوں.

 لوٹ کر آئے اور قتل کر دے تمہیں 

 بھاگنے کے بھی قابل نہ چھوڑے کہیں..

 یہ فرورعی مسائل یہ بحثیں سبھی

 فتوے بازی یہ تکراریں اور حجتیں

 سب دھری رہنے والی ہے تم دیکھنا

 ان گنت اب ہلاکو ہیں ہر شہر میں 

 اب لپیٹے نہیں جاو گے نمدوں میں 

 بیچ جوراہے پہ قتل ہو جاو گے.

 قتل ہونے سے پہلے صدا آئے گی

 اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں .

دلشاد نظمی.  

.......................................

4- ..بچپن کا اک بھولا تماشہ

 اب یاد آیا...

 جئے مہا کالی..

 تیرا وچن نہ جائے خالی

 نعرہ مار تے 

 جادو گر نے ..لاش نما کالے کپڑے سے

 ڈھکے جمورے کی چھاتی پر

 پھر گردن پر. پے در پے 

چاقو سے کتنے وار کئےتھے...

جگہ جگہ سے بھیگ گئی تھی 

خون سے چادر

 لال لال ..اور تازہ تازہ..

 خوف زرہ چیخیں نکلیں تھیں ...

 ڈر کے کچھ پیچھے بھاگے تھے

 عورتیں ہاتھ رکھے سینےپر

 بند کئے آنکھوں کے دریچے 

 کانپ گئی تھی.

 بچے ماں کی ٹانگوں سے یکلخت تھے چمٹے.

 لیکن وہ تو کھیل محض تھا.

 کچھ لمحوں میں .مردہ جمورا

 پھر زندہ تھا.....

 اور کانسے کا برتن پکڑے

 مانگے تھے ہر اک سے پیسے. .

 لیکن اب تو کئی جمورے

 پہنے ہوئے بارودی جیکٹیں 

 گھوم رہے ہیں بھیڑ کے اندر

 اور ریموٹ لئے جادوگر 

 ڈھونڈ رہا ہے اچھا موقع

 زندہ ......جمورا اب نہیں ہوتا

 بھیڑ بھی ساتھ ہی مر جاتی 

 دیکھتی ہے پھر دنیا تماشہ....

...................................... 

دلشاد نظمی..

‍دیدبان شمارہ۔۷


ایک نظم ( فلسطین کے پس منظر میں )

 دلشاد نظمی 

جمشید پور. انڈیا

1

  با با کا اک باغ تھا پہلے 

 وہاں... تار کی باڑھ کے پیچھے...

 میری انگلی پکڑے لے جاتے تھے بابا 

ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے بہت مزہ آتا تھا.

 ہاشم... سعد.حلیمہ. زہرہ.. سب آتے تھے 

طرح طرح کے پھلوں سے باغ بھرا رہتا تھا... 

 صبح اذانیں جب دن کی دستک دیتی تھی 

پھیلتی تھی قہوے کے خو شبو جب گلیوں میں.  

بھری بھری رہتی تھی کھجوروں والی تھالی

کبسہ.. شاورما.. مندی کھاتے تھے مل کر 

 شور مچاتے دوڑتے تھے اسکول سے گھر تک 

 بہت حسیں وللہ ہمارے دن تھے پہلے... 

 تب کی بات ہے جب میں بہت ہی چھوٹا سا تھا.. 

 اکدن بکتر بند گاڑیاں باغ روندتے گلی محلوں میں گھس آئیں..  

مکیں گھروں سے باہر نکلے 

بہت شور اور چیخ وپکار تھی چاروں جانب. 

تو تو میں میں کےدوران اچانک چلنے لگی گولیاں

آگ دھواں اور گرد و غبار کا منظر.....

. موسم بدل چکا تھا

 لاشوں کے انبار لگے تھے.

 کٹی پھٹی اور جھلسی لاشیں. بینذدہ آوازیں بکھرے بکھرے اعضاء...

. عجب قیامت خیز سا منظر دکھا رہے تھے

 گدھ نما خونخوار فضا میں اڑن کھٹولے 

 آگ کے گولے پھینک رہے تھے

تکبیروں کے شامل نعرے گونج رہے تھے. 

 اقصی کے حرمت پہ جان نچھاور کرتا 

 ہر کوئی ایوبی لشکر کا تھا سپاہی. 

 خبریں لکھنے والے تجھ کو کیا کیا بتاؤں. 

ہجرت بھی شامل ہے اس میں.  

تیرہ برس کی عمرنے سب کچھ دیکھ لیا ہے.

 خود سے بنائے خیموں کی یہ لمبی قطاریں.

دیکھ رہے ہو. 

 یہیں مرا بھی اک خیمہ ہے.

 کبھی کبھی سامان بھری کچھلاریاں آ کر رک جاتی ہیں.

 کبھی کبھی معمولی دوائیں.. تھوڑا راشن مل جاتا ہے.

 لڑنے والے مجاہد کا پثمردہ چہرہ کھل جاتا ہے. 

 اب نہ خلیفۂ ثانی اور نہ ایوبی ہے 

 صدیوں بعد بھی دشمن اب تک وہی ہمارا. 

 چاروں جانب سرحدیں کلمہ گو کی ہیں لیکن 

 قبلہ اول کا ہے تحفظ اپنے زمہ. 

 کچھ بھی نہیں ہے پاس مرے پر.......

.... یہ تو دیکھو ہاتھ میں ہے اک ملبہ ذدہ بستی کا پتھر...

.. لڑوں گا آخری سانسوں تک میں.....

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 - قتل پہ ہنسنے والا طبقہ

موت پہ ہنسنے والے چہرے

وہ کچھ لوگ جو سچ کی لاش پہ کتیا جیسے لفظ سے

پرسہ دینے لگے ہیں. 

ساری دنیا جان چکی ہے. جان رہی ہے. 

بھیڑ میں رہ کر بھیڑ کے پیچھے. 

خود کو الگ تھلگ رکھ کر بھی

کون ریموٹ سنبھالے منظر بدل رہا ہے. 

 مچل رہا ہے پہلو بہ پہلو

 کچھ برسوں پہلے تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا. 

اتنا زیادہ.. 

عام اور خاص امواتیں پہلے بھی ہوتی تھیں

. لیکن پرسہ دیتا تھا تہذیب میں رہ کر 

دشمن بھی اپنے دشمن کو

 صدیوں سے تہذیب کا دامن تھامنے والا. 

گنگا جمنی رنگوں میں یہ رنگا تمدن

کیسے اب کہ وحشی حرکتیں> کرنے لگا ہے. 

قلم زبان اور فکر وظیفہ خوار ہیں سارے> اور جو نہیں ہیں

. ان کے قلم کی نوک کو توڑ کے 

جشن مناتا ہے اک فرقہ

بالکل ویسے ہی جیسے کہ 

اپنا تھوتھنا جوہڑ سے باہر کر کے آوارہ کتا

کتیا کتیا چیختا ہے انسانی قتل پہ

....................................

دلشاد نظمی .

3- اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں..

بھیڑیں گلے میں رہتی ہیں جس طرح سے

بھیڑ بن کر رہو .اور کچھ نہ کہو> منمناتے رہو.

نت نئے فرقے ہر دن بنا کر جیو .

روز تازہ نیا فتوی جاری کرو.

 سنگ باری کرو.> آہ و زاری کرو .

 .مسجدوں کو کرو *مسلکی *شان سے.

 ٹوپیاں .پگڑیاں .صافے سبھی مختلف. 

 انفرادی لگو دوسرے لوگوں سے...

 فرقہ ء ناجیہ.والے بس ایک تم 

 باقی سب . 

 سارے کافر...ہیں .گستاخ ہیں بے ادب 

 بن کے سنی وہابی و اہلحدیث

پارہ پارہ کرو قوم کا اتحاد...

زات میں اور علاقوں میں بھی بانٹ کر

اونچ اور نیچ کی کھائی چوڑی کرو.

بات بے بات پکڑو گریبان تم

قتل بھائی کا کردو یا خود ہی مرو.>

 خوب جلسے کرو...اور نکالو جلوس 

اور جی بھر کے دو گالیاں ہر گھڑی .

مال رکھو مگر دو نہ ہرگز زکاۃ. 

درگزر صلہ رحمی سے کیا واسطہ

 ہر خباثت سے لپٹو.لگاو گلے...

ہاں زمیں کو کھسکنے دو پیروں تلے

شرک اور بدعتوں کے پجاری بنو.

تم مداری بنو. اپنی ہی قوم میں ....

اتنے تقسیم ہو جاو کہ ایک دن 

 تنہا دشمن کہے .رک ابھی آتا ہوں.

 لوٹ کر آئے اور قتل کر دے تمہیں 

 بھاگنے کے بھی قابل نہ چھوڑے کہیں..

 یہ فرورعی مسائل یہ بحثیں سبھی

 فتوے بازی یہ تکراریں اور حجتیں

 سب دھری رہنے والی ہے تم دیکھنا

 ان گنت اب ہلاکو ہیں ہر شہر میں 

 اب لپیٹے نہیں جاو گے نمدوں میں 

 بیچ جوراہے پہ قتل ہو جاو گے.

 قتل ہونے سے پہلے صدا آئے گی

 اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں .

دلشاد نظمی.  

.......................................

4- ..بچپن کا اک بھولا تماشہ

 اب یاد آیا...

 جئے مہا کالی..

 تیرا وچن نہ جائے خالی

 نعرہ مار تے 

 جادو گر نے ..لاش نما کالے کپڑے سے

 ڈھکے جمورے کی چھاتی پر

 پھر گردن پر. پے در پے 

چاقو سے کتنے وار کئےتھے...

جگہ جگہ سے بھیگ گئی تھی 

خون سے چادر

 لال لال ..اور تازہ تازہ..

 خوف زرہ چیخیں نکلیں تھیں ...

 ڈر کے کچھ پیچھے بھاگے تھے

 عورتیں ہاتھ رکھے سینےپر

 بند کئے آنکھوں کے دریچے 

 کانپ گئی تھی.

 بچے ماں کی ٹانگوں سے یکلخت تھے چمٹے.

 لیکن وہ تو کھیل محض تھا.

 کچھ لمحوں میں .مردہ جمورا

 پھر زندہ تھا.....

 اور کانسے کا برتن پکڑے

 مانگے تھے ہر اک سے پیسے. .

 لیکن اب تو کئی جمورے

 پہنے ہوئے بارودی جیکٹیں 

 گھوم رہے ہیں بھیڑ کے اندر

 اور ریموٹ لئے جادوگر 

 ڈھونڈ رہا ہے اچھا موقع

 زندہ ......جمورا اب نہیں ہوتا

 بھیڑ بھی ساتھ ہی مر جاتی 

 دیکھتی ہے پھر دنیا تماشہ....

...................................... 

دلشاد نظمی..

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024