دکھ کیسے مرتا ہے
دکھ کیسے مرتا ہے
Mar 15, 2018
دیدبان شمارہ۔
دکھ کیسے مرتا ہے
محمد حمید شاہد
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی نبیل کا دِل اُلٹنے لگا‘ زخموں پر لگائی جانے والی مخصوص دواﺅں کی تیزبُو نے سانسوں کی ساری اَمی جمی اُکھاڑ دی تھی۔اُسے میڈیکل وارڈ نمبر تین جانا تھا مگر اس ہسپتال میں خرابی یہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایمرجنسی وارڈ پڑتا تھا‘ جس میں کو ئی لمحہ شاید ہی خالی گزرتا ہو گا‘ جب کوئی نیا مریض نہ لایا جاتا ہوگا۔ نبیل نے تو جب بھی دیکھا‘ کٹے پھٹے‘ اُکھڑی ہوئی سانسوں والے اور برُی طرح تڑپتے مریضوں کو لائے جاتے دیکھا ۔ نرسیں اورڈاکٹر بھاگ بھاگ کر اُن کی جانیں بچا رہے ہوتے ۔ کسی کے زخموں کے راستے بدن سے باہر بہنے والے خُون کو روکا جارہا ہوتا‘ کسی کی رَگوں میں ٹھہر جانے والے لہومیں چھاتی دَبا دَبا کر بہاﺅ لانے کی کوشش ہو رہی ہوتی اور کوئی خود ہی کھانس کھانس کر پھیپھڑوں میں اکٹھی ہو جا نے والی رَت حلق تک منھ کھول کھول کر اُلٹ رہا ہوتا۔ اُس نے ہر بار سوچاان میں سے کئی بچ جاتے ہوں گے…. ضرور بچ جاتے ہوں گے‘ مگروہ تو جب بھی داخل ہو رہا ہوتا یا باہر نکلنے کو اُدھر جا تا ایک دولاشیں اسٹریچر پر دھری ہوتیں اور ان پر بے قابو ہوکر گرتی پڑتی روتی چیختی عورتوں کو ان کے مرد صبر کی تلقین کرتے ہوے الگ کر رہے ہوتے۔
مرنے والوں پر صبر آہی جاتا ہو گا۔نبیل عین اس لمحے م۶یں ایسا نہیں سوچتا تھا جب کہ وہ جگر پھاڑ ڈالنے والی چیخیں اور بین سن رہا ہوتا‘ بل کہ تب سوچتا جب وہ کارڈیالوجی وارڈ کی طویل راہداری میں پہنچتا…. اوراس کا سبب یہ تھا کہ اس نے یہاں سے ایسی ایسی لاشیں لا ئی جاتی دیکھ رکھی تھیں‘ جن کے ارد گرد چلنے والوں میں سے کوئی بھی چیخ نہیں رہا تھا۔ کوئی دبی دبی سی سسکی…. ضبط کرنے کے باوجود نکل آ نے والا آنسو….کچھ بھی تو نہیں۔ سب کے چہرے سفید کفن کی طرح صاف تھے…. اور وہ اسٹریچر کے ساتھ ساتھ یوں چل رہے تھے ‘ جیسے اس لاش کے احترام میں خامشی سے چلنے کی وہ برسوں سے مشق کرتے آئے تھے ….اور اب موقع آگیا تھا تو صبر کے آئینے میں بال لا کر وہ ساری ریاضت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ عین اُسی لمحے اُس نے یہ بھی سوچا تھا کہ یہ جو اچانک مصیبت آجاتی ہے ‘یہ آدمی کو بو کھلا کر بے صبرا بنا دیتی ہے ورنہ توصبر آہی جایا کرتاہے۔ایمرجنسی سے ملحق کارڈیالوجی وارڈتھا یہاں پہنچ کر اور ایسا سوچ کر اُس کی سانسوں میں توازن آجاتا۔ نبیل اس وارڈ سے مانوس تھا۔ کئی ہفتے پہلے وہ یہاںتین بارآیا تھا۔ تینوں بار اسے ندرت لائی تھی ۔ اُس کے ڈیڈی کو وہم ہو گیا تھا کہ شایدندرت کی مما کوہارٹ پرابلم ہو گیاتھا۔ ندرت نے اُسے بتایا تھا کہ ایک دوپہراُس کی مما کھانا کھا کر حسب معمول گھنٹہ بھر کے لیے لیٹی ‘ اُٹھی‘ تو چھاتی پر بوجھ تھا۔ ایک گولا سا ناف کے اوپر سے اُٹھتا اور پسلیوں کے اس وسطی احاطے میں‘ جہاں کہیں دل تھا‘ معدوم ہو کر ایک چبھن چھوڑ جاتا تھا۔ اُس کے ڈیڈی اُس کی مما کویہاں لے آئے تھے اور جب تک سارے ٹیسٹ ہو نے کے بعد ڈاکٹروں نے ہرطرح سے تسلی نہیں کرادی اُسے ہسپتال سے واپس نہیں لے گئے تھے ۔خود نبیل کو دِل کی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا….اور اُسے یقین تھا کہ اُس جیسا آدمی ‘ جوزِندگی کے معاملات کو دِل پر انتہائی صبر اور احتیاط سے لیتا ہو‘ اُسے دل کی بیماری لگنی بھی نہیں چاہیے مگر اس کے باوجود جب اُسے پہلی بار ندرت کی مماکو دیکھنے آنا پڑا تھا تودِل میں اختلاج سا ہونے لگا تھا ۔ اس پر اُس نے دوسرے وزٹ تک قابو پانا سیکھ لیا۔ شاید جو اُس نے یوں سیکھا‘ وہ ضبط تھا۔ صبر کرنا اور ہوتا ہے اور ضبط کرنا اور …. اور صبر کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ تو اِسے بہت پہلے کا سیکھ چکا تھا۔میڈیکل وارڈآگے تھا۔ دائیں ایک‘ بائیں دو اور سامنے تین۔ اِسی تیسرے وارڈ کے پرائیویٹ روم نمبر پچیس میں اس کی اَپنی ماں پڑی ہوئی تھی۔ ماں بیمار تو کب کی تھی ‘ شاید اب تو اُسے بھولنے لگا تھا کہ وہ کبھی ٹھیک بھی رہی ہو گی۔ اُسے ابا کے مرنے کے بعد دائیں طرف فالج پڑا تھا اور وہ بستر سے جا لگی تھی ۔شروع شروع میں جب پیاس سے اُس کا حلق خشک ہونے لگتا ‘ بھوک سے انتڑیوں میں کُڑوَل پڑتے یا پھر انجانے میں بستر گیلا ہو جاتا‘ اتنا زیادہ گیلا کہ وہ کمر کاٹنے لگتا ‘ تو وہ اُسے بلانے کی کوشش کرتی تھی ۔
’اُوں آﺅں‘ جیسی آوازیں نکالنے کے لیے اُسے حلق اور چھاتی پر اِتنا بوجھ ڈالنا پڑتا تھا کہ نچلا جبڑا ‘ایک طرف کو ڈھلک جاتا اور سارا بدن سکڑ کر دہرا ہونے لگتا ۔ وہ پہنچ جاتا ….پہلے پہلے فوراً…. لپک کر‘ مگر یہ معمول کا حصہ ہو گیا تولپک جھپک میں وقفے پڑنے لگے …. کہ بعد میں اُسے خود کو تیار کرنا پڑتا تھا۔ایک روز جب اُس کی ماں آواز دینے کے بعد اپنا جبڑا ڈھلکا چکی تھی اور گُھٹنے اُوپر کو کھساکراُس نے اپنا بدن بھی دہرا کرلیا تھا کہ کال بیل بجی ….”ٹ…. ا اا“یوں جیسے باہر بٹن پر آہستگی سے اُنگشت رکھ کر فوراً ہٹا لی گئی ہو اور ادھر اندر کال بیل کی آواز ٹوٹ کر گر گئی ہو …. پھر خاموشی چھا گئی …. طویل خاموشی ‘ اتنی کہ ماں کی آواز اُس میں کہیں ڈوب گئی ۔ اُس کا اپنا دِل رُک سا گیا ‘ ایک قدرے طویل آوازکے لیے۔ندرت جب بھی آتی تھی پہلی بار پش بٹن کو ذرا ساچھو کر ہاتھ گرا دیا کرتی تاہم دوسری بار معمول سے کہیں لمبی ”ٹرراررارن“ ہوتی۔ اتنی کہ وہ اس آواز کے بند ہونے سے پہلے تک صدر دروازے تک بہ سہولت پہنچ جایا کرتاتھا۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا‘ اور وہ باہر پہنچ گیا۔ وہ اندر نہیں آئی تھی …. اس کے انداز بتا رہے تھے وہ اندر بیٹھ کر باتیں کرنے کو آئی ہی نہیں تھی ۔ اُس نے بغیر کچھ کہے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ندرت کے لیے اُس کاارادہ کوئی معنی نہیں رَکھتا ۔ نبیل خود بھی اُسے سامنے پا کر اپنا ارادہ منہا کرلیا کرتاتھا۔ وہ ہے ہی ایسی ‘ رَکھ رَکھاﺅ اور دَبدَبے والی۔ اگر وہ صرف غیر معمولی حد تک حسین ہوتی تو شاید ایسی نہ ہوتی ۔ معاشی آسودگی اس کے انگ انگ سے اور اُس کی ہر ادا سے بہتی تھی …. یوں جیسے کوئی شریر ندی ڈھلوان میں لپکتی ہے ۔ڈھلوان میں نبیل تھا …. اور ہر بار وہ بہہ جاتا تھا ‘بے ارادہ ہی ۔اُس روز جب وہ کئی گھنٹوںکے بعد گھرپلٹا تھا تو اندر داخل ہوتے ہی پیشاب کی سڑاند کے بھبکوں نے اُس کا منھ پھیر کر رکھ دیا۔ اُس کی نظر ماں کی چارپائی کے نیچے پڑی ۔ وہاں ‘ جہاںسارا فرش گیلا ہو رہا تھا۔ ڈھلوان چوں کہ دروازے کی سمت تھی لہذا ایک گیلی سی لکیر اُدھر تک بہہ آئی تھی۔ دُکھ اور ندامت ایک ساتھ اُس کے اندر سے پھوٹ پڑا‘ بے ارادہ ہی۔آدمی ارادے سے دُکھی کہاں ہوتااور ارادہ کر کے اپنے دُکھ دَرد کیسے ٹال سکتا ہے ۔زِندگی کی وہ ساری دِل کشی جو جذبوں سے کناروں تک بھری ہوئی ایک لڑکی کے سبب کچھ دیر پہلے تک مہک بن کر اس کی سانسوں میں رچی بسی ہوئی تھی ‘اب وہ کہیں نہیں تھی ۔ ماں نے اُسے دیکھ کر منھ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ اُس نے ماں کے اوپر چادر ڈالی اور اپنا منھ بھی دوسری طرف پھیر لیا۔ اب صرف اس کے ہاتھ کا م کر رہے تھے اور جب وہ ماں کا بدن پونچھ پانچھ کر اُسے خشک کر چکا تو منھ پھیرے پھیرے اسے دونوں بازﺅں میں اُٹھا کر پاس پڑی دوسری چارپائی پر ڈالا ۔
نبیل کو یہ جان کر شدید صدمہ ہوا کہ ماں اپنا وزن بڑی تیزی سے گرا چکی تھی۔جس انہماک ‘تردّد ‘احتیاط اور احترام سے اُس نے ماں کے بدن کو دوسری طرف دیکھتے رہتے ہوے سُکھایا تھا ‘چادر کی اوٹ تلے اس کا لباس بدلا تھا ۔ پیشاب سے سَنے ہوے بستر کو الگ کرکے صاف ستھرا گدا بچھا کر اوپر یوں چادر پھیلائی تھی کہ اس میں ایک شکن بھی باقی نہ رہی تھی اس نے ماں کی پیشانی کی ساری شکنیں معدوم کر دی تھیں اوراُس کی پوری طرح کھلی رہنے اور ہر دم پھڑکنے والی دائیں آنکھ کو آنسوﺅں سے بھر دیا تھا۔ہسپتال کی راہداری میں‘ کارڈیالوجی وارڈ سے ذرا آگے‘ جہاں ایک اور راہداری پہلی کو کاٹتی تھی؛ وہیں‘ چاروں کونوںپر‘دیواروں کے ساتھ لوہے کے بینچ جڑ ے ہوے تھے۔ وارڈ نمبر تین میں داخل ہونے سے پہلے وہ یہاں کچھ لمحوں کے لیے بیٹھ جایا کرتا تھا…. شروع شروع میں نہیں ‘ تب سے کہ جب ماں کو ہسپتال میںداخل ہوے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا تھا۔ پھر تو اُسے یہاں پہنچ کر جب بھی کوئی بینچ خالی نظر آتا تو ضرور بیٹھتا تھا۔پہلی بار وہ ندرت کے ساتھ یہاں بیٹھا تھا ‘ مگر جاتے ہوے نہیں ‘ماں کو کمرا نمبر پچیس میں دیکھ کر آنے کے بعد۔ ندرت کو بہت تشویش تھی کہ پیشنٹ میں سروائیول کے امکانات بہت کم تھے۔ وہ ہسپتال اُس کی ماں کو دیکھنے پھر کبھی نہیں آئی تھی تا ہم اس کے بعد جب بھی اس نے اسے فون کیا وہ ہر بار اُس کی ماں کی بیماری کی طوالت کے خوف سے سہمی ہوئی لگی۔ نبیل کی ماں کی بیماری واقعی طویل ہو گئی تھی۔ شوگر کے سبب بیڈسولز بھی ٹھیک نہ ہو رہے تھے۔ وہ سانس لیتی تو چھاتی میں سیٹیاں بجتی تھیں ۔ کچھ عرصہ تو ڈاکٹروں نے آکسیجن کا ماسک منھ پر چڑھائے رکھا مگر جب ہر سانس پر سارا بدن جَھٹکے کھانے لگا تو انہوں نے نرخرے کے قریب کٹ لگا کر نالی اندر پھیپھڑوں میں گھسڑ دی۔ کوئی بھی ڈاکٹر یقین سے کچھ نہیں کَہ سکتا تھا کہ اُس کی ماں کے پھیپھڑے خود سے سانس لینے کے لیے کب تک قابل ہو پائیں گے۔ کبھی تووہ بہت امید افزا باتیں کرتے اور کبھی بالکل ہی مایوس کر دیتے تھے۔ندرت ہسپتال آنے کے اگلے پندرہ دنوں میں ہی اُس سے مایوس ہو چکی تھی۔ اسے مایوس کرنے میں اس کے ڈیڈی اور مما دونوں کا ہاتھ تھا۔ ان کی اَپنی فیملی کا ایک اچھا لڑکا کب سے اُن کی نظر میں تھا مگر ان کا بس نہ چل رہا تھا ۔ وہ اَپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے مگر اس پر اپنا کوئی فیصلہ ٹھونسنا نہیں چاہتے تھے۔ تا ہم ہسپتال سے واپسی پر جب ندرت نے اس کی ماں کی کنڈیشن بتائی تھی تو دونوں کو اُسے قائل کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی ۔ ایک ایسے لڑکے کا انتظار جو اَپنی ماں کے ساتھ اسقدر اٹیچڈ تھا کہ فی الحال کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا اس کا کتنا اِنتظار کیا جا سکتا تھا؟ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ عمر کے اس مرحلے میں تھی کہ اگر وہ سروائیو کر بھی جائے تو بھی اُسے بہت کئیر‘ سہارے اور مسلسل میڈیکل ایڈ کی ضرورت رہے گی۔ ندرت کے لیے یہ بات بہت مایوس کُن تھی ۔
مگر مایوس کرنے والی بڑھیا کا بیٹا بہ ہر حال ڈاکٹروں کی باتوں سے اُمید کے معنی نکال لیا کرتاتھا ۔اگلے پندرہ دن نبیل نے مزید اِنتطار کیا۔ ندرت اُسے ملنے تو نہیں آئی تاہم اس نے ہر روز فون کیا۔ اگر چہ وہ اُس سے صرف اُس کی ماں کی بیماری کی باتیں نہیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ کوئی دوسری بات کرسکنے سے پہلے ہی اس قدر نڈھال ہو جاتا تھا کہ وہ کوئی اور بات چھیڑنے کاحوصلہ ہی نہ کر پاتی تھی۔ ایک خوبصوت لڑکی جس کے سامنے زِندگی کے راستے پوری طرح کھلے تھے وہ کسی بھی ایک لڑکے سے محبت تو کر سکتی تھی مگر اس لڑکے سے صرف اس کی ماں کی بیماری کی باتوں پر اِکتفا نہیں کر سکتی تھی…. اور نہ ہی وہ کوئی اور بات کرنے کے لیے طویل اِنتظار کر سکتی تھی ۔ لہذا بہت تیزی سے دقل کے اندر خُوِشبو کی طرح بسی ہوئی محبت کے معدوم ہو نے پراسے کوئی بہت زیادہ الجھن نہیں ہو رہی تھی۔اس نے پندرھویں دِن ہی اَپنے کندھے اُچکا کر جَھٹک دئےے اور سوچا شایداس کی محبت کی پوریں اس لڑکے کے دِل پر بس اِتنے ہی دورانیے کے لیے ٹھہر سکتی تھیں ۔ تاہم اگلے دو روز اس نے اسے مسلسل کئی بار کالزکیں ۔ وہ اسے موجودہ دباﺅ کی صورت حال سے باہر کھینچ لانا چاہتی تھی۔ وہ باہر نہ آ پایا تو وہ اُس سے مکمل طور پر مایوس ہو گئی ۔نبیل ایسا بیٹا نہ تھا جو اَپنی ماںسے مایوس ہو جاتا۔ کبھی کبھی تو خود اُسے یوں لگتا جیسے وہ ابھی تک ماں کی کوکھ ہی میں تھا‘ سنگ تراش عباس شاہ کے اس ہیوج مجسمے کی طرح ‘ جو پتھر سے نہیں تراشا گیا تھا مگر نہ چھوﺅ تو سنگ مر مر کا لگتا تھا اور جس کے عین وسط میں ماں کے پیٹ کے اندر گھٹنوں میں سر گھسیڑے ایک بچہ تھا ۔وہ بچہ وہ خود تھا ۔حاملہ ماں کے بلوریں پتھر کے نظر آنے والے مجسمے کو اس نے تجسس سے چھو ا ‘ وہ تھر موپول جیسے اتنے ہلکے مٹریل کابنا ہواتھا کہ چھو نے پر لرزنے لگا تھا۔اس کی ماں کا جسم اسی مجسمے کی طرح ہلکا پھلکا ہو گیا تھا مگر چھونے پر لرزتا نہ تھا۔وہ بے سدھ پڑے وجود کو دیکھتا تو عجب وسوسے اس کے بدن پر تیر جایاکرتے اور اس وجود سے الگ رہنے کا خیال ہی اس کے بدن پر لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ تا ہم ہوا یوں کہ دن گزر رہے تھے اور گزرتے دنوں کو کون روک سکتا تھا ۔ ندرت جس کے پہلے فون آجایا کرتے تھے اب نہیں آرہے تھے ۔ دو تین بار اس نے اس سے خود رابطے کی کو شش بھی کی مگر ہر بار اسے بتایا گیا کہ وہ گھر پر نہیں تھی۔ حتی کہ اس کا اپنا فون آگیا۔ اُس نے اس کی ماں کا حال بھی نہیں پوچھا اور بغیر کسی تمہید کے اَپنی منگنی کی خبر دے دی ۔ اُسے ندرت کی آواز میں ایک لرزاہٹ سی محسوس ہو ئی مگر فون سنتے ہوے اُس کا صبر اور ضبط کا خوگر دِل اس شدت دھڑکا اور اتنی گہرائی میں ڈوبنے لگا تھا کہ لفظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ کچھ بھی نہ کَہ پایا۔
وہ مایوسی کے پانیوں میں ڈوب رہا تھا مگر اسے یقین کیسے آتا کہ اس کی محبت اس سے بچھڑ گئی تھی ‘ یوں کہ ساری رفاقت خواب سی لگنے لگی تھی۔تاہم اُس نے خود کو سنبھالا دِینا تھا….اور اُس نے خود کو سنبھا لا دیا کہ ُاس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ پورے حواس میں تھا جب ڈاکٹر کَہ رہے تھے:” حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ پیشنٹ کتنے روز تک سٹیبل ہو پا ئے “پھیپھڑوں کو سہولت دینے کے لیے جو نالی ڈالی گئی تھی اُسے نکالا جاتا تو سانسوں کے جَھٹکے پھر سے سارے بدن کو جھنجھوڑنے لگتے۔اُسے وہیں بینچ پر بیٹھے بیٹھے شاید اُونگھ آگئی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے وہاں اُونگھتے اُونگھتے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ رات ماں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اگرچہ ڈاکٹروں نے آکسیجن کی نالی پھیپھڑوں میں ایک بار پھر گھسیڑ کرفوری ریلیف فراہم کر دیا تھا مگر وہ نالی جو ناک سے معدے تک گھسیڑی گئی تھی ماں کو بہت اُلجھا رہی تھی ۔ وہ بار بار نالی کھینچنے کے لیے ہاتھ اوپر لے آتی۔ شاید نالی گزارتے ہوے جلد جہاںاندر کہیں چھِل گئی تھی‘ وہیں جلن ہو رہی تھی ۔ نبیل نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو جا کر بتا یا بھی۔ مگراس کا کہنا تھا:” معمولی سا ریپچر ہے خود ہی ہیل اپ ہو جائے گا‘ ذرا دھیان رکھیں کہ پیشنٹ نالی نکال نہ دے۔“ماں اگر چہ غنودگی میں تھی مگر اس کا ہاتھ بار بار ناک کی طرف کھسکنے لگتا تھا۔ وہ ہاتھ تھام کر رَکھتا تو وہی الجھن ماں کے کپکپاتے ہاتھ کے راستے خود اس کے اندر اتر جاتی۔ یہاں تک کہ اس کا دِل چاہنے لگا ‘وہ اس نالی کو خود ہی ماں کی ناک سے کھینچ کر اُلجھن سے نکل آئے ۔وہ رات بھر جبر کرتا رہا اور جاگتا رہا ۔ کھڑکی سے ذرا ساصبح نے جھانکا تو وہ اس کے تعاقب میں باہر نکل گیا۔ وہ ادھر اُدھر گھومتا رہا ‘ یوں ہی ۔ واپس پلٹا تو اس کے بدن پر عجیب طرح کا خالی پن قابض ہو چکا تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہوے ایمرجنسی میں ہونے والی بھاگ دوڑ کوبھی اس نے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔ بین کرتی عورتیں بہت بے ہودہ لگیں ۔ اس نے اُلجھتے ہوے سوچا کہ ان کے یوں دہرے ہو ہو کر گرنے سے کیا مردے زندہ ہو جائیں گے؟…. اور ایک تلخ سی ہنسی ہنس دیا ۔اندر سے اُٹھنے والے سوال کا اس کے نزدیک یہ مناسب جواب تھا۔رونے والیوں میں ایک لڑکی بہت خوب صورت تھی اور مرنے والی ماں جیسی بوڑھی بہت پروقار ۔ دونوں کو اُس نے صرف ایک نظر ہی دیکھا اور آگے بڑھ گیا تھا ۔ایمرجینسی سے کارڈیالوجی وارڈ کی راہداری تک وہ ہمیشہ دُکھ کی گرفت میں رہتا تھا مگر اس روز وہ اندر سے بالکل خالی تھا۔ بینچ پر بھی وہ ارادہ کر کے نہیں‘ یوں ہی بیٹھ گیا تھا اور اِتنی دیر تک اونگھتا رہا کہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا اِحساس پوری طرح معدوم ہو گیا۔وہ ٹھیک سے اندازہ نہ کر پا یا کہ ایک اسٹریچر کے تیزی سے دھکیلے جانے کے باعث اُٹھنے والے شور نے اُسے کتنی دیر بعد بیدار کیاتھا ۔
اسٹریچر وارڈ نمبر تین کی راہداری ہی سے لایا جارہا تھا اُسے غیر معمولی تجسس ہوا کہ وہ اس کا چہرہ دیکھے۔ اس نے اس کا چہرہ دیکھا بھی مگریہ اس کی ماں کا چہرہ نہیں تھا۔ وہ الٹے قدموں چلتا ‘بینچ پرڈھے گیا۔ شاید یہ وہ پہلا روز تھا جب نبیل نے اَپنی ماں کی مشکل آسان ہونے کی دعا کی تھی ۔وہ دعائیں کرتا رہا۔ حتی کہ اس کے ہاں اثاثہ سمجھے جانے والے سارے مقدس لفظ معنوں سے خالی ہو گئے۔ یوں‘ جیسے اسے باثروت بنانے والے سارے کرنسی نوٹوں کے مارکے اُڑ گئے ہوں۔زبان کی ڈھیری پر کیڑوں کی طرح کلبلانے اور رینگنے والے یہ لفظ بے دھیانی میں ہونٹوں پرآکر تیرنے لگتے اور پھر اسی بے خبری میں تالو سے چپک کر بے سدھ ہو جاتے ۔ وہ دیکھ رہا تھا مگر مرنے والوں اور ان کے ساتھ زندہ درگور رہنے والوں کے بیچ کو ئی تمیز نہ کر پا رہا تھا۔ لاشیں اس کے سامنے سے گزرتی تھیں۔ وہ ان پر نظر ڈالتا‘ یہ لاشیں اُسے دُکھ کی بہ جائے تسکین دینے لگی تھیں۔ تسکین نہیں اُس کا سا احساس۔ ملتا جلتا اور الگ سا بھی۔ اور یہی احساس شاید خود اس کے زندہ ہونے کی علامت تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ مرنے والوں کی نہیںبل کہ انتظار کھینچنے والوں کی مشکلیں آسان ہو رہی تھیں۔ ایسے میں اسے اپنے اندر سے تعفن اُٹھتا محسوس ہوا ۔ اُس نے اپنا سارا بدن ٹٹولنے کے لیے اُدھیڑ ڈالا۔ بہت اندر گھپ اندھیرے میں دو لا شیں پڑی تھی ۔ اُس نے صاف پہچان لیا ان میں سے ایک اس کی اَپنی محبت تھی اور دوسری کو دیکھے بغیر منھ پھیر لیا اور پورے خلوص سے رونے کی سعی کی مگر تعفن کا ریلا اسے دُکھ سے دور ‘بہت دور بہائے لیے جاتا تھا۔
دیدبان شمارہ۔
دکھ کیسے مرتا ہے
محمد حمید شاہد
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی نبیل کا دِل اُلٹنے لگا‘ زخموں پر لگائی جانے والی مخصوص دواﺅں کی تیزبُو نے سانسوں کی ساری اَمی جمی اُکھاڑ دی تھی۔اُسے میڈیکل وارڈ نمبر تین جانا تھا مگر اس ہسپتال میں خرابی یہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایمرجنسی وارڈ پڑتا تھا‘ جس میں کو ئی لمحہ شاید ہی خالی گزرتا ہو گا‘ جب کوئی نیا مریض نہ لایا جاتا ہوگا۔ نبیل نے تو جب بھی دیکھا‘ کٹے پھٹے‘ اُکھڑی ہوئی سانسوں والے اور برُی طرح تڑپتے مریضوں کو لائے جاتے دیکھا ۔ نرسیں اورڈاکٹر بھاگ بھاگ کر اُن کی جانیں بچا رہے ہوتے ۔ کسی کے زخموں کے راستے بدن سے باہر بہنے والے خُون کو روکا جارہا ہوتا‘ کسی کی رَگوں میں ٹھہر جانے والے لہومیں چھاتی دَبا دَبا کر بہاﺅ لانے کی کوشش ہو رہی ہوتی اور کوئی خود ہی کھانس کھانس کر پھیپھڑوں میں اکٹھی ہو جا نے والی رَت حلق تک منھ کھول کھول کر اُلٹ رہا ہوتا۔ اُس نے ہر بار سوچاان میں سے کئی بچ جاتے ہوں گے…. ضرور بچ جاتے ہوں گے‘ مگروہ تو جب بھی داخل ہو رہا ہوتا یا باہر نکلنے کو اُدھر جا تا ایک دولاشیں اسٹریچر پر دھری ہوتیں اور ان پر بے قابو ہوکر گرتی پڑتی روتی چیختی عورتوں کو ان کے مرد صبر کی تلقین کرتے ہوے الگ کر رہے ہوتے۔
مرنے والوں پر صبر آہی جاتا ہو گا۔نبیل عین اس لمحے م۶یں ایسا نہیں سوچتا تھا جب کہ وہ جگر پھاڑ ڈالنے والی چیخیں اور بین سن رہا ہوتا‘ بل کہ تب سوچتا جب وہ کارڈیالوجی وارڈ کی طویل راہداری میں پہنچتا…. اوراس کا سبب یہ تھا کہ اس نے یہاں سے ایسی ایسی لاشیں لا ئی جاتی دیکھ رکھی تھیں‘ جن کے ارد گرد چلنے والوں میں سے کوئی بھی چیخ نہیں رہا تھا۔ کوئی دبی دبی سی سسکی…. ضبط کرنے کے باوجود نکل آ نے والا آنسو….کچھ بھی تو نہیں۔ سب کے چہرے سفید کفن کی طرح صاف تھے…. اور وہ اسٹریچر کے ساتھ ساتھ یوں چل رہے تھے ‘ جیسے اس لاش کے احترام میں خامشی سے چلنے کی وہ برسوں سے مشق کرتے آئے تھے ….اور اب موقع آگیا تھا تو صبر کے آئینے میں بال لا کر وہ ساری ریاضت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ عین اُسی لمحے اُس نے یہ بھی سوچا تھا کہ یہ جو اچانک مصیبت آجاتی ہے ‘یہ آدمی کو بو کھلا کر بے صبرا بنا دیتی ہے ورنہ توصبر آہی جایا کرتاہے۔ایمرجنسی سے ملحق کارڈیالوجی وارڈتھا یہاں پہنچ کر اور ایسا سوچ کر اُس کی سانسوں میں توازن آجاتا۔ نبیل اس وارڈ سے مانوس تھا۔ کئی ہفتے پہلے وہ یہاںتین بارآیا تھا۔ تینوں بار اسے ندرت لائی تھی ۔ اُس کے ڈیڈی کو وہم ہو گیا تھا کہ شایدندرت کی مما کوہارٹ پرابلم ہو گیاتھا۔ ندرت نے اُسے بتایا تھا کہ ایک دوپہراُس کی مما کھانا کھا کر حسب معمول گھنٹہ بھر کے لیے لیٹی ‘ اُٹھی‘ تو چھاتی پر بوجھ تھا۔ ایک گولا سا ناف کے اوپر سے اُٹھتا اور پسلیوں کے اس وسطی احاطے میں‘ جہاں کہیں دل تھا‘ معدوم ہو کر ایک چبھن چھوڑ جاتا تھا۔ اُس کے ڈیڈی اُس کی مما کویہاں لے آئے تھے اور جب تک سارے ٹیسٹ ہو نے کے بعد ڈاکٹروں نے ہرطرح سے تسلی نہیں کرادی اُسے ہسپتال سے واپس نہیں لے گئے تھے ۔خود نبیل کو دِل کی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا….اور اُسے یقین تھا کہ اُس جیسا آدمی ‘ جوزِندگی کے معاملات کو دِل پر انتہائی صبر اور احتیاط سے لیتا ہو‘ اُسے دل کی بیماری لگنی بھی نہیں چاہیے مگر اس کے باوجود جب اُسے پہلی بار ندرت کی مماکو دیکھنے آنا پڑا تھا تودِل میں اختلاج سا ہونے لگا تھا ۔ اس پر اُس نے دوسرے وزٹ تک قابو پانا سیکھ لیا۔ شاید جو اُس نے یوں سیکھا‘ وہ ضبط تھا۔ صبر کرنا اور ہوتا ہے اور ضبط کرنا اور …. اور صبر کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ تو اِسے بہت پہلے کا سیکھ چکا تھا۔میڈیکل وارڈآگے تھا۔ دائیں ایک‘ بائیں دو اور سامنے تین۔ اِسی تیسرے وارڈ کے پرائیویٹ روم نمبر پچیس میں اس کی اَپنی ماں پڑی ہوئی تھی۔ ماں بیمار تو کب کی تھی ‘ شاید اب تو اُسے بھولنے لگا تھا کہ وہ کبھی ٹھیک بھی رہی ہو گی۔ اُسے ابا کے مرنے کے بعد دائیں طرف فالج پڑا تھا اور وہ بستر سے جا لگی تھی ۔شروع شروع میں جب پیاس سے اُس کا حلق خشک ہونے لگتا ‘ بھوک سے انتڑیوں میں کُڑوَل پڑتے یا پھر انجانے میں بستر گیلا ہو جاتا‘ اتنا زیادہ گیلا کہ وہ کمر کاٹنے لگتا ‘ تو وہ اُسے بلانے کی کوشش کرتی تھی ۔
’اُوں آﺅں‘ جیسی آوازیں نکالنے کے لیے اُسے حلق اور چھاتی پر اِتنا بوجھ ڈالنا پڑتا تھا کہ نچلا جبڑا ‘ایک طرف کو ڈھلک جاتا اور سارا بدن سکڑ کر دہرا ہونے لگتا ۔ وہ پہنچ جاتا ….پہلے پہلے فوراً…. لپک کر‘ مگر یہ معمول کا حصہ ہو گیا تولپک جھپک میں وقفے پڑنے لگے …. کہ بعد میں اُسے خود کو تیار کرنا پڑتا تھا۔ایک روز جب اُس کی ماں آواز دینے کے بعد اپنا جبڑا ڈھلکا چکی تھی اور گُھٹنے اُوپر کو کھساکراُس نے اپنا بدن بھی دہرا کرلیا تھا کہ کال بیل بجی ….”ٹ…. ا اا“یوں جیسے باہر بٹن پر آہستگی سے اُنگشت رکھ کر فوراً ہٹا لی گئی ہو اور ادھر اندر کال بیل کی آواز ٹوٹ کر گر گئی ہو …. پھر خاموشی چھا گئی …. طویل خاموشی ‘ اتنی کہ ماں کی آواز اُس میں کہیں ڈوب گئی ۔ اُس کا اپنا دِل رُک سا گیا ‘ ایک قدرے طویل آوازکے لیے۔ندرت جب بھی آتی تھی پہلی بار پش بٹن کو ذرا ساچھو کر ہاتھ گرا دیا کرتی تاہم دوسری بار معمول سے کہیں لمبی ”ٹرراررارن“ ہوتی۔ اتنی کہ وہ اس آواز کے بند ہونے سے پہلے تک صدر دروازے تک بہ سہولت پہنچ جایا کرتاتھا۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا‘ اور وہ باہر پہنچ گیا۔ وہ اندر نہیں آئی تھی …. اس کے انداز بتا رہے تھے وہ اندر بیٹھ کر باتیں کرنے کو آئی ہی نہیں تھی ۔ اُس نے بغیر کچھ کہے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ندرت کے لیے اُس کاارادہ کوئی معنی نہیں رَکھتا ۔ نبیل خود بھی اُسے سامنے پا کر اپنا ارادہ منہا کرلیا کرتاتھا۔ وہ ہے ہی ایسی ‘ رَکھ رَکھاﺅ اور دَبدَبے والی۔ اگر وہ صرف غیر معمولی حد تک حسین ہوتی تو شاید ایسی نہ ہوتی ۔ معاشی آسودگی اس کے انگ انگ سے اور اُس کی ہر ادا سے بہتی تھی …. یوں جیسے کوئی شریر ندی ڈھلوان میں لپکتی ہے ۔ڈھلوان میں نبیل تھا …. اور ہر بار وہ بہہ جاتا تھا ‘بے ارادہ ہی ۔اُس روز جب وہ کئی گھنٹوںکے بعد گھرپلٹا تھا تو اندر داخل ہوتے ہی پیشاب کی سڑاند کے بھبکوں نے اُس کا منھ پھیر کر رکھ دیا۔ اُس کی نظر ماں کی چارپائی کے نیچے پڑی ۔ وہاں ‘ جہاںسارا فرش گیلا ہو رہا تھا۔ ڈھلوان چوں کہ دروازے کی سمت تھی لہذا ایک گیلی سی لکیر اُدھر تک بہہ آئی تھی۔ دُکھ اور ندامت ایک ساتھ اُس کے اندر سے پھوٹ پڑا‘ بے ارادہ ہی۔آدمی ارادے سے دُکھی کہاں ہوتااور ارادہ کر کے اپنے دُکھ دَرد کیسے ٹال سکتا ہے ۔زِندگی کی وہ ساری دِل کشی جو جذبوں سے کناروں تک بھری ہوئی ایک لڑکی کے سبب کچھ دیر پہلے تک مہک بن کر اس کی سانسوں میں رچی بسی ہوئی تھی ‘اب وہ کہیں نہیں تھی ۔ ماں نے اُسے دیکھ کر منھ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ اُس نے ماں کے اوپر چادر ڈالی اور اپنا منھ بھی دوسری طرف پھیر لیا۔ اب صرف اس کے ہاتھ کا م کر رہے تھے اور جب وہ ماں کا بدن پونچھ پانچھ کر اُسے خشک کر چکا تو منھ پھیرے پھیرے اسے دونوں بازﺅں میں اُٹھا کر پاس پڑی دوسری چارپائی پر ڈالا ۔
نبیل کو یہ جان کر شدید صدمہ ہوا کہ ماں اپنا وزن بڑی تیزی سے گرا چکی تھی۔جس انہماک ‘تردّد ‘احتیاط اور احترام سے اُس نے ماں کے بدن کو دوسری طرف دیکھتے رہتے ہوے سُکھایا تھا ‘چادر کی اوٹ تلے اس کا لباس بدلا تھا ۔ پیشاب سے سَنے ہوے بستر کو الگ کرکے صاف ستھرا گدا بچھا کر اوپر یوں چادر پھیلائی تھی کہ اس میں ایک شکن بھی باقی نہ رہی تھی اس نے ماں کی پیشانی کی ساری شکنیں معدوم کر دی تھیں اوراُس کی پوری طرح کھلی رہنے اور ہر دم پھڑکنے والی دائیں آنکھ کو آنسوﺅں سے بھر دیا تھا۔ہسپتال کی راہداری میں‘ کارڈیالوجی وارڈ سے ذرا آگے‘ جہاں ایک اور راہداری پہلی کو کاٹتی تھی؛ وہیں‘ چاروں کونوںپر‘دیواروں کے ساتھ لوہے کے بینچ جڑ ے ہوے تھے۔ وارڈ نمبر تین میں داخل ہونے سے پہلے وہ یہاں کچھ لمحوں کے لیے بیٹھ جایا کرتا تھا…. شروع شروع میں نہیں ‘ تب سے کہ جب ماں کو ہسپتال میںداخل ہوے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا تھا۔ پھر تو اُسے یہاں پہنچ کر جب بھی کوئی بینچ خالی نظر آتا تو ضرور بیٹھتا تھا۔پہلی بار وہ ندرت کے ساتھ یہاں بیٹھا تھا ‘ مگر جاتے ہوے نہیں ‘ماں کو کمرا نمبر پچیس میں دیکھ کر آنے کے بعد۔ ندرت کو بہت تشویش تھی کہ پیشنٹ میں سروائیول کے امکانات بہت کم تھے۔ وہ ہسپتال اُس کی ماں کو دیکھنے پھر کبھی نہیں آئی تھی تا ہم اس کے بعد جب بھی اس نے اسے فون کیا وہ ہر بار اُس کی ماں کی بیماری کی طوالت کے خوف سے سہمی ہوئی لگی۔ نبیل کی ماں کی بیماری واقعی طویل ہو گئی تھی۔ شوگر کے سبب بیڈسولز بھی ٹھیک نہ ہو رہے تھے۔ وہ سانس لیتی تو چھاتی میں سیٹیاں بجتی تھیں ۔ کچھ عرصہ تو ڈاکٹروں نے آکسیجن کا ماسک منھ پر چڑھائے رکھا مگر جب ہر سانس پر سارا بدن جَھٹکے کھانے لگا تو انہوں نے نرخرے کے قریب کٹ لگا کر نالی اندر پھیپھڑوں میں گھسڑ دی۔ کوئی بھی ڈاکٹر یقین سے کچھ نہیں کَہ سکتا تھا کہ اُس کی ماں کے پھیپھڑے خود سے سانس لینے کے لیے کب تک قابل ہو پائیں گے۔ کبھی تووہ بہت امید افزا باتیں کرتے اور کبھی بالکل ہی مایوس کر دیتے تھے۔ندرت ہسپتال آنے کے اگلے پندرہ دنوں میں ہی اُس سے مایوس ہو چکی تھی۔ اسے مایوس کرنے میں اس کے ڈیڈی اور مما دونوں کا ہاتھ تھا۔ ان کی اَپنی فیملی کا ایک اچھا لڑکا کب سے اُن کی نظر میں تھا مگر ان کا بس نہ چل رہا تھا ۔ وہ اَپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے مگر اس پر اپنا کوئی فیصلہ ٹھونسنا نہیں چاہتے تھے۔ تا ہم ہسپتال سے واپسی پر جب ندرت نے اس کی ماں کی کنڈیشن بتائی تھی تو دونوں کو اُسے قائل کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی ۔ ایک ایسے لڑکے کا انتظار جو اَپنی ماں کے ساتھ اسقدر اٹیچڈ تھا کہ فی الحال کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا اس کا کتنا اِنتظار کیا جا سکتا تھا؟ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ عمر کے اس مرحلے میں تھی کہ اگر وہ سروائیو کر بھی جائے تو بھی اُسے بہت کئیر‘ سہارے اور مسلسل میڈیکل ایڈ کی ضرورت رہے گی۔ ندرت کے لیے یہ بات بہت مایوس کُن تھی ۔
مگر مایوس کرنے والی بڑھیا کا بیٹا بہ ہر حال ڈاکٹروں کی باتوں سے اُمید کے معنی نکال لیا کرتاتھا ۔اگلے پندرہ دن نبیل نے مزید اِنتطار کیا۔ ندرت اُسے ملنے تو نہیں آئی تاہم اس نے ہر روز فون کیا۔ اگر چہ وہ اُس سے صرف اُس کی ماں کی بیماری کی باتیں نہیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ کوئی دوسری بات کرسکنے سے پہلے ہی اس قدر نڈھال ہو جاتا تھا کہ وہ کوئی اور بات چھیڑنے کاحوصلہ ہی نہ کر پاتی تھی۔ ایک خوبصوت لڑکی جس کے سامنے زِندگی کے راستے پوری طرح کھلے تھے وہ کسی بھی ایک لڑکے سے محبت تو کر سکتی تھی مگر اس لڑکے سے صرف اس کی ماں کی بیماری کی باتوں پر اِکتفا نہیں کر سکتی تھی…. اور نہ ہی وہ کوئی اور بات کرنے کے لیے طویل اِنتظار کر سکتی تھی ۔ لہذا بہت تیزی سے دقل کے اندر خُوِشبو کی طرح بسی ہوئی محبت کے معدوم ہو نے پراسے کوئی بہت زیادہ الجھن نہیں ہو رہی تھی۔اس نے پندرھویں دِن ہی اَپنے کندھے اُچکا کر جَھٹک دئےے اور سوچا شایداس کی محبت کی پوریں اس لڑکے کے دِل پر بس اِتنے ہی دورانیے کے لیے ٹھہر سکتی تھیں ۔ تاہم اگلے دو روز اس نے اسے مسلسل کئی بار کالزکیں ۔ وہ اسے موجودہ دباﺅ کی صورت حال سے باہر کھینچ لانا چاہتی تھی۔ وہ باہر نہ آ پایا تو وہ اُس سے مکمل طور پر مایوس ہو گئی ۔نبیل ایسا بیٹا نہ تھا جو اَپنی ماںسے مایوس ہو جاتا۔ کبھی کبھی تو خود اُسے یوں لگتا جیسے وہ ابھی تک ماں کی کوکھ ہی میں تھا‘ سنگ تراش عباس شاہ کے اس ہیوج مجسمے کی طرح ‘ جو پتھر سے نہیں تراشا گیا تھا مگر نہ چھوﺅ تو سنگ مر مر کا لگتا تھا اور جس کے عین وسط میں ماں کے پیٹ کے اندر گھٹنوں میں سر گھسیڑے ایک بچہ تھا ۔وہ بچہ وہ خود تھا ۔حاملہ ماں کے بلوریں پتھر کے نظر آنے والے مجسمے کو اس نے تجسس سے چھو ا ‘ وہ تھر موپول جیسے اتنے ہلکے مٹریل کابنا ہواتھا کہ چھو نے پر لرزنے لگا تھا۔اس کی ماں کا جسم اسی مجسمے کی طرح ہلکا پھلکا ہو گیا تھا مگر چھونے پر لرزتا نہ تھا۔وہ بے سدھ پڑے وجود کو دیکھتا تو عجب وسوسے اس کے بدن پر تیر جایاکرتے اور اس وجود سے الگ رہنے کا خیال ہی اس کے بدن پر لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ تا ہم ہوا یوں کہ دن گزر رہے تھے اور گزرتے دنوں کو کون روک سکتا تھا ۔ ندرت جس کے پہلے فون آجایا کرتے تھے اب نہیں آرہے تھے ۔ دو تین بار اس نے اس سے خود رابطے کی کو شش بھی کی مگر ہر بار اسے بتایا گیا کہ وہ گھر پر نہیں تھی۔ حتی کہ اس کا اپنا فون آگیا۔ اُس نے اس کی ماں کا حال بھی نہیں پوچھا اور بغیر کسی تمہید کے اَپنی منگنی کی خبر دے دی ۔ اُسے ندرت کی آواز میں ایک لرزاہٹ سی محسوس ہو ئی مگر فون سنتے ہوے اُس کا صبر اور ضبط کا خوگر دِل اس شدت دھڑکا اور اتنی گہرائی میں ڈوبنے لگا تھا کہ لفظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ کچھ بھی نہ کَہ پایا۔
وہ مایوسی کے پانیوں میں ڈوب رہا تھا مگر اسے یقین کیسے آتا کہ اس کی محبت اس سے بچھڑ گئی تھی ‘ یوں کہ ساری رفاقت خواب سی لگنے لگی تھی۔تاہم اُس نے خود کو سنبھالا دِینا تھا….اور اُس نے خود کو سنبھا لا دیا کہ ُاس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ پورے حواس میں تھا جب ڈاکٹر کَہ رہے تھے:” حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ پیشنٹ کتنے روز تک سٹیبل ہو پا ئے “پھیپھڑوں کو سہولت دینے کے لیے جو نالی ڈالی گئی تھی اُسے نکالا جاتا تو سانسوں کے جَھٹکے پھر سے سارے بدن کو جھنجھوڑنے لگتے۔اُسے وہیں بینچ پر بیٹھے بیٹھے شاید اُونگھ آگئی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے وہاں اُونگھتے اُونگھتے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ رات ماں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اگرچہ ڈاکٹروں نے آکسیجن کی نالی پھیپھڑوں میں ایک بار پھر گھسیڑ کرفوری ریلیف فراہم کر دیا تھا مگر وہ نالی جو ناک سے معدے تک گھسیڑی گئی تھی ماں کو بہت اُلجھا رہی تھی ۔ وہ بار بار نالی کھینچنے کے لیے ہاتھ اوپر لے آتی۔ شاید نالی گزارتے ہوے جلد جہاںاندر کہیں چھِل گئی تھی‘ وہیں جلن ہو رہی تھی ۔ نبیل نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو جا کر بتا یا بھی۔ مگراس کا کہنا تھا:” معمولی سا ریپچر ہے خود ہی ہیل اپ ہو جائے گا‘ ذرا دھیان رکھیں کہ پیشنٹ نالی نکال نہ دے۔“ماں اگر چہ غنودگی میں تھی مگر اس کا ہاتھ بار بار ناک کی طرف کھسکنے لگتا تھا۔ وہ ہاتھ تھام کر رَکھتا تو وہی الجھن ماں کے کپکپاتے ہاتھ کے راستے خود اس کے اندر اتر جاتی۔ یہاں تک کہ اس کا دِل چاہنے لگا ‘وہ اس نالی کو خود ہی ماں کی ناک سے کھینچ کر اُلجھن سے نکل آئے ۔وہ رات بھر جبر کرتا رہا اور جاگتا رہا ۔ کھڑکی سے ذرا ساصبح نے جھانکا تو وہ اس کے تعاقب میں باہر نکل گیا۔ وہ ادھر اُدھر گھومتا رہا ‘ یوں ہی ۔ واپس پلٹا تو اس کے بدن پر عجیب طرح کا خالی پن قابض ہو چکا تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہوے ایمرجنسی میں ہونے والی بھاگ دوڑ کوبھی اس نے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔ بین کرتی عورتیں بہت بے ہودہ لگیں ۔ اس نے اُلجھتے ہوے سوچا کہ ان کے یوں دہرے ہو ہو کر گرنے سے کیا مردے زندہ ہو جائیں گے؟…. اور ایک تلخ سی ہنسی ہنس دیا ۔اندر سے اُٹھنے والے سوال کا اس کے نزدیک یہ مناسب جواب تھا۔رونے والیوں میں ایک لڑکی بہت خوب صورت تھی اور مرنے والی ماں جیسی بوڑھی بہت پروقار ۔ دونوں کو اُس نے صرف ایک نظر ہی دیکھا اور آگے بڑھ گیا تھا ۔ایمرجینسی سے کارڈیالوجی وارڈ کی راہداری تک وہ ہمیشہ دُکھ کی گرفت میں رہتا تھا مگر اس روز وہ اندر سے بالکل خالی تھا۔ بینچ پر بھی وہ ارادہ کر کے نہیں‘ یوں ہی بیٹھ گیا تھا اور اِتنی دیر تک اونگھتا رہا کہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا اِحساس پوری طرح معدوم ہو گیا۔وہ ٹھیک سے اندازہ نہ کر پا یا کہ ایک اسٹریچر کے تیزی سے دھکیلے جانے کے باعث اُٹھنے والے شور نے اُسے کتنی دیر بعد بیدار کیاتھا ۔
اسٹریچر وارڈ نمبر تین کی راہداری ہی سے لایا جارہا تھا اُسے غیر معمولی تجسس ہوا کہ وہ اس کا چہرہ دیکھے۔ اس نے اس کا چہرہ دیکھا بھی مگریہ اس کی ماں کا چہرہ نہیں تھا۔ وہ الٹے قدموں چلتا ‘بینچ پرڈھے گیا۔ شاید یہ وہ پہلا روز تھا جب نبیل نے اَپنی ماں کی مشکل آسان ہونے کی دعا کی تھی ۔وہ دعائیں کرتا رہا۔ حتی کہ اس کے ہاں اثاثہ سمجھے جانے والے سارے مقدس لفظ معنوں سے خالی ہو گئے۔ یوں‘ جیسے اسے باثروت بنانے والے سارے کرنسی نوٹوں کے مارکے اُڑ گئے ہوں۔زبان کی ڈھیری پر کیڑوں کی طرح کلبلانے اور رینگنے والے یہ لفظ بے دھیانی میں ہونٹوں پرآکر تیرنے لگتے اور پھر اسی بے خبری میں تالو سے چپک کر بے سدھ ہو جاتے ۔ وہ دیکھ رہا تھا مگر مرنے والوں اور ان کے ساتھ زندہ درگور رہنے والوں کے بیچ کو ئی تمیز نہ کر پا رہا تھا۔ لاشیں اس کے سامنے سے گزرتی تھیں۔ وہ ان پر نظر ڈالتا‘ یہ لاشیں اُسے دُکھ کی بہ جائے تسکین دینے لگی تھیں۔ تسکین نہیں اُس کا سا احساس۔ ملتا جلتا اور الگ سا بھی۔ اور یہی احساس شاید خود اس کے زندہ ہونے کی علامت تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ مرنے والوں کی نہیںبل کہ انتظار کھینچنے والوں کی مشکلیں آسان ہو رہی تھیں۔ ایسے میں اسے اپنے اندر سے تعفن اُٹھتا محسوس ہوا ۔ اُس نے اپنا سارا بدن ٹٹولنے کے لیے اُدھیڑ ڈالا۔ بہت اندر گھپ اندھیرے میں دو لا شیں پڑی تھی ۔ اُس نے صاف پہچان لیا ان میں سے ایک اس کی اَپنی محبت تھی اور دوسری کو دیکھے بغیر منھ پھیر لیا اور پورے خلوص سے رونے کی سعی کی مگر تعفن کا ریلا اسے دُکھ سے دور ‘بہت دور بہائے لیے جاتا تھا۔