ذائقہ

ذائقہ

Jun 24, 2023

دیدبان شمارہ ۔۱۹

" ذائقہ "

مطربہ شیخ

دروازے پر ہلکی سے دستک کے ساتھ ناصر نے دروازے سے جھانکتے ہوئے کہا، سر جلدی سے لنچ کرنے آ جائیں، آج میں گھر سے پائے کا سالن لایا ہوں، نان منگوانے چپراسی کو بھیجا ہے۔

میں نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظر اٹھائی اور دروازے کی طرف دیکھا، لیکن ناصر جا چکا تھا۔

میری بھوک پائے کے سالن کا سن کر چمک اٹھی، جب میں آفس کے مشترکہ کمرے میں پہنچا تو تقریبا سب ہی بیٹھ چکے تھے، میں بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

کھانے کے دوران گپ شپ ہوتی رہی، ناصر کی بیوی اچھا کھانا بناتی ہے، مہینے میں ایک بار سب ہی کولیگز اپنے گھر سے کھانا لاتے تھے اور اکثر ایک دوسرے کی بیویوں کے ہاتھ کے ذائقے کی تعریفیں کرواتے تھے یا خود ہی کرتے رہتے، پائے اچھے بنے ہیں۔ میں نے بالآخر تعریف کی۔

ناصر یہ سن کر کھل اٹھا اور چہک کر کہا،

بہت شکریہ باس۔ میں اسکا کندھا تھپکتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گیا اور سگریٹ سلگائی پھر کھڑکی کھول کر نیچے سڑک پر دیکھنے لگا، شہر کی سب سے بڑی شارع کبھی ٹریفک سے خالی نہ ہوتی تھی، اسوقت بھی رواں دواں ٹریفک کا شور عمارت کی بارہویں منزل تک  پہنچ رہا تھا۔

کھڑکی بند کرنے کے بعد میں نے دوبارہ کرسی سنبھالی، اور لیپ ٹاپ آن کر لیا، لیکن اب میرے لئے کام کرنا مشکل ہو چکا تھا، مجھے اپنی بیوی کی یاد آ گئ جو اپنے مائیکے دوسرے شہر گئ ہوئی تھی اور پندرہ دن ہو گئے تھے، اسکا آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

میں نے واٹساپ پر ویڈیو کال ملائی۔

گھنٹی بجتے ہی فون اٹھا لیا گیا، میں نے مسکراتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگائی، اور کہا ہاں بھئ کیا ہو رہا ہے؟

اسکی  جھلاہٹ بھری آواز آئی

سونے ہی لیٹی تھی کہ آپ نے کال کر لی، سکون نہیں آپکو۔ دور آ کر بھی سونے نہیں دے رہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا، سامنے تو آو،  تم کو سونے کی بیماری ہو گئ ہے، جب بھی کال کرو سو رہی ہوتی ہو۔

وہ جماہی لیتے ہوئے کہنے لگی ، اتنی لمبی دوپہر ہے، کل رات نیند بھی پوری نہیں ہوئی، ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔

ایک تو تم لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتیں، چلو واپسی کرو، فلائٹ کروا دوں۔

افوہ آپکی سمجھ میں بات نہیں آ رہی، تین برس کے بعد میں اپنے میکے آئی ہوں، اگلے برس آپکا دوسرا بلونگڑا بھی اسکول جانے لگے گا، بڑے کی کلاس بھی بڑی ہو جائے گی، پھر مصروفیت بڑھ جائے گی۔

دو ماہ یہیں گزارنے دیں، بس اب واپسی کا نہ کہنا۔

اچھا بچوں کو تو بلاو۔ میں نے کہا۔

سارے بچے ایکس باکس میں لگے ہوئے ہیں، شام کو بات کروا دونگی، چلیں آپ بھی آفس کا کام کریں، مجھے واقعی سونا ہے، خدا حافظ

اس نے کال کاٹ دی۔

میں نےطویل سانس لیتے ہوئے لیپ ٹاپ پر آنکھیں چپکا دیں۔

شام کو آفس سے باہر نکلا تو ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

پارکنگ ایریا میں لوگ جلدی جلدی گاڑیاں نکال رہے تھے۔

میں نے بھی جگہ ملتے ہی گاڑی نکالی اور تیزی سے سڑک پر لے آیا، بارش تیز ہونے اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہیے، میں بڑبڑایا لیکن بے ہنگم ٹریفک کی بدولت ایسا ممکن نہ تھا، راستے میں ایک جگہ ٹریفک جام کے باعث گاڑی روکنی پڑی، میں نے اکتا کر سگریٹ سلگائی،  لیکن ایک بد ذائقہ سی ڈکار نے میرے منہ کا مزہ خراب کر دیا، میں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر تھوکا اور سگریٹ بھی ساتھ پھینک دی۔

خدا خدا کر کے گھر والے علاقے میں پہنچا، یہاں بارش کا زور کم تھا، شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا، گھر کی طرف جانے والی ذیلی سڑک پر گاڑی موڑتے ہی ایک بچہ گاڑی کے سامنے آ گیا،  میں نے پوری طاقت سے بریک لگائے، پھر بھی گاڑی بچے کے قریب پہنچ ہی گئ، بچہ گھبرا کر گرا اور چیخ کر رونے لگا، میں تیزی سے گاڑی سے اترا اور بچے کو اٹھایا، فٹ پاتھ سے ایک عورت ایک چھوٹے سے بچے کو بغل میں دبائے بھاگتی ہوئی قریب آ گئ، سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے افراد گاریاں روک کر اور رفتار ہلکی کر کے تماشا دیکھنے لگے تھے، میں نے بچے کو پچکارتے ہوئے کہا، کچھ نہیں ہوا ہے، کوئی چوٹ نہیں لگی ہے، میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے ٹٹولا، وہ گھبرا کر خاموش ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔

ایک موٹر سائیکل سوار نے کہا، راستے سے گاڑی ہٹائیں صاحب، یہ تو بھکاری ہیں، ہر بھک منگا اس شہر میں آکر ہمارے سر پر سوار ہو گیا ہے، ہر چوک ہر سڑک پر یہ موجود ہیں، راستہ چلنا دوبھر ہو گیا ہے۔

عورت نے بچے کو اٹھاتے ہوئے کہا، ہم بھکاری نہیں ہیں اور فٹ پاتھ کی طرف بڑھ گئ۔

میں نے گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کر لیا اور گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔

دوسرے دن آفس سے واپسی پر مجھے وہ عورت اور بچے نظر آئے،  آج بھی وہی بچہ سڑک پر آ رہا تھا اور پھر گاڑی کو قریب دیکھ کر واپس فٹ پاتھ کی طرف بھاگ جاتا تھا۔

تیسرے دن بچے کی وہی حرکت دیکھ کر میں رہ نہ سکا، گاڑی فٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کر دی اور عورت کا جائزہ لیا، وہ بھکاری  واقعی نہیں لگتے تھے، عورت جوان تھی، بڑی سی مقامی  چادر اوڑھی ہوئی تھی، آدھا ڈھکا ہوا چہرہ، چہرے کا کھلا ہوا حصہ صاف گندمی رنگت کا تھا،  بچے بھی اچھی صورتوں کے تھے، مجھے اپنے بچے یاد آ گئے۔

میں نے نرمی سے پوچھا، کیا پریشانی ہے، تم کیوں سڑک پر بیٹھی ہو اسطرح۔

وہ چپ رہی، میں نے ذرا ڈپٹ کر کہا، بتاو ورنہ پولیس کو بلاوں گا۔

وہ آہستہ سے بتانے لگی۔ ہم گاوں سے آئے ہیں وہاں سیلاب آیا ہوا ہے، گھر اور جانور بہہ گئے، میرا آدمی بھی بہہ گیا،  میرا سسر مجھے یہاں لے آیا، وہ سڑک کے پار والی عمارت میں مزدوری کر رہا ہے، اور ہم یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی وہ آئے گا تو ہم چلے جائیں گے ادھر میدان میں جھونپڑی ڈالی ہے، اس نے اشارے سے بتایا۔

وہ میدان نہ تھا، ایک خالی پلاٹ تھا۔

میں نے افسوس سے کہا، تو ابھی چلی جاو، اسطرح سڑک پر نہ بیٹھو، بچے کو روکو کسی گاڑی کے نیچے نہ آ جائے۔

وہ چپ رہی۔

میں نے کہا، جاو شاباش۔

وہ بیٹھی رہی۔ پھر بولی۔ لوگ تنگ کرتے ہیں جی، میں چاچا کے ساتھ ہی جاونگی۔

میں نے تاسف سے سر ہلایا اور گاڑی بڑھا لی۔گھر پہنچ کر بھی مجھے افسوس ہوتا رہا۔

دو تین وہ نظر نہ آئے، میں بھی بھول گیا۔

اتوار کے دن میں دیر تک سونا چاہتا تھا لیکن حسب معمول آنکھ جلدی کھل گئ، میں اٹھا اور چائے بنائی جو بہت بد مزہ بنی، مجھے کھانا بنانے کی عادت نہ تھی، تین بہنوں کا اکلوتا بھائی، ہمیشہ میرے ناز نخرے اٹھائے گئے، تیسری بہن کی شادی ہونے کے بعد اچانک امی کا انتقال ہو گیا،  تو چھ ماہ کے اندر ہی ابا نے میری شادی اپنے دوست کی بیٹی سے کروا دی، میری بیوی کم عمر لیکن بہت سگھڑ تھی، آتے ہی گھر سنبھال لیا، ابا پرسکون ہو کر دنیا سدھار گئے۔

بیوی کے بھائی کی ملازمت جب انکے آبائی شہر میں ہوئی، تو اسکے والدین فورا آبائی شہر سدھار گئے۔

میری بیوی کو بھی شوق ہو رہا تھا کہ وہ بھی آبائی شہر دیکھے۔ گھومے پھرے لیکن میں جانے نہ دیتا تھا، لیکن اس برس بچوں کی چھٹیوں میں وہ چلی ہی گئ۔

میں نے بے مزہ ہو کر چائے سنک میں بہا دی۔

باورچی خانے میں جا بجا گندے برتن بکھرے ہوئے تھے، میں نے بادل نخواستہ برتن دھوئے، سلیب صاف کی۔

باورچی خانے سے نکل کر جائزہ لیا تو پورا گھر ہی گندا ہو رہا تھا۔

آندھی اور بارش نے گیراج اور چھوٹے سے لان کا حلیہ بھی بگاڑ دیا تھا۔

میں نے سوچا اپنی بہن کے گھر جا کر اس سے ملازمہ کا کہتا ہوں اور ناشتہ بھی وہیں کرلونگا۔

گاڑی کی چابی اٹھائی، اور گھر سے نکل آیا۔

ذیلی سڑک پر پہنچتے ہی مجھے دو چھوٹے  بچے سڑک پر بھاگتے نظر آئے، اتوار کے باعث سڑک پر رش نہ ہونے کے برابر تھا، وہ بے فکر ہو کر بھاگ رہے تھے، میری گاڑی کا ہارن سن کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئے، میں نے سرسری نظر ڈالی، عورت بھی فٹ پاتھ پر موجود تھی۔

میں نے چوراہے سے گاڑی واپس موڑی اور فٹ پاتھ کے ساتھ لگا کر کھڑی کر دی۔ بچے ماں کے قریب بیٹھ گئے، عورت نے میری طرف دیکھا، آج اسکا چہرہ میرے سامنے واضح تھا، ستواں ناک جس میں نتھ موجود تھی، بھرے بھرے ہونٹ اور اداس آنکھیں۔ جو مجھے دیکھتے ہی جھک گئیں۔

میں نے پوچھا گھر کا کام کرو گی صفائی وغیرہ۔

وہ چپ رہی۔

میں نے دوبارہ کہا، اسطرح سڑک کنارے بیٹھنا ٹھیک نہیں، کام کرو، پیسے ملیں گے۔

اس نے میری طرف دیکھا، اور پوچھا۔

گھر میں عورت ہے۔

میں نے جھوٹ بولا، ہاں میری بیوی ہے اسکی طبعیت خراب ہے۔

گھر کے کام کے لئے ملازمہ کی ضرورت ہے، چلو میرے ساتھ۔

وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئی " چاچا کو بتا کر آتی ہوں"

بچے کو بھیج دو وہ بتا دے گا۔

اس نے گھبرا کر کہا، بچے  ساتھ جائیں گے۔

میں نے اکتا کر کہا، چلو جلدی کرو پھر بیٹھو گاڑی میں، اور گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔

وہ تینوں بیٹھ گئے۔

راستے میں رک کر میں نے  سے بیکری سے ڈبل روٹی انڈے اور دودھ کے پیکٹ خریدے۔

گھر پہنچ کر میں نے اسے لان اور گیراج صاف کرنے کو کہا، وہ خاموشی سے کام میں لگ گئ۔

بچے ایک طرف بیٹھے رہے۔

کچھ دیر کے بعد میں نے باہر نکل کر دیکھا، وہ صفائی کر چکی تھی اور شاید جانا چاہتی تھی۔

میں نے کہا، اندر آو ، ناشتہ بناو۔ چائے بنانی آتی ہے۔

اس نے صرف جی کہا، میں نے گھر کا اندرونی دروازہ پورا کھولتے ہوئے کہا، آ جاو ناشتہ کر کے اندر کی صفائی بھی کرنی ہے۔ جلدی کرو۔ اسکو باورچی خانے کا راستہ دکھا کر میں نے لاونج میں بیٹھ کر  ٹی وی کھول لیا، بچے اشتیاق سے ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔

چند لمحات کے بعد سینکی ہوئی ڈبل روٹی، فرائی انڈہ اور چائے میرے سامنے تھے، میں نے اس کی طرف دیکھا، چھوٹا بچہ تیزی سے میز کی جانب بڑھا لیکن ماں نے اسے روک لیا۔ میں نے ٹرے بچے کی طرف کسھکائی، اور بڑے بچے کو بھی آنے کا اشارہ کیا،

وہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔ ہم نہیں کھائیں گے، آپ  صفائی کی مزدوری دیں۔ ہم جاتے ہیں بس۔

میں نے اطمینان سے صوفے سے ٹیک لگائی، اور پوچھا

کہاں جاو گی؟

وہ چپ رہی۔

میں نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا، بے کار باتیں نہ کرو، یہاں کام کرو۔ شام کو جانا۔ ابھی ناشتہ کرو تم بھی ۔

چائے کا گھونٹ بھرنے پر

ایک اور بدمزہ چائے کا ذائقہ میرے منہ میں گھل گیا۔

وہ سر پر کھڑی تھی۔ میں نے ڈپٹ کر کہا، کھاو اور خود اٹھ کر باورچی خانے میں آ گیا، چائے کو سنک میں بہا دیا۔

پیکٹ کا دودھ ساس پین میں انڈیل کر گرم رکھنے رکھ دیا۔

دودھ کو کپ میں نکال کر میں لاونج میں آیا تو اسے بچوں کو کھلاتے ہوئے دیکھا،میں بیڈروم میں آ گیا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔

کچھ دیر کے بعد بچوں نے لاونج میں بھاگنا دوڑنا شروع کر دیا۔

وہ اپنی زبان میں بچوں کو منع کر رہی تھی، میں اٹھا اور لاونج میں پہنچ کر بچوں کو ایک طرف بیٹھ جانے کو کہا، وہ سہم کر بیٹھ گئے۔

باورچی خانے میں وہ برتن دھو رہی تھی۔

میں نے فریج کھولا، کچھ بھی نہ تھا۔

چند چاکلیٹس پڑی تھیں جو میں نے ٹراوزر کی جیب میں رکھ لیں۔

نہ گوشت نہ سبزی۔

میں نے دل میں سوچا اچھا ہی ہے اس نے ویسے بھی بدذائقہ ہی بنانا تھا۔

وہ جلدی سے باورچی خانے سے نکل گئ۔ میں بھی پیچھے ہی باہر نکلا، اس نے لاونج میں پہنچ کر بچے کو گود میں اٹھا لیا اور کہا، ہم جاتے ہیں۔

میں نے آگے بڑھ کر لاونج کا دروازہ بند کر کے لاک کر دیا۔

وہ حق دق رہ گئ۔ مجھے اسکے ڈر نے مزہ دیا۔

بڑا والا بچہ میری طرف بڑھا،  میں نے آگے بڑھ کر بچے کو زمین سے اونچا اٹھا لیا اور کہا، ٹی وی دیکھو، کارٹون فلم دیکھو گے۔ فلم لگاوں وہ میری طرف حیرانی سے دیکھتا رہا، میں نے اسے زمین پر اتارا، اور پچکارتے ہوئے کہا، آو ٹی وی دیکھو، وہ کسمسایا، میں نے جیب سے چاکلیٹس نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائیں اور  ڈی وی ڈی پر کارٹون فلم لگا دی۔

بچے کو صوفے پر کشن کے ساتھ زبردستی ٹکا کر بٹھایا،  کارٹون دیکھو بہت اچھے ہیں۔

وہ ابھی تک چھوٹے بچے کو دبوچے کھڑی تھی۔ میں نے اسکی گود سے بچے کو لیا اور اسکو بھی صوفے پر بٹھادیا اور پچکارتے ہوئے اسے بھی چاکلیٹ دی۔

میں اسکی طرف بڑھا تو وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی، آپ نے جھوٹ کیوں کہا گھر میں عورت ہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا، تو گھر میں عورت ہے ۔ تم ہو عورت۔

وہ پیچھے ہٹنے لگی۔

میں نے بچوں کی طرف دیکھا وہ مگن تھے۔

میں نے سنجیدگی سے کہا، شور کرنے کی کوشش نہ کرنا، بچے پریشان ہونگے، پڑوس میں آواز جائے گی۔ نقصان تمھارا ہو گا، میں کہہ دونگا کہ یہ چوری کرنے آئے تھے۔

اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے، ہم مجبور ہیں۔

میرا مقصد اسکو رلانا نہ تھا۔

جھنجھلا کر کہا،

رونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم کو بہت سے روپے دوں گا۔

اس نے سسکی لی۔ نہیں چاہیئں۔

بے وقوف ہو، پھر کیا چاہیئے میں نے اسکا ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا اور بیڈ روم کی طرف ہلکا سا کھینچا، وہ میرے ساتھ گھسٹتی آئی۔

میں نے دروازہ بند کر دیا۔

وہ سسکنے لگی۔

میں نے سختی سے کہا، چپ رہو، موڈ نہ آف کرو۔ تم شادی شدہ ہو، سمجھدار ہو۔

میں بیوہ ہوں وہ تڑپ کر کہہ اٹھی۔

میں نے کہا۔ تو کیا ہو گیا۔ آ جاو کتنے ماہ سے تم نے بھی کچھ نہیں کیا ہو گا،  تم کو بھی اچھا لگے گا۔ کب سے شہر میں ہو؟؟

وہ سسکیاں بھرتی رہی۔ میں نے اسکی چادر کھینچتے ہوئے اسے بستر پر دھکیلا۔

وہ چپ رہی میں نے اس پر  دراز ہوئے ہوتے چٹکی سے اسکی ناک دبائی، کیا ہی خوبصورت ستواں ناک ہے اوپر سے تم نے اس میں نتھ پہن لی، اس نتھ کی وجہ سے میرے سر پر شہوت سوار ہوگئ۔ کیوں پہنتی ہو تم عورتیں زیور، میں ہلکے سے ہنسا، وہ چپ تھی ۔ میں نے اسکے بوسے لینے شروع کر دیئے، نمکین آنسووں کا ذائقہ میرے منہ میں گھلنے لگا۔

چپ ہو جاو، میں نے ڈپٹا، وہ ساکت رہی، لیکن میں اسے راہ پر لے آیا، چند لمحوں کے بعد ہی ہم اپنی فطرت پر تھے۔

سکون حاصل کرنے کے بعد میں نے سگریٹ سلگا لی اور کہا، ابھی جانا نہیں، تمھارا کوئی بندوبست کرتا ہوں۔

اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور دیکھتی رہی۔

گھورو مت جاو جا کر نہاو اور اس الماری کے نیچے خانے میں کچھ کپڑے بندھے رکھے ہیں، بچوں کے بھی ہیں۔  نکال لو۔

وہ جھجک کر بولی۔ آپکی بیوی کے ہونگے۔

میں نے کہا، ہاں وہ پرانے ہو چکے ہیں کسی کو دینے تھے، میں بھول گیا،  اچھا ہوا تمھارے کام آ گئے۔

اس نے میری ہدایت پر عمل کیا۔

میں نے فون پر دوپہر کا کھانا آرڈر کیا اور خوابگاہ سے نکل آیا۔

چھوٹا بچہ سو رہا تھا، بڑا والا مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا، امی کہاں ہیں اس نے تلخی سے پوچھا۔ میں نے اسے نظر انداز کر دیا اور ڈی وی ڈی بند کر کے ٹی وی کے چینل بدلنے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر آ گئ، بچہ اسکی طرف لپکا۔ اس نے بچے کو لپٹا لیا۔

میں نے کھانا آرڈر کیا ہے ۔جا کر برتن نکالو۔

وہ بچے کو ساتھ لئے چلی گئ۔

میں نے اٹھ کر غسل کیا تب تک کھانا آگیا۔ وہ اطمینان سے کھانا کھانے کے بعد بھی بے چین تھی۔ میں نے چند نوٹ اسے دیئے جو اس نے نہ تھامے۔

رکھ لو۔

مجھے جانا ہے وہ منمنائ۔

میں نے نوٹ میز پر رکھ دیئے اور

کندھے اچکاتے ہوئے کہا، چلی جاو۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سوئے ہوئے بچے کو اٹھایا اور لاونج کے دروازے سے نکل گئ، میں نے دیکھا نوٹ میز پر موجود تھے، میں نے اٹھائے اور اسکے گیٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی بچے کے ہاتھ میں زبردستی پکڑاتے ہوئے کہا، چاہو تو دوبارہ صفائی کرنے آ جانا۔

وہ کچھ کہے بنا گیٹ کھول کر چلی گئ۔

تھوڑی دیر کے بعد میں بھی اپنی بہن کے گھر جانے کے لئے نکل آیا۔

ہفتہ گزر گیا، وہ مجھے دوبارہ نظر نہ آئی، گھر کے قریب ذیلی سڑک پر  پہنچتے ہی میں صبح و شام لاشعوری طور پر اسے ڈھونڈتا لیکن وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئ تھی۔

مون سون کا موسم تھا، روز ہی ہلکی بارش ہوتی، کبھی تیز لیکن آج صبح دس بجے تیز بارش شروع ہو گئ، آفس میں ہنگامہ سا مچا ہوا تھا۔

میں آفس کے مشترکہ کمرے میں پہنچا تو دیکھا  کوئی چائے پکوڑے منگوا رہا ہے، کوئی پریشان ہے کہ سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جائے گا، بجلی بند ہو جائے گی۔ ٹریفک جام ہو گا، بڑے شہر کے لاتعداد چھوٹے بڑے مسائل۔ مجھے دیکھ کر سب چپ ہو گئے و

اور اپنا اپنا کام کرنے لگے۔

میں نے بڑی کھڑکی سے جھانکا، پانی کی دبیز چادر نے سب کچھ دھندلا کر رکھا تھا۔ میں نے خطاب کرنے کے سے انداز میں کہا، اگر بارش تھم جائے تو لنچ کے بعد چھٹی ہو جائے گی کیونکہ مزید بارش کی پیش گوئی ہے، ایسا نہ ہو مسلسل بارش برسے اور ہم راستے بند ہونے کے باعث آفس میں ہی پھنسے رہیں۔

سب نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔

میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا، بارش مسلسل برستی رہی۔ایک بج گیا، لنچ کا وقفہ ہوا، کھانا کھایا گیا۔

لیکن بارش برستی رہی۔

میری بیوی کا فون آیا، سب خیریت ہے، اس نے پوچھا

میں نے اسکو تسلی دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔

تین بجے کے قریب بارش رکی تو میں آفس سے فورا نکلا، سڑک پر گھٹنوں تک پانی رواں تھا۔ میں نے گاڑی نکالنے کا ارادہ ترک کر دیا، اور پارکنگ میں موجود ایک کولیگ کی بائیک پر پیچھے بیٹھ گیا۔

کولیگ کا گھر بالکل مخالف سمت میں تھا لیکن اس نے پھر بھی مجھے ایک ایسی سڑک پر اتارا جہاں سے مجھے میرے گھر تک جانے والی سواری مل جائے، رکشہ یا ٹیکسی تو نہ ملی البتہ ایک نوجوان نے مجھے بائیک پر لفٹ دی، وہ میرے علاقے کا ہی تھا، ہم دونوں ملک و شہر کے مسائل پر بحث و تاسف کرتے ہوئے راستہ کاٹنے لگے۔سڑکوں پر پانی کھڑا تھا۔ میں نوجوان کو بار بار احتیاط سے بائیک چلانے کی کی تلقین کرتا، اس نے مجھے گھر کی ذیلی سڑک پر اتارا۔ میں اسکا شکریہ ادا کرتے اور کمر تھپکاتے بائیک سے اتر گیا۔

سڑک پر کھڑے پانی میں ڈولتے ہوئے راستہ طے کرنے لگا کہ درمیان میں موجود فٹ پاتھ پر سات آٹھ افراد کھڑے نظر آئے، ایک بوڑھا فٹ پاتھ پر بیٹھا رو رہا تھا، ساتھ کوئی لیٹا ہوا تھا، میں آہستہ آہستہ قریب پہنچا اور پوچھا کیا ہوا، ایک آدمی کہنے لگا۔ فٹ پاتھ پر بجلی کی تاریں گر گئیں، نہ جانے اس بزرگ کی بیٹی تھی یا بہو ، وہ یہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ بے چاری دو بچوں سمیت کرنٹ لگنے سے مر گئ۔

میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر چہرے سے گیلی چادر ہٹائی، زرد ستواں ناک اپنی نتھ سمیت مڑ گئ تھی، میرے حلق میں نمکین ذائقہ گھلنے لگا۔

مطربہ شیخ

دیدبان شمارہ ۔۱۹

" ذائقہ "

مطربہ شیخ

دروازے پر ہلکی سے دستک کے ساتھ ناصر نے دروازے سے جھانکتے ہوئے کہا، سر جلدی سے لنچ کرنے آ جائیں، آج میں گھر سے پائے کا سالن لایا ہوں، نان منگوانے چپراسی کو بھیجا ہے۔

میں نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظر اٹھائی اور دروازے کی طرف دیکھا، لیکن ناصر جا چکا تھا۔

میری بھوک پائے کے سالن کا سن کر چمک اٹھی، جب میں آفس کے مشترکہ کمرے میں پہنچا تو تقریبا سب ہی بیٹھ چکے تھے، میں بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

کھانے کے دوران گپ شپ ہوتی رہی، ناصر کی بیوی اچھا کھانا بناتی ہے، مہینے میں ایک بار سب ہی کولیگز اپنے گھر سے کھانا لاتے تھے اور اکثر ایک دوسرے کی بیویوں کے ہاتھ کے ذائقے کی تعریفیں کرواتے تھے یا خود ہی کرتے رہتے، پائے اچھے بنے ہیں۔ میں نے بالآخر تعریف کی۔

ناصر یہ سن کر کھل اٹھا اور چہک کر کہا،

بہت شکریہ باس۔ میں اسکا کندھا تھپکتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گیا اور سگریٹ سلگائی پھر کھڑکی کھول کر نیچے سڑک پر دیکھنے لگا، شہر کی سب سے بڑی شارع کبھی ٹریفک سے خالی نہ ہوتی تھی، اسوقت بھی رواں دواں ٹریفک کا شور عمارت کی بارہویں منزل تک  پہنچ رہا تھا۔

کھڑکی بند کرنے کے بعد میں نے دوبارہ کرسی سنبھالی، اور لیپ ٹاپ آن کر لیا، لیکن اب میرے لئے کام کرنا مشکل ہو چکا تھا، مجھے اپنی بیوی کی یاد آ گئ جو اپنے مائیکے دوسرے شہر گئ ہوئی تھی اور پندرہ دن ہو گئے تھے، اسکا آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

میں نے واٹساپ پر ویڈیو کال ملائی۔

گھنٹی بجتے ہی فون اٹھا لیا گیا، میں نے مسکراتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگائی، اور کہا ہاں بھئ کیا ہو رہا ہے؟

اسکی  جھلاہٹ بھری آواز آئی

سونے ہی لیٹی تھی کہ آپ نے کال کر لی، سکون نہیں آپکو۔ دور آ کر بھی سونے نہیں دے رہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا، سامنے تو آو،  تم کو سونے کی بیماری ہو گئ ہے، جب بھی کال کرو سو رہی ہوتی ہو۔

وہ جماہی لیتے ہوئے کہنے لگی ، اتنی لمبی دوپہر ہے، کل رات نیند بھی پوری نہیں ہوئی، ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔

ایک تو تم لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتیں، چلو واپسی کرو، فلائٹ کروا دوں۔

افوہ آپکی سمجھ میں بات نہیں آ رہی، تین برس کے بعد میں اپنے میکے آئی ہوں، اگلے برس آپکا دوسرا بلونگڑا بھی اسکول جانے لگے گا، بڑے کی کلاس بھی بڑی ہو جائے گی، پھر مصروفیت بڑھ جائے گی۔

دو ماہ یہیں گزارنے دیں، بس اب واپسی کا نہ کہنا۔

اچھا بچوں کو تو بلاو۔ میں نے کہا۔

سارے بچے ایکس باکس میں لگے ہوئے ہیں، شام کو بات کروا دونگی، چلیں آپ بھی آفس کا کام کریں، مجھے واقعی سونا ہے، خدا حافظ

اس نے کال کاٹ دی۔

میں نےطویل سانس لیتے ہوئے لیپ ٹاپ پر آنکھیں چپکا دیں۔

شام کو آفس سے باہر نکلا تو ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

پارکنگ ایریا میں لوگ جلدی جلدی گاڑیاں نکال رہے تھے۔

میں نے بھی جگہ ملتے ہی گاڑی نکالی اور تیزی سے سڑک پر لے آیا، بارش تیز ہونے اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہیے، میں بڑبڑایا لیکن بے ہنگم ٹریفک کی بدولت ایسا ممکن نہ تھا، راستے میں ایک جگہ ٹریفک جام کے باعث گاڑی روکنی پڑی، میں نے اکتا کر سگریٹ سلگائی،  لیکن ایک بد ذائقہ سی ڈکار نے میرے منہ کا مزہ خراب کر دیا، میں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر تھوکا اور سگریٹ بھی ساتھ پھینک دی۔

خدا خدا کر کے گھر والے علاقے میں پہنچا، یہاں بارش کا زور کم تھا، شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا، گھر کی طرف جانے والی ذیلی سڑک پر گاڑی موڑتے ہی ایک بچہ گاڑی کے سامنے آ گیا،  میں نے پوری طاقت سے بریک لگائے، پھر بھی گاڑی بچے کے قریب پہنچ ہی گئ، بچہ گھبرا کر گرا اور چیخ کر رونے لگا، میں تیزی سے گاڑی سے اترا اور بچے کو اٹھایا، فٹ پاتھ سے ایک عورت ایک چھوٹے سے بچے کو بغل میں دبائے بھاگتی ہوئی قریب آ گئ، سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے افراد گاریاں روک کر اور رفتار ہلکی کر کے تماشا دیکھنے لگے تھے، میں نے بچے کو پچکارتے ہوئے کہا، کچھ نہیں ہوا ہے، کوئی چوٹ نہیں لگی ہے، میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے ٹٹولا، وہ گھبرا کر خاموش ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔

ایک موٹر سائیکل سوار نے کہا، راستے سے گاڑی ہٹائیں صاحب، یہ تو بھکاری ہیں، ہر بھک منگا اس شہر میں آکر ہمارے سر پر سوار ہو گیا ہے، ہر چوک ہر سڑک پر یہ موجود ہیں، راستہ چلنا دوبھر ہو گیا ہے۔

عورت نے بچے کو اٹھاتے ہوئے کہا، ہم بھکاری نہیں ہیں اور فٹ پاتھ کی طرف بڑھ گئ۔

میں نے گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کر لیا اور گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔

دوسرے دن آفس سے واپسی پر مجھے وہ عورت اور بچے نظر آئے،  آج بھی وہی بچہ سڑک پر آ رہا تھا اور پھر گاڑی کو قریب دیکھ کر واپس فٹ پاتھ کی طرف بھاگ جاتا تھا۔

تیسرے دن بچے کی وہی حرکت دیکھ کر میں رہ نہ سکا، گاڑی فٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کر دی اور عورت کا جائزہ لیا، وہ بھکاری  واقعی نہیں لگتے تھے، عورت جوان تھی، بڑی سی مقامی  چادر اوڑھی ہوئی تھی، آدھا ڈھکا ہوا چہرہ، چہرے کا کھلا ہوا حصہ صاف گندمی رنگت کا تھا،  بچے بھی اچھی صورتوں کے تھے، مجھے اپنے بچے یاد آ گئے۔

میں نے نرمی سے پوچھا، کیا پریشانی ہے، تم کیوں سڑک پر بیٹھی ہو اسطرح۔

وہ چپ رہی، میں نے ذرا ڈپٹ کر کہا، بتاو ورنہ پولیس کو بلاوں گا۔

وہ آہستہ سے بتانے لگی۔ ہم گاوں سے آئے ہیں وہاں سیلاب آیا ہوا ہے، گھر اور جانور بہہ گئے، میرا آدمی بھی بہہ گیا،  میرا سسر مجھے یہاں لے آیا، وہ سڑک کے پار والی عمارت میں مزدوری کر رہا ہے، اور ہم یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی وہ آئے گا تو ہم چلے جائیں گے ادھر میدان میں جھونپڑی ڈالی ہے، اس نے اشارے سے بتایا۔

وہ میدان نہ تھا، ایک خالی پلاٹ تھا۔

میں نے افسوس سے کہا، تو ابھی چلی جاو، اسطرح سڑک پر نہ بیٹھو، بچے کو روکو کسی گاڑی کے نیچے نہ آ جائے۔

وہ چپ رہی۔

میں نے کہا، جاو شاباش۔

وہ بیٹھی رہی۔ پھر بولی۔ لوگ تنگ کرتے ہیں جی، میں چاچا کے ساتھ ہی جاونگی۔

میں نے تاسف سے سر ہلایا اور گاڑی بڑھا لی۔گھر پہنچ کر بھی مجھے افسوس ہوتا رہا۔

دو تین وہ نظر نہ آئے، میں بھی بھول گیا۔

اتوار کے دن میں دیر تک سونا چاہتا تھا لیکن حسب معمول آنکھ جلدی کھل گئ، میں اٹھا اور چائے بنائی جو بہت بد مزہ بنی، مجھے کھانا بنانے کی عادت نہ تھی، تین بہنوں کا اکلوتا بھائی، ہمیشہ میرے ناز نخرے اٹھائے گئے، تیسری بہن کی شادی ہونے کے بعد اچانک امی کا انتقال ہو گیا،  تو چھ ماہ کے اندر ہی ابا نے میری شادی اپنے دوست کی بیٹی سے کروا دی، میری بیوی کم عمر لیکن بہت سگھڑ تھی، آتے ہی گھر سنبھال لیا، ابا پرسکون ہو کر دنیا سدھار گئے۔

بیوی کے بھائی کی ملازمت جب انکے آبائی شہر میں ہوئی، تو اسکے والدین فورا آبائی شہر سدھار گئے۔

میری بیوی کو بھی شوق ہو رہا تھا کہ وہ بھی آبائی شہر دیکھے۔ گھومے پھرے لیکن میں جانے نہ دیتا تھا، لیکن اس برس بچوں کی چھٹیوں میں وہ چلی ہی گئ۔

میں نے بے مزہ ہو کر چائے سنک میں بہا دی۔

باورچی خانے میں جا بجا گندے برتن بکھرے ہوئے تھے، میں نے بادل نخواستہ برتن دھوئے، سلیب صاف کی۔

باورچی خانے سے نکل کر جائزہ لیا تو پورا گھر ہی گندا ہو رہا تھا۔

آندھی اور بارش نے گیراج اور چھوٹے سے لان کا حلیہ بھی بگاڑ دیا تھا۔

میں نے سوچا اپنی بہن کے گھر جا کر اس سے ملازمہ کا کہتا ہوں اور ناشتہ بھی وہیں کرلونگا۔

گاڑی کی چابی اٹھائی، اور گھر سے نکل آیا۔

ذیلی سڑک پر پہنچتے ہی مجھے دو چھوٹے  بچے سڑک پر بھاگتے نظر آئے، اتوار کے باعث سڑک پر رش نہ ہونے کے برابر تھا، وہ بے فکر ہو کر بھاگ رہے تھے، میری گاڑی کا ہارن سن کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئے، میں نے سرسری نظر ڈالی، عورت بھی فٹ پاتھ پر موجود تھی۔

میں نے چوراہے سے گاڑی واپس موڑی اور فٹ پاتھ کے ساتھ لگا کر کھڑی کر دی۔ بچے ماں کے قریب بیٹھ گئے، عورت نے میری طرف دیکھا، آج اسکا چہرہ میرے سامنے واضح تھا، ستواں ناک جس میں نتھ موجود تھی، بھرے بھرے ہونٹ اور اداس آنکھیں۔ جو مجھے دیکھتے ہی جھک گئیں۔

میں نے پوچھا گھر کا کام کرو گی صفائی وغیرہ۔

وہ چپ رہی۔

میں نے دوبارہ کہا، اسطرح سڑک کنارے بیٹھنا ٹھیک نہیں، کام کرو، پیسے ملیں گے۔

اس نے میری طرف دیکھا، اور پوچھا۔

گھر میں عورت ہے۔

میں نے جھوٹ بولا، ہاں میری بیوی ہے اسکی طبعیت خراب ہے۔

گھر کے کام کے لئے ملازمہ کی ضرورت ہے، چلو میرے ساتھ۔

وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئی " چاچا کو بتا کر آتی ہوں"

بچے کو بھیج دو وہ بتا دے گا۔

اس نے گھبرا کر کہا، بچے  ساتھ جائیں گے۔

میں نے اکتا کر کہا، چلو جلدی کرو پھر بیٹھو گاڑی میں، اور گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔

وہ تینوں بیٹھ گئے۔

راستے میں رک کر میں نے  سے بیکری سے ڈبل روٹی انڈے اور دودھ کے پیکٹ خریدے۔

گھر پہنچ کر میں نے اسے لان اور گیراج صاف کرنے کو کہا، وہ خاموشی سے کام میں لگ گئ۔

بچے ایک طرف بیٹھے رہے۔

کچھ دیر کے بعد میں نے باہر نکل کر دیکھا، وہ صفائی کر چکی تھی اور شاید جانا چاہتی تھی۔

میں نے کہا، اندر آو ، ناشتہ بناو۔ چائے بنانی آتی ہے۔

اس نے صرف جی کہا، میں نے گھر کا اندرونی دروازہ پورا کھولتے ہوئے کہا، آ جاو ناشتہ کر کے اندر کی صفائی بھی کرنی ہے۔ جلدی کرو۔ اسکو باورچی خانے کا راستہ دکھا کر میں نے لاونج میں بیٹھ کر  ٹی وی کھول لیا، بچے اشتیاق سے ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔

چند لمحات کے بعد سینکی ہوئی ڈبل روٹی، فرائی انڈہ اور چائے میرے سامنے تھے، میں نے اس کی طرف دیکھا، چھوٹا بچہ تیزی سے میز کی جانب بڑھا لیکن ماں نے اسے روک لیا۔ میں نے ٹرے بچے کی طرف کسھکائی، اور بڑے بچے کو بھی آنے کا اشارہ کیا،

وہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔ ہم نہیں کھائیں گے، آپ  صفائی کی مزدوری دیں۔ ہم جاتے ہیں بس۔

میں نے اطمینان سے صوفے سے ٹیک لگائی، اور پوچھا

کہاں جاو گی؟

وہ چپ رہی۔

میں نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا، بے کار باتیں نہ کرو، یہاں کام کرو۔ شام کو جانا۔ ابھی ناشتہ کرو تم بھی ۔

چائے کا گھونٹ بھرنے پر

ایک اور بدمزہ چائے کا ذائقہ میرے منہ میں گھل گیا۔

وہ سر پر کھڑی تھی۔ میں نے ڈپٹ کر کہا، کھاو اور خود اٹھ کر باورچی خانے میں آ گیا، چائے کو سنک میں بہا دیا۔

پیکٹ کا دودھ ساس پین میں انڈیل کر گرم رکھنے رکھ دیا۔

دودھ کو کپ میں نکال کر میں لاونج میں آیا تو اسے بچوں کو کھلاتے ہوئے دیکھا،میں بیڈروم میں آ گیا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔

کچھ دیر کے بعد بچوں نے لاونج میں بھاگنا دوڑنا شروع کر دیا۔

وہ اپنی زبان میں بچوں کو منع کر رہی تھی، میں اٹھا اور لاونج میں پہنچ کر بچوں کو ایک طرف بیٹھ جانے کو کہا، وہ سہم کر بیٹھ گئے۔

باورچی خانے میں وہ برتن دھو رہی تھی۔

میں نے فریج کھولا، کچھ بھی نہ تھا۔

چند چاکلیٹس پڑی تھیں جو میں نے ٹراوزر کی جیب میں رکھ لیں۔

نہ گوشت نہ سبزی۔

میں نے دل میں سوچا اچھا ہی ہے اس نے ویسے بھی بدذائقہ ہی بنانا تھا۔

وہ جلدی سے باورچی خانے سے نکل گئ۔ میں بھی پیچھے ہی باہر نکلا، اس نے لاونج میں پہنچ کر بچے کو گود میں اٹھا لیا اور کہا، ہم جاتے ہیں۔

میں نے آگے بڑھ کر لاونج کا دروازہ بند کر کے لاک کر دیا۔

وہ حق دق رہ گئ۔ مجھے اسکے ڈر نے مزہ دیا۔

بڑا والا بچہ میری طرف بڑھا،  میں نے آگے بڑھ کر بچے کو زمین سے اونچا اٹھا لیا اور کہا، ٹی وی دیکھو، کارٹون فلم دیکھو گے۔ فلم لگاوں وہ میری طرف حیرانی سے دیکھتا رہا، میں نے اسے زمین پر اتارا، اور پچکارتے ہوئے کہا، آو ٹی وی دیکھو، وہ کسمسایا، میں نے جیب سے چاکلیٹس نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائیں اور  ڈی وی ڈی پر کارٹون فلم لگا دی۔

بچے کو صوفے پر کشن کے ساتھ زبردستی ٹکا کر بٹھایا،  کارٹون دیکھو بہت اچھے ہیں۔

وہ ابھی تک چھوٹے بچے کو دبوچے کھڑی تھی۔ میں نے اسکی گود سے بچے کو لیا اور اسکو بھی صوفے پر بٹھادیا اور پچکارتے ہوئے اسے بھی چاکلیٹ دی۔

میں اسکی طرف بڑھا تو وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی، آپ نے جھوٹ کیوں کہا گھر میں عورت ہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا، تو گھر میں عورت ہے ۔ تم ہو عورت۔

وہ پیچھے ہٹنے لگی۔

میں نے بچوں کی طرف دیکھا وہ مگن تھے۔

میں نے سنجیدگی سے کہا، شور کرنے کی کوشش نہ کرنا، بچے پریشان ہونگے، پڑوس میں آواز جائے گی۔ نقصان تمھارا ہو گا، میں کہہ دونگا کہ یہ چوری کرنے آئے تھے۔

اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے، ہم مجبور ہیں۔

میرا مقصد اسکو رلانا نہ تھا۔

جھنجھلا کر کہا،

رونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم کو بہت سے روپے دوں گا۔

اس نے سسکی لی۔ نہیں چاہیئں۔

بے وقوف ہو، پھر کیا چاہیئے میں نے اسکا ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا اور بیڈ روم کی طرف ہلکا سا کھینچا، وہ میرے ساتھ گھسٹتی آئی۔

میں نے دروازہ بند کر دیا۔

وہ سسکنے لگی۔

میں نے سختی سے کہا، چپ رہو، موڈ نہ آف کرو۔ تم شادی شدہ ہو، سمجھدار ہو۔

میں بیوہ ہوں وہ تڑپ کر کہہ اٹھی۔

میں نے کہا۔ تو کیا ہو گیا۔ آ جاو کتنے ماہ سے تم نے بھی کچھ نہیں کیا ہو گا،  تم کو بھی اچھا لگے گا۔ کب سے شہر میں ہو؟؟

وہ سسکیاں بھرتی رہی۔ میں نے اسکی چادر کھینچتے ہوئے اسے بستر پر دھکیلا۔

وہ چپ رہی میں نے اس پر  دراز ہوئے ہوتے چٹکی سے اسکی ناک دبائی، کیا ہی خوبصورت ستواں ناک ہے اوپر سے تم نے اس میں نتھ پہن لی، اس نتھ کی وجہ سے میرے سر پر شہوت سوار ہوگئ۔ کیوں پہنتی ہو تم عورتیں زیور، میں ہلکے سے ہنسا، وہ چپ تھی ۔ میں نے اسکے بوسے لینے شروع کر دیئے، نمکین آنسووں کا ذائقہ میرے منہ میں گھلنے لگا۔

چپ ہو جاو، میں نے ڈپٹا، وہ ساکت رہی، لیکن میں اسے راہ پر لے آیا، چند لمحوں کے بعد ہی ہم اپنی فطرت پر تھے۔

سکون حاصل کرنے کے بعد میں نے سگریٹ سلگا لی اور کہا، ابھی جانا نہیں، تمھارا کوئی بندوبست کرتا ہوں۔

اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور دیکھتی رہی۔

گھورو مت جاو جا کر نہاو اور اس الماری کے نیچے خانے میں کچھ کپڑے بندھے رکھے ہیں، بچوں کے بھی ہیں۔  نکال لو۔

وہ جھجک کر بولی۔ آپکی بیوی کے ہونگے۔

میں نے کہا، ہاں وہ پرانے ہو چکے ہیں کسی کو دینے تھے، میں بھول گیا،  اچھا ہوا تمھارے کام آ گئے۔

اس نے میری ہدایت پر عمل کیا۔

میں نے فون پر دوپہر کا کھانا آرڈر کیا اور خوابگاہ سے نکل آیا۔

چھوٹا بچہ سو رہا تھا، بڑا والا مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا، امی کہاں ہیں اس نے تلخی سے پوچھا۔ میں نے اسے نظر انداز کر دیا اور ڈی وی ڈی بند کر کے ٹی وی کے چینل بدلنے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر آ گئ، بچہ اسکی طرف لپکا۔ اس نے بچے کو لپٹا لیا۔

میں نے کھانا آرڈر کیا ہے ۔جا کر برتن نکالو۔

وہ بچے کو ساتھ لئے چلی گئ۔

میں نے اٹھ کر غسل کیا تب تک کھانا آگیا۔ وہ اطمینان سے کھانا کھانے کے بعد بھی بے چین تھی۔ میں نے چند نوٹ اسے دیئے جو اس نے نہ تھامے۔

رکھ لو۔

مجھے جانا ہے وہ منمنائ۔

میں نے نوٹ میز پر رکھ دیئے اور

کندھے اچکاتے ہوئے کہا، چلی جاو۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سوئے ہوئے بچے کو اٹھایا اور لاونج کے دروازے سے نکل گئ، میں نے دیکھا نوٹ میز پر موجود تھے، میں نے اٹھائے اور اسکے گیٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی بچے کے ہاتھ میں زبردستی پکڑاتے ہوئے کہا، چاہو تو دوبارہ صفائی کرنے آ جانا۔

وہ کچھ کہے بنا گیٹ کھول کر چلی گئ۔

تھوڑی دیر کے بعد میں بھی اپنی بہن کے گھر جانے کے لئے نکل آیا۔

ہفتہ گزر گیا، وہ مجھے دوبارہ نظر نہ آئی، گھر کے قریب ذیلی سڑک پر  پہنچتے ہی میں صبح و شام لاشعوری طور پر اسے ڈھونڈتا لیکن وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئ تھی۔

مون سون کا موسم تھا، روز ہی ہلکی بارش ہوتی، کبھی تیز لیکن آج صبح دس بجے تیز بارش شروع ہو گئ، آفس میں ہنگامہ سا مچا ہوا تھا۔

میں آفس کے مشترکہ کمرے میں پہنچا تو دیکھا  کوئی چائے پکوڑے منگوا رہا ہے، کوئی پریشان ہے کہ سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جائے گا، بجلی بند ہو جائے گی۔ ٹریفک جام ہو گا، بڑے شہر کے لاتعداد چھوٹے بڑے مسائل۔ مجھے دیکھ کر سب چپ ہو گئے و

اور اپنا اپنا کام کرنے لگے۔

میں نے بڑی کھڑکی سے جھانکا، پانی کی دبیز چادر نے سب کچھ دھندلا کر رکھا تھا۔ میں نے خطاب کرنے کے سے انداز میں کہا، اگر بارش تھم جائے تو لنچ کے بعد چھٹی ہو جائے گی کیونکہ مزید بارش کی پیش گوئی ہے، ایسا نہ ہو مسلسل بارش برسے اور ہم راستے بند ہونے کے باعث آفس میں ہی پھنسے رہیں۔

سب نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔

میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا، بارش مسلسل برستی رہی۔ایک بج گیا، لنچ کا وقفہ ہوا، کھانا کھایا گیا۔

لیکن بارش برستی رہی۔

میری بیوی کا فون آیا، سب خیریت ہے، اس نے پوچھا

میں نے اسکو تسلی دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔

تین بجے کے قریب بارش رکی تو میں آفس سے فورا نکلا، سڑک پر گھٹنوں تک پانی رواں تھا۔ میں نے گاڑی نکالنے کا ارادہ ترک کر دیا، اور پارکنگ میں موجود ایک کولیگ کی بائیک پر پیچھے بیٹھ گیا۔

کولیگ کا گھر بالکل مخالف سمت میں تھا لیکن اس نے پھر بھی مجھے ایک ایسی سڑک پر اتارا جہاں سے مجھے میرے گھر تک جانے والی سواری مل جائے، رکشہ یا ٹیکسی تو نہ ملی البتہ ایک نوجوان نے مجھے بائیک پر لفٹ دی، وہ میرے علاقے کا ہی تھا، ہم دونوں ملک و شہر کے مسائل پر بحث و تاسف کرتے ہوئے راستہ کاٹنے لگے۔سڑکوں پر پانی کھڑا تھا۔ میں نوجوان کو بار بار احتیاط سے بائیک چلانے کی کی تلقین کرتا، اس نے مجھے گھر کی ذیلی سڑک پر اتارا۔ میں اسکا شکریہ ادا کرتے اور کمر تھپکاتے بائیک سے اتر گیا۔

سڑک پر کھڑے پانی میں ڈولتے ہوئے راستہ طے کرنے لگا کہ درمیان میں موجود فٹ پاتھ پر سات آٹھ افراد کھڑے نظر آئے، ایک بوڑھا فٹ پاتھ پر بیٹھا رو رہا تھا، ساتھ کوئی لیٹا ہوا تھا، میں آہستہ آہستہ قریب پہنچا اور پوچھا کیا ہوا، ایک آدمی کہنے لگا۔ فٹ پاتھ پر بجلی کی تاریں گر گئیں، نہ جانے اس بزرگ کی بیٹی تھی یا بہو ، وہ یہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ بے چاری دو بچوں سمیت کرنٹ لگنے سے مر گئ۔

میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر چہرے سے گیلی چادر ہٹائی، زرد ستواں ناک اپنی نتھ سمیت مڑ گئ تھی، میرے حلق میں نمکین ذائقہ گھلنے لگا۔

مطربہ شیخ

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024