دھند میں لپٹا آدمی
دھند میں لپٹا آدمی
May 18, 2019
دھند میں لپٹا آدمی
ارشد سیماب ملک
اُسے یوں لگا،جیسے وہ وجودوں میں گھرایک وجود ہے ۔
اور اس کے چہارسمت بیٹھے ہوئے لوگ اپنے وجود کو چھوڑکر دُور کہیں گھنے جنگلوں میںچلے گئے ہیںیا پھر نہ جا نے کہاں کھوگئے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سب موجودہوں اور میں ہی نہ ہوں۔
ہاں شاید وہ سب موجود ہیں اور میں ہی کہیں گم ہو گیا ہوں۔
مگر ایسا ہے تو پھر یہ شور کہاں سے سنائی دے رہا ہے ۔
اس نے ہوٹل کی دیوار سے لگے کلاک کی جا نب دیکھتے ہوئے دما غ پر زرو دیا اور بہت سوچ بچار کے بعد خود سے پھر گو یا ہوا۔
کہیں یہ تو نہیں کہ میں مر چکا ہوں اور میری روح میرا وجود اوڑھ کر بھٹک رہی ہو۔
یہ خیال آتے ہی اس نے داہیں ہاتھ کی انگلی پر زور سے کا ٹا اور بڑ بڑا اُٹھا۔
نہیں ابھی میں مرا نہیں ہوں ، یقینا کہیں گم ہو گیا ہوں۔
ہاں مگر میں کب اور کہاں گم ہوا ہوں۔
ہوٹل میں قر یب قریب کو ئی بھی ٹیبل خالی دکھا ئی نہیں پڑتی تھی ۔ کا ئو نٹر پر بیٹھا منیجر رموٹ ہا تھ میں لیے بہت دیر سے ٹیلی ویژن کے چینل تبدیل کیے جا رہا تھا ۔
اس کی قر یبی میز پر پڑی ایش ٹر ے سگر یٹ کے ٹکڑوں سے بھر ی ہو ئی تھی جب کہ ٹیبل پر موجود شخص جس کے با ل بکھرے ہوئے اور کو چڑھی ہو ئی تھیں، سگر یٹ کے لمبے کش لیتا ،اسے مسلسل تکے جا رہا تھا۔
وہ پھر دماغ پر زور ڈالتے کب اور کہاں گُتھی سلجھا نے لگا۔
بہت دیر کے بعد اسے کچھ یاد پڑا کہ جب وہ گھر سے نکلا ہے تو چہا ر سمت گہری دھند چھا ئی ہو ئی تھی اور سامنے کا منظر واضح نہیں تھا ۔
تب اس کے با ل سیا ہ گھنگر یا لے ،چہرہ وجیہ ،کمر تنی ہو ئی اور جسم پر پیو ند لگا ٹاٹ کا خر قہ تھا۔
پھر نہ جا نے کتنے سال وہ گہری دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرا یہا ں تک کہ اس کے پیروں کی ایڑیاں پھٹ گئیں اور سیاہ گھنگر یا لے با لو ں میں سفیدی درآئی تھی۔
اس کی تنی ہوئی کمر خمیدہ ہو گئی اور وہ براق خر قہ پہنے اسی ہی مقام پر خالی دامن کھڑا تھا۔
معا ً اسے خیال گزاراکہ وہ وہ نہیں تھا۔اس نے اضطراب میں بغلی جیب سے سگریٹ نکا ل کر سلگا ئی اور پھر فضا میں تحلیل ہو تے دھو یں کی جانب دیکھتے ہو ئے بڑبڑایا۔
ہاں اگر وہ میں نہیں تھا تو پھر کون تھا۔
یہی سوچتے ہوئے اس نے بکھرے بالوں والے کی جانب دیکھا اور پھر ہوٹل کا چوبی زینہ اُترتے ہوئے فٹ پا تھ پر آگیا۔
ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی اور وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا ٹھٹک کر عین اس وقت رُکا جب ایک دھواں چھوڑتی موٹرکار تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی ۔
جب وہ گھر پہنچا ہے تو کمرے کے وسط میں آف سیزن کے کپڑوں کے ڈھیر میں اس کی بیوی دبکی بیٹھی تھی ۔قر یب ہی کا غذ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جن میں اس کی ایک یادگار تصویر بھی نمایاں تھی ۔
یکا یک اسے یوں محسوس ہوا،جیسے تصو یر کی جگہ وہ زمین پر گرِاپڑاہے۔
اس نے آگے بڑھ کر تصویر اُچک لینا چاہا۔
’’جائو پہلے کھا نا کھا لو ۔ ‘‘’’بیگم نے یہ کہہ کر اس کی توجہ ہٹا دی ۔س
وہ کچن میں جانے سے پہلے بغلی کمرے میں داخل ہوا تو اسے کمرے کا نقشہ بد لا بدلا سالگا۔بیگم نے کھڑکیوں کے پردے تبدیل کر دیے تھے ۔موسم کی منا سبت سے بیڈشیٹس اور لحاف بھی پڑے تھے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر جب وہ کمرے سے پلٹا ہے تو بیگم پرانے کپڑوں کی گٹھڑی بنا کر سٹور میں پڑی پیٹی میں ڈال کر آئی تھی ۔ وہ اس با بت سوچ رہی تھی کہ با ہر دروازہ پر اُس کے ایک کو لیگ نے دستک دی جو اسے اآفس سے متعلقہ ایک ضروری کام کے لیے لے جانا چاہتا تھا۔لہذا چارو نا چار وہ اس کے ساتھ ہو لیا۔
وہاں سے فراغت کے بعد جب گھر پہنچا تو خنک شام رات کے آنگن میں اُتر آئی تھی ۔بیگم کچن میں رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
وہ فوراً کمرے کی جانب لپکا ،فرش صاف ستھرا تھا۔ کہیں بھی کو ئی کا غذ کا ٹکڑا یا تصویر نہیں پڑی تھی ۔
اس نے اضطراب میں بغلی جیب سے سگریٹ نکا ل کر سلگا ئی اور پھر فضا میں تحلیل ہو تے دھو یں کی جانب دیکھتے ہو ئے بڑبڑایا۔
ہاں اگر وہ میں نہیں تھا تو پھر کون تھا۔
یہی سوچتے ہوئے اس نے بکھرے بالوں والے کی جانب دیکھا اور پھر ہوٹل کا چوبی زینہ اُترتے ہوئے فٹ پا تھ پر آگیا۔
ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی اور وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا ٹھٹک کر عین اس وقت رُکا جب ایک دھواں چھوڑتی موٹرکار تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی ۔
جب وہ گھر پہنچا ہے تو کمرے کے وسط میں آف سیزن کے کپڑوں کے ڈھیر میں اس کی بیوی دبکی بیٹھی تھی ۔قر یب ہی کا غذ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جن میں اس کی ایک یادگار تصویر بھی نمایاں تھی ۔
یکا یک اسے یوں محسوس ہوا،جیسے تصو یر کی جگہ وہ زمین پر گرِاپڑاہے۔
اس نے آگے بڑھ کر تصویر اُچک لینا چاہا۔
’’جائو پہلے کھا نا کھا لو ۔ ‘‘’’بیگم نے یہ کہہ کر اس کی توجہ ہٹا دی ۔
وہ کچن میں جانے سے پہلے بغلی کمرے میں داخل ہوا تو اسے کمرے کا نقشہ بد لا بدلا سالگا۔بیگم نے کھڑکیوں کے پردے تبدیل کر دیے تھے ۔موسم کی منا سبت سے بیڈشیٹس اور لحاف بھی پڑے تھے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر جب وہ کمرے سے پلٹا ہے تو بیگم پرانے کپڑوں کی گٹھڑی بنا کر سٹور میں پڑی پیٹی میں ڈال کر آئی تھی ۔ وہ اس با بت سوچ رہی تھی کہ با ہر دروازہ پر اُس کے ایک کو لیگ نے دستک دی جو اسے اآفس سے متعلقہ ایک ضروری کام کے لیے لے جانا چاہتا تھا۔لہذا چارو نا چار وہ اس کے ساتھ ہو لیا۔
وہاں سے فراغت کے بعد جب گھر پہنچا تو خنک شام رات کے آنگن میں اُتر آئی تھی ۔بیگم کچن میں رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
وہ فوراً کمرے کی جانب لپکا ،فرش صاف ستھرا تھا۔ کہیں بھی کو ئی کا غذ کا ٹکڑا یا تصویر نہیں پڑی تھی ۔
اس نے سوچا شاید بیگم کی نظر پڑ گئی ہوا ور اس نے اسے کہیں سنبھال کر رکھ دیا ہو،اس غرض سے تمام متو قع جگہ اس نے دیکھ ڈالا مگر مایوسی کا سامنا رہا۔
رات جب وہ لحاف اوڑھ کر سویا ہے تو اسے یوں لگا جیسے بیگم نے پرانے کپڑوں کی ایک گٹھڑی میں باندھ کر اسے پیٹی میں بند کر دیا ہے۔اندر گھپ اندھیرے میں اس کا دم گھٹ رہا ہے اور گٹھڑی میں بند ھے کپڑوں میں سے سانپ لہریے لے رہے ہیں جن کی خوف ناک پھنکار سے اس پر وحشت طاری ہے اور وہ گھپ اند ھیا رے میں واویلا کر رہا ہے مگر اس کی آواز ،اس کے حلق میں ہی اٹک جاتی ہے ۔
اچانک وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا ، اس کا بدن پسینے میں بھیگ رہا تھا ۔ وہ خیا لوں میں گم دبے پائوں سٹور میں داخل ہوا اور لا ئٹ آن کر کے دیکھا تو پیٹی کوتا لا لگا ہوا تھا، وہ فوراً کمرے میں پلٹ آیا اور اس زنگ آلو د تالا کی چا بی تلاش کر نے لگا ۔ اس دوران اس نے سوچا ، ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا وہم ہو اور بیگم نے اسے پیٹی میں بند کیا ہی نہ ہو بلکہ فالتو چیز سمجھ کر کچرے کے ڈبہ میں یا پھر کہیں غلا ظت اور گند گی کے ڈھیر پر پھینک دیا ہو۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اُٹھا اور کوڑے کے ڈبہ میں دیکھا اور پھر باہر کا دروازہ کھول کر وہاں پہنچ گیا جہاں سارے شہر کا کچرا اکھٹا ہوتا ہے ۔
چاند گہرے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں سے جھانک رہا تھا۔ دُور تک کوئی آدم زاد دکھائی نہیں دے رہا تھا ، تاہم جگہ جگہ شہر کے آوارہ کُتے بھونک رہے تھے۔کچرے کے ڈھیر میں خود کو تلاش کرتے ہوئے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی اور رات بھر آوارہ کتے اس کا منہ چاٹتے رہے۔
دوسرے دن صبح اپنے آپ کو گھر میں پاکر وہ سخت حیرت زدہ ہوا تا ہم اس نے جلدی سے نا شتہ کیا، جب وہ دفتر پہنچا تو بہت بے چین تھا۔ تمام عملہ کو خلافِ معمول اس کی بے چینی پر سخت تعجب ہورہا تھا۔ اس نے ٹیبل پر موجود فا ئلوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر عجلت میں لمبے ڈگ بھر تا ہوا دفتر سے با ہر نکل گیا۔
ہا نپتا ہوا جب وہ گھر پہنچا تو بیگم اس کے چہرہ پر بو کھلا ہٹ دیکھ کر تعجب سے بولی ۔
’’ارے تم اتنی جلدی آفس سے آگئے ۔‘‘
’’بیگم وہ کل تم نے پرانے کپڑوں گٹھڑی میں کہیں م۔‘‘ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بیگم بولی ۔
’’ہاں وہ کٹھڑی ۔ ابھی تھوری دیر پہلے ہی میں نے با ہر گلی میں سدا لگا نے والے ایک فقیر کو دے دی ہے۔‘‘
’’عجب عورت ہو ، تمھیں اتنا معلوم نہیں کہ اس گٹھڑی میں ،مَیں تھا۔ ‘‘ وہ زیرِ لب بڑ بڑا یا۔
اس کی بوکھلا ہٹ میں مز ید اضافہ تب ہوا جب بیگم نے اس آدمی کا حلیہ بیان کر نے سے معذوری ظاہر کی۔ وہ سوچ میں پڑ گیا، پتہ نہیں اس آدمی کا حلیہ کیسا تھا۔وہ جوان تھا یا بوڑھا ، اس کے چہرہ پر داڑھی تھی یا نہیں ، وہ گورا تھا یا کا لا ۔
وہ اسی سوچ بچار میں گھر سے نکلا اور سہ پہر تک شہر میں ہر جگہ مارامارا پھرا۔اسے شہر میں چلتا پھرتا ہر شخص ہی بھکاری لگا مگر وہ آدمی کہیں دکھائی نہیں دیا۔ دفعتاً اسے خیال آیا کہ وہ گٹھڑی سے کہیں گر گیا اور خود کو تلاش کر نے کے بجا ئے خواہ مخواہ اس فقیر کو ڈھو نڈ رہا ہے جو معلوم نہیں فقیر تھا بھی یا نہیں ۔
دھند میں لپٹا آدمی
ارشد سیماب ملک
اُسے یوں لگا،جیسے وہ وجودوں میں گھرایک وجود ہے ۔
اور اس کے چہارسمت بیٹھے ہوئے لوگ اپنے وجود کو چھوڑکر دُور کہیں گھنے جنگلوں میںچلے گئے ہیںیا پھر نہ جا نے کہاں کھوگئے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سب موجودہوں اور میں ہی نہ ہوں۔
ہاں شاید وہ سب موجود ہیں اور میں ہی کہیں گم ہو گیا ہوں۔
مگر ایسا ہے تو پھر یہ شور کہاں سے سنائی دے رہا ہے ۔
اس نے ہوٹل کی دیوار سے لگے کلاک کی جا نب دیکھتے ہوئے دما غ پر زرو دیا اور بہت سوچ بچار کے بعد خود سے پھر گو یا ہوا۔
کہیں یہ تو نہیں کہ میں مر چکا ہوں اور میری روح میرا وجود اوڑھ کر بھٹک رہی ہو۔
یہ خیال آتے ہی اس نے داہیں ہاتھ کی انگلی پر زور سے کا ٹا اور بڑ بڑا اُٹھا۔
نہیں ابھی میں مرا نہیں ہوں ، یقینا کہیں گم ہو گیا ہوں۔
ہاں مگر میں کب اور کہاں گم ہوا ہوں۔
ہوٹل میں قر یب قریب کو ئی بھی ٹیبل خالی دکھا ئی نہیں پڑتی تھی ۔ کا ئو نٹر پر بیٹھا منیجر رموٹ ہا تھ میں لیے بہت دیر سے ٹیلی ویژن کے چینل تبدیل کیے جا رہا تھا ۔
اس کی قر یبی میز پر پڑی ایش ٹر ے سگر یٹ کے ٹکڑوں سے بھر ی ہو ئی تھی جب کہ ٹیبل پر موجود شخص جس کے با ل بکھرے ہوئے اور کو چڑھی ہو ئی تھیں، سگر یٹ کے لمبے کش لیتا ،اسے مسلسل تکے جا رہا تھا۔
وہ پھر دماغ پر زور ڈالتے کب اور کہاں گُتھی سلجھا نے لگا۔
بہت دیر کے بعد اسے کچھ یاد پڑا کہ جب وہ گھر سے نکلا ہے تو چہا ر سمت گہری دھند چھا ئی ہو ئی تھی اور سامنے کا منظر واضح نہیں تھا ۔
تب اس کے با ل سیا ہ گھنگر یا لے ،چہرہ وجیہ ،کمر تنی ہو ئی اور جسم پر پیو ند لگا ٹاٹ کا خر قہ تھا۔
پھر نہ جا نے کتنے سال وہ گہری دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرا یہا ں تک کہ اس کے پیروں کی ایڑیاں پھٹ گئیں اور سیاہ گھنگر یا لے با لو ں میں سفیدی درآئی تھی۔
اس کی تنی ہوئی کمر خمیدہ ہو گئی اور وہ براق خر قہ پہنے اسی ہی مقام پر خالی دامن کھڑا تھا۔
معا ً اسے خیال گزاراکہ وہ وہ نہیں تھا۔اس نے اضطراب میں بغلی جیب سے سگریٹ نکا ل کر سلگا ئی اور پھر فضا میں تحلیل ہو تے دھو یں کی جانب دیکھتے ہو ئے بڑبڑایا۔
ہاں اگر وہ میں نہیں تھا تو پھر کون تھا۔
یہی سوچتے ہوئے اس نے بکھرے بالوں والے کی جانب دیکھا اور پھر ہوٹل کا چوبی زینہ اُترتے ہوئے فٹ پا تھ پر آگیا۔
ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی اور وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا ٹھٹک کر عین اس وقت رُکا جب ایک دھواں چھوڑتی موٹرکار تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی ۔
جب وہ گھر پہنچا ہے تو کمرے کے وسط میں آف سیزن کے کپڑوں کے ڈھیر میں اس کی بیوی دبکی بیٹھی تھی ۔قر یب ہی کا غذ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جن میں اس کی ایک یادگار تصویر بھی نمایاں تھی ۔
یکا یک اسے یوں محسوس ہوا،جیسے تصو یر کی جگہ وہ زمین پر گرِاپڑاہے۔
اس نے آگے بڑھ کر تصویر اُچک لینا چاہا۔
’’جائو پہلے کھا نا کھا لو ۔ ‘‘’’بیگم نے یہ کہہ کر اس کی توجہ ہٹا دی ۔س
وہ کچن میں جانے سے پہلے بغلی کمرے میں داخل ہوا تو اسے کمرے کا نقشہ بد لا بدلا سالگا۔بیگم نے کھڑکیوں کے پردے تبدیل کر دیے تھے ۔موسم کی منا سبت سے بیڈشیٹس اور لحاف بھی پڑے تھے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر جب وہ کمرے سے پلٹا ہے تو بیگم پرانے کپڑوں کی گٹھڑی بنا کر سٹور میں پڑی پیٹی میں ڈال کر آئی تھی ۔ وہ اس با بت سوچ رہی تھی کہ با ہر دروازہ پر اُس کے ایک کو لیگ نے دستک دی جو اسے اآفس سے متعلقہ ایک ضروری کام کے لیے لے جانا چاہتا تھا۔لہذا چارو نا چار وہ اس کے ساتھ ہو لیا۔
وہاں سے فراغت کے بعد جب گھر پہنچا تو خنک شام رات کے آنگن میں اُتر آئی تھی ۔بیگم کچن میں رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
وہ فوراً کمرے کی جانب لپکا ،فرش صاف ستھرا تھا۔ کہیں بھی کو ئی کا غذ کا ٹکڑا یا تصویر نہیں پڑی تھی ۔
اس نے اضطراب میں بغلی جیب سے سگریٹ نکا ل کر سلگا ئی اور پھر فضا میں تحلیل ہو تے دھو یں کی جانب دیکھتے ہو ئے بڑبڑایا۔
ہاں اگر وہ میں نہیں تھا تو پھر کون تھا۔
یہی سوچتے ہوئے اس نے بکھرے بالوں والے کی جانب دیکھا اور پھر ہوٹل کا چوبی زینہ اُترتے ہوئے فٹ پا تھ پر آگیا۔
ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی اور وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا ٹھٹک کر عین اس وقت رُکا جب ایک دھواں چھوڑتی موٹرکار تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی ۔
جب وہ گھر پہنچا ہے تو کمرے کے وسط میں آف سیزن کے کپڑوں کے ڈھیر میں اس کی بیوی دبکی بیٹھی تھی ۔قر یب ہی کا غذ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جن میں اس کی ایک یادگار تصویر بھی نمایاں تھی ۔
یکا یک اسے یوں محسوس ہوا،جیسے تصو یر کی جگہ وہ زمین پر گرِاپڑاہے۔
اس نے آگے بڑھ کر تصویر اُچک لینا چاہا۔
’’جائو پہلے کھا نا کھا لو ۔ ‘‘’’بیگم نے یہ کہہ کر اس کی توجہ ہٹا دی ۔
وہ کچن میں جانے سے پہلے بغلی کمرے میں داخل ہوا تو اسے کمرے کا نقشہ بد لا بدلا سالگا۔بیگم نے کھڑکیوں کے پردے تبدیل کر دیے تھے ۔موسم کی منا سبت سے بیڈشیٹس اور لحاف بھی پڑے تھے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر جب وہ کمرے سے پلٹا ہے تو بیگم پرانے کپڑوں کی گٹھڑی بنا کر سٹور میں پڑی پیٹی میں ڈال کر آئی تھی ۔ وہ اس با بت سوچ رہی تھی کہ با ہر دروازہ پر اُس کے ایک کو لیگ نے دستک دی جو اسے اآفس سے متعلقہ ایک ضروری کام کے لیے لے جانا چاہتا تھا۔لہذا چارو نا چار وہ اس کے ساتھ ہو لیا۔
وہاں سے فراغت کے بعد جب گھر پہنچا تو خنک شام رات کے آنگن میں اُتر آئی تھی ۔بیگم کچن میں رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
وہ فوراً کمرے کی جانب لپکا ،فرش صاف ستھرا تھا۔ کہیں بھی کو ئی کا غذ کا ٹکڑا یا تصویر نہیں پڑی تھی ۔
اس نے سوچا شاید بیگم کی نظر پڑ گئی ہوا ور اس نے اسے کہیں سنبھال کر رکھ دیا ہو،اس غرض سے تمام متو قع جگہ اس نے دیکھ ڈالا مگر مایوسی کا سامنا رہا۔
رات جب وہ لحاف اوڑھ کر سویا ہے تو اسے یوں لگا جیسے بیگم نے پرانے کپڑوں کی ایک گٹھڑی میں باندھ کر اسے پیٹی میں بند کر دیا ہے۔اندر گھپ اندھیرے میں اس کا دم گھٹ رہا ہے اور گٹھڑی میں بند ھے کپڑوں میں سے سانپ لہریے لے رہے ہیں جن کی خوف ناک پھنکار سے اس پر وحشت طاری ہے اور وہ گھپ اند ھیا رے میں واویلا کر رہا ہے مگر اس کی آواز ،اس کے حلق میں ہی اٹک جاتی ہے ۔
اچانک وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا ، اس کا بدن پسینے میں بھیگ رہا تھا ۔ وہ خیا لوں میں گم دبے پائوں سٹور میں داخل ہوا اور لا ئٹ آن کر کے دیکھا تو پیٹی کوتا لا لگا ہوا تھا، وہ فوراً کمرے میں پلٹ آیا اور اس زنگ آلو د تالا کی چا بی تلاش کر نے لگا ۔ اس دوران اس نے سوچا ، ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا وہم ہو اور بیگم نے اسے پیٹی میں بند کیا ہی نہ ہو بلکہ فالتو چیز سمجھ کر کچرے کے ڈبہ میں یا پھر کہیں غلا ظت اور گند گی کے ڈھیر پر پھینک دیا ہو۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اُٹھا اور کوڑے کے ڈبہ میں دیکھا اور پھر باہر کا دروازہ کھول کر وہاں پہنچ گیا جہاں سارے شہر کا کچرا اکھٹا ہوتا ہے ۔
چاند گہرے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں سے جھانک رہا تھا۔ دُور تک کوئی آدم زاد دکھائی نہیں دے رہا تھا ، تاہم جگہ جگہ شہر کے آوارہ کُتے بھونک رہے تھے۔کچرے کے ڈھیر میں خود کو تلاش کرتے ہوئے وہیں اس کی آنکھ لگ گئی اور رات بھر آوارہ کتے اس کا منہ چاٹتے رہے۔
دوسرے دن صبح اپنے آپ کو گھر میں پاکر وہ سخت حیرت زدہ ہوا تا ہم اس نے جلدی سے نا شتہ کیا، جب وہ دفتر پہنچا تو بہت بے چین تھا۔ تمام عملہ کو خلافِ معمول اس کی بے چینی پر سخت تعجب ہورہا تھا۔ اس نے ٹیبل پر موجود فا ئلوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر عجلت میں لمبے ڈگ بھر تا ہوا دفتر سے با ہر نکل گیا۔
ہا نپتا ہوا جب وہ گھر پہنچا تو بیگم اس کے چہرہ پر بو کھلا ہٹ دیکھ کر تعجب سے بولی ۔
’’ارے تم اتنی جلدی آفس سے آگئے ۔‘‘
’’بیگم وہ کل تم نے پرانے کپڑوں گٹھڑی میں کہیں م۔‘‘ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بیگم بولی ۔
’’ہاں وہ کٹھڑی ۔ ابھی تھوری دیر پہلے ہی میں نے با ہر گلی میں سدا لگا نے والے ایک فقیر کو دے دی ہے۔‘‘
’’عجب عورت ہو ، تمھیں اتنا معلوم نہیں کہ اس گٹھڑی میں ،مَیں تھا۔ ‘‘ وہ زیرِ لب بڑ بڑا یا۔
اس کی بوکھلا ہٹ میں مز ید اضافہ تب ہوا جب بیگم نے اس آدمی کا حلیہ بیان کر نے سے معذوری ظاہر کی۔ وہ سوچ میں پڑ گیا، پتہ نہیں اس آدمی کا حلیہ کیسا تھا۔وہ جوان تھا یا بوڑھا ، اس کے چہرہ پر داڑھی تھی یا نہیں ، وہ گورا تھا یا کا لا ۔
وہ اسی سوچ بچار میں گھر سے نکلا اور سہ پہر تک شہر میں ہر جگہ مارامارا پھرا۔اسے شہر میں چلتا پھرتا ہر شخص ہی بھکاری لگا مگر وہ آدمی کہیں دکھائی نہیں دیا۔ دفعتاً اسے خیال آیا کہ وہ گٹھڑی سے کہیں گر گیا اور خود کو تلاش کر نے کے بجا ئے خواہ مخواہ اس فقیر کو ڈھو نڈ رہا ہے جو معلوم نہیں فقیر تھا بھی یا نہیں ۔