ذکاء الرحمن : تعارفی مطالعہ
ذکاء الرحمن : تعارفی مطالعہ
May 19, 2019
ذکاء الرحمن : تعارفی مطالعہ
آدم شیر
ذکاء الرحمن کی ولادت چوبیس دسمبر انیس سو بیالیس عیسوی کو خانیوال میں ہوئی۔ والد مظہر الرحمن شریف اور والدہ صحیفہ بیگم تعلیم یافتہ ہونے کے سبب علمی ماحول ملا۔ والد مظہر الرحمن شریف اور دادا فضل الرحمن شریف برطانیہ سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا گھرانہ بابوئوں کا خاندان مشہور تھا اور ہارون آباد میں ان کا آبائی گاؤں صاحباں دا پنڈ معروف تھا۔ ذکاء الرحمن نے مڈل تک تعلیم ہارون آباد کے واحد سکول ،جو سرکاری تھا، میں پائی ۔ ماڈل ٹائون لاہور کے ایک سکول میں بھی حصولِ عِلم کے لیے داخل رہے۔ انٹرمیڈیٹ فارمین کرسچن کالج لاہور سے کیا اور گریجوایشن ایم اے او کالج سے کی ۔ ذکاء الرحمن کے اجداد زمیندار تھے اور بڑے زمیندار تھے لیکن ذکاء الرحمن جاگیردار ہونے کے باوجود دنیاوی معاملات میں مست قلندر آدمی تھے اور زمینیں بیچ بیچ کر گزر بسر کرتے رہے۔ ذکاء الرحمن کی شادی 1969ء میں کامیاب معاشقے کے نتیجے میں طلعت سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہیں صدف، تارا اور محمد شریف ۔ ذکاء الرحمن شادی کے بعد 1969ء کے اواخر میں بہن بھائیوں کی محبت میں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ کراچی میں ذکاء الرحمن نے 29 سال قیام کیا اور اس دوران میں ان کی جون ایلیا، عبید اللہ علیم، صغیر ملال، اسد محمد خان، جمال احسانی وغیرہم سے دوستیاں رہیں۔ 1991ء میں گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ لاہور منتقل ہوئے اور 1994ء میں دوبارہ کراچی چلے گئے۔ کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی واپسی کے دوران میں وہ کچھ عرصہ کوئٹہ بھی رہے۔ 2004ء میں اُنھوں نے لاہور کو مستقل مَسکن بنانے کا فیصلہ کیا۔ 2006ء میں ان کی بیوی طلعت انتقال کر گئیں اور وہ کئی ماہ ذہنی تنائو کا شکار رہے۔ بیوی سے محبت کی مثال وہ جملہ ہے جو اُنھوں نے اپنی محبوبہ کی وفات پر کہا تھا۔
’’طلعت سڑک پر بھی کھڑی ہو جاتی تھی تو وہ بھی میرا گھر ہوتا تھا اور اب میرا گھر ختم ہو گیا ہے، بس مکان رہ گیا ہے۔‘‘
ذکاء الرحمن نے کراچی میں پی ٹی وی کے لیے ڈرامے تحریر کیے اور کچھ ڈرامے اسد محمد خان کے ساتھ بھی لکھے تھے۔ وہ ادبِ لطیف کے مُدیر رہے اور اُنھوں نے کراچی سے ’’نئی نسلیں‘‘ کے نام سے ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کے چند شمارے ہی آ سکے مگر جو آئے، اُن کا معیار مسلم ہے۔ اِنہی شماروں میں سے ایک میں پروین شاکر کو پہلی باقاعدہ اشاعت نصیب ہوئی۔ وہ فیروز سنز کے مُدیر کتب بھی کچھ عرصہ رہے۔ ذکاء الرحمن پر اب تک ایم فل کے لیے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں اور اورینٹل کالج لاہور کے ڈاکٹر ضیاء الحسن نے ان کے دس بارہ افسانوں کے لمز یونیورسٹی کے طلبہ سے انگریزی میں تراجم بھی کرائے تھے اور ان پر اورینٹل کالج میں پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے لیکن ضرورت ہے کہ ناقدین آگے آئیں تاکہ متون کی تفہیم کے ساتھ ساتھ نئی روایت سے آگہی بڑھے۔ ذکاء الرحمن کے دو ناولٹ ’’دود چراغِ محفل‘‘ اور ’’پت جھڑ کا آخری دن‘‘ شائع ہوئے تھے لیکن یہاں افسانوی مجموعوں کا مختصر تعارفی مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں گو ڈاکٹر انور سجاد کے الفاظ میں ’’ذکاء کو تعارف کی کوئی ضرورت نہیں کہ اُس کا نام اور تحریریں لولی لنگڑی نہیں ہیں کہ کسی تعارف کی محتاج ہوں۔۔۔ ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک جانا پہچانا نام ہے اور اپنے ہم عصروں میں منفرد مقام ہے۔‘‘لیکن پہلی نسل کو دریافت کرنا دوسری نسل کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
ذکاء الرحمن کے افسانوی مجموعہ ’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ میں قصے کہانیاں ہیں جنہیں ذکاء الرحمن کی فنی پیشکش نے خوبصورت افسانے بنایا ہے۔ اس مجموعے میں شامل کہانیوں میں ذکاء الرحمن نے آبائی شہر ہارون آباد کو پینٹ کیا ہے اور گہرے مشاہدے کی چھاپ ہر صفحے پر ابھر ابھر آتی ہے۔ ہارون آباد کے موسموں، باغوں، پھلوں، کھیتوں، کسانوں، پگڈنڈیوں سے جدائی کے گیت ذکاء الرحمن کی دوسری کتب میں بھی موجود ہیں۔ اِس مجموعے میں صحرا اور صحرائی باشندوں کی زندگی، دیہات کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ذہنی الجھنیں، نظریاتی کشمکش، مختلف علاقوں میں بسے لوگوں کے چاہنے کے مختلف انداز اور معصوم خواہشیں، لالچ سے محفوظ دلوں کو نصیب اطمینان اور ہوس میں ڈوبے ہوئوں کے مقدر میں گُندھی بے اطمینانی، تنہائی کا کرب ، انسان کی انا اور اس کی معاش کا باہمی تعلق، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، فطری حسن کا جادوئی اثر اور اس سے کشید انجانا حظ، والدین کا اپنی موت کے بعد بھی بچے کی موت تک اس پر اچھا اور بُرا اثر اور انقلابیت کی مختلف راہوں کے ابتدائی نقوش بھی اسی مجموعے میں ملتے ہیں۔
’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ میں چودہ افسانے ہیں اور اس کے پہلے افسانے ’’سَرحد ‘‘ میں صحرائی باشندوں کی کٹھن زندگی، تنہائی ، محبت کی تلاش، بدن کی چاہت ، مجبوری اور مکاری کی نفسیات نظر آتی ہے۔ اس افسانے کی بُنت بالخصوص منظر نگاری مستقبل کے ذکاء الرحمن کی خبر خُوب دیتی ہے ۔ ’’ہنگامہ‘‘ میں خاتون مدرس کی بدعنوانی سے بڑے سکول میں داخلہ نہ پانے والی کسان کی ذہین اور اچھے نمبر لینے والی بیٹی کی خودکشی کو وہ قتل قرار دیتے ہیں اور اخباری نمائندے کے ضمیر کی آواز، پیشہ ورانہ ذمہ داری اور اخبار کے مالک کے حکم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کشمکش میں مبتلا سوچ ملتی ہے۔ ’’سُرخ جھنڈی‘‘ میں کچلی ہوئی انا کی خرابیاں دکھائی گئیں۔ مرکزی کردار نہر کے پل پر سُرخ اور سبز جھنڈی ہِلانے والا شخص ہے جس کی بیوی اور ساس اُسے جانور کی طرح ہانکتے ہیں لیکن ایک دن اُسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور سُرخ اور سبز جھنڈی کی طاقت کے احساس سے اُس کی عزت نفس پوری قوت سے سر اٹھاتی ہے اور وہ تمام بگڑے معاملات درست کرنے لگتا ہے اور چونکانے والی بات یہ ہے کہ ٹھیک اسی وقت اُس کی جگہ پل پر برقی اشارہ لگا دیا جاتا ہے۔ ’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ نظریاتی ٹکرائو اور سماجی و سیاسی جبر کی دیوار سے سر پھوڑنے والے شوریدہ سروں کا افسانہ ہے ۔ اس میں اختر شیرانی، فراق ، فیض ایسے شعراء اور ان کے زیر اثر رجحانات کے حوالے سے ذہنی الجھاوے مذکور ہیں۔ اِس میں ذکاء الرحمن کے نظریہ فن کی ابتدائی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ’’پُتلی‘‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جو بے حد خوبصورتی سے انسان پر اجداد کے اثرات اور سماجی جبر بیان کرتا ہے اور قاری کو ذہنی مشق کی دعوت بھی اچھی خاصی دیتا ہے اور جب قاری کو کامیابی ملتی ہے تو وہ درد کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے لیکن یہ کھائیاں ہوادار اور روشن ہیں۔ ’’رات کا موسم ‘‘ایک پیچیدہ افسانہ ہے جو پہلی قرأت میں جھول کا شکار نظر آتا ہے لیکن دوسری بار پڑھنے سے واقعات کی کڑیاں ملا کر ایک اچھی کہانی تشکیل پاتی ہے۔ ’’احساس ‘‘ایک ماں کی کہانی ہے جس سے بچی چھین کر گھر سے نکال دیا گیا ہے، جس کا آوارہ شوہر ہر رات شراب کے نشے میں دُھت ہو کرگھر آتا ہے، جسے گھر کی مرغی راس نہیں آتی ،اور وہ ممتا کی ماری ٹرین کے ڈبے میں ایک نوجوان کے بازوؤں میں غبار نکال رہی ہے۔
’’گہری، گرم اور رحمدل ندیا ‘‘محبت کا افسانہ ہے اور محبت پر بات کرنا ہی فضول ہے، اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور ہر آدمی اپنے احساس کے مطابق اِسے پاتا ہے البتہ اس میں فطری مناظر اور احساسات کی پیشکش دلفریب ہے۔ ’’اک جذبہِ شعلۂ نما ‘‘کا شاعر اپنے رنگین مزاج اور زندہ دل باپ سے تنگ ہے اور ایک چُغد کے ساتھ وقت گزاری میں راحت تلاش کرتا ہے لیکن اس کے طور بھی وہی ہیں جو اس کے باپ ہیں کہ ایک پُتلی یا پُتلا ہو، جو اس کی انگلی کی حرکت پر متحرک ہو۔ افسانے کا راوی ادیب ہے جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ نگار کی زندگی کے ایک پہلو کی عکاسی ہے ۔’’چھوٹی سی دنیا ‘‘ قناعت ، محبت اور قربانی کی کہانی ہے ۔ چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے گھر میں اطمینان سے رہنے والے لوگوں میں پڑی ایک دراڑ پڑنے اور بھرنے کی کہانی ہے ۔ ’’تنکے اور طوفان ‘‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر لکھا گیا ایک اچھا علامتی افسانہ ہے جو پہلی بار پڑھنے سے اکثر لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر جائے گا اور وہ اسے دو دوستوں کی کہانی سمجھتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے لیکن جب کوئی ذرا سنجیدگی سے پڑھے گا تو معلوم ہو گا کہ دو دوست دراصل مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ہیں۔ذکاء الرحمن کے اکثر افسانوں کو سمجھنے کے لیے تاریخِ عالم سے واقفیت ضروری ہے ورنہ قاری ’یہ کیا بکواس ہے‘ کہہ کر اپنی جہالت کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا۔ ’’خشک جھیل اور لڑکی‘‘ بھی افسانہ نگار کی زندگی کے ہی ایک پہلو کی عکاسی ہے لیکن اس کی بُنت کاری قاری کو انجام تک پڑھنے پر مجبور کرنے کا ’قوتیہ‘ رکھتی ہے۔ ( لفظ قوتیہ بھی ذکاء الرحمن کی اختراع ہے ) یہاں ڈاکٹر انور سجاد کے الفاظ نقل کرتا ہوں کہ اُس تخلیق کار کے متعلق لکھنا بے حد پیچیدہ ہوتا ہے جسے آپ نزدیک سے جانتے ہوں ۔ اِس افسانے کا ایک جملہ دیکھئے۔
’’دیہات ہریالی کے سمندر ہیں۔۔۔ ان کے مقابلے میں شہر، خشک جھیلیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ ‘‘
یہ جملہ ذکاء الرحمن کی دیہات، کسان اور کھیت سے جذباتی وابستگی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ ’’صحرا کی زنجیر ‘‘ایسا افسانہ ہے جس پر ایک کامیاب ڈرامہ کیا، فلم بھی بن سکتی ہے۔ ایک ڈاکٹر صحرائے مروٹ کے قبائلیوں میں پھیلتی ایک بیماری کا سدباب کرنے جاتا ہے۔ وہاں اِسے ایک چست بدن قبائلی عورت ملتی ہے جو آہستہ آہستہ اُس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے اور اسے علم بھی نہیں ہو پاتا ۔ وہ واپس شہر جانا چاہتا ہے اور صحرائی بستی چھوڑنا بھی نہیں چاہتا ۔ یہ اس کشمکش پر مبنی ہے کہ کیا چاہئے اور کیا وہ چاہتا ہے؟ یہ افسانہ صحرائی خانہ بدوشوں کے مزاج میں موجود شدت اجاگر کرتا ہے جو ہر جذبے ، محبت ہو کہ نفرت، میں پائی جاتی ہے۔ اس میں قبائلیوں کی عقیدت ، محبت اور زندگی کی عکاسی اس خوبی سے کی گئی ہے کہ انجام پر ایک جملہ منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔۔۔ لالی سے ملنا چاہئے۔۔۔
اب ذکر ہو جائے اِس مجموعے کے اُس افسانے کا جو مجھے بے حد پسند ہے اور وہ ہے ’’اکیلی کونج کا گھونسلا ‘‘۔۔۔ یہ فطرت اورمعصومیت میں چھپے حُسن کا ایک نغمہ ہے جو وقت کی قید سے آزاد گایا جائے گا۔ ذکائ الرحمن نے اِس افسانے میں انسان ، احساس ، پرندے اور فطرت کے تال میل سے کشید ہونے والی مسرت پیش کی ہے جس کی آج کے آہنی مشینوں سے چپکے انسان کو بے حد ضرورت ہے تاکہ وہ انسان رہ سکے۔
افسانوی مجموعے ’’میں اور زمین‘‘ میں بیس ’لکھتیں ‘ہیں۔ ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ اور ’’میں اور زمین‘‘ کے درمیان ایک طویل وقفہہے اور یہ محض ماہ و سال کا نہیں بلکہ فکر و نظر کا بھی ہے۔ ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ میں ذکاء الرحمن ایک افسانہ نگار ہے جبکہ ’’میں اور زمین‘‘ کا ذکاء الرحمن مفکر اور مجدد ہے۔ وہ فنی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر فن پارے تخلیق کرتا ہے ۔ اس کے سامنے علامت اور تجرید کی راہیں تھیں اور بظاہر اُس نے یہی راہیں اپنائی ہیں لیکن غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ُاس کی علامت نگاری اور تجریدیت جُدا جُدا ہے۔ ’’میں اور زمین‘‘ میں ہمیں طلسماتی حقیقت نگاری بھی ملتی ہے اور اس جادو کے منتر بھی اس نے خود ترتیب دیے ہیں اور پھونکے ہیں۔ وہ حقیقت سے مجاز کی طرف جاتا ہے اور مجاز سے حقیقت کی جانب بھی آتا ہے اور اُس کی یہ آمدورفت اِس مہارت سے ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اپنی رو میں پڑھتا جاتا ہے اور اختتام پر ذہن پر بوجھ ڈال ڈال کر ’’جاننے‘‘ کی سعی کرتا ہے۔ یہ کوشش وہی کرتا ہے جو صحیح معنوں میں سنجیدہ ادب کا قاری ہے، دوسرا تو پڑھت چھوڑ بھاگ جاتا ہے۔ ذکاء الرحمن کے اس انداز نے اس کا سکہ تو جمایا ہے لیکن اُس کے قارئین کی تعداد بھی گھٹائی ہے اور وہ اِس پر مطمئن تھا۔ اُس کے نزدیک زیادہ قارئین اہم نہیں بلکہ باشعور قارئین کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ باشعور قاری ہرجگہ کم ہی ہوتے ہیں۔
’’میں اور زمین‘‘ سے ذکاء الرحمن کی نئی زبان اور نئی اصطلاحیں سامنے آتی ہیں۔ وہ نئی نئی تراکیب اور پرانی پرانی تلمیحات پیش کرتا ہے۔ تاریخ اور فلسفے میں سے چُن چُن کر اشارے دیتا ہے۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات کے مسائل بیان کرنے کے لیے وہ نئے نئے لفظ تراشتا ہے اور اُس کا اسلوب بھی خالص اپنا اور اردو افسانے کے لیے نیا ہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کے مطابق ’’میں اور زمین‘‘ سے پہلے کی تحریروں کو ذکائ الرحمن نے افسانے، کہانی ، ناولٹ کے خانوں میں بانٹ رکھا تھا لیکن ’’میں اور زمین‘‘ میں موجود تحاریر کے لیے اُس نے افسانہ کا لفظ نہیں برتا بلکہ لکھت لکھا ہے۔
اِن لکھتوں میں داستان کا رچاؤ ہے، فسوں کی چاشنی ہے، کہانی کا چسکا ہے ، شاعرانہ نثرہے، باقاعدہ نظمیں ہیں، پرشکوہ خطبے ہیں، پُرسوز صدائیں ہیں اور اِلہامی زبانوں اور لہجوں کا آہنگ بھی ۔۔۔ اور یہ تمام مل کر لکھت کو ساحری اور لکھت کار کو سامری بنا دیتے ہیں۔ ’’میں اور زمین‘‘ کے افسانے موضوعاتی سطح پر متنوع ہیں اور اتنے پرتیلے ہیں کہ قاری جو سمجھ لے، وہی رائے ٹھیک ہوگی۔ یہ یک موضوعی افسانے قطعی نہیں ہیں۔ اس کے لیے ذیل میں تعارفی سطور پر اکتفا کرنے کی بجائے افسانے پڑھنا لازمی ہیں۔ ان میں فیزیک اور میتا فیزیک ہے۔ تاریخ ہے اور تاریخی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش بھی ہے۔ معاشی اور فکری نظاموں پر بحث ہے۔ منافقت ، مصلحت پسندی، فرسودہ روایات و عقائد کی مذمت ہے۔ جنسی بے راہ روی اور صحت مند جنسی عوامل کی ترغیب ہے۔ سیاسی و سماجی شعور کی برق رفتار لہریں دوڑتی پھرتی ہیںاور یوں دوڑتی ہیں کہ دیر تک سنسناہٹ رہتی ہے۔
’’میں اور زمین‘‘ کے اکثر کردار اور راوی تخلیق کار ہیں، کہانی کار ہیں اور شاعر ہیں۔ ’’میں اور زمین‘‘ کے پہلے افسانے ’’سُورج دکھ ‘‘میں زندگی کو خورشیدانہ دیکھا گیا ہے اور یہ خورشید ،جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، خود افسانہ نگار ہے جو زندگی کی معنویت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ پہلے وہ بے ثباتی کے مناظر دکھاتا ہے اور پھر آگاہی کے عذاب سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اُمید کی راہ دکھاتا ہے۔ ’’سورج دکھ‘‘ بتاتا ہے کہ زندگی کا مقصد زیادہ مسرت نہیں بلکہ کم دکھ ہیں لیکن زیادہ مسرت اور کم دکھ کے چکر میں روح کی سچائی فراموش نہیں ہونی چاہئے۔ ’’سورج دُکھ‘‘ علامتی کم اور تجریدی زیادہ ہے۔
’’تہہ خانہ‘‘ ایک شاہکار ہے جس میں کئی پرتیں بنائی گئی ہیں ۔ اس افسانے کی زبان شان دار اور روانی غضب ہے ۔ پہلی قرأت میں یوں بہا لے جاتی ہے کہ قاری کے لیے معنی پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ دوسری پڑھت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس میں ذکاء الرحمن نے اَبعادی گھمن گھیری کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ تین ابعاد۔۔۔ تین ورقہ کمرے۔۔۔ چوتھا بُعد یعنی آخری ورقہ کمرہ ۔۔۔ مادی اور روحی معجزے۔۔۔ سہ ابعادی دنیا میں ہفت ابعادی انسان کی جانب سے ناتمام دنیا کی تکمیل کا خواب۔۔۔ دانش کے زور سے موت کے اُوپر سے لمبی چھلانگ ۔۔۔ اور ہونے نہ ہونے کا قضیہ تمام۔ انکار اور اثبات کے ساتھ ذات کی تکمیل پر تبدیلی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ سوچ کے سہارے مقصد کی تلاش اور کامیابی پر تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ تہہ خانہ ایک بلیغ علامت ہے ۔ یہ کائنات ہے جس کے ابعادی کمروں میں کھوئے انسان کو فلسفیانہ افکار کی بھرمار میں افسانہ نگار کا جگمگاتا چہرہ نظر آتا ہے۔ اس افسانے میں ذکائ الرحمن نے دو نظمیں بھی پیش کی ہیں۔ایک توجہ کے لیے حاضر ہے۔
وہ قدیم اَساطیر کی زمین میں سوتے ہوئے بارہ عدد ہیں
موسم بہار کے بارہ کاہن
وُہ بارہ کاہن جنہوں نے دریاؤں کی پیش گوئی کی
جب وُہ جا گیں گے تو وُہ ایک گم گشتہ روایت کے جنگجو ہُوں گے
وہ بارہ کاہن کہ اُن کی یادوں نے اُس وقت کا تعارف کروایا جس وقت کی قیادت شاعروں نے کی تھی
بجلی کے نادِیدہ بارہ لپکے جو مہینوں کے نشان تبدیل کرتے ہیں
جب وُہ جاگیں گے تو نمو پا کر وَقت سے آگے نکل چُکے ہوں گے
وُہ زمین میں سفر کرتی ہوئی جڑوں کی طرح کئی شاخہ اور راز بھرے
وُہ تاجر کی اور کھیت میں کام کرنے والے کی سماعتوں کو حیران کر دیں گے
اور اُن مندروں کو ڈَھا دیں گے
جہاں غیر ملکی اور اجنبی دیوتا پناہ گزین تھے
وُہ بارہ نَبی
وُہ قدیم اَساطیر کی زمین میں سوتے ہوئے بارہ عدد
’’کاف کلام ‘‘ میں ذکاء الرحمن نے دو کردار دیے ہیں، ابراہیم سٹائن اور ہاجرہ گووِندا ۔۔۔ یہ افسانہ ابراہیم سٹائن کی ذہنی جستجو کے گرد ہی گھومتا ہے جو دیکھتا ہے کہ آج کے مرد اور عورتیں اس قدر پستی میں ہیں اور اس قدر تنہا ہیں کہ جانوروں اور مشینوں سے جماع کرتے ہیں۔ راوی پرعزم ہے کہ وہ دماغی خلل میں مبتلا لوگوں اور اُن کی بداعمالیوں سے نمٹنے کے لیے خُدا کے عذاب کو دعوت نہیں دے گا بلکہ خود سامنا کرے گا۔
’’سالُو ولی اللہ محدث انقلابیہ ‘‘ میں مذہب کے نام پر ظلم ڈھانے والوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ سکوت توڑنے کا راز بھی ہے کہ ’’جو اپنے جوہر کو اور اپنی ذاتِ جوہر کو، اپنے وجود سے اُوپر سمجھتے ہیں، ان کی ستیہ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ ذہن کی کوکھ میں وجود کے گرے ہوئے حمل کو دوبارہ قرار دے سکتے ہیں۔‘‘ اور ’’وجود وہ حمل ہے جو ذہن کی کوکھ میںقرار پاتا ہے۔ ‘‘
’’میری زلیخا کی قبر میں سبز ہنگامہ ‘‘ بھی اہم افسانہ ہے جس میں ذکائ الرحمن کا قلم تاریخی اور عہد حاضر کے دنیا بھر کے حوالے دیتے ہوئے فلسفیانہ اور تصوفانہ مباحث سے کُھلکھیلتا ہے جو بیک وقت طبیعاتی بھی معلوم دیتے ہیں اور افسانے کا اختتام یوں کرتا ہے ۔
’’سچ کی سطح مرتفع پر، اور اَثبات و نفی کی بے جہتی میں، اور حیات و مَوت کی بامعنی لایعنیت کے سامنے، میری حمد گائو اور اپنی کتاب کے نَزول کا آغاز اپنے وجُود کے غار میں اسم کی پہلی قرأت سے کرو کہ مَیں ہی وہ ہوں جو سب تعریفوں کے لائق ہوں، اور میں ہی وہ ہوں جس کا کوئی نام نہیں اور جس کے سَب نام ہیں، اور مَیں ہی وہ ہوں جس نے سب کچھ پیدا کیا، اور مَیں ہی وہ ہوں جو مَیں ہوں، اور مَیں ہی وہ ہوں جو تُم ہو۔۔۔ بشرطیکہ تُم لُوطیوں کو اور جَواریوں کو اور ظالموں کو اور منافقوں کو اپنے درمیان سے نکال دو، بشرطیکہ تُم میری زلیخا کی قبر میں شادابی کا سبز ہنگامہ جاگنے دو۔‘‘
’’موجود کی ایک بِلال رات‘‘ میں نفسانفسی کا عالم، مصنوعی روشنیاں، مصنوعی لذتیں، مشینیں ہی مشینیں اور بے چہرہ آدمی ہیں اور قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی نہیں اور راوی کے الفاظ میں ’’چہرہ چہرہ تقسیم شدہ خُود کو جمع کرکے اس جمع کمائی سے فلوریسنٹ لائٹس کے انگاروں پر لیٹی ہوئی رات کو آزاد کرانا ہوگا تاکہ اس کے حلق سے سچائی کے اعلان کا مترنم چاند طلوع ہو اور اس کے کالے بالوں میں ستارے اُتر آئیں۔‘‘
’’خانقاہ محمد پناہ‘‘ میں سیاسی و سماجی جبر سے طاری جمودیت اور خون چوس معیشت سے نجات کا راستہ جُگنی میں دکھایا گیا ہے کہ ’’جگنی میری بھنگڑا پاوے، نال نبی دا حُکم سناوے، جیہڑا وائے اوہی کھاوے، مالک نہ کوئی ہور سَداوے۔‘‘ اس افسانے کا کہانی پن بہت پُر اثر ہے۔ ذکائ الرحمن خود تو وجدان میں ڈوبے تھے ہی، قاری کو بھی مست کر دیتے ہیں اور ایسا ہی خوبصورت افسانہ ’’صورت گر،کُن‘‘ ہے ۔ یہ افسانہ جون ایلیا کو بہت پسند تھا اور ذکائ الرحمن کو بھی عزیز تھا اور مَیں بھی اس کا مداح ہوں کہ یہ زندہ رہنے والا افسانہ ہے اور ذکائ الرحمن کے پاس کئی ایسے افسانے ہیں جو زمان و مکاں کی قیود سے ماورا زندگی کی بے پناہ حرارت لیے ہوئے ہیں۔ ذکاء الرحمن نے اپنی رہائش گاہ پر بتایا تھا کہ عنوان ’’صورت گر، کُن‘‘ میں لفظ ’’کُن‘‘ جون ایلیا نے تجویز کیا تھا۔ اب اتنی ادبی دیانت داری کا شاید رواج نہیں رہا کہ ذکائ الرحمن کی وفات کے بعد جو مضامین شائع ہوئے، ان میں ڈاکٹر انور سجاد کے دیباچے سے خوشہ چینی جا بجا نظر آتی ہے اور حوالہ کہیں نہیں ملتا۔ اس لیے میں اس تعارفی مضمون میں ڈاکٹر انور سجاد کے حوالے بار بار دے رہا ہوں۔ بہرکیف ’’صورت گر، کُن‘‘ میں فضیلت کے جھوٹے معیاروں اور معیار سازوں پر لعنت بھیجنے کے ساتھ ساتھ گلی سڑی سوچوں میں تبدیلی کا عزم اور ہمت بھی نظر آتی ہے۔ یہ کہانی اور علامت کے باہمی رچائو کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں ایک قطعہ بھی ہے، دیکھئے۔
چِمٹا وَجدا نَئیں کِسے مَان بِنا
رَبّ مِلدا نَئیں کدے دھیان بِنا
شاناں اَدّیاں نَبیؐ دی شان بِنا
بئی چِمٹا وَجدا نَئیں کِسے مَان بِنا
’’شاہراہ‘‘ میں پیغام واضح ہے کہ قرآن کے تیس پارے دراصل تیس نوٹ ہیں اور ان نوٹوں کو چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت ہے۔ جب یہ توانائی حاصل ہوگی تو انصاف بھی ملے گا۔ مساوات بھی ہوگی۔ عزت بھی ہوگی اور خوراک بھی ہوگی۔ ’’زرد سرائے شامِ خزاں‘‘ افسانہ کا کردار ایک سالک شہزادہ ہے جس نے شہزادگی تَرک کی ہے۔ کامیابی کا زینہ چار ہاتھ اونچا ہے۔ اُسے چار رفیق میسر ہیں۔ پہلے کے پاس خوشبو دار الفاظ ہیں۔ دوسرے کے کوزہ گر ہاتھ پر جہاں زاد زلفوں کا سایہ ہے اور شہرِ مدفون پر گزرنے والے وقت کی تحریر ہے۔ تیسرا بے کتاب پیمبر ہے اور اس کا پھیلائو شہر سے کھیت تک ہے اور وہ دیو قامت پر بیٹھا بوٹا ہے جو دیوقامت سے زیادہ بہتر اور زیادہ دور دیکھتا ہے۔ چوتھا پہاڑی کے وعظ کی نرماہٹ والا رفیق ہے۔ شہزادہ چاروں کے ہاتھوں کو سیڑھیاں بنا کر انقلاب کی منزل پالیتا ہے۔ اَبعاد اور ذکائ الرحمن لازم و ملزوم ہیں۔ ’’اصحاب کہف‘‘ مجذوب مائوں کے شاعر بیٹوں اور باغی باپوں کے کہانی کار بیٹوں کی شب زادوں کے خلاف مزاحمت پر مبنی ہے اور یہ افسانہ اِس فنکاری سے بُنا گیا ہے کہ قاری کے لیے جہانِ معنی کے در وا کرنے کے ساتھ ساتھ ادبی حظ بھی پورا پورا مہیا کرتا ہے۔ اہلِ علم بالخصوص تخلیق کاروں پر واجب ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ ہار پر ہار کے باوجود کالی قوتوں کے خلاف مسلسل لڑتے رہیں اور وہ لڑتے رہے ہیں ۔ ’’پاپا آئن سٹائن سے ایک سوال‘‘ زمان و مکان سے متعلق پراسرار حقائق کی کھوج ہے کہ ’’اگر آدمی کو مکاں مان لیا جائے تو آدمی مکاں وقت زماں سے کونسا اور کیسا رشتہ قائم کرے گا؟ ‘‘اور پاپا آئن سٹائن کے پاس اس سوال کا جواب نہیں مگر افسانہ نگار کے پاس ہے۔ اسی افسانے کے ایک منظرمیں ذکاء الرحمن نے اپنے دوست جون ایلیا کو محبوبہ سے محوِ گفتگو بھی دکھایا ہے۔
’’عہد نامہ‘‘ دُلا بھٹی کی اکبر اعظم کے خلاف للکار کے پس منظر میں بُنا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ دُلا بھٹی ہر دور میں ہر جگہ ہوتا ہے ، جابر کے خلاف کلمہ حق کہنا فطرتِ انسانی گوندھ دیا گیا ہے اور یہ لوحِ محفوظ میں بھی لکھا ہے۔ ’’احسنِ تقویم‘‘ تاریخ ہے، نوحہ ہے، ترانہ ہے اور نعرۂ مستانہ ہے۔ اس افسانے میں ذکائ الرحمن کے کچھ بول دیکھئے۔
پناہ کے یہ میرے حواس کا تماشا
یہ آنکھوں اور ہونٹوں کا بُت خانہ
پناہ کہ یہ ہونے اور نہ ہونے کی کشاکش
پناہ کہ چشمہ اُبلتا نہیں
پناہ کے تاج گِرتے نہیں
پناہ کے آواز اُترتی نہیں
پناہ کہ کوئی بولتا نہیں
پناہ کہ ہَم اور ہَماری بے لباس رُوحیں
پناہ کہ ہمارے زخم، ہماری پیاس
پناہ کہ یہ میرے حواس کا تماشا!
’’ن والقلم‘‘ کو ذکائ الرحمن نے نعتیہ افسانہ کہا تھا لیکن یہ حمدیہ بھی ہے اور منقبیہ بھی۔ اس افسانے میں کمال یہ ہے کہ حمد، نعت، منقبت اور تاریخ کو یوں افسانہ کیا ہے کہ مذہب سے متعلق بھی ہے اور غیر متعلق بھی ہے۔ نبی اکرم اور چاروں خلفائ کے چیدہ چیدہ پہلو یوں بیان کیے ہیں کہ تاریخِ اسلام سے ناواقفین کے لیے یہ پرشکوہ بیانیہ قرار پائے گا اور وہ اسے انسان کے اوصاف حمیدہ کے پسِ منظر میں ایک مثال پائیں گے۔ اس میں حیر ت اور بصیرت کے ساتھ ادبی مسرت کی بھی فراوانی ہے۔ ’’دھیان کا مشرق ‘‘میں ذکاء الرحمن قرار دیتے ہیں کہ اضافیت میں اثبات ہے اور وہ سچ اور آزاد سوچوں کے گُلاب کھِلانے کا درس دیتے ہیں۔ اس افسانے کے موضوع سے آگاہی کے لیے افسانہ نگار کی نظم دیکھئے۔
میرا بدن ایک علاقہ ہے
اس علاقے میں کئی ضلعے ہیں
ایک جگہ ایسی ہے جہاں تین ضلعوں کی سرحدیں ملتی ہیں
ایک ٹانگ کے ضلعے کی سرحد اور دوسرے ٹانگ کے ضلعے کی سرحد اور معدے کے ضلعے کی سرحد
اور یہ تینوں ضلعے زرخیز ضلعے ہیں
دو ضلعوں میں رفتار کی لذت آ گئی ہے اور تیسرے ضلع میں غذا کی قوت کاشت ہوتی ہے
پس جہاں یہ تینوں ضلعے باہم ملتے ہیں اور مدّغم ہوتے ہیں
وہاں کالا پھُول کھِلا ہے ، حَبشی خوشبو سے لدا پھندا
خواہش کی ہوا میں یہ پھُول تھرتھراتا ہے
اور لذت کی شبنم میں یہ پھُول دل کی طرح دھڑکتا ہے
تب مَیں اس تھرتھراتے ہوئے اور بھیگتے ہوئے اور دھڑکتے ہوئے پھول سے پوچھتی ہوں
کیا تُم اثبات ہو؟
نہیں مَیں اثبات نہیں ہوں
مَیں ایک نفی ہوں اور جب مجھ میں دوسری نفی داخل ہوتی ہے
تو دو نفیاں آپس میں ٹکرا کر پھُوٹ بہتی ہیں
یہ پھُوٹ بہنا شہد ہے
اور یہ شہد اثبات ہے
شہد کی مکھی پر نازل ہوتی وَحی کی قسم کہ یہ شہد اثبات ہے
’’ارضِ موعُود ‘‘میں ظالم راجہ کی جانب سے ایک پودے کی شربتی پھولوں والی بِیل ہتھیانا اور پودے کا مینڈک، چیونٹی، ابابیل اور چوہے کی مدد سے واپس لینا ہے۔ فضا اساطیری ہے اور کرداروں کی فعالیت قرآنی علائم کے پس منظر میں ہے اور منطقی نُکات میں اُلجھا الجبرائی فلسفی اور اس کی مساواتیں ننھے پودے کے عظیم جذبے اور قرآنی علائم کی مدد کے سامنے ہیچ ثابت ہوتی ہیں۔ افسانے میں قرآنی آیات کے ترجمے بھی استعمال کیے گئے ہیں ۔ ’’اِکو اَلِف ‘‘کے کئی پہلو ہیں لیکن یہاں تو یہی بتانا بہتر ہے کہ اس میں افسانہ نگار نے اپنی ایک سورۃ پیش کی ہے جس کے چودہ نکات ہےں اور یہ چودہ نکات لکھاریوں اور لکھتوں کے لیے رہنما اصول ہیں۔ ذکائ الرحمن کے کئی افسانوں میں واہمہ ہوتا ہے کہ راوی کے مخاطب کہانی کار اور شاعر ہیں۔ افسانہ جس کے عنوان سے مجموعہ معنون ہے یعنی ’’میں اور زمین‘‘ ذکائ الرحمن کی زندگی سے متعلق ہے لیکن یہ محض ذکاء الرحمن کی زندگی کے متعلق نہیں۔ افسانے کی ہیئت میں اس خودنوشت میں ذکائ الرحمن کا نظریہ فن بھی پوری طرح موجود ہے اور یہ اعتراف بھی کہ اس نے ادب میں ایسا راستہ کیوں چنا جو دنوں میں شہرت کی طرف نہیں لے جاتا لیکن ایک وقت آئے گا جب لوگوں کو خبر ہو گی کہ ُان میں ایک عالم تھا جس سے وہ لاعلم رہے اور بے فیض رہے۔ مجموعے کا آخری افسانہ ’’فاتحۃ الکتاب ‘‘ بھی تخلیق کاروں کے لیے رہنمائی کے باب میں ہے کہ وہ سماج میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور لاتے بھی ہیں مگر جمودیت کے حامی ہر وقت چوکنا رہتے ہیں ، اس لیے خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ ادب پابندِ سلاسل کبھی نہیں ہو سکتا۔
’’میں اور زمین‘‘ کے تمام افسانے انتہائی اہم ہیں اور اسی طرح ’’خوابِ سنگین‘‘ کے افسانے بھی ذکائ الرحمن کے اہم ترین فن پارے ہیں۔ ’’خوابِ سنگین‘‘ میں ’’اپنے اِسم کی چشم دید گواہی ‘‘سمیت بارہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے میں چند افسانے بظاہر ایک آمر کے خلاف کلمہ حق معلوم پڑتے ہیں اور ہیں بھی مگر خوبصورتی یہ ہے کہ یہ محض احتجاج تک محدود نہیں بلکہ اِن میں راہ نجات کے نشانات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے عصر کی عکاسی بھی صاف صاف کرتے دکھائی دیتے ہیںاور اِس طرح کرتے ہیں کہ یہ افسانے اُن کے عصر سے نکل کر زندہ رہنے کا ’قوتیہ‘ پالیتے ہیں۔
’’خوابِ سنگین‘‘ کی پہلی لکھت’’اپنے اِسم کی چشم دید گواہی ‘‘ ذکائ الرحمن کے نظریۂ فن کا ظہور ہے اور وہ اس نظریے کو پانے کا راز بھی بتاتے ہیں کہ کیسے وہ عامیانہ قصے کہانیوں سے نکلے ، خالص افسانے اور فکری لکھتیںلکھنے لگے اور کیونکر وہ ادب کو قصہ کہانی سے بالاتر اعلیٰ و ارفع سچ کی تلاش قرار دیتے ہیں۔ افسانے کے سانچے میں ڈھلے اس ابتدائیے میں وہ ادبی دنیا کے مولانا صلاح الدین کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ اُنھوں نے تشہیر سے پرے منفرد راستے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا اور یہی راستہ ایک دن منزل کو پہنچے گا۔ راوی اعلان کرتا ہے کہ وہ سیدھی کہانیاں بھی اتنی اچھی ہی لکھ سکتا ہے اور اُس نے لکھی بھی ہیں جس قدر خوبصورت وہ علامت اور تجرید میں ڈھلی لکھت لکھتا ہے۔ اُسے ٹھیک ٹھیک خبر ہے کہ وہ کہانی کون سی ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے جو مشہور کرتی ہے لیکن وہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ تخلیق کار کے لیے یہ مناسب نہیں۔ افسانہ ’’جاننے والے کے لیے ایک کہانی‘‘ کئی موڑ مڑتا ہے ،کبھی یہ نبی اکرم ؐکی یاد میں لکھا معلوم دیتا ہے ، تخلیق کاروں کی توصیف بھی کرتا ہے اور ان کے ابدی منصب پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ پیام دیتا ہے کہ خواب دیکھتے رہنا چاہئے اور خواب دکھانے والے تخلیق کار مبارک ہیں اور پیمبری شیوا ہیں۔ افسانے ’’میری ایک ہُو‘‘ محبت اور نفرت کی جدلیات، صحیح اور غلط کی جدلیات، جبر اورقدر، اعمال کی ذمہ داری و غیر ذمہ داری، عشق کے فیض سے ہوتے ہوئے خودی پر اختتام ہوتا ہے۔ اب اس میں کہانی کیا ہے؟ ’’میں اور زمین‘‘ اور ’’خوابِ سنگین‘‘ میں کسی ایک کہانی کی تلاش بے کار ہے کیونکہ ان میں موجود ایک ایک کہانی میں یک سطری کئی کئی کہانیاں ہیں۔ افکار اور مناظر کی فراوانی ہے۔ ذکائ الرحمن کے بقول کہانی صرف وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے افکار ہم تک پہنچاتے ہیں ۔ کہانی ایک ٹرک ہے جس پر فِکر لادو گے تو ادب تخلیق ہوگا۔ اس دور کی ایک اور خوبی مذہب ہے، ملا، پادری یا ربی کا مذہب نہیں، اِلہامی مذہب اِلہامی صورت میں ذکاء الرحمن کے ایک ایک افسانے کا محرک محسوس ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جذب و مستی میں یہ افسانے خود بخود اوراق پر منقش ہوتے گئے ہیں اور ذکائ الرحمن نے لاشعور کی رو کو بے لگام سرپٹ دوڑنے دیا ہے لیکن جب ہماری نظر پڑتی ہے کہ یہاں تو منطق بھی پوری طرح موجود ہے تو سوچ دستک دیتی ہے اور لاشعور کی رو کو مشکوک قرار دیتی ہے جو دراصل شبہ کی زد میں ہے اور نہیں بھی۔ افسانے ’’میری ایک ہُو‘‘ کے آخرپر ذکاء الرحمن سچ کا حصول عشق کا فیض قرار دیتے ہیں ۔
افسانہ ’’گھاس ‘‘ ازلی نامعلوم حقیقتوں کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور سہ ابعادی نامکمل دنیا کی تکمیل کے وسیلوں پر بحث کرتا ہوا تخلیق کاروں پر ختم ہوتا ہے جو نامکمل دنیا کی تکمیل کر سکتے ہیں کہ ۔۔۔ خالق جو چاہے کر سکتا ہے۔۔۔ ذکاء الرحمن اس افسانے میں وہ خودی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور انسان کو اس کے اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں ۔ اس میں بیان کردہ جبر و قدر کی تعریف کے پیچھے اسلامی فلسفہ نظر آتا ہے۔ افسانے ’’تیجا پاسا ‘‘ میں زَر داروں پر طنز کے ساتھ ساتھ چور راستے کی مذمت کی جاتی ہے کہ انجام برا ہی ہوتا ہے۔ ’’کالی یگ کا داسیو وَلی âاوس تے رحمتاں دی چھاںá‘‘ ایک نعرۂ مستانہ ہے ۔ ذکائ الرحمن نے کئی افسانوں میں خود کو کردار کے طور پر پیش کیا ہے اور کالی یُگ کا داسیو وَلی بھی وہ خود کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف دجلہ اور فرات کے نواح میں بسے لوگ ہی مقدس نہیں ہوتے بلکہ ہر جگہ کے لوگ مقدس ہوسکتے ہیں اگر وہ حقی رسی کو تھام لیں اور عرفان پا لیں۔ فضیلت کے جھوٹے معیارات رد کرتے ہوئے اسی افسانے میں وہ آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ سچ بھانبھڑ مچاتا ہے اور سزائیں لاتا ہے لیکن اس راستے پر چلنے والے کم نہ ہوں گے ۔ اس کا ایک افتباس ملاحظہ ہو۔
’’اس نے صرف یہ کہا کہ وہ جو، رازوں کے چہروں سے نقاب نوچتے ہیں، ان کی زندگیاں ہمیشہ المیوں کے کنوئوں میں اُلٹی لٹکتی رہتی ہیں اور آخرکار اُنھیں اِسی مَوت کے زہریلے لب چُوسنے پڑتے ہیں جس کے اختتام کی مُنادی اُنھوں نے کی تھی۔‘‘
اسی افسانے کا اختتامی پیرا بھی دیکھئے۔
’’میں کئی عِلموں میں بے عِلما سہی پَر مَیں وہ علم سیکھ رہا ہوں جو دنگ کر دینے والا ہے اور دنگ کر دینے والا علم خُدائی ہوتا ہے اور خُدائی علم کا مقابلہ ممکنات کی حدود سے باہر ہے۔ جس کسی نے خُدا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ غرقِ آب ہی ہوا۔ کیا یہ بات تاریخ سے ثابت نہیں ہے؟‘‘
’’سات زندہ ‘‘ میں کہانی کے شائقین کو سیاست دانوں کی چالاکیوں، غرور اور نااہلیت پر ایک اچھی کہانی بھی ملتی ہے اور افسانہ نگار کا فلسفہ بھی کہ سو مردہ لوگوں âسانس کے اعتبار سے مُردہ نہیںá سے سات زندہ لوگ âزندگی کے اعتبار سے زندہá بہتر ہوتے ہیں۔ ’’گھروں سے نکلنے پر پابندی‘‘ افسانہ اپنے عنوان سے ہی بتا رہا ہے کہ جبر کے دور میں لکھا گیا اور خوب لکھا لیکن اس کا عنوان کچھ اور ہونا چاہئے تھا۔ ’’پراگندہ بَال اور غبار آلُودہ اور دروازوں سے ہنکائے ہوئے لوگ‘‘ افسانہ ایک حدیث کو بنیاد بنا کر بُنا گیا ہے اور اپنے عنوان سے ہی متن کی خبر دے رہا ہے لہٰذا مجھ کم عِلم کی ناقص رائے میں اس کا عنوان بھی مناسب نہیں لیکن افسانہ ذکاء الرحمن کے دوسرے افسانوں ،جن کی عمارت فکری پہلوئوں پر کھڑی گئی، کی مانند جادوئی بیانیے کا حامل ہے اور اس میں ذکائ الرحمن خود موجود ہونے کے ساتھ ساتھ زاہد ڈار اور ڈاکٹر انور سجاد کو بھی لائے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ’’شِرک ‘‘کی جو ضیاء الحق کے دور میں ضیاء الحق کے خلاف لکھا اور پڑھا بھی گیا جس کے نتیجہ میں ذکاء الرحمن پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ضیاء الحق اور مذہب کی آڑ میں حیلوں پر اس سے بہتر افسانہ میری نظر سے کبھی نہیں گزرا اور اس افسانے کو ذکاء الرحمن کے مطالعے، مشاہدے، تجربے اور تخیل کی اڑان نے اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ یہ ضیاء الحق کے خلاف احتجاج ہی نہیں رہتا بلکہ جبر تلے سانس لے رہے ہر انسان کی آواز بن جاتا ہے۔ یہ ماضی کا افسانہ ہے۔ یہ حال کا افسانہ ہے اور یہ مستقبل کا افسانہ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک ملک کا افسانہ نہیں۔ اس میں جبر کی آمد اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی گئی۔ جبر کے خلاف اٹھنے والوں اور ان کی رہنمائی کرنے والوں اور مصلوب ہونے والوں کی عظمت کا گیت گایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خودساختہ لاشریکوں کے سامنے شِرک کا سلسلہ کبھی رُک نہیں سکتا چاہے خودساختہ لاشریک کتنے حیلے کریں، کیسی کیسی فقہ مرتب کریں اور عیار مشیر کیوں نہ پال لیں یا موت کو بھیانک اور خوفناک کیوں نہ بنا دیں، یہ سلسلہ جاری رہے گا اور انسان آزادی کے لیے لڑتا رہے گا۔اس افسانے کا بیانیہ بے حد بلند آہنگ ہے اور ذکاء الرحمن کی تراکیب اور استعارے زود اثر ہونے کے ساتھ دیرپا تاثر بھی چھوڑتے ہیں۔ یہ افسانہ فکر اور فن کے حسیں میلاپ کی شاندار مثال ہے۔
افسانہ ’’خزاں کی فجر نماز‘‘ رحمت خداوندی سے اندھیرے میں اجالے پر یقین محکم کا ترانہ ہے اور اس مجموعے کا آخری افسانہ ’’خواب ِ سنگین‘‘ جو مجموعے کا نام بھی ہے، آمروں ، جابروں اور ان کے چیلوںپر نشتر برساتا ہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کے مطابق اس افسانے میں ذکاء الرحمن کے فکری نظام اصولیہ جانکاریہ کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ یہ افسانہ واضح کرتا ہے کہ ۔۔۔
’’جو غلام غلامی پر رضا مند نہ ہوں، ان غلاموں سے لڑنے والے کو آخرکار تنہا رہ جانا پڑتا ہے اور بے پیدائش بیٹے کے سنگین خواب سے ڈر جانا پڑتا ہے۔ واقعی ڈر جانا پڑتا ہے۔‘‘
ذکاء الرحمن کے چوتھے افسانوی مجموعے ’’ذات کے اندر‘‘ میں نئے پرانے افسانے ہیں اور اس مجموعے کا آغاز ’’تکلیمیہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ تکلیمیہ عنوان تکلم سے تراشا ہے۔ تکلیمیہ گروہ ساتواں گروہ ہے اور یہ وہ گروہ ہے جس کے ارکان شجر نسان ہیں اور اِنہی کے دَم سے جہاں آباد رہے گا۔ یہ پیڑوں ایسے انسان مرکر بھی زندہ رہتے ہیں اور ان کی نئی زبان اور نئی اصطلاحیں ہوتی ہیں۔ اس گروہ میں شمولیت سے ہی بے معنویت اور لایعنیت ایسے سوالات ،جن کا جواب فلسفی اور سائنسدان نہیں دے پائے ، حل ہو سکتے ہیں۔ اس افسانے میں سات گروہ بتائے گئے ہیں اور ذکائ الرحمن انسان کو ہفت ابعادی بھی کہتے رہے ہیں تو اِسے ابعاد کی گھمن گھیری میں گھومتے ہوئے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس افسانے کے چند جملے دیکھئے ۔
’’زمین سے انسانوں کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ یہ چلتے پھرتے لوگ لیبارٹریوں میں پیدا کی گئی بھیڑیں ہیں۔ اس لیے تکلیمیوں کے نزول کے لیے شجر انسان بنائے گئے ہیں۔ ‘‘
’’میری کُھلی آنکھوں کے دُکھ‘‘ میں راوی گوتم سے کائنات اور انسان کے متعلق مکالمہ کرتا ہے اور فیصلے کا اختیار نیل کنٹھ کو سونپا جاتا ہے۔ عرفانِ ذات کے کھوجی افسانے میں اسلام کے ابتدائی دور سے استفادہ بھی نظر آتا ہے۔ افسانہ نگار کی زبان پر قدرت حیران کرتی ہے کہ وہ خُدا کے تعارف میں ہم وزن مترادفات اور متبادلات کی قطاریں کھڑی کردیتا ہے اور یوں کرتا ہے کہ روانی طوفانی موج آسا ہے۔ چند ذومعنی جملے حاضر ہیں جن میں افسانہ نگار نے اپنے دوستوں کے حوالے بھی دیے ہیں۔
’’اے میرے قابل احترام گوتم کہ گوتما! میں اپنی کھلی آنکھوں کے ان دُکھوں میں سے کِس کِس دُکھ کا کہاں تک تعارف کروائوں کہ ان میں کوئی شکیل ہے اور عدل کرنے والے کا بیٹا ہے، کوئی اظہار ہے اور حق سے تعلق رکھتا ہے اور کوئی نقش ہے اور جمیل ہے اور کوئی خوبصورت ہے اور عالی ہے اور کوئی قلندری حیدر ہے اور فقر کا تاج ہے اور کوئی سجادوں کا مِیر ہے اور کوئی عذرائوں کا انور ہے اور کوئی عُنیزائوں کا علیم ہے اور کوئی عَربی ہے اور کوئی عجمی ہے۔۔۔ میری کھلی آنکھوں کے دُکھ اَن گنت اور بے شمار ہیں۔‘‘
’’ہاتھی بچھو‘‘ میں برتی اردو کا لہجہ خالص لہوری ہے اور ایک بار چونکاتا ہے کہ کیا یہ وہی افسانہ نگار ہے جو عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور نئی نئی تراکیب بناتا ہے؟ یہ عالمی طاقتوں کی مداخلت کے پس منظر میں لکھا گیا اور اس کا پیش منظر لاہور ہے۔ بیان ہے کہ لاہور کے شہریوں کی بداعمالیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گھر گھر رنڈی خانے ہیں، فحش فلمیں اور غلیظ گانے سنے جاتے ہیں اور شہری دانش کی اور بھلائی کی باتیں کرنے والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں اور مسخروں کی رائے کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ پس اس شہر پر عذاب اترا کہ بچھو اترے جو اتنے بڑے ہیں کہ ہاتھی بچھو قرار پائے ہیں۔ افواہیں ہیں کہ ہاتھی بچھو کوتوالِ شہر نے ہاتھی دیس والوں کے کوتوال سے ملی بھگت کر کے درآمد کیے ہیں اور کہتا ہے کہ یہ بھی شہر کے فائدے میں ہیں۔ ہاتھی بچھو پہلے گھروں میں ڈستے تھے، پھر گھروں سے باہر بھی ڈنک مارنے لگے۔ اس افسانے کے کردار اور واقعات حقیقی زندگی سے لے کر فکشن بنائے معلوم دیتے ہیں۔ ایک کردار نذیر بھا جی ہے جو مشہور کالم نگار ہے اور کوتوال سے عملیت پسندی کا سبق لے کر لوگوں کو درس دیتا ہے۔ بوڑھا افسانہ نگار اور سفید بالوں والا شاعر شاہی مسجد میں بیٹھ کر بچھوئوں کے خلاف جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور راوی بھی لبیک کہتا ہے۔
’’اکیلی‘‘ ذکاء الرحمن کا سماجی حقیقت نگاری پر اچھا افسانہ ہے ’’اکیلی‘‘ ایک غریب لڑکی کی کہانی ہے جو امیرانہ خواب آنکھوں میں سجائے محافل شبینہ میں شرکت کرتی رہتی ہے اور استحصال کراتی رہتی ہے کہ کوئی امیر لڑکا اسے پسند کرکے دو کمروں کے کوارٹر میں سے نکال لے جائے گا لیکن ایسا ہونا تو بہت دور کی بات ہے، وہ جن محافل میں شرکت کرتی ہے ، وہاں بھی اکیلی ہی ہوتی ہے اور دوستوں کے مذاق کا نشانہ بننے کے ساتھ طعنے معنے سنتی رہتی ہے، ماں سے مار الگ کھاتی ہے اور حصے میں اس کے کوکا کولا بیچنے والا لڑکا ہی آتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کے ایک پہلو کی ماہرانہ تصویر کشی ہے کہ ایک انسان خوشی کی تلاش میں کِس کِس طرح اپنا آپ رگیدے جانے کے لیے پیش کر دیتا ہے۔
’’آبدوز‘‘ میں افسانہ نگار کے دوست صغیر ملال کی بہن تقدیس بیوہ ہو جاتی ہے ۔ اس کا سہاگ سب میرین انجینئر تھا جو آبدوز میں بیٹھا فرانس جا رہا تھا اور ساحل سے تین سو کلومیٹر دوری پر آبدوز سارے کریو سمیت غبارے کی طرح پھٹ جاتی ہے۔ ابولہب شہزادوں اور ابوجہل سکندروں کا انکار کرنے والوں کو دکھ جھیلنے ہی پڑتے ہیں۔ ’’آبدوز‘‘ ایک نوحہ ہے اور اس نوحے کے دو ٹکڑے افسانہ سے متعارف کرانے کے لیے حاضر ہیں۔
’’ڈیئر خداوندِ خدا! کاش کبھی ایسا ہو کہ تجھے بھی تقدیس جیسی بہنوں کے غم سے اور معصومیت جیسے بچوں کی گریاں حیرانی سے لپٹ کر رونا پڑے۔‘‘
’’اے صغیر ملال لوگو، اور عبداللہ علیم لوگو اور ذکائ الرحمن لوگو! یہ تُم ہو اور اس لیے ہو کہ تم انکار کرنے والوں میں شامل ہوئے۔‘‘
’’ٹُماسا ہنسی ‘‘ایک علامتی کہانی ہے جس میں سائنس فکشن کا لطف بھی ہے۔ اس افسانے میں ایک ڈاکٹر صحرائے مروٹ عجیب و غریب قبیلے کی مقدس حدود پار کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے ۔ وہ سردار کا مذہبی تقدس پاش پاش کر دیتا ہے اور ایسا وہ اس طرح کرتا ہے کہ سردار کے جسم سے خلیے لے کر مینڈکوں کے سروں میں داخل کر دیتا ہے جس سے وہ مینڈک بھی سردار کی طرح عظیم الجثہ ہو جاتے ہیں اور ان مینڈکوں کے سروں پر چھوٹے چھوٹے سر بھی اگ آتے ہیں۔ سِنکی ڈاکٹر وہ مینڈک قبیلے کے ہر آدمی کو دے دیتا ہے اور قبیلے والے سردار کی بجائے مینڈکوں کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔۔۔ لاہور سے محکمہِ آثار قدیمہ کی بھٹکی ہوئی ٹیم کو قبیلے والے حدود کی خلاف ورزی پر پکڑ لیتے ہیں اور سردار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سردار ٹیم کو ڈاکٹر کے حوالے کر دیتا ہے اور ڈاکٹر ٹیم کے ذریعے لاہور سے سائنسی آلات منگواتا ہے۔ آخر پر ٹیم کا سربراہ ڈاکٹر کو فرار ہو کر لاہور آنے کی دعوت دیتا ہے لیکن ڈاکٹر آثار قدیمہ کی ٹیم کو قبیلے کی حدود کے آخری سرے پر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ جاتا ہے کہ اس قبیلے نے مجھے جو ماحول، رتبہ اور سہولیات دی ہیں ، وہ تمہاری حکومت نہیں دے سکتی اور اس قبیلے کا ایک فرد قبیلے میں انقلاب لانا چاہتا ہے اور میں اس کی مدد کرنے واپس جا رہا ہوں۔ اس کہانی میں جزئیات نگاری غور طلب ہے اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا راستہ بھی توجہ چاہتا ہے۔ یہ کہانی مشاہدے و مطالعے کی گہرائی و گیرائی، ذومعنی اور تیکھے جملوں سے سجی ہوئی ہے۔
’’جِس کا عنوان لَہو ہو ‘‘ کہانی کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی۔ چھاپہ مار جنگ جار ی ہے۔ لاہور سے تین شاعر اور ادیب لڑائی دیکھنے سرینگر گئے ہیں تاکہ کچھ انقلابی نغمے گا سکیں اور کچھ لہو رنگ افسانے لکھ سکیں۔ اُنھیں رجمنٹ ہیڈکوارٹرز سے لینے کے لیے ایک کشمیری آتا ہے جس کی بہنیں بھارتی فوجی اغوا کر کے لے گئے تھے اور وہ بدلہ لینے کے لیے گوریلوں سے مل گیا۔ اس کے بازو میں جب سے گولی لگی تھی، تب سے وہ اَردلی کا کام کر رہا تھا اور ہر ہر لمحہ مشن پر جانے کے لیے سوچ رہا تھا۔ رجمنٹ کو ہدف پر نشانہ لگاتے دیکھنے کے لیے رحیم جُو کے ساتھ صرف افسانہ نگار فرید رحمن جاتا ہے ۔ وہ دونوں رجمنٹ سے مل نہیں پاتے اور ڈوگرے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ وہ جھونپڑے اور غار میں پناہ لیتے، بھوک برداشت کرتے وقت واپس ہیڈکوارٹرز پہنچتے ہیں اور فرید رحمن سوچ رہا ہے کہ اب وہ ایک بے مثال کہانی لکھ پائے گا لیکن رحیم جُو اسے ایک جملے سے چونکا دیتا ہے اور وہ جان جاتا ہے کہ ’’وہ کہانی، جس کا عنوان لہو ہو، گھر میں سکون سے بیٹھ کر قلم سے کاغذ پر نہیں لکھی جاتی، پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں میں رائفلوں اور سٹین گنوں سے تحریر ہوتی ہے۔‘‘
’’ڈپٹی کمشنر ‘‘افسانہ نہیں بلکہ نوکر شاہی کی نفسیات پر شدید ضرب لگاتی کہانی ہے جس میں جزئیات نگاری کا کمال یہ ہے کہ قاری ہارون آباد پہنچ جاتا ہے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے ڈپٹی کمشنر جو خود کا آرٹ کا دلدادہ اور شاعر سمجھتا ہے، ۔ ڈپٹی کمشنر کا مخلص دوست صاحبزادہ احمد شاہ ایک شریف النفس زمیندار ہے اور اپنے دوست کو کبھی کوئی کام نہیں کہتا حالانکہ وہ جائیداد کے معاملات میں اپنے بھائیوں کی طرف سے بری طرح مسائل میں گھرا ہوتا ہے اور اپنے بھائیوں’، کو دیکھتا ہے ۔ اور اپنے بھائیوں کے مناقشے کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے مگر مرنے سے پہلے وہ ڈپٹی کمشنر سے بستر مرگ پر ملتا ہے اور اسے ایک ہی بات کہتا ہے۔۔۔ میرے بیوی بچے بچائو۔۔۔ ڈپٹی کمشنر پہلے تو سپاہیوں کے ساتھ چھاپہ مارنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے اطلاع ملتی ہے کہ قاتل زمیندار ،جو پیر بھی ہیں، اپنے مریدوں اور پناہ میں آئے ڈاکوئوں کے ساتھ مسلح ہیں، تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چھاپے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ اس کی بیوی کارروائی کے لیے زور دیتی رہتی ہے مگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے جس کے نتیجہ میں بہاولنگر میں اس کے اکلوتے مقتول دوست صاحبزادہ احمد شاہ کے بیوی بچے بھی مار دیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر جواز پیش کرتا ہے کہ اگر وہ چھاپہ مارتا تو پولیس اہلکار مارے جاتے ۔ کمشنر جواب دیتا ہے کہ اگر چھاپہ نہ مارنے کا یہ جواز ہے تو پھر پولیس کے وجود کا بھی کوئی جواز نہیں۔ آخر پر ڈپٹی کمشنر کی بیوی طلاق کا تقاضا کرتی ہے کہ میں تُم کو شیِلے سمجھتی تھی مگر تُم تو صرف ڈپٹی کمشنر ہو۔ اس کہانی کے پہلے نصف میں کہیں کہیں بوریت محسوس ہوتی ہے لیکن جہاں احمد شاہ کردار داخل ہوتا ہے ، کہانی بہا لے جاتی ہے۔
’’بابا نورا ‘‘فطری حسن میں لپٹی ایسی کہانی ہے جو انجام سے پہلے بہت خوبصورت ہے۔ بابا نورا کی بیوی لالچی ہے لیکن وہ خود درویش منش ہے ۔ وہ راوی کو باغیچہ ٹھیکے پر دیتا ہے اور اس کا ہاتھ بھی بٹاتا ہے لیکن بیوی کے ہاتھوں تنگ نظر آتا ہے۔ اس کا بیٹا پولیس میں ہے جو آم پکنے کے موسم میں آتا ہے اور ایک رات بابا نورا کی بیوی اور بیٹا آم چراتے پکڑے جاتے ہیں۔ راوی اگلے دن شکایت کرتا ہے اور بابا نورا ایسا دوبارہ نہ ہونے کی یقین دہانی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اگلے ہارون آباد میں درختوں کے جھنڈ میں بسے اس گاؤں میں یہ خبر پھیلی ہوتی ہے کہ ایک بوڑھی عورت اور جوان مرد قتل ہو گئے ہیں۔ اس کہانی میں بھی افسانہ نگار کی دیہات سے گہری وابستگی واضح ہے۔
’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تازہ پھول باغ سے توڑ کر اپنے کوٹ کے کالر میں لگا لو اور جب وہ مُرجھانے لگے تو اُس کی پتّی پتّی کر کے سڑک پر بکھیر دو۔۔۔‘‘ یہ جملہ افسانے ’’تُم نے مجھے کچھ بھی تو نہ دیا‘‘ کا ہے اور اتنا بلیغ ہے کہ سارا افسانہ اسی میں آ گیا ہے۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ ’’مکھی ‘‘ہے اور یہ ایسی مکھی ہے جو بدن میں مکھی تھی اور روح میں مکڑی ۔ یہ افسانہ ذکاء الرحمن نے یوں لکھا ہے کہ سمجھنا چاہو تو کچھ نہ سمجھ پاؤ ، نہ سمجھنا چاہو تو سب سمجھ جاؤ ۔ بہرحال اسے سمجھنے کے لیے قرآن کی سورۃ النحل پڑھنا ہوگی کہ شہد کی مکھی کاریگر ہے۔ پہاڑوں، درختوں اور مکانوں میں چھتا تیار کرتی ہے۔ ساری مکھیاں ایک بڑی مکھی کے تحت کام کرتی ہیں، چھتے سے نکل کر رنگ برنگ پھول پھل چوستی ہیں اور شہد اور موم دے کر شفا کا باعث بنتی ہیں۔ غذا کی تلاش میں دور نکل جاتی ہیں اور بے تکلف چھتے میں واپس آ جاتی ہیں لیکن افسانے کی مکھی کا معاملہ کچھ اور ہے ۔یہ طبیعاتی انسان فرشتے کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے اور کئی اَبعاد بن جاتی ہے۔ اَبعاد کے بھیدوں سے افسانہ نگار کا گہرا لگاؤ اس کی تحریروں میں بارہا نظر آتا ہے۔
ذکاء الرحمن نے ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ میں تو نہیں لیکن ’’میں اور زمین‘‘ ، ’’خوابِ سنگین‘‘ اور ’’ذات کے اندر‘‘ میں لسانی تشکیلات کے باب میں جو خدمات انجام دی ہیں، اِن کے تعارف کے لیے ذکاء الرحمن کے تراشے الفاظ، تشبیہات، تراکیب اور اصطلاحوں میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں جو حافظے میں محفوظ رہ گئیں۔۔۔ اصولیہ جانکاریہ، قوتیہ، اولیہ، آخریہ، تکلیمیہ ، تفصیلیہ، عادیہ، آمریہ، لکھتیہ، مثالیہ، شکیہ، جگنیانہ، شعریہ، تصادمیے، وقتیے، لاشئت، پتا چھتری، مطلقیتوں، بے رفتار رفتار، بے نظام نظام، ناممکن ممکن، پرشدت شدید، اجنبیتیں،مونہوں سے بہتا لیکوریا کا پانی، کھِلائو، سمائی، لاافادی، دہشتناکی، تخالفوں، مانویتی، مابعد الردئتی واردے، نور اعظم کا برزہ مثالیہ ناسوت، عشقیانہ رقص، رازیے، رازیہ، قطراتی، تیلیویژن، تیکنالوجی، تیکنالوجائی، فینتاسیوں، فیزیک، میتا فزیک، دھوپ یقین، انٹرنیٹ نشریہ، حقیقت اولیہ، استغنائی غیرمتاثریت، تناسلی ستون، بلال رنگت، لا شخص، سَردائے موسم، مستائے اونٹ، سوچیلی، بانگی، گنگیلا پن، رقصیلی چال، شجر انسان، اُجال، آفاق گیر، تھیوریاں شیوریاں، لَکھ لُٹ، نتائجی، نتائجیت، چخواتے، شوریدہ پشت وغیرہ ذکاء الرحمن کی ذکائیت کے بے شمار نمونوں میں سے چند ہیں۔
ذکاء الرحمن نے عربی اور فارسی کے الفاظ کے ساتھ ساتھ دیسی زبانوں بالخصوص پنجابی کے الفاظ بھی پورے رچاؤ سے کھپائے ہیں۔ ذکاء الرحمن طویل جملے لکھتے تھے اور فقرے جوڑنے کے لیے ’’اور‘‘ کا استعمال بڑی شدت سے کرتے تھے اور یہ ’’اور‘‘ پہلے تو بُرا معلوم دیتا ہے لیکن جب قاری فقری بہائو میں بہتا ہے تو اسے یہ ’’اور‘‘ بھی لطف دیتا ہے ۔ ذکاء الرحمن جملوں کی تکرار بھی کرتے تھے لیکن اس باریکی کے ساتھ کہ ہر بار جملے میں تھوڑا تھوڑا فرق پیدا کرتے تھے۔ موسیقی میں غزل گوئی میں یہ انداز مہدی حسن نے متعارف کرایا تھا کہ ایک ہی بول بولنا مگر ہر بار مختلف انداز سے سُر لگایا جاتا ہے۔ ذکاء الرحمن کی یہ تکنیک جذب و مستی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ ذکاء الرحمن کے افسانوں میں اس کی مختلف طبقات کے افراد کی نفسیات سے گہری واقفیت حیران کرتی ہے تو اُن کے لہجوں پر گرفت بھی چونکاتی ہے۔ ذکائ الرحمن نے افسانوں میں گالیاں بھی استعمال کی ہیں اور کمال یہ ہے کہ ایک گالی بھی بے محل معلوم نہیں دیتی۔ مکالموں کے ضمن میں خاص خیال رکھا ہے کہ ڈاکٹر کے منہ سے ڈاکٹر کے الفاظ نکلیں اور ٹوبے کے لاپروا چھوکرے کے منہ میں سقراط نہ گھسے ۔ ذکاء الرحمن نے اپنی کُتب میں اعراب کا بھی خیال رکھا ہے کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر زیر زبر پیش ڈال کر قاری کے لیے آسانی پیدا کی ہے کہ وہ اداس کو اَداس کی بجائے اُداس ہی پڑھے۔
ذکاء الرحمن کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’’بہاروں کے گیت‘‘ ہے جسے بعد میں ذکاء الرحمن نے رد کر دیا تھا۔ ذکائ الرحمن نے وفات سے بیس بائیس سال قبل ایک ناول ’’کشف الکتاب ‘‘ لکھنا شروع کیا تھا جسے وفات سے کئی سال قبل مکمل کرنے کے بعد وہ عالمی معیاری پر لانے کے لیے نظرثانی کر رہے تھے اور اس سال یعنی دوہزار سولہ میں دسمبر تک شائع کرنے کا ارادہ بارہا ظاہر کر چکے تھے لیکن ستائیس رمضان چودہ سو سینتیس ہجری بمطابق تین جولائی دو ہزارسولہ عیسوی کو دن کے پہلے پہر زندگی دینے والے نے وجودی زندگی واپس لے لی۔
ان کی اولاد ناول ’’کشف الکتاب ‘‘شائع کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مجموعوں کی دوبارہ اشاعت کے بھی خواہش مند ہیں اور میں دعاگو ہوں کہ وہ اپنی خواہش کو حسب توفیق پورا بھی کریں بالخصوص ناول کی اشاعت یقینی بنائیں کہ یہ ذکاء الرحمن کی عمر بھر کی فکری ریاضت کا نچوڑ ہے۔ ’’کشف الکتاب‘‘ کے دو ابواب ’’ادبِ لطیف‘‘ اور ایک ’’ادبیات‘‘ میں طبع ہوئے۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے اسی سالہ نمبر میں دوسرا باب ذکاء الرحمن کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس ناول کے تعارف کے لیے ذکاء الرحمن کا ہی ایک طویل افتباس پیش ہے جو ڈاکٹر انور سجاد نے ذکاء الرحمن کی ایک کتاب کے دیباچے میں رقم کیا ہے۔
’’میں ادب عالیہ تخلیق کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں اس میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں یا بالکل ناکام۔ ادب عالیہ تخلیق کرنے کی کوشش کے دائرے میں ہونے کے سبب میں نے ایک ایسا نظامِ فِکر تعمیر کیا ہے جسے میں ’’اصولیہ جانکاریہ‘‘ کہتا ہوں۔ میں نے اس کا بھرپور اور مربوط اظہار اپنی طویل ناول لکھت میں کیا ہے۔۔۔ میرا نظامِ فکر اصولیہ جانکاریہ ایک نئی میتافزیک پیش کرتا ہے اور اس نئی میتا فزیک کا عملیہ ایک نئے معاشرے کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مختصراً میری نئی میٹا فزکس یہ ہے کہ انسان صرف مخلوق ہی نہیں، خالق بھی ہے۔ بیک وقت خالق و مخلوق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن زمان و مکاں میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ زماں و مکاں تخلیق کرتا ہے۔ اس لیے انسان بنیادی طور پر ہفت ابعادی ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو سہ ابعادی محسوس کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہفت ابعادی ہونے کے باعث وہ کئی کونیاتی دائرے تخلیق کر سکتا ہے۔ آخری انسانی شکل یا آخری انسانی کونیاتی دائرہ ذہنِ خالص ہے اور ذہنِ محض ہے اور ذہنِ خالص یا ذہنِ محض ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرے جس میں وہ اپنے ذہن میں رہ سکے۔ اور ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کے مادی طریقے یہ ہیں کہ انسان مادہ اور غیر مادہ میں، یعنی دماغ اور ذہن میں، توازن پیدا کرکے ایسی ماحولیات تعمیر کرے جو سہ ابعادی صورت حال کو توڑ کر اگلے ابعاد کی طرف سفر کر سکے۔ سہ ابعادی صورت حال کو توڑنے کے لیے سب سے پہلے سہ ابعاد ہی میں مذکورہ توازن کے ذریعے اتنا مہذب ہونا پڑے گا کہ ریاستی تقسیموں اور حکومتی ڈھانچوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ موجودہ صورتِ حال میں ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے پہلا قدم احتجاج ہے اور دوسرا قدم انقلاب ہے ۔ یہاں میری مراد کوئی فوجی یا خونیں انقلاب نہیں بلکہ ایسی بستی ہے جس میں مذکورہ نظریات کے حامی رہائش اختیار کریں۔‘‘ ذکاء الرحمن۔
پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، غلام عباس اور سعادت حسن منٹو ایسے بزرگوں کا احترام بجا مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھ کر اور لوگوں کو بھی توجہ سے پڑھنے اور ان پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ ہمیں ذکاء الرحمن کو پڑھنے کی ضرورت ہے جس کے ہاں انسان اور انسانیت ہر دو کے ہنگامی اور ازلی موضوعات پر فسوں گری کے ساتھ نئے نئے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ ذکاء ارحمن کے افسانوں کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان میں جبر کی محض عکاسی نہیں بلکہ استبداد کے خلاف بلند آہنگ احتجاج کے ساتھ نجات کی راہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ذکاء الرحمن نے سماجی حقیقت نگاری کے رنگ میں سیدھے سبھائو کی بہترین کٹیلی کہانیاں انہیں افسانے شمار کیا جاتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ذکاء الرحمن خود بھی انہیں کہانیاں ہی قرار دیتے ہوں گے (گو وہ مضمون ، کہانی اور افسانے وغیرہ کی تخصیص کے قائل نہیں تھے) لکھی ہیں، دینیات، کونیات، طبیعات، مابعدالطبیعات ، سیاسیات، معاشیات، تاریخ سمیت کئی خشک ، سنجیدہ اور اہم علوم افسانے میں گھسیٹ لائے ہیں، امثال اور حقیقت کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں اور ایک نئی دنیا بسانے کے لیے ایک فِکری نظام ترتیب دینے کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ بھی نہیںکہ ذکاء الرحمن نے ’’میں اور زمین‘‘، ’’خواب سنگین‘‘ کے تمام اور ’’ذات کے اندر‘‘ کے زیادہ تر افسانوں میں نیا فکری و نظری مواد اور ’’کشف الکتاب‘‘ میں فکری نظام ترتیب دے کر فکشن کی زبان میں پیش کرکے جو مثال قائم کی ہے ، وہ اردو ادب کی افسانوی روایت میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ آپ اسے میری کم علمی یا محبت کہہ لیں لیکن مجھے یہی محسوس ہوا۔
تیس جولائی دوہزار سولہ عیسوی
ذکاء الرحمن : تعارفی مطالعہ
آدم شیر
ذکاء الرحمن کی ولادت چوبیس دسمبر انیس سو بیالیس عیسوی کو خانیوال میں ہوئی۔ والد مظہر الرحمن شریف اور والدہ صحیفہ بیگم تعلیم یافتہ ہونے کے سبب علمی ماحول ملا۔ والد مظہر الرحمن شریف اور دادا فضل الرحمن شریف برطانیہ سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا گھرانہ بابوئوں کا خاندان مشہور تھا اور ہارون آباد میں ان کا آبائی گاؤں صاحباں دا پنڈ معروف تھا۔ ذکاء الرحمن نے مڈل تک تعلیم ہارون آباد کے واحد سکول ،جو سرکاری تھا، میں پائی ۔ ماڈل ٹائون لاہور کے ایک سکول میں بھی حصولِ عِلم کے لیے داخل رہے۔ انٹرمیڈیٹ فارمین کرسچن کالج لاہور سے کیا اور گریجوایشن ایم اے او کالج سے کی ۔ ذکاء الرحمن کے اجداد زمیندار تھے اور بڑے زمیندار تھے لیکن ذکاء الرحمن جاگیردار ہونے کے باوجود دنیاوی معاملات میں مست قلندر آدمی تھے اور زمینیں بیچ بیچ کر گزر بسر کرتے رہے۔ ذکاء الرحمن کی شادی 1969ء میں کامیاب معاشقے کے نتیجے میں طلعت سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہیں صدف، تارا اور محمد شریف ۔ ذکاء الرحمن شادی کے بعد 1969ء کے اواخر میں بہن بھائیوں کی محبت میں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ کراچی میں ذکاء الرحمن نے 29 سال قیام کیا اور اس دوران میں ان کی جون ایلیا، عبید اللہ علیم، صغیر ملال، اسد محمد خان، جمال احسانی وغیرہم سے دوستیاں رہیں۔ 1991ء میں گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ لاہور منتقل ہوئے اور 1994ء میں دوبارہ کراچی چلے گئے۔ کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی واپسی کے دوران میں وہ کچھ عرصہ کوئٹہ بھی رہے۔ 2004ء میں اُنھوں نے لاہور کو مستقل مَسکن بنانے کا فیصلہ کیا۔ 2006ء میں ان کی بیوی طلعت انتقال کر گئیں اور وہ کئی ماہ ذہنی تنائو کا شکار رہے۔ بیوی سے محبت کی مثال وہ جملہ ہے جو اُنھوں نے اپنی محبوبہ کی وفات پر کہا تھا۔
’’طلعت سڑک پر بھی کھڑی ہو جاتی تھی تو وہ بھی میرا گھر ہوتا تھا اور اب میرا گھر ختم ہو گیا ہے، بس مکان رہ گیا ہے۔‘‘
ذکاء الرحمن نے کراچی میں پی ٹی وی کے لیے ڈرامے تحریر کیے اور کچھ ڈرامے اسد محمد خان کے ساتھ بھی لکھے تھے۔ وہ ادبِ لطیف کے مُدیر رہے اور اُنھوں نے کراچی سے ’’نئی نسلیں‘‘ کے نام سے ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کے چند شمارے ہی آ سکے مگر جو آئے، اُن کا معیار مسلم ہے۔ اِنہی شماروں میں سے ایک میں پروین شاکر کو پہلی باقاعدہ اشاعت نصیب ہوئی۔ وہ فیروز سنز کے مُدیر کتب بھی کچھ عرصہ رہے۔ ذکاء الرحمن پر اب تک ایم فل کے لیے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں اور اورینٹل کالج لاہور کے ڈاکٹر ضیاء الحسن نے ان کے دس بارہ افسانوں کے لمز یونیورسٹی کے طلبہ سے انگریزی میں تراجم بھی کرائے تھے اور ان پر اورینٹل کالج میں پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے لیکن ضرورت ہے کہ ناقدین آگے آئیں تاکہ متون کی تفہیم کے ساتھ ساتھ نئی روایت سے آگہی بڑھے۔ ذکاء الرحمن کے دو ناولٹ ’’دود چراغِ محفل‘‘ اور ’’پت جھڑ کا آخری دن‘‘ شائع ہوئے تھے لیکن یہاں افسانوی مجموعوں کا مختصر تعارفی مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں گو ڈاکٹر انور سجاد کے الفاظ میں ’’ذکاء کو تعارف کی کوئی ضرورت نہیں کہ اُس کا نام اور تحریریں لولی لنگڑی نہیں ہیں کہ کسی تعارف کی محتاج ہوں۔۔۔ ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک جانا پہچانا نام ہے اور اپنے ہم عصروں میں منفرد مقام ہے۔‘‘لیکن پہلی نسل کو دریافت کرنا دوسری نسل کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
ذکاء الرحمن کے افسانوی مجموعہ ’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ میں قصے کہانیاں ہیں جنہیں ذکاء الرحمن کی فنی پیشکش نے خوبصورت افسانے بنایا ہے۔ اس مجموعے میں شامل کہانیوں میں ذکاء الرحمن نے آبائی شہر ہارون آباد کو پینٹ کیا ہے اور گہرے مشاہدے کی چھاپ ہر صفحے پر ابھر ابھر آتی ہے۔ ہارون آباد کے موسموں، باغوں، پھلوں، کھیتوں، کسانوں، پگڈنڈیوں سے جدائی کے گیت ذکاء الرحمن کی دوسری کتب میں بھی موجود ہیں۔ اِس مجموعے میں صحرا اور صحرائی باشندوں کی زندگی، دیہات کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ذہنی الجھنیں، نظریاتی کشمکش، مختلف علاقوں میں بسے لوگوں کے چاہنے کے مختلف انداز اور معصوم خواہشیں، لالچ سے محفوظ دلوں کو نصیب اطمینان اور ہوس میں ڈوبے ہوئوں کے مقدر میں گُندھی بے اطمینانی، تنہائی کا کرب ، انسان کی انا اور اس کی معاش کا باہمی تعلق، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، فطری حسن کا جادوئی اثر اور اس سے کشید انجانا حظ، والدین کا اپنی موت کے بعد بھی بچے کی موت تک اس پر اچھا اور بُرا اثر اور انقلابیت کی مختلف راہوں کے ابتدائی نقوش بھی اسی مجموعے میں ملتے ہیں۔
’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ میں چودہ افسانے ہیں اور اس کے پہلے افسانے ’’سَرحد ‘‘ میں صحرائی باشندوں کی کٹھن زندگی، تنہائی ، محبت کی تلاش، بدن کی چاہت ، مجبوری اور مکاری کی نفسیات نظر آتی ہے۔ اس افسانے کی بُنت بالخصوص منظر نگاری مستقبل کے ذکاء الرحمن کی خبر خُوب دیتی ہے ۔ ’’ہنگامہ‘‘ میں خاتون مدرس کی بدعنوانی سے بڑے سکول میں داخلہ نہ پانے والی کسان کی ذہین اور اچھے نمبر لینے والی بیٹی کی خودکشی کو وہ قتل قرار دیتے ہیں اور اخباری نمائندے کے ضمیر کی آواز، پیشہ ورانہ ذمہ داری اور اخبار کے مالک کے حکم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کشمکش میں مبتلا سوچ ملتی ہے۔ ’’سُرخ جھنڈی‘‘ میں کچلی ہوئی انا کی خرابیاں دکھائی گئیں۔ مرکزی کردار نہر کے پل پر سُرخ اور سبز جھنڈی ہِلانے والا شخص ہے جس کی بیوی اور ساس اُسے جانور کی طرح ہانکتے ہیں لیکن ایک دن اُسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور سُرخ اور سبز جھنڈی کی طاقت کے احساس سے اُس کی عزت نفس پوری قوت سے سر اٹھاتی ہے اور وہ تمام بگڑے معاملات درست کرنے لگتا ہے اور چونکانے والی بات یہ ہے کہ ٹھیک اسی وقت اُس کی جگہ پل پر برقی اشارہ لگا دیا جاتا ہے۔ ’’درد آئے گا دبے پاؤں ‘‘ نظریاتی ٹکرائو اور سماجی و سیاسی جبر کی دیوار سے سر پھوڑنے والے شوریدہ سروں کا افسانہ ہے ۔ اس میں اختر شیرانی، فراق ، فیض ایسے شعراء اور ان کے زیر اثر رجحانات کے حوالے سے ذہنی الجھاوے مذکور ہیں۔ اِس میں ذکاء الرحمن کے نظریہ فن کی ابتدائی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ’’پُتلی‘‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جو بے حد خوبصورتی سے انسان پر اجداد کے اثرات اور سماجی جبر بیان کرتا ہے اور قاری کو ذہنی مشق کی دعوت بھی اچھی خاصی دیتا ہے اور جب قاری کو کامیابی ملتی ہے تو وہ درد کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے لیکن یہ کھائیاں ہوادار اور روشن ہیں۔ ’’رات کا موسم ‘‘ایک پیچیدہ افسانہ ہے جو پہلی قرأت میں جھول کا شکار نظر آتا ہے لیکن دوسری بار پڑھنے سے واقعات کی کڑیاں ملا کر ایک اچھی کہانی تشکیل پاتی ہے۔ ’’احساس ‘‘ایک ماں کی کہانی ہے جس سے بچی چھین کر گھر سے نکال دیا گیا ہے، جس کا آوارہ شوہر ہر رات شراب کے نشے میں دُھت ہو کرگھر آتا ہے، جسے گھر کی مرغی راس نہیں آتی ،اور وہ ممتا کی ماری ٹرین کے ڈبے میں ایک نوجوان کے بازوؤں میں غبار نکال رہی ہے۔
’’گہری، گرم اور رحمدل ندیا ‘‘محبت کا افسانہ ہے اور محبت پر بات کرنا ہی فضول ہے، اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور ہر آدمی اپنے احساس کے مطابق اِسے پاتا ہے البتہ اس میں فطری مناظر اور احساسات کی پیشکش دلفریب ہے۔ ’’اک جذبہِ شعلۂ نما ‘‘کا شاعر اپنے رنگین مزاج اور زندہ دل باپ سے تنگ ہے اور ایک چُغد کے ساتھ وقت گزاری میں راحت تلاش کرتا ہے لیکن اس کے طور بھی وہی ہیں جو اس کے باپ ہیں کہ ایک پُتلی یا پُتلا ہو، جو اس کی انگلی کی حرکت پر متحرک ہو۔ افسانے کا راوی ادیب ہے جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ نگار کی زندگی کے ایک پہلو کی عکاسی ہے ۔’’چھوٹی سی دنیا ‘‘ قناعت ، محبت اور قربانی کی کہانی ہے ۔ چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے گھر میں اطمینان سے رہنے والے لوگوں میں پڑی ایک دراڑ پڑنے اور بھرنے کی کہانی ہے ۔ ’’تنکے اور طوفان ‘‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر لکھا گیا ایک اچھا علامتی افسانہ ہے جو پہلی بار پڑھنے سے اکثر لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر جائے گا اور وہ اسے دو دوستوں کی کہانی سمجھتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے لیکن جب کوئی ذرا سنجیدگی سے پڑھے گا تو معلوم ہو گا کہ دو دوست دراصل مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ہیں۔ذکاء الرحمن کے اکثر افسانوں کو سمجھنے کے لیے تاریخِ عالم سے واقفیت ضروری ہے ورنہ قاری ’یہ کیا بکواس ہے‘ کہہ کر اپنی جہالت کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا۔ ’’خشک جھیل اور لڑکی‘‘ بھی افسانہ نگار کی زندگی کے ہی ایک پہلو کی عکاسی ہے لیکن اس کی بُنت کاری قاری کو انجام تک پڑھنے پر مجبور کرنے کا ’قوتیہ‘ رکھتی ہے۔ ( لفظ قوتیہ بھی ذکاء الرحمن کی اختراع ہے ) یہاں ڈاکٹر انور سجاد کے الفاظ نقل کرتا ہوں کہ اُس تخلیق کار کے متعلق لکھنا بے حد پیچیدہ ہوتا ہے جسے آپ نزدیک سے جانتے ہوں ۔ اِس افسانے کا ایک جملہ دیکھئے۔
’’دیہات ہریالی کے سمندر ہیں۔۔۔ ان کے مقابلے میں شہر، خشک جھیلیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ ‘‘
یہ جملہ ذکاء الرحمن کی دیہات، کسان اور کھیت سے جذباتی وابستگی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ ’’صحرا کی زنجیر ‘‘ایسا افسانہ ہے جس پر ایک کامیاب ڈرامہ کیا، فلم بھی بن سکتی ہے۔ ایک ڈاکٹر صحرائے مروٹ کے قبائلیوں میں پھیلتی ایک بیماری کا سدباب کرنے جاتا ہے۔ وہاں اِسے ایک چست بدن قبائلی عورت ملتی ہے جو آہستہ آہستہ اُس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے اور اسے علم بھی نہیں ہو پاتا ۔ وہ واپس شہر جانا چاہتا ہے اور صحرائی بستی چھوڑنا بھی نہیں چاہتا ۔ یہ اس کشمکش پر مبنی ہے کہ کیا چاہئے اور کیا وہ چاہتا ہے؟ یہ افسانہ صحرائی خانہ بدوشوں کے مزاج میں موجود شدت اجاگر کرتا ہے جو ہر جذبے ، محبت ہو کہ نفرت، میں پائی جاتی ہے۔ اس میں قبائلیوں کی عقیدت ، محبت اور زندگی کی عکاسی اس خوبی سے کی گئی ہے کہ انجام پر ایک جملہ منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔۔۔ لالی سے ملنا چاہئے۔۔۔
اب ذکر ہو جائے اِس مجموعے کے اُس افسانے کا جو مجھے بے حد پسند ہے اور وہ ہے ’’اکیلی کونج کا گھونسلا ‘‘۔۔۔ یہ فطرت اورمعصومیت میں چھپے حُسن کا ایک نغمہ ہے جو وقت کی قید سے آزاد گایا جائے گا۔ ذکائ الرحمن نے اِس افسانے میں انسان ، احساس ، پرندے اور فطرت کے تال میل سے کشید ہونے والی مسرت پیش کی ہے جس کی آج کے آہنی مشینوں سے چپکے انسان کو بے حد ضرورت ہے تاکہ وہ انسان رہ سکے۔
افسانوی مجموعے ’’میں اور زمین‘‘ میں بیس ’لکھتیں ‘ہیں۔ ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ اور ’’میں اور زمین‘‘ کے درمیان ایک طویل وقفہہے اور یہ محض ماہ و سال کا نہیں بلکہ فکر و نظر کا بھی ہے۔ ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ میں ذکاء الرحمن ایک افسانہ نگار ہے جبکہ ’’میں اور زمین‘‘ کا ذکاء الرحمن مفکر اور مجدد ہے۔ وہ فنی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر فن پارے تخلیق کرتا ہے ۔ اس کے سامنے علامت اور تجرید کی راہیں تھیں اور بظاہر اُس نے یہی راہیں اپنائی ہیں لیکن غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ُاس کی علامت نگاری اور تجریدیت جُدا جُدا ہے۔ ’’میں اور زمین‘‘ میں ہمیں طلسماتی حقیقت نگاری بھی ملتی ہے اور اس جادو کے منتر بھی اس نے خود ترتیب دیے ہیں اور پھونکے ہیں۔ وہ حقیقت سے مجاز کی طرف جاتا ہے اور مجاز سے حقیقت کی جانب بھی آتا ہے اور اُس کی یہ آمدورفت اِس مہارت سے ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اپنی رو میں پڑھتا جاتا ہے اور اختتام پر ذہن پر بوجھ ڈال ڈال کر ’’جاننے‘‘ کی سعی کرتا ہے۔ یہ کوشش وہی کرتا ہے جو صحیح معنوں میں سنجیدہ ادب کا قاری ہے، دوسرا تو پڑھت چھوڑ بھاگ جاتا ہے۔ ذکاء الرحمن کے اس انداز نے اس کا سکہ تو جمایا ہے لیکن اُس کے قارئین کی تعداد بھی گھٹائی ہے اور وہ اِس پر مطمئن تھا۔ اُس کے نزدیک زیادہ قارئین اہم نہیں بلکہ باشعور قارئین کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ باشعور قاری ہرجگہ کم ہی ہوتے ہیں۔
’’میں اور زمین‘‘ سے ذکاء الرحمن کی نئی زبان اور نئی اصطلاحیں سامنے آتی ہیں۔ وہ نئی نئی تراکیب اور پرانی پرانی تلمیحات پیش کرتا ہے۔ تاریخ اور فلسفے میں سے چُن چُن کر اشارے دیتا ہے۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات کے مسائل بیان کرنے کے لیے وہ نئے نئے لفظ تراشتا ہے اور اُس کا اسلوب بھی خالص اپنا اور اردو افسانے کے لیے نیا ہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کے مطابق ’’میں اور زمین‘‘ سے پہلے کی تحریروں کو ذکائ الرحمن نے افسانے، کہانی ، ناولٹ کے خانوں میں بانٹ رکھا تھا لیکن ’’میں اور زمین‘‘ میں موجود تحاریر کے لیے اُس نے افسانہ کا لفظ نہیں برتا بلکہ لکھت لکھا ہے۔
اِن لکھتوں میں داستان کا رچاؤ ہے، فسوں کی چاشنی ہے، کہانی کا چسکا ہے ، شاعرانہ نثرہے، باقاعدہ نظمیں ہیں، پرشکوہ خطبے ہیں، پُرسوز صدائیں ہیں اور اِلہامی زبانوں اور لہجوں کا آہنگ بھی ۔۔۔ اور یہ تمام مل کر لکھت کو ساحری اور لکھت کار کو سامری بنا دیتے ہیں۔ ’’میں اور زمین‘‘ کے افسانے موضوعاتی سطح پر متنوع ہیں اور اتنے پرتیلے ہیں کہ قاری جو سمجھ لے، وہی رائے ٹھیک ہوگی۔ یہ یک موضوعی افسانے قطعی نہیں ہیں۔ اس کے لیے ذیل میں تعارفی سطور پر اکتفا کرنے کی بجائے افسانے پڑھنا لازمی ہیں۔ ان میں فیزیک اور میتا فیزیک ہے۔ تاریخ ہے اور تاریخی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش بھی ہے۔ معاشی اور فکری نظاموں پر بحث ہے۔ منافقت ، مصلحت پسندی، فرسودہ روایات و عقائد کی مذمت ہے۔ جنسی بے راہ روی اور صحت مند جنسی عوامل کی ترغیب ہے۔ سیاسی و سماجی شعور کی برق رفتار لہریں دوڑتی پھرتی ہیںاور یوں دوڑتی ہیں کہ دیر تک سنسناہٹ رہتی ہے۔
’’میں اور زمین‘‘ کے اکثر کردار اور راوی تخلیق کار ہیں، کہانی کار ہیں اور شاعر ہیں۔ ’’میں اور زمین‘‘ کے پہلے افسانے ’’سُورج دکھ ‘‘میں زندگی کو خورشیدانہ دیکھا گیا ہے اور یہ خورشید ،جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، خود افسانہ نگار ہے جو زندگی کی معنویت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ پہلے وہ بے ثباتی کے مناظر دکھاتا ہے اور پھر آگاہی کے عذاب سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اُمید کی راہ دکھاتا ہے۔ ’’سورج دکھ‘‘ بتاتا ہے کہ زندگی کا مقصد زیادہ مسرت نہیں بلکہ کم دکھ ہیں لیکن زیادہ مسرت اور کم دکھ کے چکر میں روح کی سچائی فراموش نہیں ہونی چاہئے۔ ’’سورج دُکھ‘‘ علامتی کم اور تجریدی زیادہ ہے۔
’’تہہ خانہ‘‘ ایک شاہکار ہے جس میں کئی پرتیں بنائی گئی ہیں ۔ اس افسانے کی زبان شان دار اور روانی غضب ہے ۔ پہلی قرأت میں یوں بہا لے جاتی ہے کہ قاری کے لیے معنی پیچھے رہ جاتے ہیں اور وہ دوسری پڑھت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس میں ذکاء الرحمن نے اَبعادی گھمن گھیری کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ تین ابعاد۔۔۔ تین ورقہ کمرے۔۔۔ چوتھا بُعد یعنی آخری ورقہ کمرہ ۔۔۔ مادی اور روحی معجزے۔۔۔ سہ ابعادی دنیا میں ہفت ابعادی انسان کی جانب سے ناتمام دنیا کی تکمیل کا خواب۔۔۔ دانش کے زور سے موت کے اُوپر سے لمبی چھلانگ ۔۔۔ اور ہونے نہ ہونے کا قضیہ تمام۔ انکار اور اثبات کے ساتھ ذات کی تکمیل پر تبدیلی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ سوچ کے سہارے مقصد کی تلاش اور کامیابی پر تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ تہہ خانہ ایک بلیغ علامت ہے ۔ یہ کائنات ہے جس کے ابعادی کمروں میں کھوئے انسان کو فلسفیانہ افکار کی بھرمار میں افسانہ نگار کا جگمگاتا چہرہ نظر آتا ہے۔ اس افسانے میں ذکائ الرحمن نے دو نظمیں بھی پیش کی ہیں۔ایک توجہ کے لیے حاضر ہے۔
وہ قدیم اَساطیر کی زمین میں سوتے ہوئے بارہ عدد ہیں
موسم بہار کے بارہ کاہن
وُہ بارہ کاہن جنہوں نے دریاؤں کی پیش گوئی کی
جب وُہ جا گیں گے تو وُہ ایک گم گشتہ روایت کے جنگجو ہُوں گے
وہ بارہ کاہن کہ اُن کی یادوں نے اُس وقت کا تعارف کروایا جس وقت کی قیادت شاعروں نے کی تھی
بجلی کے نادِیدہ بارہ لپکے جو مہینوں کے نشان تبدیل کرتے ہیں
جب وُہ جاگیں گے تو نمو پا کر وَقت سے آگے نکل چُکے ہوں گے
وُہ زمین میں سفر کرتی ہوئی جڑوں کی طرح کئی شاخہ اور راز بھرے
وُہ تاجر کی اور کھیت میں کام کرنے والے کی سماعتوں کو حیران کر دیں گے
اور اُن مندروں کو ڈَھا دیں گے
جہاں غیر ملکی اور اجنبی دیوتا پناہ گزین تھے
وُہ بارہ نَبی
وُہ قدیم اَساطیر کی زمین میں سوتے ہوئے بارہ عدد
’’کاف کلام ‘‘ میں ذکاء الرحمن نے دو کردار دیے ہیں، ابراہیم سٹائن اور ہاجرہ گووِندا ۔۔۔ یہ افسانہ ابراہیم سٹائن کی ذہنی جستجو کے گرد ہی گھومتا ہے جو دیکھتا ہے کہ آج کے مرد اور عورتیں اس قدر پستی میں ہیں اور اس قدر تنہا ہیں کہ جانوروں اور مشینوں سے جماع کرتے ہیں۔ راوی پرعزم ہے کہ وہ دماغی خلل میں مبتلا لوگوں اور اُن کی بداعمالیوں سے نمٹنے کے لیے خُدا کے عذاب کو دعوت نہیں دے گا بلکہ خود سامنا کرے گا۔
’’سالُو ولی اللہ محدث انقلابیہ ‘‘ میں مذہب کے نام پر ظلم ڈھانے والوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ سکوت توڑنے کا راز بھی ہے کہ ’’جو اپنے جوہر کو اور اپنی ذاتِ جوہر کو، اپنے وجود سے اُوپر سمجھتے ہیں، ان کی ستیہ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ ذہن کی کوکھ میں وجود کے گرے ہوئے حمل کو دوبارہ قرار دے سکتے ہیں۔‘‘ اور ’’وجود وہ حمل ہے جو ذہن کی کوکھ میںقرار پاتا ہے۔ ‘‘
’’میری زلیخا کی قبر میں سبز ہنگامہ ‘‘ بھی اہم افسانہ ہے جس میں ذکائ الرحمن کا قلم تاریخی اور عہد حاضر کے دنیا بھر کے حوالے دیتے ہوئے فلسفیانہ اور تصوفانہ مباحث سے کُھلکھیلتا ہے جو بیک وقت طبیعاتی بھی معلوم دیتے ہیں اور افسانے کا اختتام یوں کرتا ہے ۔
’’سچ کی سطح مرتفع پر، اور اَثبات و نفی کی بے جہتی میں، اور حیات و مَوت کی بامعنی لایعنیت کے سامنے، میری حمد گائو اور اپنی کتاب کے نَزول کا آغاز اپنے وجُود کے غار میں اسم کی پہلی قرأت سے کرو کہ مَیں ہی وہ ہوں جو سب تعریفوں کے لائق ہوں، اور میں ہی وہ ہوں جس کا کوئی نام نہیں اور جس کے سَب نام ہیں، اور مَیں ہی وہ ہوں جس نے سب کچھ پیدا کیا، اور مَیں ہی وہ ہوں جو مَیں ہوں، اور مَیں ہی وہ ہوں جو تُم ہو۔۔۔ بشرطیکہ تُم لُوطیوں کو اور جَواریوں کو اور ظالموں کو اور منافقوں کو اپنے درمیان سے نکال دو، بشرطیکہ تُم میری زلیخا کی قبر میں شادابی کا سبز ہنگامہ جاگنے دو۔‘‘
’’موجود کی ایک بِلال رات‘‘ میں نفسانفسی کا عالم، مصنوعی روشنیاں، مصنوعی لذتیں، مشینیں ہی مشینیں اور بے چہرہ آدمی ہیں اور قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی نہیں اور راوی کے الفاظ میں ’’چہرہ چہرہ تقسیم شدہ خُود کو جمع کرکے اس جمع کمائی سے فلوریسنٹ لائٹس کے انگاروں پر لیٹی ہوئی رات کو آزاد کرانا ہوگا تاکہ اس کے حلق سے سچائی کے اعلان کا مترنم چاند طلوع ہو اور اس کے کالے بالوں میں ستارے اُتر آئیں۔‘‘
’’خانقاہ محمد پناہ‘‘ میں سیاسی و سماجی جبر سے طاری جمودیت اور خون چوس معیشت سے نجات کا راستہ جُگنی میں دکھایا گیا ہے کہ ’’جگنی میری بھنگڑا پاوے، نال نبی دا حُکم سناوے، جیہڑا وائے اوہی کھاوے، مالک نہ کوئی ہور سَداوے۔‘‘ اس افسانے کا کہانی پن بہت پُر اثر ہے۔ ذکائ الرحمن خود تو وجدان میں ڈوبے تھے ہی، قاری کو بھی مست کر دیتے ہیں اور ایسا ہی خوبصورت افسانہ ’’صورت گر،کُن‘‘ ہے ۔ یہ افسانہ جون ایلیا کو بہت پسند تھا اور ذکائ الرحمن کو بھی عزیز تھا اور مَیں بھی اس کا مداح ہوں کہ یہ زندہ رہنے والا افسانہ ہے اور ذکائ الرحمن کے پاس کئی ایسے افسانے ہیں جو زمان و مکاں کی قیود سے ماورا زندگی کی بے پناہ حرارت لیے ہوئے ہیں۔ ذکاء الرحمن نے اپنی رہائش گاہ پر بتایا تھا کہ عنوان ’’صورت گر، کُن‘‘ میں لفظ ’’کُن‘‘ جون ایلیا نے تجویز کیا تھا۔ اب اتنی ادبی دیانت داری کا شاید رواج نہیں رہا کہ ذکائ الرحمن کی وفات کے بعد جو مضامین شائع ہوئے، ان میں ڈاکٹر انور سجاد کے دیباچے سے خوشہ چینی جا بجا نظر آتی ہے اور حوالہ کہیں نہیں ملتا۔ اس لیے میں اس تعارفی مضمون میں ڈاکٹر انور سجاد کے حوالے بار بار دے رہا ہوں۔ بہرکیف ’’صورت گر، کُن‘‘ میں فضیلت کے جھوٹے معیاروں اور معیار سازوں پر لعنت بھیجنے کے ساتھ ساتھ گلی سڑی سوچوں میں تبدیلی کا عزم اور ہمت بھی نظر آتی ہے۔ یہ کہانی اور علامت کے باہمی رچائو کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں ایک قطعہ بھی ہے، دیکھئے۔
چِمٹا وَجدا نَئیں کِسے مَان بِنا
رَبّ مِلدا نَئیں کدے دھیان بِنا
شاناں اَدّیاں نَبیؐ دی شان بِنا
بئی چِمٹا وَجدا نَئیں کِسے مَان بِنا
’’شاہراہ‘‘ میں پیغام واضح ہے کہ قرآن کے تیس پارے دراصل تیس نوٹ ہیں اور ان نوٹوں کو چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت ہے۔ جب یہ توانائی حاصل ہوگی تو انصاف بھی ملے گا۔ مساوات بھی ہوگی۔ عزت بھی ہوگی اور خوراک بھی ہوگی۔ ’’زرد سرائے شامِ خزاں‘‘ افسانہ کا کردار ایک سالک شہزادہ ہے جس نے شہزادگی تَرک کی ہے۔ کامیابی کا زینہ چار ہاتھ اونچا ہے۔ اُسے چار رفیق میسر ہیں۔ پہلے کے پاس خوشبو دار الفاظ ہیں۔ دوسرے کے کوزہ گر ہاتھ پر جہاں زاد زلفوں کا سایہ ہے اور شہرِ مدفون پر گزرنے والے وقت کی تحریر ہے۔ تیسرا بے کتاب پیمبر ہے اور اس کا پھیلائو شہر سے کھیت تک ہے اور وہ دیو قامت پر بیٹھا بوٹا ہے جو دیوقامت سے زیادہ بہتر اور زیادہ دور دیکھتا ہے۔ چوتھا پہاڑی کے وعظ کی نرماہٹ والا رفیق ہے۔ شہزادہ چاروں کے ہاتھوں کو سیڑھیاں بنا کر انقلاب کی منزل پالیتا ہے۔ اَبعاد اور ذکائ الرحمن لازم و ملزوم ہیں۔ ’’اصحاب کہف‘‘ مجذوب مائوں کے شاعر بیٹوں اور باغی باپوں کے کہانی کار بیٹوں کی شب زادوں کے خلاف مزاحمت پر مبنی ہے اور یہ افسانہ اِس فنکاری سے بُنا گیا ہے کہ قاری کے لیے جہانِ معنی کے در وا کرنے کے ساتھ ساتھ ادبی حظ بھی پورا پورا مہیا کرتا ہے۔ اہلِ علم بالخصوص تخلیق کاروں پر واجب ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ ہار پر ہار کے باوجود کالی قوتوں کے خلاف مسلسل لڑتے رہیں اور وہ لڑتے رہے ہیں ۔ ’’پاپا آئن سٹائن سے ایک سوال‘‘ زمان و مکان سے متعلق پراسرار حقائق کی کھوج ہے کہ ’’اگر آدمی کو مکاں مان لیا جائے تو آدمی مکاں وقت زماں سے کونسا اور کیسا رشتہ قائم کرے گا؟ ‘‘اور پاپا آئن سٹائن کے پاس اس سوال کا جواب نہیں مگر افسانہ نگار کے پاس ہے۔ اسی افسانے کے ایک منظرمیں ذکاء الرحمن نے اپنے دوست جون ایلیا کو محبوبہ سے محوِ گفتگو بھی دکھایا ہے۔
’’عہد نامہ‘‘ دُلا بھٹی کی اکبر اعظم کے خلاف للکار کے پس منظر میں بُنا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ دُلا بھٹی ہر دور میں ہر جگہ ہوتا ہے ، جابر کے خلاف کلمہ حق کہنا فطرتِ انسانی گوندھ دیا گیا ہے اور یہ لوحِ محفوظ میں بھی لکھا ہے۔ ’’احسنِ تقویم‘‘ تاریخ ہے، نوحہ ہے، ترانہ ہے اور نعرۂ مستانہ ہے۔ اس افسانے میں ذکائ الرحمن کے کچھ بول دیکھئے۔
پناہ کے یہ میرے حواس کا تماشا
یہ آنکھوں اور ہونٹوں کا بُت خانہ
پناہ کہ یہ ہونے اور نہ ہونے کی کشاکش
پناہ کہ چشمہ اُبلتا نہیں
پناہ کے تاج گِرتے نہیں
پناہ کے آواز اُترتی نہیں
پناہ کہ کوئی بولتا نہیں
پناہ کہ ہَم اور ہَماری بے لباس رُوحیں
پناہ کہ ہمارے زخم، ہماری پیاس
پناہ کہ یہ میرے حواس کا تماشا!
’’ن والقلم‘‘ کو ذکائ الرحمن نے نعتیہ افسانہ کہا تھا لیکن یہ حمدیہ بھی ہے اور منقبیہ بھی۔ اس افسانے میں کمال یہ ہے کہ حمد، نعت، منقبت اور تاریخ کو یوں افسانہ کیا ہے کہ مذہب سے متعلق بھی ہے اور غیر متعلق بھی ہے۔ نبی اکرم اور چاروں خلفائ کے چیدہ چیدہ پہلو یوں بیان کیے ہیں کہ تاریخِ اسلام سے ناواقفین کے لیے یہ پرشکوہ بیانیہ قرار پائے گا اور وہ اسے انسان کے اوصاف حمیدہ کے پسِ منظر میں ایک مثال پائیں گے۔ اس میں حیر ت اور بصیرت کے ساتھ ادبی مسرت کی بھی فراوانی ہے۔ ’’دھیان کا مشرق ‘‘میں ذکاء الرحمن قرار دیتے ہیں کہ اضافیت میں اثبات ہے اور وہ سچ اور آزاد سوچوں کے گُلاب کھِلانے کا درس دیتے ہیں۔ اس افسانے کے موضوع سے آگاہی کے لیے افسانہ نگار کی نظم دیکھئے۔
میرا بدن ایک علاقہ ہے
اس علاقے میں کئی ضلعے ہیں
ایک جگہ ایسی ہے جہاں تین ضلعوں کی سرحدیں ملتی ہیں
ایک ٹانگ کے ضلعے کی سرحد اور دوسرے ٹانگ کے ضلعے کی سرحد اور معدے کے ضلعے کی سرحد
اور یہ تینوں ضلعے زرخیز ضلعے ہیں
دو ضلعوں میں رفتار کی لذت آ گئی ہے اور تیسرے ضلع میں غذا کی قوت کاشت ہوتی ہے
پس جہاں یہ تینوں ضلعے باہم ملتے ہیں اور مدّغم ہوتے ہیں
وہاں کالا پھُول کھِلا ہے ، حَبشی خوشبو سے لدا پھندا
خواہش کی ہوا میں یہ پھُول تھرتھراتا ہے
اور لذت کی شبنم میں یہ پھُول دل کی طرح دھڑکتا ہے
تب مَیں اس تھرتھراتے ہوئے اور بھیگتے ہوئے اور دھڑکتے ہوئے پھول سے پوچھتی ہوں
کیا تُم اثبات ہو؟
نہیں مَیں اثبات نہیں ہوں
مَیں ایک نفی ہوں اور جب مجھ میں دوسری نفی داخل ہوتی ہے
تو دو نفیاں آپس میں ٹکرا کر پھُوٹ بہتی ہیں
یہ پھُوٹ بہنا شہد ہے
اور یہ شہد اثبات ہے
شہد کی مکھی پر نازل ہوتی وَحی کی قسم کہ یہ شہد اثبات ہے
’’ارضِ موعُود ‘‘میں ظالم راجہ کی جانب سے ایک پودے کی شربتی پھولوں والی بِیل ہتھیانا اور پودے کا مینڈک، چیونٹی، ابابیل اور چوہے کی مدد سے واپس لینا ہے۔ فضا اساطیری ہے اور کرداروں کی فعالیت قرآنی علائم کے پس منظر میں ہے اور منطقی نُکات میں اُلجھا الجبرائی فلسفی اور اس کی مساواتیں ننھے پودے کے عظیم جذبے اور قرآنی علائم کی مدد کے سامنے ہیچ ثابت ہوتی ہیں۔ افسانے میں قرآنی آیات کے ترجمے بھی استعمال کیے گئے ہیں ۔ ’’اِکو اَلِف ‘‘کے کئی پہلو ہیں لیکن یہاں تو یہی بتانا بہتر ہے کہ اس میں افسانہ نگار نے اپنی ایک سورۃ پیش کی ہے جس کے چودہ نکات ہےں اور یہ چودہ نکات لکھاریوں اور لکھتوں کے لیے رہنما اصول ہیں۔ ذکائ الرحمن کے کئی افسانوں میں واہمہ ہوتا ہے کہ راوی کے مخاطب کہانی کار اور شاعر ہیں۔ افسانہ جس کے عنوان سے مجموعہ معنون ہے یعنی ’’میں اور زمین‘‘ ذکائ الرحمن کی زندگی سے متعلق ہے لیکن یہ محض ذکاء الرحمن کی زندگی کے متعلق نہیں۔ افسانے کی ہیئت میں اس خودنوشت میں ذکائ الرحمن کا نظریہ فن بھی پوری طرح موجود ہے اور یہ اعتراف بھی کہ اس نے ادب میں ایسا راستہ کیوں چنا جو دنوں میں شہرت کی طرف نہیں لے جاتا لیکن ایک وقت آئے گا جب لوگوں کو خبر ہو گی کہ ُان میں ایک عالم تھا جس سے وہ لاعلم رہے اور بے فیض رہے۔ مجموعے کا آخری افسانہ ’’فاتحۃ الکتاب ‘‘ بھی تخلیق کاروں کے لیے رہنمائی کے باب میں ہے کہ وہ سماج میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور لاتے بھی ہیں مگر جمودیت کے حامی ہر وقت چوکنا رہتے ہیں ، اس لیے خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ ادب پابندِ سلاسل کبھی نہیں ہو سکتا۔
’’میں اور زمین‘‘ کے تمام افسانے انتہائی اہم ہیں اور اسی طرح ’’خوابِ سنگین‘‘ کے افسانے بھی ذکائ الرحمن کے اہم ترین فن پارے ہیں۔ ’’خوابِ سنگین‘‘ میں ’’اپنے اِسم کی چشم دید گواہی ‘‘سمیت بارہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے میں چند افسانے بظاہر ایک آمر کے خلاف کلمہ حق معلوم پڑتے ہیں اور ہیں بھی مگر خوبصورتی یہ ہے کہ یہ محض احتجاج تک محدود نہیں بلکہ اِن میں راہ نجات کے نشانات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے عصر کی عکاسی بھی صاف صاف کرتے دکھائی دیتے ہیںاور اِس طرح کرتے ہیں کہ یہ افسانے اُن کے عصر سے نکل کر زندہ رہنے کا ’قوتیہ‘ پالیتے ہیں۔
’’خوابِ سنگین‘‘ کی پہلی لکھت’’اپنے اِسم کی چشم دید گواہی ‘‘ ذکائ الرحمن کے نظریۂ فن کا ظہور ہے اور وہ اس نظریے کو پانے کا راز بھی بتاتے ہیں کہ کیسے وہ عامیانہ قصے کہانیوں سے نکلے ، خالص افسانے اور فکری لکھتیںلکھنے لگے اور کیونکر وہ ادب کو قصہ کہانی سے بالاتر اعلیٰ و ارفع سچ کی تلاش قرار دیتے ہیں۔ افسانے کے سانچے میں ڈھلے اس ابتدائیے میں وہ ادبی دنیا کے مولانا صلاح الدین کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ اُنھوں نے تشہیر سے پرے منفرد راستے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا اور یہی راستہ ایک دن منزل کو پہنچے گا۔ راوی اعلان کرتا ہے کہ وہ سیدھی کہانیاں بھی اتنی اچھی ہی لکھ سکتا ہے اور اُس نے لکھی بھی ہیں جس قدر خوبصورت وہ علامت اور تجرید میں ڈھلی لکھت لکھتا ہے۔ اُسے ٹھیک ٹھیک خبر ہے کہ وہ کہانی کون سی ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے جو مشہور کرتی ہے لیکن وہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ تخلیق کار کے لیے یہ مناسب نہیں۔ افسانہ ’’جاننے والے کے لیے ایک کہانی‘‘ کئی موڑ مڑتا ہے ،کبھی یہ نبی اکرم ؐکی یاد میں لکھا معلوم دیتا ہے ، تخلیق کاروں کی توصیف بھی کرتا ہے اور ان کے ابدی منصب پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ پیام دیتا ہے کہ خواب دیکھتے رہنا چاہئے اور خواب دکھانے والے تخلیق کار مبارک ہیں اور پیمبری شیوا ہیں۔ افسانے ’’میری ایک ہُو‘‘ محبت اور نفرت کی جدلیات، صحیح اور غلط کی جدلیات، جبر اورقدر، اعمال کی ذمہ داری و غیر ذمہ داری، عشق کے فیض سے ہوتے ہوئے خودی پر اختتام ہوتا ہے۔ اب اس میں کہانی کیا ہے؟ ’’میں اور زمین‘‘ اور ’’خوابِ سنگین‘‘ میں کسی ایک کہانی کی تلاش بے کار ہے کیونکہ ان میں موجود ایک ایک کہانی میں یک سطری کئی کئی کہانیاں ہیں۔ افکار اور مناظر کی فراوانی ہے۔ ذکائ الرحمن کے بقول کہانی صرف وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے افکار ہم تک پہنچاتے ہیں ۔ کہانی ایک ٹرک ہے جس پر فِکر لادو گے تو ادب تخلیق ہوگا۔ اس دور کی ایک اور خوبی مذہب ہے، ملا، پادری یا ربی کا مذہب نہیں، اِلہامی مذہب اِلہامی صورت میں ذکاء الرحمن کے ایک ایک افسانے کا محرک محسوس ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جذب و مستی میں یہ افسانے خود بخود اوراق پر منقش ہوتے گئے ہیں اور ذکائ الرحمن نے لاشعور کی رو کو بے لگام سرپٹ دوڑنے دیا ہے لیکن جب ہماری نظر پڑتی ہے کہ یہاں تو منطق بھی پوری طرح موجود ہے تو سوچ دستک دیتی ہے اور لاشعور کی رو کو مشکوک قرار دیتی ہے جو دراصل شبہ کی زد میں ہے اور نہیں بھی۔ افسانے ’’میری ایک ہُو‘‘ کے آخرپر ذکاء الرحمن سچ کا حصول عشق کا فیض قرار دیتے ہیں ۔
افسانہ ’’گھاس ‘‘ ازلی نامعلوم حقیقتوں کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور سہ ابعادی نامکمل دنیا کی تکمیل کے وسیلوں پر بحث کرتا ہوا تخلیق کاروں پر ختم ہوتا ہے جو نامکمل دنیا کی تکمیل کر سکتے ہیں کہ ۔۔۔ خالق جو چاہے کر سکتا ہے۔۔۔ ذکاء الرحمن اس افسانے میں وہ خودی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور انسان کو اس کے اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں ۔ اس میں بیان کردہ جبر و قدر کی تعریف کے پیچھے اسلامی فلسفہ نظر آتا ہے۔ افسانے ’’تیجا پاسا ‘‘ میں زَر داروں پر طنز کے ساتھ ساتھ چور راستے کی مذمت کی جاتی ہے کہ انجام برا ہی ہوتا ہے۔ ’’کالی یگ کا داسیو وَلی âاوس تے رحمتاں دی چھاںá‘‘ ایک نعرۂ مستانہ ہے ۔ ذکائ الرحمن نے کئی افسانوں میں خود کو کردار کے طور پر پیش کیا ہے اور کالی یُگ کا داسیو وَلی بھی وہ خود کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف دجلہ اور فرات کے نواح میں بسے لوگ ہی مقدس نہیں ہوتے بلکہ ہر جگہ کے لوگ مقدس ہوسکتے ہیں اگر وہ حقی رسی کو تھام لیں اور عرفان پا لیں۔ فضیلت کے جھوٹے معیارات رد کرتے ہوئے اسی افسانے میں وہ آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ سچ بھانبھڑ مچاتا ہے اور سزائیں لاتا ہے لیکن اس راستے پر چلنے والے کم نہ ہوں گے ۔ اس کا ایک افتباس ملاحظہ ہو۔
’’اس نے صرف یہ کہا کہ وہ جو، رازوں کے چہروں سے نقاب نوچتے ہیں، ان کی زندگیاں ہمیشہ المیوں کے کنوئوں میں اُلٹی لٹکتی رہتی ہیں اور آخرکار اُنھیں اِسی مَوت کے زہریلے لب چُوسنے پڑتے ہیں جس کے اختتام کی مُنادی اُنھوں نے کی تھی۔‘‘
اسی افسانے کا اختتامی پیرا بھی دیکھئے۔
’’میں کئی عِلموں میں بے عِلما سہی پَر مَیں وہ علم سیکھ رہا ہوں جو دنگ کر دینے والا ہے اور دنگ کر دینے والا علم خُدائی ہوتا ہے اور خُدائی علم کا مقابلہ ممکنات کی حدود سے باہر ہے۔ جس کسی نے خُدا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ غرقِ آب ہی ہوا۔ کیا یہ بات تاریخ سے ثابت نہیں ہے؟‘‘
’’سات زندہ ‘‘ میں کہانی کے شائقین کو سیاست دانوں کی چالاکیوں، غرور اور نااہلیت پر ایک اچھی کہانی بھی ملتی ہے اور افسانہ نگار کا فلسفہ بھی کہ سو مردہ لوگوں âسانس کے اعتبار سے مُردہ نہیںá سے سات زندہ لوگ âزندگی کے اعتبار سے زندہá بہتر ہوتے ہیں۔ ’’گھروں سے نکلنے پر پابندی‘‘ افسانہ اپنے عنوان سے ہی بتا رہا ہے کہ جبر کے دور میں لکھا گیا اور خوب لکھا لیکن اس کا عنوان کچھ اور ہونا چاہئے تھا۔ ’’پراگندہ بَال اور غبار آلُودہ اور دروازوں سے ہنکائے ہوئے لوگ‘‘ افسانہ ایک حدیث کو بنیاد بنا کر بُنا گیا ہے اور اپنے عنوان سے ہی متن کی خبر دے رہا ہے لہٰذا مجھ کم عِلم کی ناقص رائے میں اس کا عنوان بھی مناسب نہیں لیکن افسانہ ذکاء الرحمن کے دوسرے افسانوں ،جن کی عمارت فکری پہلوئوں پر کھڑی گئی، کی مانند جادوئی بیانیے کا حامل ہے اور اس میں ذکائ الرحمن خود موجود ہونے کے ساتھ ساتھ زاہد ڈار اور ڈاکٹر انور سجاد کو بھی لائے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ’’شِرک ‘‘کی جو ضیاء الحق کے دور میں ضیاء الحق کے خلاف لکھا اور پڑھا بھی گیا جس کے نتیجہ میں ذکاء الرحمن پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ضیاء الحق اور مذہب کی آڑ میں حیلوں پر اس سے بہتر افسانہ میری نظر سے کبھی نہیں گزرا اور اس افسانے کو ذکاء الرحمن کے مطالعے، مشاہدے، تجربے اور تخیل کی اڑان نے اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ یہ ضیاء الحق کے خلاف احتجاج ہی نہیں رہتا بلکہ جبر تلے سانس لے رہے ہر انسان کی آواز بن جاتا ہے۔ یہ ماضی کا افسانہ ہے۔ یہ حال کا افسانہ ہے اور یہ مستقبل کا افسانہ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک ملک کا افسانہ نہیں۔ اس میں جبر کی آمد اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی گئی۔ جبر کے خلاف اٹھنے والوں اور ان کی رہنمائی کرنے والوں اور مصلوب ہونے والوں کی عظمت کا گیت گایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خودساختہ لاشریکوں کے سامنے شِرک کا سلسلہ کبھی رُک نہیں سکتا چاہے خودساختہ لاشریک کتنے حیلے کریں، کیسی کیسی فقہ مرتب کریں اور عیار مشیر کیوں نہ پال لیں یا موت کو بھیانک اور خوفناک کیوں نہ بنا دیں، یہ سلسلہ جاری رہے گا اور انسان آزادی کے لیے لڑتا رہے گا۔اس افسانے کا بیانیہ بے حد بلند آہنگ ہے اور ذکاء الرحمن کی تراکیب اور استعارے زود اثر ہونے کے ساتھ دیرپا تاثر بھی چھوڑتے ہیں۔ یہ افسانہ فکر اور فن کے حسیں میلاپ کی شاندار مثال ہے۔
افسانہ ’’خزاں کی فجر نماز‘‘ رحمت خداوندی سے اندھیرے میں اجالے پر یقین محکم کا ترانہ ہے اور اس مجموعے کا آخری افسانہ ’’خواب ِ سنگین‘‘ جو مجموعے کا نام بھی ہے، آمروں ، جابروں اور ان کے چیلوںپر نشتر برساتا ہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کے مطابق اس افسانے میں ذکاء الرحمن کے فکری نظام اصولیہ جانکاریہ کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ یہ افسانہ واضح کرتا ہے کہ ۔۔۔
’’جو غلام غلامی پر رضا مند نہ ہوں، ان غلاموں سے لڑنے والے کو آخرکار تنہا رہ جانا پڑتا ہے اور بے پیدائش بیٹے کے سنگین خواب سے ڈر جانا پڑتا ہے۔ واقعی ڈر جانا پڑتا ہے۔‘‘
ذکاء الرحمن کے چوتھے افسانوی مجموعے ’’ذات کے اندر‘‘ میں نئے پرانے افسانے ہیں اور اس مجموعے کا آغاز ’’تکلیمیہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ تکلیمیہ عنوان تکلم سے تراشا ہے۔ تکلیمیہ گروہ ساتواں گروہ ہے اور یہ وہ گروہ ہے جس کے ارکان شجر نسان ہیں اور اِنہی کے دَم سے جہاں آباد رہے گا۔ یہ پیڑوں ایسے انسان مرکر بھی زندہ رہتے ہیں اور ان کی نئی زبان اور نئی اصطلاحیں ہوتی ہیں۔ اس گروہ میں شمولیت سے ہی بے معنویت اور لایعنیت ایسے سوالات ،جن کا جواب فلسفی اور سائنسدان نہیں دے پائے ، حل ہو سکتے ہیں۔ اس افسانے میں سات گروہ بتائے گئے ہیں اور ذکائ الرحمن انسان کو ہفت ابعادی بھی کہتے رہے ہیں تو اِسے ابعاد کی گھمن گھیری میں گھومتے ہوئے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس افسانے کے چند جملے دیکھئے ۔
’’زمین سے انسانوں کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ یہ چلتے پھرتے لوگ لیبارٹریوں میں پیدا کی گئی بھیڑیں ہیں۔ اس لیے تکلیمیوں کے نزول کے لیے شجر انسان بنائے گئے ہیں۔ ‘‘
’’میری کُھلی آنکھوں کے دُکھ‘‘ میں راوی گوتم سے کائنات اور انسان کے متعلق مکالمہ کرتا ہے اور فیصلے کا اختیار نیل کنٹھ کو سونپا جاتا ہے۔ عرفانِ ذات کے کھوجی افسانے میں اسلام کے ابتدائی دور سے استفادہ بھی نظر آتا ہے۔ افسانہ نگار کی زبان پر قدرت حیران کرتی ہے کہ وہ خُدا کے تعارف میں ہم وزن مترادفات اور متبادلات کی قطاریں کھڑی کردیتا ہے اور یوں کرتا ہے کہ روانی طوفانی موج آسا ہے۔ چند ذومعنی جملے حاضر ہیں جن میں افسانہ نگار نے اپنے دوستوں کے حوالے بھی دیے ہیں۔
’’اے میرے قابل احترام گوتم کہ گوتما! میں اپنی کھلی آنکھوں کے ان دُکھوں میں سے کِس کِس دُکھ کا کہاں تک تعارف کروائوں کہ ان میں کوئی شکیل ہے اور عدل کرنے والے کا بیٹا ہے، کوئی اظہار ہے اور حق سے تعلق رکھتا ہے اور کوئی نقش ہے اور جمیل ہے اور کوئی خوبصورت ہے اور عالی ہے اور کوئی قلندری حیدر ہے اور فقر کا تاج ہے اور کوئی سجادوں کا مِیر ہے اور کوئی عذرائوں کا انور ہے اور کوئی عُنیزائوں کا علیم ہے اور کوئی عَربی ہے اور کوئی عجمی ہے۔۔۔ میری کھلی آنکھوں کے دُکھ اَن گنت اور بے شمار ہیں۔‘‘
’’ہاتھی بچھو‘‘ میں برتی اردو کا لہجہ خالص لہوری ہے اور ایک بار چونکاتا ہے کہ کیا یہ وہی افسانہ نگار ہے جو عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور نئی نئی تراکیب بناتا ہے؟ یہ عالمی طاقتوں کی مداخلت کے پس منظر میں لکھا گیا اور اس کا پیش منظر لاہور ہے۔ بیان ہے کہ لاہور کے شہریوں کی بداعمالیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گھر گھر رنڈی خانے ہیں، فحش فلمیں اور غلیظ گانے سنے جاتے ہیں اور شہری دانش کی اور بھلائی کی باتیں کرنے والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں اور مسخروں کی رائے کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ پس اس شہر پر عذاب اترا کہ بچھو اترے جو اتنے بڑے ہیں کہ ہاتھی بچھو قرار پائے ہیں۔ افواہیں ہیں کہ ہاتھی بچھو کوتوالِ شہر نے ہاتھی دیس والوں کے کوتوال سے ملی بھگت کر کے درآمد کیے ہیں اور کہتا ہے کہ یہ بھی شہر کے فائدے میں ہیں۔ ہاتھی بچھو پہلے گھروں میں ڈستے تھے، پھر گھروں سے باہر بھی ڈنک مارنے لگے۔ اس افسانے کے کردار اور واقعات حقیقی زندگی سے لے کر فکشن بنائے معلوم دیتے ہیں۔ ایک کردار نذیر بھا جی ہے جو مشہور کالم نگار ہے اور کوتوال سے عملیت پسندی کا سبق لے کر لوگوں کو درس دیتا ہے۔ بوڑھا افسانہ نگار اور سفید بالوں والا شاعر شاہی مسجد میں بیٹھ کر بچھوئوں کے خلاف جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور راوی بھی لبیک کہتا ہے۔
’’اکیلی‘‘ ذکاء الرحمن کا سماجی حقیقت نگاری پر اچھا افسانہ ہے ’’اکیلی‘‘ ایک غریب لڑکی کی کہانی ہے جو امیرانہ خواب آنکھوں میں سجائے محافل شبینہ میں شرکت کرتی رہتی ہے اور استحصال کراتی رہتی ہے کہ کوئی امیر لڑکا اسے پسند کرکے دو کمروں کے کوارٹر میں سے نکال لے جائے گا لیکن ایسا ہونا تو بہت دور کی بات ہے، وہ جن محافل میں شرکت کرتی ہے ، وہاں بھی اکیلی ہی ہوتی ہے اور دوستوں کے مذاق کا نشانہ بننے کے ساتھ طعنے معنے سنتی رہتی ہے، ماں سے مار الگ کھاتی ہے اور حصے میں اس کے کوکا کولا بیچنے والا لڑکا ہی آتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کے ایک پہلو کی ماہرانہ تصویر کشی ہے کہ ایک انسان خوشی کی تلاش میں کِس کِس طرح اپنا آپ رگیدے جانے کے لیے پیش کر دیتا ہے۔
’’آبدوز‘‘ میں افسانہ نگار کے دوست صغیر ملال کی بہن تقدیس بیوہ ہو جاتی ہے ۔ اس کا سہاگ سب میرین انجینئر تھا جو آبدوز میں بیٹھا فرانس جا رہا تھا اور ساحل سے تین سو کلومیٹر دوری پر آبدوز سارے کریو سمیت غبارے کی طرح پھٹ جاتی ہے۔ ابولہب شہزادوں اور ابوجہل سکندروں کا انکار کرنے والوں کو دکھ جھیلنے ہی پڑتے ہیں۔ ’’آبدوز‘‘ ایک نوحہ ہے اور اس نوحے کے دو ٹکڑے افسانہ سے متعارف کرانے کے لیے حاضر ہیں۔
’’ڈیئر خداوندِ خدا! کاش کبھی ایسا ہو کہ تجھے بھی تقدیس جیسی بہنوں کے غم سے اور معصومیت جیسے بچوں کی گریاں حیرانی سے لپٹ کر رونا پڑے۔‘‘
’’اے صغیر ملال لوگو، اور عبداللہ علیم لوگو اور ذکائ الرحمن لوگو! یہ تُم ہو اور اس لیے ہو کہ تم انکار کرنے والوں میں شامل ہوئے۔‘‘
’’ٹُماسا ہنسی ‘‘ایک علامتی کہانی ہے جس میں سائنس فکشن کا لطف بھی ہے۔ اس افسانے میں ایک ڈاکٹر صحرائے مروٹ عجیب و غریب قبیلے کی مقدس حدود پار کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے ۔ وہ سردار کا مذہبی تقدس پاش پاش کر دیتا ہے اور ایسا وہ اس طرح کرتا ہے کہ سردار کے جسم سے خلیے لے کر مینڈکوں کے سروں میں داخل کر دیتا ہے جس سے وہ مینڈک بھی سردار کی طرح عظیم الجثہ ہو جاتے ہیں اور ان مینڈکوں کے سروں پر چھوٹے چھوٹے سر بھی اگ آتے ہیں۔ سِنکی ڈاکٹر وہ مینڈک قبیلے کے ہر آدمی کو دے دیتا ہے اور قبیلے والے سردار کی بجائے مینڈکوں کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔۔۔ لاہور سے محکمہِ آثار قدیمہ کی بھٹکی ہوئی ٹیم کو قبیلے والے حدود کی خلاف ورزی پر پکڑ لیتے ہیں اور سردار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سردار ٹیم کو ڈاکٹر کے حوالے کر دیتا ہے اور ڈاکٹر ٹیم کے ذریعے لاہور سے سائنسی آلات منگواتا ہے۔ آخر پر ٹیم کا سربراہ ڈاکٹر کو فرار ہو کر لاہور آنے کی دعوت دیتا ہے لیکن ڈاکٹر آثار قدیمہ کی ٹیم کو قبیلے کی حدود کے آخری سرے پر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ جاتا ہے کہ اس قبیلے نے مجھے جو ماحول، رتبہ اور سہولیات دی ہیں ، وہ تمہاری حکومت نہیں دے سکتی اور اس قبیلے کا ایک فرد قبیلے میں انقلاب لانا چاہتا ہے اور میں اس کی مدد کرنے واپس جا رہا ہوں۔ اس کہانی میں جزئیات نگاری غور طلب ہے اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا راستہ بھی توجہ چاہتا ہے۔ یہ کہانی مشاہدے و مطالعے کی گہرائی و گیرائی، ذومعنی اور تیکھے جملوں سے سجی ہوئی ہے۔
’’جِس کا عنوان لَہو ہو ‘‘ کہانی کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی۔ چھاپہ مار جنگ جار ی ہے۔ لاہور سے تین شاعر اور ادیب لڑائی دیکھنے سرینگر گئے ہیں تاکہ کچھ انقلابی نغمے گا سکیں اور کچھ لہو رنگ افسانے لکھ سکیں۔ اُنھیں رجمنٹ ہیڈکوارٹرز سے لینے کے لیے ایک کشمیری آتا ہے جس کی بہنیں بھارتی فوجی اغوا کر کے لے گئے تھے اور وہ بدلہ لینے کے لیے گوریلوں سے مل گیا۔ اس کے بازو میں جب سے گولی لگی تھی، تب سے وہ اَردلی کا کام کر رہا تھا اور ہر ہر لمحہ مشن پر جانے کے لیے سوچ رہا تھا۔ رجمنٹ کو ہدف پر نشانہ لگاتے دیکھنے کے لیے رحیم جُو کے ساتھ صرف افسانہ نگار فرید رحمن جاتا ہے ۔ وہ دونوں رجمنٹ سے مل نہیں پاتے اور ڈوگرے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ وہ جھونپڑے اور غار میں پناہ لیتے، بھوک برداشت کرتے وقت واپس ہیڈکوارٹرز پہنچتے ہیں اور فرید رحمن سوچ رہا ہے کہ اب وہ ایک بے مثال کہانی لکھ پائے گا لیکن رحیم جُو اسے ایک جملے سے چونکا دیتا ہے اور وہ جان جاتا ہے کہ ’’وہ کہانی، جس کا عنوان لہو ہو، گھر میں سکون سے بیٹھ کر قلم سے کاغذ پر نہیں لکھی جاتی، پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں میں رائفلوں اور سٹین گنوں سے تحریر ہوتی ہے۔‘‘
’’ڈپٹی کمشنر ‘‘افسانہ نہیں بلکہ نوکر شاہی کی نفسیات پر شدید ضرب لگاتی کہانی ہے جس میں جزئیات نگاری کا کمال یہ ہے کہ قاری ہارون آباد پہنچ جاتا ہے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے ڈپٹی کمشنر جو خود کا آرٹ کا دلدادہ اور شاعر سمجھتا ہے، ۔ ڈپٹی کمشنر کا مخلص دوست صاحبزادہ احمد شاہ ایک شریف النفس زمیندار ہے اور اپنے دوست کو کبھی کوئی کام نہیں کہتا حالانکہ وہ جائیداد کے معاملات میں اپنے بھائیوں کی طرف سے بری طرح مسائل میں گھرا ہوتا ہے اور اپنے بھائیوں’، کو دیکھتا ہے ۔ اور اپنے بھائیوں کے مناقشے کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے مگر مرنے سے پہلے وہ ڈپٹی کمشنر سے بستر مرگ پر ملتا ہے اور اسے ایک ہی بات کہتا ہے۔۔۔ میرے بیوی بچے بچائو۔۔۔ ڈپٹی کمشنر پہلے تو سپاہیوں کے ساتھ چھاپہ مارنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے اطلاع ملتی ہے کہ قاتل زمیندار ،جو پیر بھی ہیں، اپنے مریدوں اور پناہ میں آئے ڈاکوئوں کے ساتھ مسلح ہیں، تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چھاپے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ اس کی بیوی کارروائی کے لیے زور دیتی رہتی ہے مگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے جس کے نتیجہ میں بہاولنگر میں اس کے اکلوتے مقتول دوست صاحبزادہ احمد شاہ کے بیوی بچے بھی مار دیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر جواز پیش کرتا ہے کہ اگر وہ چھاپہ مارتا تو پولیس اہلکار مارے جاتے ۔ کمشنر جواب دیتا ہے کہ اگر چھاپہ نہ مارنے کا یہ جواز ہے تو پھر پولیس کے وجود کا بھی کوئی جواز نہیں۔ آخر پر ڈپٹی کمشنر کی بیوی طلاق کا تقاضا کرتی ہے کہ میں تُم کو شیِلے سمجھتی تھی مگر تُم تو صرف ڈپٹی کمشنر ہو۔ اس کہانی کے پہلے نصف میں کہیں کہیں بوریت محسوس ہوتی ہے لیکن جہاں احمد شاہ کردار داخل ہوتا ہے ، کہانی بہا لے جاتی ہے۔
’’بابا نورا ‘‘فطری حسن میں لپٹی ایسی کہانی ہے جو انجام سے پہلے بہت خوبصورت ہے۔ بابا نورا کی بیوی لالچی ہے لیکن وہ خود درویش منش ہے ۔ وہ راوی کو باغیچہ ٹھیکے پر دیتا ہے اور اس کا ہاتھ بھی بٹاتا ہے لیکن بیوی کے ہاتھوں تنگ نظر آتا ہے۔ اس کا بیٹا پولیس میں ہے جو آم پکنے کے موسم میں آتا ہے اور ایک رات بابا نورا کی بیوی اور بیٹا آم چراتے پکڑے جاتے ہیں۔ راوی اگلے دن شکایت کرتا ہے اور بابا نورا ایسا دوبارہ نہ ہونے کی یقین دہانی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اگلے ہارون آباد میں درختوں کے جھنڈ میں بسے اس گاؤں میں یہ خبر پھیلی ہوتی ہے کہ ایک بوڑھی عورت اور جوان مرد قتل ہو گئے ہیں۔ اس کہانی میں بھی افسانہ نگار کی دیہات سے گہری وابستگی واضح ہے۔
’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تازہ پھول باغ سے توڑ کر اپنے کوٹ کے کالر میں لگا لو اور جب وہ مُرجھانے لگے تو اُس کی پتّی پتّی کر کے سڑک پر بکھیر دو۔۔۔‘‘ یہ جملہ افسانے ’’تُم نے مجھے کچھ بھی تو نہ دیا‘‘ کا ہے اور اتنا بلیغ ہے کہ سارا افسانہ اسی میں آ گیا ہے۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ ’’مکھی ‘‘ہے اور یہ ایسی مکھی ہے جو بدن میں مکھی تھی اور روح میں مکڑی ۔ یہ افسانہ ذکاء الرحمن نے یوں لکھا ہے کہ سمجھنا چاہو تو کچھ نہ سمجھ پاؤ ، نہ سمجھنا چاہو تو سب سمجھ جاؤ ۔ بہرحال اسے سمجھنے کے لیے قرآن کی سورۃ النحل پڑھنا ہوگی کہ شہد کی مکھی کاریگر ہے۔ پہاڑوں، درختوں اور مکانوں میں چھتا تیار کرتی ہے۔ ساری مکھیاں ایک بڑی مکھی کے تحت کام کرتی ہیں، چھتے سے نکل کر رنگ برنگ پھول پھل چوستی ہیں اور شہد اور موم دے کر شفا کا باعث بنتی ہیں۔ غذا کی تلاش میں دور نکل جاتی ہیں اور بے تکلف چھتے میں واپس آ جاتی ہیں لیکن افسانے کی مکھی کا معاملہ کچھ اور ہے ۔یہ طبیعاتی انسان فرشتے کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے اور کئی اَبعاد بن جاتی ہے۔ اَبعاد کے بھیدوں سے افسانہ نگار کا گہرا لگاؤ اس کی تحریروں میں بارہا نظر آتا ہے۔
ذکاء الرحمن نے ’’درد آئے گا دبے پائوں‘‘ میں تو نہیں لیکن ’’میں اور زمین‘‘ ، ’’خوابِ سنگین‘‘ اور ’’ذات کے اندر‘‘ میں لسانی تشکیلات کے باب میں جو خدمات انجام دی ہیں، اِن کے تعارف کے لیے ذکاء الرحمن کے تراشے الفاظ، تشبیہات، تراکیب اور اصطلاحوں میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں جو حافظے میں محفوظ رہ گئیں۔۔۔ اصولیہ جانکاریہ، قوتیہ، اولیہ، آخریہ، تکلیمیہ ، تفصیلیہ، عادیہ، آمریہ، لکھتیہ، مثالیہ، شکیہ، جگنیانہ، شعریہ، تصادمیے، وقتیے، لاشئت، پتا چھتری، مطلقیتوں، بے رفتار رفتار، بے نظام نظام، ناممکن ممکن، پرشدت شدید، اجنبیتیں،مونہوں سے بہتا لیکوریا کا پانی، کھِلائو، سمائی، لاافادی، دہشتناکی، تخالفوں، مانویتی، مابعد الردئتی واردے، نور اعظم کا برزہ مثالیہ ناسوت، عشقیانہ رقص، رازیے، رازیہ، قطراتی، تیلیویژن، تیکنالوجی، تیکنالوجائی، فینتاسیوں، فیزیک، میتا فزیک، دھوپ یقین، انٹرنیٹ نشریہ، حقیقت اولیہ، استغنائی غیرمتاثریت، تناسلی ستون، بلال رنگت، لا شخص، سَردائے موسم، مستائے اونٹ، سوچیلی، بانگی، گنگیلا پن، رقصیلی چال، شجر انسان، اُجال، آفاق گیر، تھیوریاں شیوریاں، لَکھ لُٹ، نتائجی، نتائجیت، چخواتے، شوریدہ پشت وغیرہ ذکاء الرحمن کی ذکائیت کے بے شمار نمونوں میں سے چند ہیں۔
ذکاء الرحمن نے عربی اور فارسی کے الفاظ کے ساتھ ساتھ دیسی زبانوں بالخصوص پنجابی کے الفاظ بھی پورے رچاؤ سے کھپائے ہیں۔ ذکاء الرحمن طویل جملے لکھتے تھے اور فقرے جوڑنے کے لیے ’’اور‘‘ کا استعمال بڑی شدت سے کرتے تھے اور یہ ’’اور‘‘ پہلے تو بُرا معلوم دیتا ہے لیکن جب قاری فقری بہائو میں بہتا ہے تو اسے یہ ’’اور‘‘ بھی لطف دیتا ہے ۔ ذکاء الرحمن جملوں کی تکرار بھی کرتے تھے لیکن اس باریکی کے ساتھ کہ ہر بار جملے میں تھوڑا تھوڑا فرق پیدا کرتے تھے۔ موسیقی میں غزل گوئی میں یہ انداز مہدی حسن نے متعارف کرایا تھا کہ ایک ہی بول بولنا مگر ہر بار مختلف انداز سے سُر لگایا جاتا ہے۔ ذکاء الرحمن کی یہ تکنیک جذب و مستی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ ذکاء الرحمن کے افسانوں میں اس کی مختلف طبقات کے افراد کی نفسیات سے گہری واقفیت حیران کرتی ہے تو اُن کے لہجوں پر گرفت بھی چونکاتی ہے۔ ذکائ الرحمن نے افسانوں میں گالیاں بھی استعمال کی ہیں اور کمال یہ ہے کہ ایک گالی بھی بے محل معلوم نہیں دیتی۔ مکالموں کے ضمن میں خاص خیال رکھا ہے کہ ڈاکٹر کے منہ سے ڈاکٹر کے الفاظ نکلیں اور ٹوبے کے لاپروا چھوکرے کے منہ میں سقراط نہ گھسے ۔ ذکاء الرحمن نے اپنی کُتب میں اعراب کا بھی خیال رکھا ہے کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر زیر زبر پیش ڈال کر قاری کے لیے آسانی پیدا کی ہے کہ وہ اداس کو اَداس کی بجائے اُداس ہی پڑھے۔
ذکاء الرحمن کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’’بہاروں کے گیت‘‘ ہے جسے بعد میں ذکاء الرحمن نے رد کر دیا تھا۔ ذکائ الرحمن نے وفات سے بیس بائیس سال قبل ایک ناول ’’کشف الکتاب ‘‘ لکھنا شروع کیا تھا جسے وفات سے کئی سال قبل مکمل کرنے کے بعد وہ عالمی معیاری پر لانے کے لیے نظرثانی کر رہے تھے اور اس سال یعنی دوہزار سولہ میں دسمبر تک شائع کرنے کا ارادہ بارہا ظاہر کر چکے تھے لیکن ستائیس رمضان چودہ سو سینتیس ہجری بمطابق تین جولائی دو ہزارسولہ عیسوی کو دن کے پہلے پہر زندگی دینے والے نے وجودی زندگی واپس لے لی۔
ان کی اولاد ناول ’’کشف الکتاب ‘‘شائع کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مجموعوں کی دوبارہ اشاعت کے بھی خواہش مند ہیں اور میں دعاگو ہوں کہ وہ اپنی خواہش کو حسب توفیق پورا بھی کریں بالخصوص ناول کی اشاعت یقینی بنائیں کہ یہ ذکاء الرحمن کی عمر بھر کی فکری ریاضت کا نچوڑ ہے۔ ’’کشف الکتاب‘‘ کے دو ابواب ’’ادبِ لطیف‘‘ اور ایک ’’ادبیات‘‘ میں طبع ہوئے۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے اسی سالہ نمبر میں دوسرا باب ذکاء الرحمن کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس ناول کے تعارف کے لیے ذکاء الرحمن کا ہی ایک طویل افتباس پیش ہے جو ڈاکٹر انور سجاد نے ذکاء الرحمن کی ایک کتاب کے دیباچے میں رقم کیا ہے۔
’’میں ادب عالیہ تخلیق کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں اس میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں یا بالکل ناکام۔ ادب عالیہ تخلیق کرنے کی کوشش کے دائرے میں ہونے کے سبب میں نے ایک ایسا نظامِ فِکر تعمیر کیا ہے جسے میں ’’اصولیہ جانکاریہ‘‘ کہتا ہوں۔ میں نے اس کا بھرپور اور مربوط اظہار اپنی طویل ناول لکھت میں کیا ہے۔۔۔ میرا نظامِ فکر اصولیہ جانکاریہ ایک نئی میتافزیک پیش کرتا ہے اور اس نئی میتا فزیک کا عملیہ ایک نئے معاشرے کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مختصراً میری نئی میٹا فزکس یہ ہے کہ انسان صرف مخلوق ہی نہیں، خالق بھی ہے۔ بیک وقت خالق و مخلوق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن زمان و مکاں میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ زماں و مکاں تخلیق کرتا ہے۔ اس لیے انسان بنیادی طور پر ہفت ابعادی ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو سہ ابعادی محسوس کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہفت ابعادی ہونے کے باعث وہ کئی کونیاتی دائرے تخلیق کر سکتا ہے۔ آخری انسانی شکل یا آخری انسانی کونیاتی دائرہ ذہنِ خالص ہے اور ذہنِ محض ہے اور ذہنِ خالص یا ذہنِ محض ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرے جس میں وہ اپنے ذہن میں رہ سکے۔ اور ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کے مادی طریقے یہ ہیں کہ انسان مادہ اور غیر مادہ میں، یعنی دماغ اور ذہن میں، توازن پیدا کرکے ایسی ماحولیات تعمیر کرے جو سہ ابعادی صورت حال کو توڑ کر اگلے ابعاد کی طرف سفر کر سکے۔ سہ ابعادی صورت حال کو توڑنے کے لیے سب سے پہلے سہ ابعاد ہی میں مذکورہ توازن کے ذریعے اتنا مہذب ہونا پڑے گا کہ ریاستی تقسیموں اور حکومتی ڈھانچوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ موجودہ صورتِ حال میں ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے پہلا قدم احتجاج ہے اور دوسرا قدم انقلاب ہے ۔ یہاں میری مراد کوئی فوجی یا خونیں انقلاب نہیں بلکہ ایسی بستی ہے جس میں مذکورہ نظریات کے حامی رہائش اختیار کریں۔‘‘ ذکاء الرحمن۔
پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، غلام عباس اور سعادت حسن منٹو ایسے بزرگوں کا احترام بجا مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھ کر اور لوگوں کو بھی توجہ سے پڑھنے اور ان پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ ہمیں ذکاء الرحمن کو پڑھنے کی ضرورت ہے جس کے ہاں انسان اور انسانیت ہر دو کے ہنگامی اور ازلی موضوعات پر فسوں گری کے ساتھ نئے نئے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ ذکاء ارحمن کے افسانوں کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان میں جبر کی محض عکاسی نہیں بلکہ استبداد کے خلاف بلند آہنگ احتجاج کے ساتھ نجات کی راہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ذکاء الرحمن نے سماجی حقیقت نگاری کے رنگ میں سیدھے سبھائو کی بہترین کٹیلی کہانیاں انہیں افسانے شمار کیا جاتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ذکاء الرحمن خود بھی انہیں کہانیاں ہی قرار دیتے ہوں گے (گو وہ مضمون ، کہانی اور افسانے وغیرہ کی تخصیص کے قائل نہیں تھے) لکھی ہیں، دینیات، کونیات، طبیعات، مابعدالطبیعات ، سیاسیات، معاشیات، تاریخ سمیت کئی خشک ، سنجیدہ اور اہم علوم افسانے میں گھسیٹ لائے ہیں، امثال اور حقیقت کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں اور ایک نئی دنیا بسانے کے لیے ایک فِکری نظام ترتیب دینے کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ بھی نہیںکہ ذکاء الرحمن نے ’’میں اور زمین‘‘، ’’خواب سنگین‘‘ کے تمام اور ’’ذات کے اندر‘‘ کے زیادہ تر افسانوں میں نیا فکری و نظری مواد اور ’’کشف الکتاب‘‘ میں فکری نظام ترتیب دے کر فکشن کی زبان میں پیش کرکے جو مثال قائم کی ہے ، وہ اردو ادب کی افسانوی روایت میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ آپ اسے میری کم علمی یا محبت کہہ لیں لیکن مجھے یہی محسوس ہوا۔
تیس جولائی دوہزار سولہ عیسوی