ژاک دریدا کا نظریہ رد تشکیل اوراردو ادب کی تنقید
ژاک دریدا کا نظریہ رد تشکیل اوراردو ادب کی تنقید
Aug 5, 2025


ژاک دریدا کا نظریہ رد تشکیل اوراردو ادب کی تنقید
علی رفاد فتیحی
fatihi.ar@gmail.com
ژاک دریدا (Derrida Jacques) بیسویں صدی کے ایک اہم فرانسیسی فلسفی تھے جنھوں نے فلسفہ، تنقید، لسانیات اور ادبیات کے میدان میں نئے نظریاتی در وا کیے۔ ان کا سب سے معروف نظریہ "ردِ تشکیل" (Deconstruction) ہے، جو نہ صرف مغربی فلسفے کی بنیاد پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ متن کی قرات، معنی کی تشکیل، اور زبان کے ڈھانچے کو بھی نئے زاویوں سے دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ردِ تشکیل کوئی روایتی تنقیدی طریقہ کار نہیں ہے جو کسی متن کو صرف تحلیل یا تشریح کرنے کے لیے استعمال ہو بلکہ یہ ایک نظریاتی اور فلسفیانہ عمل ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ کسی بھی متن میں مکمل معنویت یا حتمی سچائی ممکن نہیں۔ دریداکے نزدیک ہر متن میں تضاد، التواء اور غیر یقینی معنی کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ متن خود اپنے خلاف دلائل فراہم کرتا ہے اور یہ تضادات ہی متن کی گہرائیوں کو عیاں کرتے ہیں۔ ژاک دریدا (Derrida Jacques) نے 1966 میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اپنے مشہور خطاب "سٹرکچر، سائن اینڈ پلے ان دی ڈسکورس آف ہیومن سائنسز" کے ذریعے ادبی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اس مضمون نے رد تشکیل (ڈی کنسٹرکشن)کے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی۔ اس میں دریدانے سٹرکچرلزم کے بعض بنیادی اصولوں پر تنقید کی اور ایک ایسا فلسفہ پیش کیا جو تمام کلاسیکی مفروضوں کو چیلنج کرتا ہے۔
ژاک دریدا (Derrida Jacques) کا مرکزیت (لوگوسینٹرزم) پر تنقید
ژاک دریدانے مشاہدہ کیا کہ مغربی سائنس اور فلسفے کے ڈھانچوں کی ساخت کو ایک مرکز کے ذریعے غیر جانبدار بنا دیا گیا ہے، جو اس ساخت کو استحکام اور معنی عطا کرتا ہے، مگر دراصل یہ مرکز خود ساخت کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ ایک خارجی نقط حوالہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ژاک دریدا کے مطابق، یہ مرکز 'ساخت' کے تمام عناصر کو ایک ترتیب میں رکھتا ہے، لیکن خود کو تبدیلی سے مبرا سمجھا جاتا ہے۔دریدا نے اس مرکزیت (logocentrism) پر تنقید کی اور اس تصور کو چیلنج کیا کہ کوئی بھی متن یا نظامِ فکر کسی قطعی اور حتمی معنی یا مرکز پر قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے مطابق، مرکز کا یہ تصور دراصل ساختیاتی نظاموں کو جمود میں رکھتا ہے اور معنی کے سیال اور متحرک ہونے کی نوعیت کو محدود کرتا ہے۔دریدا نے اپنی مشہور تقریر "ساخت، علامت اور کھیل کی دنیا میں مرکز کا خاتمہ" (1966) میں کہا تھا کہ مغرب کی فکری روایت ہمیشہ کسی نہ کسی "مرکز" جیسے خدا، سچائی، عقل، فطرت، وغیرہ کی تلاش میں رہی ہے تاکہ معنویت کو استحکام دیا جا سکے۔ مگر جب یہ مرکز ختم ہو جاتا ہے یا سوال کی زد میں آتا ہے، تب "کھیل" (play) شروع ہوتا ہے۔ یعنی معنی کی لامحدود تولید، جو کسی ایک مرکز پر منحصر نہیں ہوتی۔مرکز کوتمام معنی کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ اس مرکز کے بغیر کوئی ڈھانچہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ مرکز ڈھانچے کے اندر قواعد (گرامر) طے کرتا ہے، جو معنی کو کچھ حد تک لچک دیتا ہے لیکن اس کی ازحد تشریح کو بھی محدود کرتا ہے۔ ژاک دریدا کا کہنا ہے کہ "مرکز ڈھانچے کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ یہ ایک تضاد ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم "مرد" کی تعریف کریں، تو ہمیں "عورت" کی ضد بنا کر اسے سمجھنا پڑتا ہے (فرڈی ننڈڈی سوسور کا نظریہ کہ زبان صرف فرق کی بنیاد پر کام کرتی ہے)۔ اس طرح، ڈھانچے کا مرکز اندر اور باہر دونوں جگہ موجود ہوتا ہے۔ ژاک دریداکا مقصد ایسے کلاسیکی مغربی ڈھانچوں کے "مرکز زدہ ہونے" کو چیلنج کرنا ہے، جس
سے معنی کی متعدد تشریحات ممکن ہو جاتی ہیں۔
1. لوگو سینٹرزم (Logocentrism)
دریدا نے اپنی کتاب "گراماتولوجی" میں واضح کیا کہ مغربی علم "لفظ" کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی وضاحت بائبل (گاسپل آف جان) کے اس افتتاحی جملے کہ In the beggining was the word میں نظر آتی ہے۔ "مرکز کی یہ خواہش" لوگو سینٹرزم کہلاتی ہے، جس میں بولے جانے والے لفظ کو تحریر پر فوقیت دی جاتی ہے کیوں کہ بولنے والے کی موجودگی معنی کو یقینی بناتی ہے۔ ژاک دریدااسے "تشدد آمیز درجہ بندی" کہتے ہیں، دریدا کے مطابق، مغربی فکر میں اکثر Binary Oppositions (ثنویت) کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے: عقل / جذبات، تقریر / تحریر، مرد / عورت۔ ان میں ہمیشہ ایک عنصر کو مرکزی حیثیت (dominant) حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کو حاشیہ پر (marginalized) رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق محض غیر جانبدار نہیں بلکہ تشدد آمیز (violent) ہوتی ہے، کیوں کہ ایک شے کو دوسرے پر برتری دے کر ایک استعماری یا جابرانہ نظام قائم کیا جاتا ہے۔ اور یہ غیر مساوی تعلقات قائم کرتی ہے۔ یہ کسی ایک تصور کو فطری یا مقدس بنا کر دوسرے کو کمتر، جھوٹا، یا غیر فطری ٹھہراتی ہے۔ یہ فکر، زبان، اور سماجی ڈھانچوں میں طاقت کی موجودگی کو چھپاتی ہے۔ دریدا ان تشدد آمیز درجہ بندیوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں ان بائنری اپوزیشنز کو deconstruct کرنا چاہیے۔ حاشیے پر رکھے گئے تصورات کو مرکز میں لا کر، زبان اور فکر میں مساوات اور کثیرالمعنویت (plurality) پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر’تقریر‘ (Speech) کو ہمیشہ’تحریر‘ (Writing) پر ترجیح دی گئی، گویا کہ تقریر زیادہ سچی یا "موجودگی" کی علامت ہے۔ دریدا کا خیال ہے کہ یہ درجہ بندی خود ساختہ ہے، اور ہمیں تحریر کو اس کے اپنے جواز کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ تشدد آمیز درجہ بندی" دریدا کے نزدیک وہ فکری یا ثقافتی طریقہ ہے جس کے ذریعے ایک تصور کو دوسرے پر مسلط کیا جاتا ہے۔ یہ فلسفیانہ، لسانی اور سماجی سطح پر جبر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دریدا کا رد تشکیل کا طریقہ کار اسی جبر کو توڑنے اور متبادل معنویت کو ابھرنے کا موقع دینے کی کوشش ہے۔
تفاوت (ڈیفرانس Différance)
یہ فرانسیسی لفظ différer (فرق ہونا / ملتوی ہونا) سے نکلا ہے۔ ژاک دریداکے مطابق، تحریری علامت کا مطلب ہمیشہ موخر اور دوسری علامتوں کے فرق پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، "جام" کے مختلف معانی ہو سکتے ہیں (مربہ، راستے کی رکاوٹ، موسیقی کا اجتما)، لیکن ہر معنی دوسرے الفاظ سے وابستہ ہوتا ہے، جو لامتناہی طور پر ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ Différance دریدا کی وضع کردہ ایک نئی اصطلاح ہے، جو فرانسیسی لفظ "différence" (فرق) سے مشابہ کاغذ"، یا "دفتر" سے مختلف ہے۔ جب بھی ہم کسی لفظ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم لازماً مزید الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ الفاظ بھی اپنے مطلب کو کسی اور لفظ کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ یوں، مکمل معنی کبھی ہاتھ نہیں آتا، وہ ہمیشہ ایک قدم آگے ہوتا ہے گویا معنی کبھی "مکمل طور پر حاضر" نہیں ہوتا، بلکہ مسلسل التوا میں رہتا ہے۔
Différance کا کھیل:
دریدا نے جان بوجھ کر یہ لفظ تخلیق کیا کیونکہ فرانسیسی میں différance اور différence کی ادائیگی ایک جیسی ہے یعنی سننے والا ان میں فرق نہیں کر سکتا، فرق صرف تحریری شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی زبان کی فطرت ہے: سننے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں معنی مل گیا، لیکن تحریر ہمیں اس کی غیر موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ مثلاً غالب کا شعر دیکھیے:
"ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے"
یہاں "خواہش" کا مطلب صرف اس کی لغوی تعریف سے نہیں، بلکہ اس کے تناظر، دیگر اشعار، اور ہمارے سابقہ تجربات سے متعین ہوتا ہے۔ اور پھر بھی، اس کا مطلب مکمل طور پر گرفت میں نہیں آتا، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ تشریح طلب رہتا ہے، یعنی مسلسل التوا میں۔ چلیے دریدا کے نظریہ différance اور معنی کے التوا کو اردو ادب کے ایک مخصوص متنی تجزیے میں بروئے کار لاتے ہیں۔ ہم مثال کے طور پر مرزا اسد اللہ خان غالب کے اس شعر کو لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ دریدا کی فکر کس طرح اس پر لاگو ہوتی ہے۔
"دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں "
اس شعر میں "دل" بظاہر ایک سادہ سا لفظ ہے، جو جذبات، محبت، احساسات یا رنجشوں کی علامت کے طور پر آتا ہے۔ مگر اگر ہم دریدا کی روشنی میں دیکھیں، تو لفظ "دل" اپنا کوئی حتمی یا مستحکم معنی نہیں رکھتا۔ یہ لفظ اس وجہ سے معنی خیز ہے کہ یہ "سنگ و خشت" سے مختلف ہے۔گویا لفظ دل اس شعر میں فرق (difference) کے ذریعے معنی اخذ کرتا ہے۔
معنی کا التوا (Deferral)
اگر ہم "دل" کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہمیں اس کے متضاد، اس کے سیاق، اور اردو شاعری کی روایت میں دل کی اہمیت کو کھنگالنا پڑے گا — "دل گرفتہ"، "دل لگی"، "دل سوزی"، وغیرہ۔ اس سفر میں ہم ایک مطلب پر نہیں ٹھہرتے — ہر تشریح ہمیں کسی اور علامت یا متن کی طرف لے جاتی ہے۔ یعنی "دل" کا مطلب ہمیشہ موخر ہوتا ہے، کبھی مکمل طور پر حاضر نہیں ہوتا۔
زبان اور جذبات کا کھیل ( Signifiers of Play)
دریدا کے مطابق زبان ایک ایسا نظام ہے جس میں نشانات (signifiers) ایک دوسرے سے مسلسل جڑے ہوتے ہیں، مگر کسی signified (حتمی مطلب) پر ختم نہیں ہوتے۔"روئیں گے ہم ہزار بار"، یہاں "روئیں گے", "ہزار بار", "ستائے" یہ سب اپنے لغوی مفاہیم سے کہیں آگے بڑھ کر علامتی ہو جاتے ہیں۔ قاری کا تجربہ، سماجی سیاق، اور جذباتی وابستگی ان کے معنی کو متاثر کرتے ہیں، مگر یہ معنی کبھی مکمل نہیں ہوتے، بلکہ ہر قاری کے لیے ذرا مختلف، اور
کبھی مکمل نہیں ہوتے۔ اگر کلاسیکی تنقید میں "محبت" یا "غم" کو شعر کا مرکز مانا جاتا، تو دریدا کہتا ہے کہ ایسا کوئی مرکز مستقل نہیں۔ معنی کا یہ مرکز بھی ایک تصوراتی مرکز ہے، جو صرف عارضی طور پر ساخت کو استحکام دیتا ہے۔جب قاری اس مرکز کو چیلنج کرتا ہے، مثلاً یہ سوال کہ "کیوں روئیں گے؟"، "کون ستا رہا ہے؟"، "دل واقعی پتھر سے مختلف ہے یا محض بیان بازی ہے؟" تو یہ مرکز متزلزل ہو جاتا ہے، اور معنی کا کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ دریدا کے اس نظریے کے مطابق غالب کے اشعار کبھی ایک معنی تک محدود نہیں ہوتے۔ ان میں جو زبان برتی گئی ہے، وہ ہمیشہ "فرق" اور "التوا" کا شکار رہتی ہے۔ قاری ایک مطلب تلاش کرتا ہے، مگر اس کا مفہوم ہمیشہ آگے سرکتا جاتا ہے اورکبھی ہاتھ نہیں آتا۔ "Différance ایک سیاسی و فکری اشارہ بھی ہے۔ یہ تصور ہمیں بتاتا ہے کہ معنی کبھی "مقرر" نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ لغوی و ثقافتی نظام کے اندر گردش میں رہتے ہیں۔ دریدا کا یہ نظریہ یہ مرکزیت (logocentrism)، یعنی کسی "اصل" یا "مطلق" سچائی کی تلاش، کو چیلنج کرتا ہے۔
بریکولاژ (Bricolage)
دریدا نے یہ تصور مشہور ساختیاتی ماہر کلاؤڈ لیوی سٹراس (Strauss Lévi Claude)سے لیا ہے، جس کے مطابق ایک بریکیولیر (جگاڑ باز) مختلف شعبوں کے تصورات کو جوڑ کر نیا مفہوم بناتا ہے۔ جدید تحقیقی طریقہ کار بھی اسی طرح بین المضامین(interdisciplinary) ہوتا ہے۔یعنی ایک "bricoleur" (بریکیولیر) وہ شخص ہے جو پہلے سے موجود اشیاء، خیالات، یا نشانات کو نئے سیاق و سباق میں استعمال کرتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ کچھ بالکل نیا یا "اصل" تخلیق کرے۔ فرض کریں آپ کے پاس مختلف زبانوں کی پرانی کتابوں کے اقتباسات، تصاویر، علامتیں، اور کٹے پھٹے خیالات موجود ہیں۔ اب آپ ان سب کو جوڑ کر ایک نیا مضمون، نظم، یا آرٹ ورک بنا لیتے ہیں۔ یہی عمل بریکولاژ Bricolage کہلاتا ہے۔ مشہور ساختیاتی ماہر Strauss Lévi Claude نے Anthropological مطالعے میں بریکولاژ bricolage کو متعارف کرایا۔ اْس کے مطابق "Bricoleur وہ ہے جو اپنے ثقافتی نظام میں موجود مواد کو نئے معانی دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ سائنس دان (engineer) سے مختلف ہے، جو نئے وسائل اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ دریدا نے, اپنے مضمون and sign Play" "Structure میں بریکولاژ (bricolage) کو متعارف کرتے ہوئے کہا کہ: ہم سب، بطور قاری یا مصنف، دراصل bricoleurs ہیں کیوں کہ ہم ہمیشہ پہلے سے موجود نشانات اور نظام کو جوڑ کر ہی نئے خیالات تشکیل دیتے ہیں۔
اپوریا (Aporia)
Aporia ایک قدیم یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”راستے کا بند ہو جانا"، "غیر یقینی کیفیت"، یا "فکری تعطل" فلسفہ میں Aporia اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سوچ یا دلیل آگے نہیں بڑھ پاتی — یعنی تناقض، الجھن، یا غیر فیصلہ کن کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سقراط کے مکالمات میں اکثر مکالمہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا، بلکہ سوالات کی ایسی زنجیر بنتی ہے جس کا انجام فکری تعطل پر ہوتا ہے۔ یہی مقام aporia کہلاتا ہے۔ دریدا کے ہاں Aporia ایک مرکزی فکری تکنیک اور وجودی صورتِ حال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر تحریر، ہر متن اپنے اندر ایک ایساخلا یا تضاد رکھتا ہے، جو مکمل اور حتمی معنی تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس تضاد کو چھپانے کے بجائے ظاہر کرنا دریدا کی رد تشکیل کی حکمتِ عملی (Deconstruction) کا حصہ ہے۔ Aporia کے ذریعے دریدا معنی کا غیر استحکام دکھانا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی متن مکمل اور مستحکم معنی فراہم نہیں کرتا۔ معنی ہمیشہ آگے سرکتا ہے، ملتوی ہوتا ہے، اور متن خود اپنے آپ میں تناقض رکھتا ہے۔ دریدا حتمی جواب کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سوال کی مسلسل موجودگی ہی فکر کی اصل تحریک ہے۔ جب منٹو اپنے افسانے میں قاری کو کسی اخلاقی فیصلے تک نہیں پہنچنے دیتا — مثلاً "ٹھنڈا گوشت" یا "کھول دو" میں ایک اخلاقی aporia جنم لیتی ہے۔ یا اکبر الہ آبادی کے اشعار، جہاں جدیدیت اور روایت کے درمیان مزاحیہ مگر فکری تضاد موجود ہے، وہ بھی aporia کی ایک صورت ہے۔ یہ وہ الجھن ہے جو ڈیکنسٹرکشن کے بعد پیدا ہوتی ہے—جہاں کوئی حتمی معنی یا ڈھانچہ باقی نہیں رہتا۔ جیسے ہیملٹ (Hamlet)کا سوال To be or not to be ، یہ تصور یقین اور غیر یقین کے درمیان ڈولتا رہتا ہے۔
نشانوں کا کھیل ( Play of Signifiers)
ٖفرڈیننڈ ڈی سوسیور کے مطابق، زبان علامتوں (Signs) پر مشتمل ہے، جس میں Signifier (دال) او ر Signified (معنی یا مدلول) ہوتا ہے۔ لیکن دریدا کا خیال ہے کہ Signified (معنی) کبھی حتمی نہیں ہوتا، بلکہ Signifiers (الفاظ) ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں، جس سے معنی کا ایک لامتناہی کھیل (Endless play of meaning) بنتا ہے۔ روایتی تنقید میں مصنف کے ارادے (intention Author's) کو اہمیت دی جاتی تھی، لیکن دریداکے بعد متن خود اپنی تشریح کرتا ہے۔متن کی کھلی تشریح ( Open Interpretation) ہے۔ ہر پڑھنے والا متن کو اپنے طور پر سمجھتا ہے، اس لیے ایک حتمی معنی ممکن نہیں۔ ثنویت کا خاتمہ ادب میں اچھے /برے، حقیقی /فرضی جیسے تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔۔
"مصنف کی موت" (The Death of the Author) فرانسیسی فلسفی رولاں بارتھ کا ایک انقلابی تصور ہے جو 1967 میں سامنے آیا۔ یہ نظریہ جدید تنقید اور پس ساختیات (Structuralism Post) کا اہم ستون بن گیا۔ رولاں بارتھ کے مطابق، "مصنف کی موت ہی قاری کی پیدائش ہے"—یعنی کسی بھی ادبی تخلیق کی تشریح میں مصنف کے ارادوں ( Authorial Intent) کو مرکزی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔بارتھ نے 1967 میں اپنے مضمون The Death of the Author میں اعلان کیا کہ "مصنف صرف ایک 'اسکرپٹر' ہے، جبکہ اصل تخلیق قاری کے ذہن میں ہوتی ہے"۔
بارتھ کے نظریے کے بنیادی نکات
1. متن کی خودمختاری:
بارتھ کا کہنا ہے کہ "متن اپنی تشریح خود کرتا ہے"۔ مصنف کا ارادہ (Intention) غیر اہم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قرۃ العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" کو مصنفہ کے بغیر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
2. قاری کی تخلیقی طاقت:
ہر قاری اپنے تجربات اور ثقافت کی بنیاد پر متن کے نئے معنی تخلیق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی نظم "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" کو کسی نے سیاسی، کسی نے عشقیہ اور کسی نے صوفیانہ طور پر سمجھا۔
3. بین المتونیّت (Intertextuality):
بارتھ کے مطابق، ہر متن دوسرے متون سے گفتگو کرتا ہے۔ مصنف صرف پہلے سے موجود علامتوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتا ہے۔مثال کے طور پر انتظار حسین کے ناول "بستی" میں مہابھارت اور جدید تاریخ کے حوالے آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔
کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ عملی زندگی میں بے معنی ہے، کیوں کہ معاشرے کو کچھ مستحکم اقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں نے اسے ادبی اور فلسفیانہ آزادی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ژاک دریدا کا فلسفہ یقینیت (Certainty) کے خلاف ایک طاقتور ردعمل ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقت کبھی ایک جامع شے نہیں، بلکہ ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ مصنف کی موت" (The Death of the Author) کا تصور رولاں بارتھ نے پیش کیا، جب کہ ژاک دریدا نے رد تشکیل (Deconstruction) کے ذریعے متن کی تشریح کے نئے دروازے کھولے۔ دونوں نظریات کا مرکز یہ ہے کہ "متن کی تشریح میں مصنف کا ارادہ (Intent Authorial) حتمی نہیں ہوتا"۔ دریدا نے اس خیال کو فلسفیانہ گہرائی دے کر لسانیات، مابعدالطبیعیات اور ثنوی مخالفتوں کےتناظر میں استوار کیا۔ دریدا کا "مصنف کی موت" سے ربط متن کی خودمختاری ( Text of Autonomy) ہے۔ بارتھ کہتے ہیں: "مصنف کی موت کے بعد ہی متن زندہ ہوتا ہے"۔ دریدا اسے آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: "متن کا کوئی مستقل مرکز نہیں، بلکہ یہ علامتوں (Signifiers) کا ایک کھیل ہے"۔ مثال: قرۃالعین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" کو مصنفہ کے بیان کردہ مقاصد سے ہٹ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے، کیوں کہ متن کے معنی قاری کے تجربات سے بدلتے رہتے ہیں۔
"مصنف کی موت" کا تصور قاری کو تخلیقی عمل کا حصہ بناتا ہے۔ مثال کے طور پر ن م راشد کی نظم "حسن کوزہ گر" ہر قاری کے لیے ایک نئی تعبیر پیش کرتی ہے۔
1. نظم کا متن (اقتباس)
جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلث قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلث قدیم کو میں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن ترا ہی رنگ تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
میں سیل نور اندروں سے دھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے 'تو' ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصال رہ گزر کی نا گہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمت راہ نو کی کامرانیاں ملیں
میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟
جہاں زاد
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
شب گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!
"وہ جو کوزے گھڑتا تھا۔۔۔
اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں
کچھ اور ہی نقش تھے
جنھیں ہم پڑھ نہ سکے۔۔۔"
اس نظم کی روایتی تشریح "حسن کوزہ گر" کو ایک صوفیانہ شخضیت یا فنکار کی تنہائی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ لیکن رد تشکیل کی تنقید کی رو شنی میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس نظم میں ن ۔م ۔راشد نے کسی ایک مرکزی خیال کو مسلط نہیں کیا۔ نظم کے "نقوش" کا مطلب کوزے، ہاتھ کی لکیریں، یا پڑھنے کی ناکامی سب غیر مستحکم علامتیں (Signifiers Floating) ہیں۔
"کچھ اور ہی نقش تھے" میں "اور" کا لفظ فرق (Difference) اور التوا (Deferral) دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ قاری "نقش" کا مطلب ڈھونڈتا ہے، لیکن نظم اسے حتمی جواب نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر کیا "نقش" سے مراد فنکار کا درد ہے؟ سماجی ظلم؟ یا محض لفظوں کا کھیل؟
روایتی ثنویت میں فنکار/سماج، سمجھنا/نہ سمجھنا۔ شامل ہے۔نظریہ رد تشکیل کی روشنی میں راشد ان جوڑوں کو توڑتے ہیں۔ "ہم پڑھ نہ سکے"—کیا یہ قاری کی کمزوری ہے یا فنکار کے پیغام کی ابہامی پہلو؟ "کوزہ گر" خود بھی خالق (مصنف) اور مخلوق (کوزہ) کے درمیان کی ثنویت کو چیلنج کرتا ہے۔
راشد نے کوزہ گر کو مصنف اور کوزے کو متن کے طور پر پیش کیا ہے۔ "ہم پڑھ نہ سکے"—یہ مصنف کے ارادے کی ناکامی نہیں، بلکہ تفسیر کی لامتناہی ممکنات کی طرف اشارہ ہے۔
نظم صوفیانہ روایت (رومی کا "خاموشی میں سنو") اور جدیدیت (ٹی. ایس. الیٹ کا "دی ویسٹ لینڈ") دونوں سے گفتگو کرتی ہے۔ "ہاتھوں کی لکیریں " قدیم فال گیری اور جدید جبر کی علامت دونوں ہو سکتی ہیں۔
"حسن کوزہ گر" ایک غیر مرکزی (Decentered) متن ہے جس کا کوئی ایک مطلب نہیں۔ دریدا کے "کھیل (Play)" کے تصور کی عملی مثال: "نقش" کا کھیل قاری کو تخلیقی طور پر الجھاتا اور آزاد کرتا ہے۔ ن م راشد کی یہ نظم رد تشکیل کا بہترین نمونہ ہے، جہاں لفظ معنی سے بازیچہ بن جاتے ہیں، اور قاری ہر بار نئی تعبیر تخلیق کرتا ہے۔
دریدا اور بارتھ دونوں نے متن کی آزادی پر زور دیا، لیکن دریدا نے اسے فلسفیانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ دریدا کا رد تشکیل کا نظریہ اور بارتھ کا "مصنف کی موت" کا تصوردرحقیقت ادب کو جمہوری بناتے ہیں۔جہاں ہر قاری اپنا مصنف بن جاتا ہے، اور ہر متن ایک کھلی کتاب۔ ساختیات (سٹرکچرلزم) سے رد تشکیل (ڈیکنسٹرکشن) تک فرڈیننڈ ڈی سسیور کے لسانی نظریات، خاص طور پر علامتی نظام (System Sign) کا تصور، دریدا کے فلسفے کی بنیاد بنا۔ سسیور نے زبان کو علامتوں (Signs) کا ایک نظام قرار دیا، جہاں Signifier (لفظ/صوتی شکل) اور Signified (معنی/تصور)کے درمیان تعلق اعتباطی (Arbitrary) ہوتا ہے۔ دریدا نے اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ معنی کبھی حتمی نہیں ہوتا، بلکہ دوسری علامتوں کے ساتھ فرق (Difference) اور التوا (Deferral) پر مبنی ہوتا ہے، جسے انہوں نے "Différance" کا نام دیا۔
فرڈیننڈ ڈی سسیور نے "ٹرانسینڈنٹل سگنیفائیڈ" (ایک مستقل اور غیر متبدل معنی) کا تصور پیش کیا، جب کہ دریدا نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر سگنیفائیڈ خود ایک سگنیفائر بن جاتا ہے، اور معنی کی کوئی حتمی منزل نہیں۔ دریدا نے فرڈیننڈ ڈی سسیور کے لسانی ڈھانچوں کو تنقیدی طور پر اپنایا، لیکن انہیں عدم استحکام، مرکز کے انکار، اور معنی کی کثرت کے ذریعے رد تشکیل کے فلسفے میں تبدیل کر دیا۔ فرڈیننڈ ڈی سسیور کی ساختیات دریدا کی پس ساختیات (-Structuralism Post) کی بنیاد بنی، جس نے مغربی فلسفے کو ایک نئی سمت دی۔
دریدا کا نظریہ رد تشکیل متن کی مرکزیت، ثنوی مخالفتوں اور حتمی معنی کے تصور کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ نظریہ اردو ادب کی تنقید میں بھی اہم اثرات رکھتا ہے، اور اردو ادب کو ایک کھلی تفہیم دیتا ہے، جہاں متن قاری کے ساتھ مل کر معنی بناتا ہے۔ یہ نظریہ جدید اردو ادب اور تنقید کا اہم حصہ بن چکا ہے۔
کتابیات
Lawlor, Leonard 2019, ''Jacques Derrida'', in Zalta, Edward N. ed., The Stanford Encyclopedia of Philosophy , Metaphysics Research Lab, Stanford University, retrieved 11 April 2020
'' Allison, David B.; Garver, Newton 1973. Speech and Phenomena and Other Essays on Husserl's Theory of Signs 5th ed.. Evanston: Northwestern University Press. ISBN 978-0810103979.
Morris, Rosalind C. 2007 ''Legacies of Derrida: Anthropology''. Annual Review of Anthropology. 36 (1): 355–389. doi:10.1146/annurev.anthro.36.081406.094357.
Munslow, Alan 1997 ''Deconstructing History'' PDF). Institute of Historical Research.
Busch, Brigitta 2012 ''The Linguistic Repertoire Revisited''. Applied Linguistics. 33 (5): 503–523.
Cobussen, Marcel 2002. ''Deconstruction in Music. The Jacques Derrida – Gerd Zacher Encounter'' (PDF). Thinking Sounds. Archived (
Douglas, Christopher 1997. ''Glossary of Literary Theory''. University of Toronto English Library.
Kandell, Jonathan 2004 . ''Jacques Derrida, Abstruse Theorist, Dies at 74''. The New York Times.
Derrida, Jacques 1997 . Of Grammatology. Translated by Gayatri Chakravorty Spivak. Baltimore: Johns Hopkins University Press. ISBN 978-0801858307.
: یہ دریدا کی سب سے مشہور کتاب ہے جس میں وہ مغربی فلسفے میں تقریر (کے تصور کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ رد تشکیل کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
ژاک دریدا کا نظریہ رد تشکیل اوراردو ادب کی تنقید
علی رفاد فتیحی
fatihi.ar@gmail.com
ژاک دریدا (Derrida Jacques) بیسویں صدی کے ایک اہم فرانسیسی فلسفی تھے جنھوں نے فلسفہ، تنقید، لسانیات اور ادبیات کے میدان میں نئے نظریاتی در وا کیے۔ ان کا سب سے معروف نظریہ "ردِ تشکیل" (Deconstruction) ہے، جو نہ صرف مغربی فلسفے کی بنیاد پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ متن کی قرات، معنی کی تشکیل، اور زبان کے ڈھانچے کو بھی نئے زاویوں سے دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ردِ تشکیل کوئی روایتی تنقیدی طریقہ کار نہیں ہے جو کسی متن کو صرف تحلیل یا تشریح کرنے کے لیے استعمال ہو بلکہ یہ ایک نظریاتی اور فلسفیانہ عمل ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ کسی بھی متن میں مکمل معنویت یا حتمی سچائی ممکن نہیں۔ دریداکے نزدیک ہر متن میں تضاد، التواء اور غیر یقینی معنی کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ متن خود اپنے خلاف دلائل فراہم کرتا ہے اور یہ تضادات ہی متن کی گہرائیوں کو عیاں کرتے ہیں۔ ژاک دریدا (Derrida Jacques) نے 1966 میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اپنے مشہور خطاب "سٹرکچر، سائن اینڈ پلے ان دی ڈسکورس آف ہیومن سائنسز" کے ذریعے ادبی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اس مضمون نے رد تشکیل (ڈی کنسٹرکشن)کے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی۔ اس میں دریدانے سٹرکچرلزم کے بعض بنیادی اصولوں پر تنقید کی اور ایک ایسا فلسفہ پیش کیا جو تمام کلاسیکی مفروضوں کو چیلنج کرتا ہے۔
ژاک دریدا (Derrida Jacques) کا مرکزیت (لوگوسینٹرزم) پر تنقید
ژاک دریدانے مشاہدہ کیا کہ مغربی سائنس اور فلسفے کے ڈھانچوں کی ساخت کو ایک مرکز کے ذریعے غیر جانبدار بنا دیا گیا ہے، جو اس ساخت کو استحکام اور معنی عطا کرتا ہے، مگر دراصل یہ مرکز خود ساخت کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ ایک خارجی نقط حوالہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ژاک دریدا کے مطابق، یہ مرکز 'ساخت' کے تمام عناصر کو ایک ترتیب میں رکھتا ہے، لیکن خود کو تبدیلی سے مبرا سمجھا جاتا ہے۔دریدا نے اس مرکزیت (logocentrism) پر تنقید کی اور اس تصور کو چیلنج کیا کہ کوئی بھی متن یا نظامِ فکر کسی قطعی اور حتمی معنی یا مرکز پر قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے مطابق، مرکز کا یہ تصور دراصل ساختیاتی نظاموں کو جمود میں رکھتا ہے اور معنی کے سیال اور متحرک ہونے کی نوعیت کو محدود کرتا ہے۔دریدا نے اپنی مشہور تقریر "ساخت، علامت اور کھیل کی دنیا میں مرکز کا خاتمہ" (1966) میں کہا تھا کہ مغرب کی فکری روایت ہمیشہ کسی نہ کسی "مرکز" جیسے خدا، سچائی، عقل، فطرت، وغیرہ کی تلاش میں رہی ہے تاکہ معنویت کو استحکام دیا جا سکے۔ مگر جب یہ مرکز ختم ہو جاتا ہے یا سوال کی زد میں آتا ہے، تب "کھیل" (play) شروع ہوتا ہے۔ یعنی معنی کی لامحدود تولید، جو کسی ایک مرکز پر منحصر نہیں ہوتی۔مرکز کوتمام معنی کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ اس مرکز کے بغیر کوئی ڈھانچہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ مرکز ڈھانچے کے اندر قواعد (گرامر) طے کرتا ہے، جو معنی کو کچھ حد تک لچک دیتا ہے لیکن اس کی ازحد تشریح کو بھی محدود کرتا ہے۔ ژاک دریدا کا کہنا ہے کہ "مرکز ڈھانچے کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ یہ ایک تضاد ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم "مرد" کی تعریف کریں، تو ہمیں "عورت" کی ضد بنا کر اسے سمجھنا پڑتا ہے (فرڈی ننڈڈی سوسور کا نظریہ کہ زبان صرف فرق کی بنیاد پر کام کرتی ہے)۔ اس طرح، ڈھانچے کا مرکز اندر اور باہر دونوں جگہ موجود ہوتا ہے۔ ژاک دریداکا مقصد ایسے کلاسیکی مغربی ڈھانچوں کے "مرکز زدہ ہونے" کو چیلنج کرنا ہے، جس
سے معنی کی متعدد تشریحات ممکن ہو جاتی ہیں۔
1. لوگو سینٹرزم (Logocentrism)
دریدا نے اپنی کتاب "گراماتولوجی" میں واضح کیا کہ مغربی علم "لفظ" کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی وضاحت بائبل (گاسپل آف جان) کے اس افتتاحی جملے کہ In the beggining was the word میں نظر آتی ہے۔ "مرکز کی یہ خواہش" لوگو سینٹرزم کہلاتی ہے، جس میں بولے جانے والے لفظ کو تحریر پر فوقیت دی جاتی ہے کیوں کہ بولنے والے کی موجودگی معنی کو یقینی بناتی ہے۔ ژاک دریدااسے "تشدد آمیز درجہ بندی" کہتے ہیں، دریدا کے مطابق، مغربی فکر میں اکثر Binary Oppositions (ثنویت) کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے: عقل / جذبات، تقریر / تحریر، مرد / عورت۔ ان میں ہمیشہ ایک عنصر کو مرکزی حیثیت (dominant) حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کو حاشیہ پر (marginalized) رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق محض غیر جانبدار نہیں بلکہ تشدد آمیز (violent) ہوتی ہے، کیوں کہ ایک شے کو دوسرے پر برتری دے کر ایک استعماری یا جابرانہ نظام قائم کیا جاتا ہے۔ اور یہ غیر مساوی تعلقات قائم کرتی ہے۔ یہ کسی ایک تصور کو فطری یا مقدس بنا کر دوسرے کو کمتر، جھوٹا، یا غیر فطری ٹھہراتی ہے۔ یہ فکر، زبان، اور سماجی ڈھانچوں میں طاقت کی موجودگی کو چھپاتی ہے۔ دریدا ان تشدد آمیز درجہ بندیوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں ان بائنری اپوزیشنز کو deconstruct کرنا چاہیے۔ حاشیے پر رکھے گئے تصورات کو مرکز میں لا کر، زبان اور فکر میں مساوات اور کثیرالمعنویت (plurality) پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر’تقریر‘ (Speech) کو ہمیشہ’تحریر‘ (Writing) پر ترجیح دی گئی، گویا کہ تقریر زیادہ سچی یا "موجودگی" کی علامت ہے۔ دریدا کا خیال ہے کہ یہ درجہ بندی خود ساختہ ہے، اور ہمیں تحریر کو اس کے اپنے جواز کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ تشدد آمیز درجہ بندی" دریدا کے نزدیک وہ فکری یا ثقافتی طریقہ ہے جس کے ذریعے ایک تصور کو دوسرے پر مسلط کیا جاتا ہے۔ یہ فلسفیانہ، لسانی اور سماجی سطح پر جبر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دریدا کا رد تشکیل کا طریقہ کار اسی جبر کو توڑنے اور متبادل معنویت کو ابھرنے کا موقع دینے کی کوشش ہے۔
تفاوت (ڈیفرانس Différance)
یہ فرانسیسی لفظ différer (فرق ہونا / ملتوی ہونا) سے نکلا ہے۔ ژاک دریداکے مطابق، تحریری علامت کا مطلب ہمیشہ موخر اور دوسری علامتوں کے فرق پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، "جام" کے مختلف معانی ہو سکتے ہیں (مربہ، راستے کی رکاوٹ، موسیقی کا اجتما)، لیکن ہر معنی دوسرے الفاظ سے وابستہ ہوتا ہے، جو لامتناہی طور پر ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ Différance دریدا کی وضع کردہ ایک نئی اصطلاح ہے، جو فرانسیسی لفظ "différence" (فرق) سے مشابہ کاغذ"، یا "دفتر" سے مختلف ہے۔ جب بھی ہم کسی لفظ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم لازماً مزید الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ الفاظ بھی اپنے مطلب کو کسی اور لفظ کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ یوں، مکمل معنی کبھی ہاتھ نہیں آتا، وہ ہمیشہ ایک قدم آگے ہوتا ہے گویا معنی کبھی "مکمل طور پر حاضر" نہیں ہوتا، بلکہ مسلسل التوا میں رہتا ہے۔
Différance کا کھیل:
دریدا نے جان بوجھ کر یہ لفظ تخلیق کیا کیونکہ فرانسیسی میں différance اور différence کی ادائیگی ایک جیسی ہے یعنی سننے والا ان میں فرق نہیں کر سکتا، فرق صرف تحریری شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی زبان کی فطرت ہے: سننے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں معنی مل گیا، لیکن تحریر ہمیں اس کی غیر موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ مثلاً غالب کا شعر دیکھیے:
"ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے"
یہاں "خواہش" کا مطلب صرف اس کی لغوی تعریف سے نہیں، بلکہ اس کے تناظر، دیگر اشعار، اور ہمارے سابقہ تجربات سے متعین ہوتا ہے۔ اور پھر بھی، اس کا مطلب مکمل طور پر گرفت میں نہیں آتا، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ تشریح طلب رہتا ہے، یعنی مسلسل التوا میں۔ چلیے دریدا کے نظریہ différance اور معنی کے التوا کو اردو ادب کے ایک مخصوص متنی تجزیے میں بروئے کار لاتے ہیں۔ ہم مثال کے طور پر مرزا اسد اللہ خان غالب کے اس شعر کو لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ دریدا کی فکر کس طرح اس پر لاگو ہوتی ہے۔
"دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں "
اس شعر میں "دل" بظاہر ایک سادہ سا لفظ ہے، جو جذبات، محبت، احساسات یا رنجشوں کی علامت کے طور پر آتا ہے۔ مگر اگر ہم دریدا کی روشنی میں دیکھیں، تو لفظ "دل" اپنا کوئی حتمی یا مستحکم معنی نہیں رکھتا۔ یہ لفظ اس وجہ سے معنی خیز ہے کہ یہ "سنگ و خشت" سے مختلف ہے۔گویا لفظ دل اس شعر میں فرق (difference) کے ذریعے معنی اخذ کرتا ہے۔
معنی کا التوا (Deferral)
اگر ہم "دل" کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہمیں اس کے متضاد، اس کے سیاق، اور اردو شاعری کی روایت میں دل کی اہمیت کو کھنگالنا پڑے گا — "دل گرفتہ"، "دل لگی"، "دل سوزی"، وغیرہ۔ اس سفر میں ہم ایک مطلب پر نہیں ٹھہرتے — ہر تشریح ہمیں کسی اور علامت یا متن کی طرف لے جاتی ہے۔ یعنی "دل" کا مطلب ہمیشہ موخر ہوتا ہے، کبھی مکمل طور پر حاضر نہیں ہوتا۔
زبان اور جذبات کا کھیل ( Signifiers of Play)
دریدا کے مطابق زبان ایک ایسا نظام ہے جس میں نشانات (signifiers) ایک دوسرے سے مسلسل جڑے ہوتے ہیں، مگر کسی signified (حتمی مطلب) پر ختم نہیں ہوتے۔"روئیں گے ہم ہزار بار"، یہاں "روئیں گے", "ہزار بار", "ستائے" یہ سب اپنے لغوی مفاہیم سے کہیں آگے بڑھ کر علامتی ہو جاتے ہیں۔ قاری کا تجربہ، سماجی سیاق، اور جذباتی وابستگی ان کے معنی کو متاثر کرتے ہیں، مگر یہ معنی کبھی مکمل نہیں ہوتے، بلکہ ہر قاری کے لیے ذرا مختلف، اور
کبھی مکمل نہیں ہوتے۔ اگر کلاسیکی تنقید میں "محبت" یا "غم" کو شعر کا مرکز مانا جاتا، تو دریدا کہتا ہے کہ ایسا کوئی مرکز مستقل نہیں۔ معنی کا یہ مرکز بھی ایک تصوراتی مرکز ہے، جو صرف عارضی طور پر ساخت کو استحکام دیتا ہے۔جب قاری اس مرکز کو چیلنج کرتا ہے، مثلاً یہ سوال کہ "کیوں روئیں گے؟"، "کون ستا رہا ہے؟"، "دل واقعی پتھر سے مختلف ہے یا محض بیان بازی ہے؟" تو یہ مرکز متزلزل ہو جاتا ہے، اور معنی کا کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ دریدا کے اس نظریے کے مطابق غالب کے اشعار کبھی ایک معنی تک محدود نہیں ہوتے۔ ان میں جو زبان برتی گئی ہے، وہ ہمیشہ "فرق" اور "التوا" کا شکار رہتی ہے۔ قاری ایک مطلب تلاش کرتا ہے، مگر اس کا مفہوم ہمیشہ آگے سرکتا جاتا ہے اورکبھی ہاتھ نہیں آتا۔ "Différance ایک سیاسی و فکری اشارہ بھی ہے۔ یہ تصور ہمیں بتاتا ہے کہ معنی کبھی "مقرر" نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ لغوی و ثقافتی نظام کے اندر گردش میں رہتے ہیں۔ دریدا کا یہ نظریہ یہ مرکزیت (logocentrism)، یعنی کسی "اصل" یا "مطلق" سچائی کی تلاش، کو چیلنج کرتا ہے۔
بریکولاژ (Bricolage)
دریدا نے یہ تصور مشہور ساختیاتی ماہر کلاؤڈ لیوی سٹراس (Strauss Lévi Claude)سے لیا ہے، جس کے مطابق ایک بریکیولیر (جگاڑ باز) مختلف شعبوں کے تصورات کو جوڑ کر نیا مفہوم بناتا ہے۔ جدید تحقیقی طریقہ کار بھی اسی طرح بین المضامین(interdisciplinary) ہوتا ہے۔یعنی ایک "bricoleur" (بریکیولیر) وہ شخص ہے جو پہلے سے موجود اشیاء، خیالات، یا نشانات کو نئے سیاق و سباق میں استعمال کرتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ کچھ بالکل نیا یا "اصل" تخلیق کرے۔ فرض کریں آپ کے پاس مختلف زبانوں کی پرانی کتابوں کے اقتباسات، تصاویر، علامتیں، اور کٹے پھٹے خیالات موجود ہیں۔ اب آپ ان سب کو جوڑ کر ایک نیا مضمون، نظم، یا آرٹ ورک بنا لیتے ہیں۔ یہی عمل بریکولاژ Bricolage کہلاتا ہے۔ مشہور ساختیاتی ماہر Strauss Lévi Claude نے Anthropological مطالعے میں بریکولاژ bricolage کو متعارف کرایا۔ اْس کے مطابق "Bricoleur وہ ہے جو اپنے ثقافتی نظام میں موجود مواد کو نئے معانی دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ سائنس دان (engineer) سے مختلف ہے، جو نئے وسائل اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ دریدا نے, اپنے مضمون and sign Play" "Structure میں بریکولاژ (bricolage) کو متعارف کرتے ہوئے کہا کہ: ہم سب، بطور قاری یا مصنف، دراصل bricoleurs ہیں کیوں کہ ہم ہمیشہ پہلے سے موجود نشانات اور نظام کو جوڑ کر ہی نئے خیالات تشکیل دیتے ہیں۔
اپوریا (Aporia)
Aporia ایک قدیم یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”راستے کا بند ہو جانا"، "غیر یقینی کیفیت"، یا "فکری تعطل" فلسفہ میں Aporia اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سوچ یا دلیل آگے نہیں بڑھ پاتی — یعنی تناقض، الجھن، یا غیر فیصلہ کن کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سقراط کے مکالمات میں اکثر مکالمہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا، بلکہ سوالات کی ایسی زنجیر بنتی ہے جس کا انجام فکری تعطل پر ہوتا ہے۔ یہی مقام aporia کہلاتا ہے۔ دریدا کے ہاں Aporia ایک مرکزی فکری تکنیک اور وجودی صورتِ حال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر تحریر، ہر متن اپنے اندر ایک ایساخلا یا تضاد رکھتا ہے، جو مکمل اور حتمی معنی تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس تضاد کو چھپانے کے بجائے ظاہر کرنا دریدا کی رد تشکیل کی حکمتِ عملی (Deconstruction) کا حصہ ہے۔ Aporia کے ذریعے دریدا معنی کا غیر استحکام دکھانا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی متن مکمل اور مستحکم معنی فراہم نہیں کرتا۔ معنی ہمیشہ آگے سرکتا ہے، ملتوی ہوتا ہے، اور متن خود اپنے آپ میں تناقض رکھتا ہے۔ دریدا حتمی جواب کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سوال کی مسلسل موجودگی ہی فکر کی اصل تحریک ہے۔ جب منٹو اپنے افسانے میں قاری کو کسی اخلاقی فیصلے تک نہیں پہنچنے دیتا — مثلاً "ٹھنڈا گوشت" یا "کھول دو" میں ایک اخلاقی aporia جنم لیتی ہے۔ یا اکبر الہ آبادی کے اشعار، جہاں جدیدیت اور روایت کے درمیان مزاحیہ مگر فکری تضاد موجود ہے، وہ بھی aporia کی ایک صورت ہے۔ یہ وہ الجھن ہے جو ڈیکنسٹرکشن کے بعد پیدا ہوتی ہے—جہاں کوئی حتمی معنی یا ڈھانچہ باقی نہیں رہتا۔ جیسے ہیملٹ (Hamlet)کا سوال To be or not to be ، یہ تصور یقین اور غیر یقین کے درمیان ڈولتا رہتا ہے۔
نشانوں کا کھیل ( Play of Signifiers)
ٖفرڈیننڈ ڈی سوسیور کے مطابق، زبان علامتوں (Signs) پر مشتمل ہے، جس میں Signifier (دال) او ر Signified (معنی یا مدلول) ہوتا ہے۔ لیکن دریدا کا خیال ہے کہ Signified (معنی) کبھی حتمی نہیں ہوتا، بلکہ Signifiers (الفاظ) ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں، جس سے معنی کا ایک لامتناہی کھیل (Endless play of meaning) بنتا ہے۔ روایتی تنقید میں مصنف کے ارادے (intention Author's) کو اہمیت دی جاتی تھی، لیکن دریداکے بعد متن خود اپنی تشریح کرتا ہے۔متن کی کھلی تشریح ( Open Interpretation) ہے۔ ہر پڑھنے والا متن کو اپنے طور پر سمجھتا ہے، اس لیے ایک حتمی معنی ممکن نہیں۔ ثنویت کا خاتمہ ادب میں اچھے /برے، حقیقی /فرضی جیسے تصورات کو چیلنج کرتا ہے۔۔
"مصنف کی موت" (The Death of the Author) فرانسیسی فلسفی رولاں بارتھ کا ایک انقلابی تصور ہے جو 1967 میں سامنے آیا۔ یہ نظریہ جدید تنقید اور پس ساختیات (Structuralism Post) کا اہم ستون بن گیا۔ رولاں بارتھ کے مطابق، "مصنف کی موت ہی قاری کی پیدائش ہے"—یعنی کسی بھی ادبی تخلیق کی تشریح میں مصنف کے ارادوں ( Authorial Intent) کو مرکزی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔بارتھ نے 1967 میں اپنے مضمون The Death of the Author میں اعلان کیا کہ "مصنف صرف ایک 'اسکرپٹر' ہے، جبکہ اصل تخلیق قاری کے ذہن میں ہوتی ہے"۔
بارتھ کے نظریے کے بنیادی نکات
1. متن کی خودمختاری:
بارتھ کا کہنا ہے کہ "متن اپنی تشریح خود کرتا ہے"۔ مصنف کا ارادہ (Intention) غیر اہم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قرۃ العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" کو مصنفہ کے بغیر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
2. قاری کی تخلیقی طاقت:
ہر قاری اپنے تجربات اور ثقافت کی بنیاد پر متن کے نئے معنی تخلیق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی نظم "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" کو کسی نے سیاسی، کسی نے عشقیہ اور کسی نے صوفیانہ طور پر سمجھا۔
3. بین المتونیّت (Intertextuality):
بارتھ کے مطابق، ہر متن دوسرے متون سے گفتگو کرتا ہے۔ مصنف صرف پہلے سے موجود علامتوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتا ہے۔مثال کے طور پر انتظار حسین کے ناول "بستی" میں مہابھارت اور جدید تاریخ کے حوالے آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔
کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ عملی زندگی میں بے معنی ہے، کیوں کہ معاشرے کو کچھ مستحکم اقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں نے اسے ادبی اور فلسفیانہ آزادی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ژاک دریدا کا فلسفہ یقینیت (Certainty) کے خلاف ایک طاقتور ردعمل ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقت کبھی ایک جامع شے نہیں، بلکہ ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ مصنف کی موت" (The Death of the Author) کا تصور رولاں بارتھ نے پیش کیا، جب کہ ژاک دریدا نے رد تشکیل (Deconstruction) کے ذریعے متن کی تشریح کے نئے دروازے کھولے۔ دونوں نظریات کا مرکز یہ ہے کہ "متن کی تشریح میں مصنف کا ارادہ (Intent Authorial) حتمی نہیں ہوتا"۔ دریدا نے اس خیال کو فلسفیانہ گہرائی دے کر لسانیات، مابعدالطبیعیات اور ثنوی مخالفتوں کےتناظر میں استوار کیا۔ دریدا کا "مصنف کی موت" سے ربط متن کی خودمختاری ( Text of Autonomy) ہے۔ بارتھ کہتے ہیں: "مصنف کی موت کے بعد ہی متن زندہ ہوتا ہے"۔ دریدا اسے آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: "متن کا کوئی مستقل مرکز نہیں، بلکہ یہ علامتوں (Signifiers) کا ایک کھیل ہے"۔ مثال: قرۃالعین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" کو مصنفہ کے بیان کردہ مقاصد سے ہٹ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے، کیوں کہ متن کے معنی قاری کے تجربات سے بدلتے رہتے ہیں۔
"مصنف کی موت" کا تصور قاری کو تخلیقی عمل کا حصہ بناتا ہے۔ مثال کے طور پر ن م راشد کی نظم "حسن کوزہ گر" ہر قاری کے لیے ایک نئی تعبیر پیش کرتی ہے۔
1. نظم کا متن (اقتباس)
جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلث قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلث قدیم کو میں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلث قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن ترا ہی رنگ تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
میں سیل نور اندروں سے دھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے 'تو' ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصال رہ گزر کی نا گہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمت راہ نو کی کامرانیاں ملیں
میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟
جہاں زاد
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
شب گنہ کی لذتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!
"وہ جو کوزے گھڑتا تھا۔۔۔
اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں
کچھ اور ہی نقش تھے
جنھیں ہم پڑھ نہ سکے۔۔۔"
اس نظم کی روایتی تشریح "حسن کوزہ گر" کو ایک صوفیانہ شخضیت یا فنکار کی تنہائی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ لیکن رد تشکیل کی تنقید کی رو شنی میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس نظم میں ن ۔م ۔راشد نے کسی ایک مرکزی خیال کو مسلط نہیں کیا۔ نظم کے "نقوش" کا مطلب کوزے، ہاتھ کی لکیریں، یا پڑھنے کی ناکامی سب غیر مستحکم علامتیں (Signifiers Floating) ہیں۔
"کچھ اور ہی نقش تھے" میں "اور" کا لفظ فرق (Difference) اور التوا (Deferral) دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ قاری "نقش" کا مطلب ڈھونڈتا ہے، لیکن نظم اسے حتمی جواب نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر کیا "نقش" سے مراد فنکار کا درد ہے؟ سماجی ظلم؟ یا محض لفظوں کا کھیل؟
روایتی ثنویت میں فنکار/سماج، سمجھنا/نہ سمجھنا۔ شامل ہے۔نظریہ رد تشکیل کی روشنی میں راشد ان جوڑوں کو توڑتے ہیں۔ "ہم پڑھ نہ سکے"—کیا یہ قاری کی کمزوری ہے یا فنکار کے پیغام کی ابہامی پہلو؟ "کوزہ گر" خود بھی خالق (مصنف) اور مخلوق (کوزہ) کے درمیان کی ثنویت کو چیلنج کرتا ہے۔
راشد نے کوزہ گر کو مصنف اور کوزے کو متن کے طور پر پیش کیا ہے۔ "ہم پڑھ نہ سکے"—یہ مصنف کے ارادے کی ناکامی نہیں، بلکہ تفسیر کی لامتناہی ممکنات کی طرف اشارہ ہے۔
نظم صوفیانہ روایت (رومی کا "خاموشی میں سنو") اور جدیدیت (ٹی. ایس. الیٹ کا "دی ویسٹ لینڈ") دونوں سے گفتگو کرتی ہے۔ "ہاتھوں کی لکیریں " قدیم فال گیری اور جدید جبر کی علامت دونوں ہو سکتی ہیں۔
"حسن کوزہ گر" ایک غیر مرکزی (Decentered) متن ہے جس کا کوئی ایک مطلب نہیں۔ دریدا کے "کھیل (Play)" کے تصور کی عملی مثال: "نقش" کا کھیل قاری کو تخلیقی طور پر الجھاتا اور آزاد کرتا ہے۔ ن م راشد کی یہ نظم رد تشکیل کا بہترین نمونہ ہے، جہاں لفظ معنی سے بازیچہ بن جاتے ہیں، اور قاری ہر بار نئی تعبیر تخلیق کرتا ہے۔
دریدا اور بارتھ دونوں نے متن کی آزادی پر زور دیا، لیکن دریدا نے اسے فلسفیانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ دریدا کا رد تشکیل کا نظریہ اور بارتھ کا "مصنف کی موت" کا تصوردرحقیقت ادب کو جمہوری بناتے ہیں۔جہاں ہر قاری اپنا مصنف بن جاتا ہے، اور ہر متن ایک کھلی کتاب۔ ساختیات (سٹرکچرلزم) سے رد تشکیل (ڈیکنسٹرکشن) تک فرڈیننڈ ڈی سسیور کے لسانی نظریات، خاص طور پر علامتی نظام (System Sign) کا تصور، دریدا کے فلسفے کی بنیاد بنا۔ سسیور نے زبان کو علامتوں (Signs) کا ایک نظام قرار دیا، جہاں Signifier (لفظ/صوتی شکل) اور Signified (معنی/تصور)کے درمیان تعلق اعتباطی (Arbitrary) ہوتا ہے۔ دریدا نے اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ معنی کبھی حتمی نہیں ہوتا، بلکہ دوسری علامتوں کے ساتھ فرق (Difference) اور التوا (Deferral) پر مبنی ہوتا ہے، جسے انہوں نے "Différance" کا نام دیا۔
فرڈیننڈ ڈی سسیور نے "ٹرانسینڈنٹل سگنیفائیڈ" (ایک مستقل اور غیر متبدل معنی) کا تصور پیش کیا، جب کہ دریدا نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر سگنیفائیڈ خود ایک سگنیفائر بن جاتا ہے، اور معنی کی کوئی حتمی منزل نہیں۔ دریدا نے فرڈیننڈ ڈی سسیور کے لسانی ڈھانچوں کو تنقیدی طور پر اپنایا، لیکن انہیں عدم استحکام، مرکز کے انکار، اور معنی کی کثرت کے ذریعے رد تشکیل کے فلسفے میں تبدیل کر دیا۔ فرڈیننڈ ڈی سسیور کی ساختیات دریدا کی پس ساختیات (-Structuralism Post) کی بنیاد بنی، جس نے مغربی فلسفے کو ایک نئی سمت دی۔
دریدا کا نظریہ رد تشکیل متن کی مرکزیت، ثنوی مخالفتوں اور حتمی معنی کے تصور کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ نظریہ اردو ادب کی تنقید میں بھی اہم اثرات رکھتا ہے، اور اردو ادب کو ایک کھلی تفہیم دیتا ہے، جہاں متن قاری کے ساتھ مل کر معنی بناتا ہے۔ یہ نظریہ جدید اردو ادب اور تنقید کا اہم حصہ بن چکا ہے۔
کتابیات
Lawlor, Leonard 2019, ''Jacques Derrida'', in Zalta, Edward N. ed., The Stanford Encyclopedia of Philosophy , Metaphysics Research Lab, Stanford University, retrieved 11 April 2020
'' Allison, David B.; Garver, Newton 1973. Speech and Phenomena and Other Essays on Husserl's Theory of Signs 5th ed.. Evanston: Northwestern University Press. ISBN 978-0810103979.
Morris, Rosalind C. 2007 ''Legacies of Derrida: Anthropology''. Annual Review of Anthropology. 36 (1): 355–389. doi:10.1146/annurev.anthro.36.081406.094357.
Munslow, Alan 1997 ''Deconstructing History'' PDF). Institute of Historical Research.
Busch, Brigitta 2012 ''The Linguistic Repertoire Revisited''. Applied Linguistics. 33 (5): 503–523.
Cobussen, Marcel 2002. ''Deconstruction in Music. The Jacques Derrida – Gerd Zacher Encounter'' (PDF). Thinking Sounds. Archived (
Douglas, Christopher 1997. ''Glossary of Literary Theory''. University of Toronto English Library.
Kandell, Jonathan 2004 . ''Jacques Derrida, Abstruse Theorist, Dies at 74''. The New York Times.
Derrida, Jacques 1997 . Of Grammatology. Translated by Gayatri Chakravorty Spivak. Baltimore: Johns Hopkins University Press. ISBN 978-0801858307.
: یہ دریدا کی سب سے مشہور کتاب ہے جس میں وہ مغربی فلسفے میں تقریر (کے تصور کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ رد تشکیل کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔