ڈیتھ سیلز

ڈیتھ سیلز

Aug 12, 2024

مصنف

ارشد علی

شمارہ

شمارہ۔٢٦


ڈیتھ سیلز

ارشد علی


کوئین ڈنیرس مجھ سے کہیں بہتر ہے لیکن سب سے معتبر حوالہ یہ ہے کہ وہ بچپن میں جب اسے بمشکل بیس تک گنتی آتی تھی تب بھی ہزار تلواروں سے بنایا گیا آئرن تھرون تصور کر سکتی تھی اور ایک میں ہوں کہ جو بچپن سے چھ بائی چار فٹ کے ڈیتھ سیل کا تصور کرنے کے لیے کوشاں ہوں مگر ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ 

میں نے متعدد بار دیوار کے ساتھ فیتے سے نشان لگا کر اندازہ لگانے کی کوشش کی اور کئی بار تو کمرے کی ایک دیوار سے دوسری دیوار کے درمیان گھیسٹتے ہوئے لیٹ لیٹ کر بھی ماپنا چاہا کہ اگر کمرہ بارہ فٹ ہو اور میں اس میں دو بار پورا آ جاؤں تو مطلب کمرے کا آدھ ڈیتھ سیل کی لمبائی ہو گی۔ مگر چوڑائی کا کیا؟ 

چوڑائی ماپنے کے لیے مجھے کمرے میں کتنی بار پورا آنا ہو گا یا کتنی بار سمٹنا ہو گا، ویسے سمٹنے سے اکٹھا ہونا زیادہ بلیغ ہے۔ مگر اس کا کبھی اندازہ ہی نہ ہو پایا۔ اس تصوراتی کجی کا مجھے زندگی میں بہت نقصان اٹھانا پڑا اور یہی وجہ رہی کہ جن لوگوں کو میرے ہاتھوں مرنا تھا وہ آج بھی زندہ گھوم رہے ہیں۔ 

ایک بار اٹک جیل میں قتل کے الزام میں قید ملزم سے ملنے جانا ہوا مگر ایک تو تب تک وہ ملزم تھا اور میرا بھی کسی قاتل کو دیکھنے یا ملنے کا پہلا اتفاق تھا اور تیسرا اسے تب تک سزائے موت سنائی بھی نہیں گئی تھی وگرنہ وہ ایک سنہرا موقع تھا جب میں ڈیتھ سیل کی لمبائی اور چوڑائی بارے فسٹ ہینڈ معلومات حاصل کر سکتا تھا۔ 

مگر وقت کے پہیے کی سستی کے باعث یہ موقع بھی ضائع ہی گیا۔ 

موت کے قیدی کو ٹانگیں پسارنے اور کروٹ لینے کے لیے کتنی جگہ دستیاب ہوتی ہے اس سے لاعلم رہ کر نصف زندگی گزار دینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا اندازہ میرے، کافکا اور کامیو کے علاوہ کوئی چوتھا بندہ کر ہی نہیں سکتا۔ 

لیکن پھر آخر کار یہ گھتی سلجھ گئی اور اب میں جانتا ہوں کہ ڈیتھ سیل میں موجود قیدی کو دستیاب جگہ کبوتر بازوں کے گھروں کی چھت پر کبوتروں کے لیے لگائے گئے پنجروں سے زرا ہی کم ہوتی ہے۔ لاہور گلبرگ کی جس عمارت میں میں رہائش پذیر ہوں اس کی دیوار سے متصل ایسے ہی کبوتروں کے پنجرے سے مشابہ ڈیتھ سیلز اوپر تلے رکھ کر ان میں انسانوں کو بند کر دیا گیا۔ 

میرا کزن حج کر کے واپس آیا تو معجزات مکہ سناتے ہوئے بتاتا تھا کہ حرم پاک کی زمین لوگوں کی تعداد کی مناسبت سے پھیل اور سمٹ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی عازمین ہوں سب وہاں سما جاتے ہیں۔ گلبرگ سے متصل اس مکہ کالونی کو ایسا اعجاز تو نہ حاصل ہے نہ ہو پائے گا مگر اپنی وسعت میں یہ بھی بے مثال ہے کہ تنگی داماں کو چھپانے کے لیے لکڑی کے کانوں جیسی دیواروں پر پانچ پانچ منزلیں اٹھائی گئی ہیں۔ 

پتا نہیں کبھی لاہور میں زلزلہ آیا تو یہ عمارتیں عمودا نیچے کو گریں گی یا دائیں بائیں کے کھلے لانز والے گھروں کو بھی ملیا میٹ کرتے ہوئے ہمیں بھی لے دے جائیں گی؟

میرے عین سامنے جو نصف چھت کا گھر ہے اس میں ایک نوزائیدہ بچے کی ماں رہتی ہے جو کبھی کبھار گھر کے بغیر چھت والے نصف حصے میں بچے کو اچھال اچھال کر کھیلتی ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ پکار کر اسے روکوں کہ کیوں بچے کی جان کو خطرے میں ڈالتی ہو۔ مگر کالے شیشوں والی کھڑکی ہمیشہ بند ہی رہتی ہے۔ 

کبھی کبھار اس سے ملنے ایک لڑکی بھی آتی ہے جس نے اپنے بال آگ سے رنگے ہوئے ہیں اس دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ یہ اگر کسی طور کال کھوٹری کا دروازہ توڑ کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہو جائے تو میں اسے گلبرگ کی پہلی گلی کی نکڑ پر ملوں گا اور پھر چپکے سے ایک پرچی پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر اس کی جانب اچھال دونگا۔ مجھے لگتا ہے کہ حرام زدگی پر قیاس کیا جا سکنے والا یہ عمل خاصا تھرلنگ اور ایکسائٹنگ ہو گا۔ 

ایک بار میں گھر سے واپس آیا تو سونے والے کمرے میں طور ہاروسٹنگ کمپنی کا فلیکس لگا ہوا تھا اور اس فلیکس کے ساتھ ساتھ کمرے میں کیمرا بھی لگ چکا تھا۔ تب سے سوتے ہوئے مجھے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب قمر کیمرا کھولے بیٹھا ہو گا اور مجھے عجب طرز پر سوتے ہوئے شاید دیکھ بھی رہا ہو۔ مجھ اس خیال پر ہی خاصی تپ چڑھتی ہے کہ جب میں نے خود کو خود ہی آجتک سوتے ہوئے نہیں دیکھا تو کوئی دوسرا کیوں دیکھے؟ 

مگر اس سے زیادہ غلیظ خیال یہ ہے کہ خدا معلوم میں سوتے میں باوقار لگتا ہوں یا نہیں۔۔۔ کیونکہ میرے خیال میں سوتے ہوئے بندے کو باوقار لگنا چاہیے اور یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا میت کے چہرے پر غسل کے بعد نور کا آنا ضروری ہے اس لیے میں کسی روز قمر سے پوچھوں گا کہ میں سوتے میں بھی جاگتے کی طرح بے توقیر لگتا ہوں یا اس کا الٹ ۔۔۔؟

خیر تو بات ہو رہی تھی طور ہاروسٹنگ کمپنی کے فلیکس کی جس کا سائز اس وائٹ چارٹ جتنا ہے جس پر ہم مختلف رنگوں کے مارکرز سے جھوٹ لکھ لکھ کر سکول ماسٹر کی سربراہی میں کلاس روم کی دیواروں پر لگا دیا کرتے تھے تاکہ تاحیات اس جھوٹ کے امرت جل سے تر رہیں یا پھر اسے راہ کی چٹان سمجھ کر ماتھا پھوڑتے رہیں۔ 

تو میں نے تصور میں اس سائز کے فلیکس پر کئی بار اپنا نمبر لکھ کر کھڑکی سے لہرایا بھی مگر اس جلے ہوئے بالوں والی نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ یا شاید دیا بھی ہو مگر کیا پتا گلبرگ میں بنے ہوئے گھروں کی نسبت نصف صدی سے زائد قدیم طرز تعمیر کے گھر میں رہتے ہوئے اسے اندازہ ہی نہ ہوا ہو کہ فلیکس پر لکھے نمبر علم الاعداد کا کوئی تعویز نہیں بلکہ شاید علم الاعداد کا کوئی تعویز ہی ہیں؟

میں خود کنفیوز ہو رہا ہوں سو اس بات کو ادھر ہی دفع کرتے ہیں۔ مگر وہ کم از کم کاغذ کا خط تو بنا کر اڑا ہی سکتی تھی اور چونکہ وہ مجھ سے رہتی بھی دو منزل اوپر ہے تو خط کے ادھر ادھر گرنے کے امکانات بھی صفر ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے اس ناقص العقل عورت کے دماغ میں کبھی یہ خیال بھی نہ آیا ہو گا۔ اگر آیا ہوتا تو پچانوے فیصد جاہل نہ کہلاتیں۔

ویسے۔۔۔

اس ویسے تک کی تحریر میں نے پہلی نشست میں لکھی تھی اور آج دوبارہ یہ فائل کھولی تب تک اس لایعنیت کا الاپ اٹھانے سے دل اٹھ چکا ہے۔ پھر بھی لاہوریوں کو یاد ہو گا کہ جب پچھلے دنوں بارشیں ہوئیں تو چند دن تک لائٹ کئی کئی گھنٹے بند رہی تھی۔ 

ایسی ہی ایک رات تھی جب لائٹ کو گئے ہوئے گھنٹوں گزر چکے تھے اور یو پی ایس خراب ہونے کی وجہ سے پنکھا بھی بند تھا۔ کمرے میں اے سی کی زائل شدہ ٹھنڈک کا احساس کرنے کے لیے اتنی ہی محنت کرنا پڑ رہی تھی جتنی نمی زدہ ہوا سے سانس کشید کرنے کے لیے کرنا پڑ رہی تھی۔ 

صبح کے چھ بج رہے تھےکہ میں یہ سوچتے ہوئے اٹھا کہ فجر کا ٹائم ختم ہوا ہے یا نہیں؟ سورج نکلا ہے یا نہیں؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے سونے کے ٹائم کا تعین کرنا آسان رہتا ہے۔ گھر ہوتا ہوں تو ازان کی آواز سنائی دے یا نہ دے مگر بیگم کے موبائل کے الارم سے پتا چل جاتا ہے کہ فجر کا ٹائم ہو گیا ہے اور اب موبائل رکھ کر سونے کا ناٹک کرنا پڑے گا

ورنہ بیگم اٹھ گئی تو پوچھے گی کہ آپ ابھی تک سوئے نہیں؟ اور میں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ دیکھ تو رہی ہے کہ جاگ رہا ہوں، سویرے سویرے الٹے سیدھے سوال شروع کر دئیے بڑی عاجزی سے کہتا ہوں کہ ہاں! بس سونے لگا۔ اس منافقانہ عاجزی کے پیچھے وجہ بس اتنی ہی ہے کہ پہاڑ جیسا دن ہے لڑنے کے سو موقع ملیں گے تو اپنی نیند اور اس کی صبح کیوں غارت کرنی۔ 

خیر صبح کے چھ بج رہے تھے اور میں نے اٹھ کر پہلے کھڑکی کا بلائنڈ ہٹایا، پھر جالی ہٹائی اور اس کے بعد شیشہ کھول دیا۔ جیسے ہی میں نے شیشہ کھولا ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا اور اس کے ساتھ ہی کمرا روشنی سے بھر گیا۔ میں نے نظر زرا اوپر کو اٹھائی تو ادھ جلی لکڑی کی رنگت جیسے بدن والے مرد قمیض (مجھے پتا ہے قمیص ہوتا ہے) سے بے نیاز چھتوں پر بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ دوپٹوں سے بے نیاز ان کی عورتیں ہتھ پنکھے جھل رہی تھیں۔ 

"یہ روشنی جس نے کمرے کو روشن کیا اس سمت سے آ رہی ہے جدھر سے ہم آنکھیں موندے رکھتے ہیں۔ اور کبھی نظر نہ پڑ جائے اس لیے کھڑکیوں پر پڑے بلائنڈ بھی نہیں اٹھاتے۔" نجانے کیوں یہ خیال میرے دماغ میں آیا اور مجھے ادھ جلی لکڑی کی رنگت کے بدن والے اوزان کی اس تہہ جیسے لگے جو سورج کی الٹرا والٹ شعاعوں کو منعکس کر کے ہمیں کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

پھر اس ڈر سے کہ کہیں اوزان کی یہ تہہ میری آنکھوں میں پھیلی حیرت دیکھ کر جان نہ لیں کہ دیوار کے اس جانب کے گھر تو صرف اس روشنی سے روشن ہیں جو ان کے بدنوں سے منعکس ہو کر پہنچ رہی ہے شیشہ بند کرنے اور بلائنڈ گرانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سامنے چھت پر بیٹھے مرد نے عورت کو دھکا دیا اور وہ چارپائی سے گرتے گرتے بچی۔ جواب میں اس نے ہاتھ میں پکڑے پنکھے سے اپنے مرد کی کمر سیک دی۔ 

یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ یہ کبھی حقیقت نہیں جان پائیں گی اور میں نے کھڑکی بند کرنے کا ارادہ ترک کر کے سگریٹ سلگایا اور سکون سے دھواں اڑانے لگا۔ 

ارشد علی


ڈیتھ سیلز

ارشد علی


کوئین ڈنیرس مجھ سے کہیں بہتر ہے لیکن سب سے معتبر حوالہ یہ ہے کہ وہ بچپن میں جب اسے بمشکل بیس تک گنتی آتی تھی تب بھی ہزار تلواروں سے بنایا گیا آئرن تھرون تصور کر سکتی تھی اور ایک میں ہوں کہ جو بچپن سے چھ بائی چار فٹ کے ڈیتھ سیل کا تصور کرنے کے لیے کوشاں ہوں مگر ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ 

میں نے متعدد بار دیوار کے ساتھ فیتے سے نشان لگا کر اندازہ لگانے کی کوشش کی اور کئی بار تو کمرے کی ایک دیوار سے دوسری دیوار کے درمیان گھیسٹتے ہوئے لیٹ لیٹ کر بھی ماپنا چاہا کہ اگر کمرہ بارہ فٹ ہو اور میں اس میں دو بار پورا آ جاؤں تو مطلب کمرے کا آدھ ڈیتھ سیل کی لمبائی ہو گی۔ مگر چوڑائی کا کیا؟ 

چوڑائی ماپنے کے لیے مجھے کمرے میں کتنی بار پورا آنا ہو گا یا کتنی بار سمٹنا ہو گا، ویسے سمٹنے سے اکٹھا ہونا زیادہ بلیغ ہے۔ مگر اس کا کبھی اندازہ ہی نہ ہو پایا۔ اس تصوراتی کجی کا مجھے زندگی میں بہت نقصان اٹھانا پڑا اور یہی وجہ رہی کہ جن لوگوں کو میرے ہاتھوں مرنا تھا وہ آج بھی زندہ گھوم رہے ہیں۔ 

ایک بار اٹک جیل میں قتل کے الزام میں قید ملزم سے ملنے جانا ہوا مگر ایک تو تب تک وہ ملزم تھا اور میرا بھی کسی قاتل کو دیکھنے یا ملنے کا پہلا اتفاق تھا اور تیسرا اسے تب تک سزائے موت سنائی بھی نہیں گئی تھی وگرنہ وہ ایک سنہرا موقع تھا جب میں ڈیتھ سیل کی لمبائی اور چوڑائی بارے فسٹ ہینڈ معلومات حاصل کر سکتا تھا۔ 

مگر وقت کے پہیے کی سستی کے باعث یہ موقع بھی ضائع ہی گیا۔ 

موت کے قیدی کو ٹانگیں پسارنے اور کروٹ لینے کے لیے کتنی جگہ دستیاب ہوتی ہے اس سے لاعلم رہ کر نصف زندگی گزار دینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا اندازہ میرے، کافکا اور کامیو کے علاوہ کوئی چوتھا بندہ کر ہی نہیں سکتا۔ 

لیکن پھر آخر کار یہ گھتی سلجھ گئی اور اب میں جانتا ہوں کہ ڈیتھ سیل میں موجود قیدی کو دستیاب جگہ کبوتر بازوں کے گھروں کی چھت پر کبوتروں کے لیے لگائے گئے پنجروں سے زرا ہی کم ہوتی ہے۔ لاہور گلبرگ کی جس عمارت میں میں رہائش پذیر ہوں اس کی دیوار سے متصل ایسے ہی کبوتروں کے پنجرے سے مشابہ ڈیتھ سیلز اوپر تلے رکھ کر ان میں انسانوں کو بند کر دیا گیا۔ 

میرا کزن حج کر کے واپس آیا تو معجزات مکہ سناتے ہوئے بتاتا تھا کہ حرم پاک کی زمین لوگوں کی تعداد کی مناسبت سے پھیل اور سمٹ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی عازمین ہوں سب وہاں سما جاتے ہیں۔ گلبرگ سے متصل اس مکہ کالونی کو ایسا اعجاز تو نہ حاصل ہے نہ ہو پائے گا مگر اپنی وسعت میں یہ بھی بے مثال ہے کہ تنگی داماں کو چھپانے کے لیے لکڑی کے کانوں جیسی دیواروں پر پانچ پانچ منزلیں اٹھائی گئی ہیں۔ 

پتا نہیں کبھی لاہور میں زلزلہ آیا تو یہ عمارتیں عمودا نیچے کو گریں گی یا دائیں بائیں کے کھلے لانز والے گھروں کو بھی ملیا میٹ کرتے ہوئے ہمیں بھی لے دے جائیں گی؟

میرے عین سامنے جو نصف چھت کا گھر ہے اس میں ایک نوزائیدہ بچے کی ماں رہتی ہے جو کبھی کبھار گھر کے بغیر چھت والے نصف حصے میں بچے کو اچھال اچھال کر کھیلتی ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ پکار کر اسے روکوں کہ کیوں بچے کی جان کو خطرے میں ڈالتی ہو۔ مگر کالے شیشوں والی کھڑکی ہمیشہ بند ہی رہتی ہے۔ 

کبھی کبھار اس سے ملنے ایک لڑکی بھی آتی ہے جس نے اپنے بال آگ سے رنگے ہوئے ہیں اس دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ یہ اگر کسی طور کال کھوٹری کا دروازہ توڑ کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہو جائے تو میں اسے گلبرگ کی پہلی گلی کی نکڑ پر ملوں گا اور پھر چپکے سے ایک پرچی پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر اس کی جانب اچھال دونگا۔ مجھے لگتا ہے کہ حرام زدگی پر قیاس کیا جا سکنے والا یہ عمل خاصا تھرلنگ اور ایکسائٹنگ ہو گا۔ 

ایک بار میں گھر سے واپس آیا تو سونے والے کمرے میں طور ہاروسٹنگ کمپنی کا فلیکس لگا ہوا تھا اور اس فلیکس کے ساتھ ساتھ کمرے میں کیمرا بھی لگ چکا تھا۔ تب سے سوتے ہوئے مجھے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب قمر کیمرا کھولے بیٹھا ہو گا اور مجھے عجب طرز پر سوتے ہوئے شاید دیکھ بھی رہا ہو۔ مجھ اس خیال پر ہی خاصی تپ چڑھتی ہے کہ جب میں نے خود کو خود ہی آجتک سوتے ہوئے نہیں دیکھا تو کوئی دوسرا کیوں دیکھے؟ 

مگر اس سے زیادہ غلیظ خیال یہ ہے کہ خدا معلوم میں سوتے میں باوقار لگتا ہوں یا نہیں۔۔۔ کیونکہ میرے خیال میں سوتے ہوئے بندے کو باوقار لگنا چاہیے اور یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا میت کے چہرے پر غسل کے بعد نور کا آنا ضروری ہے اس لیے میں کسی روز قمر سے پوچھوں گا کہ میں سوتے میں بھی جاگتے کی طرح بے توقیر لگتا ہوں یا اس کا الٹ ۔۔۔؟

خیر تو بات ہو رہی تھی طور ہاروسٹنگ کمپنی کے فلیکس کی جس کا سائز اس وائٹ چارٹ جتنا ہے جس پر ہم مختلف رنگوں کے مارکرز سے جھوٹ لکھ لکھ کر سکول ماسٹر کی سربراہی میں کلاس روم کی دیواروں پر لگا دیا کرتے تھے تاکہ تاحیات اس جھوٹ کے امرت جل سے تر رہیں یا پھر اسے راہ کی چٹان سمجھ کر ماتھا پھوڑتے رہیں۔ 

تو میں نے تصور میں اس سائز کے فلیکس پر کئی بار اپنا نمبر لکھ کر کھڑکی سے لہرایا بھی مگر اس جلے ہوئے بالوں والی نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ یا شاید دیا بھی ہو مگر کیا پتا گلبرگ میں بنے ہوئے گھروں کی نسبت نصف صدی سے زائد قدیم طرز تعمیر کے گھر میں رہتے ہوئے اسے اندازہ ہی نہ ہوا ہو کہ فلیکس پر لکھے نمبر علم الاعداد کا کوئی تعویز نہیں بلکہ شاید علم الاعداد کا کوئی تعویز ہی ہیں؟

میں خود کنفیوز ہو رہا ہوں سو اس بات کو ادھر ہی دفع کرتے ہیں۔ مگر وہ کم از کم کاغذ کا خط تو بنا کر اڑا ہی سکتی تھی اور چونکہ وہ مجھ سے رہتی بھی دو منزل اوپر ہے تو خط کے ادھر ادھر گرنے کے امکانات بھی صفر ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے اس ناقص العقل عورت کے دماغ میں کبھی یہ خیال بھی نہ آیا ہو گا۔ اگر آیا ہوتا تو پچانوے فیصد جاہل نہ کہلاتیں۔

ویسے۔۔۔

اس ویسے تک کی تحریر میں نے پہلی نشست میں لکھی تھی اور آج دوبارہ یہ فائل کھولی تب تک اس لایعنیت کا الاپ اٹھانے سے دل اٹھ چکا ہے۔ پھر بھی لاہوریوں کو یاد ہو گا کہ جب پچھلے دنوں بارشیں ہوئیں تو چند دن تک لائٹ کئی کئی گھنٹے بند رہی تھی۔ 

ایسی ہی ایک رات تھی جب لائٹ کو گئے ہوئے گھنٹوں گزر چکے تھے اور یو پی ایس خراب ہونے کی وجہ سے پنکھا بھی بند تھا۔ کمرے میں اے سی کی زائل شدہ ٹھنڈک کا احساس کرنے کے لیے اتنی ہی محنت کرنا پڑ رہی تھی جتنی نمی زدہ ہوا سے سانس کشید کرنے کے لیے کرنا پڑ رہی تھی۔ 

صبح کے چھ بج رہے تھےکہ میں یہ سوچتے ہوئے اٹھا کہ فجر کا ٹائم ختم ہوا ہے یا نہیں؟ سورج نکلا ہے یا نہیں؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے سونے کے ٹائم کا تعین کرنا آسان رہتا ہے۔ گھر ہوتا ہوں تو ازان کی آواز سنائی دے یا نہ دے مگر بیگم کے موبائل کے الارم سے پتا چل جاتا ہے کہ فجر کا ٹائم ہو گیا ہے اور اب موبائل رکھ کر سونے کا ناٹک کرنا پڑے گا

ورنہ بیگم اٹھ گئی تو پوچھے گی کہ آپ ابھی تک سوئے نہیں؟ اور میں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ دیکھ تو رہی ہے کہ جاگ رہا ہوں، سویرے سویرے الٹے سیدھے سوال شروع کر دئیے بڑی عاجزی سے کہتا ہوں کہ ہاں! بس سونے لگا۔ اس منافقانہ عاجزی کے پیچھے وجہ بس اتنی ہی ہے کہ پہاڑ جیسا دن ہے لڑنے کے سو موقع ملیں گے تو اپنی نیند اور اس کی صبح کیوں غارت کرنی۔ 

خیر صبح کے چھ بج رہے تھے اور میں نے اٹھ کر پہلے کھڑکی کا بلائنڈ ہٹایا، پھر جالی ہٹائی اور اس کے بعد شیشہ کھول دیا۔ جیسے ہی میں نے شیشہ کھولا ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا اور اس کے ساتھ ہی کمرا روشنی سے بھر گیا۔ میں نے نظر زرا اوپر کو اٹھائی تو ادھ جلی لکڑی کی رنگت جیسے بدن والے مرد قمیض (مجھے پتا ہے قمیص ہوتا ہے) سے بے نیاز چھتوں پر بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ دوپٹوں سے بے نیاز ان کی عورتیں ہتھ پنکھے جھل رہی تھیں۔ 

"یہ روشنی جس نے کمرے کو روشن کیا اس سمت سے آ رہی ہے جدھر سے ہم آنکھیں موندے رکھتے ہیں۔ اور کبھی نظر نہ پڑ جائے اس لیے کھڑکیوں پر پڑے بلائنڈ بھی نہیں اٹھاتے۔" نجانے کیوں یہ خیال میرے دماغ میں آیا اور مجھے ادھ جلی لکڑی کی رنگت کے بدن والے اوزان کی اس تہہ جیسے لگے جو سورج کی الٹرا والٹ شعاعوں کو منعکس کر کے ہمیں کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

پھر اس ڈر سے کہ کہیں اوزان کی یہ تہہ میری آنکھوں میں پھیلی حیرت دیکھ کر جان نہ لیں کہ دیوار کے اس جانب کے گھر تو صرف اس روشنی سے روشن ہیں جو ان کے بدنوں سے منعکس ہو کر پہنچ رہی ہے شیشہ بند کرنے اور بلائنڈ گرانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سامنے چھت پر بیٹھے مرد نے عورت کو دھکا دیا اور وہ چارپائی سے گرتے گرتے بچی۔ جواب میں اس نے ہاتھ میں پکڑے پنکھے سے اپنے مرد کی کمر سیک دی۔ 

یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ یہ کبھی حقیقت نہیں جان پائیں گی اور میں نے کھڑکی بند کرنے کا ارادہ ترک کر کے سگریٹ سلگایا اور سکون سے دھواں اڑانے لگا۔ 

ارشد علی

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024