دعا عظیمی کی دو نثری تحریریں
دعا عظیمی کی دو نثری تحریریں
Aug 29, 2023
پڑھی لکھی اداسی : اور اکتارہ بجتا رہا
دیدبان شمارہ ۔۱۹
پڑھی لکھی اداسی
دعا عظیمی
پڑھی لکھی اداسی میرے اندر ایسے اترتی ہے جیسے ہر روز شام کچن کی کھڑکی سے گھر میں چپ چاپ اتر آئے جب میں سر جھکائے اپنے خیالوں کے جنگل میں کھڑی بظاہر بیسن پر پڑے گندے برتن دھو رہی ہوتی ہوں اور کبھی کبھار صابن لگے برتنوں کو پانی سے کھنگالتے ہوئے اپنا سر اٹھا کے بیسن کے عین اوپر لگی کھڑکی کی جالی کے پار دوسری طرف آنکھ بھر کے دیکھتی ہوں جہاں دور سے ایک چھت کی بالکنی پر لگی پینگ پر ایک بچی بےفکر اونچی اڑان والے جھولے جھول رہی ہوتی ہے ۔ اچانک میرا من بوجھل ہو جاتا ہے۔
ادھر سے پوچھا گیا
کیا آپ نے اپنے بچپن میں کبھی جھولے جھولے؟
اس نے وضاحت سے جواب دینا شروع کیا۔
وہ کافی دیر سے برقی آلے کی مدد سے سکرین پر گفتگو کر رہے تھے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو موضوعات ڈھونڈنے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ موضوعات سجی ہوئی تھالی میں سوکھے ہوئےمیوہ جات کی طرح ان کے سامنےمیز پر دھرے رہتے ہیں۔
وہ بے تکان بولتے رہتے ہیں ۔ کوئی ہم خیال مل جائے تو تھوڑی دیر کو اداسی بھگانے کے لیے گپ لگا لینا عام سی بات ہے۔
ایسے لوگ کبھی خود سے، کبھی پاس پڑی ڈائری سے تو کبھی موبائل کی سکرین پر جگماتے حروف کےجگنووں کا پیچھا کرتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے اس مشہور شخصیت کو فیس بک کی فرینڈ لسٹ میں ایڈ کیا تھا۔ مختصر سے تعارف کے بعد دو ایک بار گفتگو ہوئی تو محسوس ہوا دانشور ہیں شاید کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
بہت سے سوالات کے بعد اس نے پوچھا آپ نے کبھی پڑھی لکھی اداسی کو اپنے دل پر اترتے دیکھا ہے ؟ تھوڑی دیر سکرین پر ٹائپنگ کے نکتے سرسراتے رہے لمحہ بھر کے انتظار کے بعد جواب آیا نہیں مجھے اس کا تجربہ نہیں نہ ہی میں نے اداسی کو کبھی ایک دوسرے سے الگ الگ کیا ہے۔ بھلا کچھ اداسیاں ان پڑھ ہوتی ہیں اور کچھ پڑھی لکھی؟ ادھر سے سمائلی کی ایموجی بھیج دی گئی۔ اتنا ہی سمجھ آیا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی اداسی بھی ویل مینرڈ یعنی پڑھی لکھی ہوتی ہو گی جو اپنا آپ کسی پہ کھولتی نہیں۔ کمپوزڈ سیڈنیس۔
تھوڑی دیر تک اسے کوئی جواب نہیں سوجھا پھر اس کی انگلیاں کی بورڈ پرتیزی سے چلنے لگیں ۔
ادھر سے پوچھا گیا
کیا آپ نے اپنے بچپن میں کبھی جھولے جھولے؟
دراصل جھولے جھولنا بےفکری کی علامت ہے ہو سکتا ہے اس کا تعلق میرے بچپن کی کسی محرومی سے ہو اور ہو سکتا ہے اس کا تعلق اس بچی کے مستقبل کے بےنام اندیشوں سے جڑا ہو۔
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے میں روئی دھننے والے قدیمی پینجوں کا رخ کروں جو کپاس کو دھننے کے عمل سے گزار کر صاف کر دیتے ہیں۔
کیا میری روح میں جذب اداسیوں کو مجھ سے الگ نہیں کیا جا سکتا؟ کیا کوئی جدید مشین ایسی نہیں یا کوئی قدیم پینجا جو اپنے اوزاروں ۔کمان، پنجن، تندی، جھانڈے اور تاڑے سے میری روح کے ریشوں کو صاف شفاف کر دے۔
کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیں اس سوال کے جواب میں
اس نے وضاحت سے جواب دینا شروع کیا۔ میں بتاتی ہوں، میرے چھ بہن بھائی تھے۔ اور میری تینوں بہنیں مدرسے میں پڑھنے جاتی تھیں اور وہ دن رات وہیں بسر کرتی تھیں جب کہ دو بھائی میرے سے چھوٹے تھے۔
میرے والد ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ میری والدہ کو کالا یرقان ہو گیا تھا۔
میرے ذمے تین طرح کے کام تھے اپنے گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹانا اپنے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنا ۔ میں صبح ایک قریبی سکول میں پڑھنے جاتی تھی جس کی فیس وہ باجی دیتی تھیں جہاں میں دو ننھی بچیوں کی دیکھ بھال کرنے جاتی تھی۔ میرے کام کے عوض میں جو رقم مجھے ملتی اس سے میرے گھر میں تھوڑا سا دودھ آ جاتا تھا اور دہی جس کی چٹنی بناکے سوکھی روٹی کے ساتھ ہم صبح کا ناشتہ کرتے تھے۔
سامنے سادہ سے لباس میں صوفے پر نیم دراز پڑھی لکھی اداسی سلیقے سے اپنے بال جمائے عینگ لگا کر بہت دور کھو گئی۔ جھولے جھولنے کی خواہش کم وبیش ساری بچیوں ، نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے دلوں میں بیک وقت توے سے اترنے والی تازہ روٹی کی طرح مہکتی رہتی ہے جس کے اوپر تپتے توے کی جلن سے ننھے ننھے پھول اُگ آتے ہیں جسے دیکھ کر کھانے والے کی بھوک اور بھی چمک اٹھتی ہے۔ شاید اسے بھوک لگ رہی تھی مگر صرف اپنے لیے روٹی بنانے کو من نہیں کر رہا تھا۔
بہت دنوں بعد اس نے کسی کے ساتھ اپنے دل کی باتیں کی تھیں۔
اس نے اخبار کو ایک طرف رکھا۔ نہیں ابھی بھوک نہیں ہے اس نے چائے میں بغیر شکر کے چمچ گھماتے ہوئے کہا۔چائے میں اٹھتی بھاپ سے مکمل ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس نے ٹی وی آن کیا اور اپنے انٹیناز کو مکمل طور پر بند کر لیا ۔ اس کے باوجود اس کی حسیات خبریں جمع کر لیتی تھیں۔ دیوار سے چپکے ایل ای ڈی سے نکلنے والے شور سے اسے کچھ زیادہ رغبت نہیں تھی مگر پڑھی لکھی اداسی کو خوراک حاصل کرنے کے لیے الیکٹرانک آلات کی شدید ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دو آتشہ ہو سکے۔
میرا خیال ہے یہ خبریں ہمیں اداس نہیں کرتیں جب تک ایک شخص کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں وہ کبھی اداس نہیں ہوتا ۔ ہماری اداسیاں ہمارے من کے غبار سے جڑی ہوتی ہیں ۔ مئی میں اٹھنے والے گردو غبار کی طرح۔
ساتھ والے خالی پلاٹ میں بارش کا پانی جمع ہو چکا تھا اس سے اگلے گھر والوں نے گھر کی تعمیر کے لئے بھرتی ڈالنے کے لیے مٹی یہاں سے کھود لی تھی۔
وہاں تالاب کا سماں تھا اور مینڈکوں کا شور تاریکی بڑھنے کے ساتھ اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ شوہر سےمعمول کی وڈیو کال پر سب خیر خیریت پوچھ چکی تھی۔
تب ہی دوبارہ بات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
آپ کو بارش پسند ہے ؟
مجھے بارشیں پسند ہیں مگر ایک واقعہ سناتی ہوں۔
جب میری شادی ہوئی تو میں اپنے گھر کی چھت پر نہانے چلی گئی جب میں نیچے واپس آئی تو گھر میں ایک ہنگامہ اور شورو غل مچا تھا۔۔۔ ایسے لگتا تھا کہ میں بارش میں نہائی نہیں بلکہ کسی کے ساتھ آوارگی کر کے آئی ہوں ۔
جواب میں اوہ کا پیغام دیکھا تو اس نے بات بڑھائی۔
تمام عمر ایسا نہیں ہوا بعد میں تو گھر والے بارش میں مجھے خاص طور پہ کہتے کہ تم نہاؤ ہمیں اچھا لگتا ہے وہ اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے کو رفو کر رہی تھی۔
دٔھلے آسمانوں پہ قطروں اور کرنوں کے انعکاس سے بننے والی پینگ اسے بہت حسین لگتی تھی مگر
جب تک وہ گھر والوں کو آوازیں دے کر باہر بلاتی آسمانی پینگ غائب ہو چکی ہوتی اس کی حسرت ہی رہ گئی کہ سارے گھر کے افراد بیک وقت آسمان کو ایک ساتھ دیکھ کر خوش ہوں جب اس کی اس طرح کی معصوم سی خواہشیں پوری نہ ہوتیں تو اچانک اس کے دل کے گھونسلے میں پڑھی لکھی اداسی انڈے دینے لگتی اور وہ کڑک مَلی مرغی کی طرح سب سے قطع تعلق کر لیتی۔
گھر والے سوچتے کہ شاید اس کے موڈ کا کوئی فیز چل رہا ہے یا اس میں ہارمونل پرابلم کا کوئی عمل دخل ہے۔ خیر اب تو گھر کے ارکان الگ الگ ہو چکے تھے۔
بہرحال یہ سب پڑھے لکھے لوگوں کی کیفیات کو جواز فراہم کرنے والی باتیں ہیں ۔۔ ان سے آخری چیٹ میں یہی سب باتیں ہوئی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کیسی عجیب بات ہے انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں مجھے بہت کم بتایا ہے۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے بارے میں بہت کم بتاتے ہیں۔ ویسے اسے بھی تو پوچھنے سے زیادہ بتانے میں تسکین ملتی ہے۔ وہ سوچتی ہم سب سیلف سینڑرڈ ہی تو ہیں۔ اپنے گرد گھومنے والے لٹو۔
اگلے دن سوشل۔میڈیا پر ان کی موت کی خبر پڑھ کر بےحد افسوس ہوا۔
یہ کوئی سنجیدہ ربط نہیں تھا مگر عجیب سا ذہنی تعلق بن چکا تھا۔ اس کی چند ایک سہیلیوں کا خیال تھا پرسہ دینے ان کے گھر جایا جائے۔ ادبی حلقے کی مشہور شخصیت کا اس طرح اچانک چلے جانا سانحے سے کم نہ تھا۔
اس نے سوچا کہ دکھ کی سانجھ بہت اچھی چیز ہوتی ہے ۔
یہ موت کا دوسرا دن تھا۔ پرسہ کے لیے دن کا انتخاب اس کی سہیلیوں کا تھا۔
گھر ایک اچھی سوسائٹی میں تھا ۔ گھر کے سامنے چوڑی سی سڑک کے دونوں اطراف باہر سے لے کر اندر تک گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ۔ بیرونی دیواروں سے ہی امارت اور آرٹ جھلک رہا تھا ۔ ان کا گھر بےحد بڑا اور شاندار تھا مگر محسوس ہوا سب کچھ بہت فارمل ہے۔ ۔ اس سے پہلے اس نے ایسے منظر نہیں دیکھے تھے۔ گرمی کے دن تھے۔ اندر کا ماحول اے سی کی وجہ سے خاصا ٹھنڈا تھا۔ ڈرائینگ روم میں مرد حضرات چائے پی رہے تھے۔ جب کہ ٹی۔ وی لاونج کے صوفوں پر خاصی خوش شکل اور خوش لباس خواتین خاموش بیٹھی تھیں۔ سامنے والی دیوار پر بڑی سی پینٹنگ تھی جس پر نارنجی اور گرے رنگ نمایاں تھے یہی رنگ پردوں اور صوفوں کے ڈیزائن میں استعمال ہوئے تھے۔ پورے ماحول میں ایک گہری سنجیدگی کا بہاؤ تھا ۔۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ موت کے گھر سے کوئی آہ و پکار کوئی سسکی کی آواز آئے مگر وہاں کے مکین جانتے تھے کہ یہ سب آداب کے خلاف ہے ۔ چند کلمات کے بعد سب سر جھکا کے بیٹھ گئے جیسے مراقبے میں چلے گئے ہوں اسے لگا مرنے والے نے اپنی موت کا کچھ حصہ ان میں بانٹ دیا ہے جسے وہ سلیقے سے سنبھال کے بیٹھے ہوں۔ ۔ اس نے سوچا کہ پڑھی لکھی اداسی تو اس گھر کی میزبان ہے اور وہ کہتے تھے انہیں نہیں معلوم یہ ہوتی کیا ہے۔
ایک سرگوشی ابھری تین سال سے یہ صاحبِ فراش تھے۔ ان کے اہل و عیال ابھی پہنچ نہیں پائے لاش سرد خانے میں ہے۔ ان کے آنے میں ایک ماہ باقی ہے جب وہ آئیں گے تو ہی کفن دفن ہو گا۔
اس نے کن اکھیوں سے اپنی سہیلیوں کی طرف دیکھا۔ وہ بھی فرش کی ٹائلیں گننے میں مگن تھیں ۔ پڑھی لکھی اداسی کے سارے انڈے ٹوٹ گئے اور وہ اس خاموشی میں اچانک دھاڑیں مار مار کے رونے
لگی۔
************************************
اور اکتارا بجتا رہا:دعا عظیمی
بہت سے اور لوگوں کے ساتھ میں بھی صاحب مزار کے قدموں کی طرف احاطے میں سستانے لگا.میں بہت دور سے میلوں کا سفر طے کرتا ہوا یہاں آیا کرتا تھا . شاہ جو رسالو کے راگوں کی کشش مجھے ہر سال یہاں کھینچ لاتی.
سانس پھولتی, تیز ہوتی اور مدھم
مگر ایکتارا بجتا رہتا.
میری روح کی پرت پر اک بجھتے ہوئے چراغ کی پھڑپھڑاتی لو سے اٹھنے والے دھوئیں , سائے اور تھرتھراہٹ سے کچھ دھندلی تحریریں لکھی تھیں.آج میں انہیں دہرانا چاہتا تھا.
میرے بالکل قریب ایک نوجوان حالت مرگ میں چارپائی پر آخری سانسیں لے رہا تھا. وہ بڑ بڑا رہا تھا . وہ کہہ رہا تھا
"جس کا انتظار ساری زندگی میری روح میں کسی تیز لو کی طرح جلتا رہا وہ کیا تھا؟
کیا وہ یہی لمحہ تھا!!!
میں نے اپنی پوری کوشش کے ساتھ آنکھیں کھولیں اسے دیکھنا چاہا مگر میری آنکھوں میں بھی ٹوٹے خوابوں کی سلگن تھی.
وہ پھر بڑبڑایا
"شایداب آنکھیں بند رہنے میں ہی عافیت ہے- میں نے اپنے حصے کے دکھ بھوگ لیے اور اپنے تن کو دو حصوں میں کٹتے دیکھا "
"میں نے بےبسی کی آخری حد کو چھو لیا ".میں نے بےبسی کےآخری کنارے اور آخری انتہا کے لمحے کو چھو لیا "
"درد کی معراج"
"یہی زندگی کا آخری لمحہ ہے اور اسے خداحافظ کہنے کا راستہ"
"تمام بوجھ آج کے دن مجھ سے جدا ہوئے."
جب میں راحت پا جاؤں تو میرے سرہانے ایکتارا بجانا.
جانے کون تھا؟
شاید میں!
نوجوان کے لواحقین اس کی چارپائی کو اٹھا کر بیرونی دروازے سے باہر لے گئے اور اکتارا بجتا رہا -
شاہ لطیف جو سروں کا سالار ہے .زمانے کو اکتار سے تین تاروں کا سفر طے کرنے والا اور تین سے پانچ, پانچ تاروں والے سازسر بکھیرتے رہے. میں نے محسوس کیا بزرگ راگ کی دھنوں میں امن کی دعا ہے.فقیر بولا یہ روحانی راگ ہے..جو پچھلے تین سو برسوں سے دائمی سر الاپ رہا ہے. شاہ کی کھڑکی کے پاس کافی بھیڑ تھی.
کالی چادر میں لپٹی اک عورت دعا مانگتی رہی الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر میری سماعت سے ٹکراتے رہے..
"یہ کیسی چنگاری ہے جو ہر ایک کے سینے میں جلتی ہے جسے حیات کہتے ہیں , ہر درخت کے سینے میں جلنے والی چنگاری..."
عورت امید سے تھی. وہ دعا مانگ رہی تھی
"اے ہرن اور اونٹ کی ہڈیوں سے بنے ساز تجھے تیرے تار کی سوگند
" مجھ بے بس پر غم کا قہر نہ توڑ ہر زندہ جان کو اطیمنان عطا کر"
ہر روح پر لطف کی لطیف بارش برسا جیسے کہ تو نے شہر بھنبور کی شاہزادیوں اور سندھ کی بیٹیوں, ماروی, سسی ,مومل ,سوہنی , لیلاں سورٹھ پر برسائی.......
بیابانوں ساحلی علاقوں کے جوگیوں سنیاسیوں ماہی گیروں, جولاہوں اور چرواہوں کے درد کو بیان کرنے والے امن کے تیسیوں سر سارے جہان کے لیے ہیں.
عورت کی آواز آنسووں سے جلتے تن کے تندروں کی آگ کو گل و گلزار بنانے والے سازوں مکتی عطا کرنے والے سروں کے بادشاہ میرے سر کے سائیں کو حیاتی دے اور
میرے دامن میں پھول کھلا دے "
وہ دیر تلک دعا مانگتی رہی سب سے بے نیاز اکتارا بجتا رہا.
میرے دائیں ہاتھ جدید تراش کے کپڑے پہنے ایک جوڑا سرگوشیوں میں مصروف تھا. شاید یہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے .محبت کرتے کرتے فلسفہ بولنے لگتے اور فلسفہ بولتے بولتے ایک دوجے میں کھو جاتے.کبھی ڈولتے کبھی بولتے.
لڑکا بولا
موت پراسرار ہے اور محبت حسین.
لڑکی نے پوچھا اور زندگی؟؟
کہنے لگا ,
"زندگی معصوم بچے کی آنکھوں میں ٹھہری اجلی روشنی ہےچاہو تو تم اسے دل میں بھر لو اور اپنی ہر صبح روشن کر لو."
"موت پراسرار کیوں ہے؟
اس کے بارے میں کوئی مکمل نہیں جانتا یہ کب کہاں کس حال میں آن ملے اور کیا سلوک کرے اور کہاں لے جائے
چلو پھر زندگی کی بات کرو. لڑکی نے اس سے مذید چپکتے ہوئے کہا
"کیا زندگی محبت معصومیت اور موت کے اثر سے محفوظ ہے؟؟لڑکی اپنے دوست کے خیالات جاننا چاہتی تھی.
"انسانی زندگی ایک ندی کی طرح رواں
دریا کی طرح بے کنار اور سمندر کے پانیوں جیسی گہری اور پراسرار ہے"
جو اسےشراب سمجھے اس کے لیے شراب جو اسے زہر مانے اس کے لیے زہرجو اسے دودھ جیسی متبرک جانے اس کے لیے متبرک
گویا زندگی کا اصل جوہر تمہاری سوچ ہے "
"تم جس انداز سے اسے دیکھو گی یہ اس انداز میں ڈھلتی چلی جائے گی"دونوں کے بیچ دھیمے سروں میں مکالمہ چل رہا تھا.
"ایسا کیسے ممکن ہے"؟
کیا میں اپنی روح میں رنگ بھرنے پر قادر ہوں؟
"کیا میں حالات اور نسلوں کے چھوڑے ہوئے جینز کی پیداوار نہیں؟"
"تم سچ کہہ رہی ہو بہت حد تک مگر اس سے زیادہ امکان ہے کہ بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے. "
"ہر شے میں منفی اور مثبت دو رنگ ہیں
تم جس رنگ کی طرف بڑھو گی وہ رنگ تمہارا استقبال کرے گا"
"یہ تم پہ منحصر ہے ."
اچھا!! لڑکی کے لہجے میں بے یقینی تھی. انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور مذید سرگوشیاں کرنے لگے.
"اگر بہت کچھ ہمارے ہاتھ ہے توکیا ہم سب کو ایک ہی ساز سکھا سکتے ہیں یا سارے بچوں کو ایک ساسریلا بنا سکتے ہیں کہ ہر ایک کے گلے میں بھگوان بولے؟"
لڑکی نے ایک اور سوال پوچھا
"نہیں یہ رنگا رنگی ہے اور یہی حسن بھی "
"جتنے انسان اتنے رنگ جتنے چہرے اتنی انفرادیت بنیادی طور پر رنگوں کا یہ تناسب اور مقداریں ہی انفرادیت کو تخلیق کرتی ہیں.... بنیادی رنگ سب میں ایک ہیں.".
"کیامحبت ایک بنیادی رنگ ہے"ہاں یہ وہ تار ہے جس سے ہم سب بندھے ہیں.
وہ اٹھے کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہے پھر ڈولتے قدموں سےبیرونی گیٹ کی طرف ہو لیے.
میں مزار کے احاطے میں اکڑوں بیٹھا رہا اور اکتارا بجتا رہا. مجھے ابھی اپنے حصے کی سزا کاٹنی تھی.
میری نظر دیوارپر کنندہ ایک: اسم" پر رک گئی.
وجدانی حالت تھی .کوئی مجھ میں کلام کرنے لگا.
"میری انگلیاں اسے تلاش کرتی ہیں .سارے سروں میں مجھے یہ محبوب ہے شام کے اندھیرے میں صبح کے سویرے میں زرد پتوں میں سرد راتوں میں اس کے خیال کی چادر پرانی نہیں ہوتی اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے نہ یہ گلاس بھرتا ہے نہ خالی ہوتا ہے. تشنگی اور سمندر ساتھ ساتھ رہتے ہے.
میں نے پاؤں پھیلائے اور تارے گننے لگا.میرے سرہانے
اکتارا بجتا رہا.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیدبان شمارہ ۔۱۹
پڑھی لکھی اداسی
دعا عظیمی
پڑھی لکھی اداسی میرے اندر ایسے اترتی ہے جیسے ہر روز شام کچن کی کھڑکی سے گھر میں چپ چاپ اتر آئے جب میں سر جھکائے اپنے خیالوں کے جنگل میں کھڑی بظاہر بیسن پر پڑے گندے برتن دھو رہی ہوتی ہوں اور کبھی کبھار صابن لگے برتنوں کو پانی سے کھنگالتے ہوئے اپنا سر اٹھا کے بیسن کے عین اوپر لگی کھڑکی کی جالی کے پار دوسری طرف آنکھ بھر کے دیکھتی ہوں جہاں دور سے ایک چھت کی بالکنی پر لگی پینگ پر ایک بچی بےفکر اونچی اڑان والے جھولے جھول رہی ہوتی ہے ۔ اچانک میرا من بوجھل ہو جاتا ہے۔
ادھر سے پوچھا گیا
کیا آپ نے اپنے بچپن میں کبھی جھولے جھولے؟
اس نے وضاحت سے جواب دینا شروع کیا۔
وہ کافی دیر سے برقی آلے کی مدد سے سکرین پر گفتگو کر رہے تھے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو موضوعات ڈھونڈنے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ موضوعات سجی ہوئی تھالی میں سوکھے ہوئےمیوہ جات کی طرح ان کے سامنےمیز پر دھرے رہتے ہیں۔
وہ بے تکان بولتے رہتے ہیں ۔ کوئی ہم خیال مل جائے تو تھوڑی دیر کو اداسی بھگانے کے لیے گپ لگا لینا عام سی بات ہے۔
ایسے لوگ کبھی خود سے، کبھی پاس پڑی ڈائری سے تو کبھی موبائل کی سکرین پر جگماتے حروف کےجگنووں کا پیچھا کرتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے اس مشہور شخصیت کو فیس بک کی فرینڈ لسٹ میں ایڈ کیا تھا۔ مختصر سے تعارف کے بعد دو ایک بار گفتگو ہوئی تو محسوس ہوا دانشور ہیں شاید کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
بہت سے سوالات کے بعد اس نے پوچھا آپ نے کبھی پڑھی لکھی اداسی کو اپنے دل پر اترتے دیکھا ہے ؟ تھوڑی دیر سکرین پر ٹائپنگ کے نکتے سرسراتے رہے لمحہ بھر کے انتظار کے بعد جواب آیا نہیں مجھے اس کا تجربہ نہیں نہ ہی میں نے اداسی کو کبھی ایک دوسرے سے الگ الگ کیا ہے۔ بھلا کچھ اداسیاں ان پڑھ ہوتی ہیں اور کچھ پڑھی لکھی؟ ادھر سے سمائلی کی ایموجی بھیج دی گئی۔ اتنا ہی سمجھ آیا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی اداسی بھی ویل مینرڈ یعنی پڑھی لکھی ہوتی ہو گی جو اپنا آپ کسی پہ کھولتی نہیں۔ کمپوزڈ سیڈنیس۔
تھوڑی دیر تک اسے کوئی جواب نہیں سوجھا پھر اس کی انگلیاں کی بورڈ پرتیزی سے چلنے لگیں ۔
ادھر سے پوچھا گیا
کیا آپ نے اپنے بچپن میں کبھی جھولے جھولے؟
دراصل جھولے جھولنا بےفکری کی علامت ہے ہو سکتا ہے اس کا تعلق میرے بچپن کی کسی محرومی سے ہو اور ہو سکتا ہے اس کا تعلق اس بچی کے مستقبل کے بےنام اندیشوں سے جڑا ہو۔
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے میں روئی دھننے والے قدیمی پینجوں کا رخ کروں جو کپاس کو دھننے کے عمل سے گزار کر صاف کر دیتے ہیں۔
کیا میری روح میں جذب اداسیوں کو مجھ سے الگ نہیں کیا جا سکتا؟ کیا کوئی جدید مشین ایسی نہیں یا کوئی قدیم پینجا جو اپنے اوزاروں ۔کمان، پنجن، تندی، جھانڈے اور تاڑے سے میری روح کے ریشوں کو صاف شفاف کر دے۔
کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیں اس سوال کے جواب میں
اس نے وضاحت سے جواب دینا شروع کیا۔ میں بتاتی ہوں، میرے چھ بہن بھائی تھے۔ اور میری تینوں بہنیں مدرسے میں پڑھنے جاتی تھیں اور وہ دن رات وہیں بسر کرتی تھیں جب کہ دو بھائی میرے سے چھوٹے تھے۔
میرے والد ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ میری والدہ کو کالا یرقان ہو گیا تھا۔
میرے ذمے تین طرح کے کام تھے اپنے گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹانا اپنے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنا ۔ میں صبح ایک قریبی سکول میں پڑھنے جاتی تھی جس کی فیس وہ باجی دیتی تھیں جہاں میں دو ننھی بچیوں کی دیکھ بھال کرنے جاتی تھی۔ میرے کام کے عوض میں جو رقم مجھے ملتی اس سے میرے گھر میں تھوڑا سا دودھ آ جاتا تھا اور دہی جس کی چٹنی بناکے سوکھی روٹی کے ساتھ ہم صبح کا ناشتہ کرتے تھے۔
سامنے سادہ سے لباس میں صوفے پر نیم دراز پڑھی لکھی اداسی سلیقے سے اپنے بال جمائے عینگ لگا کر بہت دور کھو گئی۔ جھولے جھولنے کی خواہش کم وبیش ساری بچیوں ، نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے دلوں میں بیک وقت توے سے اترنے والی تازہ روٹی کی طرح مہکتی رہتی ہے جس کے اوپر تپتے توے کی جلن سے ننھے ننھے پھول اُگ آتے ہیں جسے دیکھ کر کھانے والے کی بھوک اور بھی چمک اٹھتی ہے۔ شاید اسے بھوک لگ رہی تھی مگر صرف اپنے لیے روٹی بنانے کو من نہیں کر رہا تھا۔
بہت دنوں بعد اس نے کسی کے ساتھ اپنے دل کی باتیں کی تھیں۔
اس نے اخبار کو ایک طرف رکھا۔ نہیں ابھی بھوک نہیں ہے اس نے چائے میں بغیر شکر کے چمچ گھماتے ہوئے کہا۔چائے میں اٹھتی بھاپ سے مکمل ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس نے ٹی وی آن کیا اور اپنے انٹیناز کو مکمل طور پر بند کر لیا ۔ اس کے باوجود اس کی حسیات خبریں جمع کر لیتی تھیں۔ دیوار سے چپکے ایل ای ڈی سے نکلنے والے شور سے اسے کچھ زیادہ رغبت نہیں تھی مگر پڑھی لکھی اداسی کو خوراک حاصل کرنے کے لیے الیکٹرانک آلات کی شدید ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دو آتشہ ہو سکے۔
میرا خیال ہے یہ خبریں ہمیں اداس نہیں کرتیں جب تک ایک شخص کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں وہ کبھی اداس نہیں ہوتا ۔ ہماری اداسیاں ہمارے من کے غبار سے جڑی ہوتی ہیں ۔ مئی میں اٹھنے والے گردو غبار کی طرح۔
ساتھ والے خالی پلاٹ میں بارش کا پانی جمع ہو چکا تھا اس سے اگلے گھر والوں نے گھر کی تعمیر کے لئے بھرتی ڈالنے کے لیے مٹی یہاں سے کھود لی تھی۔
وہاں تالاب کا سماں تھا اور مینڈکوں کا شور تاریکی بڑھنے کے ساتھ اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ شوہر سےمعمول کی وڈیو کال پر سب خیر خیریت پوچھ چکی تھی۔
تب ہی دوبارہ بات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ گرمی کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
آپ کو بارش پسند ہے ؟
مجھے بارشیں پسند ہیں مگر ایک واقعہ سناتی ہوں۔
جب میری شادی ہوئی تو میں اپنے گھر کی چھت پر نہانے چلی گئی جب میں نیچے واپس آئی تو گھر میں ایک ہنگامہ اور شورو غل مچا تھا۔۔۔ ایسے لگتا تھا کہ میں بارش میں نہائی نہیں بلکہ کسی کے ساتھ آوارگی کر کے آئی ہوں ۔
جواب میں اوہ کا پیغام دیکھا تو اس نے بات بڑھائی۔
تمام عمر ایسا نہیں ہوا بعد میں تو گھر والے بارش میں مجھے خاص طور پہ کہتے کہ تم نہاؤ ہمیں اچھا لگتا ہے وہ اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے کو رفو کر رہی تھی۔
دٔھلے آسمانوں پہ قطروں اور کرنوں کے انعکاس سے بننے والی پینگ اسے بہت حسین لگتی تھی مگر
جب تک وہ گھر والوں کو آوازیں دے کر باہر بلاتی آسمانی پینگ غائب ہو چکی ہوتی اس کی حسرت ہی رہ گئی کہ سارے گھر کے افراد بیک وقت آسمان کو ایک ساتھ دیکھ کر خوش ہوں جب اس کی اس طرح کی معصوم سی خواہشیں پوری نہ ہوتیں تو اچانک اس کے دل کے گھونسلے میں پڑھی لکھی اداسی انڈے دینے لگتی اور وہ کڑک مَلی مرغی کی طرح سب سے قطع تعلق کر لیتی۔
گھر والے سوچتے کہ شاید اس کے موڈ کا کوئی فیز چل رہا ہے یا اس میں ہارمونل پرابلم کا کوئی عمل دخل ہے۔ خیر اب تو گھر کے ارکان الگ الگ ہو چکے تھے۔
بہرحال یہ سب پڑھے لکھے لوگوں کی کیفیات کو جواز فراہم کرنے والی باتیں ہیں ۔۔ ان سے آخری چیٹ میں یہی سب باتیں ہوئی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کیسی عجیب بات ہے انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں مجھے بہت کم بتایا ہے۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے بارے میں بہت کم بتاتے ہیں۔ ویسے اسے بھی تو پوچھنے سے زیادہ بتانے میں تسکین ملتی ہے۔ وہ سوچتی ہم سب سیلف سینڑرڈ ہی تو ہیں۔ اپنے گرد گھومنے والے لٹو۔
اگلے دن سوشل۔میڈیا پر ان کی موت کی خبر پڑھ کر بےحد افسوس ہوا۔
یہ کوئی سنجیدہ ربط نہیں تھا مگر عجیب سا ذہنی تعلق بن چکا تھا۔ اس کی چند ایک سہیلیوں کا خیال تھا پرسہ دینے ان کے گھر جایا جائے۔ ادبی حلقے کی مشہور شخصیت کا اس طرح اچانک چلے جانا سانحے سے کم نہ تھا۔
اس نے سوچا کہ دکھ کی سانجھ بہت اچھی چیز ہوتی ہے ۔
یہ موت کا دوسرا دن تھا۔ پرسہ کے لیے دن کا انتخاب اس کی سہیلیوں کا تھا۔
گھر ایک اچھی سوسائٹی میں تھا ۔ گھر کے سامنے چوڑی سی سڑک کے دونوں اطراف باہر سے لے کر اندر تک گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ۔ بیرونی دیواروں سے ہی امارت اور آرٹ جھلک رہا تھا ۔ ان کا گھر بےحد بڑا اور شاندار تھا مگر محسوس ہوا سب کچھ بہت فارمل ہے۔ ۔ اس سے پہلے اس نے ایسے منظر نہیں دیکھے تھے۔ گرمی کے دن تھے۔ اندر کا ماحول اے سی کی وجہ سے خاصا ٹھنڈا تھا۔ ڈرائینگ روم میں مرد حضرات چائے پی رہے تھے۔ جب کہ ٹی۔ وی لاونج کے صوفوں پر خاصی خوش شکل اور خوش لباس خواتین خاموش بیٹھی تھیں۔ سامنے والی دیوار پر بڑی سی پینٹنگ تھی جس پر نارنجی اور گرے رنگ نمایاں تھے یہی رنگ پردوں اور صوفوں کے ڈیزائن میں استعمال ہوئے تھے۔ پورے ماحول میں ایک گہری سنجیدگی کا بہاؤ تھا ۔۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ موت کے گھر سے کوئی آہ و پکار کوئی سسکی کی آواز آئے مگر وہاں کے مکین جانتے تھے کہ یہ سب آداب کے خلاف ہے ۔ چند کلمات کے بعد سب سر جھکا کے بیٹھ گئے جیسے مراقبے میں چلے گئے ہوں اسے لگا مرنے والے نے اپنی موت کا کچھ حصہ ان میں بانٹ دیا ہے جسے وہ سلیقے سے سنبھال کے بیٹھے ہوں۔ ۔ اس نے سوچا کہ پڑھی لکھی اداسی تو اس گھر کی میزبان ہے اور وہ کہتے تھے انہیں نہیں معلوم یہ ہوتی کیا ہے۔
ایک سرگوشی ابھری تین سال سے یہ صاحبِ فراش تھے۔ ان کے اہل و عیال ابھی پہنچ نہیں پائے لاش سرد خانے میں ہے۔ ان کے آنے میں ایک ماہ باقی ہے جب وہ آئیں گے تو ہی کفن دفن ہو گا۔
اس نے کن اکھیوں سے اپنی سہیلیوں کی طرف دیکھا۔ وہ بھی فرش کی ٹائلیں گننے میں مگن تھیں ۔ پڑھی لکھی اداسی کے سارے انڈے ٹوٹ گئے اور وہ اس خاموشی میں اچانک دھاڑیں مار مار کے رونے
لگی۔
************************************
اور اکتارا بجتا رہا:دعا عظیمی
بہت سے اور لوگوں کے ساتھ میں بھی صاحب مزار کے قدموں کی طرف احاطے میں سستانے لگا.میں بہت دور سے میلوں کا سفر طے کرتا ہوا یہاں آیا کرتا تھا . شاہ جو رسالو کے راگوں کی کشش مجھے ہر سال یہاں کھینچ لاتی.
سانس پھولتی, تیز ہوتی اور مدھم
مگر ایکتارا بجتا رہتا.
میری روح کی پرت پر اک بجھتے ہوئے چراغ کی پھڑپھڑاتی لو سے اٹھنے والے دھوئیں , سائے اور تھرتھراہٹ سے کچھ دھندلی تحریریں لکھی تھیں.آج میں انہیں دہرانا چاہتا تھا.
میرے بالکل قریب ایک نوجوان حالت مرگ میں چارپائی پر آخری سانسیں لے رہا تھا. وہ بڑ بڑا رہا تھا . وہ کہہ رہا تھا
"جس کا انتظار ساری زندگی میری روح میں کسی تیز لو کی طرح جلتا رہا وہ کیا تھا؟
کیا وہ یہی لمحہ تھا!!!
میں نے اپنی پوری کوشش کے ساتھ آنکھیں کھولیں اسے دیکھنا چاہا مگر میری آنکھوں میں بھی ٹوٹے خوابوں کی سلگن تھی.
وہ پھر بڑبڑایا
"شایداب آنکھیں بند رہنے میں ہی عافیت ہے- میں نے اپنے حصے کے دکھ بھوگ لیے اور اپنے تن کو دو حصوں میں کٹتے دیکھا "
"میں نے بےبسی کی آخری حد کو چھو لیا ".میں نے بےبسی کےآخری کنارے اور آخری انتہا کے لمحے کو چھو لیا "
"درد کی معراج"
"یہی زندگی کا آخری لمحہ ہے اور اسے خداحافظ کہنے کا راستہ"
"تمام بوجھ آج کے دن مجھ سے جدا ہوئے."
جب میں راحت پا جاؤں تو میرے سرہانے ایکتارا بجانا.
جانے کون تھا؟
شاید میں!
نوجوان کے لواحقین اس کی چارپائی کو اٹھا کر بیرونی دروازے سے باہر لے گئے اور اکتارا بجتا رہا -
شاہ لطیف جو سروں کا سالار ہے .زمانے کو اکتار سے تین تاروں کا سفر طے کرنے والا اور تین سے پانچ, پانچ تاروں والے سازسر بکھیرتے رہے. میں نے محسوس کیا بزرگ راگ کی دھنوں میں امن کی دعا ہے.فقیر بولا یہ روحانی راگ ہے..جو پچھلے تین سو برسوں سے دائمی سر الاپ رہا ہے. شاہ کی کھڑکی کے پاس کافی بھیڑ تھی.
کالی چادر میں لپٹی اک عورت دعا مانگتی رہی الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر میری سماعت سے ٹکراتے رہے..
"یہ کیسی چنگاری ہے جو ہر ایک کے سینے میں جلتی ہے جسے حیات کہتے ہیں , ہر درخت کے سینے میں جلنے والی چنگاری..."
عورت امید سے تھی. وہ دعا مانگ رہی تھی
"اے ہرن اور اونٹ کی ہڈیوں سے بنے ساز تجھے تیرے تار کی سوگند
" مجھ بے بس پر غم کا قہر نہ توڑ ہر زندہ جان کو اطیمنان عطا کر"
ہر روح پر لطف کی لطیف بارش برسا جیسے کہ تو نے شہر بھنبور کی شاہزادیوں اور سندھ کی بیٹیوں, ماروی, سسی ,مومل ,سوہنی , لیلاں سورٹھ پر برسائی.......
بیابانوں ساحلی علاقوں کے جوگیوں سنیاسیوں ماہی گیروں, جولاہوں اور چرواہوں کے درد کو بیان کرنے والے امن کے تیسیوں سر سارے جہان کے لیے ہیں.
عورت کی آواز آنسووں سے جلتے تن کے تندروں کی آگ کو گل و گلزار بنانے والے سازوں مکتی عطا کرنے والے سروں کے بادشاہ میرے سر کے سائیں کو حیاتی دے اور
میرے دامن میں پھول کھلا دے "
وہ دیر تلک دعا مانگتی رہی سب سے بے نیاز اکتارا بجتا رہا.
میرے دائیں ہاتھ جدید تراش کے کپڑے پہنے ایک جوڑا سرگوشیوں میں مصروف تھا. شاید یہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے .محبت کرتے کرتے فلسفہ بولنے لگتے اور فلسفہ بولتے بولتے ایک دوجے میں کھو جاتے.کبھی ڈولتے کبھی بولتے.
لڑکا بولا
موت پراسرار ہے اور محبت حسین.
لڑکی نے پوچھا اور زندگی؟؟
کہنے لگا ,
"زندگی معصوم بچے کی آنکھوں میں ٹھہری اجلی روشنی ہےچاہو تو تم اسے دل میں بھر لو اور اپنی ہر صبح روشن کر لو."
"موت پراسرار کیوں ہے؟
اس کے بارے میں کوئی مکمل نہیں جانتا یہ کب کہاں کس حال میں آن ملے اور کیا سلوک کرے اور کہاں لے جائے
چلو پھر زندگی کی بات کرو. لڑکی نے اس سے مذید چپکتے ہوئے کہا
"کیا زندگی محبت معصومیت اور موت کے اثر سے محفوظ ہے؟؟لڑکی اپنے دوست کے خیالات جاننا چاہتی تھی.
"انسانی زندگی ایک ندی کی طرح رواں
دریا کی طرح بے کنار اور سمندر کے پانیوں جیسی گہری اور پراسرار ہے"
جو اسےشراب سمجھے اس کے لیے شراب جو اسے زہر مانے اس کے لیے زہرجو اسے دودھ جیسی متبرک جانے اس کے لیے متبرک
گویا زندگی کا اصل جوہر تمہاری سوچ ہے "
"تم جس انداز سے اسے دیکھو گی یہ اس انداز میں ڈھلتی چلی جائے گی"دونوں کے بیچ دھیمے سروں میں مکالمہ چل رہا تھا.
"ایسا کیسے ممکن ہے"؟
کیا میں اپنی روح میں رنگ بھرنے پر قادر ہوں؟
"کیا میں حالات اور نسلوں کے چھوڑے ہوئے جینز کی پیداوار نہیں؟"
"تم سچ کہہ رہی ہو بہت حد تک مگر اس سے زیادہ امکان ہے کہ بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے. "
"ہر شے میں منفی اور مثبت دو رنگ ہیں
تم جس رنگ کی طرف بڑھو گی وہ رنگ تمہارا استقبال کرے گا"
"یہ تم پہ منحصر ہے ."
اچھا!! لڑکی کے لہجے میں بے یقینی تھی. انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور مذید سرگوشیاں کرنے لگے.
"اگر بہت کچھ ہمارے ہاتھ ہے توکیا ہم سب کو ایک ہی ساز سکھا سکتے ہیں یا سارے بچوں کو ایک ساسریلا بنا سکتے ہیں کہ ہر ایک کے گلے میں بھگوان بولے؟"
لڑکی نے ایک اور سوال پوچھا
"نہیں یہ رنگا رنگی ہے اور یہی حسن بھی "
"جتنے انسان اتنے رنگ جتنے چہرے اتنی انفرادیت بنیادی طور پر رنگوں کا یہ تناسب اور مقداریں ہی انفرادیت کو تخلیق کرتی ہیں.... بنیادی رنگ سب میں ایک ہیں.".
"کیامحبت ایک بنیادی رنگ ہے"ہاں یہ وہ تار ہے جس سے ہم سب بندھے ہیں.
وہ اٹھے کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہے پھر ڈولتے قدموں سےبیرونی گیٹ کی طرف ہو لیے.
میں مزار کے احاطے میں اکڑوں بیٹھا رہا اور اکتارا بجتا رہا. مجھے ابھی اپنے حصے کی سزا کاٹنی تھی.
میری نظر دیوارپر کنندہ ایک: اسم" پر رک گئی.
وجدانی حالت تھی .کوئی مجھ میں کلام کرنے لگا.
"میری انگلیاں اسے تلاش کرتی ہیں .سارے سروں میں مجھے یہ محبوب ہے شام کے اندھیرے میں صبح کے سویرے میں زرد پتوں میں سرد راتوں میں اس کے خیال کی چادر پرانی نہیں ہوتی اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے نہ یہ گلاس بھرتا ہے نہ خالی ہوتا ہے. تشنگی اور سمندر ساتھ ساتھ رہتے ہے.
میں نے پاؤں پھیلائے اور تارے گننے لگا.میرے سرہانے
اکتارا بجتا رہا.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭