چھان بین
چھان بین
Mar 12, 2018
دیدبان شمارہ ۔۷
افسانہ : چھان بین
زیب اذکار حسین
اب یہ بات حیرت کے مقام سے آگے چلی گئی تھی اب اس میں خوف کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا، پہلے ان کا کئی کئی روز تک نہ آنا کھلتا تھا اور اب جب کہ وہ آنے لگے تھے تو کئی ایک کا ،ایک ساتھ آنا کھٹکنے لگا تھا ۔بہت سے خیالات جیسے آپس میں گتھم کتھا ہوگئے تھے ، چیزوں کی حرکات و سکنات کو دیکھنا ،سمجھنا اور پھر خود سے بیان کرنا تقریبا ناممکن سا ہوگیا تھا۔کیا اس طرح سے کہوں کہ جب وہ اچانک غائب ہو جاتے تو ایک عرصے تک اُن کی خیر خیریت کا پتانہ چلتا تھا ، یایوں سوچوں کے جب وہ آتے اور وہ بھی جیسے محتاط ٹولیوں کی شکل میں ،تو میں کس طرح کی کوفت سے گزرتا تھا ۔اُن کا نہ آنا اگر ایک عجیب سی اذیت میں مبتلا کر دیتا تھا، تو اُن کا اچانک چھوٹے چھوٹے سے گروہوں کی صورت نمودار ہونا بھی ایک دوسری طرح کی کوفت سے دوچار کرنے کا سبب بن جاتا تھا ، یہ قرین انصاف تو نہیں تھا ۔ اس کے باوجود میں نے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی تھی میں شکایت تو کیا کسی سے کرتا ، اس بابت سوچنا بھی میرے لیئے سوہان روح بن جایا کر تھا تھا۔بس میں خود سے ہی جنگ کرتارہتا تھا ، اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا ہے ؟ اگر کچھ سمجھے ہو تو پھر کچھ سمجھاؤ بھی ۔ ۔۔مجھے تو کبھی اپنے آپ سے بھی کوئی جواب نہ مل سکا تھا، اس ساری صورت حال پر بیشتر اوقات تو میں خود کو ہی مورد الزام ٹھہراتا رہتا تھا ، یہی خیال آتا کہ شاید مجھ سے کوئی بھول ہو گئی ہے، کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہوگئی ہے جس سے میں خود بھی لاعلم ہوں،کوئی ایسی غلطی جس نے اُن کو انفرادی سطح پر مجھ سے غافل کر دیا ہے اور انہوں نے انفرادی طور پر میرے ہاں آنا جانا تقریبا موقوف کر دیا تھا۔ جب بھی آتے ایک ساتھ آتے، الگ الگ کبھی نہ آتے ، گویا میں ٹولیوں میں بٹ کر رہ گیا تھا، ایک کی سنتا تو دوسرے کی بات سر سے گزر جاتی اور دوسرے کی طرف متوجہ ہوتا تو پہلے کی سنی گئی بات بھی بُھلا بیٹھتا، اور وہ تھے کہ اپنی سی ادھر اُدھر کی باتیں کر کے ایک ساتھ واپس بھی چلے جاتے، نہ کسی بات کے کہنے میں لطف آتا تھا اور نہ کسی بات کے سننے میں دلکشی رہی تھی ۔ اس کے باوجود مجھے اکثر یہ گمان گزرتا تھا کہ ان کا مجھ سے یہ تعلق قائم رکھنا بھی اُن کے مہر بان ہونے کا غماز ہے ، دوسرے لفظوں میں وہ کہیں نہ کہیں اب بھی مجھ پر مہر بان تھے، جب ہی تو وہ الگ الگ نہ سہی ٹولیوں کی صورت آموجود ہوتے تھے ، یہ بات اپنی جگہ پرتھی کہ میں انفرادی طور پر کسی سے محو گفتگو نہ ہو سکتا تھا ،مگر کسی نے مجھ ایسا کرنے سے کبھی منع بھی نہیں کیا تھا، بظاہر مجھ پر کوئی ایسی پابندی نہیں تھی کہ میں کس سے بات کروں اور کسی سے نہ کروں، یا یہ بات کہوں اور یہ بات نہ کہوں ، اور نہ ہی میرے کسی بات کے پوچھنے پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن میں اس نئے قائم شدہ تعلقات اور ماحول میں کُھل کر کوئی بھی بات نہیں کہ سکتاتھا، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ جیسے ہر ایک مجھے جُل دینے پر تلا تھا ، کوئی ایسا موقع نہیں دیاجا رہا تھا کہ میں بلا جھجک گُفت و شنید کر سکوں ، ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے ہر ایک کے اندرکوئی ایسی اشارت موجود ہے جو سوال و جواب کی تنسیخ پر بضد ہے ۔ کبھی تو ایسا لگتا جیسے میں خود بھی اس ماحول کو اس وقت تک بر قرار رکھنا چاہتا ہوں جب تک مجھ اصل وجہ کا علم نہیں ہو جاتا ۔ اور کبھی یہ احساس جاگتا کہ نیند کے دوران کئی نہ کوئی آتا ہے اور میرے حصّے کی لفظی روشنی پر قابض ہو جاتا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی پہلے بھی تو وہ ایک ساتھ آیا کر تے تھے ، کبھی ایک ساتھ اور کبھی الگ الگ ، مجھے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرتا تھا کہ کوئی عجیب بات واقع ہوئی ہے یا کوئی واقعہ معمول سے ہٹ کر وقوع پزیر ہوا ہے اس لیئے کہ پہلے اس طرح کی صورت سے میں دوچار نہیں ہوا تھا، کبھی کسی طرح کے تناؤ کی کیفیت دیکھنے میں نہیں آئی تھی، لیکن اب ایک تناؤ کی صورت پیدا ہوگئی تھی اب پہلے جیسی بات نہیں رہتی تھی ۔پہلے میں کسی کے بارے میں کسی سے کچھ بھی کہہ سکتا تھا ، پوچھ سکتا تھا اور یہ اس کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ میرے سوال کا جواب دے یا نہ دے یا چاہے تو اسے مذاق میں ہی ٹال دے ۔ان دنوں نہ ہی تو میر ا کچھ پوچھ لینا اچھنبے کی بات سمجھا جاتا تھا اور نہ کسی کا ٹال دینا کوئی عجیب بات سمجھی جاتی تھی، دوطرفہ دوستی میں تو یہ ہوتا ہی رہتا ہے، میں کسی کی بھی غیر حا ضری کا سبب جانے کا حق رکھتا تھا اور آنے والا بھی اپنا یہ حق محفوظ ر کھتا تھا کہ وہ بتائے ،نہ بتائے یا میرے سوال کا ہی مذاق اڑا دے ، اس لئے کہ ہما را تعلق محض رسمی سا نہیں تھا اور اب کوئی اکا دُکا تو بھٹک کر بھی اس طرف کا رخ نہ کر تا تھا ۔ یہ تبدیلی میرے لیئیے باعث حیرت تو تھی ہی اب باعث تشویش بن چکی تھی بلکہ اب اس میں کچھ خوف کا عنصر بھی شامل ہوتا جارہا تھا، یہ میں ہی تو تھا جس کے ہا ں اُن کا قیام گھنٹوں بلکہ دنوں تک رہتا تھا، آخر ایسا کیا ہو ا تھا کہ وہ کبھی کبھار اور وہ بھی ایک رسمی سا تعلق نبھانے کو آجایا کرتے تھے اور مجھے کسی ایک سے بھی تنہائی میں بات کرنے کا موقع فراہم نہ کرتے تھے، یہ میں ہی تھا جس کے ہاں جسے جب فرصت ملتی تھی آدھمکتا تھا ۔میں کبھی کسی کی آمد سے بے زار نہیں ہوا تھا بلکہ مجھے تو خوشی محسوس ہوتی اور طمانیت کا احساس ہوتا تھا ، یہ ان کا اپناہی گھر تھا ، اسی لیئے تو آبھی جایا کرتے تھے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر، میرے ہاں تو ان کیلئے کبھی جنس کی تفریق بھی نہیں رہی تھی ، جنسی تفریق رکھنے کا روادار میں ہو بھی نہیں سکتا تھا، اس لیئے کہ میرے لیئے وہ سب برابر تھے، کسی تذکیر و تانیث کے بغیر ، نہ کوئی مذکر تھا، نہ مؤنث، نہ چھوٹا اور نہ بڑا، جو جب چاہے شوق سے آئے ،نہ رنگ کی تفریق نہ روایت کی قید ،اور نہ تحریف کی گنجائش۔
جب وہ اچانک کم کم آنے لگے تھے تو میری تشویش کا دور شروع ہوگیا تھا ، مجھے حیرت تو تھی ہی اب افسوس بھی لاحق رہنے لگا تھا حیرت تو اس امر پر تھی کہ وہ دفعتا کہاں چلے جاتے ہیں ، اسی شہر میں موجود ہوتے ہیں یا کہیں اور کو روانہ ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی خوشی سے کچھ دنوں کے لیئے واپس آجاتے ہیں ، جب وہ غائب ہوتے تو لوٹنے کا نام نہ لیتے اور جب لوٹتے تو بس ایک سر سری سی ملاقات کر کے از سرنو غائب ہوجاتے ، افسوس مجھے اس بات پر لا حق رہنے لگا تھا کہ پہلے تو وہ مجھ سے کوئی بات چھپایا نہیں کرتے تھے
اور اب جیسے کوئی بات بتانا اُن کی شان کے خلاف تھا ،یا اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ وہ مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اپنے دل کا حال بتاتے ، یا یو ں کہئے کہ مجھے اپنے کسی رازمیں شریک کرتے ۔۔۔ گویا میں انکی روشن روش سے محرم ہوچکا تھا، ان کے اس انداز ملاقات نے میرا قلبی سکون برباد کر کے رکھ دیا تھا، اُس پر اس پابندی نے تو مجھے جیسے ادھ موا ہی کر ڈالا تھا کہ میں ان سے کوئی سوال بھی نہیں پوچھ سکتا تھا ۔مجھے کوئی ایسا موقع بھی تو نہیں مل سکا تھا،کہ میں ان سے کوئی سوال پوچھ سکوں۔۔۔
آتے ہی کوئی یہاں بیٹھ جاتا تو کوئی وہاں ،کوئی میرے کمرے میں نصب زیرو کینڈل پاور بلب کو گھورنے لگتا تو کوئی میرے پلنگ پر بچھی چادر کی سلوٹوں پر نظریں جمائے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہتا ،بجھے اب اُن کی احتیاط پسندی سے خوف آنے لگا تھا ۔وہ چلے جاتے تو میں سوچتا کہ اس ملاقات کا کیا حاصل رہا تھا، کبھی سوچتا اپنے کمرے کی ترتیب بدل ڈالوں، کبھی سوچتا اس مکان کو خیر باد کہ دوں اور کبھی خیال آتا کہ ہر طرح کے خیال کو ،ہر طر ح کے لفظ ، ہر طرح کے احساس کو اپنے ذہن سے جھٹک دوں ،مگر یہ آسان کہاں تھا، کوئی لفظ میسّر بھی تو ہوتا۔۔۔۔۔سارا مسئلہ تو لفظوں کی کمیابی ہی کا تھا۔
ایک رات مجھے خیال آیا کہ شاید اُنہیں میرا بستر پر سونا کھٹکتا ہے ، میں نے اپنے کمرے سے بستر ہی ہٹا دیا اور فرش پر سونا شروع کر دیا ،میرے اس عمل نے بھی ان پر کوئی اثر نہ ڈالا تھا۔اس کے بجائے مجھے تو یوں لگا کہ الٹا اثر ہو گیا ہے، اب وہ کسی بھی بات کا ہوں ہاں کے علاوہ جواب ہی نہیں دیتے تھے حد تو یہ ہے کہ وہ نظریں چُراکر بات کر نے لگے تھے ۔انکے اس طرح کے سلوک نے تو میرے دماغ تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، ایک رات اسی دماغی کیفیت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں گھر سے باہر جھانک کر تو دیکھوں کہ یہ کیسی کھسر پھسر ہورہی ہے ،دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا، واپس کمرے میںآیا اور ابھی سونے کا ارادہ کیا ہی تھا ، کہ پھر سے کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں ،میں بھی چوکنے والا نہیں تھا ننگے پاؤں بھاگنے کا خیال آیا مگر یو ں لگا کہ کوئی لفظ منمنا رہا ہے’’ دبے پاؤں چلیئے ‘‘ میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، دبے پاؤں کمرے سے باہر آیا
،بہت احتیاط سے مرکزی دروازے کا ایک پٹ کھولا اور واضع طور پر دیکھ لیا کہ یہ اُنہی میں سے ایک تھا جو نہایت معصومیت سے کان لگائے کچھ سننے کی کوشش کر رہا تھا یا پھر کچھ جاننے کی تگ و دو میں تھا ، جب اُس نے مجھے دیکھا تو کچھ ہڑبڑا سا گیا اور پھر فورا آواز دے کر ایک اور دوست کو اپنے پاس بلانے لگا ، شاید وہ کہیں قریب ہی موجود تھا، جب ہی تو ذرا دیر میں سامنے آگیا اور اب وہ دونوں میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے ،میرے استفسار پر دونوں ایک ساتھ اشارے سے گویا ہوئے ’’کوئی خاص بات نہیں تھی، ادھر سے گزر ے تو سوچا آپ کی خیریت دریافت کرتے جائیں
ان کے اس اشارے میں ایک ایسی روشنی پنہاں تھی جس نے مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا اور میں ایک لفظ بولے بغیر واپس چلاآیا تھا ، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس روشنی نے جن احساسات کو میرے ذہن و دل پر مرتب کیا ہے ان احساسات کو اپنانے کے لیئے فی الوقت ایک لفظ بھی میّسر نہیں ہے اور یہ وقت ناراض ہونے کا، پچھتانے کا یا سونے کا نہیں ہے، بلکہ کچھ اور کرنے کا ہے ۔۔۔۔۔البتہ کچھ اور کرنے کی بابت میں اب تک لاعلم تھا۔۔۔
--------------
دیدبان شمارہ ۔۷
افسانہ : چھان بین
زیب اذکار حسین
اب یہ بات حیرت کے مقام سے آگے چلی گئی تھی اب اس میں خوف کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا، پہلے ان کا کئی کئی روز تک نہ آنا کھلتا تھا اور اب جب کہ وہ آنے لگے تھے تو کئی ایک کا ،ایک ساتھ آنا کھٹکنے لگا تھا ۔بہت سے خیالات جیسے آپس میں گتھم کتھا ہوگئے تھے ، چیزوں کی حرکات و سکنات کو دیکھنا ،سمجھنا اور پھر خود سے بیان کرنا تقریبا ناممکن سا ہوگیا تھا۔کیا اس طرح سے کہوں کہ جب وہ اچانک غائب ہو جاتے تو ایک عرصے تک اُن کی خیر خیریت کا پتانہ چلتا تھا ، یایوں سوچوں کے جب وہ آتے اور وہ بھی جیسے محتاط ٹولیوں کی شکل میں ،تو میں کس طرح کی کوفت سے گزرتا تھا ۔اُن کا نہ آنا اگر ایک عجیب سی اذیت میں مبتلا کر دیتا تھا، تو اُن کا اچانک چھوٹے چھوٹے سے گروہوں کی صورت نمودار ہونا بھی ایک دوسری طرح کی کوفت سے دوچار کرنے کا سبب بن جاتا تھا ، یہ قرین انصاف تو نہیں تھا ۔ اس کے باوجود میں نے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی تھی میں شکایت تو کیا کسی سے کرتا ، اس بابت سوچنا بھی میرے لیئے سوہان روح بن جایا کر تھا تھا۔بس میں خود سے ہی جنگ کرتارہتا تھا ، اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا ہے ؟ اگر کچھ سمجھے ہو تو پھر کچھ سمجھاؤ بھی ۔ ۔۔مجھے تو کبھی اپنے آپ سے بھی کوئی جواب نہ مل سکا تھا، اس ساری صورت حال پر بیشتر اوقات تو میں خود کو ہی مورد الزام ٹھہراتا رہتا تھا ، یہی خیال آتا کہ شاید مجھ سے کوئی بھول ہو گئی ہے، کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہوگئی ہے جس سے میں خود بھی لاعلم ہوں،کوئی ایسی غلطی جس نے اُن کو انفرادی سطح پر مجھ سے غافل کر دیا ہے اور انہوں نے انفرادی طور پر میرے ہاں آنا جانا تقریبا موقوف کر دیا تھا۔ جب بھی آتے ایک ساتھ آتے، الگ الگ کبھی نہ آتے ، گویا میں ٹولیوں میں بٹ کر رہ گیا تھا، ایک کی سنتا تو دوسرے کی بات سر سے گزر جاتی اور دوسرے کی طرف متوجہ ہوتا تو پہلے کی سنی گئی بات بھی بُھلا بیٹھتا، اور وہ تھے کہ اپنی سی ادھر اُدھر کی باتیں کر کے ایک ساتھ واپس بھی چلے جاتے، نہ کسی بات کے کہنے میں لطف آتا تھا اور نہ کسی بات کے سننے میں دلکشی رہی تھی ۔ اس کے باوجود مجھے اکثر یہ گمان گزرتا تھا کہ ان کا مجھ سے یہ تعلق قائم رکھنا بھی اُن کے مہر بان ہونے کا غماز ہے ، دوسرے لفظوں میں وہ کہیں نہ کہیں اب بھی مجھ پر مہر بان تھے، جب ہی تو وہ الگ الگ نہ سہی ٹولیوں کی صورت آموجود ہوتے تھے ، یہ بات اپنی جگہ پرتھی کہ میں انفرادی طور پر کسی سے محو گفتگو نہ ہو سکتا تھا ،مگر کسی نے مجھ ایسا کرنے سے کبھی منع بھی نہیں کیا تھا، بظاہر مجھ پر کوئی ایسی پابندی نہیں تھی کہ میں کس سے بات کروں اور کسی سے نہ کروں، یا یہ بات کہوں اور یہ بات نہ کہوں ، اور نہ ہی میرے کسی بات کے پوچھنے پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن میں اس نئے قائم شدہ تعلقات اور ماحول میں کُھل کر کوئی بھی بات نہیں کہ سکتاتھا، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ جیسے ہر ایک مجھے جُل دینے پر تلا تھا ، کوئی ایسا موقع نہیں دیاجا رہا تھا کہ میں بلا جھجک گُفت و شنید کر سکوں ، ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے ہر ایک کے اندرکوئی ایسی اشارت موجود ہے جو سوال و جواب کی تنسیخ پر بضد ہے ۔ کبھی تو ایسا لگتا جیسے میں خود بھی اس ماحول کو اس وقت تک بر قرار رکھنا چاہتا ہوں جب تک مجھ اصل وجہ کا علم نہیں ہو جاتا ۔ اور کبھی یہ احساس جاگتا کہ نیند کے دوران کئی نہ کوئی آتا ہے اور میرے حصّے کی لفظی روشنی پر قابض ہو جاتا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی پہلے بھی تو وہ ایک ساتھ آیا کر تے تھے ، کبھی ایک ساتھ اور کبھی الگ الگ ، مجھے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرتا تھا کہ کوئی عجیب بات واقع ہوئی ہے یا کوئی واقعہ معمول سے ہٹ کر وقوع پزیر ہوا ہے اس لیئے کہ پہلے اس طرح کی صورت سے میں دوچار نہیں ہوا تھا، کبھی کسی طرح کے تناؤ کی کیفیت دیکھنے میں نہیں آئی تھی، لیکن اب ایک تناؤ کی صورت پیدا ہوگئی تھی اب پہلے جیسی بات نہیں رہتی تھی ۔پہلے میں کسی کے بارے میں کسی سے کچھ بھی کہہ سکتا تھا ، پوچھ سکتا تھا اور یہ اس کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ میرے سوال کا جواب دے یا نہ دے یا چاہے تو اسے مذاق میں ہی ٹال دے ۔ان دنوں نہ ہی تو میر ا کچھ پوچھ لینا اچھنبے کی بات سمجھا جاتا تھا اور نہ کسی کا ٹال دینا کوئی عجیب بات سمجھی جاتی تھی، دوطرفہ دوستی میں تو یہ ہوتا ہی رہتا ہے، میں کسی کی بھی غیر حا ضری کا سبب جانے کا حق رکھتا تھا اور آنے والا بھی اپنا یہ حق محفوظ ر کھتا تھا کہ وہ بتائے ،نہ بتائے یا میرے سوال کا ہی مذاق اڑا دے ، اس لئے کہ ہما را تعلق محض رسمی سا نہیں تھا اور اب کوئی اکا دُکا تو بھٹک کر بھی اس طرف کا رخ نہ کر تا تھا ۔ یہ تبدیلی میرے لیئیے باعث حیرت تو تھی ہی اب باعث تشویش بن چکی تھی بلکہ اب اس میں کچھ خوف کا عنصر بھی شامل ہوتا جارہا تھا، یہ میں ہی تو تھا جس کے ہا ں اُن کا قیام گھنٹوں بلکہ دنوں تک رہتا تھا، آخر ایسا کیا ہو ا تھا کہ وہ کبھی کبھار اور وہ بھی ایک رسمی سا تعلق نبھانے کو آجایا کرتے تھے اور مجھے کسی ایک سے بھی تنہائی میں بات کرنے کا موقع فراہم نہ کرتے تھے، یہ میں ہی تھا جس کے ہاں جسے جب فرصت ملتی تھی آدھمکتا تھا ۔میں کبھی کسی کی آمد سے بے زار نہیں ہوا تھا بلکہ مجھے تو خوشی محسوس ہوتی اور طمانیت کا احساس ہوتا تھا ، یہ ان کا اپناہی گھر تھا ، اسی لیئے تو آبھی جایا کرتے تھے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر، میرے ہاں تو ان کیلئے کبھی جنس کی تفریق بھی نہیں رہی تھی ، جنسی تفریق رکھنے کا روادار میں ہو بھی نہیں سکتا تھا، اس لیئے کہ میرے لیئے وہ سب برابر تھے، کسی تذکیر و تانیث کے بغیر ، نہ کوئی مذکر تھا، نہ مؤنث، نہ چھوٹا اور نہ بڑا، جو جب چاہے شوق سے آئے ،نہ رنگ کی تفریق نہ روایت کی قید ،اور نہ تحریف کی گنجائش۔
جب وہ اچانک کم کم آنے لگے تھے تو میری تشویش کا دور شروع ہوگیا تھا ، مجھے حیرت تو تھی ہی اب افسوس بھی لاحق رہنے لگا تھا حیرت تو اس امر پر تھی کہ وہ دفعتا کہاں چلے جاتے ہیں ، اسی شہر میں موجود ہوتے ہیں یا کہیں اور کو روانہ ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی خوشی سے کچھ دنوں کے لیئے واپس آجاتے ہیں ، جب وہ غائب ہوتے تو لوٹنے کا نام نہ لیتے اور جب لوٹتے تو بس ایک سر سری سی ملاقات کر کے از سرنو غائب ہوجاتے ، افسوس مجھے اس بات پر لا حق رہنے لگا تھا کہ پہلے تو وہ مجھ سے کوئی بات چھپایا نہیں کرتے تھے
اور اب جیسے کوئی بات بتانا اُن کی شان کے خلاف تھا ،یا اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ وہ مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اپنے دل کا حال بتاتے ، یا یو ں کہئے کہ مجھے اپنے کسی رازمیں شریک کرتے ۔۔۔ گویا میں انکی روشن روش سے محرم ہوچکا تھا، ان کے اس انداز ملاقات نے میرا قلبی سکون برباد کر کے رکھ دیا تھا، اُس پر اس پابندی نے تو مجھے جیسے ادھ موا ہی کر ڈالا تھا کہ میں ان سے کوئی سوال بھی نہیں پوچھ سکتا تھا ۔مجھے کوئی ایسا موقع بھی تو نہیں مل سکا تھا،کہ میں ان سے کوئی سوال پوچھ سکوں۔۔۔
آتے ہی کوئی یہاں بیٹھ جاتا تو کوئی وہاں ،کوئی میرے کمرے میں نصب زیرو کینڈل پاور بلب کو گھورنے لگتا تو کوئی میرے پلنگ پر بچھی چادر کی سلوٹوں پر نظریں جمائے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہتا ،بجھے اب اُن کی احتیاط پسندی سے خوف آنے لگا تھا ۔وہ چلے جاتے تو میں سوچتا کہ اس ملاقات کا کیا حاصل رہا تھا، کبھی سوچتا اپنے کمرے کی ترتیب بدل ڈالوں، کبھی سوچتا اس مکان کو خیر باد کہ دوں اور کبھی خیال آتا کہ ہر طرح کے خیال کو ،ہر طر ح کے لفظ ، ہر طرح کے احساس کو اپنے ذہن سے جھٹک دوں ،مگر یہ آسان کہاں تھا، کوئی لفظ میسّر بھی تو ہوتا۔۔۔۔۔سارا مسئلہ تو لفظوں کی کمیابی ہی کا تھا۔
ایک رات مجھے خیال آیا کہ شاید اُنہیں میرا بستر پر سونا کھٹکتا ہے ، میں نے اپنے کمرے سے بستر ہی ہٹا دیا اور فرش پر سونا شروع کر دیا ،میرے اس عمل نے بھی ان پر کوئی اثر نہ ڈالا تھا۔اس کے بجائے مجھے تو یوں لگا کہ الٹا اثر ہو گیا ہے، اب وہ کسی بھی بات کا ہوں ہاں کے علاوہ جواب ہی نہیں دیتے تھے حد تو یہ ہے کہ وہ نظریں چُراکر بات کر نے لگے تھے ۔انکے اس طرح کے سلوک نے تو میرے دماغ تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، ایک رات اسی دماغی کیفیت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں گھر سے باہر جھانک کر تو دیکھوں کہ یہ کیسی کھسر پھسر ہورہی ہے ،دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا، واپس کمرے میںآیا اور ابھی سونے کا ارادہ کیا ہی تھا ، کہ پھر سے کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں ،میں بھی چوکنے والا نہیں تھا ننگے پاؤں بھاگنے کا خیال آیا مگر یو ں لگا کہ کوئی لفظ منمنا رہا ہے’’ دبے پاؤں چلیئے ‘‘ میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، دبے پاؤں کمرے سے باہر آیا
،بہت احتیاط سے مرکزی دروازے کا ایک پٹ کھولا اور واضع طور پر دیکھ لیا کہ یہ اُنہی میں سے ایک تھا جو نہایت معصومیت سے کان لگائے کچھ سننے کی کوشش کر رہا تھا یا پھر کچھ جاننے کی تگ و دو میں تھا ، جب اُس نے مجھے دیکھا تو کچھ ہڑبڑا سا گیا اور پھر فورا آواز دے کر ایک اور دوست کو اپنے پاس بلانے لگا ، شاید وہ کہیں قریب ہی موجود تھا، جب ہی تو ذرا دیر میں سامنے آگیا اور اب وہ دونوں میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے ،میرے استفسار پر دونوں ایک ساتھ اشارے سے گویا ہوئے ’’کوئی خاص بات نہیں تھی، ادھر سے گزر ے تو سوچا آپ کی خیریت دریافت کرتے جائیں
ان کے اس اشارے میں ایک ایسی روشنی پنہاں تھی جس نے مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا اور میں ایک لفظ بولے بغیر واپس چلاآیا تھا ، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس روشنی نے جن احساسات کو میرے ذہن و دل پر مرتب کیا ہے ان احساسات کو اپنانے کے لیئے فی الوقت ایک لفظ بھی میّسر نہیں ہے اور یہ وقت ناراض ہونے کا، پچھتانے کا یا سونے کا نہیں ہے، بلکہ کچھ اور کرنے کا ہے ۔۔۔۔۔البتہ کچھ اور کرنے کی بابت میں اب تک لاعلم تھا۔۔۔
--------------