چھ کہانیاں

چھ کہانیاں

Feb 4, 2024

مختلف ادیبوں کی کہانیوں کا ترجمہ

دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴؁  

ترجمہ:قیصر نذیر خاور

چھ کہانیاں

1:کالی بھیڑ: (La pecora nera)

ایک ملک ایسا تھا، جس کا ہر باسی چور تھا۔اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ، جب، پَو پھٹتے سمے، لُوٹا ہوا مال، لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتاکہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا۔۔۔ لوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔ اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا ،چاہے بندہ خرید نے والا تھا یا پھر بیچنے والا ،وہ اپنی مار پر ہوتا۔ اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکمران دَل کو دغا دے سکیں۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب۔پھر ایک دن، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔ وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔ یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔ ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا: ‘‘یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کاکوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔’’ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں لیکن وہ خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔ وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا، اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔ وہ کسی دوسرے کو دوشی بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ دوش تو خود اس کا اپنا تھا۔ اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔ وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا۔ یہ کارن تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔ جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔ اُن کی اِس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔ امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا: ‘‘کیوں نا ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟’’مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی، غریبوں کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو،دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا، بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔

٭٭٭

2: قانع (Chi si contenta)

ایک ملک ایسا تھا، جہاں ہر شے کی ممانعت تھی۔بس ایک پر پابندی نہیں تھی اور یہ گلی ڈنڈے کا کھیل تھا۔ ملک کے باسی بستیوں سے باہر کھلے میدانوں اور سبزہ زاروں میں اکٹھے ہوتے اور دن بھر گلی ڈنڈا کھیلتے رہتے۔اس سے قبل ہر شے ممنوع قرار دئیے جانے کے لیے قوانین ایک ایک کرکے متعارف کرائے جاتے اور ایسے مثبت دلائل پیش کیے جاتے کہ کسی کو اِن پابندیوں کے خلاف شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہ سوجھتی اور نہ ہی انہیں اِن قوانین کو برداشت کرنے میں کوئی دِقت پیش آتی۔کئی سال بیت گئے۔ ایک دن ملک کے حاکموں کو خیال آیا کہ اب کسی بھی شے پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ کہ ہر پابندی اٹھا لی جائے۔ انہوں نے رعایا کے پاس قاصد بھیجے تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ وہ اب جو چاہیں کر سکتے ہیں۔قاصد ان تمام جگہوں پر گئے جہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘سنو۔۔۔سنو۔۔۔اب کسی شے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔’’، انہوں نے اعلان کیا۔لوگوں نے اُن کی بات پر دھیان نہ دیا اور گلی ڈنڈا کھیلنے میں مصروف رہے۔قاصدوں کو لگا کہ لوگ شاید سمجھے نہیں،انہوں نے پھر سے دہرایا،‘‘تم شاید سمجھے نہیں؟۔۔۔ تم سب اب جو چاہو کر سکتے ہو، کچھ بھی ممنوع نہیں رہا۔’’‘‘اچھا۔’’، لوگ بولے، ‘‘خیر، ابھی تو ہم گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں۔’’قاصدوں نے انہیں وہ سب کارآمد کام اور کرتبے یاد دلائے جو وہ پہلے خوش دِلی سے کیا کرتے تھے اوریہ کہ وہ اب یہ سب دوبارہ کر سکتے تھے۔ رعایا نے پھر بھی اُن کی ایک نہ سُنی اور کھیلتے رہے، گُلیوں کو ڈنڈے سے ضرب پر ضرب لگاتے رہے، یہاں تک کہ کھیل میں وقفہ بھی نہ کیا۔قاصدوں نے جب یہ دیکھا کہ رعایا اُن کی بات ہی نہیں سن رہی تو وہ پلٹے اور حاکموں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔حاکموں نے ان کی بات اطمینان سے سنی اوربولے، ‘‘ہمیں گلی ڈنڈے کے کھیل پر پابندی لگا دینی چاہیے۔’’اس پابندی کے لگتے ہی عوام نے حاکموں کے خلاف بغاوت کی اور انہیں مار ڈالا۔ وہ پھر وقت ضائع کیے بغیر واپس لوٹے اور گلی ڈنڈا کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔

٭٭٭

3: ضمیر(Coscienza)

جنگ شروع ہوئی تو لیوایجی (لیو ای جی) نامی جوان نے پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پیش کر سکتاہے؟یہ سن کر ہر کسی نے اس کی تعریف و توصیف کی۔ لیوایجی اس جگہ گیا جہاں وہ بندوقیں بانٹ رہے تھے۔ اس نے ایک لی اور کہا:‘‘میں اب جاؤں گا اور البرٹو نامی بندے کو مار ڈالوں گا۔’’انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ البرٹو کون ہے؟‘‘ایک دشمن۔’’، اس نے جواب دیا، ‘‘میرا ایک دشمن۔’’انہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ ایک خاص قسم کے دشمن مار سکتا ہے، یہ نہیں کہ جسے چاہے وہ مار ڈالے۔‘‘تو؟’’، لیوایجی بولا، ‘‘آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں کیا؟ یہ البرٹو بالکل اسی خاص قسم کا دشمن ہے، ان میں سے ایک۔ میں نے جب یہ سُنا کہ آپ اس قسم کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے لگے ہیں، تو میں نے سوچا: میں بھی جاؤں گا اور یوں البرٹو کو مار سکوں گا۔ میں اسی لیے یہاں آیا تھا۔ میں اِس البرٹو کو جانتا ہوں۔ وہ ایک بدمعاش ہے۔ اس نے بلا وجہ مجھے بیوقوف بنایا، اس نے ایک عورت کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں، تو میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔’’وہ بولے، ‘‘ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔’’‘‘اچھا۔’’، لیوایجی بولا، ‘‘تو مجھے بتائیں، البرٹو کہاں ہے؟ میں وہاں جاؤں گا اور اس سے لڑوں گا۔’’وہ بولے کہ انہیں معلوم نہیں۔‘‘کوئی بات نہیں۔’’، لیوایجی بولا، ‘‘میں کوئی نا کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لوں گا جو مجھے اس کا پتا بتا دے گا۔ جلد یا بدیر میں اسے جا لوں گا۔’’انہوں نے اسے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وہیں جانا ہو گا، جہاں وہ اسے بھیجیں گے، وہیں لڑنا ہو گا اورانہیں ہی مارنا ہو گا جو وہاں ہوں گے۔ وہ البرٹو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘میری بات سنیں!’’، لیویجی نے اصرار کیا، ‘‘مجھے ساری کہانی آپ کو سنانا ہو گی۔ یہ بندہ واقعی میں بدمعاش ہے اور آپ ٹھیک کر رہے ہیں کہ اس جیسوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔’’وہ، لیکن، اس کی کہانی سننا نہیں چاہتے تھے۔لیوایجی کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ‘‘معاف کریں، آپ کے لیے شاید یہ بات اہم نہ ہو کہ میں ایک دشمن ماروں یا کہ دوسرا لیکن میں اس بات پر پریشان ہی رہوں گا کہ میں کسی ایسے کو ماروں جس کا البرٹو کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔’’رائفل دینے والوں کا پارہ چڑھ گیا۔ ان میں سے ایک نے لمبی تقریر کی اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ وہ جنگ کس لیے لڑی جا رہی تھی اور یہ کہ وہ منہ اٹھا کر جائے اور اپنے کسی مخصوص دشمن، جس سے وہ بدلہ لینا چاہتا ہے، کو قتل نہیں کر سکتا۔لیوایجی نے کندھے جھٹکے۔ ‘‘اگر یہ ایسا ہی ہے۔’’، وہ بولا، ‘‘تو مجھے اس سب سے الگ ہی رہنے دیں۔’’‘‘تم اپنی خدمات پیش کر چکے ہو، اب تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔’’، وہ چلائے۔‘‘آگے بڑھو۔۔۔ چَپ راس۔۔۔ چَپ راس!’’یوں انہوں نے اسے محاذ پر بھیج دیا۔لیوایجی خوش نہیں تھا۔ اس نے ان سب کو مارا، جو بھی اس کے سامنے آئے، وہ کسی نا کسی طرح البرٹو تک یا اس کے خاندان میں سے کسی بندے تک پہنچنا چاہتا تھا۔انہوں نے اسے ہر ہلاکت پر تمغہ دیا لیکن وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ ‘‘میں اگر البرٹو کو نہ مار سکا۔۔۔’’، اس نے سوچا، ‘‘تو مجھے بہت سے لوگوں کو خواہ مخواہ مارنا پڑے گا۔’’، اسے یہ اچھا نہ لگا۔اس دوران وہ اسے تمغے پر تمغہ دئیے جا رہے تھے، چاندی کے، سونے کے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔لیوایجی نے سوچا، ‘‘کچھ آج مارو، کچھ کل۔۔۔ اور یوں وہ کم ہوتے جائیں گے۔۔۔ پھر اس بدمعاش کی باری بھی آ ہی جائے گی۔’’اس سے پہلے کہ وہ البرٹو کو تلاش کر پاتا، غنیم نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اسے بُرا محسوس ہوا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلاوجہ ہلاک کر دیا۔ اب جبکہ وہ حالت ِ امن میں تھے، اس نے اپنے تمغے ایک تھیلے میں ڈالے اور ان کی بستیوں میں گیا اور سارے تمغے ہلاک شدگان کی بیواؤں اور بچوں میں تقسیم کر دئیے۔ان بستیوں میں گھومتے پھرتے اس کا سامنا البرٹو سے ہو گیا۔‘‘یہ تو اچھا ہو گیا۔’’ اس نے خود سے کہا، ‘‘کبھی نہیں سے دیر ہی بھلی۔’’اس نے البرٹو کو ہلاک کر دیا۔اس پرانہوں نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ مقدمے کے دوران اس نے بار بار یہ بات دوہرائی کہ اس نے یہ کام اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سُنی۔

٭٭٭

4: دشمن کی آنکھیں (Occhi nemici)

پئیترو اس صبح چہل قدمی کر رہا تھا، تبھی اسے احساس ہوا کہ کچھ ایسا ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ ایسا کچھ دیر سے محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جیسے کوئی اس کے پیچھے ہو، کوئی ایسا جو نظر نہ آتے ہوئے، اس پر نظر رکھ رہا ہو۔اس نے اچانک سر موڑ کر دیکھا۔ وہ ایک الگ تھلگ سڑک پر تھا، جہاں مرکزی دروازوں کے ساتھ باڑیں اور لکڑی کی بنی چار دیواریاں تھیں اور ان پر پھٹے ہوئے اشتہار لگے تھے۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پئیترو فوراً جھنجھلا گیا کہ اس نے ایسا خیال آتے ہی مڑ کر کیوں دیکھا تھا۔ وہ چلتا رہا اور اپنی سوچ کے سلسلے کی ٹوٹی ڈور پھر پکڑنا چاہی۔یہ خزاں کی ایک صبح تھی اور سورج کی روشنی بھی کچھ کم کم ہی تھی۔ یہ ایسا دن ہرگز نہیں تھا کہ بندہ خوشی سے جھوم اٹھے لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ غمزدہ ہو۔ پھر بھی اسے خود پر بے چینی کا بوجھ محسوس ہوا۔ کچھ تھا، کچھ آنکھوں جیسا جو کندھوں کے اوپر، اس کی گردن کی پشت پر مرکوز ہوتا محسوس ہوا اور یہ اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دے رہا تھا۔ اِس کی موجودگی عناد بھری بھی تھی۔اسے لگا کہ اسے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تاکہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا سکے۔ وہ ایک مصروف سڑک کی طرف بڑھا لیکن نکڑ پر، اس نے پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک سائیکل سوار وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک عورت سڑک پار کر رہی تھی۔ وہ ان لوگوں اور چیزوں کے درمیان کوئی تعلق نہ جوڑ سکا اور گھبراہٹ اسے پھر سے کھانے لگی۔ اس نے جب مڑ کر دیکھا تھا تو اسی وقت ایک بندے نے بھی گردن موڑ کر اسے بھی دیکھا تھا۔ دونوں نے فوراً ہی اور ایک ساتھ ایک دوسرے سے نظریں چُرا لیں، جیسے وہ کسی اور کو دیکھنا چاہ رہے ہوں۔ پئیترو نے سوچا: ‘شاید اس بندے نے یہ محسوس کیا ہو کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ شاید یہ صرف میں ہی نہیں ہوں، جسے آج کی صبح، حساسیت کی ایسی پریشان کن تیزی محسوس ہو رہی ہو۔ شاید یہ اس دن کے موسم کا اثر ہو جو ہمیں نروس کر رہا ہے۔’وہ اب ایک بھرے بازار میں تھا اور اسی سوچ کے ساتھ اس نے لوگوں کو دیکھنا شروع کر دیا اور یہ نوٹس کیا کہ وہ بلا ارادہ عجیب حرکات کر رہے تھے۔ وہ بیزارگی کے عالم میں اپنے ہاتھ چہرے تک لے جا رہے تھے۔ ان کی بھنویں یکلخت چڑھ جاتیں جیسے انہیں کسی پریشانی نے گھیر لیا ہو یا کوئی ناخوشگوار یاد تازہ ہوگئی ہو۔ ‘کیا ہی گھٹیا اور دکھی کرنے والا دن ہے۔’، پئیترو بار بار خود سے کہہ رہا تھا، ‘کیا ہی بیکار اور بدقسمت دن ہے۔’ٹرام کے سٹاپ پر اپنا پاؤں زمین پربجاتے ہوئے اس نے یہ بھی جانا کہ وہاں موجود دوسرے لوگ بھی اپنے پاؤں بجاتے ہوئے ٹرام کے روٹوں کے نوٹس بورڈ کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچھ ایساپڑھنے کی کوشش میں ہوں جو وہاں لکھا ہوا ہی نہیں تھا۔ٹرام میں کنڈیکٹر نے چُھٹا دیتے وقت غلطی کی اور غصہ کھا گیا۔ ڈرائیور نے پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں پر جھلا کر تکلیف دہ انداز میں لگاتار ہارن بجایا، جس پر مسافروں نے ہتھیوں پر اپنی انگلیاں یوں کس دیں جیسے وہ کسی ڈوبتے بحری جہاز میں سفر کر رہے ہوں۔پئیترو نے ٹرام میں بیٹھے اپنے دوست کوریڈو کے بھاری بھرکم وجود کو پہچان لیا۔ اس نے ابھی تک پئیترو کو نہیں دیکھا تھااور اپنی ایک گال میں ناخن گاڑے، کھڑکی سے باہر بدحواسی سے دیکھ رہا تھا۔‘‘کوریڈو!’’، اس نے داہنی طرف سے اس کے سر پر سے اسے پکارا۔اس کا دوست بولا، ‘‘اوہ تو یہ تم ہو، میں نے تمہیں دیکھا نہیں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔’’‘‘تم پریشان لگتے ہو۔’’، پئیترو نے کہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی حالت دوسروں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا، ‘‘میں بھی آج خاصا پریشان ہوں۔’’‘‘کون نہیں ہے؟’’، کوریڈو نے کہا۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور اس پر ایسی قناعت جھلک رہی تھی کہ ہر ایک نے اس کی بات سنی اور اس پر اعتبار کیا۔‘‘تمہیں پتہ ہے، کوریڈو، میں کیسا محسوس کر رہا ہوں؟’’، پئیترو نے کہا۔ ‘‘مجھے لگتا ہے جیسے کہیں آنکھیں ہیں جو مجھے گھور رہی ہیں۔’’‘‘آنکھیں؟ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔’’‘‘کسی ایسے کی آنکھیں، جس سے میں پہلے مل چکا ہوں، لیکن وہ مجھے یاد نہیں۔ سرد آنکھیں، معاندانہ سی۔۔۔’’‘‘ایسی آنکھیں، جن کو آپ دیکھنا بھی نہ چاہتے ہوں، لیکن ایسی، جنہیں آپ کو ہر حال میں سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔’’‘‘ہاں۔۔۔ سچی۔۔۔ آنکھیں جیسے۔۔۔’’‘‘جیسے جرمنوں کی۔۔۔؟’’، کوریڈو نے پوچھا۔‘‘ہاں، ہاں، بالکل ویسی ہی جیسی جرمنوں کی آنکھیں۔’’‘‘اچھا، خیر یہ بات سمجھ آتی ہے۔’’، کوریڈو نے کہا اور اس نے اپنا اخبار کھولا۔ ‘‘اس طرح کی خبر کے ساتھ۔۔۔’، اس نے ایک سرخی کی طرف اشارہ کیا: کیسلرنگ *کو معافی دے دی گئی۔۔۔ ایس ایس کے جلوس۔۔۔ امریکی نیو۔نازی'ز کی مالی مدد کر رہے ہیں۔۔۔ ‘‘اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ہم ان کی واپسی کو محسوس کر رہے ہوں۔۔۔’’‘‘اوہ، ایسا ہے۔۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہی کارن ہے۔۔۔ لیکن ہم یہ ابھی ہی کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ کیسلرنگ اور ایس ایس تو یہاں عرصے سے ہیں، سال سے بلکہ دو سال سے۔ شاید وہ تب جیل میں ہی ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح پتہ تھاکہ وہ وہاں ہیں، ہم انہیں نہیں بھولے تھے۔۔۔’’‘‘آنکھیں۔’’، کوریڈو بولا، ‘‘تم نے کہا کہ تمہیں محسوس ہوا کہ یہ آنکھیں تمہیں گھور رہی ہیں۔ یہ اب تک گھور نہیں رہی تھیں کیونکہ انہوں نے نگاہیں نیچی کر رکھی تھیں اور ہم ان کے عادی نہیں رہے تھے۔۔۔ وہ ہمارے ماضی کے دشمن تھے، ہم ان سے اُن کے کیے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے، زمانہ حال میں نہیں۔۔۔ لیکن اب انہیں اپنی پرانی گُھوری واپس مل گئی ہے۔۔۔ ویسی ہی جیسی وہ آٹھ سال پہلے ہم پر ڈالا کرتے تھے۔۔۔ یہ ہمیں یاد ہے اور ہم نے ایک بار پھر ان کی آنکھوں کو خود پر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔’’پئیترو کا بھائی ایک جبری کیمپ میں مرا تھا۔ پئیترو اپنی ماں کے ساتھ، پرانے خاندانی گھر میں رہتا تھا۔ شام ڈھلے وہ واپس آیا۔ دروازہ اسی طرح چرچرایا، جیسا کہ ہمیشہ چرچراتا تھا اور اس کے جوتوں تلے بجری اسی طرح کُٹی جس طرح ان دنوں میں کُٹتی تھی، جب ہمارے کان قدموں کی آ واز پر لگے ہوتے تھے۔اس شام، جب جرمن آیا تھا تو وہ کہاں گھوم رہا تھا؟ شاید وہ پُل پار کر رہا تھا، شاید نہر کنارے چل رہا تھا، یا پھر شاید نیچی چھتوں والے گھروں کی قطار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ ان کی بتیاں جل رہی تھیں۔ یہ جرمنی کا ایک شہر تھا جو کوڑا کرکٹ اور کوئلے سے بھرا تھا۔ اس نے عام سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تبھی سبز ٹوپی، گلے تک بند بٹنوں والے کالے کوٹ اور چشمہ پہنے و ہ شخص اسے گھورے جا رہا تھا۔۔۔ پئیترو کو گھورے جا رہا تھا۔اس نے دروازہ کھولا۔ ‘‘یہ تم ہو!’’، اسے ماں کی آواز سنائی دی۔ ‘‘آخر تم آ ہی گئے۔’’‘‘آپ کو پتہ تو تھا کہ میں نے اس وقت سے پہلے نہیں لوٹنا تھا۔’’، پئیترو نے کہا۔‘‘تم بھی نا، لیکن مجھ سے انتظار کی پیڑھا سہی نہیں جا رہی تھی۔’’، وہ بولی، ‘‘سارا دن میرا کلیجہ منہ کو آتا رہا۔۔۔ مجھے پتہ نہیں،کیوں۔۔۔ یہ خبر۔۔۔ کیا یہ جرنیل پھر سے قابض ہونے لگے ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے راستی پر تھے۔۔۔’’‘‘آپ بھی!’’، پئیترو بولا۔ ‘‘پتہ ہے کوریڈو کیا کہتا ہے؟وہ کہتا ہے کہ ہمیں، ہم سب کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان جرمنوں کی نظریں ہم پر ہیں۔۔۔ اسی لیے ہم سب پریشان ہیں۔۔۔’’پھروہ یوں ہنسا جیسے یہ صرف کوریڈو ہی تھا جو ایسا سمجھتا تھا۔اس کی ماں نے، لیکن اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ ‘‘پئیترو، کیا جنگ ہونے والی ہے؟ کیا وہ واپس آ رہے ہیں؟’’‘کل تک تو۔’، پئیترو نے سوچا، ‘یہاں جب بھی کوئی ایک اور جنگ کے خطرے کی بات کرتا تھا تو بندوں کو کوئی مخصوص بات نہ سُوجتی کیونکہ پرانی جنگ میں تو ان کے چہرے صاف نظر آتے تھے لیکن نئی جنگ کیسی ہو گی یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اب البتہ ہمیں پتہ چل گیا ہے جنگ کا چہرہ پرانا ہی ہے اور یہ انہی کا ہے۔’کھانے کے بعد پئیترو باہر گیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔‘‘پئیترو؟’’، اس کی ماں نے پوچھا۔‘‘کیا ہے؟’’‘‘تم اس موسم میں باہر جا رہے ہو۔۔۔’’‘‘تو کیا ہوا؟’’‘‘کچھ نہیں۔۔۔ لیکن جلدی لوٹنا۔۔۔’’‘‘ماں، اب میں بچہ نہیں رہا۔۔۔’’‘‘ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ اچھا الوداع۔۔۔’’اس کی ماں نے اس کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور کھڑی، بَجری پر اس کے قدموں اور گیٹ بند ہونے کی آواز سنتی رہی۔ وہ کھڑی بارش کی ٹپ ٹپ کو بھی سنتی رہی۔ جرمنی بہت دور ایلپس کے پہاڑوں کے پیچھے تھا۔شاید وہاں بھی بارش ہو رہی ہو۔ کیسلر نگ: ایس ایس جو اس کے بیٹے کو اٹھا لے گیا تھا، اپنی کار میں بیٹھا کیچڑ بکھیرتا چلا گیا۔ اس نے چمکیلی برساتی پہن رکھی تھی، اپنی فوجیوں والی پرانی برساتی۔‘بہرحال اس رات فکر کرنا بیوقوفی کی بات ہے، اسی طرح اگلی رات بھی اور شاید اگلا پورا سال بھی۔’ اسے لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کب تک فکر سے آزاد رہ سکتی تھی کیونکہ جنگ میں بھی ایسی راتیں ہوتی ہیں جب پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن لوگ تیار رہتے کہ اگلی رات پریشانی لا سکتی ہے۔وہ اکیلی تھی۔ باہر بارش کا شور تھا۔ بارش میں بھیگے یورپ میں پرانے دشمنوں کی آنکھیں رات کو چھیدتی، اس کے اندر گھس رہی تھیں۔‘میں ان کی آنکھیں دیکھ سکتی ہوں۔’، اس نے سوچا، ‘لیکن اب انہیں ہماری بھی دیکھنا ہوں گی۔’ اور وہ ثابت قدمی سے کھڑی اندھیرے میں گھورتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔ کیسلرنگ = Albert Kesselring (1885ء۔ 1960ء)، نازی جرمنی کا اہم جرنیل۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دیگر کے ہمراہ ‘وار کرائم’(War Crime) کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور اسے آرڈیتین قتلام (Ardeatine massacre) میں 335 اطالوی شہری ہلاک کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ یہ سزا بعد ازاں عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ اس کی حمایت میں، اس کی صحت کے حوالے سے ایک سیاسی و میڈیا مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسے اکتوبر 1952 ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ کیسلرنگ نے اسی برس سابقہ نازی فوجیوں کی تین تنظیموں کی اعزازی صدارت بھی قبول کی تھی اور وہ مرتے دم تک نازی سرگرمیوں میں جرمنی اور بیرون جرمنی سرگرم رہا۔

٭٭٭

5: یکجہتی(Solidariet-E0)

میں انہیں دیکھنے کے لیے رُک گیا۔وہ ایک الگ تھلگ سی گلی میں رات کے وقت کام کر رہے تھے۔ اصل میں وہ ایک دکان کے اوپر اٹھ جانے والے دروازے کے ساتھ کچھ کر رہے تھے۔یہ ایک بھاری شٹر تھا۔ وہ ایک آہنی سلاخ کو بطور‘لیور’ استعمال کر رہے تھے لیکن دروازہ تھا کہ اپنی جگہ سے اوپر سِرک ہی نہیں رہا تھا۔میں اکیلا ہی اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا۔ میں نے کہیں کسی خاص جگہ بھی نہیں جانا تھا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کے لیے سلاخ اپنے ہاتھ میں لی اور انہوں نے میرے کھڑے ہونے کے لیے جگہ بنائی۔‘‘ہم مل کر اسے اوپر نہیں اٹھا رہے تھے۔’’، میں بولا، ‘‘اوپر۔۔۔ زور لگا کے ہیا۔’’میرے دائیں طرف کھڑے بندے نے مجھے کہنی ماری اور ہولے سے بولا۔‘‘چُپ بدمعاش! کیا تم پاگل ہو! کیا تم چاہتے ہو کہ وہ ہمیں سُن لیں؟’’میں نے یوں اپنا سر ہلایا، جیسے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے منہ سے نکل گیا۔کچھ دیر تو لگی۔ ہمارے پسینے بھی چھوٹ گئے لیکن آخر ہم نے شٹر کو اتنا اونچا سِرکا دیا تھا کہ بندہ اندر داخل ہو سکے۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھا اور اندر گھس گئے۔ مجھے ایک بورا تھما دیا گیا۔ دوسرے سامان اٹھا اٹھا کر لاتے اور اس میں ڈالتے رہے۔‘‘جب تک یہ سرانڈ مارتے نیولے نہیں آتے، سامان سمیٹتے رہو۔’’، وہ کہہ رہے تھے۔‘‘ٹھیک ہے۔’’ میں نے جواب دیا، ‘‘وہ واقعی میں بُو دار نیولے ہیں۔’’‘‘چُپ رہو۔ کیا تمہیں ان کے قدموں کی آہٹ سنائی نہیں دے رہی۔’’، وہ چند منٹوں کے بعد یہ دوہراتے۔ میں قدرے خوفزدہ ہو کر کان لگا کر سنتا اور کہتا، ‘‘نہیں۔۔۔ نہیں، یہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہے۔’’‘‘یہ سالے اُسی وقت آ وارد ہوتے ہیں، جب کوئی بھی ان کی آمد کی توقع نہیں کر رہا ہوتا۔’’، ان میں سے ایک بولا۔میں نے سر ہلایا۔ ‘‘پتہ ہے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ان سب کو مار دینا چاہیے۔’’، میں نے جواب دیا۔انہوں نے پھر مجھے کچھ دیر کے لیے باہر نکڑ تک جانے کو بولا کہ میں دیکھوں، کوئی آ تو نہیں رہا۔ میں گیا۔باہر نکڑ پر، وہ ایک دیوار کے ساتھ چمٹے راہداریوں میں آگے بڑھتے میری طرف آ رہے تھے۔میں ان کے ساتھ مل گیا۔‘‘وہاں نیچے، ان دکانوں کے پاس سے شور اٹھ رہا ہے۔’’، میرے ساتھ والے نے اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔میں نے اس طرف نظر ڈالی۔‘‘گدھے، اپنا سر نیچے کرو۔ وہ ہمیں دیکھ لیں گے اور پھر بھاگ جائیں گے۔’’، اس نے سرگوشی کی۔‘‘میں دیکھ رہا ہوں۔’’، میں نے کہا اور دیوار کے ساتھ دُبک گیا۔‘‘اگر ہم انہیں احساس دلائے بغیر گھیر سکیں۔’’، دوسرا بولا، ‘‘تو ہم انہیں پکڑ سکتے ہیں۔ وہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔’’ہم سانس روکے، پنجوں کے بل اچھلتے آگے بڑھے اورچند لمحوں کے وقفوں کے بعد ایک دوسرے سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ نظریں چار کرتے۔‘‘اب وہ بچ نہیں سکتے۔’’، میں نے کہا۔‘‘بالآخر ہم انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنے ہی والے ہیں۔’’، ان میں سے کوئی ایک بولا۔‘‘ہاں، وقت بس ہوا ہی چاہتا ہے۔’’، میں نے کہا۔‘‘غلیظ حرامی نہ ہوں، کس ڈھٹائی سے دکانوں میں مال لوٹ رہے ہیں!’’، ایک اور بولا۔‘‘حرامی۔۔۔ حرامی کہیں کے’’، میں نے بھی غصے سے دوہرایا۔انہوں نے مجھے آگے دھکیلا تاکہ میں ان کے لیے نظر ڈال کر انہیں بتا سکوں۔میں دکان میں واپس چلا آیا۔‘‘وہ اب ہمیں نہیں پکڑ سکتے۔’’، ایک نے بورا اپنے کندھے پر لادتے ہوئے کہا۔‘‘جلدی کرو۔’’، دوسرا بولا، ‘‘چلو پچھواڑے کی طرف سے چلتے ہیں۔ ہم فرار ہو جائیں گے اور وہ دیکھتے رہ جائیں گے۔’’ہم سب کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔‘‘انہیں سچ میں ایک بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔’’، میں نے کہا اور پھر ہم دکان کے پچھواڑے میں چلے گئے۔‘‘ہم نے ان گدھوں کو واقعی بیوقوف بنایا ہے۔’’، وہ بولے۔تبھی ایک آواز آئی: ‘‘رُکو، وہاں کون ہے۔’’، اور پھر ہر طرف روشنی ہو گئی۔ ہم وہاں پڑی چیزوں کے پیچھے دبک گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے۔ ہمارے چہرے پیلے پڑ گئے۔وہ پچھلے والے کمرے میں آئے لیکن ہمیں نہ دیکھ سکے اور واپس مُڑ گئے۔ ہم اُچھلے اور دیوانہ وار بھاگے۔‘‘ہم نے میدان مار لیا۔’’، ہم چلائے۔ مجھے دو ایک بار ٹھوکر لگی اور میں پیچھے رہ گیا۔ میں نے اب خود کو تعاقب کرنے والوں کے ساتھ پایا۔‘‘جلدی کرو۔’’ وہ بولے، ‘‘ہم انہیں پکڑنے ہی والے ہیں۔’’سب تنگ گلی میں تعاقب کرتے، دوڑتے چلے گئے۔‘‘اس طرف سے آگے بڑھو اور ان کا راستہ کاٹو۔’’، ہم بولے، آگے بھاگنے والے بھی اب زیادہ دور نہیں تھے۔ ہم اسی لیے چِلا رہے تھے، ‘‘تیز اور تیز، اب وہ بچ نہیں پائیں گے۔’’میں سرعت سے بڑھا اور آگے والوں میں سے ایک کے ساتھ جا ملا۔ وہ بولا، ‘‘شاباش، تم بھی بچ نکلے۔ آؤ اِدھر سے نکلتے ہیں، یوں ہمارا ان سے پیچھا چھوٹ جائے گا۔’’میں اس کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے خود کو ایک گلی میں اکیلا پایا۔ کوئی نکڑ کی طرف سے بھاگتا ہوا آیا اور بولا، ‘‘جلدی کرو، اس طرف، میں نے انہیں دیکھ لیا ہے۔ وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔’’میں کچھ دیر اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔پسینے سے تر میں پھر رُک گیا۔ اب وہاں کوئی نہ تھا۔ مجھے چیخنے چِلانے کی آوازیں بھی نہیں آ رہی تھیں، میں کچھ دیر جیبوں میں ہاتھ دئیے وہیں کھڑا رہا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ میں نے کہیں، کسی خاص جگہ نہیں جانا تھا۔

٭٭٭

6: اِک جرنیل لائبریری میں (Un generale in biblioteca)

پینڈوریا کی مشہور قوم میں ایک روز، اعلیٰ حکام کے ذہنوں میں اس شک نے جنم لیا کہ کتابوں میں ایسے خیالات پائے جاتے ہیں جو عسکری عزت و وقار کے منافی ہوتے ہیں۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ تفتیش اور قائم کیے گئے مقدمات نے اس رجحان کی نشان دہی کی تھی اور یہ لہر تھی کہ لوگوں میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جرنیل ہی وہ لوگ ہیں جو اصل میں غلطیاں کرتے ہیں اور آفات و جنگوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ کہ یہ سب کچھ قوم کو شاندار نصیب کی طرف نہیں لے جاتا اور نہ ہی قوم کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ خیالات بیشتر کتابوں میں مشترک تھے چاہے یہ قدیم تھیں یا جدید، کتابیں پینڈوریا کی تھیں یا بدیسی۔پینڈوریا کا ‘جنرل سٹاف’ مل کر بیٹھا تاکہ صورت حال کا جائزہ لے سکے۔انہیں، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں سے شروع کریں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی خصوصی طور پر کتابیات کے معاملات سے واقف نہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ،جنرل فیڈینا کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ یہ جرنیل ایک سخت طبیعت کا مالک لیکن فرض شناس افسر تھا۔ اس کمیشن نے پینڈوریا کی سب سے بڑی لائبریری میں موجود ساری کتب کی جانچ کر نی تھی۔یہ لائبریری ایک قدیم عمارت میں تھی جس میں عمودی طور پر چُنی گئی ان گنت کتابیں اور سیڑھیاں تھیں۔اس کی دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا بلکہ کئی جگہوں پر یہ گرنے والی بھی تھیں۔ اس کے ٹھنڈے کمروں میں کتابیں یوں ٹھنسی ہوئی تھیں کہ کئی کتابوں تک پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔ ان میں کچھ کونے کدرے ایسے بھی تھے جنہیں چوہے ہی کھوج سکتے تھے۔ بھاری فوجی اخراجات کے تلے دبی پیندوڑیا کی ریاست اس سلسلے میں کسی مالی معاونت کے قابل نہ تھی۔فوج نومبر میں ایک صبح، بارش میں ہی لائبریری پر قابض ہو گئی۔جرنیل اپنے گھوڑے سے اترا۔ وہ قدم جما کر تن کر کھڑا ہوا۔ اس کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی، گردن موٹی تھی اور ناک پر ٹِکے چشمے کے اوپر اس کی بھنویں غصے سے پھڑک رہی تھیں۔ چار لمڈینگ،لمبے لیکن منحنی، لیفٹیننٹ منہ اٹھائے لیکن آنکھیں نیچی کیے کار سے باہر نکلے، ہر ایک کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔اس کے بعد سپاہیوں کا ایک جتھا آیا۔ انہوں نے لائبریری کے قدیمی صحن میں کیمپ لگایا جس میں خچر اور ان کے چارے کی گانٹیں، خیمے، کھانا پکانے کا سامان، برتن، کیمپ ریڈیواور سگنل دینے والی جھنڈیاں شامل تھیں۔دروازوں پر نہ صرف سنتری کھڑے کیے گئے بلکہ ان پر ایسے نوٹس بھی آویزاں کیے گئے جن پر لکھا تھا؛ ‘اس وقت تک اندر جانے کی ممانعت ہے جب تک بڑے پیمانے کی یہ مشق جاری ہے۔’، ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا گیاتھا کہ یہ انکوائری انتہائی رازداری سے کی جا سکے۔کتابوں کے شوقین جو سردی سے بچنے کے لیے بھاری کوٹ، سکارف اور کنٹوپ پہنے ہر صبح لائبریری جایا کرتے تھے انہیں واپس جانا پڑتا۔ الجھن میں پڑے یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ لائبریری میں بڑے پیمانے پریہ فوجی مشق کس لیے ہے؟ کیا یہ اس جگہ پڑی ہر شے چوپٹ نہیں کر دیں گے؟کیا یہ یہاں چاند ماری بھی کریں گے؟لائبریری کے عملے میں سے صرف ایک بوڑھے شخص، سنیور کرسپینو کو رکھا گیا تاکہ وہ افسروں کو بتا سکے کہ کتابوں کو کس ترتیب سے رکھا گیا ہے۔وہ عملے میں سب سے پست قد تھا۔ اس کا انڈہ نما سر گنجا تھا اور اس کی آنکھیں عینک کے پیچھے ننھے منے بٹنوں جیسی تھیں۔جنرل فیدینا کے لیے اس آپریشن کی نقل و حمل اولین اور سب سے اہم ترجیح تھی کیونکہ اسے یہ حکم دیا گیا تھا کہ انکوائری مکمل کرنے سے پہلے کمیشن کا کوئی بھی فرد لائبریری سے باہر نہیں جائے گا۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے انہماک کی ضرورت تھی اور کمیشن خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ اس میں شامل فوجیوں کی توجہ کسی طور بھی بٹے۔چنانچہ ضروریات کی سب چیزیں حاصل کی گئیں اور بیرکوں میں جلائے جانے والے چولہے اور لکڑیوں کا ذخیرہ بھی اکٹھا کیا گیا۔ ان لکڑیوں کے ساتھ پرانے رسالوں کا انباربھی اکٹھا کیا گیا جنہیں غیر دلچسپ گردانا جاتا تھا یوں یہ لائبریری سردیوں کے کسی بھی موسم میں اتنی گرم نہ ہوئی تھی جتنی اس بار ہوئی۔جرنیل اور اس کے افسروں کے لیے بھوسا بھرے سفری گدے محفوظ جگہوں پر بچھائے گئے اور ان کے گرد چوہے پکڑنے کے لیے کڑیکیاں بھی لگائی گئیں۔یہ سب کرنے کے بعدذمہ داریاں لگائی گئیں۔ہرلیفٹیننٹ کو علم کی ایک مخصوص شاخ یا پھر تاریخ کی ایک مخصوص صدی تھمائی گئی۔ جرنیل نے خودکتابوں کی جلدوں کی پڑتال کرنی تھی اور ربڑ کی ایک مناسب مہر ان پر ثبت کرنا تھی کہ ہر ایک کتاب افسروں، نان کمیشنڈ افسروں، سپاہیوں نے مناسب طریقے سے پرکھ لی ہے یا نہیں اور یا کہ پھر اسے فوجی عدالت میں پیش کرنا ہے۔یوں کمیشن کو سونپا گیا کام شروع ہوا۔ ہر شام جنرل فیدینا کی رپورٹ کیمپ ریڈیو کے ذریعے ہیڈ کوارٹر کو بھیجی جاتی۔‘اتنی کتابوں کا جائزہ لیا گیا۔ اتنی کو مشکوک جان کر ضبط کیا گیا، اتنی افسروں اور فوجیوں کے لیے مناسب قرار دی گئیں۔’کبھی کبھار اِن خشک اعداد و شمار کے ساتھ عمومی باتوں سے ہٹ کر کچھ ایسا بھی ترسیل کیا جاتا جیسے کہ ایک افسر کے لیے ایک عینک درکار ہے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے پڑھ سکے کیونکہ وہ اپنی توڑ بیٹھا ہے یا پھر یہ خبر بھی نشر کی جاتی کہ ایک خچر نے سیسیرو کا ایک نادر قلمی نسخہ کھا لیا ہے کیونکہ کسی نے اس پر نظر نہیں رکھی تھی۔لیکن ایسے معاملات بھی رونما ہو رہے تھے جو ان سے کہیں زیادہ اہم تھے، ان کی ترسیل کیمپ ریڈیو نہیں کر رہا تھا۔لگتا تھا کہ کتابوں کا ذخیرہ کم ہونے کے بجائے مزید گنجلک اور پُرفریب ہوتا جا رہا تھا۔اگرسینیور کرسپینو مدد کے لیے نہ ہوتے تو افسر اپنا راستہ تک بھول جاتے۔ مثال کے طور پرمیز پر بیٹھا لیفٹیننٹ ایبروگاٹی کتاب پڑھتے پڑھتے اچھل کر کھڑا ہو جاتا اور کتاب پرے پھینک دیتا: ‘لیکن یہ تو بہت ہی اشتعال انگیز ہے۔ پیونِک جنگوں کے بارے میں اس کتاب میں کارتھیجیوں کو اچھا دکھایا گیا ہے اور رومنوں پر تنقید کی گئی ہے!اس کتاب کی فوراً رپورٹ کرنی چاہیے!’ (اس میں تو یہ بھی کہا جانا چاہیے تھا کہ پینڈوریا کے لوگ خود کو رومنوں کی اولاد سمجھتے تھے۔یہ چاہے درست تھا یا غلط۔)’ بوڑھا لائبریرین اپنی نرم چپلوں میں چلتا اس کے پاس آتا۔ ‘‘یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔’’ وہ کہتا، ‘‘یہ پڑھیں،رومنوں کے بارے میں یہاں کیا لکھا ہے، آپ یہ اپنی رپورٹ میں لکھ سکتے ہو اور یہ بھی۔۔۔یہ بھی’’، اور وہ کتابوں کا ایک پلندہ اسے پیش کر دیتا۔ لیفٹیننٹ پہلے تو گھبراہٹ میں ان کتابوں کے ورق پلٹ کر دیکھتا، اور جب یہ اسے دلچسپ لگتیں تو انہیں پڑھنے لگتا اور نوٹس بنانے لگتا۔ وہ سر کھجاتا اور بڑبڑاتا۔ ‘حیرت ہے، کیا کچھ جاننے کو مل رہا ہے، میں بھلا ایسا کیسے سوچ سکتا تھا۔’سینیور کرسپینو لیفٹیننٹ لو چیٹی کے پاس جاتے جو جوش سے ایک ضخیم کتاب بند کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا۔ ‘‘کیا ہی اچھا مواد ہے! ان لوگوں نے کیا دلیری دکھائی ہے اور ان نظریات کی عفت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے جو صلیبی جنگوں کا سبب بنے تھے۔۔۔ جی جناب۔۔۔ صلیبی جنگیں۔’’ سینیور کرسپینو مسکراتے ہوئے کہتے، ‘‘اوہ، لیکن دیکھیں اگر آپ نے اس موضوع پر رپورٹ بنانی ہے تو کیا میں آپ کو کچھ اور کتابوں کو دیکھنے کا مشورہ دوں جن میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔’’، اور وہ کتابوں سے بھرا، آدھا خانہ اس کے سامنے ڈھیر کر دیتے۔ لیفٹیننٹ لوچیٹی آگے جھکتا اور ان میں گم ہو جاتا اور ہفتہ بھر ان کے صفحات پلٹتے، منہ ہی منہ میں بولتا رہتا: ‘‘میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ صلیبی جنگیں تھیں تو شاندار!’’کمیشن کی شام والی رپورٹوں میں ان کتابوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی جن کا جائزہ لیا گیا تھا لیکن اب یہ رپورٹیں وہ نسبتی تعداد نہیں بتاتی تھیں کہ کونسی حتمی طور پر مثبت اور کونسی منفی تھیں۔ جنرل فیڈینا کی ربڑ کی مہریں بیکار پڑی رہنے لگیں۔ اگر وہ اپنے کسی ایک لیفٹیننٹ کے کام کی پڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھتا، ‘‘لیکن تم نے اس ناول کو پاس کیوں کیا؟ اس میں تو سپاہی افسروں سے زیادہ بہتر دکھائے گئے ہیں! اس مصنف کے ہاں درجہ بندی اور تنظیم کی کوئی عزت ہی نہیں ہے!’’لیفٹیننٹ جواباً دوسرے مصنفین کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ، فلسفے اور معیشت کے معاملات آپس میں گڈ مڈ کر دیتے۔اس سے کھلی بحثوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جوبعد ازاں گھنٹوں جاری رہنے لگا۔سینیور کرسپینو اپنی سرمئی قمیض میں تقریباً گُم اپنی چپلوں میں دبے پاؤں ہمیشہ ایسے وقت آ دھمکتے اور زیر بحث موضوع پرایسی مزید کتابیں پڑھنے کے لیے پیش کر دیتے، جو ان کی نظر میں دلچسپ معلومات رکھتیں اوریہ کتابیں لازمی اور مکمل طور پر جنرل فیڈینا کے راسخ عقائد کوکھا جاتیں۔ اس دوران سپاہیوں کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہ تھا اور وہ بیزار ہو رہے تھے۔ ان پیادوں میں ایک، براباسو تھا جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ اس نے افسروں سے پڑھنے کے لیے ایک کتاب مانگی۔پہلے تو انہوں نے اسے اُن چندکتابوں میں سے ایک،جو فوجیوں کے پڑھنے کے لیے موزوں قرار دے دی گئی تھیں، دینی چاہی لیکن پھر انہیں ان ہزاروں کتابوں کا خیال آیا جن کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔ جنرل فیڈینا بھی یہ سوچ کر ہچکچایا کہ یوں براباسو ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے بھی ایسی کتاب پڑھنے میں وقت ضائع کرے گا جو پہلے ہی پڑھی جا چکی تھی۔ اس نے اسے ایک ایسی کتاب دے دی جس کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔یہ ایک ناول تھا جو دیکھنے میں آسان لگتا تھا۔ یہ ناول بھی سینیور کرسپینو نے تجویز کیا تھا۔ براباسو کو ہدایت کی گئی کہ وہ اسے پڑھ کر جنرل کو رپورٹ کرے۔ دوسرے پیادوں نے بھی ایسی فرمائشیں کیں اور انہیں بھی اسی طرح کام پر لگا دیا گیا۔ پیادے توماسن نے اپنے ایک ساتھی پیادے کو اونچی آواز میں کتاب پڑھ کر سنائی۔ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا،توماسن چاہتا تھا کہ وہ بھی اس کتاب پراپنے تاثرات بیان کر ے۔یوں فوجی جوان بھی افسروں کے ساتھ کھلی بحثوں میں حصہ لینے لگے۔ کمیشن کے کام میں کیا پیش رفت ہوئی، اس کے بارے میں کچھ زیادہ علم تو نہیں کیونکہ سردیوں کے اس طویل موسم میں، کئی ہفتوں تک یہ رپورٹ نہ کیا گیا کہ لائبریری میں کیا ہوتا رہا تھا۔ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ جنرل سٹاف ہیڈکوارٹر کو جنرل فیڈینا کی یہ رپورٹیں روزانہ جانے کی بجائے پہلے ناغوں سے جانے لگیں، پھران کی بے قاعدگی بڑھ گئی اور بالآخر یہ بالکل بند ہو گئیں۔ چیف آف سٹاف کو اس پر تشویش ہوئی اور اس نے یہ حکم بھجوایا کہ انکوائری جلد از جلد سمیٹی جائے اور ایک مکمل اور تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔لائبریری میں، اس حکم نے فیڈینا اوراس کے آدمیوں پر مختلف نوعیت کے اثرات ڈالے۔ ایک طرف وہ لگاتار نئی دلچسپیاں دریافت کر رہے تھے اور اپنے مطالعے اور پڑھائی سے یوں لطف اندوز ہو رہے تھے جیسے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے اوروہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری طرف وہ اپنی دنیا میں جانے کے لیے بھی بیتاب تھے اوردوبارہ سے زندگی شروع کرنا چاہتے تھے، ایک ایسی زندگی اور دنیا جو اب ان کے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی تھی جس کی انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے تجدید کی تھی۔اس تضاد کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ وہ دن تیزی سے نزدیک آ رہا تھا جب انہوں نے اس لائبریری سے رخصت ہونا تھا۔ ان کے دل تشکیک کا شکار تھے کیونک انہوں نے اپنے نصب العین کی تکمیلی رپورٹ بھی دینا تھی۔ ان کے ذہنوں میں ایسے خیالات اُبل رہے تھے جن کے بارے میں انہیں خود پتہ نہ تھا کہ انہوں نے اُن کو گھیر گھار کے کس تنگ گلی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ شام کے وقت غروب ہوتے سورج کی روشنی میں کھڑکیوں سے باہر جھانکتے۔وہاں شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہوتیں۔شہر کی بتیاں جل رہی ہوتیں۔ ایسے میں ان میں سے کوئی ایک اونچی آواز میں شعر پڑھنے لگتا اور باقی سر دھنتے۔ فیڈینا ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ اس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اسے اس کی میز پر تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے سکے۔۔۔لیکن وقفے وقفے سے گھنٹی بجتی اور وہ سب اس کی ‘کرسپینو’۔۔۔‘کرسپینو’ پکار سنتے۔ وہ اس بوڑھے لائبریرین کی مدد کے بغیر کہیں بھی پہنچ نہیں پا رہا تھا۔۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ دونوں ایک ہی میز پر، ساتھ بیٹھے رپورٹ لکھنے لگے۔ایک روشن صبح، کمیشن نے لائبریری کو خیر باد کہا اور چیف آف سٹاف کو رپورٹ کرنے ہیڈ کوارٹر گیا۔ فیڈینا نے سارے جنرل سٹاف کے سامنے انکوائری کے نتائج رکھنا شروع کیے۔اس کی تقریر انسانی تاریخ کے آغاز سے موجودہ زمانے تک کا ایک خلاصہ تھا۔ یہ خلاصہ تھا، پینڈوریا کے عاقلوں کے ان سب خیالات کا جن کو بلا کسی بحث و مباحثے کے، تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس میں یہ کہا گیا تھا کہ حاکم طبقات ہی اس قوم کی بدقسمتی کا سبب تھے اور اس کے عوام ان کی غلط پالیسیوں اور غیر ضروری جنگوں کا شکار ہوئے۔ یہ ایک طرح کی گڈ مڈ تقریر تھی، جیسے کسی ایسے بندے کی ہو جس نے نئے خیالات، متعدداعلامیوں اور دستاویزات کا تازہ تازہ مطالعہ کیا ہو اور وہ ان سب کی اپنی اندرونی پیچیدگیوں سے نا و اقف ہواور ان کے باہمی تصادم سے بھی ناآشنا ہو۔ ہاں البتہ، عمومی طور پر دیکھنے پریہ تقریر کے اپنے مطلب کے بارے میں واضح پیغام رکھتی ہو۔سارے جرنیل چکرائے اور ہکا بکا بیٹھے تھے۔ وہ گنگ تھے اور آنکھیں پھاڑے فیڈینا کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی آواز جب لوٹی تو وہ شور مچانے لگے۔فیڈینا کو اپنی بات ختم کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ وہاں کورٹ مارشل کی باتیں ہونے لگیں۔ اُس کا عہدہ گھٹانے کی چرچا ہونے لگا۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کہیں یہ ایک بڑا اور سنجیدہ سکینڈل نہ بن جائے، جنرل فیڈینا اور اس کے چاروں لیفٹیننٹ، خرابی ِ صحت کی بنیاد پر ریٹائر کرکے وظیفہ خوار بنا دئیے گئے۔ کہا یہ گیا کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران تشویش ناک حدتک نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کے بعد، لوگ اکثر انہیں اس قدیم لائبریری کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے۔ انہوں نے شہریوں کا عام لباس پہنا ہوتا؛ انہوں نے موٹے سوئیٹر اور بھاری کوٹ پہنے ہوتے تاکہ سردی سے جم نہ جائیں۔۔۔اورقدیم لائبریری میں بزرگ سینیور کرسپینو کتابیں لیے ان کے منتظر ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭

(حلقہ ارباب ذوق انٹرنیشنل کے شکریے کے ساتھ)

ادرۂ دیدبان

دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور۲۱)۲۰۲۴؁  

ترجمہ:قیصر نذیر خاور

چھ کہانیاں

1:کالی بھیڑ: (La pecora nera)

ایک ملک ایسا تھا، جس کا ہر باسی چور تھا۔اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ، جب، پَو پھٹتے سمے، لُوٹا ہوا مال، لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتاکہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا۔۔۔ لوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔ اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا ،چاہے بندہ خرید نے والا تھا یا پھر بیچنے والا ،وہ اپنی مار پر ہوتا۔ اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکمران دَل کو دغا دے سکیں۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب۔پھر ایک دن، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔ وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔ یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔ ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا: ‘‘یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کاکوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔’’ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں لیکن وہ خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔ وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا، اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔ وہ کسی دوسرے کو دوشی بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ دوش تو خود اس کا اپنا تھا۔ اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔ وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا۔ یہ کارن تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔ جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔ اُن کی اِس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔ امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا: ‘‘کیوں نا ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟’’مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی، غریبوں کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو،دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا، بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔

٭٭٭

2: قانع (Chi si contenta)

ایک ملک ایسا تھا، جہاں ہر شے کی ممانعت تھی۔بس ایک پر پابندی نہیں تھی اور یہ گلی ڈنڈے کا کھیل تھا۔ ملک کے باسی بستیوں سے باہر کھلے میدانوں اور سبزہ زاروں میں اکٹھے ہوتے اور دن بھر گلی ڈنڈا کھیلتے رہتے۔اس سے قبل ہر شے ممنوع قرار دئیے جانے کے لیے قوانین ایک ایک کرکے متعارف کرائے جاتے اور ایسے مثبت دلائل پیش کیے جاتے کہ کسی کو اِن پابندیوں کے خلاف شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہ سوجھتی اور نہ ہی انہیں اِن قوانین کو برداشت کرنے میں کوئی دِقت پیش آتی۔کئی سال بیت گئے۔ ایک دن ملک کے حاکموں کو خیال آیا کہ اب کسی بھی شے پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ کہ ہر پابندی اٹھا لی جائے۔ انہوں نے رعایا کے پاس قاصد بھیجے تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ وہ اب جو چاہیں کر سکتے ہیں۔قاصد ان تمام جگہوں پر گئے جہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘سنو۔۔۔سنو۔۔۔اب کسی شے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔’’، انہوں نے اعلان کیا۔لوگوں نے اُن کی بات پر دھیان نہ دیا اور گلی ڈنڈا کھیلنے میں مصروف رہے۔قاصدوں کو لگا کہ لوگ شاید سمجھے نہیں،انہوں نے پھر سے دہرایا،‘‘تم شاید سمجھے نہیں؟۔۔۔ تم سب اب جو چاہو کر سکتے ہو، کچھ بھی ممنوع نہیں رہا۔’’‘‘اچھا۔’’، لوگ بولے، ‘‘خیر، ابھی تو ہم گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں۔’’قاصدوں نے انہیں وہ سب کارآمد کام اور کرتبے یاد دلائے جو وہ پہلے خوش دِلی سے کیا کرتے تھے اوریہ کہ وہ اب یہ سب دوبارہ کر سکتے تھے۔ رعایا نے پھر بھی اُن کی ایک نہ سُنی اور کھیلتے رہے، گُلیوں کو ڈنڈے سے ضرب پر ضرب لگاتے رہے، یہاں تک کہ کھیل میں وقفہ بھی نہ کیا۔قاصدوں نے جب یہ دیکھا کہ رعایا اُن کی بات ہی نہیں سن رہی تو وہ پلٹے اور حاکموں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔حاکموں نے ان کی بات اطمینان سے سنی اوربولے، ‘‘ہمیں گلی ڈنڈے کے کھیل پر پابندی لگا دینی چاہیے۔’’اس پابندی کے لگتے ہی عوام نے حاکموں کے خلاف بغاوت کی اور انہیں مار ڈالا۔ وہ پھر وقت ضائع کیے بغیر واپس لوٹے اور گلی ڈنڈا کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔

٭٭٭

3: ضمیر(Coscienza)

جنگ شروع ہوئی تو لیوایجی (لیو ای جی) نامی جوان نے پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پیش کر سکتاہے؟یہ سن کر ہر کسی نے اس کی تعریف و توصیف کی۔ لیوایجی اس جگہ گیا جہاں وہ بندوقیں بانٹ رہے تھے۔ اس نے ایک لی اور کہا:‘‘میں اب جاؤں گا اور البرٹو نامی بندے کو مار ڈالوں گا۔’’انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ البرٹو کون ہے؟‘‘ایک دشمن۔’’، اس نے جواب دیا، ‘‘میرا ایک دشمن۔’’انہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ ایک خاص قسم کے دشمن مار سکتا ہے، یہ نہیں کہ جسے چاہے وہ مار ڈالے۔‘‘تو؟’’، لیوایجی بولا، ‘‘آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں کیا؟ یہ البرٹو بالکل اسی خاص قسم کا دشمن ہے، ان میں سے ایک۔ میں نے جب یہ سُنا کہ آپ اس قسم کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے لگے ہیں، تو میں نے سوچا: میں بھی جاؤں گا اور یوں البرٹو کو مار سکوں گا۔ میں اسی لیے یہاں آیا تھا۔ میں اِس البرٹو کو جانتا ہوں۔ وہ ایک بدمعاش ہے۔ اس نے بلا وجہ مجھے بیوقوف بنایا، اس نے ایک عورت کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں، تو میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔’’وہ بولے، ‘‘ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔’’‘‘اچھا۔’’، لیوایجی بولا، ‘‘تو مجھے بتائیں، البرٹو کہاں ہے؟ میں وہاں جاؤں گا اور اس سے لڑوں گا۔’’وہ بولے کہ انہیں معلوم نہیں۔‘‘کوئی بات نہیں۔’’، لیوایجی بولا، ‘‘میں کوئی نا کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لوں گا جو مجھے اس کا پتا بتا دے گا۔ جلد یا بدیر میں اسے جا لوں گا۔’’انہوں نے اسے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وہیں جانا ہو گا، جہاں وہ اسے بھیجیں گے، وہیں لڑنا ہو گا اورانہیں ہی مارنا ہو گا جو وہاں ہوں گے۔ وہ البرٹو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘میری بات سنیں!’’، لیویجی نے اصرار کیا، ‘‘مجھے ساری کہانی آپ کو سنانا ہو گی۔ یہ بندہ واقعی میں بدمعاش ہے اور آپ ٹھیک کر رہے ہیں کہ اس جیسوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔’’وہ، لیکن، اس کی کہانی سننا نہیں چاہتے تھے۔لیوایجی کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ‘‘معاف کریں، آپ کے لیے شاید یہ بات اہم نہ ہو کہ میں ایک دشمن ماروں یا کہ دوسرا لیکن میں اس بات پر پریشان ہی رہوں گا کہ میں کسی ایسے کو ماروں جس کا البرٹو کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔’’رائفل دینے والوں کا پارہ چڑھ گیا۔ ان میں سے ایک نے لمبی تقریر کی اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ وہ جنگ کس لیے لڑی جا رہی تھی اور یہ کہ وہ منہ اٹھا کر جائے اور اپنے کسی مخصوص دشمن، جس سے وہ بدلہ لینا چاہتا ہے، کو قتل نہیں کر سکتا۔لیوایجی نے کندھے جھٹکے۔ ‘‘اگر یہ ایسا ہی ہے۔’’، وہ بولا، ‘‘تو مجھے اس سب سے الگ ہی رہنے دیں۔’’‘‘تم اپنی خدمات پیش کر چکے ہو، اب تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔’’، وہ چلائے۔‘‘آگے بڑھو۔۔۔ چَپ راس۔۔۔ چَپ راس!’’یوں انہوں نے اسے محاذ پر بھیج دیا۔لیوایجی خوش نہیں تھا۔ اس نے ان سب کو مارا، جو بھی اس کے سامنے آئے، وہ کسی نا کسی طرح البرٹو تک یا اس کے خاندان میں سے کسی بندے تک پہنچنا چاہتا تھا۔انہوں نے اسے ہر ہلاکت پر تمغہ دیا لیکن وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ ‘‘میں اگر البرٹو کو نہ مار سکا۔۔۔’’، اس نے سوچا، ‘‘تو مجھے بہت سے لوگوں کو خواہ مخواہ مارنا پڑے گا۔’’، اسے یہ اچھا نہ لگا۔اس دوران وہ اسے تمغے پر تمغہ دئیے جا رہے تھے، چاندی کے، سونے کے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔لیوایجی نے سوچا، ‘‘کچھ آج مارو، کچھ کل۔۔۔ اور یوں وہ کم ہوتے جائیں گے۔۔۔ پھر اس بدمعاش کی باری بھی آ ہی جائے گی۔’’اس سے پہلے کہ وہ البرٹو کو تلاش کر پاتا، غنیم نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اسے بُرا محسوس ہوا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلاوجہ ہلاک کر دیا۔ اب جبکہ وہ حالت ِ امن میں تھے، اس نے اپنے تمغے ایک تھیلے میں ڈالے اور ان کی بستیوں میں گیا اور سارے تمغے ہلاک شدگان کی بیواؤں اور بچوں میں تقسیم کر دئیے۔ان بستیوں میں گھومتے پھرتے اس کا سامنا البرٹو سے ہو گیا۔‘‘یہ تو اچھا ہو گیا۔’’ اس نے خود سے کہا، ‘‘کبھی نہیں سے دیر ہی بھلی۔’’اس نے البرٹو کو ہلاک کر دیا۔اس پرانہوں نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ مقدمے کے دوران اس نے بار بار یہ بات دوہرائی کہ اس نے یہ کام اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سُنی۔

٭٭٭

4: دشمن کی آنکھیں (Occhi nemici)

پئیترو اس صبح چہل قدمی کر رہا تھا، تبھی اسے احساس ہوا کہ کچھ ایسا ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ ایسا کچھ دیر سے محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جیسے کوئی اس کے پیچھے ہو، کوئی ایسا جو نظر نہ آتے ہوئے، اس پر نظر رکھ رہا ہو۔اس نے اچانک سر موڑ کر دیکھا۔ وہ ایک الگ تھلگ سڑک پر تھا، جہاں مرکزی دروازوں کے ساتھ باڑیں اور لکڑی کی بنی چار دیواریاں تھیں اور ان پر پھٹے ہوئے اشتہار لگے تھے۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پئیترو فوراً جھنجھلا گیا کہ اس نے ایسا خیال آتے ہی مڑ کر کیوں دیکھا تھا۔ وہ چلتا رہا اور اپنی سوچ کے سلسلے کی ٹوٹی ڈور پھر پکڑنا چاہی۔یہ خزاں کی ایک صبح تھی اور سورج کی روشنی بھی کچھ کم کم ہی تھی۔ یہ ایسا دن ہرگز نہیں تھا کہ بندہ خوشی سے جھوم اٹھے لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ غمزدہ ہو۔ پھر بھی اسے خود پر بے چینی کا بوجھ محسوس ہوا۔ کچھ تھا، کچھ آنکھوں جیسا جو کندھوں کے اوپر، اس کی گردن کی پشت پر مرکوز ہوتا محسوس ہوا اور یہ اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دے رہا تھا۔ اِس کی موجودگی عناد بھری بھی تھی۔اسے لگا کہ اسے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تاکہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا سکے۔ وہ ایک مصروف سڑک کی طرف بڑھا لیکن نکڑ پر، اس نے پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک سائیکل سوار وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک عورت سڑک پار کر رہی تھی۔ وہ ان لوگوں اور چیزوں کے درمیان کوئی تعلق نہ جوڑ سکا اور گھبراہٹ اسے پھر سے کھانے لگی۔ اس نے جب مڑ کر دیکھا تھا تو اسی وقت ایک بندے نے بھی گردن موڑ کر اسے بھی دیکھا تھا۔ دونوں نے فوراً ہی اور ایک ساتھ ایک دوسرے سے نظریں چُرا لیں، جیسے وہ کسی اور کو دیکھنا چاہ رہے ہوں۔ پئیترو نے سوچا: ‘شاید اس بندے نے یہ محسوس کیا ہو کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ شاید یہ صرف میں ہی نہیں ہوں، جسے آج کی صبح، حساسیت کی ایسی پریشان کن تیزی محسوس ہو رہی ہو۔ شاید یہ اس دن کے موسم کا اثر ہو جو ہمیں نروس کر رہا ہے۔’وہ اب ایک بھرے بازار میں تھا اور اسی سوچ کے ساتھ اس نے لوگوں کو دیکھنا شروع کر دیا اور یہ نوٹس کیا کہ وہ بلا ارادہ عجیب حرکات کر رہے تھے۔ وہ بیزارگی کے عالم میں اپنے ہاتھ چہرے تک لے جا رہے تھے۔ ان کی بھنویں یکلخت چڑھ جاتیں جیسے انہیں کسی پریشانی نے گھیر لیا ہو یا کوئی ناخوشگوار یاد تازہ ہوگئی ہو۔ ‘کیا ہی گھٹیا اور دکھی کرنے والا دن ہے۔’، پئیترو بار بار خود سے کہہ رہا تھا، ‘کیا ہی بیکار اور بدقسمت دن ہے۔’ٹرام کے سٹاپ پر اپنا پاؤں زمین پربجاتے ہوئے اس نے یہ بھی جانا کہ وہاں موجود دوسرے لوگ بھی اپنے پاؤں بجاتے ہوئے ٹرام کے روٹوں کے نوٹس بورڈ کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچھ ایساپڑھنے کی کوشش میں ہوں جو وہاں لکھا ہوا ہی نہیں تھا۔ٹرام میں کنڈیکٹر نے چُھٹا دیتے وقت غلطی کی اور غصہ کھا گیا۔ ڈرائیور نے پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں پر جھلا کر تکلیف دہ انداز میں لگاتار ہارن بجایا، جس پر مسافروں نے ہتھیوں پر اپنی انگلیاں یوں کس دیں جیسے وہ کسی ڈوبتے بحری جہاز میں سفر کر رہے ہوں۔پئیترو نے ٹرام میں بیٹھے اپنے دوست کوریڈو کے بھاری بھرکم وجود کو پہچان لیا۔ اس نے ابھی تک پئیترو کو نہیں دیکھا تھااور اپنی ایک گال میں ناخن گاڑے، کھڑکی سے باہر بدحواسی سے دیکھ رہا تھا۔‘‘کوریڈو!’’، اس نے داہنی طرف سے اس کے سر پر سے اسے پکارا۔اس کا دوست بولا، ‘‘اوہ تو یہ تم ہو، میں نے تمہیں دیکھا نہیں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔’’‘‘تم پریشان لگتے ہو۔’’، پئیترو نے کہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی حالت دوسروں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا، ‘‘میں بھی آج خاصا پریشان ہوں۔’’‘‘کون نہیں ہے؟’’، کوریڈو نے کہا۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور اس پر ایسی قناعت جھلک رہی تھی کہ ہر ایک نے اس کی بات سنی اور اس پر اعتبار کیا۔‘‘تمہیں پتہ ہے، کوریڈو، میں کیسا محسوس کر رہا ہوں؟’’، پئیترو نے کہا۔ ‘‘مجھے لگتا ہے جیسے کہیں آنکھیں ہیں جو مجھے گھور رہی ہیں۔’’‘‘آنکھیں؟ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔’’‘‘کسی ایسے کی آنکھیں، جس سے میں پہلے مل چکا ہوں، لیکن وہ مجھے یاد نہیں۔ سرد آنکھیں، معاندانہ سی۔۔۔’’‘‘ایسی آنکھیں، جن کو آپ دیکھنا بھی نہ چاہتے ہوں، لیکن ایسی، جنہیں آپ کو ہر حال میں سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔’’‘‘ہاں۔۔۔ سچی۔۔۔ آنکھیں جیسے۔۔۔’’‘‘جیسے جرمنوں کی۔۔۔؟’’، کوریڈو نے پوچھا۔‘‘ہاں، ہاں، بالکل ویسی ہی جیسی جرمنوں کی آنکھیں۔’’‘‘اچھا، خیر یہ بات سمجھ آتی ہے۔’’، کوریڈو نے کہا اور اس نے اپنا اخبار کھولا۔ ‘‘اس طرح کی خبر کے ساتھ۔۔۔’، اس نے ایک سرخی کی طرف اشارہ کیا: کیسلرنگ *کو معافی دے دی گئی۔۔۔ ایس ایس کے جلوس۔۔۔ امریکی نیو۔نازی'ز کی مالی مدد کر رہے ہیں۔۔۔ ‘‘اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ہم ان کی واپسی کو محسوس کر رہے ہوں۔۔۔’’‘‘اوہ، ایسا ہے۔۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہی کارن ہے۔۔۔ لیکن ہم یہ ابھی ہی کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ کیسلرنگ اور ایس ایس تو یہاں عرصے سے ہیں، سال سے بلکہ دو سال سے۔ شاید وہ تب جیل میں ہی ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح پتہ تھاکہ وہ وہاں ہیں، ہم انہیں نہیں بھولے تھے۔۔۔’’‘‘آنکھیں۔’’، کوریڈو بولا، ‘‘تم نے کہا کہ تمہیں محسوس ہوا کہ یہ آنکھیں تمہیں گھور رہی ہیں۔ یہ اب تک گھور نہیں رہی تھیں کیونکہ انہوں نے نگاہیں نیچی کر رکھی تھیں اور ہم ان کے عادی نہیں رہے تھے۔۔۔ وہ ہمارے ماضی کے دشمن تھے، ہم ان سے اُن کے کیے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے، زمانہ حال میں نہیں۔۔۔ لیکن اب انہیں اپنی پرانی گُھوری واپس مل گئی ہے۔۔۔ ویسی ہی جیسی وہ آٹھ سال پہلے ہم پر ڈالا کرتے تھے۔۔۔ یہ ہمیں یاد ہے اور ہم نے ایک بار پھر ان کی آنکھوں کو خود پر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔’’پئیترو کا بھائی ایک جبری کیمپ میں مرا تھا۔ پئیترو اپنی ماں کے ساتھ، پرانے خاندانی گھر میں رہتا تھا۔ شام ڈھلے وہ واپس آیا۔ دروازہ اسی طرح چرچرایا، جیسا کہ ہمیشہ چرچراتا تھا اور اس کے جوتوں تلے بجری اسی طرح کُٹی جس طرح ان دنوں میں کُٹتی تھی، جب ہمارے کان قدموں کی آ واز پر لگے ہوتے تھے۔اس شام، جب جرمن آیا تھا تو وہ کہاں گھوم رہا تھا؟ شاید وہ پُل پار کر رہا تھا، شاید نہر کنارے چل رہا تھا، یا پھر شاید نیچی چھتوں والے گھروں کی قطار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ ان کی بتیاں جل رہی تھیں۔ یہ جرمنی کا ایک شہر تھا جو کوڑا کرکٹ اور کوئلے سے بھرا تھا۔ اس نے عام سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تبھی سبز ٹوپی، گلے تک بند بٹنوں والے کالے کوٹ اور چشمہ پہنے و ہ شخص اسے گھورے جا رہا تھا۔۔۔ پئیترو کو گھورے جا رہا تھا۔اس نے دروازہ کھولا۔ ‘‘یہ تم ہو!’’، اسے ماں کی آواز سنائی دی۔ ‘‘آخر تم آ ہی گئے۔’’‘‘آپ کو پتہ تو تھا کہ میں نے اس وقت سے پہلے نہیں لوٹنا تھا۔’’، پئیترو نے کہا۔‘‘تم بھی نا، لیکن مجھ سے انتظار کی پیڑھا سہی نہیں جا رہی تھی۔’’، وہ بولی، ‘‘سارا دن میرا کلیجہ منہ کو آتا رہا۔۔۔ مجھے پتہ نہیں،کیوں۔۔۔ یہ خبر۔۔۔ کیا یہ جرنیل پھر سے قابض ہونے لگے ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے راستی پر تھے۔۔۔’’‘‘آپ بھی!’’، پئیترو بولا۔ ‘‘پتہ ہے کوریڈو کیا کہتا ہے؟وہ کہتا ہے کہ ہمیں، ہم سب کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان جرمنوں کی نظریں ہم پر ہیں۔۔۔ اسی لیے ہم سب پریشان ہیں۔۔۔’’پھروہ یوں ہنسا جیسے یہ صرف کوریڈو ہی تھا جو ایسا سمجھتا تھا۔اس کی ماں نے، لیکن اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ ‘‘پئیترو، کیا جنگ ہونے والی ہے؟ کیا وہ واپس آ رہے ہیں؟’’‘کل تک تو۔’، پئیترو نے سوچا، ‘یہاں جب بھی کوئی ایک اور جنگ کے خطرے کی بات کرتا تھا تو بندوں کو کوئی مخصوص بات نہ سُوجتی کیونکہ پرانی جنگ میں تو ان کے چہرے صاف نظر آتے تھے لیکن نئی جنگ کیسی ہو گی یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اب البتہ ہمیں پتہ چل گیا ہے جنگ کا چہرہ پرانا ہی ہے اور یہ انہی کا ہے۔’کھانے کے بعد پئیترو باہر گیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔‘‘پئیترو؟’’، اس کی ماں نے پوچھا۔‘‘کیا ہے؟’’‘‘تم اس موسم میں باہر جا رہے ہو۔۔۔’’‘‘تو کیا ہوا؟’’‘‘کچھ نہیں۔۔۔ لیکن جلدی لوٹنا۔۔۔’’‘‘ماں، اب میں بچہ نہیں رہا۔۔۔’’‘‘ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ اچھا الوداع۔۔۔’’اس کی ماں نے اس کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور کھڑی، بَجری پر اس کے قدموں اور گیٹ بند ہونے کی آواز سنتی رہی۔ وہ کھڑی بارش کی ٹپ ٹپ کو بھی سنتی رہی۔ جرمنی بہت دور ایلپس کے پہاڑوں کے پیچھے تھا۔شاید وہاں بھی بارش ہو رہی ہو۔ کیسلر نگ: ایس ایس جو اس کے بیٹے کو اٹھا لے گیا تھا، اپنی کار میں بیٹھا کیچڑ بکھیرتا چلا گیا۔ اس نے چمکیلی برساتی پہن رکھی تھی، اپنی فوجیوں والی پرانی برساتی۔‘بہرحال اس رات فکر کرنا بیوقوفی کی بات ہے، اسی طرح اگلی رات بھی اور شاید اگلا پورا سال بھی۔’ اسے لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کب تک فکر سے آزاد رہ سکتی تھی کیونکہ جنگ میں بھی ایسی راتیں ہوتی ہیں جب پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن لوگ تیار رہتے کہ اگلی رات پریشانی لا سکتی ہے۔وہ اکیلی تھی۔ باہر بارش کا شور تھا۔ بارش میں بھیگے یورپ میں پرانے دشمنوں کی آنکھیں رات کو چھیدتی، اس کے اندر گھس رہی تھیں۔‘میں ان کی آنکھیں دیکھ سکتی ہوں۔’، اس نے سوچا، ‘لیکن اب انہیں ہماری بھی دیکھنا ہوں گی۔’ اور وہ ثابت قدمی سے کھڑی اندھیرے میں گھورتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔ کیسلرنگ = Albert Kesselring (1885ء۔ 1960ء)، نازی جرمنی کا اہم جرنیل۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دیگر کے ہمراہ ‘وار کرائم’(War Crime) کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور اسے آرڈیتین قتلام (Ardeatine massacre) میں 335 اطالوی شہری ہلاک کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ یہ سزا بعد ازاں عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ اس کی حمایت میں، اس کی صحت کے حوالے سے ایک سیاسی و میڈیا مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسے اکتوبر 1952 ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ کیسلرنگ نے اسی برس سابقہ نازی فوجیوں کی تین تنظیموں کی اعزازی صدارت بھی قبول کی تھی اور وہ مرتے دم تک نازی سرگرمیوں میں جرمنی اور بیرون جرمنی سرگرم رہا۔

٭٭٭

5: یکجہتی(Solidariet-E0)

میں انہیں دیکھنے کے لیے رُک گیا۔وہ ایک الگ تھلگ سی گلی میں رات کے وقت کام کر رہے تھے۔ اصل میں وہ ایک دکان کے اوپر اٹھ جانے والے دروازے کے ساتھ کچھ کر رہے تھے۔یہ ایک بھاری شٹر تھا۔ وہ ایک آہنی سلاخ کو بطور‘لیور’ استعمال کر رہے تھے لیکن دروازہ تھا کہ اپنی جگہ سے اوپر سِرک ہی نہیں رہا تھا۔میں اکیلا ہی اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا۔ میں نے کہیں کسی خاص جگہ بھی نہیں جانا تھا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کے لیے سلاخ اپنے ہاتھ میں لی اور انہوں نے میرے کھڑے ہونے کے لیے جگہ بنائی۔‘‘ہم مل کر اسے اوپر نہیں اٹھا رہے تھے۔’’، میں بولا، ‘‘اوپر۔۔۔ زور لگا کے ہیا۔’’میرے دائیں طرف کھڑے بندے نے مجھے کہنی ماری اور ہولے سے بولا۔‘‘چُپ بدمعاش! کیا تم پاگل ہو! کیا تم چاہتے ہو کہ وہ ہمیں سُن لیں؟’’میں نے یوں اپنا سر ہلایا، جیسے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے منہ سے نکل گیا۔کچھ دیر تو لگی۔ ہمارے پسینے بھی چھوٹ گئے لیکن آخر ہم نے شٹر کو اتنا اونچا سِرکا دیا تھا کہ بندہ اندر داخل ہو سکے۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھا اور اندر گھس گئے۔ مجھے ایک بورا تھما دیا گیا۔ دوسرے سامان اٹھا اٹھا کر لاتے اور اس میں ڈالتے رہے۔‘‘جب تک یہ سرانڈ مارتے نیولے نہیں آتے، سامان سمیٹتے رہو۔’’، وہ کہہ رہے تھے۔‘‘ٹھیک ہے۔’’ میں نے جواب دیا، ‘‘وہ واقعی میں بُو دار نیولے ہیں۔’’‘‘چُپ رہو۔ کیا تمہیں ان کے قدموں کی آہٹ سنائی نہیں دے رہی۔’’، وہ چند منٹوں کے بعد یہ دوہراتے۔ میں قدرے خوفزدہ ہو کر کان لگا کر سنتا اور کہتا، ‘‘نہیں۔۔۔ نہیں، یہ ان کے قدموں کی آہٹ نہیں ہے۔’’‘‘یہ سالے اُسی وقت آ وارد ہوتے ہیں، جب کوئی بھی ان کی آمد کی توقع نہیں کر رہا ہوتا۔’’، ان میں سے ایک بولا۔میں نے سر ہلایا۔ ‘‘پتہ ہے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ان سب کو مار دینا چاہیے۔’’، میں نے جواب دیا۔انہوں نے پھر مجھے کچھ دیر کے لیے باہر نکڑ تک جانے کو بولا کہ میں دیکھوں، کوئی آ تو نہیں رہا۔ میں گیا۔باہر نکڑ پر، وہ ایک دیوار کے ساتھ چمٹے راہداریوں میں آگے بڑھتے میری طرف آ رہے تھے۔میں ان کے ساتھ مل گیا۔‘‘وہاں نیچے، ان دکانوں کے پاس سے شور اٹھ رہا ہے۔’’، میرے ساتھ والے نے اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔میں نے اس طرف نظر ڈالی۔‘‘گدھے، اپنا سر نیچے کرو۔ وہ ہمیں دیکھ لیں گے اور پھر بھاگ جائیں گے۔’’، اس نے سرگوشی کی۔‘‘میں دیکھ رہا ہوں۔’’، میں نے کہا اور دیوار کے ساتھ دُبک گیا۔‘‘اگر ہم انہیں احساس دلائے بغیر گھیر سکیں۔’’، دوسرا بولا، ‘‘تو ہم انہیں پکڑ سکتے ہیں۔ وہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔’’ہم سانس روکے، پنجوں کے بل اچھلتے آگے بڑھے اورچند لمحوں کے وقفوں کے بعد ایک دوسرے سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ نظریں چار کرتے۔‘‘اب وہ بچ نہیں سکتے۔’’، میں نے کہا۔‘‘بالآخر ہم انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنے ہی والے ہیں۔’’، ان میں سے کوئی ایک بولا۔‘‘ہاں، وقت بس ہوا ہی چاہتا ہے۔’’، میں نے کہا۔‘‘غلیظ حرامی نہ ہوں، کس ڈھٹائی سے دکانوں میں مال لوٹ رہے ہیں!’’، ایک اور بولا۔‘‘حرامی۔۔۔ حرامی کہیں کے’’، میں نے بھی غصے سے دوہرایا۔انہوں نے مجھے آگے دھکیلا تاکہ میں ان کے لیے نظر ڈال کر انہیں بتا سکوں۔میں دکان میں واپس چلا آیا۔‘‘وہ اب ہمیں نہیں پکڑ سکتے۔’’، ایک نے بورا اپنے کندھے پر لادتے ہوئے کہا۔‘‘جلدی کرو۔’’، دوسرا بولا، ‘‘چلو پچھواڑے کی طرف سے چلتے ہیں۔ ہم فرار ہو جائیں گے اور وہ دیکھتے رہ جائیں گے۔’’ہم سب کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔‘‘انہیں سچ میں ایک بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔’’، میں نے کہا اور پھر ہم دکان کے پچھواڑے میں چلے گئے۔‘‘ہم نے ان گدھوں کو واقعی بیوقوف بنایا ہے۔’’، وہ بولے۔تبھی ایک آواز آئی: ‘‘رُکو، وہاں کون ہے۔’’، اور پھر ہر طرف روشنی ہو گئی۔ ہم وہاں پڑی چیزوں کے پیچھے دبک گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے۔ ہمارے چہرے پیلے پڑ گئے۔وہ پچھلے والے کمرے میں آئے لیکن ہمیں نہ دیکھ سکے اور واپس مُڑ گئے۔ ہم اُچھلے اور دیوانہ وار بھاگے۔‘‘ہم نے میدان مار لیا۔’’، ہم چلائے۔ مجھے دو ایک بار ٹھوکر لگی اور میں پیچھے رہ گیا۔ میں نے اب خود کو تعاقب کرنے والوں کے ساتھ پایا۔‘‘جلدی کرو۔’’ وہ بولے، ‘‘ہم انہیں پکڑنے ہی والے ہیں۔’’سب تنگ گلی میں تعاقب کرتے، دوڑتے چلے گئے۔‘‘اس طرف سے آگے بڑھو اور ان کا راستہ کاٹو۔’’، ہم بولے، آگے بھاگنے والے بھی اب زیادہ دور نہیں تھے۔ ہم اسی لیے چِلا رہے تھے، ‘‘تیز اور تیز، اب وہ بچ نہیں پائیں گے۔’’میں سرعت سے بڑھا اور آگے والوں میں سے ایک کے ساتھ جا ملا۔ وہ بولا، ‘‘شاباش، تم بھی بچ نکلے۔ آؤ اِدھر سے نکلتے ہیں، یوں ہمارا ان سے پیچھا چھوٹ جائے گا۔’’میں اس کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے خود کو ایک گلی میں اکیلا پایا۔ کوئی نکڑ کی طرف سے بھاگتا ہوا آیا اور بولا، ‘‘جلدی کرو، اس طرف، میں نے انہیں دیکھ لیا ہے۔ وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔’’میں کچھ دیر اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔پسینے سے تر میں پھر رُک گیا۔ اب وہاں کوئی نہ تھا۔ مجھے چیخنے چِلانے کی آوازیں بھی نہیں آ رہی تھیں، میں کچھ دیر جیبوں میں ہاتھ دئیے وہیں کھڑا رہا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ میں نے کہیں، کسی خاص جگہ نہیں جانا تھا۔

٭٭٭

6: اِک جرنیل لائبریری میں (Un generale in biblioteca)

پینڈوریا کی مشہور قوم میں ایک روز، اعلیٰ حکام کے ذہنوں میں اس شک نے جنم لیا کہ کتابوں میں ایسے خیالات پائے جاتے ہیں جو عسکری عزت و وقار کے منافی ہوتے ہیں۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ تفتیش اور قائم کیے گئے مقدمات نے اس رجحان کی نشان دہی کی تھی اور یہ لہر تھی کہ لوگوں میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جرنیل ہی وہ لوگ ہیں جو اصل میں غلطیاں کرتے ہیں اور آفات و جنگوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ کہ یہ سب کچھ قوم کو شاندار نصیب کی طرف نہیں لے جاتا اور نہ ہی قوم کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ خیالات بیشتر کتابوں میں مشترک تھے چاہے یہ قدیم تھیں یا جدید، کتابیں پینڈوریا کی تھیں یا بدیسی۔پینڈوریا کا ‘جنرل سٹاف’ مل کر بیٹھا تاکہ صورت حال کا جائزہ لے سکے۔انہیں، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں سے شروع کریں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی خصوصی طور پر کتابیات کے معاملات سے واقف نہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ،جنرل فیڈینا کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ یہ جرنیل ایک سخت طبیعت کا مالک لیکن فرض شناس افسر تھا۔ اس کمیشن نے پینڈوریا کی سب سے بڑی لائبریری میں موجود ساری کتب کی جانچ کر نی تھی۔یہ لائبریری ایک قدیم عمارت میں تھی جس میں عمودی طور پر چُنی گئی ان گنت کتابیں اور سیڑھیاں تھیں۔اس کی دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا بلکہ کئی جگہوں پر یہ گرنے والی بھی تھیں۔ اس کے ٹھنڈے کمروں میں کتابیں یوں ٹھنسی ہوئی تھیں کہ کئی کتابوں تک پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔ ان میں کچھ کونے کدرے ایسے بھی تھے جنہیں چوہے ہی کھوج سکتے تھے۔ بھاری فوجی اخراجات کے تلے دبی پیندوڑیا کی ریاست اس سلسلے میں کسی مالی معاونت کے قابل نہ تھی۔فوج نومبر میں ایک صبح، بارش میں ہی لائبریری پر قابض ہو گئی۔جرنیل اپنے گھوڑے سے اترا۔ وہ قدم جما کر تن کر کھڑا ہوا۔ اس کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی، گردن موٹی تھی اور ناک پر ٹِکے چشمے کے اوپر اس کی بھنویں غصے سے پھڑک رہی تھیں۔ چار لمڈینگ،لمبے لیکن منحنی، لیفٹیننٹ منہ اٹھائے لیکن آنکھیں نیچی کیے کار سے باہر نکلے، ہر ایک کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔اس کے بعد سپاہیوں کا ایک جتھا آیا۔ انہوں نے لائبریری کے قدیمی صحن میں کیمپ لگایا جس میں خچر اور ان کے چارے کی گانٹیں، خیمے، کھانا پکانے کا سامان، برتن، کیمپ ریڈیواور سگنل دینے والی جھنڈیاں شامل تھیں۔دروازوں پر نہ صرف سنتری کھڑے کیے گئے بلکہ ان پر ایسے نوٹس بھی آویزاں کیے گئے جن پر لکھا تھا؛ ‘اس وقت تک اندر جانے کی ممانعت ہے جب تک بڑے پیمانے کی یہ مشق جاری ہے۔’، ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا گیاتھا کہ یہ انکوائری انتہائی رازداری سے کی جا سکے۔کتابوں کے شوقین جو سردی سے بچنے کے لیے بھاری کوٹ، سکارف اور کنٹوپ پہنے ہر صبح لائبریری جایا کرتے تھے انہیں واپس جانا پڑتا۔ الجھن میں پڑے یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ لائبریری میں بڑے پیمانے پریہ فوجی مشق کس لیے ہے؟ کیا یہ اس جگہ پڑی ہر شے چوپٹ نہیں کر دیں گے؟کیا یہ یہاں چاند ماری بھی کریں گے؟لائبریری کے عملے میں سے صرف ایک بوڑھے شخص، سنیور کرسپینو کو رکھا گیا تاکہ وہ افسروں کو بتا سکے کہ کتابوں کو کس ترتیب سے رکھا گیا ہے۔وہ عملے میں سب سے پست قد تھا۔ اس کا انڈہ نما سر گنجا تھا اور اس کی آنکھیں عینک کے پیچھے ننھے منے بٹنوں جیسی تھیں۔جنرل فیدینا کے لیے اس آپریشن کی نقل و حمل اولین اور سب سے اہم ترجیح تھی کیونکہ اسے یہ حکم دیا گیا تھا کہ انکوائری مکمل کرنے سے پہلے کمیشن کا کوئی بھی فرد لائبریری سے باہر نہیں جائے گا۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے انہماک کی ضرورت تھی اور کمیشن خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ اس میں شامل فوجیوں کی توجہ کسی طور بھی بٹے۔چنانچہ ضروریات کی سب چیزیں حاصل کی گئیں اور بیرکوں میں جلائے جانے والے چولہے اور لکڑیوں کا ذخیرہ بھی اکٹھا کیا گیا۔ ان لکڑیوں کے ساتھ پرانے رسالوں کا انباربھی اکٹھا کیا گیا جنہیں غیر دلچسپ گردانا جاتا تھا یوں یہ لائبریری سردیوں کے کسی بھی موسم میں اتنی گرم نہ ہوئی تھی جتنی اس بار ہوئی۔جرنیل اور اس کے افسروں کے لیے بھوسا بھرے سفری گدے محفوظ جگہوں پر بچھائے گئے اور ان کے گرد چوہے پکڑنے کے لیے کڑیکیاں بھی لگائی گئیں۔یہ سب کرنے کے بعدذمہ داریاں لگائی گئیں۔ہرلیفٹیننٹ کو علم کی ایک مخصوص شاخ یا پھر تاریخ کی ایک مخصوص صدی تھمائی گئی۔ جرنیل نے خودکتابوں کی جلدوں کی پڑتال کرنی تھی اور ربڑ کی ایک مناسب مہر ان پر ثبت کرنا تھی کہ ہر ایک کتاب افسروں، نان کمیشنڈ افسروں، سپاہیوں نے مناسب طریقے سے پرکھ لی ہے یا نہیں اور یا کہ پھر اسے فوجی عدالت میں پیش کرنا ہے۔یوں کمیشن کو سونپا گیا کام شروع ہوا۔ ہر شام جنرل فیدینا کی رپورٹ کیمپ ریڈیو کے ذریعے ہیڈ کوارٹر کو بھیجی جاتی۔‘اتنی کتابوں کا جائزہ لیا گیا۔ اتنی کو مشکوک جان کر ضبط کیا گیا، اتنی افسروں اور فوجیوں کے لیے مناسب قرار دی گئیں۔’کبھی کبھار اِن خشک اعداد و شمار کے ساتھ عمومی باتوں سے ہٹ کر کچھ ایسا بھی ترسیل کیا جاتا جیسے کہ ایک افسر کے لیے ایک عینک درکار ہے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے پڑھ سکے کیونکہ وہ اپنی توڑ بیٹھا ہے یا پھر یہ خبر بھی نشر کی جاتی کہ ایک خچر نے سیسیرو کا ایک نادر قلمی نسخہ کھا لیا ہے کیونکہ کسی نے اس پر نظر نہیں رکھی تھی۔لیکن ایسے معاملات بھی رونما ہو رہے تھے جو ان سے کہیں زیادہ اہم تھے، ان کی ترسیل کیمپ ریڈیو نہیں کر رہا تھا۔لگتا تھا کہ کتابوں کا ذخیرہ کم ہونے کے بجائے مزید گنجلک اور پُرفریب ہوتا جا رہا تھا۔اگرسینیور کرسپینو مدد کے لیے نہ ہوتے تو افسر اپنا راستہ تک بھول جاتے۔ مثال کے طور پرمیز پر بیٹھا لیفٹیننٹ ایبروگاٹی کتاب پڑھتے پڑھتے اچھل کر کھڑا ہو جاتا اور کتاب پرے پھینک دیتا: ‘لیکن یہ تو بہت ہی اشتعال انگیز ہے۔ پیونِک جنگوں کے بارے میں اس کتاب میں کارتھیجیوں کو اچھا دکھایا گیا ہے اور رومنوں پر تنقید کی گئی ہے!اس کتاب کی فوراً رپورٹ کرنی چاہیے!’ (اس میں تو یہ بھی کہا جانا چاہیے تھا کہ پینڈوریا کے لوگ خود کو رومنوں کی اولاد سمجھتے تھے۔یہ چاہے درست تھا یا غلط۔)’ بوڑھا لائبریرین اپنی نرم چپلوں میں چلتا اس کے پاس آتا۔ ‘‘یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔’’ وہ کہتا، ‘‘یہ پڑھیں،رومنوں کے بارے میں یہاں کیا لکھا ہے، آپ یہ اپنی رپورٹ میں لکھ سکتے ہو اور یہ بھی۔۔۔یہ بھی’’، اور وہ کتابوں کا ایک پلندہ اسے پیش کر دیتا۔ لیفٹیننٹ پہلے تو گھبراہٹ میں ان کتابوں کے ورق پلٹ کر دیکھتا، اور جب یہ اسے دلچسپ لگتیں تو انہیں پڑھنے لگتا اور نوٹس بنانے لگتا۔ وہ سر کھجاتا اور بڑبڑاتا۔ ‘حیرت ہے، کیا کچھ جاننے کو مل رہا ہے، میں بھلا ایسا کیسے سوچ سکتا تھا۔’سینیور کرسپینو لیفٹیننٹ لو چیٹی کے پاس جاتے جو جوش سے ایک ضخیم کتاب بند کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا۔ ‘‘کیا ہی اچھا مواد ہے! ان لوگوں نے کیا دلیری دکھائی ہے اور ان نظریات کی عفت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے جو صلیبی جنگوں کا سبب بنے تھے۔۔۔ جی جناب۔۔۔ صلیبی جنگیں۔’’ سینیور کرسپینو مسکراتے ہوئے کہتے، ‘‘اوہ، لیکن دیکھیں اگر آپ نے اس موضوع پر رپورٹ بنانی ہے تو کیا میں آپ کو کچھ اور کتابوں کو دیکھنے کا مشورہ دوں جن میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔’’، اور وہ کتابوں سے بھرا، آدھا خانہ اس کے سامنے ڈھیر کر دیتے۔ لیفٹیننٹ لوچیٹی آگے جھکتا اور ان میں گم ہو جاتا اور ہفتہ بھر ان کے صفحات پلٹتے، منہ ہی منہ میں بولتا رہتا: ‘‘میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ صلیبی جنگیں تھیں تو شاندار!’’کمیشن کی شام والی رپورٹوں میں ان کتابوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی جن کا جائزہ لیا گیا تھا لیکن اب یہ رپورٹیں وہ نسبتی تعداد نہیں بتاتی تھیں کہ کونسی حتمی طور پر مثبت اور کونسی منفی تھیں۔ جنرل فیڈینا کی ربڑ کی مہریں بیکار پڑی رہنے لگیں۔ اگر وہ اپنے کسی ایک لیفٹیننٹ کے کام کی پڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھتا، ‘‘لیکن تم نے اس ناول کو پاس کیوں کیا؟ اس میں تو سپاہی افسروں سے زیادہ بہتر دکھائے گئے ہیں! اس مصنف کے ہاں درجہ بندی اور تنظیم کی کوئی عزت ہی نہیں ہے!’’لیفٹیننٹ جواباً دوسرے مصنفین کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ، فلسفے اور معیشت کے معاملات آپس میں گڈ مڈ کر دیتے۔اس سے کھلی بحثوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جوبعد ازاں گھنٹوں جاری رہنے لگا۔سینیور کرسپینو اپنی سرمئی قمیض میں تقریباً گُم اپنی چپلوں میں دبے پاؤں ہمیشہ ایسے وقت آ دھمکتے اور زیر بحث موضوع پرایسی مزید کتابیں پڑھنے کے لیے پیش کر دیتے، جو ان کی نظر میں دلچسپ معلومات رکھتیں اوریہ کتابیں لازمی اور مکمل طور پر جنرل فیڈینا کے راسخ عقائد کوکھا جاتیں۔ اس دوران سپاہیوں کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہ تھا اور وہ بیزار ہو رہے تھے۔ ان پیادوں میں ایک، براباسو تھا جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ اس نے افسروں سے پڑھنے کے لیے ایک کتاب مانگی۔پہلے تو انہوں نے اسے اُن چندکتابوں میں سے ایک،جو فوجیوں کے پڑھنے کے لیے موزوں قرار دے دی گئی تھیں، دینی چاہی لیکن پھر انہیں ان ہزاروں کتابوں کا خیال آیا جن کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔ جنرل فیڈینا بھی یہ سوچ کر ہچکچایا کہ یوں براباسو ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے بھی ایسی کتاب پڑھنے میں وقت ضائع کرے گا جو پہلے ہی پڑھی جا چکی تھی۔ اس نے اسے ایک ایسی کتاب دے دی جس کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔یہ ایک ناول تھا جو دیکھنے میں آسان لگتا تھا۔ یہ ناول بھی سینیور کرسپینو نے تجویز کیا تھا۔ براباسو کو ہدایت کی گئی کہ وہ اسے پڑھ کر جنرل کو رپورٹ کرے۔ دوسرے پیادوں نے بھی ایسی فرمائشیں کیں اور انہیں بھی اسی طرح کام پر لگا دیا گیا۔ پیادے توماسن نے اپنے ایک ساتھی پیادے کو اونچی آواز میں کتاب پڑھ کر سنائی۔ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا،توماسن چاہتا تھا کہ وہ بھی اس کتاب پراپنے تاثرات بیان کر ے۔یوں فوجی جوان بھی افسروں کے ساتھ کھلی بحثوں میں حصہ لینے لگے۔ کمیشن کے کام میں کیا پیش رفت ہوئی، اس کے بارے میں کچھ زیادہ علم تو نہیں کیونکہ سردیوں کے اس طویل موسم میں، کئی ہفتوں تک یہ رپورٹ نہ کیا گیا کہ لائبریری میں کیا ہوتا رہا تھا۔ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ جنرل سٹاف ہیڈکوارٹر کو جنرل فیڈینا کی یہ رپورٹیں روزانہ جانے کی بجائے پہلے ناغوں سے جانے لگیں، پھران کی بے قاعدگی بڑھ گئی اور بالآخر یہ بالکل بند ہو گئیں۔ چیف آف سٹاف کو اس پر تشویش ہوئی اور اس نے یہ حکم بھجوایا کہ انکوائری جلد از جلد سمیٹی جائے اور ایک مکمل اور تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔لائبریری میں، اس حکم نے فیڈینا اوراس کے آدمیوں پر مختلف نوعیت کے اثرات ڈالے۔ ایک طرف وہ لگاتار نئی دلچسپیاں دریافت کر رہے تھے اور اپنے مطالعے اور پڑھائی سے یوں لطف اندوز ہو رہے تھے جیسے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے اوروہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری طرف وہ اپنی دنیا میں جانے کے لیے بھی بیتاب تھے اوردوبارہ سے زندگی شروع کرنا چاہتے تھے، ایک ایسی زندگی اور دنیا جو اب ان کے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی تھی جس کی انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے تجدید کی تھی۔اس تضاد کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ وہ دن تیزی سے نزدیک آ رہا تھا جب انہوں نے اس لائبریری سے رخصت ہونا تھا۔ ان کے دل تشکیک کا شکار تھے کیونک انہوں نے اپنے نصب العین کی تکمیلی رپورٹ بھی دینا تھی۔ ان کے ذہنوں میں ایسے خیالات اُبل رہے تھے جن کے بارے میں انہیں خود پتہ نہ تھا کہ انہوں نے اُن کو گھیر گھار کے کس تنگ گلی میں دھکیل دیا ہے۔ وہ شام کے وقت غروب ہوتے سورج کی روشنی میں کھڑکیوں سے باہر جھانکتے۔وہاں شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہوتیں۔شہر کی بتیاں جل رہی ہوتیں۔ ایسے میں ان میں سے کوئی ایک اونچی آواز میں شعر پڑھنے لگتا اور باقی سر دھنتے۔ فیڈینا ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ اس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اسے اس کی میز پر تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے سکے۔۔۔لیکن وقفے وقفے سے گھنٹی بجتی اور وہ سب اس کی ‘کرسپینو’۔۔۔‘کرسپینو’ پکار سنتے۔ وہ اس بوڑھے لائبریرین کی مدد کے بغیر کہیں بھی پہنچ نہیں پا رہا تھا۔۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ دونوں ایک ہی میز پر، ساتھ بیٹھے رپورٹ لکھنے لگے۔ایک روشن صبح، کمیشن نے لائبریری کو خیر باد کہا اور چیف آف سٹاف کو رپورٹ کرنے ہیڈ کوارٹر گیا۔ فیڈینا نے سارے جنرل سٹاف کے سامنے انکوائری کے نتائج رکھنا شروع کیے۔اس کی تقریر انسانی تاریخ کے آغاز سے موجودہ زمانے تک کا ایک خلاصہ تھا۔ یہ خلاصہ تھا، پینڈوریا کے عاقلوں کے ان سب خیالات کا جن کو بلا کسی بحث و مباحثے کے، تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس میں یہ کہا گیا تھا کہ حاکم طبقات ہی اس قوم کی بدقسمتی کا سبب تھے اور اس کے عوام ان کی غلط پالیسیوں اور غیر ضروری جنگوں کا شکار ہوئے۔ یہ ایک طرح کی گڈ مڈ تقریر تھی، جیسے کسی ایسے بندے کی ہو جس نے نئے خیالات، متعدداعلامیوں اور دستاویزات کا تازہ تازہ مطالعہ کیا ہو اور وہ ان سب کی اپنی اندرونی پیچیدگیوں سے نا و اقف ہواور ان کے باہمی تصادم سے بھی ناآشنا ہو۔ ہاں البتہ، عمومی طور پر دیکھنے پریہ تقریر کے اپنے مطلب کے بارے میں واضح پیغام رکھتی ہو۔سارے جرنیل چکرائے اور ہکا بکا بیٹھے تھے۔ وہ گنگ تھے اور آنکھیں پھاڑے فیڈینا کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی آواز جب لوٹی تو وہ شور مچانے لگے۔فیڈینا کو اپنی بات ختم کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ وہاں کورٹ مارشل کی باتیں ہونے لگیں۔ اُس کا عہدہ گھٹانے کی چرچا ہونے لگا۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کہیں یہ ایک بڑا اور سنجیدہ سکینڈل نہ بن جائے، جنرل فیڈینا اور اس کے چاروں لیفٹیننٹ، خرابی ِ صحت کی بنیاد پر ریٹائر کرکے وظیفہ خوار بنا دئیے گئے۔ کہا یہ گیا کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران تشویش ناک حدتک نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کے بعد، لوگ اکثر انہیں اس قدیم لائبریری کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے۔ انہوں نے شہریوں کا عام لباس پہنا ہوتا؛ انہوں نے موٹے سوئیٹر اور بھاری کوٹ پہنے ہوتے تاکہ سردی سے جم نہ جائیں۔۔۔اورقدیم لائبریری میں بزرگ سینیور کرسپینو کتابیں لیے ان کے منتظر ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭

(حلقہ ارباب ذوق انٹرنیشنل کے شکریے کے ساتھ)

ادرۂ دیدبان

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024