شاعر: چارلس بکوسکی | مترجم: اعجازالحق
شاعر: چارلس بکوسکی | مترجم: اعجازالحق
Oct 14, 2025


ارسن مک کلرز
وہ کسی نیم شب کے تھکے ہوئے خواب کی واپسی پر
ازل کی تھکن سے لبریز
اک گمنام یادوں کے ساحل پہ
ویران کشتی کے پہلو میں لرزتی
ادھ کھلی آنکھوں میں تھمی
کسی ناقابلِ بیان لمحے کی تصویر بنی
اک لرزاں کمبل میں ملفوف
ماہ و سال کی تہہ دار گرد میں لپٹی ہوئی
ڈیک کی کرسی پہ
مثلِ مجہول افسانہ
محوِ خوابِ فنا تھی
نہ کوئی آہٹ، نہ آہ
نہ کسی لفظ کی جنبش، نہ سناٹے کا شور
بس
اک مسافر، جو شاید
کہیں زیریں سطح ہستی سے
طلوعِ فہم کی ایک مہیب ساعت میں ابھرا
رکا، دیکھا، اور صرف اتنا کہا۔۔۔۔
کپتان۔۔۔۔یہاں ایک لاش ہے!
پھر کچھ نہیں بس
اک رسمی حرکتِ بے درود و سلام اسے لے گئے
کسی تاریک کمرے کی گمنام دیوار کے عقب میں
جہاں ہم ماضی کو دفن کرتے ہیں
دل کے نسیانی گوشوں میں
اور اس کی کتابیں جن میں
اک زخم زدہ تمنا کی کراہ
اک بے قربت پیار کی خشک چیخ
اک نارسائی کی آتش بیاں زبان
تہہ بر تہہ سلگتی تھی
سب رہ گئیں
بند صندوق کے پیہم اندھیرے میں
جیسے ناممکن محبتیں
کبھی پوری نہ ہو سکیں
اور جہاز۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔!
وہی بے پرواہ، بے انت، بے منزل جہاز
وقت کی طرح دراز
خامشی کی طرح سرد
تقدیر کی طرح بے حس
آگے بڑھتا رہا
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
جیسے کوئی مرا ہی نہیں
شاعر: چارلس بکوسکی | مترجم: اعجازالحق (فورٹ عباس)
ارسن مک کلرز
وہ کسی نیم شب کے تھکے ہوئے خواب کی واپسی پر
ازل کی تھکن سے لبریز
اک گمنام یادوں کے ساحل پہ
ویران کشتی کے پہلو میں لرزتی
ادھ کھلی آنکھوں میں تھمی
کسی ناقابلِ بیان لمحے کی تصویر بنی
اک لرزاں کمبل میں ملفوف
ماہ و سال کی تہہ دار گرد میں لپٹی ہوئی
ڈیک کی کرسی پہ
مثلِ مجہول افسانہ
محوِ خوابِ فنا تھی
نہ کوئی آہٹ، نہ آہ
نہ کسی لفظ کی جنبش، نہ سناٹے کا شور
بس
اک مسافر، جو شاید
کہیں زیریں سطح ہستی سے
طلوعِ فہم کی ایک مہیب ساعت میں ابھرا
رکا، دیکھا، اور صرف اتنا کہا۔۔۔۔
کپتان۔۔۔۔یہاں ایک لاش ہے!
پھر کچھ نہیں بس
اک رسمی حرکتِ بے درود و سلام اسے لے گئے
کسی تاریک کمرے کی گمنام دیوار کے عقب میں
جہاں ہم ماضی کو دفن کرتے ہیں
دل کے نسیانی گوشوں میں
اور اس کی کتابیں جن میں
اک زخم زدہ تمنا کی کراہ
اک بے قربت پیار کی خشک چیخ
اک نارسائی کی آتش بیاں زبان
تہہ بر تہہ سلگتی تھی
سب رہ گئیں
بند صندوق کے پیہم اندھیرے میں
جیسے ناممکن محبتیں
کبھی پوری نہ ہو سکیں
اور جہاز۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔!
وہی بے پرواہ، بے انت، بے منزل جہاز
وقت کی طرح دراز
خامشی کی طرح سرد
تقدیر کی طرح بے حس
آگے بڑھتا رہا
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
جیسے کوئی مرا ہی نہیں