بیانیہ میں فوکولائیزیشن کی اہمیت
بیانیہ میں فوکولائیزیشن کی اہمیت
Aug 9, 2018
حیاتِ انسانی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں بیانیہ کاعمل دخل موجود نہ ہو
دیدبان شمارہ۔۸
بیانیہ میں فوکولائیزیشن کی اہمیت
علی رفاد فتیحی
دور حاضر میں فکشن کی تنقید نے مجموعی طور پر ایسے سوالات قائم کیے ہیں جہاں فکشن اور بیانیہ کے بیشتر نکات کی وضاحت بڑے استناد سے ہوتی ہے اور جن کی روشنی میں فکشن اور بیانیہ کے مابین مغائرتوں کا ایک خاکہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حیاتِ انسانی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں بیانیہ کاعمل دخل موجود نہ ہو تخلیقی بیانیوں کو سمجھنے میں انسانی فکر نے سست روی کا مظاہرہ کیاہے۔’بیانیہ ایک علمیاتی زمرہ یا ساخت ہے۔ زندگی کی حقیقت ہم تک اس زمرے میں ڈھل کر پہنچتی ہے یعنی ہم دنیا کو بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا کا کوئی تصور بیانیہ سے ہٹ کر ممکن ہے ۔گویا بیانیہ پورے انسانی معاشرت او رثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے فیڈرک جیمز کا یہ خیال کہ دنیا کو ہم بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں سراسر حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ ہزاروں سال پرانی روایتیں، قدریں، جو ہم تک پہنچتی ہیں وہ انہیں قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں کے ذریعے سے ہی پہنچتی ہیں یعنی انسان کااٹھنا بیٹھنا‘ رہن سہن‘ چال چلن‘ پہناوا غرض انسانی زندگی سے جڑا ہر ایک پہلو ‘ ہر ایک چیز ہم تک ان ہی قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں سے پہنچتا ہے جو بیانیہ کی اصل روایت سے جْڑی ہیں او رجن میں ہزاروں سا ل قدیم روایتی بیانیہ کے نقوش ہی نہیں بلکہ پوری تصویر نظر آتی ہے۔ بیانیہ فکشن کاایک ناگزیر حصہ ہے جس کے بغیر فکشن کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔اس طرح بیانیہ تہذیب و ثقافت کی اہم ترین عکاس اور مظہر ہے۔
گریماس اور ان کے بعد رولاں بارت، تھامس پاول، جیرالڈپرنس اور سب سے بڑھ کر ڑرار ڑینث نیز وولف گینگ قیصر، فرانز سٹاترل، وولف سمڈ اور مائیک بال نے فکشن یا بیانیے کا مطالعہ بہ طور ’’زبان ‘‘ کیا ہے۔ جس طرح ساختیاتی لسانیات کے ماہر زبان کی عمیق ساخت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح ان ماہرین بیانیات نے بھی بیانیے کی عمیق ساخت کو دریافت اور مرتب کرنے پر توجہ دی۔ گویا ان ماہرین نے بیانیے کو زبان کے مماثل سمجھا ہے۔شاید اس لیے کہ بیانیہ بغیر زبان کے ممکن نہیںہے ۔ لہٰذا یہ سمجھا گیا کہ زبان کی ساخت اور زبان کا تفاعل از خود بیانیے میں در آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ زبان ایک نشا نیاتی نظام(System of Signification)ہے اور بیانیوں میں بھی معنی خیزی کا تہ نشیں نظام موجود ہوتا ہے۔ سوسئیر اور رومن جیکب سن نے زبان میں اضدادی جوڑوں(Binary Opposites)کی نشان دہی کی تھی۔ گریماس نے اسے بالخصوص اہمیت دی اور واضح کیا کہ زبان معنی کی ترسیل میں اس لیے کام یاب ہوتی ہے کہ اس میں ’’ضد‘‘اور ’’فرق‘‘موجود ہیں۔ سوسئیر نے کہا تھا کہ زبان میں افتراقات (differences) کے سوا کچھ نہیں۔ ہر لسانی نشان اس لیے کسی معنی کی ترسیل کرتا ہے کہ وہ صوتی و تکلمی سطح پر دوسرے نشانات سے مختلف ہے۔ گریماس نے بھی یہی بات کہی کہ ہم ہر شے کو اس کی ضد سے شناخت کرتے ہیں؛ رات کو دن، عورت کو مرد اورانسان کو جانور کی ضد سے پہنچانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہPerception of Oppositionہر بیانیے کی عمیق ساخت میں بھی موجود ہے۔ وہ دیگر ساختیاتی مفکرین کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ یہ تخالف مواد کا نہیں، ہیئت کا ہے یعنی تخالف و تضاد کا تعلق ان اشیا سے نہیں جن کا ہم ادراک کرتے ہیںخود ہمارے لسانی طریقِ ادراک میں تخالف موجود ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جانور ہی اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انسان کی کامل ضد ہو، یا عورت اپنے جملہ اوصاف کے لحاظ سے مرد سے مختلف ہومگر ہمارا لسانی اور معنیاتی نظام دونوں کی الگ الگ شناخت کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی ضد بنا کر پیش کرتا ہے اور ہر ضد میں فریق مخالف کی نفی بھی موجود ہوتی ہے۔ گریماس نے بیانیوں میں بھی اضدادی جوڑوں کی کارفرمائی دیکھی ہے۔ یہ جوڑدار بیانیوں کی یہ کارفرمائیاں مواد میں نہیں ہیئت میں نظر آتی ہیں۔یعنی ’کہانی‘ میں نہیں’’پلاٹ‘‘ میں یابیانیے کی ساخت میں۔گویا فکشن کی ہیئت زبان کی طرح اور اس کا مواد دنیا کی طرح ہے اور فکشن اپنے موادکا’ادراک‘اسی طرح اضدادی جوڑوں میں کرتا ہے،جس طرح ہم زبان کے ذریعے دنیا کا ادراک اضدادی جوڑوں میں کرتے ہیں۔ گریماس نے پراپ کے فنکشن کے سات دائرہ ہائے عمل کو تین اضدادی جوڑوں میں سمیٹ کر پیش کیا، جو یہ ہیں:
۱۔ موضوع بہ مقابلہ معروض(Subject versus Object)
۲۔ مرسل بہ مقابلہ وصول کنندہ (Sender versus Receiver)
۳۔ حامی بہ مقابلہ مخالف(Helper versus Opponent)
گریماس نے انھی کو ’’عامل‘‘(Actants)کا نام دیا تھا۔ گویا گریماس بھی ’’عامل‘‘سے مراد کردار نہیں، وہ تفاعل یا وظیفہ لیتا ہے جو ایک یا زاید کرداروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ بیانیوں میں بھی کئی کردار اور اشخاص ہوتے ہیں۔وہ کچھ اعمال سر انجام دیتے ہیں؛ یہ اعمال جن حدود میں انجام پاتے ہیں، ان کا تعین یہی ’’عامل‘‘ کرتے ہیں اور ہر ’’عامل‘‘ کی ایک ضد ہے:موضوع یا ہیرو کا ایک ہدف ہے، اس ہدف کی تلاش، ہیرو کو متحرک رکھتی ہے۔ یوں ہیرو کے تمام افعال (اور پھر کہانی کے واقعات)ہدف تک پہنچنے کے مساعی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ ہدف کے ساتھ تخالف کا رشتہ ہیرو کی ساری فعالیت کا ذمے دار ہوتا ہے۔بیانیات کے فرانسیسی ماہروں نے پلاٹ کی جگہ کلامیہ (Discourse)کی اصطلاح برتی ہے اور یہ اصطلاح اس اعتبار سے زیادہ موزوں محسوس ہوتی ہے کہ یہ فکشن کے پورے بیانیہ عمل کا احاطہ کرتی ہے جب کہ پلاٹ بالعموم واقعاتی تنظیم کا مفہوم ادا کرتا ہے۔کلامیہ زبان و بیان کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جسے ابلاغی طور پر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ یعنی زبان کا ایک خود انحصاری ٹکڑا، جو اپنے اندر ساختی اور معنیاتی تانے بانے کے ساتھ بڑی مضبوطی سے بندھا ہوتا ہے۔ کلامیہ میں ساختی سطح پر ایسے روابط ملتے ہیں جو اسے باندھے رکھتے ہیں۔ گویا زبان صرف فقرات تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ فقروں سے اوپر ایک درجہ کلامیے کا بھی ہے جو ہماری زبان کو روزمرہ میں ابلاغ کے قابل بناتا ہے۔کلامیہ معاشرے کو سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کلامیہ اور معاشرہ ایک دوسرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ہمارے سماج میں زبان کی صورت میں کلامیے لہر در لہر ادھر سے اْدھر بہتے رہتے ہیں۔ کہانی اور کلامیے کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں رشتہ کیا ہے ؟کیا کہانی، مواد اور کلامیہ، ہیئت ہے؟ یعنی کیا کہانی پہلے سے، باہر اور آزاد حالت میں موجود ہوتی ہے جسے تخلیقی تصرف میں لا کر مصنف کلامیے کی تشکیل کرتا ہے، یا کہانی کلامیے کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے؟ اس ضمن میں ایک سامنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم فکشن کے مطالعے کے دوران میں ہی کہانی اور کلامیے اور ان کے درمیان موجود فرق کا ادراک کرتے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کہانی اور کلامیہ دونوں ایک ’’تیسری چیز‘‘ یعنی ناول، افسانے، ڈرامے وغیرہ پر منحصر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان میں سے کوئی ایک فی نفسہ مکمل اور خود مختار نہیں، یہ اجزاہیں ایک کل کے، جسے بیانیہ کہتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیانیہ کہانی اور کلامیے کا مجموعہ ہے۔ اس بات کو ماننے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کہانی اور کلامیہ ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں، مگر اسے قبول کرنے میں دقت یہ ہے کہ ہم دو ایسی چیزوں کا ادراک ایک ساتھ کیسے کر سکتے ہیں جن میں فرق بھی موجود ہو!ہمیں ان کے درمیان تخالف، تضاد یا علت و معلول کا، کوئی نہ کوئی رشتہ قائم کرنا ہوگا؛ ایک کو دوسرے کا نقیض یا ایک کو سبب اور دوسرے کو نتیجہ قرار دینا ہوگا۔ تخالف و تضاد کا رشتہ اس بنا پر ناموزوں ہے کہ پھر اس طور کہانی، کلامیے کو یا کلامیہ کہانی کو بے دخل کرتا محسوس ہو گا جب کہ بیانیے کی کلیت کا تقاضا ہے کہ دونوں بہ یک وقت موجود ہوں۔ لہٰذا ایک کو علت اور دوسرے کو معلول قرار دینا مناسب ہے۔ اب اگلا سوال(بلکہ مسئلہ)یہ ہے کہ کسے علت اور کسے معلول سمجھا جائے؟یہ طے کرنا آسان نہیں، اس لیے کہ ہم ان دونوں سے، بیانیے قرات کے دوران میں دو چار ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم کلامیے کو ناول یا افسانے کے اندر اور کہانی کو ان سے باہر دیکھتے ہوں۔ اگرچہ عمومی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ کہانی(واقعات کا سلسلہ)باہر موجود ہوتی ہے، جسے لکھا جاتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جس کہانی کو ہم نے باہر فرض کیا ہے، اس سے ہم اولاً آشنا تو بیانیے کے متن ہی سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کہانی، لکھے جانے سے پہلے، باہر موجود ہو یا مصنف کے متخیلہ میں وجود رکھتی ہو،ہمیں اس کی موجودگی کی خبربیانیہ متن ہی دیتا ہے۔ یوں اصولی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کہانی، متن کے ذریعے ہی وجود رکھتی ہے۔ بیانیہ متن نہ ہو تو کہانی بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیانیہ میں ایک کہانی ہوتی ہے جس کے اردگرد پھر ساراماحول تشکیل پاتاہے کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے اور اس کہانی کے اردگرد پھر پلاٹ ‘کردار‘مکالمہ‘ مناظر وغیرہ کی خمیر تیار ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں کہانی کے لیے معاون ضرور ہیں لیکن بنیادی اہمیت قصہ کی ہی ہے۔ کہانی کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی چلتی رہتی ہیں او رسب مل کر بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں۔
کہانی اور کلامیے کے رشتے کے ضمن میں جوناتھن کلر کا خیال ہے کہ کبھی کہانی ،کلامیے کی علت ہوتی ہے اور کبھی کلامیہ ،کہانی کی علت ہوتا ہے۔ کبھی کہانی کا واقعاتی عمل ایک مخصوص ’’بیانیہ کلام‘‘ کو جنم دیتا ہے اور کبھی کوئی خاص ’’بیانیہ کلام‘‘ مخصوص واقعاتی عمل کا سبب بنتا ہے۔ اس امر کی تو متعدد مثالیں ہیں کہ کس طرح ایک بیانیہ ایک مخصوص کہانی یعنی واقعات کے مجموعے کو خام مواد کے طور پر استعمال میں لا کر، وجود میں آیا ہے۔ پرانی داستانیں ہوں یا نئے افسانے اور ناول ہوں، وہ کچھ کرداروں کو پیش آمدہ واقعات اور ان کیباہمی ربطپر استوارہوتے ہیں۔ ان کی مخصوص بیانیہ تکنیک، اسلوب، فضا نگاری، کرداروں کی نفسی کیفیت کا احوال، کرداروں کی باہمی کش مکش کی صورتِ حال، مخصوص مکالمے، یہ سب کہانی سے کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے اور اگر کچھ کہانی کے کنٹرول سے باہر ہے تو بیانیہ متن میں وہ ’’فاضل مواد‘‘ ہو گا ،جب کہ کچھ بیانیہ متون ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کہانی کے بجائے’’بیانیہ کلام‘‘ کنٹرولنگ اتھارٹی ہوتا ہے
فوکولائیزیشن کی وضاحت کرتے ہوے ٔ ڈچ نظریہ سازمائیک بال کا خیال ہے کہ ہر بیانیہ متن میں کچھ ’’کہنے اور کچھ ’’دکھانے‘‘ کا عمل یکساں طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اور اس کہنے اور دکھانے کے آپسی ربط کو فوکولائیزیشن کہتے ہیں۔ یہ ربط چناں چہ بیانیوں میں ’’کہنے‘‘ اور ’’دکھانے‘‘ کے ساتھ ساتھ کوئی کہنے اور کوئی دکھانے والا بھی ہوتا ہے۔ کہنے والا، بیان کنندہ(Narrator)ہے اور دکھانے والا Focalizerہے۔فوکولائیزیشن ’بیانیہ متن‘ کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔مائیک بال اس کی مزید وضاحت کرتے ہو ے ٔ کہتی ہیں کہ اگر’الف‘ کہتا ہے کہ ’ب‘ نے دیکھاکہ ’ج‘کیا کر رہا ہے تو یہ بیانیہ کا ایک حصہ بن جاتا ہے کیونکہ قاری اس کے توسط سے کہنے والے اور دکھانے والے کے آپسی رشتے کو بخوبی سمجھ پاتا ہے۔اوراس طرح بیانیہ سے بیان کنندہ اورفوکولائیزرکے درمیان کوئی خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا۔وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ر بط سٹریم آف کنشسنس جیسی صورت پیش کرتا ہے ان کا خیال ہے کہ بیانیہ کا طرز اظہار وزن، احساسات، تصورات، خیالات، اور یادداشت سے مختلف ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوکولائیزیشن کا براہ راست تعلق اس کہانی سے جس میں لسانی اورفکشنل سطحیں نمایاں نظر آتی ہیں۔چونکہ فوکولائیزیشن کا تصور بیان کنندہ اور فوکولائیزر کے آپسی ربط کی نشاندہی کرتا ہے لہذا بعض صورتوںمیں انھیںالگ بھی سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔فوکولائیزیشن میں فوکولائیزر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ بیان کنندہ کا تعلق صرف بیان کے طریقے سے رہتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس Focalizerایک ایسا ’’ایجنٹ‘‘ یا ’’کردار‘‘ ہے جو بیانیے کے مفہوم و مقصد اور جہت کا تعین کرتا ہے۔ مائیک بال اس کی مزید وضاحت پیش کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ ہر بیانیہ متن کسی نہ کسی علم، آئیڈیالوجی یا ثقافتی پس منظر کے حصار میں ہوتا ہے۔ وہ کسی نفسیاتی نکتے، انسانی فطرت کی کسی کم زوری، کسی سیاسی نظریے، کسی ثقافتی رسم یاکسی تہذیبی صورتِ حال پر بطور خاص ’’اِصرار‘‘ کرتا ہے۔ان کے خیال میںبس یہی بیانیے کی Focalizationہے۔
فوکولائیزیشن کا کلیدی موضوع فوکولائیزر وہ نقطہ فکر پیش کرتا ہے جس کے تناظر میں بیانیہ کے تمام عناصر کو پکھا جاتا ہے۔ یہ نقطہ فکر بیانیہ کے کردار د (یعنی کہانی کا اہم عنصر) میں صاف طور پر نمایاں نظر آتا ہے۔وہ کردار جو focalizor کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں انھیں دیگر کرداروں کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہوتی ہے۔قاری دنیا کو انکرداروں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور، اصولی طور پر، اس کردار کی پیش کردہ وژن کو قبول کرنے کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے مائیک بال . Mulisch کی Massuro کی مثال پیش کرتی ہیں جہان ہم میں ہم کردار کی آنکھوں سے واقعات کا اظہار دیکھتے ہیں۔ ان مظاہر سے ہم Massuro کی حالت کا اندازہ کرتے ہیں۔ ایسے فوکولائیزر سے جن کا انحصار کردار پر ہوتا ہے اور جنھیں ہم آسانی کے لیے CF یعنیcharacter focalizer کہہ سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ان کرداروں کے ساتھ تعصب اور محدودیت کا اندیشہ رہتا ہے ۔مزید وضاحت کے لیے وہ ہینری جیمز ' کے کردار Maisie کی مثال پیش کرتی ہیں۔جہاں قاری کے سامنے واقعات ایک چھوٹی لڑکی کی محدود بصارت کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے۔ اور اس طرح Maisie کا بیانیہ ، اس ’بیان کنندہ ’ کی بصارت کا مرحون منت ہے؛جس کی شناخت متعین ہے اور یہ شناخت ،اس بیاینے کے Focalizer سے ہمیں آشنا کردیتی ہے۔مائیک بال محدود بصارت کے تصور کے مزید وضاحت کے لیے مقامیت(Localization) کا مسٔلہ اٹھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مقامیت کے تصور کا ایک کردار سے دوسرے کردار میں مختلف نظر آنا ایک فطری عمل ہے۔۔جبکہ بیان کنندہ میں اس طرح کا کوئی واضح فرق نہیں نظر آتا۔یہ صوت بیانیہ میں ایک تصادم کی صورت پیدا کرتا ہے۔مقامیت کا یہ تصور اگربیانیہ کے کسی کلیدی کردار سے وابستہ ہو تو اسے داخلی فوکولائیزیشن یاInternal Focalisation جب کہ اس کے بر عکس اگر صورت اس سے ذرا مختلف ہو اور کوئی بیرونی ایجنٹ فوکولائیزر کا رول انجام دے تو اسے بیرونی فوکولائیزیشن یا External focalisation کہہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہر صورت میں کردار کا فوکولائیزر ہونا لازمی شرط نہیں ہے۔بیانیہ کے واقعات، پس منظر، یا پیش منظر، بھی فوکولائیزر کا رول انجام دے سکتے ہیں۔ فوکولائیزر کے لیے یہ تجزیہ دراصل بیانیے کے نقطہِ ارتکاز یا Focalizationتک پہنچنے کی خاطر ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ تجزیہ اپنی اصل میں تعبیر ہے۔اور ہر تعبیر ،ایک دوسری ،نئی اور متبادل تعبیر کا امکان رکھتی ہے۔دوسرے لفظوں میں کسی بیانیے کے نقطہِ ارتکازکی شناخت حتمی نہیں ہوتی۔ایک ہی بیانیے کے مقصدو مدعا پر اختلاف کی گنجایش رہتی ہے۔
مزید یہ کہ focalizor کسی چیز کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ تصویر خود focalizor کی بھی ترجمانی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوکولائیزیشن کا تصور مندرجہ ذیل سوالات کھڑا کرتا ہے۔
۱۔ کیا کردار فوکولاٰٗئیز کرتا ہے۔؟ اور اگر ہاں تو اس کا مقصد کیا ہے؟
۲۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ کس نظریہ حیات سے یہ چیزوں کو دیکھتا ہے؟
۳۔ فوکولائیزیشن کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہوتی ہیں
فوکولائیزیشن کی وضاحت جرارڈجنیٹ( Genette Gerard )بھی اپنی تحریروں میں کرتا ہے اس کی اصطلاح میںلہجے(mood) کا تعلقFocalization سے ہے او ر آواز( Voice)کا تعلقNarrationسے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جرارڈجنیٹ(Gerard Genette)کا نام بیانیات کے نظریہ سازوں میں بے حد اہم ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’بیانیہ کلام‘‘( Discourse Narrative ) میں مارسل پروست کے ناول"Remembrance of Things Past"کو سامنے رکھ کر بیانیے کی تھیوری پیش کی ہے۔ بیانیات میں ڑنیث کی دین یہ ہے کہ اس نے بیانیے میں کہانی اور کلامیے کے علاوہ ایک تیسرے عامل کی نشان دہی کی ہے، جسے اس نے عملِ بیان یا Act Narrativeکہا ہے اور اس کی اہمیت کو ان لفظوں میں باور کرایا ہے:ان کا خیال ہے کہ بیانیہ کہانی، کلامیے اور عملِ بیان کے آپسی رشتوں سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کے پیچھے وہی ساختیاتی بصیرت کام کر رہی ہے جس کے مطابق زبان اور دیگر ثقافتی اعمال، رشتوں کے نظام ہوتے ہیں۔ وہ دیگر علمائے بیانیات کی طرح کہانی کو مدلول اور کلامیے کو دال قرار دیتا ہے: دال جو مدلول کی نماٰٰیندگی کرتا ہے۔ کہانی کی نمایندگی کلامیہ کرتا ہے، مگر ڑنیث کے نزدیک کہانی اور کلامیہ ایک دوسرے پر منحصر ہونے کے باوجود ایک تیسرے بیانیہ عامل، یعنی عملِ بیان کے محتاج ہیں۔ اگر عملِ بیان نہ ہو تو کہانی اور کلامیے، دونوں کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ کہانی اور کلامیے میں فرق تو باآسانی ہو جاتا ہے؛واقعے کو بیانِ واقعہ سے ممیز کرنا آسان ہے، مگر عملِ بیان کو گرفت میں لینا اور اسے بیانِ واقعہ سے الگ متصور کرنا آسان نہیں۔ بیانیے میں عملِ بیان کیوں کر ظہور کرتا اور کارفرما ہوتا ہے۔یعنی کلامیہ تو واقعے کا بیان یا واقعے کی لسانی پیشکش ہے جب کہ ’’عملِ بیان‘‘ وہ نشانات، علامات اور نقوش ہیں جو واقعے کے بیان کے دوران میں ابھرتے چلے جاتے ہیں اور جنھیں بیانیے کی قرات کے دوران میں گرفت میں لیا جا سکتا ہے اور ان کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب بیانیہ تخلیق ہوتا ہے یا ’’عملِ بیان‘وقوع پذیر ہوتا ہے تو کہانی کھلتی چلی جاتی اور کلامیہ متشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان تینوں کی موجودگی اور ان کے مابین باہم کی خبر فقط بیانیے کے تجزیے سے ہوتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ بیان کنندہ اور Focalizer،بیانیے کے واقعات، واقعات کے تسلسل و عدم تسلسل، واقعات سے وابستہ زمان و مکاں اور بیانیے کے مفہوم و مقصد کا تعین مل کر کرتے ہیں۔ مائیک بال کی طرح وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ہر بیانیے کا کوئی نہ کوئی کہنے یا بیان کرنے والا ہوتا ہے، اس کوڑنیث’’بیانیہ کلام‘‘ کی آوازVoiceکہتا ہے۔ یہ نہ صرف بیانیے کے قاری /سامع کے ساتھ ’’ترسیلی ربط‘‘ قائم کرتا ہے بلکہ ڑنیث کی نظر میں ’بیانیہ کلام‘‘ کی آوازیہ فیصلہ کرتی ہے کہ قاری تک کیا بات پہنچائی جائے اور کیا چھوڑی دی جائے اور کون سا طریقِ بیان(Point of View)اختیار کیا جائے۔ واحد متکلم میں کہانی کہی جائے؛ہمہ بیں ناظر کے ذریعے کہانی بیان کی جائے یا کسی اور طریق سے کہانی قاری تک پہنچائی جائے۔ کہانی بیان کرنے کے کسی مخصوص طریق کا انتخاب کہانی کی ساخت پر لازماً اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً واحد متکلم میں کہی جانے والی کہانی میں بیان کنندہ راوی کے ساتھ ساتھ اگر کہانی کا کردار بھی ہو تو ایک طرف وہ قاری کو اپنے تجربے میں شریک کرنے کی پیہم کوشش میں ہوگا اور حقیقت کا تاثر ابھارنے میں کام یاب ہو گا تو دوسری طرف وہ کہانی کے دوسرے کرداروں کی فقط خارجی صورتِ حال بیان کر پائے گا۔ وہ ہمہ بیں ناظر کی طرح دوسرے کرداروں کی باطنی کیفیات سے آ گاہی مہیا نہیں کر سکے گا۔
دیدبان شمارہ۔۸
بیانیہ میں فوکولائیزیشن کی اہمیت
علی رفاد فتیحی
دور حاضر میں فکشن کی تنقید نے مجموعی طور پر ایسے سوالات قائم کیے ہیں جہاں فکشن اور بیانیہ کے بیشتر نکات کی وضاحت بڑے استناد سے ہوتی ہے اور جن کی روشنی میں فکشن اور بیانیہ کے مابین مغائرتوں کا ایک خاکہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حیاتِ انسانی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں بیانیہ کاعمل دخل موجود نہ ہو تخلیقی بیانیوں کو سمجھنے میں انسانی فکر نے سست روی کا مظاہرہ کیاہے۔’بیانیہ ایک علمیاتی زمرہ یا ساخت ہے۔ زندگی کی حقیقت ہم تک اس زمرے میں ڈھل کر پہنچتی ہے یعنی ہم دنیا کو بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا کا کوئی تصور بیانیہ سے ہٹ کر ممکن ہے ۔گویا بیانیہ پورے انسانی معاشرت او رثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے فیڈرک جیمز کا یہ خیال کہ دنیا کو ہم بیانیہ کے ذریعے سے ہی جانتے ہیں سراسر حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ ہزاروں سال پرانی روایتیں، قدریں، جو ہم تک پہنچتی ہیں وہ انہیں قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں کے ذریعے سے ہی پہنچتی ہیں یعنی انسان کااٹھنا بیٹھنا‘ رہن سہن‘ چال چلن‘ پہناوا غرض انسانی زندگی سے جڑا ہر ایک پہلو ‘ ہر ایک چیز ہم تک ان ہی قصہ کہانیوں‘ لوک روایتوں سے پہنچتا ہے جو بیانیہ کی اصل روایت سے جْڑی ہیں او رجن میں ہزاروں سا ل قدیم روایتی بیانیہ کے نقوش ہی نہیں بلکہ پوری تصویر نظر آتی ہے۔ بیانیہ فکشن کاایک ناگزیر حصہ ہے جس کے بغیر فکشن کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔اس طرح بیانیہ تہذیب و ثقافت کی اہم ترین عکاس اور مظہر ہے۔
گریماس اور ان کے بعد رولاں بارت، تھامس پاول، جیرالڈپرنس اور سب سے بڑھ کر ڑرار ڑینث نیز وولف گینگ قیصر، فرانز سٹاترل، وولف سمڈ اور مائیک بال نے فکشن یا بیانیے کا مطالعہ بہ طور ’’زبان ‘‘ کیا ہے۔ جس طرح ساختیاتی لسانیات کے ماہر زبان کی عمیق ساخت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح ان ماہرین بیانیات نے بھی بیانیے کی عمیق ساخت کو دریافت اور مرتب کرنے پر توجہ دی۔ گویا ان ماہرین نے بیانیے کو زبان کے مماثل سمجھا ہے۔شاید اس لیے کہ بیانیہ بغیر زبان کے ممکن نہیںہے ۔ لہٰذا یہ سمجھا گیا کہ زبان کی ساخت اور زبان کا تفاعل از خود بیانیے میں در آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ زبان ایک نشا نیاتی نظام(System of Signification)ہے اور بیانیوں میں بھی معنی خیزی کا تہ نشیں نظام موجود ہوتا ہے۔ سوسئیر اور رومن جیکب سن نے زبان میں اضدادی جوڑوں(Binary Opposites)کی نشان دہی کی تھی۔ گریماس نے اسے بالخصوص اہمیت دی اور واضح کیا کہ زبان معنی کی ترسیل میں اس لیے کام یاب ہوتی ہے کہ اس میں ’’ضد‘‘اور ’’فرق‘‘موجود ہیں۔ سوسئیر نے کہا تھا کہ زبان میں افتراقات (differences) کے سوا کچھ نہیں۔ ہر لسانی نشان اس لیے کسی معنی کی ترسیل کرتا ہے کہ وہ صوتی و تکلمی سطح پر دوسرے نشانات سے مختلف ہے۔ گریماس نے بھی یہی بات کہی کہ ہم ہر شے کو اس کی ضد سے شناخت کرتے ہیں؛ رات کو دن، عورت کو مرد اورانسان کو جانور کی ضد سے پہنچانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہPerception of Oppositionہر بیانیے کی عمیق ساخت میں بھی موجود ہے۔ وہ دیگر ساختیاتی مفکرین کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ یہ تخالف مواد کا نہیں، ہیئت کا ہے یعنی تخالف و تضاد کا تعلق ان اشیا سے نہیں جن کا ہم ادراک کرتے ہیںخود ہمارے لسانی طریقِ ادراک میں تخالف موجود ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جانور ہی اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انسان کی کامل ضد ہو، یا عورت اپنے جملہ اوصاف کے لحاظ سے مرد سے مختلف ہومگر ہمارا لسانی اور معنیاتی نظام دونوں کی الگ الگ شناخت کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی ضد بنا کر پیش کرتا ہے اور ہر ضد میں فریق مخالف کی نفی بھی موجود ہوتی ہے۔ گریماس نے بیانیوں میں بھی اضدادی جوڑوں کی کارفرمائی دیکھی ہے۔ یہ جوڑدار بیانیوں کی یہ کارفرمائیاں مواد میں نہیں ہیئت میں نظر آتی ہیں۔یعنی ’کہانی‘ میں نہیں’’پلاٹ‘‘ میں یابیانیے کی ساخت میں۔گویا فکشن کی ہیئت زبان کی طرح اور اس کا مواد دنیا کی طرح ہے اور فکشن اپنے موادکا’ادراک‘اسی طرح اضدادی جوڑوں میں کرتا ہے،جس طرح ہم زبان کے ذریعے دنیا کا ادراک اضدادی جوڑوں میں کرتے ہیں۔ گریماس نے پراپ کے فنکشن کے سات دائرہ ہائے عمل کو تین اضدادی جوڑوں میں سمیٹ کر پیش کیا، جو یہ ہیں:
۱۔ موضوع بہ مقابلہ معروض(Subject versus Object)
۲۔ مرسل بہ مقابلہ وصول کنندہ (Sender versus Receiver)
۳۔ حامی بہ مقابلہ مخالف(Helper versus Opponent)
گریماس نے انھی کو ’’عامل‘‘(Actants)کا نام دیا تھا۔ گویا گریماس بھی ’’عامل‘‘سے مراد کردار نہیں، وہ تفاعل یا وظیفہ لیتا ہے جو ایک یا زاید کرداروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ بیانیوں میں بھی کئی کردار اور اشخاص ہوتے ہیں۔وہ کچھ اعمال سر انجام دیتے ہیں؛ یہ اعمال جن حدود میں انجام پاتے ہیں، ان کا تعین یہی ’’عامل‘‘ کرتے ہیں اور ہر ’’عامل‘‘ کی ایک ضد ہے:موضوع یا ہیرو کا ایک ہدف ہے، اس ہدف کی تلاش، ہیرو کو متحرک رکھتی ہے۔ یوں ہیرو کے تمام افعال (اور پھر کہانی کے واقعات)ہدف تک پہنچنے کے مساعی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ ہدف کے ساتھ تخالف کا رشتہ ہیرو کی ساری فعالیت کا ذمے دار ہوتا ہے۔بیانیات کے فرانسیسی ماہروں نے پلاٹ کی جگہ کلامیہ (Discourse)کی اصطلاح برتی ہے اور یہ اصطلاح اس اعتبار سے زیادہ موزوں محسوس ہوتی ہے کہ یہ فکشن کے پورے بیانیہ عمل کا احاطہ کرتی ہے جب کہ پلاٹ بالعموم واقعاتی تنظیم کا مفہوم ادا کرتا ہے۔کلامیہ زبان و بیان کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جسے ابلاغی طور پر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ یعنی زبان کا ایک خود انحصاری ٹکڑا، جو اپنے اندر ساختی اور معنیاتی تانے بانے کے ساتھ بڑی مضبوطی سے بندھا ہوتا ہے۔ کلامیہ میں ساختی سطح پر ایسے روابط ملتے ہیں جو اسے باندھے رکھتے ہیں۔ گویا زبان صرف فقرات تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ فقروں سے اوپر ایک درجہ کلامیے کا بھی ہے جو ہماری زبان کو روزمرہ میں ابلاغ کے قابل بناتا ہے۔کلامیہ معاشرے کو سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کلامیہ اور معاشرہ ایک دوسرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ہمارے سماج میں زبان کی صورت میں کلامیے لہر در لہر ادھر سے اْدھر بہتے رہتے ہیں۔ کہانی اور کلامیے کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں رشتہ کیا ہے ؟کیا کہانی، مواد اور کلامیہ، ہیئت ہے؟ یعنی کیا کہانی پہلے سے، باہر اور آزاد حالت میں موجود ہوتی ہے جسے تخلیقی تصرف میں لا کر مصنف کلامیے کی تشکیل کرتا ہے، یا کہانی کلامیے کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے؟ اس ضمن میں ایک سامنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم فکشن کے مطالعے کے دوران میں ہی کہانی اور کلامیے اور ان کے درمیان موجود فرق کا ادراک کرتے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کہانی اور کلامیہ دونوں ایک ’’تیسری چیز‘‘ یعنی ناول، افسانے، ڈرامے وغیرہ پر منحصر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان میں سے کوئی ایک فی نفسہ مکمل اور خود مختار نہیں، یہ اجزاہیں ایک کل کے، جسے بیانیہ کہتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیانیہ کہانی اور کلامیے کا مجموعہ ہے۔ اس بات کو ماننے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کہانی اور کلامیہ ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں، مگر اسے قبول کرنے میں دقت یہ ہے کہ ہم دو ایسی چیزوں کا ادراک ایک ساتھ کیسے کر سکتے ہیں جن میں فرق بھی موجود ہو!ہمیں ان کے درمیان تخالف، تضاد یا علت و معلول کا، کوئی نہ کوئی رشتہ قائم کرنا ہوگا؛ ایک کو دوسرے کا نقیض یا ایک کو سبب اور دوسرے کو نتیجہ قرار دینا ہوگا۔ تخالف و تضاد کا رشتہ اس بنا پر ناموزوں ہے کہ پھر اس طور کہانی، کلامیے کو یا کلامیہ کہانی کو بے دخل کرتا محسوس ہو گا جب کہ بیانیے کی کلیت کا تقاضا ہے کہ دونوں بہ یک وقت موجود ہوں۔ لہٰذا ایک کو علت اور دوسرے کو معلول قرار دینا مناسب ہے۔ اب اگلا سوال(بلکہ مسئلہ)یہ ہے کہ کسے علت اور کسے معلول سمجھا جائے؟یہ طے کرنا آسان نہیں، اس لیے کہ ہم ان دونوں سے، بیانیے قرات کے دوران میں دو چار ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم کلامیے کو ناول یا افسانے کے اندر اور کہانی کو ان سے باہر دیکھتے ہوں۔ اگرچہ عمومی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ کہانی(واقعات کا سلسلہ)باہر موجود ہوتی ہے، جسے لکھا جاتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جس کہانی کو ہم نے باہر فرض کیا ہے، اس سے ہم اولاً آشنا تو بیانیے کے متن ہی سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کہانی، لکھے جانے سے پہلے، باہر موجود ہو یا مصنف کے متخیلہ میں وجود رکھتی ہو،ہمیں اس کی موجودگی کی خبربیانیہ متن ہی دیتا ہے۔ یوں اصولی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کہانی، متن کے ذریعے ہی وجود رکھتی ہے۔ بیانیہ متن نہ ہو تو کہانی بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیانیہ میں ایک کہانی ہوتی ہے جس کے اردگرد پھر ساراماحول تشکیل پاتاہے کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے اور اس کہانی کے اردگرد پھر پلاٹ ‘کردار‘مکالمہ‘ مناظر وغیرہ کی خمیر تیار ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں کہانی کے لیے معاون ضرور ہیں لیکن بنیادی اہمیت قصہ کی ہی ہے۔ کہانی کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی چلتی رہتی ہیں او رسب مل کر بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں۔
کہانی اور کلامیے کے رشتے کے ضمن میں جوناتھن کلر کا خیال ہے کہ کبھی کہانی ،کلامیے کی علت ہوتی ہے اور کبھی کلامیہ ،کہانی کی علت ہوتا ہے۔ کبھی کہانی کا واقعاتی عمل ایک مخصوص ’’بیانیہ کلام‘‘ کو جنم دیتا ہے اور کبھی کوئی خاص ’’بیانیہ کلام‘‘ مخصوص واقعاتی عمل کا سبب بنتا ہے۔ اس امر کی تو متعدد مثالیں ہیں کہ کس طرح ایک بیانیہ ایک مخصوص کہانی یعنی واقعات کے مجموعے کو خام مواد کے طور پر استعمال میں لا کر، وجود میں آیا ہے۔ پرانی داستانیں ہوں یا نئے افسانے اور ناول ہوں، وہ کچھ کرداروں کو پیش آمدہ واقعات اور ان کیباہمی ربطپر استوارہوتے ہیں۔ ان کی مخصوص بیانیہ تکنیک، اسلوب، فضا نگاری، کرداروں کی نفسی کیفیت کا احوال، کرداروں کی باہمی کش مکش کی صورتِ حال، مخصوص مکالمے، یہ سب کہانی سے کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے اور اگر کچھ کہانی کے کنٹرول سے باہر ہے تو بیانیہ متن میں وہ ’’فاضل مواد‘‘ ہو گا ،جب کہ کچھ بیانیہ متون ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کہانی کے بجائے’’بیانیہ کلام‘‘ کنٹرولنگ اتھارٹی ہوتا ہے
فوکولائیزیشن کی وضاحت کرتے ہوے ٔ ڈچ نظریہ سازمائیک بال کا خیال ہے کہ ہر بیانیہ متن میں کچھ ’’کہنے اور کچھ ’’دکھانے‘‘ کا عمل یکساں طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اور اس کہنے اور دکھانے کے آپسی ربط کو فوکولائیزیشن کہتے ہیں۔ یہ ربط چناں چہ بیانیوں میں ’’کہنے‘‘ اور ’’دکھانے‘‘ کے ساتھ ساتھ کوئی کہنے اور کوئی دکھانے والا بھی ہوتا ہے۔ کہنے والا، بیان کنندہ(Narrator)ہے اور دکھانے والا Focalizerہے۔فوکولائیزیشن ’بیانیہ متن‘ کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔مائیک بال اس کی مزید وضاحت کرتے ہو ے ٔ کہتی ہیں کہ اگر’الف‘ کہتا ہے کہ ’ب‘ نے دیکھاکہ ’ج‘کیا کر رہا ہے تو یہ بیانیہ کا ایک حصہ بن جاتا ہے کیونکہ قاری اس کے توسط سے کہنے والے اور دکھانے والے کے آپسی رشتے کو بخوبی سمجھ پاتا ہے۔اوراس طرح بیانیہ سے بیان کنندہ اورفوکولائیزرکے درمیان کوئی خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا۔وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ر بط سٹریم آف کنشسنس جیسی صورت پیش کرتا ہے ان کا خیال ہے کہ بیانیہ کا طرز اظہار وزن، احساسات، تصورات، خیالات، اور یادداشت سے مختلف ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوکولائیزیشن کا براہ راست تعلق اس کہانی سے جس میں لسانی اورفکشنل سطحیں نمایاں نظر آتی ہیں۔چونکہ فوکولائیزیشن کا تصور بیان کنندہ اور فوکولائیزر کے آپسی ربط کی نشاندہی کرتا ہے لہذا بعض صورتوںمیں انھیںالگ بھی سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔فوکولائیزیشن میں فوکولائیزر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ بیان کنندہ کا تعلق صرف بیان کے طریقے سے رہتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس Focalizerایک ایسا ’’ایجنٹ‘‘ یا ’’کردار‘‘ ہے جو بیانیے کے مفہوم و مقصد اور جہت کا تعین کرتا ہے۔ مائیک بال اس کی مزید وضاحت پیش کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ ہر بیانیہ متن کسی نہ کسی علم، آئیڈیالوجی یا ثقافتی پس منظر کے حصار میں ہوتا ہے۔ وہ کسی نفسیاتی نکتے، انسانی فطرت کی کسی کم زوری، کسی سیاسی نظریے، کسی ثقافتی رسم یاکسی تہذیبی صورتِ حال پر بطور خاص ’’اِصرار‘‘ کرتا ہے۔ان کے خیال میںبس یہی بیانیے کی Focalizationہے۔
فوکولائیزیشن کا کلیدی موضوع فوکولائیزر وہ نقطہ فکر پیش کرتا ہے جس کے تناظر میں بیانیہ کے تمام عناصر کو پکھا جاتا ہے۔ یہ نقطہ فکر بیانیہ کے کردار د (یعنی کہانی کا اہم عنصر) میں صاف طور پر نمایاں نظر آتا ہے۔وہ کردار جو focalizor کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں انھیں دیگر کرداروں کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہوتی ہے۔قاری دنیا کو انکرداروں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور، اصولی طور پر، اس کردار کی پیش کردہ وژن کو قبول کرنے کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے مائیک بال . Mulisch کی Massuro کی مثال پیش کرتی ہیں جہان ہم میں ہم کردار کی آنکھوں سے واقعات کا اظہار دیکھتے ہیں۔ ان مظاہر سے ہم Massuro کی حالت کا اندازہ کرتے ہیں۔ ایسے فوکولائیزر سے جن کا انحصار کردار پر ہوتا ہے اور جنھیں ہم آسانی کے لیے CF یعنیcharacter focalizer کہہ سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ان کرداروں کے ساتھ تعصب اور محدودیت کا اندیشہ رہتا ہے ۔مزید وضاحت کے لیے وہ ہینری جیمز ' کے کردار Maisie کی مثال پیش کرتی ہیں۔جہاں قاری کے سامنے واقعات ایک چھوٹی لڑکی کی محدود بصارت کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے۔ اور اس طرح Maisie کا بیانیہ ، اس ’بیان کنندہ ’ کی بصارت کا مرحون منت ہے؛جس کی شناخت متعین ہے اور یہ شناخت ،اس بیاینے کے Focalizer سے ہمیں آشنا کردیتی ہے۔مائیک بال محدود بصارت کے تصور کے مزید وضاحت کے لیے مقامیت(Localization) کا مسٔلہ اٹھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مقامیت کے تصور کا ایک کردار سے دوسرے کردار میں مختلف نظر آنا ایک فطری عمل ہے۔۔جبکہ بیان کنندہ میں اس طرح کا کوئی واضح فرق نہیں نظر آتا۔یہ صوت بیانیہ میں ایک تصادم کی صورت پیدا کرتا ہے۔مقامیت کا یہ تصور اگربیانیہ کے کسی کلیدی کردار سے وابستہ ہو تو اسے داخلی فوکولائیزیشن یاInternal Focalisation جب کہ اس کے بر عکس اگر صورت اس سے ذرا مختلف ہو اور کوئی بیرونی ایجنٹ فوکولائیزر کا رول انجام دے تو اسے بیرونی فوکولائیزیشن یا External focalisation کہہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہر صورت میں کردار کا فوکولائیزر ہونا لازمی شرط نہیں ہے۔بیانیہ کے واقعات، پس منظر، یا پیش منظر، بھی فوکولائیزر کا رول انجام دے سکتے ہیں۔ فوکولائیزر کے لیے یہ تجزیہ دراصل بیانیے کے نقطہِ ارتکاز یا Focalizationتک پہنچنے کی خاطر ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ تجزیہ اپنی اصل میں تعبیر ہے۔اور ہر تعبیر ،ایک دوسری ،نئی اور متبادل تعبیر کا امکان رکھتی ہے۔دوسرے لفظوں میں کسی بیانیے کے نقطہِ ارتکازکی شناخت حتمی نہیں ہوتی۔ایک ہی بیانیے کے مقصدو مدعا پر اختلاف کی گنجایش رہتی ہے۔
مزید یہ کہ focalizor کسی چیز کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ تصویر خود focalizor کی بھی ترجمانی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوکولائیزیشن کا تصور مندرجہ ذیل سوالات کھڑا کرتا ہے۔
۱۔ کیا کردار فوکولاٰٗئیز کرتا ہے۔؟ اور اگر ہاں تو اس کا مقصد کیا ہے؟
۲۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ کس نظریہ حیات سے یہ چیزوں کو دیکھتا ہے؟
۳۔ فوکولائیزیشن کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہوتی ہیں
فوکولائیزیشن کی وضاحت جرارڈجنیٹ( Genette Gerard )بھی اپنی تحریروں میں کرتا ہے اس کی اصطلاح میںلہجے(mood) کا تعلقFocalization سے ہے او ر آواز( Voice)کا تعلقNarrationسے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جرارڈجنیٹ(Gerard Genette)کا نام بیانیات کے نظریہ سازوں میں بے حد اہم ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’بیانیہ کلام‘‘( Discourse Narrative ) میں مارسل پروست کے ناول"Remembrance of Things Past"کو سامنے رکھ کر بیانیے کی تھیوری پیش کی ہے۔ بیانیات میں ڑنیث کی دین یہ ہے کہ اس نے بیانیے میں کہانی اور کلامیے کے علاوہ ایک تیسرے عامل کی نشان دہی کی ہے، جسے اس نے عملِ بیان یا Act Narrativeکہا ہے اور اس کی اہمیت کو ان لفظوں میں باور کرایا ہے:ان کا خیال ہے کہ بیانیہ کہانی، کلامیے اور عملِ بیان کے آپسی رشتوں سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کے پیچھے وہی ساختیاتی بصیرت کام کر رہی ہے جس کے مطابق زبان اور دیگر ثقافتی اعمال، رشتوں کے نظام ہوتے ہیں۔ وہ دیگر علمائے بیانیات کی طرح کہانی کو مدلول اور کلامیے کو دال قرار دیتا ہے: دال جو مدلول کی نماٰٰیندگی کرتا ہے۔ کہانی کی نمایندگی کلامیہ کرتا ہے، مگر ڑنیث کے نزدیک کہانی اور کلامیہ ایک دوسرے پر منحصر ہونے کے باوجود ایک تیسرے بیانیہ عامل، یعنی عملِ بیان کے محتاج ہیں۔ اگر عملِ بیان نہ ہو تو کہانی اور کلامیے، دونوں کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ کہانی اور کلامیے میں فرق تو باآسانی ہو جاتا ہے؛واقعے کو بیانِ واقعہ سے ممیز کرنا آسان ہے، مگر عملِ بیان کو گرفت میں لینا اور اسے بیانِ واقعہ سے الگ متصور کرنا آسان نہیں۔ بیانیے میں عملِ بیان کیوں کر ظہور کرتا اور کارفرما ہوتا ہے۔یعنی کلامیہ تو واقعے کا بیان یا واقعے کی لسانی پیشکش ہے جب کہ ’’عملِ بیان‘‘ وہ نشانات، علامات اور نقوش ہیں جو واقعے کے بیان کے دوران میں ابھرتے چلے جاتے ہیں اور جنھیں بیانیے کی قرات کے دوران میں گرفت میں لیا جا سکتا ہے اور ان کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب بیانیہ تخلیق ہوتا ہے یا ’’عملِ بیان‘وقوع پذیر ہوتا ہے تو کہانی کھلتی چلی جاتی اور کلامیہ متشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان تینوں کی موجودگی اور ان کے مابین باہم کی خبر فقط بیانیے کے تجزیے سے ہوتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ بیان کنندہ اور Focalizer،بیانیے کے واقعات، واقعات کے تسلسل و عدم تسلسل، واقعات سے وابستہ زمان و مکاں اور بیانیے کے مفہوم و مقصد کا تعین مل کر کرتے ہیں۔ مائیک بال کی طرح وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ہر بیانیے کا کوئی نہ کوئی کہنے یا بیان کرنے والا ہوتا ہے، اس کوڑنیث’’بیانیہ کلام‘‘ کی آوازVoiceکہتا ہے۔ یہ نہ صرف بیانیے کے قاری /سامع کے ساتھ ’’ترسیلی ربط‘‘ قائم کرتا ہے بلکہ ڑنیث کی نظر میں ’بیانیہ کلام‘‘ کی آوازیہ فیصلہ کرتی ہے کہ قاری تک کیا بات پہنچائی جائے اور کیا چھوڑی دی جائے اور کون سا طریقِ بیان(Point of View)اختیار کیا جائے۔ واحد متکلم میں کہانی کہی جائے؛ہمہ بیں ناظر کے ذریعے کہانی بیان کی جائے یا کسی اور طریق سے کہانی قاری تک پہنچائی جائے۔ کہانی بیان کرنے کے کسی مخصوص طریق کا انتخاب کہانی کی ساخت پر لازماً اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً واحد متکلم میں کہی جانے والی کہانی میں بیان کنندہ راوی کے ساتھ ساتھ اگر کہانی کا کردار بھی ہو تو ایک طرف وہ قاری کو اپنے تجربے میں شریک کرنے کی پیہم کوشش میں ہوگا اور حقیقت کا تاثر ابھارنے میں کام یاب ہو گا تو دوسری طرف وہ کہانی کے دوسرے کرداروں کی فقط خارجی صورتِ حال بیان کر پائے گا۔ وہ ہمہ بیں ناظر کی طرح دوسرے کرداروں کی باطنی کیفیات سے آ گاہی مہیا نہیں کر سکے گا۔