بونی

بونی

Mar 13, 2018

مصنف

سیمیں خان درانی

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ۔۷

بونی

سیمیں درانی 

اسلام آباد۔ پاکستان

کاش میں بونی ہوتی

اور مجھے کلون کرکے

مجھ سی بے شمار بونیاں

ننھے منے بچوں اور بچیوں کی شکل میں

ہر گلی ہر موڑ پہ

اسی معصومانہ اور دلبرانہ انداز میں 

اٹھکیلیاں کرتی پھرتیں 

کہ

جو تمہاری ہوس کو گرماتا ہے۔

میری چاہ

ایک ٹافی یا چپس کے پیک 

یا، دور دیس گئی ماں کے دید کی لالچ ہوتی

اور جب مجھے تم

دلارا دیکر ساتھ چلنے کا کہتے

تو میں تم کو اپنا راہبر و رازداں سمجھ کر

تمہاری انگلی پکڑے 

تیزی سے تمہاری دی ہوئی چیونگم کے پٹاخے بناتی

تمہارے ساتھ ہو لیتی

مجھے جب تم بے لباس کرتے تو میں یوں نہ مچلتی

اور خود کو انداز دلربانہ میں

پیش کردیتی

تمہارا دہن میرے دودھ کے دانتوں کوجب

  اک کیلشیئم کی بوند کی مانند

 بھنبھوڑتا

 تو شاید میری زبان سے

خونیں رس نہ ٹپکتا۔

تم جب میرے تمام عضو کو

ایک بھوکے جنگلی کتے کی مانند 

کاٹ کھاتے

تو میں چیخ چیخ کے

امی جی امی جی کی گردان نہ کرتی

تم جب میرے اس حصے تک پہنچتے

 کہ جس کی،پوٹی ٹریننگ"کی خاطر

میری ماں نوالہ چھوڑ آتی تھی

میں اس، کے چیرے جانے پہ

یوں بے دم سی نہ ہوتی۔ 

مگرمیں 

بونی نہیں ہوں

میں ایک ڈائن ہوں

جس کے لب و رخسار کو

میک اپ نے ڈھانکا ہے

میں تم کو سر بازار پیش ہوکے

اپنی قیمت بتاتی ہوں

میری عریاں فلمیں 

تمہاری یو ٹیوب پہ

دن رات چلتی ہیں

تو تم کو اس کیکٹس سے کیا لینا

کہ جب دنیا کا یہ جنگل

ننھی کلیوں اور کونپلوں کی مہک سے

ہمارے گناہو ں کی بدبو سےپاک کرتا ہے۔

افسوس صد ہائے افسوس

انسان نے صوفیہ بنا دی

مگر مجھ کو بونی بنانے سے

وہ اب بھی انکاری ہے

کہ مجھ سی بونیوں سے

قبریں نہیں بھرتیں۔ 

اور مجھ سی بونیوں سے

تمہاری ٹیکنالوجی کا استعمال ،

بٹ کوائن کو دھندہ 

یہ سب مانند پڑتا ہے۔ 

ہاں مگر اب صوفیہ کو ماں بننا ہے

ایک ایسے بچے کی۔ 

جسکے خالق

تم سے ہی ہوں گے

تو بتائو

اپنی تخلیق کو

کیا کوئی 

پامال کرتا ہے۔

...................

دیدبان شمارہ۔۷

بونی

سیمیں درانی 

اسلام آباد۔ پاکستان

کاش میں بونی ہوتی

اور مجھے کلون کرکے

مجھ سی بے شمار بونیاں

ننھے منے بچوں اور بچیوں کی شکل میں

ہر گلی ہر موڑ پہ

اسی معصومانہ اور دلبرانہ انداز میں 

اٹھکیلیاں کرتی پھرتیں 

کہ

جو تمہاری ہوس کو گرماتا ہے۔

میری چاہ

ایک ٹافی یا چپس کے پیک 

یا، دور دیس گئی ماں کے دید کی لالچ ہوتی

اور جب مجھے تم

دلارا دیکر ساتھ چلنے کا کہتے

تو میں تم کو اپنا راہبر و رازداں سمجھ کر

تمہاری انگلی پکڑے 

تیزی سے تمہاری دی ہوئی چیونگم کے پٹاخے بناتی

تمہارے ساتھ ہو لیتی

مجھے جب تم بے لباس کرتے تو میں یوں نہ مچلتی

اور خود کو انداز دلربانہ میں

پیش کردیتی

تمہارا دہن میرے دودھ کے دانتوں کوجب

  اک کیلشیئم کی بوند کی مانند

 بھنبھوڑتا

 تو شاید میری زبان سے

خونیں رس نہ ٹپکتا۔

تم جب میرے تمام عضو کو

ایک بھوکے جنگلی کتے کی مانند 

کاٹ کھاتے

تو میں چیخ چیخ کے

امی جی امی جی کی گردان نہ کرتی

تم جب میرے اس حصے تک پہنچتے

 کہ جس کی،پوٹی ٹریننگ"کی خاطر

میری ماں نوالہ چھوڑ آتی تھی

میں اس، کے چیرے جانے پہ

یوں بے دم سی نہ ہوتی۔ 

مگرمیں 

بونی نہیں ہوں

میں ایک ڈائن ہوں

جس کے لب و رخسار کو

میک اپ نے ڈھانکا ہے

میں تم کو سر بازار پیش ہوکے

اپنی قیمت بتاتی ہوں

میری عریاں فلمیں 

تمہاری یو ٹیوب پہ

دن رات چلتی ہیں

تو تم کو اس کیکٹس سے کیا لینا

کہ جب دنیا کا یہ جنگل

ننھی کلیوں اور کونپلوں کی مہک سے

ہمارے گناہو ں کی بدبو سےپاک کرتا ہے۔

افسوس صد ہائے افسوس

انسان نے صوفیہ بنا دی

مگر مجھ کو بونی بنانے سے

وہ اب بھی انکاری ہے

کہ مجھ سی بونیوں سے

قبریں نہیں بھرتیں۔ 

اور مجھ سی بونیوں سے

تمہاری ٹیکنالوجی کا استعمال ،

بٹ کوائن کو دھندہ 

یہ سب مانند پڑتا ہے۔ 

ہاں مگر اب صوفیہ کو ماں بننا ہے

ایک ایسے بچے کی۔ 

جسکے خالق

تم سے ہی ہوں گے

تو بتائو

اپنی تخلیق کو

کیا کوئی 

پامال کرتا ہے۔

...................

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024