بولتی ہوئی دیواریں

بولتی ہوئی دیواریں

May 18, 2019

مصنف

شمارہ

شمارہ - ١٠

افسانہ

بولتی ہوئی دیواریں

خالد ندیم شانی

چپ ہو جاوْ ۔۔۔ خدا کے لیے چپ ہو جاوْ ۔۔۔ آج مجھے بولنے دو ۔۔۔

یہ سب تمھارا ہی کیا دھرا ہے کہ میں دنیا میں وہ واحد شخص ہوں جس کی نظر میں ۔۔۔مَیں پاگل نہیں ۔۔۔ باقی ساری دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے ۔

معلوم ہے آج کیا ہوا ۔۔۔ عمر بھر پاگلوں کا علاج کرتے کرتے پاگل دکھائی دینے والے ڈاکٹر نے ہنس ہنس کر مجھ سے پوچھا ۔۔

" اچھا تو کامران صاحب آپ کو کب سے لگتا ہے کہ دیواریں آپ سے بات کرتی ہیں ۔۔۔ حالانکہ ساری دنیا تو یہ کہتی ہے کہ دیواروں کے صرف کان ہوتے ہیں ۔۔۔

مجھے اس پر بہت ہنسی آئی مگر میں بالکل بھی نہیں ہنسا ۔۔۔ مجھے معلوم ہے میرے ہنسنے کو بھی اس نے میرا پاگل پن ہی سمجھنا تھا ۔۔۔ اس پاگل کو کون سمجھاتا جو اب بھی کہ رہا تھا کہ "کب سے لگتا ہے" یعنی مجھے لگتا ہے ۔۔۔ یعنی ایسا ہے نہیں ۔۔۔ اس بے چارے کو کیا معلوم کہ تم میرا کیا حال کرتی ہو ۔۔۔ کتنا بولتی ہو ۔۔۔ کتنا چیختی ہو ۔۔۔

میرا دل چاہا میں ڈاکٹر سے پوچھوں " ڈاکٹر صاحب کبھی آپ کو کسی فائزہ سے پیار ہوا "

خدا کے واسطے چپ ہو جاوْ ۔۔۔ شور سے میرے دماغ میں دھمک ہوتی ہے ۔۔۔ مجھ سے قسم لے لو جو میں نے فائزہ کے متعلق ڈاکٹر سے ایک بھی بات کی ہو ۔۔۔ یہ تو بس میں نے دل میں سوچا ۔۔۔ اس سے تو میں نے بس یہی کہا کہ ڈاکٹر صاحب اللہ ہر کسی کو بولتی ہوئی دیواروں سے دور رکھے ۔۔۔ یہ جب بولتی ہیں تو بہت بولتی ہیں ۔۔۔ اتنا بولتی ہیں کہ دماغ کی ساری نسوں میں بس شور دوڑتا ہے ۔۔

وہ بس ہنستا رہا ۔۔۔ وہ والی ہنسی جو دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ سجھائی دیتی ہے ۔

پھر اس نے مجھ سے کہا " سنا ہے آپ فٹبال بہت اچھا کھیلتے تھے ۔۔۔ " اس کے بعد معلوم نہیں اس نے کچھ کہا یا نہیں ۔۔۔ مَیں میراڈونا کی طرح بال لے کر دور نکل گیا ۔۔۔ "

بال کامران بلوچ کی ٹانگوں میں لٹو کی طرح گھوم رہی تھی ۔۔۔ ایران سے آئی ٹیم کے پانچ کھلاڑی بیک وقت اُس سے بال چھیننے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ ان بے چاروں کو کہاں معلوم تھا کہ آج فائزہ بھی میچ دیکھنے آئی ہوئی ہے ۔۔۔

اُس نے اچانک ان پانچوں کی جانب پشت کی اور دائیں پاوْں کے ترچھے وار سے بال کو زمیں سے اٹھایا ۔۔ بائیں پاوْں سے مزید ہوا میں اچھالا اور قوس بناتے ہوئے الٹی قلابازی کے دوران ہی ہوا میں بائیں پاوْں سے پوری قوت سے کٍک لگائی ۔۔۔ ہائے ۔۔۔ اب مڑ کر کیا دیکھنا ۔۔۔ اب تو لوگوں کا شور اور فائزہ کے اٹھے ہوئے بازو بتا رہے تھے کہ گول ہو گیا ہے ۔۔۔

برا ہو ڈاکٹر کا ۔۔۔ سیدھا کلیجے میں ہاتھ ڈال کر پوچھ رہا تھا " سنا ہے آپ فٹبال بہت اچھا کھیلتے تھے"

پھر اس نے کہا" اچھا چھوڑیں فٹبال کو ...یہ بتائیں سیاست سے کوئی دلچسپی ہے آپ کو"

"ٹھاہ ٹھاہ کی آواز سے دو گولیاں چَلیں اور بےنظیر بھٹو کے سر میں جا لگیں"

" ڈاکٹر صاحب ہم تماش بین قوم تھے... ہیں اور رہیں گے مگر ہم سے سیاست کا ننگا ناچ نہیں دیکھا جاتا"

معلوم نہیں وہ میری بات کو سمجھا یا نہیں بس مسکراتا رہا

اچھا اب اگلی بات سن کر واویلا مت کرنا ۔۔۔ تم چاروں جب بیک وقت حملہ کرتی ہو تو میں بات بھول جاتا ہوں ۔۔۔ میں نے ایک لفظ نہیں کہا فائزہ بارے ۔۔۔ ڈاکٹر نے خود پوچھا ۔۔۔ خود بتایا ۔۔۔ پھر پتا نہیں میں نے کیا کیا کہا ۔۔۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ۔۔۔

اچھا اچھا بتاتا ہوں ۔۔۔ کچھ تو چھری تلے دم لو۔۔۔ ایک دم ہی بھڑک اٹھتی ہو۔۔۔

" آپ نے فائزہ کامران سے شادی اپنی مرضی سے کی تھی ؟"

" نہیں ۔۔۔امی کی مرضی سے "

" کتنا عرصہ ہوا شادی کو ؟"

" چودہ سال "

" بچے کتنے ہیں؟"

" تین ۔۔۔ دو بیٹے ایک بیٹی "

" تو پھر اچھی بھلی زندگی سے بےزار کیوں ہوئے آپ ؟"

" کس نے کہا کہ میں بےزار ہوں زندگی سے ؟

اس نے کہا " نہیں ۔۔۔ آپ کے گھر والے کہتے ہیں کہ آپ کمرے میں بند رہنے لگے ہیں ۔۔۔ اکیلے میں بولتے رہتے ہیں ۔۔۔ اور جو پوچھے اس سے کہتے ہیں کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے "

میں نے کہا" ڈاکٹر صاحب میرے گھر والوں کو سمجھائیں کہ مجھے پاگل سمجھنا چھوڑ دیں ۔۔۔ میں ایک نارمل انسان ہوں ۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دیواریں ان کے ساتھ نہیں بولتیں ۔۔۔ میرے ساتھ بولتی ہیں ۔۔۔

پھر معلوم نہیں کیوں مجھے رونا آ گیا ۔۔۔ ڈاکٹر پریشان ہو کر مجھے چپ کرانے لگا اور کہا کہ اچھا ابھی آپ خود کو سنبھالیے ۔۔۔ باقی باتیں کل کر لیں گے ۔۔۔

میں نے بھی سوچا ۔۔۔ باقی کا رونا یہیں تمھارے پاس آ کے رووْں گا ۔۔۔

بتاوْ کیا کروں اب ۔۔۔ اُسی طرح پھر سے چیخوں ۔۔۔ پھر سے چلاوْں ۔۔۔

تم نے ہی برباد کی ہے میری زندگی۔۔۔ تم ہی روزانہ میرا گریبان پکڑ لیتی تھیں ۔۔۔ ماں کی بات مان لو ۔۔۔ بوڑھی ماں کو دکھ مت دو ۔۔۔ کتنا ارمان ہے اسے تمھارے ماتھے پہ سہرا دیکھنے کا ۔۔۔

ہزاروں نہیں ۔۔۔لاکھوں بار ہاتھ جوڑے تھے کہ جب فائزہ نہیں تو کوئی نہیں ۔۔۔ فٹبال کافی ہے ...

یاد ہیں وہ اپنی بے کار کی دلیلیں ۔۔۔ آنکھیں بند کر لینے سے ساری عورتیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں ۔۔۔ خیر ہے اِس کا نام بھی فائزہ ہے ۔۔۔ تم اِس میں اپنی فائزہ ڈھونڈ لینا ۔۔۔

جھوٹی تھیں تم چاروں ۔۔۔ آنکھیں بند کر لینے سے عورتیں ایک جیسی نہیں ہو جاتیں ۔۔۔

احساس کا برف زار . . . نام کی مماثلت سے آتش فشاں نہیں بنتا ۔ ۔ ۔

" مجھے اپنی محبت کے کھو جانے سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ تم چاروں نے مجھے کتنا سطحی سمجھا ۔۔۔۔۔ سطحی ۔۔۔"

مجھے بس رونا ہے ... تیز رفتار ٹرالر کی زد میں آ کر کچلی جانے والی فائزاؤں پر ... دہشت گردی میں ماری جانے والی بے نظیروں پر ... اور تم جیسی بولتی ہوئی دیواروں پر جو بولتی تو ہیں ... مگر سب کو سنائی نہیں دیتیں...

شادی کے تیسرے دن سے آج تک فائزہ ایک ہی جملے کا تکرار کیے جاتی ہے " میں وہ ٹرالر نہیں ہوں جس نے آپ کی فائزہ کو کچلا تھا"

وہ خدا کی بندی کریدنے کو مرہم سمجھتی ہے ،توجہ دو ، محبت سے پیش آؤ تب بھی فائزہ کا طعنہ ،کسی بھی سبب سے چپ بیٹھنا فائزہ کو یاد کرنا ہی سمجھتی ہے ،راستہ کہاں ہے ... کدھر بھاگ جاؤں

نہ ہنس سکتا ہوں نہ رو سکتا ہوں ... نہ جی سکتا ہوں نہ مر سکتا ہوں ...

مر کیوں نہیں سکتا ... معلوم ہے کیوں نہیں مر سکتا ، اسی پگلی کی وجہ سے ...میں اُسے بھری جوانی میں بے لباس کیسے کروں ...

نہیں نہیں اس کی وجہ نہیں ... میں اپنے بچوں کی وجہ سے نہیں مر سکتا ... ان کی مسکان میں کامران بلوچ ہنستا دکھائی دیتا ہے ...

شاید یہ بھی ایک بہانہ ہو جینے کا مگر جینا میں خود چاہتا ہوں .... اگر جینے دیا جائے

میں چاہتا ہوں فائزہ کی کسک صرف مجھ تک محدود ہو ... وہ فقط مجھے یاد رہے ... میری بیوی کے لیے وہ مر جائے تاکہ اسے سکون ملے اور مجھے چپکے سے اپنے اندر اسے زندہ رکھ کر سکون ملے ...

کبھی کبھی میں اِس فائزہ کو لے کر ان رستوں پہ نکل جاؤں جہاں میں اُس فائزہ کے ساتھ جاتا تھا ،دونوں کتھارسس کا جھولا جھول کر واپس آئیں

جب بھی وقت ملے میں فٹبال دیکھوں ... اپنے بیٹے کو فٹبالر بنانے کی دھن میں لگ جاؤں ...

بات کتنی سادہ سی ہے مگر کتنی الجھی ہوئی ہے ... وقت کی مٹھی سے ریت پھسلتی جا رہی ہے اور کوئی ایسا نہیں جو اپنے ساتھ کے چھڑکاؤ سے ریت گیلی کر دے ...

خالد ندیم شانی

افسانہ

بولتی ہوئی دیواریں

خالد ندیم شانی

چپ ہو جاوْ ۔۔۔ خدا کے لیے چپ ہو جاوْ ۔۔۔ آج مجھے بولنے دو ۔۔۔

یہ سب تمھارا ہی کیا دھرا ہے کہ میں دنیا میں وہ واحد شخص ہوں جس کی نظر میں ۔۔۔مَیں پاگل نہیں ۔۔۔ باقی ساری دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے ۔

معلوم ہے آج کیا ہوا ۔۔۔ عمر بھر پاگلوں کا علاج کرتے کرتے پاگل دکھائی دینے والے ڈاکٹر نے ہنس ہنس کر مجھ سے پوچھا ۔۔

" اچھا تو کامران صاحب آپ کو کب سے لگتا ہے کہ دیواریں آپ سے بات کرتی ہیں ۔۔۔ حالانکہ ساری دنیا تو یہ کہتی ہے کہ دیواروں کے صرف کان ہوتے ہیں ۔۔۔

مجھے اس پر بہت ہنسی آئی مگر میں بالکل بھی نہیں ہنسا ۔۔۔ مجھے معلوم ہے میرے ہنسنے کو بھی اس نے میرا پاگل پن ہی سمجھنا تھا ۔۔۔ اس پاگل کو کون سمجھاتا جو اب بھی کہ رہا تھا کہ "کب سے لگتا ہے" یعنی مجھے لگتا ہے ۔۔۔ یعنی ایسا ہے نہیں ۔۔۔ اس بے چارے کو کیا معلوم کہ تم میرا کیا حال کرتی ہو ۔۔۔ کتنا بولتی ہو ۔۔۔ کتنا چیختی ہو ۔۔۔

میرا دل چاہا میں ڈاکٹر سے پوچھوں " ڈاکٹر صاحب کبھی آپ کو کسی فائزہ سے پیار ہوا "

خدا کے واسطے چپ ہو جاوْ ۔۔۔ شور سے میرے دماغ میں دھمک ہوتی ہے ۔۔۔ مجھ سے قسم لے لو جو میں نے فائزہ کے متعلق ڈاکٹر سے ایک بھی بات کی ہو ۔۔۔ یہ تو بس میں نے دل میں سوچا ۔۔۔ اس سے تو میں نے بس یہی کہا کہ ڈاکٹر صاحب اللہ ہر کسی کو بولتی ہوئی دیواروں سے دور رکھے ۔۔۔ یہ جب بولتی ہیں تو بہت بولتی ہیں ۔۔۔ اتنا بولتی ہیں کہ دماغ کی ساری نسوں میں بس شور دوڑتا ہے ۔۔

وہ بس ہنستا رہا ۔۔۔ وہ والی ہنسی جو دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ سجھائی دیتی ہے ۔

پھر اس نے مجھ سے کہا " سنا ہے آپ فٹبال بہت اچھا کھیلتے تھے ۔۔۔ " اس کے بعد معلوم نہیں اس نے کچھ کہا یا نہیں ۔۔۔ مَیں میراڈونا کی طرح بال لے کر دور نکل گیا ۔۔۔ "

بال کامران بلوچ کی ٹانگوں میں لٹو کی طرح گھوم رہی تھی ۔۔۔ ایران سے آئی ٹیم کے پانچ کھلاڑی بیک وقت اُس سے بال چھیننے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ ان بے چاروں کو کہاں معلوم تھا کہ آج فائزہ بھی میچ دیکھنے آئی ہوئی ہے ۔۔۔

اُس نے اچانک ان پانچوں کی جانب پشت کی اور دائیں پاوْں کے ترچھے وار سے بال کو زمیں سے اٹھایا ۔۔ بائیں پاوْں سے مزید ہوا میں اچھالا اور قوس بناتے ہوئے الٹی قلابازی کے دوران ہی ہوا میں بائیں پاوْں سے پوری قوت سے کٍک لگائی ۔۔۔ ہائے ۔۔۔ اب مڑ کر کیا دیکھنا ۔۔۔ اب تو لوگوں کا شور اور فائزہ کے اٹھے ہوئے بازو بتا رہے تھے کہ گول ہو گیا ہے ۔۔۔

برا ہو ڈاکٹر کا ۔۔۔ سیدھا کلیجے میں ہاتھ ڈال کر پوچھ رہا تھا " سنا ہے آپ فٹبال بہت اچھا کھیلتے تھے"

پھر اس نے کہا" اچھا چھوڑیں فٹبال کو ...یہ بتائیں سیاست سے کوئی دلچسپی ہے آپ کو"

"ٹھاہ ٹھاہ کی آواز سے دو گولیاں چَلیں اور بےنظیر بھٹو کے سر میں جا لگیں"

" ڈاکٹر صاحب ہم تماش بین قوم تھے... ہیں اور رہیں گے مگر ہم سے سیاست کا ننگا ناچ نہیں دیکھا جاتا"

معلوم نہیں وہ میری بات کو سمجھا یا نہیں بس مسکراتا رہا

اچھا اب اگلی بات سن کر واویلا مت کرنا ۔۔۔ تم چاروں جب بیک وقت حملہ کرتی ہو تو میں بات بھول جاتا ہوں ۔۔۔ میں نے ایک لفظ نہیں کہا فائزہ بارے ۔۔۔ ڈاکٹر نے خود پوچھا ۔۔۔ خود بتایا ۔۔۔ پھر پتا نہیں میں نے کیا کیا کہا ۔۔۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ۔۔۔

اچھا اچھا بتاتا ہوں ۔۔۔ کچھ تو چھری تلے دم لو۔۔۔ ایک دم ہی بھڑک اٹھتی ہو۔۔۔

" آپ نے فائزہ کامران سے شادی اپنی مرضی سے کی تھی ؟"

" نہیں ۔۔۔امی کی مرضی سے "

" کتنا عرصہ ہوا شادی کو ؟"

" چودہ سال "

" بچے کتنے ہیں؟"

" تین ۔۔۔ دو بیٹے ایک بیٹی "

" تو پھر اچھی بھلی زندگی سے بےزار کیوں ہوئے آپ ؟"

" کس نے کہا کہ میں بےزار ہوں زندگی سے ؟

اس نے کہا " نہیں ۔۔۔ آپ کے گھر والے کہتے ہیں کہ آپ کمرے میں بند رہنے لگے ہیں ۔۔۔ اکیلے میں بولتے رہتے ہیں ۔۔۔ اور جو پوچھے اس سے کہتے ہیں کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے "

میں نے کہا" ڈاکٹر صاحب میرے گھر والوں کو سمجھائیں کہ مجھے پاگل سمجھنا چھوڑ دیں ۔۔۔ میں ایک نارمل انسان ہوں ۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دیواریں ان کے ساتھ نہیں بولتیں ۔۔۔ میرے ساتھ بولتی ہیں ۔۔۔

پھر معلوم نہیں کیوں مجھے رونا آ گیا ۔۔۔ ڈاکٹر پریشان ہو کر مجھے چپ کرانے لگا اور کہا کہ اچھا ابھی آپ خود کو سنبھالیے ۔۔۔ باقی باتیں کل کر لیں گے ۔۔۔

میں نے بھی سوچا ۔۔۔ باقی کا رونا یہیں تمھارے پاس آ کے رووْں گا ۔۔۔

بتاوْ کیا کروں اب ۔۔۔ اُسی طرح پھر سے چیخوں ۔۔۔ پھر سے چلاوْں ۔۔۔

تم نے ہی برباد کی ہے میری زندگی۔۔۔ تم ہی روزانہ میرا گریبان پکڑ لیتی تھیں ۔۔۔ ماں کی بات مان لو ۔۔۔ بوڑھی ماں کو دکھ مت دو ۔۔۔ کتنا ارمان ہے اسے تمھارے ماتھے پہ سہرا دیکھنے کا ۔۔۔

ہزاروں نہیں ۔۔۔لاکھوں بار ہاتھ جوڑے تھے کہ جب فائزہ نہیں تو کوئی نہیں ۔۔۔ فٹبال کافی ہے ...

یاد ہیں وہ اپنی بے کار کی دلیلیں ۔۔۔ آنکھیں بند کر لینے سے ساری عورتیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں ۔۔۔ خیر ہے اِس کا نام بھی فائزہ ہے ۔۔۔ تم اِس میں اپنی فائزہ ڈھونڈ لینا ۔۔۔

جھوٹی تھیں تم چاروں ۔۔۔ آنکھیں بند کر لینے سے عورتیں ایک جیسی نہیں ہو جاتیں ۔۔۔

احساس کا برف زار . . . نام کی مماثلت سے آتش فشاں نہیں بنتا ۔ ۔ ۔

" مجھے اپنی محبت کے کھو جانے سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ تم چاروں نے مجھے کتنا سطحی سمجھا ۔۔۔۔۔ سطحی ۔۔۔"

مجھے بس رونا ہے ... تیز رفتار ٹرالر کی زد میں آ کر کچلی جانے والی فائزاؤں پر ... دہشت گردی میں ماری جانے والی بے نظیروں پر ... اور تم جیسی بولتی ہوئی دیواروں پر جو بولتی تو ہیں ... مگر سب کو سنائی نہیں دیتیں...

شادی کے تیسرے دن سے آج تک فائزہ ایک ہی جملے کا تکرار کیے جاتی ہے " میں وہ ٹرالر نہیں ہوں جس نے آپ کی فائزہ کو کچلا تھا"

وہ خدا کی بندی کریدنے کو مرہم سمجھتی ہے ،توجہ دو ، محبت سے پیش آؤ تب بھی فائزہ کا طعنہ ،کسی بھی سبب سے چپ بیٹھنا فائزہ کو یاد کرنا ہی سمجھتی ہے ،راستہ کہاں ہے ... کدھر بھاگ جاؤں

نہ ہنس سکتا ہوں نہ رو سکتا ہوں ... نہ جی سکتا ہوں نہ مر سکتا ہوں ...

مر کیوں نہیں سکتا ... معلوم ہے کیوں نہیں مر سکتا ، اسی پگلی کی وجہ سے ...میں اُسے بھری جوانی میں بے لباس کیسے کروں ...

نہیں نہیں اس کی وجہ نہیں ... میں اپنے بچوں کی وجہ سے نہیں مر سکتا ... ان کی مسکان میں کامران بلوچ ہنستا دکھائی دیتا ہے ...

شاید یہ بھی ایک بہانہ ہو جینے کا مگر جینا میں خود چاہتا ہوں .... اگر جینے دیا جائے

میں چاہتا ہوں فائزہ کی کسک صرف مجھ تک محدود ہو ... وہ فقط مجھے یاد رہے ... میری بیوی کے لیے وہ مر جائے تاکہ اسے سکون ملے اور مجھے چپکے سے اپنے اندر اسے زندہ رکھ کر سکون ملے ...

کبھی کبھی میں اِس فائزہ کو لے کر ان رستوں پہ نکل جاؤں جہاں میں اُس فائزہ کے ساتھ جاتا تھا ،دونوں کتھارسس کا جھولا جھول کر واپس آئیں

جب بھی وقت ملے میں فٹبال دیکھوں ... اپنے بیٹے کو فٹبالر بنانے کی دھن میں لگ جاؤں ...

بات کتنی سادہ سی ہے مگر کتنی الجھی ہوئی ہے ... وقت کی مٹھی سے ریت پھسلتی جا رہی ہے اور کوئی ایسا نہیں جو اپنے ساتھ کے چھڑکاؤ سے ریت گیلی کر دے ...

خالد ندیم شانی

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024