باسودیو کی مریم"ــــــــــ نوتاریخی پڑھت
باسودیو کی مریم"ــــــــــ نوتاریخی پڑھت
Apr 8, 2020
اسد محمد خان کے افسانے کی نو تاریخی پڑھت
باسودے کی مریم"ــــــــــ نوتاریخی پڑھت
(یوسف نون۔ پی ۔ ایچ ۔ ڈی سکالر بہاالدین زکریایونیورسٹی ملتان ۔ 03036508210)
"باسودے کی مریم"اسد محمد خاں کانمائندہ افسانہ ہے، جوسب سے پہلے "فنون"میں شائع ہوا، ان کاپہلاافسانوی وشعری مجموعہ :"کھڑکی بھرآسمان"جب ١٩٨٢ میں منصئہ شہودپرآیاتومزکورہ افسانہ اس مجموعہ کی زینت بنتاہےـ "باسودےکی مریم" ویسے توایک کرداری افسانہ ہے جومریم نامی آیا، جسے "انابوا" کہاجاتا ہے،کےگردگھومتاہے ۔مریم جوسلیقہ شعار، ہمدرد،باوفا،باحیا،حب رسول اور حب اہلبیت سے سرشارہے،اس افسانے کامرکزی کردارٹھہرتا ہےـ مصنف نے کسی خاص،مقتدراوراونچےطبقے کی بجائے نچلےطبقےکا ایک ایساکرداراس افسانے کے مرکزی کردار کے طور پرچناہےجو ایک خاص طبقے،تہزیب وثقافت کانمائندہ ہے ۔
متن کو پڑھنے کے ویسے تو کئی طور ہیں،ان میں سےایک نوتاریخیت بھی ہے ـ نوتاریخیت کوویسے تو متن کی ہیئت اور تکنیک سےکوئی سروکارنہیں، یہ متون میں تاریخی متنیت کی تلاش کادوسرانام ہےـ نوتاریخیت کااہم پہلوتہذیبی مادیت ہے،ایسے ثقافتی مطالعات کو "cultural studuies"کانام اہل انگلستان نے دیاہے،جبکہ امریکہ میں اسے نوتاریخیت یا"New Historicism" سے موسوم کیاجاتا ہے،ان دونوں اصطلاحات میں تھوڑابہت فرق ضرور ہے، مگر طریقہ واردات ایک ہی ہےـ جس کے تحت ماضی کےمطالعہ سےحال کی پڑھت کا کام لیاجاتاہےـ تاریخی مادیت کے تحت نمائندہ طبقات کی بجائےحاشیائی طبقات کامطالعہ خاصااہمیت کاحامل ہےـ یہ ان طبقات کے مطالعہ سے ہی ماضی کی سیاسی،سماجی،اقتصادی اورمعاشرتی اقدارکامطالعہ، حال سے موازنہ اور ماضی کی روشنی میں حال کی پڑھت کےلیےاہمیت کا حامل ہوتاہےـ
یہ افسانہ پاکستان بننے سےپہلے کے سماج اورتہذیب کا آئینہ دار ہے،جس میں ریمنڈولیمزکی بیان کردہ کلچرکی تینوں حالتیں:حاوی،باقیاتی اور نوخیز کلچر نظرآتاہےـ اس افسانہ میں جس کلچر اور جس طرح کی تہذیبی اقدار کی بازیافت کی گئی ہے، وہ تقسیم سے پہلے کازمانہ ہےـ اسدمحمد خاں اس ہندومسلم مشترکہ تہذیب کے چشم دیدگواہ ہیں ـ وہ دسمبر ١٩٣٢کوبھوپال کے ایک سردار پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے اور ١٩٥٠میں کراچی آن آبادہوتےہیں ـ اٹھارہ، انیس سال تک کی عمر خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اس عمرمیں اردگردکاسماج، اس کی اقدار ذہن پراپنااثراور ان مٹ نقش ثبت کرچکتی ہیں ، اسد محمد خاں کا یہ سنہری زمانہ متحدہ برطانوی ہندوستان میں گزراـ اس طرح ان کے اس افسانے کو ماضی یعنی بچپنے سے اپنے حال یعنی ادھیڑ عمرکےتہذیبی وثقافتی دور کو پڑھنے اور اس کے آج سےموازنے کی کاوش قراردی جاسکتی ہےـ
اس افسانے کومصنف کی زندگی کے تناظرمیں بھی دیکھا جاسکتا ہے،جونوتاریخیت کاخاص وصف ہےـ اس طرز سے کئی طرح کےسوانحی ربط ملتے ہیں ۔اسد محمدخاں کاتعلق بھوپال کے سردار پٹھان قبیلے سے ہے، اس افسانے میں واحدمتکلم کی ماں پٹھانی اورجاگیردارکی بیٹی ہے،یہ کردار اسد محمد خاں کی والدہ ماجدہ کے قریب تر معلوم پڑتاہےـ دوسرایہ کہ واحدمتکلم افسانے میں ایک مقام پر جانگیہ پہنے ہم جولیوں کےساتھ ہاکی کھیلنے میں مگن نظرآتاہےـ اسدمحمدخاں اقبال خورشید کودئیے گئے اپنے ایک مصاحبہ میں بچپن میں ہاکی کھیلنے کے شوق اوریہ کھیل کافی عرصہ کھیلتے رہنے کےاپنے اس شغف سےمتعلق ذکرکرچکےہیں ـ
اس افسانے کو نوتاریخیت کے ایک پہلو، تہذیبی مادیت کی کسوٹی پربھی پرکھاجاسکتاہےـ کلچر یاثقافت کی تینوں سطحیں:حاوی کلچر ، باقیاتی اور نوخیز کلچر،کسی نہ کسی طور اس افسانےمیں نظرآتےہیں۔
حاوی کلچرسےمراد:جاگیردارانہ،امرانہ بعدازاں سرمایہ دارانہ،صنعتی اورکارپوریٹ کلچر ہے، جوطاقت،سرمایہ اور جبرواستحصال پرقائم ہے ۔ باقیاتی کلچر سے مراد: وہ کلچر جواخلاص، محبت رواداری انسانی رشتوں ناطوں کی تقدیم وتکریم سے جڑا اور ریاکاری سے کوسوں پرے،خدمت خلق کوعظمت جاننے والا ہے۔ یہ طبقہ ایساطبقہ ہےجواپنی غلامی، اپنے استحصال اور بدحالی کا خودآلہ کاربناہوا ہے، صابروشاکراورراضی بارضا ہے، اسے باقیاتی اس لیے کہاگیاہےکہ یہ معدوم ہوتاکلچر ہے،اس کلچر کے نمائندہ کردار قصہ پارینہ بنتے چلےجارہے ہیں ۔اسے تقسیم سے پہلے کا ہندمسلم گنگاجمنی اور بھگتی کلچر بھی کہاجاسکتاہے ـ نوخیز کلچر کے کئی روپ ہیں جومادی منفعت سے جڑاجذباتی لگاؤ سے عاری اور عقلیت پر استوار ہے۔ یہاں عقلیت کی مخالفت ہرگزمقصود نہیں ، یہاں مرادہررشتے اور تعلق کوعقلی کسوٹی پر پرکھنا ، مالی منفعت اور نقصان سے جوڑنا ہے۔
اول الذکر کلچر کے نمائندہ کرداروں اور رویوں کا ذکرکیاجائے تو ان میں واحد متکلم کے ابااورماں جی نظر آتے ہیں ۔ ابا کو مریم نے دودھ پلایاہے،اور ان کی دیرینہ خدمت گزار ہیں،اس سبب اباجی ان کےقدردان ہیں اوران کی جسمانی اور مالی خدمت کرناچاہتےہیں مگرزندگی بھرکبھی کچھ کرنہیں پاتے، پاؤں دابنے کی خواہش سے لےکر ان کے ساتھ ممدو کی خبر لینے باسوداجانے، حج پربھیجنے ایسی تمام خدمات سرانجام دینے کی خواہش کی" بیل منڈھے چڑھتی" نظرنہیں آتی۔ اس کاظاہری سبب تو مریم کی شخصیت ٹھہرتی ہے، جو قناعت پسندبھی ہےخودار بھی اور اپنا بوجھ خود آپ اٹھانے کی عادی بھی ہے،مگر تھوڑا غور کریں تو ایک اور پہلو سامنے آتاہے، وہ حاوی کلچر، اس کی ذہنیت،شانِ بے نیازی اور اس کے تعصبات بھی ہیں ـ اباجی کے دل میں مریم کی قدر بھی ہےاوردل ہی دل میں مریم کی خدمت کرنے کی خواہش انگڑائی بھی ضرور لیتی ہے مگر ہاتھ عملی طور پر آگے بڑھتےنظرنہیں آتے، ابا جی مریم کے ساتھ باسودے جانے کاسرسری کہتےتوہیں مگراصرار نہیں کرتےاور نہ ہی بعدمیں مریم اور ممدوسے اظہارہمدردی نظرآتاہے اور نہ اباجی کا کوئی ایساقدم اٹھتاہےجوممدواورمریم کی خیرخواہی میں ہو۔ بالآخرایک دن مریم خود ہی لٹی پٹی آن کھڑی ہوتی ہیں۔اماں جی بھی اسی حاوی جاگیردارانہ کلچرکاپروردہ کردارہے، جو خاندانی تفاخرکاشکاربھی ہے، پٹھانی ہے اور جاگیردارکی بیٹی بھی، اپنے بیٹے پرلگے چوری کےالزام کوکسی طورقبول کرنے کوتیارنہیں،مریم کی شکایت پراپنے بیٹےکی اصلاح کی بجائےعفیفہ الٹا مریم سےبگڑ بیٹھتی ہیں۔ مریم بغیرتنخواہ کے ملازمہ بلکہ مالکن ہے۔ جوپہلے مفت خدمات انجام دیتی ہیں،بعدازاں اباجی کی ملازمت پر ایک یادو روپے ماہانہ پراکتفاکرتی نظرآتی ہیں ۔ افسانہ نگار نے ایک ملازمہ کو مالکن کا رتبہ یاخطاب دیا ہے، کیسی مالکن؟، کہاں کی مالکن ؟ یاصرف مالکن کے ٹائیٹل کی آڑ میں استحصال کی ایک نئی راہ نکالی گئی ہے، مریم کو مالکن کے کتنے حقوق میسر تھے؟ماضی میں گھرکی آیایا نوکرکومالک قراردینے کے بیانیے کی موجودہ دورمیں ردتشکیل کی سخت ضرورت ہے۔ میرےذاتی مشاہدہ میں ہے کہ آج بھی میرے گاؤں میں دوچار کھاتے پیتے گھرانے ایسے ہیں جو اس بیانے کو ہتھیار کے طور پر برتتے ہوئے پرولتاریہ مزدور طبقے کاخون نچوڑ رہے ہیں ـ
نوخیز کلچر جومادیت سے جڑاہے،اپنےتمام تررشتوں ناطوں میں بھی مادی وجودسےتوبھرپورلگاؤرکھتاہے، مگرروحانیت اورجذباتی لگاؤسےعاری ہے۔ واحدمتکلم نوخیزکلچرکی علامت کےطورپرسامنےآتاہے، اماں جی اور مریم دونوں ان کی جنتیں ہیں ، وہ دونوں کےگوشہ عافیت میں پناہ ڈھونڈھتاہے، مریم سے عیدپرعیدی لینا، محرم پران کے بنے پاپڑ، پکوڑےاورجلیبوں پرہاتھ صاف کرنااس کاخاص مشغلہ ہے۔جب تک مریم کاوجود ہے، اس سے کہیں مادی مفاد جڑاہےتو احساسِ قربت اورانس بھی ہے۔ جب مریم ممدوکی خبرلینےباسودے چلی جاتی ہے اورعرصہ دراز تک خیرخبر نہیں ملتی،اس سب کے باوجود واحدمتکلم کے دل ودماغ میں کہیں بھی مریم کےلیے کوئی تڑپ نہیں ملتی۔ جب مریم فوت ہوتی ہےتوواحدمتکلم گھرموجودنہ تھے، جب گھر لوٹے توماں کی آنکھیں دیرینہ خدمت گزار کی جدائی کے غم میں پھوٹ بہیں اور انابوا کی موت کی خبرسنائی اس پرواحدمتکلم کاکوئی ردعمل دکھائی نہیں دیتا، باپ کے باربار اصرار کے باوجود وہ مریم کی قبرپرنہیں جاتا۔
" ابانےمجھےحکم دیاکہ میں مریم کی قبرپرہوآؤں،میں نہیں گیا،کیوں جاتا،ٹھنڈی مٹی کے ڈھیرکانام تومریم نہیں تھا۔میں نہیں گیا اباناراض بھی ہوئے میں نہیں گیا "
(باسودےکی مریم)
نوتاریخیت سے جڑے نقادکامنصب متن کے توسط سے اس کی تاریخی متنیت سے سروکارہے، متن کے ذریعےہی ماضی کی تہذیب کاآج کےدور میں مطالعہ ممکن ہے۔ متن کے توسط سے ہی مصنف کے ذہنی میلانات وتعصبات،شبہات،عقائد،نظریات وافکار،خوف اور بے چینیوں تک رسائی ممکن ہے۔ تاریخ کے سروکار نمائندہ طبقات جب کہ نوتاریخیت کےسروکارحاشیائی طبقات ہیں، جن کوتاریخ نےاپنا موضوع بنانے کے قابل نہیں سمجھایانظراندازکردیاہے۔ نوتاریخیت ایسے متون کو اہمیت دیتی ہے جن میں حاشیائی طبقات کوزیرموضوع لایاگیاہو۔ نوتاریخیت میں تاریخی، غیر تاریخی ادبی وغیرادبی متون برابر اہمیت کے حامل ہوتےہیں، ان متون میں سب کچھ بیان نہیں ہوتا، جوبیان ہوا، اسکے درمیان بھی گیپس یاوقفے موجودہیں، یااس حقیقت کوالٹنے پر ایک اورحقیقت واگزاراورعیاں ہوتی ہے۔ نوتاریخیت کامنصب ان گیپس کوملانا، اور سامنے کی موجودہ حقیقت کو پلٹ کے نئی حقیقت کوپاناہے۔
" باسودے کی مریم" میں مرکزی اور اہم کردارمریم ہی کاہے، جووفاداربھی ہے سلیقہ شعاربھی اورخدمت گزار بھی،جس کا مسلک انسانیت،خلوص ومحبت ہے۔ مذہب سے اتنا لگاؤہےکہ مسلمان کی بٹیااورجورو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص سادگی، نفاست اور خلوص جواسے گنوارپن یاignorance کی حدتک لے جاتا ہے، اس کاخاص وصف اور حسن ہے۔ ایساحسن ہمیں ماضی کے دیہاتی سماج میں، ایسےکئی کرداروں کی صورت نظرآتاہے ـ مریم کی سادگی اور اخلاص واعتقاد ملاحظہ ہو:
"مریم سیدھی سادھی میواتن تھیں۔میری خالہ سے مرتےدم تک صرف اس لیے خفارہیں کہ عقیقےپران کانام فاطمہ رکھ دیاگیاتھا ـ
"ری دلھن!بی بی پھاطمہ توایکئی تھئیں۔نبی کی سہجادی تھیں،دنیاوآخرت کی باچھاتھیں۔ہم دوجخ کےکندےبھلاان کی بروبری کریں گے۔ توبہ توبہ استگپھار"
(باسودےکی مریم )
ان کے ہاں مذہب ایک رسمی چیز نظر آتی ہے، علم وعمل کی کمی ہے مگر جتنا بھی عمل ہے پرخلوص ہے، آج کے عہدکی مانند متشدد ہرگزنہیں ہے۔ مریم بچوں اورانسانیت سے اس لیےمحبت کرتی ہےکہ وہ اس کے "حجور"کےامتی اورمخلوقِ خداہیں۔ اس کے دل میں اپنے "حجور "کامکہ مدینہ یاپھراس کے امتیوں کی محبت ہے۔ اس کی آنکھوں میں ہرسچے مسلمان کی طرح "حجور" کامکہ مدینہ دیکھنے کاخواب ہے، دراصل یہ خواب ہی اس کی زندگی کامحرک اور مطمئہ نظر ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اس خواب کی تعبیراورتکمیل کےلیے تج دیتی ہیں، جب کسی نےچھیڑااماں تجھے نہ نماز آتی ہے اور نہ قرآن توحج پرکس لیےجائےگی،تووہ بگڑ کرکہتی ہے:
"رے مسلمان کی بٹیا،مسلمان کی جوروہوں۔نماج پڑھناکاہےنئیں آتی۔ رےکلمہ سریپ سن لے،چاروں کل سن لے اورکیاچیے تیرےکو؟اورکیاچیے؟"
(باسودے کی مریم)
کلمہ بھی ملاحظہ ہوں، موجودہ عہدکے متشدداورپرگھٹن سماج میں اس طرح کوئی بھی اپنی سادگی یا ناخواندگی کےسبب مقدس متون کی قرات کابھولےسے بھی ارتکاب کر بیٹھےتواس پرتوہین مذہب کافتویٰ جڑدیاجائے ۔
"کلمہ طیبہ کاوردکرتیں،خدامغفرت کرے کلمہ سریپ بھی جس طرح چاہتیں پڑھتیں:"لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسوالا"
(باسودے کی مریم)
مذہب کو رسمی سالینا ،خدا کی عبادت کی بجائے خدا کے بندوں سے محبت پرزوراور ان کی خدمت،ایسے خداکےبندوں کاشیوہ رہاہےـ سرائیکی کی ایک لوک حکایت ہےکہ ایک عالم غرورسے سرشار "کریم"" کریم "(خداکاصفاتی نام )گردانتارہا دوسری طرف کسی جھاڑی میں بیٹھاایک گنوار شخص جو اپنی کم علمی اورمائیگی کےسبب اس کی زبان"کریم" کی درست ادائی سے قاصرتھی ، مگر خلوص ومحبت سے سرشار" کریم" کی بجائے " کرینہہ"" کرینہہ" (جو خود روصحرائی جھاڑی ہے جس پر چیری کی مانندپھل لگتے ہیں ،جنہیں ڈیلھے کہتے ہیں ) پکارتارہا، خدا نے پرغرور اس عالم کو جو "کریم"' کریم" کی گردان کررہاتھا اسکے غرور کے سبب جہنم واصل کیا اور غلط نام پکارنے والے کی بخشش اس کے خلوص،سچائی، محبت اورسادگی کے سبب کردی ـ مریم پورے خلوص اور خشوع وخضوع کے ساتھ مذہبی تہوارورسوم بجالاتیں، عید ہویامحرم وہ اپنے کسب میں پوری تھیں ۔ محرم کی نویں دسویں کےدرمیان نہایت خشوع وخضوع سے تعزیے، سواریاں اوراکھاڑے دیکھتیں اور نہایت عقیدت سےحاضری دیتیں۔ پکوان پکاتیں،بچوں میں بانٹتیں،خودکھاتیں، لڑکوں کو اکٹھاکرکے شہادت نامہ سنتیں اورکلمہ کاوردکرتیں لڑکوں کوحسین کافقیر بناتیں،انہیں خاصے اہتمام کےساتھ سبز چغے سی کےپہناتیں ،مزیدیہ کہ:
"امام حسین کانام لےلےکربین کرتیں،روروکرآنکھ سجا لیتیں اور بین کرتے کرتےگالیوں پراترآتیں،"رے حرامیوں نے میرےسہجادے کوماردیا۔رے ناس متوں نے میرے باچھاکوماردیا"
(باسودے کی مریم)
اس کے من میں تو "حجور"کامکہ مدینہ بساتھا،وہ جو قلیل تنخواہ لیتی رہیں ،اسے بھی حج فنڈ کے طور پر جمع کیا، جب زادِراہ جمع ہوگیاتو زبان پرتھا:"خواجہ پیاجراکھولاکوڑیاں" جب حج فنڈ جمع ہوچکاتو ممدو کی بیماری کاخط پاکر،مذہبی فریضے کی بجائے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی، اس وقت ان میں ایک ممتا جاگی نظر آتی ہے، ویسے تویہ ممتا ہی اس کی شخصیت پر غالب تھی، "حجورکے سہر مکہ مدینہ" کو بھی ایک ممتاکی مانند دل میں بسائے ہوئی تھیں، امام حسین کا ذکربھی ممتاکی طرح کرتیں، کلمہ طیبہ کاورد بھی ممتاکی لوری کی طرح، پیار بھرے انداز میں طرح طرح کےانداز سے مصرعےبدل کے بیان کیے جاتیں:"لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسول الا"۔ واحد متکلم، ان کے اباجی اور سارے گھروالوں کےلیے بھی مریم کے ممتاایسے جذبات تھے، انہی جذبات سے مغلوب اپنا استحصال برداشت کیے ہوئی تھیں، بلکہ اس استحصال پر خود سے آمادہ اور خوش نظرآتیں۔ اس کی ممتا اپنے بطن جنوں: شتاب خاں اور ممدو کےلیےبھی اتنی ہی پرخلوص تھیں،ممدو کی بیماری کا سن کر حج کے منصوبے کو پس پشت ڈال کرممدوکی خبرگیری کوسرپٹ دوڑیں، ممدو جاں برنہ ہوسکااور جب"حجور" کے"سہر" جانے کی امید کےتار ٹوٹتے نظرآئے ، تو مریم کےکوسے سنیں:
"راے حرامی تیرا ستیاناس جائے اے ممدو!تیری ٹھٹھڑی نکلے۔ اورےبدجناورتیری کبر میں کیڑے پڑیں ۔ میرے سب رے پیسے خرچ کردیئے،اےری دلہن!میں مکے مدینے کیسے جاؤں گی"
(باسودے کی مریم)
دراصل یہ کوسے اپنی قسمت کو کوسے ہیں،مریم کی زندگی تین ستونوں پرقائم تھی، شتاب خاں، ممدو اور اپنے"حجورکاسہر مکہ مدینہ"،ممدو جس کو ناسورتھا اور ڈاکٹروں نے جراحت کے دوران اس کی گال میں ایک کھڑکی سی بنادی تھی، اور اس کی زبان باہر سے منہ کے اندر ماہی بے آب کی مانند تڑپتی نظرآتی تھی، اس سے کریہہ اور بدصورتی کی بڑی مثال اور کیاہوسکتی ہے۔ مگر ممتا تو ممتاہی ہے، ماں کےلیے ایسی اولاد محبت خلوص کی زیادہ اور پہلی حق دارٹھہرتی ہے۔ "حجور کے سہرمکہ مدینہ" سے بھی پہلے، جب ممدو جو اس کی پہلی زندگی کی کرن ہے،وہ اس دنیا میں نہیں رہتاتو پھراپنی دوسری ترجیح: مکہ مدینہ، کی جہت دوبارہ جگاتی ہیں، پیسہ تو سارا ممدو نے خرچ کرادیا، اب دوبارہ حج فنڈ جمع ہونے لگتاہے، جب یہ آرزو پوری ہوتی نہیں پاتیں اور زندگی کا چراغ گل ہوتا نظر آتاہے، تو اپنی جمع پونجی سے کفن دفن اور باقی ماندہ رقم آج کی ترجیحات کے مطابق مسجدومندر کوپیش کرنے کی بجائےانسانیت کووقف کردیتی ہیں ،وہ باقی ماندہ جمع پونجی اپنی تیسری ترجیح شتاب خاں کو دان کیےجانے کی وصیت کرجاتی ہیں، شتاب خاں بھی تو بیٹا ہے، اس کے باوجود آخری ترجیح کیوں ٹھہرتا ہے؟ وہ ریل وے میں چوکیدار ہے، اور مزے سے زندگی گزار رہاہے، مریم اس کے گزر بسر سے مطمئن ہے ، ورنہ ممتاکی محبت ترجیحات کی محتاج کہاں؟۔ اس کی محبت "حجورکے سہر مکہ مدینہ" اور ممدو ، شتاب خاں اور مالکوں کےلیے یکساں تھی، اگر ترجیحات تھیں بھی تو اس کی بھی ایک اپنی خاص منطق تھی، جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ ایسی بڑھیوں کی ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گور گڑھے کاٹھکانہ خود کریں، اس امر کو اعزاز جانا جاتا ہے کہ مرنے والے کا اپنادھن اس کے اپنے کفن دفن کے کام لگا۔ مریم زندگی بھر جوکسی کی محتاج نہ ہوئیں،مرکے ایساکیسےکرسکتی تھیں، اپنے خرچ سے ہی کفن دفن کی وصیت کرگئیں۔
گھرمیں ایک بڑے میاں جی ،جو ہیں تو حاوی کلچر سے مگر اس حاوی میں بھی باقیاتی کلچر کاایک کردار ہیں، ان میں حوصلہ، بردباری مذہبی رواداری اور رکھ رکھاؤ سب کچھ موجود ہے۔ دیوبندی ہونے کے باوجود گھر میں اثنائے عشری سے متعلق رسومات سے نہیں روکتے، گھر میں جب یہ سب رسومات اداہوتی ہیں تو ان دیکھا اور ان سنا کرکے اپنے معمولات میں مگن رہتے ہیں۔ ایک سال جب عشورہ پر تقریب نہیں ہوتی تو ان کا ردعمل ملاحظہ ہو:
"بڑے میاں جی بھی خداان پراپنی رحمتوں کاسایہ رکھے کمال بزرگ تھے۔ ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ جیسے مریم کی ان باتوں سے خوش نہیں ہیں ۔ پر ایک سال مریم باسودے چلی گئیں، ہمارے گھرمیں نہ شہادت نامہ پڑھاگیا نہ ہائے حسین ہوئی نہ ہم فقیر بنے۔ عاشورے پر ہم لڑکے ہاکی کھیلتے رہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر دادا میاں گھر لوٹ رہے تھے ، ہمیں باڑے میں اودھم مچاتےدیکھاتو لاٹھی ٹیک کرکھڑے ہوگئے، "اےکرشناٹو!تم حسن حسین کےفقیرہو؟۔ بڑھیانہیں ہے تو جانگیے پہن کراودھم مچانےلگے۔ یہ نہیں ہوتاکہ آدمیوں کی طرح بیٹھ کر یٰسین شریف پڑھو"
(باسودے کی مریم)
ممدو کے گال پر ناسور کی جراحت کرتے ڈاکٹروں نے کھڑکی بنادی اور ممدو کافی علاج معالجہ کے باوجود جاں برنہ ہوسکا،یہ دونوں واقعات ماضی کی ناکافی اور کم تر درجے کی طبی سہولیات پردال ہیں، آج جو معمولی امراض نظرآتے ہیں،انہیں تاریخ میں موذی، جان لیوا اور وبائی امراض کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ ملیریا، ہیضہ ایسی ماضی کی موذی امراض آج معمولی امراض ہیں۔ماضی میں ان امراض نے قوموں کی قومیں صفحہ ہستی سے مٹادیں، آج کی جدید طبی ریسرچ ماضی سے کہیں آگے ہے۔ آج کی جدید طب اور سائنس نے ماضی کے ان موت کے پیامبروں کوشکست سےدوچارکردیا ہے ـ
نوتاریخیت کا مسئلہ متون کی قرات ہے،اس کافنی عمل نہیں، "باسودے کی مریم" کافنی ہیئتی اورزبان ومحاورےکی روسے جائزہ ہمارے دائرہ کارسے باہر ہے،باسودے کی مریم کا متن ہمیں بجاطور پرماضی سے روشناس کراتااور ہماراماضی سے رشتہ جوڑتا ہے۔ گرین بلاسـٹ (جونوتاریخیت کی اصطلاح کے بانی ہیں) کے مطابق نوتاریخیت ادبی تنقید کی تھیوری یا ادبی تنقیدکاکوئی اصول یانظریہ نہیں،بلکہ ایک متنی عمل، متنی سرگرمی یامتن کودیکھنے اور پرکھنے کے طریقوں میں سے ایک طور ہے، جس پر ہم نےچل کراس متن کے ماضی کو حال کی روشنی میں بازیافت کرنے اور پرکھنے کی اپنی سی ایک سعی کی ہے
باسودے کی مریم"ــــــــــ نوتاریخی پڑھت
(یوسف نون۔ پی ۔ ایچ ۔ ڈی سکالر بہاالدین زکریایونیورسٹی ملتان ۔ 03036508210)
"باسودے کی مریم"اسد محمد خاں کانمائندہ افسانہ ہے، جوسب سے پہلے "فنون"میں شائع ہوا، ان کاپہلاافسانوی وشعری مجموعہ :"کھڑکی بھرآسمان"جب ١٩٨٢ میں منصئہ شہودپرآیاتومزکورہ افسانہ اس مجموعہ کی زینت بنتاہےـ "باسودےکی مریم" ویسے توایک کرداری افسانہ ہے جومریم نامی آیا، جسے "انابوا" کہاجاتا ہے،کےگردگھومتاہے ۔مریم جوسلیقہ شعار، ہمدرد،باوفا،باحیا،حب رسول اور حب اہلبیت سے سرشارہے،اس افسانے کامرکزی کردارٹھہرتا ہےـ مصنف نے کسی خاص،مقتدراوراونچےطبقے کی بجائے نچلےطبقےکا ایک ایساکرداراس افسانے کے مرکزی کردار کے طور پرچناہےجو ایک خاص طبقے،تہزیب وثقافت کانمائندہ ہے ۔
متن کو پڑھنے کے ویسے تو کئی طور ہیں،ان میں سےایک نوتاریخیت بھی ہے ـ نوتاریخیت کوویسے تو متن کی ہیئت اور تکنیک سےکوئی سروکارنہیں، یہ متون میں تاریخی متنیت کی تلاش کادوسرانام ہےـ نوتاریخیت کااہم پہلوتہذیبی مادیت ہے،ایسے ثقافتی مطالعات کو "cultural studuies"کانام اہل انگلستان نے دیاہے،جبکہ امریکہ میں اسے نوتاریخیت یا"New Historicism" سے موسوم کیاجاتا ہے،ان دونوں اصطلاحات میں تھوڑابہت فرق ضرور ہے، مگر طریقہ واردات ایک ہی ہےـ جس کے تحت ماضی کےمطالعہ سےحال کی پڑھت کا کام لیاجاتاہےـ تاریخی مادیت کے تحت نمائندہ طبقات کی بجائےحاشیائی طبقات کامطالعہ خاصااہمیت کاحامل ہےـ یہ ان طبقات کے مطالعہ سے ہی ماضی کی سیاسی،سماجی،اقتصادی اورمعاشرتی اقدارکامطالعہ، حال سے موازنہ اور ماضی کی روشنی میں حال کی پڑھت کےلیےاہمیت کا حامل ہوتاہےـ
یہ افسانہ پاکستان بننے سےپہلے کے سماج اورتہذیب کا آئینہ دار ہے،جس میں ریمنڈولیمزکی بیان کردہ کلچرکی تینوں حالتیں:حاوی،باقیاتی اور نوخیز کلچر نظرآتاہےـ اس افسانہ میں جس کلچر اور جس طرح کی تہذیبی اقدار کی بازیافت کی گئی ہے، وہ تقسیم سے پہلے کازمانہ ہےـ اسدمحمد خاں اس ہندومسلم مشترکہ تہذیب کے چشم دیدگواہ ہیں ـ وہ دسمبر ١٩٣٢کوبھوپال کے ایک سردار پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے اور ١٩٥٠میں کراچی آن آبادہوتےہیں ـ اٹھارہ، انیس سال تک کی عمر خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اس عمرمیں اردگردکاسماج، اس کی اقدار ذہن پراپنااثراور ان مٹ نقش ثبت کرچکتی ہیں ، اسد محمد خاں کا یہ سنہری زمانہ متحدہ برطانوی ہندوستان میں گزراـ اس طرح ان کے اس افسانے کو ماضی یعنی بچپنے سے اپنے حال یعنی ادھیڑ عمرکےتہذیبی وثقافتی دور کو پڑھنے اور اس کے آج سےموازنے کی کاوش قراردی جاسکتی ہےـ
اس افسانے کومصنف کی زندگی کے تناظرمیں بھی دیکھا جاسکتا ہے،جونوتاریخیت کاخاص وصف ہےـ اس طرز سے کئی طرح کےسوانحی ربط ملتے ہیں ۔اسد محمدخاں کاتعلق بھوپال کے سردار پٹھان قبیلے سے ہے، اس افسانے میں واحدمتکلم کی ماں پٹھانی اورجاگیردارکی بیٹی ہے،یہ کردار اسد محمد خاں کی والدہ ماجدہ کے قریب تر معلوم پڑتاہےـ دوسرایہ کہ واحدمتکلم افسانے میں ایک مقام پر جانگیہ پہنے ہم جولیوں کےساتھ ہاکی کھیلنے میں مگن نظرآتاہےـ اسدمحمدخاں اقبال خورشید کودئیے گئے اپنے ایک مصاحبہ میں بچپن میں ہاکی کھیلنے کے شوق اوریہ کھیل کافی عرصہ کھیلتے رہنے کےاپنے اس شغف سےمتعلق ذکرکرچکےہیں ـ
اس افسانے کو نوتاریخیت کے ایک پہلو، تہذیبی مادیت کی کسوٹی پربھی پرکھاجاسکتاہےـ کلچر یاثقافت کی تینوں سطحیں:حاوی کلچر ، باقیاتی اور نوخیز کلچر،کسی نہ کسی طور اس افسانےمیں نظرآتےہیں۔
حاوی کلچرسےمراد:جاگیردارانہ،امرانہ بعدازاں سرمایہ دارانہ،صنعتی اورکارپوریٹ کلچر ہے، جوطاقت،سرمایہ اور جبرواستحصال پرقائم ہے ۔ باقیاتی کلچر سے مراد: وہ کلچر جواخلاص، محبت رواداری انسانی رشتوں ناطوں کی تقدیم وتکریم سے جڑا اور ریاکاری سے کوسوں پرے،خدمت خلق کوعظمت جاننے والا ہے۔ یہ طبقہ ایساطبقہ ہےجواپنی غلامی، اپنے استحصال اور بدحالی کا خودآلہ کاربناہوا ہے، صابروشاکراورراضی بارضا ہے، اسے باقیاتی اس لیے کہاگیاہےکہ یہ معدوم ہوتاکلچر ہے،اس کلچر کے نمائندہ کردار قصہ پارینہ بنتے چلےجارہے ہیں ۔اسے تقسیم سے پہلے کا ہندمسلم گنگاجمنی اور بھگتی کلچر بھی کہاجاسکتاہے ـ نوخیز کلچر کے کئی روپ ہیں جومادی منفعت سے جڑاجذباتی لگاؤ سے عاری اور عقلیت پر استوار ہے۔ یہاں عقلیت کی مخالفت ہرگزمقصود نہیں ، یہاں مرادہررشتے اور تعلق کوعقلی کسوٹی پر پرکھنا ، مالی منفعت اور نقصان سے جوڑنا ہے۔
اول الذکر کلچر کے نمائندہ کرداروں اور رویوں کا ذکرکیاجائے تو ان میں واحد متکلم کے ابااورماں جی نظر آتے ہیں ۔ ابا کو مریم نے دودھ پلایاہے،اور ان کی دیرینہ خدمت گزار ہیں،اس سبب اباجی ان کےقدردان ہیں اوران کی جسمانی اور مالی خدمت کرناچاہتےہیں مگرزندگی بھرکبھی کچھ کرنہیں پاتے، پاؤں دابنے کی خواہش سے لےکر ان کے ساتھ ممدو کی خبر لینے باسوداجانے، حج پربھیجنے ایسی تمام خدمات سرانجام دینے کی خواہش کی" بیل منڈھے چڑھتی" نظرنہیں آتی۔ اس کاظاہری سبب تو مریم کی شخصیت ٹھہرتی ہے، جو قناعت پسندبھی ہےخودار بھی اور اپنا بوجھ خود آپ اٹھانے کی عادی بھی ہے،مگر تھوڑا غور کریں تو ایک اور پہلو سامنے آتاہے، وہ حاوی کلچر، اس کی ذہنیت،شانِ بے نیازی اور اس کے تعصبات بھی ہیں ـ اباجی کے دل میں مریم کی قدر بھی ہےاوردل ہی دل میں مریم کی خدمت کرنے کی خواہش انگڑائی بھی ضرور لیتی ہے مگر ہاتھ عملی طور پر آگے بڑھتےنظرنہیں آتے، ابا جی مریم کے ساتھ باسودے جانے کاسرسری کہتےتوہیں مگراصرار نہیں کرتےاور نہ ہی بعدمیں مریم اور ممدوسے اظہارہمدردی نظرآتاہے اور نہ اباجی کا کوئی ایساقدم اٹھتاہےجوممدواورمریم کی خیرخواہی میں ہو۔ بالآخرایک دن مریم خود ہی لٹی پٹی آن کھڑی ہوتی ہیں۔اماں جی بھی اسی حاوی جاگیردارانہ کلچرکاپروردہ کردارہے، جو خاندانی تفاخرکاشکاربھی ہے، پٹھانی ہے اور جاگیردارکی بیٹی بھی، اپنے بیٹے پرلگے چوری کےالزام کوکسی طورقبول کرنے کوتیارنہیں،مریم کی شکایت پراپنے بیٹےکی اصلاح کی بجائےعفیفہ الٹا مریم سےبگڑ بیٹھتی ہیں۔ مریم بغیرتنخواہ کے ملازمہ بلکہ مالکن ہے۔ جوپہلے مفت خدمات انجام دیتی ہیں،بعدازاں اباجی کی ملازمت پر ایک یادو روپے ماہانہ پراکتفاکرتی نظرآتی ہیں ۔ افسانہ نگار نے ایک ملازمہ کو مالکن کا رتبہ یاخطاب دیا ہے، کیسی مالکن؟، کہاں کی مالکن ؟ یاصرف مالکن کے ٹائیٹل کی آڑ میں استحصال کی ایک نئی راہ نکالی گئی ہے، مریم کو مالکن کے کتنے حقوق میسر تھے؟ماضی میں گھرکی آیایا نوکرکومالک قراردینے کے بیانیے کی موجودہ دورمیں ردتشکیل کی سخت ضرورت ہے۔ میرےذاتی مشاہدہ میں ہے کہ آج بھی میرے گاؤں میں دوچار کھاتے پیتے گھرانے ایسے ہیں جو اس بیانے کو ہتھیار کے طور پر برتتے ہوئے پرولتاریہ مزدور طبقے کاخون نچوڑ رہے ہیں ـ
نوخیز کلچر جومادیت سے جڑاہے،اپنےتمام تررشتوں ناطوں میں بھی مادی وجودسےتوبھرپورلگاؤرکھتاہے، مگرروحانیت اورجذباتی لگاؤسےعاری ہے۔ واحدمتکلم نوخیزکلچرکی علامت کےطورپرسامنےآتاہے، اماں جی اور مریم دونوں ان کی جنتیں ہیں ، وہ دونوں کےگوشہ عافیت میں پناہ ڈھونڈھتاہے، مریم سے عیدپرعیدی لینا، محرم پران کے بنے پاپڑ، پکوڑےاورجلیبوں پرہاتھ صاف کرنااس کاخاص مشغلہ ہے۔جب تک مریم کاوجود ہے، اس سے کہیں مادی مفاد جڑاہےتو احساسِ قربت اورانس بھی ہے۔ جب مریم ممدوکی خبرلینےباسودے چلی جاتی ہے اورعرصہ دراز تک خیرخبر نہیں ملتی،اس سب کے باوجود واحدمتکلم کے دل ودماغ میں کہیں بھی مریم کےلیے کوئی تڑپ نہیں ملتی۔ جب مریم فوت ہوتی ہےتوواحدمتکلم گھرموجودنہ تھے، جب گھر لوٹے توماں کی آنکھیں دیرینہ خدمت گزار کی جدائی کے غم میں پھوٹ بہیں اور انابوا کی موت کی خبرسنائی اس پرواحدمتکلم کاکوئی ردعمل دکھائی نہیں دیتا، باپ کے باربار اصرار کے باوجود وہ مریم کی قبرپرنہیں جاتا۔
" ابانےمجھےحکم دیاکہ میں مریم کی قبرپرہوآؤں،میں نہیں گیا،کیوں جاتا،ٹھنڈی مٹی کے ڈھیرکانام تومریم نہیں تھا۔میں نہیں گیا اباناراض بھی ہوئے میں نہیں گیا "
(باسودےکی مریم)
نوتاریخیت سے جڑے نقادکامنصب متن کے توسط سے اس کی تاریخی متنیت سے سروکارہے، متن کے ذریعےہی ماضی کی تہذیب کاآج کےدور میں مطالعہ ممکن ہے۔ متن کے توسط سے ہی مصنف کے ذہنی میلانات وتعصبات،شبہات،عقائد،نظریات وافکار،خوف اور بے چینیوں تک رسائی ممکن ہے۔ تاریخ کے سروکار نمائندہ طبقات جب کہ نوتاریخیت کےسروکارحاشیائی طبقات ہیں، جن کوتاریخ نےاپنا موضوع بنانے کے قابل نہیں سمجھایانظراندازکردیاہے۔ نوتاریخیت ایسے متون کو اہمیت دیتی ہے جن میں حاشیائی طبقات کوزیرموضوع لایاگیاہو۔ نوتاریخیت میں تاریخی، غیر تاریخی ادبی وغیرادبی متون برابر اہمیت کے حامل ہوتےہیں، ان متون میں سب کچھ بیان نہیں ہوتا، جوبیان ہوا، اسکے درمیان بھی گیپس یاوقفے موجودہیں، یااس حقیقت کوالٹنے پر ایک اورحقیقت واگزاراورعیاں ہوتی ہے۔ نوتاریخیت کامنصب ان گیپس کوملانا، اور سامنے کی موجودہ حقیقت کو پلٹ کے نئی حقیقت کوپاناہے۔
" باسودے کی مریم" میں مرکزی اور اہم کردارمریم ہی کاہے، جووفاداربھی ہے سلیقہ شعاربھی اورخدمت گزار بھی،جس کا مسلک انسانیت،خلوص ومحبت ہے۔ مذہب سے اتنا لگاؤہےکہ مسلمان کی بٹیااورجورو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص سادگی، نفاست اور خلوص جواسے گنوارپن یاignorance کی حدتک لے جاتا ہے، اس کاخاص وصف اور حسن ہے۔ ایساحسن ہمیں ماضی کے دیہاتی سماج میں، ایسےکئی کرداروں کی صورت نظرآتاہے ـ مریم کی سادگی اور اخلاص واعتقاد ملاحظہ ہو:
"مریم سیدھی سادھی میواتن تھیں۔میری خالہ سے مرتےدم تک صرف اس لیے خفارہیں کہ عقیقےپران کانام فاطمہ رکھ دیاگیاتھا ـ
"ری دلھن!بی بی پھاطمہ توایکئی تھئیں۔نبی کی سہجادی تھیں،دنیاوآخرت کی باچھاتھیں۔ہم دوجخ کےکندےبھلاان کی بروبری کریں گے۔ توبہ توبہ استگپھار"
(باسودےکی مریم )
ان کے ہاں مذہب ایک رسمی چیز نظر آتی ہے، علم وعمل کی کمی ہے مگر جتنا بھی عمل ہے پرخلوص ہے، آج کے عہدکی مانند متشدد ہرگزنہیں ہے۔ مریم بچوں اورانسانیت سے اس لیےمحبت کرتی ہےکہ وہ اس کے "حجور"کےامتی اورمخلوقِ خداہیں۔ اس کے دل میں اپنے "حجور "کامکہ مدینہ یاپھراس کے امتیوں کی محبت ہے۔ اس کی آنکھوں میں ہرسچے مسلمان کی طرح "حجور" کامکہ مدینہ دیکھنے کاخواب ہے، دراصل یہ خواب ہی اس کی زندگی کامحرک اور مطمئہ نظر ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اس خواب کی تعبیراورتکمیل کےلیے تج دیتی ہیں، جب کسی نےچھیڑااماں تجھے نہ نماز آتی ہے اور نہ قرآن توحج پرکس لیےجائےگی،تووہ بگڑ کرکہتی ہے:
"رے مسلمان کی بٹیا،مسلمان کی جوروہوں۔نماج پڑھناکاہےنئیں آتی۔ رےکلمہ سریپ سن لے،چاروں کل سن لے اورکیاچیے تیرےکو؟اورکیاچیے؟"
(باسودے کی مریم)
کلمہ بھی ملاحظہ ہوں، موجودہ عہدکے متشدداورپرگھٹن سماج میں اس طرح کوئی بھی اپنی سادگی یا ناخواندگی کےسبب مقدس متون کی قرات کابھولےسے بھی ارتکاب کر بیٹھےتواس پرتوہین مذہب کافتویٰ جڑدیاجائے ۔
"کلمہ طیبہ کاوردکرتیں،خدامغفرت کرے کلمہ سریپ بھی جس طرح چاہتیں پڑھتیں:"لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسوالا"
(باسودے کی مریم)
مذہب کو رسمی سالینا ،خدا کی عبادت کی بجائے خدا کے بندوں سے محبت پرزوراور ان کی خدمت،ایسے خداکےبندوں کاشیوہ رہاہےـ سرائیکی کی ایک لوک حکایت ہےکہ ایک عالم غرورسے سرشار "کریم"" کریم "(خداکاصفاتی نام )گردانتارہا دوسری طرف کسی جھاڑی میں بیٹھاایک گنوار شخص جو اپنی کم علمی اورمائیگی کےسبب اس کی زبان"کریم" کی درست ادائی سے قاصرتھی ، مگر خلوص ومحبت سے سرشار" کریم" کی بجائے " کرینہہ"" کرینہہ" (جو خود روصحرائی جھاڑی ہے جس پر چیری کی مانندپھل لگتے ہیں ،جنہیں ڈیلھے کہتے ہیں ) پکارتارہا، خدا نے پرغرور اس عالم کو جو "کریم"' کریم" کی گردان کررہاتھا اسکے غرور کے سبب جہنم واصل کیا اور غلط نام پکارنے والے کی بخشش اس کے خلوص،سچائی، محبت اورسادگی کے سبب کردی ـ مریم پورے خلوص اور خشوع وخضوع کے ساتھ مذہبی تہوارورسوم بجالاتیں، عید ہویامحرم وہ اپنے کسب میں پوری تھیں ۔ محرم کی نویں دسویں کےدرمیان نہایت خشوع وخضوع سے تعزیے، سواریاں اوراکھاڑے دیکھتیں اور نہایت عقیدت سےحاضری دیتیں۔ پکوان پکاتیں،بچوں میں بانٹتیں،خودکھاتیں، لڑکوں کو اکٹھاکرکے شہادت نامہ سنتیں اورکلمہ کاوردکرتیں لڑکوں کوحسین کافقیر بناتیں،انہیں خاصے اہتمام کےساتھ سبز چغے سی کےپہناتیں ،مزیدیہ کہ:
"امام حسین کانام لےلےکربین کرتیں،روروکرآنکھ سجا لیتیں اور بین کرتے کرتےگالیوں پراترآتیں،"رے حرامیوں نے میرےسہجادے کوماردیا۔رے ناس متوں نے میرے باچھاکوماردیا"
(باسودے کی مریم)
اس کے من میں تو "حجور"کامکہ مدینہ بساتھا،وہ جو قلیل تنخواہ لیتی رہیں ،اسے بھی حج فنڈ کے طور پر جمع کیا، جب زادِراہ جمع ہوگیاتو زبان پرتھا:"خواجہ پیاجراکھولاکوڑیاں" جب حج فنڈ جمع ہوچکاتو ممدو کی بیماری کاخط پاکر،مذہبی فریضے کی بجائے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی، اس وقت ان میں ایک ممتا جاگی نظر آتی ہے، ویسے تویہ ممتا ہی اس کی شخصیت پر غالب تھی، "حجورکے سہر مکہ مدینہ" کو بھی ایک ممتاکی مانند دل میں بسائے ہوئی تھیں، امام حسین کا ذکربھی ممتاکی طرح کرتیں، کلمہ طیبہ کاورد بھی ممتاکی لوری کی طرح، پیار بھرے انداز میں طرح طرح کےانداز سے مصرعےبدل کے بیان کیے جاتیں:"لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسول الا"۔ واحد متکلم، ان کے اباجی اور سارے گھروالوں کےلیے بھی مریم کے ممتاایسے جذبات تھے، انہی جذبات سے مغلوب اپنا استحصال برداشت کیے ہوئی تھیں، بلکہ اس استحصال پر خود سے آمادہ اور خوش نظرآتیں۔ اس کی ممتا اپنے بطن جنوں: شتاب خاں اور ممدو کےلیےبھی اتنی ہی پرخلوص تھیں،ممدو کی بیماری کا سن کر حج کے منصوبے کو پس پشت ڈال کرممدوکی خبرگیری کوسرپٹ دوڑیں، ممدو جاں برنہ ہوسکااور جب"حجور" کے"سہر" جانے کی امید کےتار ٹوٹتے نظرآئے ، تو مریم کےکوسے سنیں:
"راے حرامی تیرا ستیاناس جائے اے ممدو!تیری ٹھٹھڑی نکلے۔ اورےبدجناورتیری کبر میں کیڑے پڑیں ۔ میرے سب رے پیسے خرچ کردیئے،اےری دلہن!میں مکے مدینے کیسے جاؤں گی"
(باسودے کی مریم)
دراصل یہ کوسے اپنی قسمت کو کوسے ہیں،مریم کی زندگی تین ستونوں پرقائم تھی، شتاب خاں، ممدو اور اپنے"حجورکاسہر مکہ مدینہ"،ممدو جس کو ناسورتھا اور ڈاکٹروں نے جراحت کے دوران اس کی گال میں ایک کھڑکی سی بنادی تھی، اور اس کی زبان باہر سے منہ کے اندر ماہی بے آب کی مانند تڑپتی نظرآتی تھی، اس سے کریہہ اور بدصورتی کی بڑی مثال اور کیاہوسکتی ہے۔ مگر ممتا تو ممتاہی ہے، ماں کےلیے ایسی اولاد محبت خلوص کی زیادہ اور پہلی حق دارٹھہرتی ہے۔ "حجور کے سہرمکہ مدینہ" سے بھی پہلے، جب ممدو جو اس کی پہلی زندگی کی کرن ہے،وہ اس دنیا میں نہیں رہتاتو پھراپنی دوسری ترجیح: مکہ مدینہ، کی جہت دوبارہ جگاتی ہیں، پیسہ تو سارا ممدو نے خرچ کرادیا، اب دوبارہ حج فنڈ جمع ہونے لگتاہے، جب یہ آرزو پوری ہوتی نہیں پاتیں اور زندگی کا چراغ گل ہوتا نظر آتاہے، تو اپنی جمع پونجی سے کفن دفن اور باقی ماندہ رقم آج کی ترجیحات کے مطابق مسجدومندر کوپیش کرنے کی بجائےانسانیت کووقف کردیتی ہیں ،وہ باقی ماندہ جمع پونجی اپنی تیسری ترجیح شتاب خاں کو دان کیےجانے کی وصیت کرجاتی ہیں، شتاب خاں بھی تو بیٹا ہے، اس کے باوجود آخری ترجیح کیوں ٹھہرتا ہے؟ وہ ریل وے میں چوکیدار ہے، اور مزے سے زندگی گزار رہاہے، مریم اس کے گزر بسر سے مطمئن ہے ، ورنہ ممتاکی محبت ترجیحات کی محتاج کہاں؟۔ اس کی محبت "حجورکے سہر مکہ مدینہ" اور ممدو ، شتاب خاں اور مالکوں کےلیے یکساں تھی، اگر ترجیحات تھیں بھی تو اس کی بھی ایک اپنی خاص منطق تھی، جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ ایسی بڑھیوں کی ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گور گڑھے کاٹھکانہ خود کریں، اس امر کو اعزاز جانا جاتا ہے کہ مرنے والے کا اپنادھن اس کے اپنے کفن دفن کے کام لگا۔ مریم زندگی بھر جوکسی کی محتاج نہ ہوئیں،مرکے ایساکیسےکرسکتی تھیں، اپنے خرچ سے ہی کفن دفن کی وصیت کرگئیں۔
گھرمیں ایک بڑے میاں جی ،جو ہیں تو حاوی کلچر سے مگر اس حاوی میں بھی باقیاتی کلچر کاایک کردار ہیں، ان میں حوصلہ، بردباری مذہبی رواداری اور رکھ رکھاؤ سب کچھ موجود ہے۔ دیوبندی ہونے کے باوجود گھر میں اثنائے عشری سے متعلق رسومات سے نہیں روکتے، گھر میں جب یہ سب رسومات اداہوتی ہیں تو ان دیکھا اور ان سنا کرکے اپنے معمولات میں مگن رہتے ہیں۔ ایک سال جب عشورہ پر تقریب نہیں ہوتی تو ان کا ردعمل ملاحظہ ہو:
"بڑے میاں جی بھی خداان پراپنی رحمتوں کاسایہ رکھے کمال بزرگ تھے۔ ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ جیسے مریم کی ان باتوں سے خوش نہیں ہیں ۔ پر ایک سال مریم باسودے چلی گئیں، ہمارے گھرمیں نہ شہادت نامہ پڑھاگیا نہ ہائے حسین ہوئی نہ ہم فقیر بنے۔ عاشورے پر ہم لڑکے ہاکی کھیلتے رہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر دادا میاں گھر لوٹ رہے تھے ، ہمیں باڑے میں اودھم مچاتےدیکھاتو لاٹھی ٹیک کرکھڑے ہوگئے، "اےکرشناٹو!تم حسن حسین کےفقیرہو؟۔ بڑھیانہیں ہے تو جانگیے پہن کراودھم مچانےلگے۔ یہ نہیں ہوتاکہ آدمیوں کی طرح بیٹھ کر یٰسین شریف پڑھو"
(باسودے کی مریم)
ممدو کے گال پر ناسور کی جراحت کرتے ڈاکٹروں نے کھڑکی بنادی اور ممدو کافی علاج معالجہ کے باوجود جاں برنہ ہوسکا،یہ دونوں واقعات ماضی کی ناکافی اور کم تر درجے کی طبی سہولیات پردال ہیں، آج جو معمولی امراض نظرآتے ہیں،انہیں تاریخ میں موذی، جان لیوا اور وبائی امراض کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ ملیریا، ہیضہ ایسی ماضی کی موذی امراض آج معمولی امراض ہیں۔ماضی میں ان امراض نے قوموں کی قومیں صفحہ ہستی سے مٹادیں، آج کی جدید طبی ریسرچ ماضی سے کہیں آگے ہے۔ آج کی جدید طب اور سائنس نے ماضی کے ان موت کے پیامبروں کوشکست سےدوچارکردیا ہے ـ
نوتاریخیت کا مسئلہ متون کی قرات ہے،اس کافنی عمل نہیں، "باسودے کی مریم" کافنی ہیئتی اورزبان ومحاورےکی روسے جائزہ ہمارے دائرہ کارسے باہر ہے،باسودے کی مریم کا متن ہمیں بجاطور پرماضی سے روشناس کراتااور ہماراماضی سے رشتہ جوڑتا ہے۔ گرین بلاسـٹ (جونوتاریخیت کی اصطلاح کے بانی ہیں) کے مطابق نوتاریخیت ادبی تنقید کی تھیوری یا ادبی تنقیدکاکوئی اصول یانظریہ نہیں،بلکہ ایک متنی عمل، متنی سرگرمی یامتن کودیکھنے اور پرکھنے کے طریقوں میں سے ایک طور ہے، جس پر ہم نےچل کراس متن کے ماضی کو حال کی روشنی میں بازیافت کرنے اور پرکھنے کی اپنی سی ایک سعی کی ہے