بڑی عمر کا مرد
بڑی عمر کا مرد
Mar 14, 2018
دیدبان شمارہ۔ ۷
بڑی عمر کا مرد
*************
حمید شاہد
شام پڑتے ہی اندھیرا سارے گھر میں تہ بہ تہ جمع ہونے لگا ہے۔ وہاں جہاں ٹرالی پر ٹی وی پڑا ہے، اس کے سامنے بچھے ایرانی قالین پر دائیں جانب، جہاں ٹیک لگا کر بیٹھنے کے لیے ملتانی ٹانکے والے کشن پڑے ہوئے ہیں اوریہاں اس بڑے صوفے پر، جس کے وسط میں میرا خوف سے نچڑا ہوا وجود پڑا ہوا ہے۔
اوہ، یہ نرا خوف نہیں ہے جو مجھے نچوڑ رہا ہے، ایک عجب نوع کی بے کلی اور شدید گہرے دکھ کا احساس بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔
ہاں تو میں اس اندھیرے کی بات کر رہی تھی، جو میرے ادھر ادھر سے بہتا ہوا آتا ہے ، اوپر کی منزل کو جاتی سیڑھیوں سے نیچے لڑھکتا ہوا، تہ خانے میں اترتے راستے سے ابلتا ہوا، یہ سارے کا سارا اندھیرا میرے وجود پر جمتا چلا جاتا ہے۔ میں ایک ایک کر کے گھر کے سارے قمقمے روشن کر دیتی ہوں۔ وہ میری ٹانگوں سے چپک کر بیٹھ جاتا ہے۔میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنا چاہتی ہوں، مگر وہ مجھے نظر نہیں آتا۔
’’شینا ، شینا‘‘
’’جی امی جی‘‘
’’دیکھ، تھوتھن بھنورا، تیری ٹانگوں میں گھس رہا ہے۔‘‘
میری ماں نے اس ننھے منے کتے کا نام تھوتھن بھنورا شاید اس لیے رکھ چھوڑا ہے کہ اس کے روئی جیسے لمبے بالوں کے اندر اس کی گردن غائب ہونے کی وجہ سے سیاہ تھوتھنی قدرے زیادہ نمایاں ہو گئی ہے اور وہ مجھے دیکھتے ہی بھنورے کی طرح میرے ادھر ادھر چکر کاٹتا رہتا ہے۔ جب بھی میری ماں، میرے اس لاڈلے کتے کانام لیتی، اتنا سنوار کر اور اہتمام سے لیتی کہ میں ماں کے شفیق چہرے کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو جاتی۔
میں ماں کو دیکھ رہی ہوں مگر جھک کر، تھوتھن بھنورے کو بھی چھونا چاہتی ہوں۔ وہ اپنی تھوتھنی اٹھا کر میری انگلیاں چاٹنے لگتا تو میں تھوتھنی کے گیلے پن سے بچنے کے لیے اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہوں ۔ اسے میرا انگلیاں ہتھیلی میں سمیٹ کر یوں ہاتھ اوپر اٹھا لینا ناگوار گزرتا ہے۔
میں اب بھی ماں ہی کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے ہوں تاہم مجھے فوراً اس کے اپنے آپ میں سمٹنے کی خبر ہو گئی ہے۔ اس کی بالوں بھری پیٹھ، جو میری ٹانگوں سے رگڑ کھا رہی تھی، الگ ہوگئی ہے۔اس نے پل بھر میں اپنا بدن سمیٹ لیا ہے۔ یہ بھی اس کے ناراض ہونے کی ایک ادا ہے۔ میں چونک کر اپنی ٹانگوں میں اسے دیکھتی ہوں۔ وہاں، جہاں ابھی ابھی وہ تھا۔ وہ وہاں نہیں ہے۔ میں گھبرا کر ٹانگوں کے آس پاس نگاہ دوڑاتی، اور عقب میں بھی کہ بالعموم وہ میرے پیچھے چھپ جایا کرتا تھا۔ وہ وہاں بھی نہیں ہے۔میں باہر دروازے کی طرف دیکھتی ہوں تو ایک سایہ سا باہر کی جانب لپکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں بھی ادھر لپکتی ہوں اور کیا دیکھتی ہوں کہ سیاہ تھوتھنی اجالے کو چیر کر باہر نکل گئی ہے اور ریشمیں اجلی پیٹھ وہاں پھنسے اجالے میں تحلیل ہو گئی ہے۔ میں بوکھلا کر اسے پکارتی ہوں:’’تھوتھن بھنورے، تھوتھن بھنورے ۔‘‘
مجھے ماں کی طرح اس کا پورا نام لینے میں دقت ہوتی ہے تو اس کا نام مختصر کر لیتی ہوں :
’’بھنورے۔۔۔بھنورے۔۔۔‘‘
’’شینا ،شینا‘‘
’’بھنورے۔۔۔‘‘
’’شینا۔۔۔‘‘
کب سے آوازیں گڈمڈ ہو رہی ہیں۔ میں لحاف کے اندر ہی اندر کسمساتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے ایک دروازہ ہے جو چوپٹ کھلا ہے اور اس کی چوکھٹ کے سارے احاطے میں آنکھوں کو چندھیا ڈالنے والی گاڑھی دھوپ پھنسی ہوئی ہے۔ یوں، جیسے اسے چوکور کاٹ کر وہاں ٹھونس ٹھانس کر پھنسا دیا گیا ہو۔
بھنورے۔۔۔
میں آواز پھینکتی ہوں۔ دھوپ کی دیوار اسے لوٹا دیتی ہے۔
’’شی ۔۔۔نا۔۔۔‘‘
میرے عقب سے آواز آتی ہے اور ٹوٹ کر اندھیرے میں گر جاتی ہے۔
میں چندھیائی آنکھوں سے دیکھتی ہوں اور مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔
رفتہ رفتہ میری آنکھیں دبیز اندھیرے سے مانوس ہو جا تی ہیں۔ اب میں منھ سے لحاف الٹے بغیر اندازہ لگا لیتی ہوں کہ ابھی آدھی سے زیادہ رات باقی پڑی ہوئی ہے۔ میں پہلو بدلتی ہوں، منھ پوری طرح کھول کر لمبے لمبے سانس لیتی ہوں اور انھیں ناک کے راستے آہستہ آہستہ اور روک روک کر خارج کرتی ہوں۔بار بار ایسا دھرانے سے میں نیند کو اپنی جانب راغب کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہوں۔
’’شینا ۔۔۔شینا‘‘
ماں مجھے پاؤں کے سمت کھڑا ہو کر جگایا کرتی۔
وہ دھیرے دھیرے میرا نام لیتی، یوں جیسے سرگوشی کر رہی ہو یا یوں جیسے وہ اپنے حلقوم سے نکلے ہوئے میرے نام کو ہونٹوں سے ٹٹول رہی ہو۔ یہ آواز ہر بار میری سماعتوں میں رسیلی گدگدی کی طرح اترتی ہے، گدگدی کی طرح بھی اور لوری جیسی بھی کہ میں ہر بار لحاف کے اندر ہی اندر کسمسا کر رہ جاتی ہوں اور جب تک میری آنکھوں کے پپوٹوں پر کٹی ہوئی دھوپ کی قاش چبھنے نہ لگتی، میں جاگ اٹھنے کو ٹالتی رہتی ہوں ۔
رات ٹل چکنے کا اندازہ میں اپنے منھ کو لحاف میں گھسیڑے گھسیڑے کر لیا کرتی ہوں۔ میں آنکھیں ایک دم نہیں کھولتی، پہلے اپنے ڈیلے پپوٹوں کے اندر ہی اندر گھماتی ہوں، دائیں بائیں نہیں، دائروی صورت میں یوں، جیسے ان کے اندر رس رس کر آنے والی روشنی کو رگڑ رگڑ کر مٹانا چاہتی ہوں، پھر پیوٹے باہم رکھے رکھے پھڑکانے کے بعد دھیرے سے آنکھیں کھول دیتی ہوں ۔میں لگ بھگ ہر روز مشاہدہ کرتی ہوں کہ کثرتِ اِستعمال سے لحاف کے اندر، جہاں سے روئی اپنی جگہ چھوڑ گئی ہے، وہاں سے روشنی جھانکا کرتی ہے۔میں اس جھانکنے والی روشنی کی مقدار اور تیور دیکھ کر اندازہ لگا لیا کرتی ہوں کہ باہر سورج کس قدر اوپر چڑھ آیا ہو گا۔
اگر چہ میں پوری طرح جاگ گئی ہوں مگر لحاف سے نکل آنا اَب بھی مجھے گوارا نہیں ہے۔تب ،کہ جب میں چھوٹی تھی اور ہفتے بھر بعد چھٹی والا دن آتا تھا توبھی مجھے یوں دیر تک بستر پر پڑے رہنا اچھا لگتا تھا۔ماں حسب عادت ایک مقررہ وقت پر دھیمی اور رسیلی آواز لڑھکا کر اپنے کام میں جت جاتی،اور میں دیر تک ایک خواب کی سی کیفیت میں پڑی رہتی۔اب بھی بالکل اسی طرح پڑے رہنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ ماں کی میٹھی پکار میرے کانوں میں قطرہ قطرہ ٹپکتی رہے ۔
’’شینا ۔۔۔شینا‘‘
جب میں لحاف الٹ دینے کا قصد کرتی ہوں تب بھی میرے چاروں طرف ماں کی خوش بو پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔ تاہم مجھے کچھ اور وقت کے لیے اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑتا ہے کہ اعصاب ڈھیلے کر کے پڑے رہنے سے ،میری بوڑھی ہڈیوں پرماس اور اعصابی ریشوں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے حتیٰ کہ پڑے پڑے میراپورا جسم دُکھنے لگتا ہے یوں، جیسے مجھے رات سوتا پاکر ،تہ داراندھیرا میرے اوپر کودتا رہا ہے۔
’’شین ۔۔۔ شین‘‘
’’بھئی اپنی لاڈلی کو سنبھالو، میری چھاتی پر چڑھ کر کود رہی ہے ۔‘‘
میں توصیف کی طرف محبت سے دیکھتی ہوں۔مجھے ان کا محبت سے شین کہنا بہت اچھا لگتا ہے۔جس طرح وہ ہونٹ لٹکا لٹکا کر مجھے پکار رہے ہوتے، اس سے میں جان جاتی کہ وہ محض مجھے اس لیے متوجہ کر رہے ہوتے ہیں کہ میں بھی اُس لطف میں شریک ہو جاؤں جو اُنھیں ننھی تارا کواپنی چھاتی پر چلا کر اور کودنے کے لیے اُکساکر حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔
تارا کلکاریاں مارتے ہوئے تیزی سے پاؤں چلاتی ہے۔ توصیف بے ساختہ ہنستے ہیں۔
میں ہنستے ہوئے اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ ٹانگیں پسار کر بیٹھنے کے بعدجی چاہنے لگا ہے کہ آگے کو جھک کر رانوں کے ڈھیلے گوشت پر دھیرے دھیرے مکیاں برساؤں۔وقفے وقفے سے ماس مٹھیوں میں بھر کر اسے ہڈیوں کے اوپر رگڑتے ہوئے سہلانا بھی بھلا لگ رہا ہے۔
’’شی ۔۔۔ناں‘‘
’’اب بس کرو، ،۔
ماں ہاتھ آگے کر کے مجھے روک دینا چاہتی ہے ۔
’’تم تھک جاؤ گی میری جان‘‘ ۔
وہ محبت اور شکر گزاری کے جذبات سے کہتی ہے مگر میں اس کی پنڈلیاں سہلاتے رہنا چاہتی ہوں ۔
’’نہیں ماں ، میں نہیں تھکوں گی ، ، ۔
میں فوراً کَہ دیتی ہوں اورناراضی کا ناٹک کرتی ہوں۔
’’ لگتا ہے ماں،آپ کو مزہ نہیں آرہا ، کیا میرے ہاتھ سخت ہوگئے ہیں؟‘‘
’’تمھارے ہاتھ تو روئی کے گالے ہیں میری بیٹی،اسی لیے تو کَہ رہی ہوں تم تھک جاؤگی۔‘‘
جب وہ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی ہیں تو میں ماں کی دائیں ہتھیلی میں اوپر کی طرف اورشہادت کی انگلی کی پہلی پور پر ماس کی گانٹھوں کوصاف محسوس کر لیتی ہوں۔
میرے ہوش سنبھالنے تک ابا زندہ نہیں رہے تھے۔ ماں ہی میرا سب کچھ تھیں۔محنت کرتے کرتے اور مجھے پالتے پوستے ان کی ہڈیوں نے کھال چھوڑ دی تھی۔ایک بار وہ پھسل کر گریں ، دائیں ہاتھ سے سہارا لینا چاہا اور کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔یہ ہڈی بعد میں جڑ توگئی مگرجڑی کچھ ایسی بے ڈھب تھی کہ یہ جوڑ ماس کے اندر سے نہ صرف ابھرا ہوا نظر آتا، دیکھنے پر چبھتا ہو ابھی محسوس ہوتا۔ میں ماں کا دایاں ہاتھ تھام کر اس جوڑ کے اوپر اپنی پوروں سے مساج کرتی رہتی اور ہر بار پوچھاکرتی کہ ا نھیں اب بھی اس میں درد تو ہوتا ہوگا؟ ماں ہر بار کھلکھلا کر ہنستی ، یوں جیسے مجھے یقین دِلانا چاہتی ہو کہ اُسے کوئی دَرد وَرد نہیں ہوتا،تاہم ہر بار اُس ہنسی کے وقفے میں بائیاں ہاتھ اسی ابھرے ہوئے جوڑ پر لے جاکر اسے دبانے لگتی۔ماں کی بابت سوچتے سوچتے میرا دِل بھر آتا ہے۔ آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں اور بے اختیار انھیں پکارتی ہوں:
’’ ماں جی‘‘
یوں جیسے وہ سامنے ہی بیٹھی ہوں،میں ان کی طرف دیکھے بغیر دہراتی ہوں ۔
’’ماں جی‘‘
اپنی ہی آواز میری سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔مجھے یوں لگتا ہے، یہ میری آواز نہیں ، تارا کی ہے۔
’’تارا، میری تارا ‘‘
میں چلتے چلتے تارا کی تصویر تک پہنچتی ہوں۔ تارا مسکرا رہی ہے ۔’’تارا میرے وجود کا حصہ‘‘
میں اسے جب بھی پکارتی، اسی طرح مسکرا کر میری طرف دیکھتی اور محبت سے ’’ماں جی‘‘ کَہ دیا کرتی ۔ میں چاہے دس بار پکارتی ، وہ دس بار ہی ’’ماں جی‘‘ کہتی اور ہر بارمحبت سے مسکرا کر دیکھتی۔ وہ جب بھی مسکرا رہی ہوتی، اس کے گال اوپر کو اچھلنے لگتے ۔
توصیف کے ہنسنے پر بھی اس کے گال اوپر کو اُچھلا کرتے تھے ۔
توصیف چلا گیا کہ اسے باہر اچھا چانس ملا تھا ۔ وہاں سے لگ بھگ تین برس تک اس کے خط آتے رہے اور ڈالر بھی ۔ آخری والے خط میں اس نے لکھا تھا کہ جلد ہی اسے گرین کارڈ ملنے والا ہے ۔ بعد میں وہاں سے آنے والوں نے بتایا کہ اس نے وہیں ایک شادی کرلی تھی اور اس کی ایک بچی بھی تھی۔
خیر وہ واپس آجاتا تو میں اسے معاف کر سکتی تھی مگر اس نے اپنی زندگی سے ہمیں کاٹ کر الگ کردیا تھا۔ میری محبت اسے یاد آئی نہ تارا کی ،جو کبھی اس کے وجود کا حصہ تھی۔
’’تارا، میری بچی ‘‘۔میں تصویر اپنی چھاتی سے لگالیتی ہوں اور آنکھیں زور سے میچ کر آنسوؤں کو اپنے گالوں پر بہ جانے دیتی ہوں۔ اتنے توقف کے باوجود تصویر چھاتی سے الگ کرکے اوپر اٹھانے تک ،تارا کو دیکھنے کے لیے مجھے پانی کی دیوار صاف کرنا پڑتی ہے۔تارا کے گال اچھل رہے ہیں اور توصیف کے بھی ، مگر اس بار وہ ہنس نہیں رہے ، یوں لگتا کسی شدید اذیت میں رو دینا چاہتے ہیں۔
میرا دھیان وہیں بندھا رہاتھا ۔ ادھر سے آنے والے عجیب عجیب خبریں دیتے ۔ ان کے پھر اکیلے ہو جانے اور اپنے آپ کو تباہ کر لینے کی۔میں ایک اسکول چلا رہی تھی ، پس انداز کیے ہوئے اتنے وسائل تھے کہ میں ان تک پہنچ جاتی ۔ مجھے نہ جانے کس برتے پریقین ہو چلا تھا کہ اگر میں وہاں چلی جاتی تووہ سب کچھ چھوڑ کر واپس آجاتے، اپنی زندگی کے پاس، اپنی تارا کے پاس مگر میں نہ جاسکی، اور وہ اپنے آپ کو اذیت دیتے ، شراب کی چھینی سے اپنے اندر کو چھلنی کرتے، ایک بار کے اندر مر گئے ۔
میں آپ کی اذیت کو سمجھ سکتی ہوں توصیف۔اور اپنوں سے کترانے کا سبب بھی۔ آپ اپنے بارے میں کسی بھی خبر کوہم تک پہنچنے سے یوں روک دینا چاہتے ہوں گے کہ ہم مزید دکھی نہ ہوں مگر ساری بری خبریں آپ کے نہ چاہنے کے باوجود،ہم تک پہنچتی رہیں، حتیٰ کہ اپنے سامنے رشین ووڈکا کاآدھا پیگ رکھے رکھے،لیری کے ننگے کندھے پر سر رکھ کر چپکے سے مر جانے اوروہاں موجود سب کی توجہ پالینے کی بھی۔
تارا اپنے باپ کے بغیر بڑی ہوتی رہی ، بولنا اور چلنا ایک ساتھ سیکھتی رہی ، تب تک ،توصیف! میںآپ کی جانب سے مایوس نہیں ہوئی تھی۔ میں پوری طرح تو آپ کے مرنے تک مایوس نہیں ہوئی کہ میں ہر بارتارا کے اچھلتے گال چومتی تھی اور آپ کے اچھلتے گال دھیان میں رہتے تھے۔میں اپنے ہونٹ اس کے گال پر رکھنے کے لیے یخ شیشے پر جمادیتی ہوں اور یخ شیشے کے ادھر ہنسی جہاں تھی وہیں جم جاتی ہے۔
میں پچھلے تین دن سے خاموش پڑے ٹیلی فون کو دیکھتی ہوں ، جمعرات سے پہلے یہ نہیں بجے گا۔میری نظریں پھر تارا کی تصویر کھینچ لیتی ہے۔ وہ گال اچھال ہنسی ہنس رہی ہے مگر میں بہت گہرائی سے ابھر آنے والی بے اطمینانی کو محسوس کرکے بے کل ہو جاتی ہوں
’’میرا مرد میرا بہت خیال رکھتاہے‘‘
ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں کے کناروں پر صاف شفاف چمکتے موتیوں کے سے قطرے اگ آتے ہیں۔’’وہ بڑی عمر کا مردہے نا، بہت خیال رکھتا ہے میرا‘‘
وہ میرے جملے کا حوالہ دے کر میری چھاتی پر دکھ کے بوجھ کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ تارا کا میاں اس سے عمر میں لگ بھگ دگنا ہو گا مگر واقعی اس کا بہت خیال رکھتا ہے ۔تارا کو اس نے دنیا کی ہرآسائش مہیا کی ہوئی ہے ۔ اسی کو وہ گھمانے نکلا ہوا ہے ۔ وہ جمعرات سے پہلے واپس نہیں آئیں گے ۔
میں واپس بیڈ پر آکر ٹانگیں لٹکا کربیٹھ جاتی ہوں، حالاں کہ میں جانتی ہوں کہ اس طرح بیٹھنے سے میری ٹانگیں سن ہو جایاکرتی ہیں ۔میری ٹانگیں یخ بستہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔میں سارے کمرے میں نظر دوڑاتی ہوں: ہر کہیں، چھت کے وسط میں نصب فانوس کے قمقموں کی روشنی گھوم رہی ہے۔
میں نے اپنی خواہش کے مطابق گھر بنوایا تھا اور جب یہ پچیس قمقموں والا فانوس لگ چکا توسوچا تھا کہ میں اور تارا اس روشن گھرمیں ہمیشہ رہیں گے حالاں کہ تارا اپنے جس کلاس فیلو سے محبت کرتی تھی، وہ اسے اپنے بوڑھے والدین کے پاس رکھنا چاہتا تھا۔
میں نے منع کر دیا۔ دوسرا، تیسرا، چوتھا ، جو بھی آیا،سب کو منع کرتی رہی ۔ وہ پہلے پہل آنے والوں سے لاتعلق رہی پھر جیسے اسے یقین ہو چلا تھا کہ میں کبھی ہاں نہیں کہوں گی۔ وہ ایک لحاظ سے درست تھی۔مجھے واقعی خدشہ ہوچلا تھا کہ ایک دفعہ کا اقرار مجھے ہمیشہ کے لیے اکیلا کر سکتا تھا۔ وہ چڑچڑی ہو گئی،اتنی کہ بات بے بات میرے ساتھ الجھنے لگتی۔میں اس کو ساتھ رکھ کر بھی اکیلی ہورہی تھی۔ اس سب کے باوجود میں اس بوڑھے مرد سے اسے شادی کرنے پر قائل نہ کرتی اگر مجھے موت کی دھمک سنائی نہ دیتی۔ وقت تیزی سے گزر گیا تھا۔ ایک مدت سے تارا کی طلب میں کوئی نہ آرہا تھا۔ وہ آیا تو میں نے تاراکویہ کَہ کر منالیا تھاکہ بڑی عمر کے مرد بہت خیال رکھاکرتے ہیں۔
’’بڑی عمر کا مرد‘‘
میں بڑبڑاتی ہوں۔ اپنی سن ہوتی ٹانگوں کو کھینچ کر بستر کے اوپر کرنا چاہتی ہوں مگر کوشش کے باوجود اوپر کھینچ نہیں پاتی۔میں بوکھلا جاتی ہوں ،’’ تو کیا موت میری ٹانگوں سے میرے بدن پر چڑھ رہی ہے؟‘‘
میں سر جھکا کر موت کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں ، میں بہ مشکل آگے کو جھکتی ہوں ،اوپر سے برسنے والی روشنی میرے قدموں میں نہیں ہے۔میں کچھ اور زور لگاتے ہوئے آگے کو جھولتی ہوں اور ایک لمحے کے لیے عین قدموں کے درمیان نگاہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہوں۔ وہاں جہاں موت کا چہرہ ہو سکتا تھا۔وہ وہیں ہے ... سیاہ... گول ...چپڑ چپڑ میری پنڈلیاں چاٹنے والا۔میں جتنا زور لگا کر آگے کو جھولی تھی اس سے کہیں تیزی سے پیچھے کی سمت گرتی ہوں، اتنی سرعت سے گرنے کے دورانیے میں ہی میں یہ بھی جان جاتی ہوں کہ میری پنڈلیاں چاٹنے والی موت تھوتھن جیسی ہے۔میں پرسکون رہنے کے لیے ان سب کو یاد کیے جانے کی کوششیں جاری رکھناچاہتی ہوں جو میری زندگی میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے ۔ مگر تھوتھن...
یہ بھی تو میری زندگی میں دخیل رہا ہے۔ وہ گھٹنوں کو جکڑ کر اوپر چڑھتا ہے۔ میری رانوں کا ڈھیلا گوشت ، یوں لگتا ہے جیسے تن گیا ہے۔
249249تھوتھن ... بھ ...‘‘نامکمل سسکاری میرے ہونٹوں پر سرسراتی ہے۔
بڑی عمر کا مرد میرے دھیان میں ہے، ہونٹوں کے اوپر سفید جھولتی مونچھوں والا ۔ اعصاب ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں ۔ یوں ،جیسے کہ میں وہاں نہیں ہوں ،کہ وہاں تو تارا ہے ۔
تھوتھن کی گیلی تھوتھنی سے بچانے کے لیے وہ اپنا بدن سمیٹ لینے کے جتن کرتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری انگلیاں میری ہتھیلیوں میں سمٹ رہی ہیں۔
لجلجا اندھیرا رانوں پر گدگدی کرتا ہے۔اس کی تھوتھنی سے آگے کو جھولتی مونچھیں سانسوں میں رخنے ڈالتی ہیں تو مجھے ابکائی آجاتی ہے۔
میرے حلق کو چیر کر بہ نکلنے والاگیلا پن میری گردن سے نیچے تک بہتا جا رہا ہے۔اندھیرا بدن چاٹتا اوپراٹھ رہا ہے۔ اندھیرا نہیں لجلجاتھوتھن۔ وہ کلیجا چبانے کے بعد گردن دبوچتا ہے جب کہ میں اندازہ لگانے کے جتن کررہی ہوں کہ ہم دونوں میں سے کون ہے جو اس کا لقمہ بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ۔ ۷
بڑی عمر کا مرد
*************
حمید شاہد
شام پڑتے ہی اندھیرا سارے گھر میں تہ بہ تہ جمع ہونے لگا ہے۔ وہاں جہاں ٹرالی پر ٹی وی پڑا ہے، اس کے سامنے بچھے ایرانی قالین پر دائیں جانب، جہاں ٹیک لگا کر بیٹھنے کے لیے ملتانی ٹانکے والے کشن پڑے ہوئے ہیں اوریہاں اس بڑے صوفے پر، جس کے وسط میں میرا خوف سے نچڑا ہوا وجود پڑا ہوا ہے۔
اوہ، یہ نرا خوف نہیں ہے جو مجھے نچوڑ رہا ہے، ایک عجب نوع کی بے کلی اور شدید گہرے دکھ کا احساس بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔
ہاں تو میں اس اندھیرے کی بات کر رہی تھی، جو میرے ادھر ادھر سے بہتا ہوا آتا ہے ، اوپر کی منزل کو جاتی سیڑھیوں سے نیچے لڑھکتا ہوا، تہ خانے میں اترتے راستے سے ابلتا ہوا، یہ سارے کا سارا اندھیرا میرے وجود پر جمتا چلا جاتا ہے۔ میں ایک ایک کر کے گھر کے سارے قمقمے روشن کر دیتی ہوں۔ وہ میری ٹانگوں سے چپک کر بیٹھ جاتا ہے۔میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنا چاہتی ہوں، مگر وہ مجھے نظر نہیں آتا۔
’’شینا ، شینا‘‘
’’جی امی جی‘‘
’’دیکھ، تھوتھن بھنورا، تیری ٹانگوں میں گھس رہا ہے۔‘‘
میری ماں نے اس ننھے منے کتے کا نام تھوتھن بھنورا شاید اس لیے رکھ چھوڑا ہے کہ اس کے روئی جیسے لمبے بالوں کے اندر اس کی گردن غائب ہونے کی وجہ سے سیاہ تھوتھنی قدرے زیادہ نمایاں ہو گئی ہے اور وہ مجھے دیکھتے ہی بھنورے کی طرح میرے ادھر ادھر چکر کاٹتا رہتا ہے۔ جب بھی میری ماں، میرے اس لاڈلے کتے کانام لیتی، اتنا سنوار کر اور اہتمام سے لیتی کہ میں ماں کے شفیق چہرے کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو جاتی۔
میں ماں کو دیکھ رہی ہوں مگر جھک کر، تھوتھن بھنورے کو بھی چھونا چاہتی ہوں۔ وہ اپنی تھوتھنی اٹھا کر میری انگلیاں چاٹنے لگتا تو میں تھوتھنی کے گیلے پن سے بچنے کے لیے اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہوں ۔ اسے میرا انگلیاں ہتھیلی میں سمیٹ کر یوں ہاتھ اوپر اٹھا لینا ناگوار گزرتا ہے۔
میں اب بھی ماں ہی کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے ہوں تاہم مجھے فوراً اس کے اپنے آپ میں سمٹنے کی خبر ہو گئی ہے۔ اس کی بالوں بھری پیٹھ، جو میری ٹانگوں سے رگڑ کھا رہی تھی، الگ ہوگئی ہے۔اس نے پل بھر میں اپنا بدن سمیٹ لیا ہے۔ یہ بھی اس کے ناراض ہونے کی ایک ادا ہے۔ میں چونک کر اپنی ٹانگوں میں اسے دیکھتی ہوں۔ وہاں، جہاں ابھی ابھی وہ تھا۔ وہ وہاں نہیں ہے۔ میں گھبرا کر ٹانگوں کے آس پاس نگاہ دوڑاتی، اور عقب میں بھی کہ بالعموم وہ میرے پیچھے چھپ جایا کرتا تھا۔ وہ وہاں بھی نہیں ہے۔میں باہر دروازے کی طرف دیکھتی ہوں تو ایک سایہ سا باہر کی جانب لپکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں بھی ادھر لپکتی ہوں اور کیا دیکھتی ہوں کہ سیاہ تھوتھنی اجالے کو چیر کر باہر نکل گئی ہے اور ریشمیں اجلی پیٹھ وہاں پھنسے اجالے میں تحلیل ہو گئی ہے۔ میں بوکھلا کر اسے پکارتی ہوں:’’تھوتھن بھنورے، تھوتھن بھنورے ۔‘‘
مجھے ماں کی طرح اس کا پورا نام لینے میں دقت ہوتی ہے تو اس کا نام مختصر کر لیتی ہوں :
’’بھنورے۔۔۔بھنورے۔۔۔‘‘
’’شینا ،شینا‘‘
’’بھنورے۔۔۔‘‘
’’شینا۔۔۔‘‘
کب سے آوازیں گڈمڈ ہو رہی ہیں۔ میں لحاف کے اندر ہی اندر کسمساتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے ایک دروازہ ہے جو چوپٹ کھلا ہے اور اس کی چوکھٹ کے سارے احاطے میں آنکھوں کو چندھیا ڈالنے والی گاڑھی دھوپ پھنسی ہوئی ہے۔ یوں، جیسے اسے چوکور کاٹ کر وہاں ٹھونس ٹھانس کر پھنسا دیا گیا ہو۔
بھنورے۔۔۔
میں آواز پھینکتی ہوں۔ دھوپ کی دیوار اسے لوٹا دیتی ہے۔
’’شی ۔۔۔نا۔۔۔‘‘
میرے عقب سے آواز آتی ہے اور ٹوٹ کر اندھیرے میں گر جاتی ہے۔
میں چندھیائی آنکھوں سے دیکھتی ہوں اور مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔
رفتہ رفتہ میری آنکھیں دبیز اندھیرے سے مانوس ہو جا تی ہیں۔ اب میں منھ سے لحاف الٹے بغیر اندازہ لگا لیتی ہوں کہ ابھی آدھی سے زیادہ رات باقی پڑی ہوئی ہے۔ میں پہلو بدلتی ہوں، منھ پوری طرح کھول کر لمبے لمبے سانس لیتی ہوں اور انھیں ناک کے راستے آہستہ آہستہ اور روک روک کر خارج کرتی ہوں۔بار بار ایسا دھرانے سے میں نیند کو اپنی جانب راغب کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہوں۔
’’شینا ۔۔۔شینا‘‘
ماں مجھے پاؤں کے سمت کھڑا ہو کر جگایا کرتی۔
وہ دھیرے دھیرے میرا نام لیتی، یوں جیسے سرگوشی کر رہی ہو یا یوں جیسے وہ اپنے حلقوم سے نکلے ہوئے میرے نام کو ہونٹوں سے ٹٹول رہی ہو۔ یہ آواز ہر بار میری سماعتوں میں رسیلی گدگدی کی طرح اترتی ہے، گدگدی کی طرح بھی اور لوری جیسی بھی کہ میں ہر بار لحاف کے اندر ہی اندر کسمسا کر رہ جاتی ہوں اور جب تک میری آنکھوں کے پپوٹوں پر کٹی ہوئی دھوپ کی قاش چبھنے نہ لگتی، میں جاگ اٹھنے کو ٹالتی رہتی ہوں ۔
رات ٹل چکنے کا اندازہ میں اپنے منھ کو لحاف میں گھسیڑے گھسیڑے کر لیا کرتی ہوں۔ میں آنکھیں ایک دم نہیں کھولتی، پہلے اپنے ڈیلے پپوٹوں کے اندر ہی اندر گھماتی ہوں، دائیں بائیں نہیں، دائروی صورت میں یوں، جیسے ان کے اندر رس رس کر آنے والی روشنی کو رگڑ رگڑ کر مٹانا چاہتی ہوں، پھر پیوٹے باہم رکھے رکھے پھڑکانے کے بعد دھیرے سے آنکھیں کھول دیتی ہوں ۔میں لگ بھگ ہر روز مشاہدہ کرتی ہوں کہ کثرتِ اِستعمال سے لحاف کے اندر، جہاں سے روئی اپنی جگہ چھوڑ گئی ہے، وہاں سے روشنی جھانکا کرتی ہے۔میں اس جھانکنے والی روشنی کی مقدار اور تیور دیکھ کر اندازہ لگا لیا کرتی ہوں کہ باہر سورج کس قدر اوپر چڑھ آیا ہو گا۔
اگر چہ میں پوری طرح جاگ گئی ہوں مگر لحاف سے نکل آنا اَب بھی مجھے گوارا نہیں ہے۔تب ،کہ جب میں چھوٹی تھی اور ہفتے بھر بعد چھٹی والا دن آتا تھا توبھی مجھے یوں دیر تک بستر پر پڑے رہنا اچھا لگتا تھا۔ماں حسب عادت ایک مقررہ وقت پر دھیمی اور رسیلی آواز لڑھکا کر اپنے کام میں جت جاتی،اور میں دیر تک ایک خواب کی سی کیفیت میں پڑی رہتی۔اب بھی بالکل اسی طرح پڑے رہنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ ماں کی میٹھی پکار میرے کانوں میں قطرہ قطرہ ٹپکتی رہے ۔
’’شینا ۔۔۔شینا‘‘
جب میں لحاف الٹ دینے کا قصد کرتی ہوں تب بھی میرے چاروں طرف ماں کی خوش بو پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔ تاہم مجھے کچھ اور وقت کے لیے اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑتا ہے کہ اعصاب ڈھیلے کر کے پڑے رہنے سے ،میری بوڑھی ہڈیوں پرماس اور اعصابی ریشوں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے حتیٰ کہ پڑے پڑے میراپورا جسم دُکھنے لگتا ہے یوں، جیسے مجھے رات سوتا پاکر ،تہ داراندھیرا میرے اوپر کودتا رہا ہے۔
’’شین ۔۔۔ شین‘‘
’’بھئی اپنی لاڈلی کو سنبھالو، میری چھاتی پر چڑھ کر کود رہی ہے ۔‘‘
میں توصیف کی طرف محبت سے دیکھتی ہوں۔مجھے ان کا محبت سے شین کہنا بہت اچھا لگتا ہے۔جس طرح وہ ہونٹ لٹکا لٹکا کر مجھے پکار رہے ہوتے، اس سے میں جان جاتی کہ وہ محض مجھے اس لیے متوجہ کر رہے ہوتے ہیں کہ میں بھی اُس لطف میں شریک ہو جاؤں جو اُنھیں ننھی تارا کواپنی چھاتی پر چلا کر اور کودنے کے لیے اُکساکر حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔
تارا کلکاریاں مارتے ہوئے تیزی سے پاؤں چلاتی ہے۔ توصیف بے ساختہ ہنستے ہیں۔
میں ہنستے ہوئے اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ ٹانگیں پسار کر بیٹھنے کے بعدجی چاہنے لگا ہے کہ آگے کو جھک کر رانوں کے ڈھیلے گوشت پر دھیرے دھیرے مکیاں برساؤں۔وقفے وقفے سے ماس مٹھیوں میں بھر کر اسے ہڈیوں کے اوپر رگڑتے ہوئے سہلانا بھی بھلا لگ رہا ہے۔
’’شی ۔۔۔ناں‘‘
’’اب بس کرو، ،۔
ماں ہاتھ آگے کر کے مجھے روک دینا چاہتی ہے ۔
’’تم تھک جاؤ گی میری جان‘‘ ۔
وہ محبت اور شکر گزاری کے جذبات سے کہتی ہے مگر میں اس کی پنڈلیاں سہلاتے رہنا چاہتی ہوں ۔
’’نہیں ماں ، میں نہیں تھکوں گی ، ، ۔
میں فوراً کَہ دیتی ہوں اورناراضی کا ناٹک کرتی ہوں۔
’’ لگتا ہے ماں،آپ کو مزہ نہیں آرہا ، کیا میرے ہاتھ سخت ہوگئے ہیں؟‘‘
’’تمھارے ہاتھ تو روئی کے گالے ہیں میری بیٹی،اسی لیے تو کَہ رہی ہوں تم تھک جاؤگی۔‘‘
جب وہ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی ہیں تو میں ماں کی دائیں ہتھیلی میں اوپر کی طرف اورشہادت کی انگلی کی پہلی پور پر ماس کی گانٹھوں کوصاف محسوس کر لیتی ہوں۔
میرے ہوش سنبھالنے تک ابا زندہ نہیں رہے تھے۔ ماں ہی میرا سب کچھ تھیں۔محنت کرتے کرتے اور مجھے پالتے پوستے ان کی ہڈیوں نے کھال چھوڑ دی تھی۔ایک بار وہ پھسل کر گریں ، دائیں ہاتھ سے سہارا لینا چاہا اور کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔یہ ہڈی بعد میں جڑ توگئی مگرجڑی کچھ ایسی بے ڈھب تھی کہ یہ جوڑ ماس کے اندر سے نہ صرف ابھرا ہوا نظر آتا، دیکھنے پر چبھتا ہو ابھی محسوس ہوتا۔ میں ماں کا دایاں ہاتھ تھام کر اس جوڑ کے اوپر اپنی پوروں سے مساج کرتی رہتی اور ہر بار پوچھاکرتی کہ ا نھیں اب بھی اس میں درد تو ہوتا ہوگا؟ ماں ہر بار کھلکھلا کر ہنستی ، یوں جیسے مجھے یقین دِلانا چاہتی ہو کہ اُسے کوئی دَرد وَرد نہیں ہوتا،تاہم ہر بار اُس ہنسی کے وقفے میں بائیاں ہاتھ اسی ابھرے ہوئے جوڑ پر لے جاکر اسے دبانے لگتی۔ماں کی بابت سوچتے سوچتے میرا دِل بھر آتا ہے۔ آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں اور بے اختیار انھیں پکارتی ہوں:
’’ ماں جی‘‘
یوں جیسے وہ سامنے ہی بیٹھی ہوں،میں ان کی طرف دیکھے بغیر دہراتی ہوں ۔
’’ماں جی‘‘
اپنی ہی آواز میری سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔مجھے یوں لگتا ہے، یہ میری آواز نہیں ، تارا کی ہے۔
’’تارا، میری تارا ‘‘
میں چلتے چلتے تارا کی تصویر تک پہنچتی ہوں۔ تارا مسکرا رہی ہے ۔’’تارا میرے وجود کا حصہ‘‘
میں اسے جب بھی پکارتی، اسی طرح مسکرا کر میری طرف دیکھتی اور محبت سے ’’ماں جی‘‘ کَہ دیا کرتی ۔ میں چاہے دس بار پکارتی ، وہ دس بار ہی ’’ماں جی‘‘ کہتی اور ہر بارمحبت سے مسکرا کر دیکھتی۔ وہ جب بھی مسکرا رہی ہوتی، اس کے گال اوپر کو اچھلنے لگتے ۔
توصیف کے ہنسنے پر بھی اس کے گال اوپر کو اُچھلا کرتے تھے ۔
توصیف چلا گیا کہ اسے باہر اچھا چانس ملا تھا ۔ وہاں سے لگ بھگ تین برس تک اس کے خط آتے رہے اور ڈالر بھی ۔ آخری والے خط میں اس نے لکھا تھا کہ جلد ہی اسے گرین کارڈ ملنے والا ہے ۔ بعد میں وہاں سے آنے والوں نے بتایا کہ اس نے وہیں ایک شادی کرلی تھی اور اس کی ایک بچی بھی تھی۔
خیر وہ واپس آجاتا تو میں اسے معاف کر سکتی تھی مگر اس نے اپنی زندگی سے ہمیں کاٹ کر الگ کردیا تھا۔ میری محبت اسے یاد آئی نہ تارا کی ،جو کبھی اس کے وجود کا حصہ تھی۔
’’تارا، میری بچی ‘‘۔میں تصویر اپنی چھاتی سے لگالیتی ہوں اور آنکھیں زور سے میچ کر آنسوؤں کو اپنے گالوں پر بہ جانے دیتی ہوں۔ اتنے توقف کے باوجود تصویر چھاتی سے الگ کرکے اوپر اٹھانے تک ،تارا کو دیکھنے کے لیے مجھے پانی کی دیوار صاف کرنا پڑتی ہے۔تارا کے گال اچھل رہے ہیں اور توصیف کے بھی ، مگر اس بار وہ ہنس نہیں رہے ، یوں لگتا کسی شدید اذیت میں رو دینا چاہتے ہیں۔
میرا دھیان وہیں بندھا رہاتھا ۔ ادھر سے آنے والے عجیب عجیب خبریں دیتے ۔ ان کے پھر اکیلے ہو جانے اور اپنے آپ کو تباہ کر لینے کی۔میں ایک اسکول چلا رہی تھی ، پس انداز کیے ہوئے اتنے وسائل تھے کہ میں ان تک پہنچ جاتی ۔ مجھے نہ جانے کس برتے پریقین ہو چلا تھا کہ اگر میں وہاں چلی جاتی تووہ سب کچھ چھوڑ کر واپس آجاتے، اپنی زندگی کے پاس، اپنی تارا کے پاس مگر میں نہ جاسکی، اور وہ اپنے آپ کو اذیت دیتے ، شراب کی چھینی سے اپنے اندر کو چھلنی کرتے، ایک بار کے اندر مر گئے ۔
میں آپ کی اذیت کو سمجھ سکتی ہوں توصیف۔اور اپنوں سے کترانے کا سبب بھی۔ آپ اپنے بارے میں کسی بھی خبر کوہم تک پہنچنے سے یوں روک دینا چاہتے ہوں گے کہ ہم مزید دکھی نہ ہوں مگر ساری بری خبریں آپ کے نہ چاہنے کے باوجود،ہم تک پہنچتی رہیں، حتیٰ کہ اپنے سامنے رشین ووڈکا کاآدھا پیگ رکھے رکھے،لیری کے ننگے کندھے پر سر رکھ کر چپکے سے مر جانے اوروہاں موجود سب کی توجہ پالینے کی بھی۔
تارا اپنے باپ کے بغیر بڑی ہوتی رہی ، بولنا اور چلنا ایک ساتھ سیکھتی رہی ، تب تک ،توصیف! میںآپ کی جانب سے مایوس نہیں ہوئی تھی۔ میں پوری طرح تو آپ کے مرنے تک مایوس نہیں ہوئی کہ میں ہر بارتارا کے اچھلتے گال چومتی تھی اور آپ کے اچھلتے گال دھیان میں رہتے تھے۔میں اپنے ہونٹ اس کے گال پر رکھنے کے لیے یخ شیشے پر جمادیتی ہوں اور یخ شیشے کے ادھر ہنسی جہاں تھی وہیں جم جاتی ہے۔
میں پچھلے تین دن سے خاموش پڑے ٹیلی فون کو دیکھتی ہوں ، جمعرات سے پہلے یہ نہیں بجے گا۔میری نظریں پھر تارا کی تصویر کھینچ لیتی ہے۔ وہ گال اچھال ہنسی ہنس رہی ہے مگر میں بہت گہرائی سے ابھر آنے والی بے اطمینانی کو محسوس کرکے بے کل ہو جاتی ہوں
’’میرا مرد میرا بہت خیال رکھتاہے‘‘
ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں کے کناروں پر صاف شفاف چمکتے موتیوں کے سے قطرے اگ آتے ہیں۔’’وہ بڑی عمر کا مردہے نا، بہت خیال رکھتا ہے میرا‘‘
وہ میرے جملے کا حوالہ دے کر میری چھاتی پر دکھ کے بوجھ کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ تارا کا میاں اس سے عمر میں لگ بھگ دگنا ہو گا مگر واقعی اس کا بہت خیال رکھتا ہے ۔تارا کو اس نے دنیا کی ہرآسائش مہیا کی ہوئی ہے ۔ اسی کو وہ گھمانے نکلا ہوا ہے ۔ وہ جمعرات سے پہلے واپس نہیں آئیں گے ۔
میں واپس بیڈ پر آکر ٹانگیں لٹکا کربیٹھ جاتی ہوں، حالاں کہ میں جانتی ہوں کہ اس طرح بیٹھنے سے میری ٹانگیں سن ہو جایاکرتی ہیں ۔میری ٹانگیں یخ بستہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔میں سارے کمرے میں نظر دوڑاتی ہوں: ہر کہیں، چھت کے وسط میں نصب فانوس کے قمقموں کی روشنی گھوم رہی ہے۔
میں نے اپنی خواہش کے مطابق گھر بنوایا تھا اور جب یہ پچیس قمقموں والا فانوس لگ چکا توسوچا تھا کہ میں اور تارا اس روشن گھرمیں ہمیشہ رہیں گے حالاں کہ تارا اپنے جس کلاس فیلو سے محبت کرتی تھی، وہ اسے اپنے بوڑھے والدین کے پاس رکھنا چاہتا تھا۔
میں نے منع کر دیا۔ دوسرا، تیسرا، چوتھا ، جو بھی آیا،سب کو منع کرتی رہی ۔ وہ پہلے پہل آنے والوں سے لاتعلق رہی پھر جیسے اسے یقین ہو چلا تھا کہ میں کبھی ہاں نہیں کہوں گی۔ وہ ایک لحاظ سے درست تھی۔مجھے واقعی خدشہ ہوچلا تھا کہ ایک دفعہ کا اقرار مجھے ہمیشہ کے لیے اکیلا کر سکتا تھا۔ وہ چڑچڑی ہو گئی،اتنی کہ بات بے بات میرے ساتھ الجھنے لگتی۔میں اس کو ساتھ رکھ کر بھی اکیلی ہورہی تھی۔ اس سب کے باوجود میں اس بوڑھے مرد سے اسے شادی کرنے پر قائل نہ کرتی اگر مجھے موت کی دھمک سنائی نہ دیتی۔ وقت تیزی سے گزر گیا تھا۔ ایک مدت سے تارا کی طلب میں کوئی نہ آرہا تھا۔ وہ آیا تو میں نے تاراکویہ کَہ کر منالیا تھاکہ بڑی عمر کے مرد بہت خیال رکھاکرتے ہیں۔
’’بڑی عمر کا مرد‘‘
میں بڑبڑاتی ہوں۔ اپنی سن ہوتی ٹانگوں کو کھینچ کر بستر کے اوپر کرنا چاہتی ہوں مگر کوشش کے باوجود اوپر کھینچ نہیں پاتی۔میں بوکھلا جاتی ہوں ،’’ تو کیا موت میری ٹانگوں سے میرے بدن پر چڑھ رہی ہے؟‘‘
میں سر جھکا کر موت کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں ، میں بہ مشکل آگے کو جھکتی ہوں ،اوپر سے برسنے والی روشنی میرے قدموں میں نہیں ہے۔میں کچھ اور زور لگاتے ہوئے آگے کو جھولتی ہوں اور ایک لمحے کے لیے عین قدموں کے درمیان نگاہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہوں۔ وہاں جہاں موت کا چہرہ ہو سکتا تھا۔وہ وہیں ہے ... سیاہ... گول ...چپڑ چپڑ میری پنڈلیاں چاٹنے والا۔میں جتنا زور لگا کر آگے کو جھولی تھی اس سے کہیں تیزی سے پیچھے کی سمت گرتی ہوں، اتنی سرعت سے گرنے کے دورانیے میں ہی میں یہ بھی جان جاتی ہوں کہ میری پنڈلیاں چاٹنے والی موت تھوتھن جیسی ہے۔میں پرسکون رہنے کے لیے ان سب کو یاد کیے جانے کی کوششیں جاری رکھناچاہتی ہوں جو میری زندگی میں کسی نہ کسی طرح شامل رہے ۔ مگر تھوتھن...
یہ بھی تو میری زندگی میں دخیل رہا ہے۔ وہ گھٹنوں کو جکڑ کر اوپر چڑھتا ہے۔ میری رانوں کا ڈھیلا گوشت ، یوں لگتا ہے جیسے تن گیا ہے۔
249249تھوتھن ... بھ ...‘‘نامکمل سسکاری میرے ہونٹوں پر سرسراتی ہے۔
بڑی عمر کا مرد میرے دھیان میں ہے، ہونٹوں کے اوپر سفید جھولتی مونچھوں والا ۔ اعصاب ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں ۔ یوں ،جیسے کہ میں وہاں نہیں ہوں ،کہ وہاں تو تارا ہے ۔
تھوتھن کی گیلی تھوتھنی سے بچانے کے لیے وہ اپنا بدن سمیٹ لینے کے جتن کرتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری انگلیاں میری ہتھیلیوں میں سمٹ رہی ہیں۔
لجلجا اندھیرا رانوں پر گدگدی کرتا ہے۔اس کی تھوتھنی سے آگے کو جھولتی مونچھیں سانسوں میں رخنے ڈالتی ہیں تو مجھے ابکائی آجاتی ہے۔
میرے حلق کو چیر کر بہ نکلنے والاگیلا پن میری گردن سے نیچے تک بہتا جا رہا ہے۔اندھیرا بدن چاٹتا اوپراٹھ رہا ہے۔ اندھیرا نہیں لجلجاتھوتھن۔ وہ کلیجا چبانے کے بعد گردن دبوچتا ہے جب کہ میں اندازہ لگانے کے جتن کررہی ہوں کہ ہم دونوں میں سے کون ہے جو اس کا لقمہ بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔