بابا بلھے شاہ کی نگری سے

بابا بلھے شاہ کی نگری سے

Feb 14, 2025

مصنف

صائمہ صبیح

شمارہ

شمارہ -٨ ٢

بابا بلھے شاہ کی نگری سے

صائمہ صبیح

کچھ اسفار ایسے ہوتے ہیں جو سفر در سفر ،رہگزر در رہگزر کسی اور ہی نگری میں لے جاتے ہیں جہاں رنگ و نور ،دھوپ و سائے ،خواب و حقیقتیں مل کر ایک نیا نقش بناتے ہیں : اک نقش دوام !!!

اس بار بلاوا بابا بلھے شاہ کی نگری سے تھا : رامائن کے رام چندر کے بیٹے قسو کی سرزمین چھتنار درختوں ،گھنے چھاؤں اور چھدری دھوپ کی سر زمین قسو پور یعنی موجودہ قصور !!!

قافلہ محبت کا پہلا پڑاؤ گورنمنٹ کالج قصور تھا جہاں گھنے درختوں اور وسیح و عریض لان ،لمبے برآمدے برسوں پرانے طالب علمی کے زمانے میں لے گئے: وہی لال خشتی دیواریں ،دورویہ درختوں کی گھنیری قطاریں ، ہرے بھرے سبز قطعے ،جن کے حاشیوں پہ پھلواریاں یوں سجی تھیں جیسے سبز دوپٹوں کے کنارے سنجاف !!!

کبھی کبھی کوئی موجود منظر بیتے ہوئے منظروں کا ہو بہو یوں پَرتو بن جاتے ہیں خبر ہوئی !!!

بہت ہی خوبصورت میزبانوں کی خوبصورت و بامعنی باتوں کے فیض ،کتابوں اور بہت سی عزت و تکریم کی سوغاتیں سمیٹے ہوئے اگلا پڑاؤ قصور کا عجائب خانہ تھا جہاں گزرے وقت کو شیشے کی الماریوں میں دھجی دھجی قید کرنے کی سعی کی گئی تھی ،تانبے اور مٹی کے زیوارت ، مٹی کے کھلونے، مٹی و دھاتی ظروف ،سامان حرب و جنگ اور اشیاء روز مرہ ، پرانے نوٹ و سکے تاریخ کے جگزا پزل کے گمشدہ ٹکڑوں سے کچھ ٹکڑے تھے !

ان پانچ گیلریوں میں شیشے کی ان الماریوں کے سامنے کھڑے پل بھر کو سینکڑوں سال پرانے انسان کے بارے میں سوچتے ہوئے یہی سوچ پائے کہ موجودہ دور کے ترقی یافتہ آلات کے بجز ایک سطح پہ ہم جیسے انسان ہونگے محبت ،نفرت ، غمی ،خوشیوں اور دیگر جذبوں میں ہم سرشت !!!

عجائب گھر سے محلق شیر شاہ سوری کے ایک نامور وزیر اور علاقہ انچارج وکیل خان کا مقبرہ ایک انتہائی بلند و بالا عمارت میں تھا جس کے اوپر ایک بہت بڑا سفید رنگ گنبد تھا ،ایک بہت دل آویز آبنوسی رنگ منقش چوبی دروازہ اس بلند و بالا حجرے میں کھلتا تھا جہاں سبز چادر سے ڈھکا ہوا مرقد بلکل سامنے تھا ( اپنے اندر اپنے مکین کی کتنی ہی ان کہی و ان سنی کہانیاں لیے ہوئے ) عمارت کی مخروطی چھت پہ گلکاری کہیں کہیں سے جیسے وقت کے کھردرے ہاتھوں کا شکار ہو گئی تھی ، چوڑی چوڑی خشتی دیواریں اپنے اندر عجیب سی نمیدہ ٹھنڈک سموئے ہوئے تھیں ، پل بھر کو تو یوں گماں ہوا جیسے وقت کی رَو نے اپنے سفر مسلسل سے تھک کر یہیں کہیں مزار کے کسی نادیدہ گوشے میں کہیں پڑاؤ ڈال لیا ہو !

دن کا پہلا پہر اپنے اختتام پہ تھا جب ہم بابا بلھے شاہ کے دربار کے سامنے تھے ، داخلی دروازے سے ہاتھوں میں سرخ مخملی چادر جسکے کنارے پہ سنہری گوٹ تھی چاروں طرف سے تھامے ہوئے بصدِ احترام کشادہ سے صحن سے ہوتے ہوئے مزار کی طرف بڑھتے ہوئے (یہ محبت کا ایک انتہائی خوبصورت اظہاریہ تھا ایسا ہی خوبصورت جیسے بابا صاحب کی آخری آرام گاہ تھی ) اونچے سے گنبد ،نیلے و سبز رنگ کی شیشے کی ٹائیلوں سے سجی عمارت جس میں کندہ کاری اور خطاطی سے مزین داخلی دروازے سے ہو کر اندر جایا جاتا ہے ، مقبرے کے حجرے کی دیواروں میں بےحد خوبصورت سپید خشتی جالی دار کھڑکیاں (جن سے باہر مریدین اندر مزار کا دیدار کر سکتے ہیں ) گل بوٹوں کی مینا کاری اور بابا صاحب کے صوفیانہ اشعار سے مزین دیواروں اور بہت بلند نقش کاری سے سجی گول مخروطی چھت جس میں کتنے ہی دریچہ نما روشن دان روشنی کا وسیلہ ہیں اور جس کے وسط سے نیچے کو معلق ایک بہت دیدہ زیب فانوس ،ایسا ہی روشن جیسے آپ کی صوفیانہ تعلیمات، تازہ مشک بُو گلاب کی لال پتیوں اور خوش رنگ چادر سے ڈھکا ہوا مزار اقدس جو قصور شہر کا سرناوا بن گیا ہے دل کو عجیب سی کیفیات سے ہم آمیز کر رہا تھا !!!

چل بلیا اوتھے چلیے جتھے سارے اَنہے

نہ کوئی ساڈی ذات پُچھے نہ کوئی سانوں مَنے

جیسے اشعار کہنے والے اس مہان شاعر کو کیا خبر تھی کہ جس کا جنازہ ایک خواجہ سرا پڑھائے گا اور جس کو مدفن کے لیے پورے شہر کے کسی قبرستان میں کوئی جگہ نہیں ملے گی ، شہر سے دو میل باہر اس کی گمنام گور کے گرد شہر آباد ہوگا جہاں روزانہ کتنے ہی چاہنے والے اس کی آخری آرام گاہ پہ اسکو سلام محبت پیش کرنے دور دور سے آئیں گے !!!

چادر پوشی اور دعائے محبت کے بعد ہم سبز چادروں اور گلاب کے سرخ پھولوں کے ہاروں میں سجے نیاز کے مکھانے کھاتے ہوئے ،بابا جی کے دربار کی شانتی و سکون بھرے وسیع احاطے میں آگئے !!!

قریں ہی شیشے کے شو کیس میں بابا صاحب کے استعمال میں رہنے والی گودڑی ، کلاوہ اور ستار کا دیدار عقیدت مندوں کو اپنی اَور کھینچ رہا تھا !!!

بابا بلھے شاہ آکھدن

عشق تے اگ دوے اک برابر

پر عشق دا سیک ودھیرا

آگ تے ساڑے ککھ تے کانے

عشق ساڑے تن میرا

اگ دا دارو منیہ تے پانی

مینوں دسو عشق دا دارو کہیڑا

بھلے شاہ اوتھے کج نئیں بچدا

جتھے عشق نے لایا ڈیرا

دربار کے ایک سمت تیل کے دیا جلانے کی رسم جاری تھی ، مٹی کے دیوں کو تیل سے بھرے بھر کے دیتے ہوئے منظور صاحب ساتھ ساتھ میں بابا صاحب کا کلام بھی سناتے اور سمجھاتے جا رہے تھے ایک عجیب سی عقیدت کے لہجے میں ،تیل سے بھرے مٹی کے دیوں کو جلا کر ہم سب نے مولا حسین کے صدقے آنکھیں بند کیے دل کی جانے کتنی ہی مرادیں مانگ لیں !!!

دربار کے دوسری سمت لمبے محرابی برآمدوں کے قریں سے ہی ایک قوال اور انکی میراث کے وارث کے ہارمونیم پہ بابا صاحب کے دلنشیں کلام نے اپنی اَور کھینچ لیا ،جھلسی رنگت والے فنکار جو سینہ بہ سینہ بابا بلھے شاہ سے رسم محبت نبھاتے چلے آرہے تھے نہ صرف کلام بلکہ کلام کی تفسیر بھی پیش کر رہے تھے ، محبت سے بھری یہ روحیں ،جن کے موسموں کی سختی سے جُھلسے چہرے دنیا کے سب سے جمیل چہرے تھے ، آسماں کی چوٹیوں پہ گرتی برف کی طرح شفاف و پاکیزہ !!!

دربار کے داخلی دروازے کے بلکل سامنے مزار کے قریں صدیوں پرانے پیڑ کی چھاؤں نے جیسے تمازت بھری اس دوپہر میں بھینچ لیا اک شیتل ٹھنڈک کے حصار میں جس میں دنیا و مافہیا سے بےنیاز پہروں ،بابا صاحب کے کلام کے گیان میں گزارے جا سکتے تھے !!!

سلام عقیدت کے بعد اگلا پڑاؤ گنڈا سنگھ بارڈر پہ حسین والا چوکی پہ دو ہمسایہ ملکوں کا مشترکہ پریڈ گراؤنڈ تھا ،پوری فضا ملی ترانوں کی دھمک سے گونج رہی تھی ،جانے کیوں مجھے اس سمے اپنے وطن کے زخم زار بولان سے پارا چنار تک یاد آگئے اور آنکھوں کی کھارے پانیوں کی جھیلیں بے اختیار چھلک گئیں !!!

رکاوٹوں کے اُس پار بھی ہمارے جیسے ہی لوگ تھے ،ایک جیسا پیراہن ،ایک سے نین نقش ، ان کانٹے دار تاروں کے آر پار ہوا کے جھونکے تو منائقے کر سکتے تھے ،پنکھ پکھیرو بھی اڑ کر جا سکتے تھے لیکن ایک جیسے انسانوں کو ایک دوسرے کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالنے کا اذن تک نہ تھا !!!

شام کی آہٹیں فضا میں گونج رہی تھیں جب شہر قصور کے قدیم بازاروں کی پر پیچ گلیوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ، کسی بھی قدیمی بازار کی طرح چھوٹی چھوٹی دکانیں کانچ کی چوڑیوں سے لے کڑھائی شدہ مخملیں پارچہ جات تک ،تلی ہوئی تازہ پانی کی مچھلی سے لے اندرسوں و فالودہ تک کیا کچھ دستیاب نہیں تھا !!!

قسو پور آئیں اور سرسوں کے تیل میں تلی مولوی کی دریائی مچھلی نہ کھائیں ،یہ کیسے ہو سکتا تھا !!!

قصور یاترا کا آخری پڑاؤ ملکہ ترنم کے استاد صاحب کے بیٹے نعیم خان صاحب سے ملاقات تھی ، میڈم نور جہاں کی پرستاروں کے تجسس بھرے سوال تھے ، سُر سرگم کی بہت سی باتیں تھیں شعر و سخن کے تڑکے کے ساتھ !!!

گہری ہوتی رات جیسے اب واپس لوٹنے کا کہنے لگی ، نامعلوم رستوں پہ چلتی سواری میں لتا جی اور رفیع صاحب کے گیتوں کے سنگ بہت سی گنگناہٹیں تھیں ،بہت سی یادیں تھیں ،بہت سی ان کہی باتیں تھیں جنہیں کسی نظم ،کسی افسانے کا متن بننا تھا !!!

صائمہ صبیح

محبت نگری

اس یاترا کے تمام ارکان محترمہ کنول بہزاد جنہوں نے ہمارے خواب کو عملی تعبیر دی اور محترم برادر یاسین بیگ جن کی کاوش سے ان مقامات تک بہ احسن خوبی رسائی حاصل ہوئی اور جنہوں نے ایک پُر شفیق بھائی کی طرح سب بہنوں کا حد سے بڑھ کر خیال رکھا کے انتہائی مشکور ہیں .

بابا بلھے شاہ کی نگری سے

صائمہ صبیح

کچھ اسفار ایسے ہوتے ہیں جو سفر در سفر ،رہگزر در رہگزر کسی اور ہی نگری میں لے جاتے ہیں جہاں رنگ و نور ،دھوپ و سائے ،خواب و حقیقتیں مل کر ایک نیا نقش بناتے ہیں : اک نقش دوام !!!

اس بار بلاوا بابا بلھے شاہ کی نگری سے تھا : رامائن کے رام چندر کے بیٹے قسو کی سرزمین چھتنار درختوں ،گھنے چھاؤں اور چھدری دھوپ کی سر زمین قسو پور یعنی موجودہ قصور !!!

قافلہ محبت کا پہلا پڑاؤ گورنمنٹ کالج قصور تھا جہاں گھنے درختوں اور وسیح و عریض لان ،لمبے برآمدے برسوں پرانے طالب علمی کے زمانے میں لے گئے: وہی لال خشتی دیواریں ،دورویہ درختوں کی گھنیری قطاریں ، ہرے بھرے سبز قطعے ،جن کے حاشیوں پہ پھلواریاں یوں سجی تھیں جیسے سبز دوپٹوں کے کنارے سنجاف !!!

کبھی کبھی کوئی موجود منظر بیتے ہوئے منظروں کا ہو بہو یوں پَرتو بن جاتے ہیں خبر ہوئی !!!

بہت ہی خوبصورت میزبانوں کی خوبصورت و بامعنی باتوں کے فیض ،کتابوں اور بہت سی عزت و تکریم کی سوغاتیں سمیٹے ہوئے اگلا پڑاؤ قصور کا عجائب خانہ تھا جہاں گزرے وقت کو شیشے کی الماریوں میں دھجی دھجی قید کرنے کی سعی کی گئی تھی ،تانبے اور مٹی کے زیوارت ، مٹی کے کھلونے، مٹی و دھاتی ظروف ،سامان حرب و جنگ اور اشیاء روز مرہ ، پرانے نوٹ و سکے تاریخ کے جگزا پزل کے گمشدہ ٹکڑوں سے کچھ ٹکڑے تھے !

ان پانچ گیلریوں میں شیشے کی ان الماریوں کے سامنے کھڑے پل بھر کو سینکڑوں سال پرانے انسان کے بارے میں سوچتے ہوئے یہی سوچ پائے کہ موجودہ دور کے ترقی یافتہ آلات کے بجز ایک سطح پہ ہم جیسے انسان ہونگے محبت ،نفرت ، غمی ،خوشیوں اور دیگر جذبوں میں ہم سرشت !!!

عجائب گھر سے محلق شیر شاہ سوری کے ایک نامور وزیر اور علاقہ انچارج وکیل خان کا مقبرہ ایک انتہائی بلند و بالا عمارت میں تھا جس کے اوپر ایک بہت بڑا سفید رنگ گنبد تھا ،ایک بہت دل آویز آبنوسی رنگ منقش چوبی دروازہ اس بلند و بالا حجرے میں کھلتا تھا جہاں سبز چادر سے ڈھکا ہوا مرقد بلکل سامنے تھا ( اپنے اندر اپنے مکین کی کتنی ہی ان کہی و ان سنی کہانیاں لیے ہوئے ) عمارت کی مخروطی چھت پہ گلکاری کہیں کہیں سے جیسے وقت کے کھردرے ہاتھوں کا شکار ہو گئی تھی ، چوڑی چوڑی خشتی دیواریں اپنے اندر عجیب سی نمیدہ ٹھنڈک سموئے ہوئے تھیں ، پل بھر کو تو یوں گماں ہوا جیسے وقت کی رَو نے اپنے سفر مسلسل سے تھک کر یہیں کہیں مزار کے کسی نادیدہ گوشے میں کہیں پڑاؤ ڈال لیا ہو !

دن کا پہلا پہر اپنے اختتام پہ تھا جب ہم بابا بلھے شاہ کے دربار کے سامنے تھے ، داخلی دروازے سے ہاتھوں میں سرخ مخملی چادر جسکے کنارے پہ سنہری گوٹ تھی چاروں طرف سے تھامے ہوئے بصدِ احترام کشادہ سے صحن سے ہوتے ہوئے مزار کی طرف بڑھتے ہوئے (یہ محبت کا ایک انتہائی خوبصورت اظہاریہ تھا ایسا ہی خوبصورت جیسے بابا صاحب کی آخری آرام گاہ تھی ) اونچے سے گنبد ،نیلے و سبز رنگ کی شیشے کی ٹائیلوں سے سجی عمارت جس میں کندہ کاری اور خطاطی سے مزین داخلی دروازے سے ہو کر اندر جایا جاتا ہے ، مقبرے کے حجرے کی دیواروں میں بےحد خوبصورت سپید خشتی جالی دار کھڑکیاں (جن سے باہر مریدین اندر مزار کا دیدار کر سکتے ہیں ) گل بوٹوں کی مینا کاری اور بابا صاحب کے صوفیانہ اشعار سے مزین دیواروں اور بہت بلند نقش کاری سے سجی گول مخروطی چھت جس میں کتنے ہی دریچہ نما روشن دان روشنی کا وسیلہ ہیں اور جس کے وسط سے نیچے کو معلق ایک بہت دیدہ زیب فانوس ،ایسا ہی روشن جیسے آپ کی صوفیانہ تعلیمات، تازہ مشک بُو گلاب کی لال پتیوں اور خوش رنگ چادر سے ڈھکا ہوا مزار اقدس جو قصور شہر کا سرناوا بن گیا ہے دل کو عجیب سی کیفیات سے ہم آمیز کر رہا تھا !!!

چل بلیا اوتھے چلیے جتھے سارے اَنہے

نہ کوئی ساڈی ذات پُچھے نہ کوئی سانوں مَنے

جیسے اشعار کہنے والے اس مہان شاعر کو کیا خبر تھی کہ جس کا جنازہ ایک خواجہ سرا پڑھائے گا اور جس کو مدفن کے لیے پورے شہر کے کسی قبرستان میں کوئی جگہ نہیں ملے گی ، شہر سے دو میل باہر اس کی گمنام گور کے گرد شہر آباد ہوگا جہاں روزانہ کتنے ہی چاہنے والے اس کی آخری آرام گاہ پہ اسکو سلام محبت پیش کرنے دور دور سے آئیں گے !!!

چادر پوشی اور دعائے محبت کے بعد ہم سبز چادروں اور گلاب کے سرخ پھولوں کے ہاروں میں سجے نیاز کے مکھانے کھاتے ہوئے ،بابا جی کے دربار کی شانتی و سکون بھرے وسیع احاطے میں آگئے !!!

قریں ہی شیشے کے شو کیس میں بابا صاحب کے استعمال میں رہنے والی گودڑی ، کلاوہ اور ستار کا دیدار عقیدت مندوں کو اپنی اَور کھینچ رہا تھا !!!

بابا بلھے شاہ آکھدن

عشق تے اگ دوے اک برابر

پر عشق دا سیک ودھیرا

آگ تے ساڑے ککھ تے کانے

عشق ساڑے تن میرا

اگ دا دارو منیہ تے پانی

مینوں دسو عشق دا دارو کہیڑا

بھلے شاہ اوتھے کج نئیں بچدا

جتھے عشق نے لایا ڈیرا

دربار کے ایک سمت تیل کے دیا جلانے کی رسم جاری تھی ، مٹی کے دیوں کو تیل سے بھرے بھر کے دیتے ہوئے منظور صاحب ساتھ ساتھ میں بابا صاحب کا کلام بھی سناتے اور سمجھاتے جا رہے تھے ایک عجیب سی عقیدت کے لہجے میں ،تیل سے بھرے مٹی کے دیوں کو جلا کر ہم سب نے مولا حسین کے صدقے آنکھیں بند کیے دل کی جانے کتنی ہی مرادیں مانگ لیں !!!

دربار کے دوسری سمت لمبے محرابی برآمدوں کے قریں سے ہی ایک قوال اور انکی میراث کے وارث کے ہارمونیم پہ بابا صاحب کے دلنشیں کلام نے اپنی اَور کھینچ لیا ،جھلسی رنگت والے فنکار جو سینہ بہ سینہ بابا بلھے شاہ سے رسم محبت نبھاتے چلے آرہے تھے نہ صرف کلام بلکہ کلام کی تفسیر بھی پیش کر رہے تھے ، محبت سے بھری یہ روحیں ،جن کے موسموں کی سختی سے جُھلسے چہرے دنیا کے سب سے جمیل چہرے تھے ، آسماں کی چوٹیوں پہ گرتی برف کی طرح شفاف و پاکیزہ !!!

دربار کے داخلی دروازے کے بلکل سامنے مزار کے قریں صدیوں پرانے پیڑ کی چھاؤں نے جیسے تمازت بھری اس دوپہر میں بھینچ لیا اک شیتل ٹھنڈک کے حصار میں جس میں دنیا و مافہیا سے بےنیاز پہروں ،بابا صاحب کے کلام کے گیان میں گزارے جا سکتے تھے !!!

سلام عقیدت کے بعد اگلا پڑاؤ گنڈا سنگھ بارڈر پہ حسین والا چوکی پہ دو ہمسایہ ملکوں کا مشترکہ پریڈ گراؤنڈ تھا ،پوری فضا ملی ترانوں کی دھمک سے گونج رہی تھی ،جانے کیوں مجھے اس سمے اپنے وطن کے زخم زار بولان سے پارا چنار تک یاد آگئے اور آنکھوں کی کھارے پانیوں کی جھیلیں بے اختیار چھلک گئیں !!!

رکاوٹوں کے اُس پار بھی ہمارے جیسے ہی لوگ تھے ،ایک جیسا پیراہن ،ایک سے نین نقش ، ان کانٹے دار تاروں کے آر پار ہوا کے جھونکے تو منائقے کر سکتے تھے ،پنکھ پکھیرو بھی اڑ کر جا سکتے تھے لیکن ایک جیسے انسانوں کو ایک دوسرے کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالنے کا اذن تک نہ تھا !!!

شام کی آہٹیں فضا میں گونج رہی تھیں جب شہر قصور کے قدیم بازاروں کی پر پیچ گلیوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ، کسی بھی قدیمی بازار کی طرح چھوٹی چھوٹی دکانیں کانچ کی چوڑیوں سے لے کڑھائی شدہ مخملیں پارچہ جات تک ،تلی ہوئی تازہ پانی کی مچھلی سے لے اندرسوں و فالودہ تک کیا کچھ دستیاب نہیں تھا !!!

قسو پور آئیں اور سرسوں کے تیل میں تلی مولوی کی دریائی مچھلی نہ کھائیں ،یہ کیسے ہو سکتا تھا !!!

قصور یاترا کا آخری پڑاؤ ملکہ ترنم کے استاد صاحب کے بیٹے نعیم خان صاحب سے ملاقات تھی ، میڈم نور جہاں کی پرستاروں کے تجسس بھرے سوال تھے ، سُر سرگم کی بہت سی باتیں تھیں شعر و سخن کے تڑکے کے ساتھ !!!

گہری ہوتی رات جیسے اب واپس لوٹنے کا کہنے لگی ، نامعلوم رستوں پہ چلتی سواری میں لتا جی اور رفیع صاحب کے گیتوں کے سنگ بہت سی گنگناہٹیں تھیں ،بہت سی یادیں تھیں ،بہت سی ان کہی باتیں تھیں جنہیں کسی نظم ،کسی افسانے کا متن بننا تھا !!!

صائمہ صبیح

محبت نگری

اس یاترا کے تمام ارکان محترمہ کنول بہزاد جنہوں نے ہمارے خواب کو عملی تعبیر دی اور محترم برادر یاسین بیگ جن کی کاوش سے ان مقامات تک بہ احسن خوبی رسائی حاصل ہوئی اور جنہوں نے ایک پُر شفیق بھائی کی طرح سب بہنوں کا حد سے بڑھ کر خیال رکھا کے انتہائی مشکور ہیں .

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024