عجب کتاب
عجب کتاب
Jan 23, 2019
ڈاکٹر پرویز احمد کا شعری مجموعہ
دیدبان شمارہ ۔۹
عجب کتاب
عذرا نقوی
میرے مرحوم شوہر ڈاکٹر پرویز احمد نے اپنا شعری مجموعہ ’’ مر گیا ہدُہُد ‘‘ کے نام سے خود ہی کمپوز کی تھا ، فوٹو کاپی کرائی تھی اور اس کی صرف دس جلدیں بندھوا کرا پنے خاص دوستوں کو دی تھیں۔ اکتوبر میں ان کی پانچویں برسی کے موقع پر میں یادوں گلیوں میں گھوم رہی تھی ، کمپیوٹر میں یہ مضمون جو میں نے اس کتاب کے پیش لفظ کے طور پر لکھاتھا نظر آیا تو دل چاہا کہ اس عام کروں ۔
’’مر گیا ھُد ھُدـــــ‘ ‘ اک انوکھے نام کی کتاب آپ کے سامنے ہے۔ میرے شریک ِ حیات ڈاکٹر پرویز احمد کی اس تخلیق سے میرا بہت پرانا رشتہ ہیــــ ــ ۔ جب نہ یہ غزلیں تھیں اور نہ ہی اس شعری مجموعے کا کوئی پلان ذہن میں تھا۔
کمپیوٹر سائنس(Computer Science) شاعری میرا شوق ہے۔ پرویز
کے پروفیسر ہیں۔ پہلے ہوتا یوں تھا کہ میں نے کوئ اچھی چیز پڑھی یا لکھی تو انہیں سنا دی کیونکہ وہ اپنی پڑھائ اور ریسرچ میں اتنا غرق رہتے تھے کہ ادب پڑھنے کے لیے ان کو وقت نہیں ملتا تھا۔ لیکن فنونِ لطیفہ سے پرویز کو ہمیشہ شغف رہا ہے۔مو سیقی، خاص کر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور غزلیں ، بہت جذب کے عالم میں سُنتے ہیں۔ جب مصوّری کا موڈ ہوتا ہے توکینوس پر قدرتی مناظر بناتے مٹاتے رہتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ان کے فکر و ا حساس نے اک اور راہِ شوق اپنائی ، وہ تھی شاعری کی ڈگر ۔ شاعری ویسے تو ان کو ورثے میں ملی ہے ۔ان کے والد انورؔ اعظمی مرحوم ایک صحافی اوربہت اچھے شاعرتھے۔ اعظم گڑھ ( یو ۔پی ) میں ان کے گھر پر شاعری کا چرچا رہتا تھا ۔ پچھلے چار برسوں میں ا ُن کا شاعری سے شغف بہت دلچسپ انداز سے بڑھتا گیا ۔ پرویز نے دو چار غزلیں کناڈا میں لکھی تھیں جب وہ کمپیو ٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈِگری کر رہے تھے ۔
مانٹریال، کینڈا نے،جہاں ہم دونوں نے زندگی کے دس حسین سال گُزارے ہیں، ان کے فنونِ لطیفہ کے شوق کو اور جِلا دی۔مانٹیر یال فنونِ لطیفہ کا گڑھ ہے۔ شہر کے پارکوں ، کیفے،میٹرو کے اسٹیشنوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے موسیقار، مصور، شاعر آزادانہ ا پنے فن کا
اِس شہر میں سارے سال جشن کا سا سماں رہتا ہے ۔ مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔
کبھی جیز (JAZZ) تو کبھی فلم فیسٹیول ہو رہا ہے، تو کبھی لاطینی موسیقی کے گروپ کا اوپن ائیر کانسرٹ کر رہا ہے اور ہندوستانی رقص و مو سیقی کےپروگرام منعقد ہو رہے ہیں ۔ اِسی شہر میں روی شنکر، بھیم سین جوشی، ہری پرساد چورسیا، اُستاد ذاکِر حسین جیسی شخصیتوں سے ملنے اور ان کے فن کو دیکھنے اور سننے کا موقع مِلا۔
اِسی شہر میں برِّ صغیر کے اُردو، ھندی ، انگریزی، بنگلہ، مرا ٹھی، گجراتی ۔ ملیالی کے مایہ ناز ادبا اور شعرا کے ساتھ ملاقاتیں ہویئں۔ مانٹریال میں ہم لوگ
میں رہتے تھے ۔student Ghetto اسٹوڈنٹ گیٹو
میکگل یونیورسٹی،یوینورسٹی آف مانٹریال اور کونکورڈیا یونورسٹی کے طالب علموں اور استادوں سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیالات ہوتے تھے ۔ ان دس برسوں میں ہم نے علم وفن کے بہت سے خزانے پائے۔
میں تو مانٹریال کی یادوں میں کھو گئی، بات ہو رہی تھی پرویز کے فنونِ لطیفہ سے دلچسپی کی۔ جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ پچھلے چار برسوں میں پرویز کی شاعرانہ صلاحیتوں نے اپنا جلوہ دکھایا۔ ریاض کی ادبی محفلوں میں ان کا یہ شوق بہت دلچسپ انداز سے بڑھتا چلا گیا ۔ شروع شروع میں وہ شعری نشستوں میں لوگوں کی غزلوں کی فی البدیہہ پیروڈی کرتے یا اپنی مزاحیہ شاعری سُناتے۔
پرویز جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو سرسری طور پر نہیں کرتے۔ ان کے ہر کام میں اک انفرادیت اور جدّت ہوتی ہے۔ انھوں نے شاعری کی راہ اپنا ئی تو میرؔ و غالبؔ کے دیوان اُن کا اوڑھنا بچھونا ہو گئے۔ فنِ عروض کے رموز و نکات سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز زندگی کو اک کمٹمنٹ Committment
کی طرح دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ، سماجی شعور و بصیرت ، فکر و احساس ان کی شاعری میں جھلکنے لگے۔ میں ان کی شاعری کو رولر کوسٹر کہتی تھی۔ یعنی ایک ہی غزل میں ہلکے پھلکے مزاحیہ اشعاربھی شامل ہوتے ہیں، خوبصورت رومانی شعر بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے، دنیا کے مسائل اورسیاسی معاملے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پرویز اکژ کسی بہت سنجیدہ غزل میں اک بھر پور طنز یا مِزاح کا شعر شامل کر دیتے ہیں تو میں ان سے بحث کرتی ہوں
لیکن وہ قائل نہیں ہوتے۔ مثلااک غزل میں یہ دو اشعار کتنے مختلف مزاج کے ہیں۔
یارب وہ خواب خواب ہو جس خواب میں مجھے
بکھرے شکستِ خواب پرندوں کے پر ملے
عینک لگا کے بھی جنھیں آتا نہیں نظر
وہ چاہتے ہیں اُن کو بھی جادو نظر ملے
میں نے ان کی شاعری کا جب معروضی انداز سے جائزہ لیا تو سوچا، جس طرح زندگی کے ہزار رنگ ہیں، دھوپ چھا ؤں ہے، آنسو ہیں ، ہنسی ہے، اور سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اسی طرح انسان کی شخصیت کے ہزار روپ ہیں اور موڈ ہیں۔ سب دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو پھر شاعری جو اظہارِ ذات ہے اور زندگی کا پرتو ہے، تو پھر اسے کیوںبندھے ٹکے سانچے میں قید کریں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کوئی بہت سنجیدہ بات کرتے کرتے کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتے ہیں۔
اُردو ادب اور شاعری میں یوں بھی نئے تجربات، نیا ڈکشن،موضوعات، نئے پیرائے اظہارذرا مشکل سے ہی قابلِ قبول ہوتے ہیں۔’’مر گیا ھُد ھُد ‘‘ اُردو ادب کے لیئے ذرا ٹیڑھی کھیر ہو گی۔ یہ جرأت ، انفرادیت، اور تنوع کا اک نمونہ ہے۔ کتاب کا نام ہی عجیب ہے ۔ لیکن جدّت کے ساتھ ساتھ پرویز روایت سے اپنا رشتہ نہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ اُن کا یہ شعر اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔
روایت کے ہر اک نسخے میں شامل
نیا اک باب ہونا لازمی ہے
وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اساتذہ کی روایت سے الگ ہو کر کوئی شاعری ہو ہی نہیں سکتی ۔
میرؔ و غالبؔ کی شاعری پڑھ کر
یوں مزاج اپنا شاعِرانہ ہوا
روایت کا احترام انھوں نے میرؔ و غالبؔ اور دوسرے شعراء کی زمینوں میں غزلیں کہہ کر کیا ہے۔
ہے غزل یہ زمینِ غالبؔ میں
’’حق تو یہ ہے کہ حق ا دا نہ ہوا‘‘
غالبؔ کی ’’ میرے بعد‘‘ والی ردیف میں انھوں نے مزاحیہ غزل کہی ہے اس کا اک شعر ملاحظہ ہو۔
تیرے خط کی یہاں بٹ جاتی ہے فوٹو کاپی
میں نہیں جانتا کس کس نے پڑھا میرے بعد
میرے خیال میں یہ شعر اردو غزل کے بدلتے مزاج کا آئینہ دار ہے ۔ خط اور نامہ بر کی روایت سے لے کر خط کی فوٹو کاپی بٹ جانے میں اک صدی گذر جاتی ہے اور روایت سے جدت کا رشتہ قائم رہتا ہے۔
پرویز نے کچھ غزلوں میں جانوروں اور پرندوں کے نام کو ردیف میں استعمال کیا ہے جو میرے خیال میں یہ ایک نیا تجربہ ہے اور بہت کامیاب تجربہ ہے۔
بند پنجرے سے ڈر گیا ھُد ھُد۔سچ سے ایسے مُکر گیا ھُد ھُد
کاش رکھتا نہ سر پہ تو کلغی۔دیکھ تیرا بھی سر گیا ھُد ھُد
دیکھ کر پر کٹے پرندوں کو ۔اپنے ہونے سے ڈر گیا ہد ہد
کیسے پگڑی اُچھالتے بندر۔یار اگر ہم نہ پالتے بندر
سورج کے سنگ اُٹھے گی چِڑیا۔دِن بھر دھوپ سہے گی چِڑیا
چونچ میں پکڑے دانہ دِن بھر۔بس خاموش رہے گی چِڑیا
پھولوں کی رُت آنے تو دو۔ اُڑ کر آن ملے گی چڑیا
اس کتاب کے تمام مراحل کی میں ساجھی ہوں ، غزل اور نظم کب کہی گئی ، اس کا کیا محرک تھا ، کس موڈ میں کہی گئی تھی ، اس کی نوک پلک کیسے درست کی گئی تھی۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے مراحل بھی بہت دلچسپ تھے۔ عموماً شاعراپنا کلام جمع کر کے ناشر کو دے دیتے ہیں ، لیکن پرویز نے اس کتاب کی ٹائپنگ ، ایڈٹنگ ، Formating اور گرافکس سب خود ہی کی ہے۔ میرے خیال میں اس اعتبار سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی تخلیق ہے جہاں شاعر اوّل تا آخیر اپنی تخلیق کو قارئین تک پہنچانے میں شامل ہے۔ جس دیدہ ریزی سے انھوں نے اپنے مجموعہ کلام کی نوک پلک درست کی ہے اس کی بس میں چشم دید گواہ ہوں۔ کتاب کے سر ورق پر جو علامتی تصویر آپ دیکھ رہے ہیں وہ بھی غزل کہنے کے تخلیقی عمل سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس مجموعہ کلام کا نام اس میں شامل غزل کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل اپنے انداز کی اک منفرد تخلیق ہے۔ اس غزل میں ھُد ھُد اک روشن ضمیر انسان کا استعارہ ہے جو اس دنیا میں سچ، جھوٹ، مصلحت، اندیشوں، عمل، تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ روشن ضمیر انسان پرویز کے اس مجموعہ کلام میں ہر جگہ بولتا ہے ۔ ایک خوبصورت دنیا کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے۔
میری دعا سے ایسا ہو
کل کا موسم اچّھا ہو
ہاتھ آتی جو موسموں کی عناں
ہم بہاروں کو عام کر دیتے
اس انسان کو اپنی تاریخ پر، شرافت کی میراث پر، ناز ہے۔ وہ اپنا اک تشخص رکھتا ہے۔
تجھ کو کیا ؟ تو تو پہن لے گا کسی کی ٹوپی۔میرے اجداد کی دستار مرے سامنے ہے
یہ اک حساس ، باخبر انسان ہے جو دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔
اگر جو سطح سے اُوپر مرا یہ سر نہیں ہوتا۔ تو آنکھوں میں مری طوفا ن کا منظر نہیں ہوتا
گُلوں کے سوکھنے سے پیشتر ہی
چمن سیراب ہونا لازمی ہے
نہ کہتے شعر تو اس دور بے ضمیراں میں
ہماری طرح کے خبط الحواس کیا کرتے
وہ ہم ہی ہیں جو کھلونوں کا دکھ سمجھتے ہیں
وگرنہ کھیل تماشے اداس کیا کرتے
اپنی طنزیہ اور مزاحیہ غزلوں میں انھوں نے سیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بھی مزاحیہ پیرائے میں لکھا ہے لیکن ان مسائل کی سنگینی کا احساس زائل نہیں ہوتا۔
کئی سالوں تلک مغرب میں بیلیں خود سنورتی ہیں
تو پھر جا کر کہیں کرتی ہیں اک شاخِ ہنر پیدا
ہمارے دیس کی گنگا کا کیا زرخیز پانی ہے
جو کر دیتا ہے پل بھر میں ہزاروں بے ہنر پیدا
مزاح ، سنجیدگی اور طنز کا جو امتزاج پرویز کی غزلوں میں ہے وہ میرے خیال میں صرف شجاع خاور کی شاعری میں نظر آتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے رومانی اشعار یہاں وہاں پرویز کی غزلوں میں موتیوں کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور مجھے بھی حیران و پریشان کر دیتے ہیں ۔ خود شاعرہ ہوں تو کیا ، ہوں تو آخِر کو ہوں تو بیوی ۔
تری آنکھوں کی رنگت دیکھ کر ہی
ہم اپنے من کا درپن کھولتے ہیں
پرویز کے کچھ اشعار جو مجھے بہت پسند ہیں۔ ان میں حسیت ہے۔ شاعری ہے، بے ساختگی ہے ، یہ اشعار دل کو چھو لیتے ہیں۔
منصب اعلی پہ فائز تھے جہاں سنگ تراش
اک کھنڈر سا وہی دربار مرے سامنے ہے
ساتھ مِرے تم تھک جاوگے
میں اک سیدھا رستہ ہوں
تو بھی میلی چادر دھو
میں اک بہتی گنگا ہوں
دنیا داری کیسے سیکھوں
من کا بھولا پن تھکتا ہے
کانچ سے چبھتے رہتے ہیں
روئے روئے سے الفاظ
بھولے بچے جیسے دل سے نکلے ہوئے یہ اشعار اصل شاعری ہیں۔ پرویز تم مجھ سے خفا بھی ہو جاؤ مگر میں یہ ہی کہوں گی کہ تمھارے سیاسی، بقول میرے ’’عقلی‘‘ اشعار کے مقابلے یہ اشعار ہی مجھے پسند ہیں ۔
میری پسند کاآ خِری شعر سنیے۔
۔۔۔۔۔۔ ہزاروں بار امیدوں کی شمع
کبھی مجھ سے کبھی تجھ سے جلی ہے
پرویز کی شاعری اک جلتی شمع ہے اِس میں کہیں بھی شمع کے بجھنے کا ذکر نہیں ہے۔ خدا کر ے یہ شمع ہمیشہ جلتی رہے
عذرا نقوی
ریاض، ۲، جون، ۱۹۹۹
دیدبان شمارہ ۔۹
عجب کتاب
عذرا نقوی
میرے مرحوم شوہر ڈاکٹر پرویز احمد نے اپنا شعری مجموعہ ’’ مر گیا ہدُہُد ‘‘ کے نام سے خود ہی کمپوز کی تھا ، فوٹو کاپی کرائی تھی اور اس کی صرف دس جلدیں بندھوا کرا پنے خاص دوستوں کو دی تھیں۔ اکتوبر میں ان کی پانچویں برسی کے موقع پر میں یادوں گلیوں میں گھوم رہی تھی ، کمپیوٹر میں یہ مضمون جو میں نے اس کتاب کے پیش لفظ کے طور پر لکھاتھا نظر آیا تو دل چاہا کہ اس عام کروں ۔
’’مر گیا ھُد ھُدـــــ‘ ‘ اک انوکھے نام کی کتاب آپ کے سامنے ہے۔ میرے شریک ِ حیات ڈاکٹر پرویز احمد کی اس تخلیق سے میرا بہت پرانا رشتہ ہیــــ ــ ۔ جب نہ یہ غزلیں تھیں اور نہ ہی اس شعری مجموعے کا کوئی پلان ذہن میں تھا۔
کمپیوٹر سائنس(Computer Science) شاعری میرا شوق ہے۔ پرویز
کے پروفیسر ہیں۔ پہلے ہوتا یوں تھا کہ میں نے کوئ اچھی چیز پڑھی یا لکھی تو انہیں سنا دی کیونکہ وہ اپنی پڑھائ اور ریسرچ میں اتنا غرق رہتے تھے کہ ادب پڑھنے کے لیے ان کو وقت نہیں ملتا تھا۔ لیکن فنونِ لطیفہ سے پرویز کو ہمیشہ شغف رہا ہے۔مو سیقی، خاص کر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور غزلیں ، بہت جذب کے عالم میں سُنتے ہیں۔ جب مصوّری کا موڈ ہوتا ہے توکینوس پر قدرتی مناظر بناتے مٹاتے رہتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ان کے فکر و ا حساس نے اک اور راہِ شوق اپنائی ، وہ تھی شاعری کی ڈگر ۔ شاعری ویسے تو ان کو ورثے میں ملی ہے ۔ان کے والد انورؔ اعظمی مرحوم ایک صحافی اوربہت اچھے شاعرتھے۔ اعظم گڑھ ( یو ۔پی ) میں ان کے گھر پر شاعری کا چرچا رہتا تھا ۔ پچھلے چار برسوں میں ا ُن کا شاعری سے شغف بہت دلچسپ انداز سے بڑھتا گیا ۔ پرویز نے دو چار غزلیں کناڈا میں لکھی تھیں جب وہ کمپیو ٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈِگری کر رہے تھے ۔
مانٹریال، کینڈا نے،جہاں ہم دونوں نے زندگی کے دس حسین سال گُزارے ہیں، ان کے فنونِ لطیفہ کے شوق کو اور جِلا دی۔مانٹیر یال فنونِ لطیفہ کا گڑھ ہے۔ شہر کے پارکوں ، کیفے،میٹرو کے اسٹیشنوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے موسیقار، مصور، شاعر آزادانہ ا پنے فن کا
اِس شہر میں سارے سال جشن کا سا سماں رہتا ہے ۔ مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔
کبھی جیز (JAZZ) تو کبھی فلم فیسٹیول ہو رہا ہے، تو کبھی لاطینی موسیقی کے گروپ کا اوپن ائیر کانسرٹ کر رہا ہے اور ہندوستانی رقص و مو سیقی کےپروگرام منعقد ہو رہے ہیں ۔ اِسی شہر میں روی شنکر، بھیم سین جوشی، ہری پرساد چورسیا، اُستاد ذاکِر حسین جیسی شخصیتوں سے ملنے اور ان کے فن کو دیکھنے اور سننے کا موقع مِلا۔
اِسی شہر میں برِّ صغیر کے اُردو، ھندی ، انگریزی، بنگلہ، مرا ٹھی، گجراتی ۔ ملیالی کے مایہ ناز ادبا اور شعرا کے ساتھ ملاقاتیں ہویئں۔ مانٹریال میں ہم لوگ
میں رہتے تھے ۔student Ghetto اسٹوڈنٹ گیٹو
میکگل یونیورسٹی،یوینورسٹی آف مانٹریال اور کونکورڈیا یونورسٹی کے طالب علموں اور استادوں سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیالات ہوتے تھے ۔ ان دس برسوں میں ہم نے علم وفن کے بہت سے خزانے پائے۔
میں تو مانٹریال کی یادوں میں کھو گئی، بات ہو رہی تھی پرویز کے فنونِ لطیفہ سے دلچسپی کی۔ جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ پچھلے چار برسوں میں پرویز کی شاعرانہ صلاحیتوں نے اپنا جلوہ دکھایا۔ ریاض کی ادبی محفلوں میں ان کا یہ شوق بہت دلچسپ انداز سے بڑھتا چلا گیا ۔ شروع شروع میں وہ شعری نشستوں میں لوگوں کی غزلوں کی فی البدیہہ پیروڈی کرتے یا اپنی مزاحیہ شاعری سُناتے۔
پرویز جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو سرسری طور پر نہیں کرتے۔ ان کے ہر کام میں اک انفرادیت اور جدّت ہوتی ہے۔ انھوں نے شاعری کی راہ اپنا ئی تو میرؔ و غالبؔ کے دیوان اُن کا اوڑھنا بچھونا ہو گئے۔ فنِ عروض کے رموز و نکات سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز زندگی کو اک کمٹمنٹ Committment
کی طرح دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ، سماجی شعور و بصیرت ، فکر و احساس ان کی شاعری میں جھلکنے لگے۔ میں ان کی شاعری کو رولر کوسٹر کہتی تھی۔ یعنی ایک ہی غزل میں ہلکے پھلکے مزاحیہ اشعاربھی شامل ہوتے ہیں، خوبصورت رومانی شعر بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے، دنیا کے مسائل اورسیاسی معاملے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پرویز اکژ کسی بہت سنجیدہ غزل میں اک بھر پور طنز یا مِزاح کا شعر شامل کر دیتے ہیں تو میں ان سے بحث کرتی ہوں
لیکن وہ قائل نہیں ہوتے۔ مثلااک غزل میں یہ دو اشعار کتنے مختلف مزاج کے ہیں۔
یارب وہ خواب خواب ہو جس خواب میں مجھے
بکھرے شکستِ خواب پرندوں کے پر ملے
عینک لگا کے بھی جنھیں آتا نہیں نظر
وہ چاہتے ہیں اُن کو بھی جادو نظر ملے
میں نے ان کی شاعری کا جب معروضی انداز سے جائزہ لیا تو سوچا، جس طرح زندگی کے ہزار رنگ ہیں، دھوپ چھا ؤں ہے، آنسو ہیں ، ہنسی ہے، اور سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اسی طرح انسان کی شخصیت کے ہزار روپ ہیں اور موڈ ہیں۔ سب دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو پھر شاعری جو اظہارِ ذات ہے اور زندگی کا پرتو ہے، تو پھر اسے کیوںبندھے ٹکے سانچے میں قید کریں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کوئی بہت سنجیدہ بات کرتے کرتے کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتے ہیں۔
اُردو ادب اور شاعری میں یوں بھی نئے تجربات، نیا ڈکشن،موضوعات، نئے پیرائے اظہارذرا مشکل سے ہی قابلِ قبول ہوتے ہیں۔’’مر گیا ھُد ھُد ‘‘ اُردو ادب کے لیئے ذرا ٹیڑھی کھیر ہو گی۔ یہ جرأت ، انفرادیت، اور تنوع کا اک نمونہ ہے۔ کتاب کا نام ہی عجیب ہے ۔ لیکن جدّت کے ساتھ ساتھ پرویز روایت سے اپنا رشتہ نہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ اُن کا یہ شعر اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔
روایت کے ہر اک نسخے میں شامل
نیا اک باب ہونا لازمی ہے
وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اساتذہ کی روایت سے الگ ہو کر کوئی شاعری ہو ہی نہیں سکتی ۔
میرؔ و غالبؔ کی شاعری پڑھ کر
یوں مزاج اپنا شاعِرانہ ہوا
روایت کا احترام انھوں نے میرؔ و غالبؔ اور دوسرے شعراء کی زمینوں میں غزلیں کہہ کر کیا ہے۔
ہے غزل یہ زمینِ غالبؔ میں
’’حق تو یہ ہے کہ حق ا دا نہ ہوا‘‘
غالبؔ کی ’’ میرے بعد‘‘ والی ردیف میں انھوں نے مزاحیہ غزل کہی ہے اس کا اک شعر ملاحظہ ہو۔
تیرے خط کی یہاں بٹ جاتی ہے فوٹو کاپی
میں نہیں جانتا کس کس نے پڑھا میرے بعد
میرے خیال میں یہ شعر اردو غزل کے بدلتے مزاج کا آئینہ دار ہے ۔ خط اور نامہ بر کی روایت سے لے کر خط کی فوٹو کاپی بٹ جانے میں اک صدی گذر جاتی ہے اور روایت سے جدت کا رشتہ قائم رہتا ہے۔
پرویز نے کچھ غزلوں میں جانوروں اور پرندوں کے نام کو ردیف میں استعمال کیا ہے جو میرے خیال میں یہ ایک نیا تجربہ ہے اور بہت کامیاب تجربہ ہے۔
بند پنجرے سے ڈر گیا ھُد ھُد۔سچ سے ایسے مُکر گیا ھُد ھُد
کاش رکھتا نہ سر پہ تو کلغی۔دیکھ تیرا بھی سر گیا ھُد ھُد
دیکھ کر پر کٹے پرندوں کو ۔اپنے ہونے سے ڈر گیا ہد ہد
کیسے پگڑی اُچھالتے بندر۔یار اگر ہم نہ پالتے بندر
سورج کے سنگ اُٹھے گی چِڑیا۔دِن بھر دھوپ سہے گی چِڑیا
چونچ میں پکڑے دانہ دِن بھر۔بس خاموش رہے گی چِڑیا
پھولوں کی رُت آنے تو دو۔ اُڑ کر آن ملے گی چڑیا
اس کتاب کے تمام مراحل کی میں ساجھی ہوں ، غزل اور نظم کب کہی گئی ، اس کا کیا محرک تھا ، کس موڈ میں کہی گئی تھی ، اس کی نوک پلک کیسے درست کی گئی تھی۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے مراحل بھی بہت دلچسپ تھے۔ عموماً شاعراپنا کلام جمع کر کے ناشر کو دے دیتے ہیں ، لیکن پرویز نے اس کتاب کی ٹائپنگ ، ایڈٹنگ ، Formating اور گرافکس سب خود ہی کی ہے۔ میرے خیال میں اس اعتبار سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی تخلیق ہے جہاں شاعر اوّل تا آخیر اپنی تخلیق کو قارئین تک پہنچانے میں شامل ہے۔ جس دیدہ ریزی سے انھوں نے اپنے مجموعہ کلام کی نوک پلک درست کی ہے اس کی بس میں چشم دید گواہ ہوں۔ کتاب کے سر ورق پر جو علامتی تصویر آپ دیکھ رہے ہیں وہ بھی غزل کہنے کے تخلیقی عمل سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس مجموعہ کلام کا نام اس میں شامل غزل کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل اپنے انداز کی اک منفرد تخلیق ہے۔ اس غزل میں ھُد ھُد اک روشن ضمیر انسان کا استعارہ ہے جو اس دنیا میں سچ، جھوٹ، مصلحت، اندیشوں، عمل، تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ روشن ضمیر انسان پرویز کے اس مجموعہ کلام میں ہر جگہ بولتا ہے ۔ ایک خوبصورت دنیا کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے۔
میری دعا سے ایسا ہو
کل کا موسم اچّھا ہو
ہاتھ آتی جو موسموں کی عناں
ہم بہاروں کو عام کر دیتے
اس انسان کو اپنی تاریخ پر، شرافت کی میراث پر، ناز ہے۔ وہ اپنا اک تشخص رکھتا ہے۔
تجھ کو کیا ؟ تو تو پہن لے گا کسی کی ٹوپی۔میرے اجداد کی دستار مرے سامنے ہے
یہ اک حساس ، باخبر انسان ہے جو دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔
اگر جو سطح سے اُوپر مرا یہ سر نہیں ہوتا۔ تو آنکھوں میں مری طوفا ن کا منظر نہیں ہوتا
گُلوں کے سوکھنے سے پیشتر ہی
چمن سیراب ہونا لازمی ہے
نہ کہتے شعر تو اس دور بے ضمیراں میں
ہماری طرح کے خبط الحواس کیا کرتے
وہ ہم ہی ہیں جو کھلونوں کا دکھ سمجھتے ہیں
وگرنہ کھیل تماشے اداس کیا کرتے
اپنی طنزیہ اور مزاحیہ غزلوں میں انھوں نے سیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بھی مزاحیہ پیرائے میں لکھا ہے لیکن ان مسائل کی سنگینی کا احساس زائل نہیں ہوتا۔
کئی سالوں تلک مغرب میں بیلیں خود سنورتی ہیں
تو پھر جا کر کہیں کرتی ہیں اک شاخِ ہنر پیدا
ہمارے دیس کی گنگا کا کیا زرخیز پانی ہے
جو کر دیتا ہے پل بھر میں ہزاروں بے ہنر پیدا
مزاح ، سنجیدگی اور طنز کا جو امتزاج پرویز کی غزلوں میں ہے وہ میرے خیال میں صرف شجاع خاور کی شاعری میں نظر آتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے رومانی اشعار یہاں وہاں پرویز کی غزلوں میں موتیوں کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور مجھے بھی حیران و پریشان کر دیتے ہیں ۔ خود شاعرہ ہوں تو کیا ، ہوں تو آخِر کو ہوں تو بیوی ۔
تری آنکھوں کی رنگت دیکھ کر ہی
ہم اپنے من کا درپن کھولتے ہیں
پرویز کے کچھ اشعار جو مجھے بہت پسند ہیں۔ ان میں حسیت ہے۔ شاعری ہے، بے ساختگی ہے ، یہ اشعار دل کو چھو لیتے ہیں۔
منصب اعلی پہ فائز تھے جہاں سنگ تراش
اک کھنڈر سا وہی دربار مرے سامنے ہے
ساتھ مِرے تم تھک جاوگے
میں اک سیدھا رستہ ہوں
تو بھی میلی چادر دھو
میں اک بہتی گنگا ہوں
دنیا داری کیسے سیکھوں
من کا بھولا پن تھکتا ہے
کانچ سے چبھتے رہتے ہیں
روئے روئے سے الفاظ
بھولے بچے جیسے دل سے نکلے ہوئے یہ اشعار اصل شاعری ہیں۔ پرویز تم مجھ سے خفا بھی ہو جاؤ مگر میں یہ ہی کہوں گی کہ تمھارے سیاسی، بقول میرے ’’عقلی‘‘ اشعار کے مقابلے یہ اشعار ہی مجھے پسند ہیں ۔
میری پسند کاآ خِری شعر سنیے۔
۔۔۔۔۔۔ ہزاروں بار امیدوں کی شمع
کبھی مجھ سے کبھی تجھ سے جلی ہے
پرویز کی شاعری اک جلتی شمع ہے اِس میں کہیں بھی شمع کے بجھنے کا ذکر نہیں ہے۔ خدا کر ے یہ شمع ہمیشہ جلتی رہے
عذرا نقوی
ریاض، ۲، جون، ۱۹۹۹