عورت عظیم ہے
عورت عظیم ہے
Oct 5, 2015
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا کہ دکھ عورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے
عورت عظیم ہے
از : نصیر احمد ناصر
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ عورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اُسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی عورت تھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی
میں جب بہت چھوٹا تھا، اتنا چھوٹا کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو ایک مرد نے ایک عورت کے پیٹ پر ٹھوکر ماری تھی، اتنے زور سے کہ اس عورت سے زیادہ مجھے درد ہوا تھا اور یوں لگا تھا جیسے میں زندہ ہوئے بغیر ہی مر گیا ہوں۔ لیکن میرے درد کی آواز اس عورت کے علاوہ کسی نے نہیں سنی تھی۔ میری چیخ کو تو اس نے کوکھ کے اندھیرے سناٹوں میں زندگی کی روشن گونج بنا لیا تھا، لیکن خود اُس کے جسم میں درد کی جو ٹیس اٹھی ہو گی اور روح پہ جو سلوٹ پڑی ہو گی وہ کسی نے بھی سنی نہ دیکھی۔ کہیں دکھ کا کوئی آرکسٹرا بجا نہ غم کی کوئی سمفنی چھڑی۔ مجھے نہیں معلوم کہ عقیدوں میں بسا خدا اتنی بڑی کائنات میں اپنی تخلیقی سنسناہٹ میں مگن تھا یا دکھ کی شدت سے سکتے میں تھا، بس اتنا یاد ہے خدا، عورت اور میں تینوں بےبسی سے مرد کو دیکھتے رہے جو چارپائی پر بیٹھا مزے سے خربوزہ کھا رہا تھا۔ جسے کوئی پشیمانی تھی نہ پریشانی۔ اور پھر اس کے تئیں ہوا ہی کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک درمیانے سے گھر میں ایک ٹھوکر کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا، کوئی عظیم واقعہ یا سانحہ تو رونما ہونے سے رہا جس سے زمین کانپ اٹھتی زلزلہ آ جاتا۔ ایک خربوزہ ہی تو پھیکا نکلا تھا جو مرد کی طبع مردانگی کو ناگوار گزرا تھا۔ خربوزہ میٹھا تھا یا پھیکا وہ اُس عورت نے تو پیدا نہیں کیا تھا، اُس نے تو چکھا بھی نہیں تھا اور کاٹ کر ساری قاشیں مرد کے آگے رکھ دیں تھیں کہ پہلے چکھنے یا کھا لینے سے مرد کے مقام و مرتبے میں فرق آتا تھا۔ اُس نے تو میرے حصے کی قاش بھی الگ نہیں کی تھی۔ اور وہ عورت کون تھی ماں تھی اور وہ مرد کون تھا باپ تھا۔
کہتے ہیں میں جب پیدا ہوا تو جسامت میں چھوٹا سا تھا۔ چوہے جتنا جسے بوتل میں بند کیا جا سکتا ہو۔ لیکن ماں مجھے بہت بڑا سمجھتی تھی اور میرے ننھے ننھے ہاتھ چوم کر میرے بڑے ہونے کا اعلان کرتی تھی۔ یہ دکھ اور خوشی کا جزوی یا مکسور اظہار تھا۔ ناقابلِ بیان۔ پورا دکھ اور پوری خوشی کوئی بیان کر سکتا ہے نہ بانٹ سکتا ہے۔ خدا بھی نصف دکھ ہے نصف خوشی۔ ماں پورا دکھ تھی لیکن میں نے خوشی اس کی آنکھوں سے بہتی دیکھ لی تھی اور میں سچ مچ بڑا ہو گیا۔ لفطی اعتبار سے تو پتا نہیں لیکن جسمانی اعتبار سے پورے چھ فٹ کا۔ اور ماں مرتے دم تک میرے ہاتھوں کو چومتی رہی گویا میرے ہونے کا یقین اور قد کاٹھ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی تھی اور ٹھوکر کا خراج پیش کرتی تھی اور میرے درد کو کم کرتی تھی۔ بتاتی تھی کہ میں نے ابھی چلنا شروع نہیں کیا تھا کہ شدید بیمار ہو گیا۔ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ خاندان کے سب مرد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، کوئی نوکری میں، کوئی زمینوں پہ تو کوئی بیٹھکوں داروں کی چودھراہٹ میں۔ ماں جیتے جی مجھے دوسری بار قبر میں اتارنا مارنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک صبح ماں نے چپکے سے مجھے کاندھے سے لگایا اور تن تنہا کسی کو بتائے بغیر نکل کھڑی ہوئی، حکیموں ڈاکٹروں کی تلاش میں، ایک سے دوسرے گاؤں، دوسرے سے تیسرے، تیسرے سے چوتھے، کوس در کوس بغیر دم لیے بغیر کچھ کھائے پیے چلتی رہی ۔۔۔۔۔
ماں اٹھائے ہوئے چل رہی تھی مجھے
پاؤں جوتوں سے عاری تھے
سر کی ردا مجھ پہ تانے ۔۔۔۔۔۔۔
مِری سانس سے تیز تر اس کی رفتار تھی
راستہ، ایک سے دوسرے کوس تک پھیلتا جا رہا تھا
مگر فاصلہ تھا کہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا
طبیبِ ازل دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔
کوئی روگ تھا جان لیوا
کسی دکھ کی چنتا کسی پیڑ کی چھاؤں میں اس کو رکنے نہ دیتی تھی
پل بھر بھی تھکنے نہ دیتی تھی اس کو
سحر دم سے جاگی ہوئی تھی مگر چل رہی تھی
اٹھائے ہوئے مجھ کو ہاتھوں پہ اپنے
کوئی تیز نوکیلے پنجوں، بڑے پنکھوں والا پرندہ تھا
جو میرے چھوٹے سے دل سے کہیں دور اڑنے کو بےحال تھا
اور کسی ڈاکٹر کا، کلینک کا کوئی نشاں تک نہیں تھا
زمیں تو زمیں آسماں تک نہیں تھا
کسی ویدِ اعظم، حکیمِ جہاں کا پتا بھی نہیں مل رہا تھا
مسیحا بھی کوئی نہیں تھا جو اپنے زماں سے نکل کر
مِری آخری سانس لیتی ہوئی ننھی بیمار صدیوں میں آتا
صلیبِ اذیت اٹھاتا، مِری جاں کے بدلے سبھی ماؤں کے دکھ مٹاتا،
شفاعت کنندہ ہی بنتا ۔۔۔۔۔۔
عجب راستہ تھا
جو زیرِ زمیں تھا، پسِ آسماں تھا، کہیں تھا مگر ماں کو مِلتا نہیں تھا
عجب دکھ کی شدت تھی جس میں
ہر اک شے تھی ساکت، کوئی پتا ہلتا نہیں تھا
بس اک سانس تھی جو ابھی چل رہی تھی
ہوا تھی جو رک رک کے پہلو بدلتی تھی لیکن، ہوا بھی کہاں تھی
کہ ایک سے دوسرے گاؤں ماں تھی جو پیہم رواں تھی
کہ اس کو خبر تھی یہ رستہ بہت دور جائے گا
رک کر بھی چلتا رہے گا
مجھے زندہ رکھنے کی خاطر خدا کائناتوں کی حکمت بدلتا رہے گا
اور پھر واقعی خدا کو اپنی حکمت بدلنی پڑی۔ خدا ہار گیا۔ ماں جیت گئی۔ بالآخر کوسوں دور ایک قصبے میں ایک ڈاکٹر مل گیا جس کی معجز اثر دوائی نے میری دم بدم رکتی سانسوں کو بحال کیا اور شام کی ملگجی روشنی میں دن بھر کی پیاسی ماں نے ایک کنویں سے پانی پیا اور چہرہ دھویا۔ میں نے اپنی دیے جیسی ننھی ٹمٹماتی آنکھوں سے دیکھا ماں رو رہی تھی اور خدا مسکرا رہا تھا۔ تو صاحبو! ماں واحد ہستی ہے جو خدا سے لڑ سکتی ہے۔ پھر اس کی عظمت میں کیا شک ہے؟ اور ماں کون ہے عورت ہے اور عورت محض ایک جسم نہیں، کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی روح ہے۔ ماں ہے، بیوی ہے، محبوبہ ہے، بہن ہے، بیٹی ہے۔ ایک زندگی میں کئی زندگیاں جیتی ہے،کئی بار مرتی ہے کئی بار جنم لیتی ہے۔ آواگون کی زندہ مثال۔ محبت، دکھ اور ہجرت کا امتزاج۔ جی ہاں یہ عورت ہی ہے جو جسم کا چوغہ بدلے بغیر اندر ہی اندر ایک روپ سے دوسرے روپ میں تا دمِ مرگ ہجرت کرتی رہتی ہے۔ اس کی عظمت جانچنے کے لیے کسی فتوے کی ضرورت نہیں، کسی فقہ کو سمجھنے، کسی مسلک کو اپنانے کی حاجت نہیں۔ کسی مفتی، کسی فقیہہ، کسی مولانا کا سرٹیفکیٹ درکار نہیں۔ کسی کیمیا گر، سائنس دان،کسی آرشمیدس، آئن اسٹائن، نیوٹن، اسٹیفن ہاکنگ، نکولا ٹیسلا کی تھیوری ثابت کرنے، کسی ٹائم اسپیس، کسی قانونِ ثقل کی مساواتِ جبریہ حل کرنے اور کسی بلیک ہول، دم دار ستارے، کسی کہکشاں پر جانے کی ضرورت نہیں۔ زمین گول ہو یا چپٹی عورت کی ساخت کو فرق نہیں پڑتا۔ عورت خود ایک کائناتی استعارہ ہے، کششِ ثقل کی عظیم لہر ہے۔ سمجھنا ہے تو اسے سمجھو! عورت عورت کا شور مچانے والو! عورت ہر روپ سروپ میں، ہر رشتے کی اضافیت میں عظیم ہے۔ روشنی اور توانائی کا منبع ہے۔ "عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے" ، خدا کے بندو کبھی اس کے استعاراتی معانی پر بھی غور کرو۔ حیات و کائنات، تخلیق، ادب، ثقافت، مذہب سے استعارے نکال دیے جائیں تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔ انسان کتنا بھی شہری کتنا ہی مہذب ہو جائے اس کے پیچھے ایک گاؤں ہوتا ہے، پس ماندگی کی تاریخ ہوتی ہے، ایک عورت ہوتی ہے، ایک مرد ہوتا ہے۔ انسان علم حیاتیات و جینیات میں جتنی چاہے ترقی کر لے تخلیق کے عمل میں عورت کے بغیر نفسِ واحدہ،ایک خلیہ، ایک نخرِ مایہ اِدھر سے اُدھر نہیں کر سکتا۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہو، کلوننگ ہو یا سپر نیچرل کلوننگ، عورت کی کوکھ کا محتاج ہے۔ عورت انسانی عظمت، خوبصورتی اور تخلیقی اپج کی انتہا ہے۔ عورت عظیم ہے۔
عورت عظیم ہے
از : نصیر احمد ناصر
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ عورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اُسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی عورت تھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی
میں جب بہت چھوٹا تھا، اتنا چھوٹا کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو ایک مرد نے ایک عورت کے پیٹ پر ٹھوکر ماری تھی، اتنے زور سے کہ اس عورت سے زیادہ مجھے درد ہوا تھا اور یوں لگا تھا جیسے میں زندہ ہوئے بغیر ہی مر گیا ہوں۔ لیکن میرے درد کی آواز اس عورت کے علاوہ کسی نے نہیں سنی تھی۔ میری چیخ کو تو اس نے کوکھ کے اندھیرے سناٹوں میں زندگی کی روشن گونج بنا لیا تھا، لیکن خود اُس کے جسم میں درد کی جو ٹیس اٹھی ہو گی اور روح پہ جو سلوٹ پڑی ہو گی وہ کسی نے بھی سنی نہ دیکھی۔ کہیں دکھ کا کوئی آرکسٹرا بجا نہ غم کی کوئی سمفنی چھڑی۔ مجھے نہیں معلوم کہ عقیدوں میں بسا خدا اتنی بڑی کائنات میں اپنی تخلیقی سنسناہٹ میں مگن تھا یا دکھ کی شدت سے سکتے میں تھا، بس اتنا یاد ہے خدا، عورت اور میں تینوں بےبسی سے مرد کو دیکھتے رہے جو چارپائی پر بیٹھا مزے سے خربوزہ کھا رہا تھا۔ جسے کوئی پشیمانی تھی نہ پریشانی۔ اور پھر اس کے تئیں ہوا ہی کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک درمیانے سے گھر میں ایک ٹھوکر کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا، کوئی عظیم واقعہ یا سانحہ تو رونما ہونے سے رہا جس سے زمین کانپ اٹھتی زلزلہ آ جاتا۔ ایک خربوزہ ہی تو پھیکا نکلا تھا جو مرد کی طبع مردانگی کو ناگوار گزرا تھا۔ خربوزہ میٹھا تھا یا پھیکا وہ اُس عورت نے تو پیدا نہیں کیا تھا، اُس نے تو چکھا بھی نہیں تھا اور کاٹ کر ساری قاشیں مرد کے آگے رکھ دیں تھیں کہ پہلے چکھنے یا کھا لینے سے مرد کے مقام و مرتبے میں فرق آتا تھا۔ اُس نے تو میرے حصے کی قاش بھی الگ نہیں کی تھی۔ اور وہ عورت کون تھی ماں تھی اور وہ مرد کون تھا باپ تھا۔
کہتے ہیں میں جب پیدا ہوا تو جسامت میں چھوٹا سا تھا۔ چوہے جتنا جسے بوتل میں بند کیا جا سکتا ہو۔ لیکن ماں مجھے بہت بڑا سمجھتی تھی اور میرے ننھے ننھے ہاتھ چوم کر میرے بڑے ہونے کا اعلان کرتی تھی۔ یہ دکھ اور خوشی کا جزوی یا مکسور اظہار تھا۔ ناقابلِ بیان۔ پورا دکھ اور پوری خوشی کوئی بیان کر سکتا ہے نہ بانٹ سکتا ہے۔ خدا بھی نصف دکھ ہے نصف خوشی۔ ماں پورا دکھ تھی لیکن میں نے خوشی اس کی آنکھوں سے بہتی دیکھ لی تھی اور میں سچ مچ بڑا ہو گیا۔ لفطی اعتبار سے تو پتا نہیں لیکن جسمانی اعتبار سے پورے چھ فٹ کا۔ اور ماں مرتے دم تک میرے ہاتھوں کو چومتی رہی گویا میرے ہونے کا یقین اور قد کاٹھ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی تھی اور ٹھوکر کا خراج پیش کرتی تھی اور میرے درد کو کم کرتی تھی۔ بتاتی تھی کہ میں نے ابھی چلنا شروع نہیں کیا تھا کہ شدید بیمار ہو گیا۔ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ خاندان کے سب مرد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، کوئی نوکری میں، کوئی زمینوں پہ تو کوئی بیٹھکوں داروں کی چودھراہٹ میں۔ ماں جیتے جی مجھے دوسری بار قبر میں اتارنا مارنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک صبح ماں نے چپکے سے مجھے کاندھے سے لگایا اور تن تنہا کسی کو بتائے بغیر نکل کھڑی ہوئی، حکیموں ڈاکٹروں کی تلاش میں، ایک سے دوسرے گاؤں، دوسرے سے تیسرے، تیسرے سے چوتھے، کوس در کوس بغیر دم لیے بغیر کچھ کھائے پیے چلتی رہی ۔۔۔۔۔
ماں اٹھائے ہوئے چل رہی تھی مجھے
پاؤں جوتوں سے عاری تھے
سر کی ردا مجھ پہ تانے ۔۔۔۔۔۔۔
مِری سانس سے تیز تر اس کی رفتار تھی
راستہ، ایک سے دوسرے کوس تک پھیلتا جا رہا تھا
مگر فاصلہ تھا کہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا
طبیبِ ازل دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔
کوئی روگ تھا جان لیوا
کسی دکھ کی چنتا کسی پیڑ کی چھاؤں میں اس کو رکنے نہ دیتی تھی
پل بھر بھی تھکنے نہ دیتی تھی اس کو
سحر دم سے جاگی ہوئی تھی مگر چل رہی تھی
اٹھائے ہوئے مجھ کو ہاتھوں پہ اپنے
کوئی تیز نوکیلے پنجوں، بڑے پنکھوں والا پرندہ تھا
جو میرے چھوٹے سے دل سے کہیں دور اڑنے کو بےحال تھا
اور کسی ڈاکٹر کا، کلینک کا کوئی نشاں تک نہیں تھا
زمیں تو زمیں آسماں تک نہیں تھا
کسی ویدِ اعظم، حکیمِ جہاں کا پتا بھی نہیں مل رہا تھا
مسیحا بھی کوئی نہیں تھا جو اپنے زماں سے نکل کر
مِری آخری سانس لیتی ہوئی ننھی بیمار صدیوں میں آتا
صلیبِ اذیت اٹھاتا، مِری جاں کے بدلے سبھی ماؤں کے دکھ مٹاتا،
شفاعت کنندہ ہی بنتا ۔۔۔۔۔۔
عجب راستہ تھا
جو زیرِ زمیں تھا، پسِ آسماں تھا، کہیں تھا مگر ماں کو مِلتا نہیں تھا
عجب دکھ کی شدت تھی جس میں
ہر اک شے تھی ساکت، کوئی پتا ہلتا نہیں تھا
بس اک سانس تھی جو ابھی چل رہی تھی
ہوا تھی جو رک رک کے پہلو بدلتی تھی لیکن، ہوا بھی کہاں تھی
کہ ایک سے دوسرے گاؤں ماں تھی جو پیہم رواں تھی
کہ اس کو خبر تھی یہ رستہ بہت دور جائے گا
رک کر بھی چلتا رہے گا
مجھے زندہ رکھنے کی خاطر خدا کائناتوں کی حکمت بدلتا رہے گا
اور پھر واقعی خدا کو اپنی حکمت بدلنی پڑی۔ خدا ہار گیا۔ ماں جیت گئی۔ بالآخر کوسوں دور ایک قصبے میں ایک ڈاکٹر مل گیا جس کی معجز اثر دوائی نے میری دم بدم رکتی سانسوں کو بحال کیا اور شام کی ملگجی روشنی میں دن بھر کی پیاسی ماں نے ایک کنویں سے پانی پیا اور چہرہ دھویا۔ میں نے اپنی دیے جیسی ننھی ٹمٹماتی آنکھوں سے دیکھا ماں رو رہی تھی اور خدا مسکرا رہا تھا۔ تو صاحبو! ماں واحد ہستی ہے جو خدا سے لڑ سکتی ہے۔ پھر اس کی عظمت میں کیا شک ہے؟ اور ماں کون ہے عورت ہے اور عورت محض ایک جسم نہیں، کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی روح ہے۔ ماں ہے، بیوی ہے، محبوبہ ہے، بہن ہے، بیٹی ہے۔ ایک زندگی میں کئی زندگیاں جیتی ہے،کئی بار مرتی ہے کئی بار جنم لیتی ہے۔ آواگون کی زندہ مثال۔ محبت، دکھ اور ہجرت کا امتزاج۔ جی ہاں یہ عورت ہی ہے جو جسم کا چوغہ بدلے بغیر اندر ہی اندر ایک روپ سے دوسرے روپ میں تا دمِ مرگ ہجرت کرتی رہتی ہے۔ اس کی عظمت جانچنے کے لیے کسی فتوے کی ضرورت نہیں، کسی فقہ کو سمجھنے، کسی مسلک کو اپنانے کی حاجت نہیں۔ کسی مفتی، کسی فقیہہ، کسی مولانا کا سرٹیفکیٹ درکار نہیں۔ کسی کیمیا گر، سائنس دان،کسی آرشمیدس، آئن اسٹائن، نیوٹن، اسٹیفن ہاکنگ، نکولا ٹیسلا کی تھیوری ثابت کرنے، کسی ٹائم اسپیس، کسی قانونِ ثقل کی مساواتِ جبریہ حل کرنے اور کسی بلیک ہول، دم دار ستارے، کسی کہکشاں پر جانے کی ضرورت نہیں۔ زمین گول ہو یا چپٹی عورت کی ساخت کو فرق نہیں پڑتا۔ عورت خود ایک کائناتی استعارہ ہے، کششِ ثقل کی عظیم لہر ہے۔ سمجھنا ہے تو اسے سمجھو! عورت عورت کا شور مچانے والو! عورت ہر روپ سروپ میں، ہر رشتے کی اضافیت میں عظیم ہے۔ روشنی اور توانائی کا منبع ہے۔ "عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے" ، خدا کے بندو کبھی اس کے استعاراتی معانی پر بھی غور کرو۔ حیات و کائنات، تخلیق، ادب، ثقافت، مذہب سے استعارے نکال دیے جائیں تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔ انسان کتنا بھی شہری کتنا ہی مہذب ہو جائے اس کے پیچھے ایک گاؤں ہوتا ہے، پس ماندگی کی تاریخ ہوتی ہے، ایک عورت ہوتی ہے، ایک مرد ہوتا ہے۔ انسان علم حیاتیات و جینیات میں جتنی چاہے ترقی کر لے تخلیق کے عمل میں عورت کے بغیر نفسِ واحدہ،ایک خلیہ، ایک نخرِ مایہ اِدھر سے اُدھر نہیں کر سکتا۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہو، کلوننگ ہو یا سپر نیچرل کلوننگ، عورت کی کوکھ کا محتاج ہے۔ عورت انسانی عظمت، خوبصورتی اور تخلیقی اپج کی انتہا ہے۔ عورت عظیم ہے۔