اسد عباس خان کی غزلیں
اسد عباس خان کی غزلیں
Sep 8, 2025


غزلیں۔
اسد عباس خان
(جھنگ پاکستان)
1۔
غزل کا مجتہد ہوں یار میرے
سُنو تم غور سے اشعار میرے
وہی دشتِ جنوں ہے میرے آگے
وہی میں ہوں وہی آزار میرے
وہی پامال رستے اور گلیاں
وہی اجڑے ہوئے بازار میرے
کسی کی سات رنگی روشنی سے
چمک اٹھے در و دیوار میرے
خدا سے یہ جزا کے منتظر ہیں
کھڑے ہیں دھوپ میں اشجار میرے
ندیم ، اقبال ، جالِب ، فیض ، خالد
اسد زندہ ہیں سب کردار میرے
اسد عباس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔
یہ جو ہر سمت روشنی ہوئی تھی
اِن چراغوں کو کیا پڑی ہوئی تھی
اپنی وحشت سے کانپ اٹھا میں
جب ذرا مجھ میں خامشی ہوئی تھی
سورۂ حشر کی تلاوت کی
خلق جب سامنے کھڑی ہوئی تھی
کچھ تو مایوس تھا خدا سے میں
کچھ تو مجھ کو نظر لگی ہوئی تھی
اِس کی کوئی خبر نہیں ہے مجھے
سُرمئی آگ کیوں ہری ہوئی تھی
ترک ہوتی ہوئی محبت بھی
میں نے سامان میں رکھی ہوئی تھی
میں نے خود سے اسد وصال کیا
جب ترے ہجر میں کمی ہوئی تھی
اسد عباس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔
ہاتھ آتی ہوئی آسانی کا
رنج ہے مجھ کو فراوانی کا
چشمۂ آبِ فنا ، فانی کا
ذائقہ یاد نہیں پانی کا
یعنی وِیرانی نمو پاتی ہے
ایسا عالم ہے بیابانی کا
میں نے اک روز نکالا مصرف
یار اِس دشت کی ویرانی کا
ہاتھ سے دین چلا جاتا ہے
گِریہ کرتا ہوں جہانبانی کا
جیسے یہ آگ مہک سکتی ہے
جیسے اک لطف ہے اس پانی کا
ایک نقطے میں سمٹ آیا ہے
ایک عرصہ مری حیرانی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد عباس خان
۔۔۔
غزلیں۔
اسد عباس خان
(جھنگ پاکستان)
1۔
غزل کا مجتہد ہوں یار میرے
سُنو تم غور سے اشعار میرے
وہی دشتِ جنوں ہے میرے آگے
وہی میں ہوں وہی آزار میرے
وہی پامال رستے اور گلیاں
وہی اجڑے ہوئے بازار میرے
کسی کی سات رنگی روشنی سے
چمک اٹھے در و دیوار میرے
خدا سے یہ جزا کے منتظر ہیں
کھڑے ہیں دھوپ میں اشجار میرے
ندیم ، اقبال ، جالِب ، فیض ، خالد
اسد زندہ ہیں سب کردار میرے
اسد عباس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔
یہ جو ہر سمت روشنی ہوئی تھی
اِن چراغوں کو کیا پڑی ہوئی تھی
اپنی وحشت سے کانپ اٹھا میں
جب ذرا مجھ میں خامشی ہوئی تھی
سورۂ حشر کی تلاوت کی
خلق جب سامنے کھڑی ہوئی تھی
کچھ تو مایوس تھا خدا سے میں
کچھ تو مجھ کو نظر لگی ہوئی تھی
اِس کی کوئی خبر نہیں ہے مجھے
سُرمئی آگ کیوں ہری ہوئی تھی
ترک ہوتی ہوئی محبت بھی
میں نے سامان میں رکھی ہوئی تھی
میں نے خود سے اسد وصال کیا
جب ترے ہجر میں کمی ہوئی تھی
اسد عباس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔
ہاتھ آتی ہوئی آسانی کا
رنج ہے مجھ کو فراوانی کا
چشمۂ آبِ فنا ، فانی کا
ذائقہ یاد نہیں پانی کا
یعنی وِیرانی نمو پاتی ہے
ایسا عالم ہے بیابانی کا
میں نے اک روز نکالا مصرف
یار اِس دشت کی ویرانی کا
ہاتھ سے دین چلا جاتا ہے
گِریہ کرتا ہوں جہانبانی کا
جیسے یہ آگ مہک سکتی ہے
جیسے اک لطف ہے اس پانی کا
ایک نقطے میں سمٹ آیا ہے
ایک عرصہ مری حیرانی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد عباس خان
۔۔۔