ارشد مرشد کی غزلیں
ارشد مرشد کی غزلیں
Aug 13, 2024
ارشد مرشد کی غزلیں
عروسِ عشق پے حسن و شباب آج بھی ہے
رخِ تمناِ دل بے حجاب آج بھی ہے
چراغ بجھ بھی چکا طاقچے میں جلتا ہوا
فروزاں پاس کوئی ماہتاب آج بھی ہے
یقیں ہے مجھ کو کسی روز کھل کے برسے گا
کہ کشتِ ویراں پے عکسِ سحاب آج بھی ہے
میں لین دین کا پکا ہوں زندگی سن لے
تمہارے ذمّے مرا کچھ حساب آج بھی ہے
فریب جس نے دیا تھا تجھے اے تشنہ لبی
وہ ریگِ جان سے لپٹا سراب آج بھی ہے
وہ جس کے پہلو میں تو نے کیے تھے قول و قرار
تلاش میں تری کُنجِ گلاب آج بھی ہے
برس کے جا بھی چکی ہے جھڑی محبت کی
جزیرہ دل کا مگر زیرِ آب آج بھی ہے
ارشد مرشد
۔۔۔۔۔۔
شکایت تو نہیں پر زندگی تجھ کو بتانا تھا
تصرُّف تھا رگِ جاں پر ترا جو غاصبانہ تھا
سکھائے نام آدم کو چھپا کر جب ملائک سے
یہ طرزِ امتحاں یا رب ترا کیا منصفانہ تھا ؟
اے میرے باپ پھل کھانے سے پہلے سوچ تو لیتا
تری لغزش کا سارا بوجھ بچوں نے اٹھانا تھا
ہوئے ہیں جانبِ دوزخ تو حیرانی نہیں کوئی
ہمارا زندگی میں بھی یہاں پر آنا جانا تھا
کرے گریہ نہ کیوں کر مرشدِ بے خانما لوگو
کہ اس کٹتے شجر پر اس کا بھی تو آشیانہ تھا
ارشد مرشد
ارشد مرشد کی غزلیں
عروسِ عشق پے حسن و شباب آج بھی ہے
رخِ تمناِ دل بے حجاب آج بھی ہے
چراغ بجھ بھی چکا طاقچے میں جلتا ہوا
فروزاں پاس کوئی ماہتاب آج بھی ہے
یقیں ہے مجھ کو کسی روز کھل کے برسے گا
کہ کشتِ ویراں پے عکسِ سحاب آج بھی ہے
میں لین دین کا پکا ہوں زندگی سن لے
تمہارے ذمّے مرا کچھ حساب آج بھی ہے
فریب جس نے دیا تھا تجھے اے تشنہ لبی
وہ ریگِ جان سے لپٹا سراب آج بھی ہے
وہ جس کے پہلو میں تو نے کیے تھے قول و قرار
تلاش میں تری کُنجِ گلاب آج بھی ہے
برس کے جا بھی چکی ہے جھڑی محبت کی
جزیرہ دل کا مگر زیرِ آب آج بھی ہے
ارشد مرشد
۔۔۔۔۔۔
شکایت تو نہیں پر زندگی تجھ کو بتانا تھا
تصرُّف تھا رگِ جاں پر ترا جو غاصبانہ تھا
سکھائے نام آدم کو چھپا کر جب ملائک سے
یہ طرزِ امتحاں یا رب ترا کیا منصفانہ تھا ؟
اے میرے باپ پھل کھانے سے پہلے سوچ تو لیتا
تری لغزش کا سارا بوجھ بچوں نے اٹھانا تھا
ہوئے ہیں جانبِ دوزخ تو حیرانی نہیں کوئی
ہمارا زندگی میں بھی یہاں پر آنا جانا تھا
کرے گریہ نہ کیوں کر مرشدِ بے خانما لوگو
کہ اس کٹتے شجر پر اس کا بھی تو آشیانہ تھا