عربی افسانہ توفیق الحکیم
عربی افسانہ توفیق الحکیم
Dec 10, 2025
مصوّر-اسرار فاروقی


دیدبان شمارہ- 30, نومبر
عربی افسانہ توفیق الحکیم
اردو ترجمہ : اسد اللہ میر الحسنی
مجھے اللہ دکھا دیجیے!
پرانے زمانے کی بات ہے، ایک شخص تھا جس کا باطن نہایت پاکیزہ اور ضمیر بالکل صاف تھا۔ اللہ نے اسے ایک ذہین، نیک دل اور فصیح زبان والے بیٹے سے نوازا تھا۔ اس شخص کی سب سے خوشگوار ساعتیں وہ تھیں جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھتا اور دونوں اس طرح باتیں کرتے جیسے دو جگری دوست ہوں۔ یوں محسوس ہوتا کہ عمر کا فرق اور وقت کی دیوار ان کے درمیان سے ریشم کے ایک خیالی پردے کی طرح اٹھ گئی ہے۔ دونوں اس قدر ہم آہنگ تھے کہ ایک ہی لمحے میں وجود کی حقیقت اور اشیاء کے جوہر کو علم و جہل کی نگاہ سے دیکھتے۔
ایک دن اس شخص نے اپنے بیٹے پر محبت بھری نظر ڈالی اور کہا: "الحمدللہ! تو میرے لیے اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔"
بیٹے نے معصومیت سے کہا: "ابا جان! آپ اکثر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کیا مجھے اللہ دکھا سکتے ہیں؟"
"کیا کہہ رہے ہو، بیٹا؟"
یہ سن کر وہ حیران رہ گیا، زبان گنگ ہو گئی اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ وہ دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا، پھر آہستہ سے بولا: "بیٹا! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں اللہ دکھاؤں؟"
بیٹے نے فوراً کہا: "جی ہاں، مجھے اللہ دکھائیں!"
باپ نے کہا: "بیٹا، میں نے خود بھی کبھی اللہ کو نہیں دیکھا، پھر تمہیں کیسے دکھا سکتا ہوں؟"
"آپ نے اللہ کو کیوں نہیں دیکھا، ابا جان؟"
"کیونکہ میں نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔"
"تو اگر میں کہوں کہ آپ پہلے خود اللہ کو دیکھیں، پھر مجھے دکھائیں؟"
"ٹھیک ہے بیٹا، میں ضرور کوشش کروں گا۔"
یہ کہہ کر وہ شخص فوراً اُٹھا اور اللہ کی تلاش میں شہر بھر کے لوگوں سے پوچھنے لگا۔ لوگ اس پر ہنسنے لگے؛ وہ دنیاوی مصروفیات میں ایسے گم تھے کہ ان کے نزدیک اللہ اور اس کی دید کی بات محض مذاق بن چکی تھی۔ پھر وہ اہلِ دین کے پاس گیا، ان سے سے گفتگو و مناظرہ کیا، مگر انہوں نے صرف رٹے رٹائے نصاب اور روایتی دلائل سنائیں۔ وہاں سے بھی اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔ وہ مایوس و افسردہ سڑکوں پر آوارہ گھومتا رہا اور سوچنے لگا: "کیا میں اپنے بیٹے کے سوال کا جواب دیے بغیر خالی ہاتھ لوٹ جاؤں؟"
اسی دوران اسے ایک بوڑھا ملا جس نے کہا: "شہر کے کنارے ایک بزرگ عابد رہتے ہیں، ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ شاید تمہاری مراد بھی وہیں پوری ہو جائے۔"
وہ شخص فوراً اس عابد کے پاس پہنچا اور عرض کی: "میں ایک اہم ضرورت لے کر آیا ہوں، امید ہے آپ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹائیں گے۔"
عابد نے پُرسکون لہجے میں کہا: "اپنی حاجت بیان کرو۔"
اس نے کہا: "اے عابد! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اللہ دکھا دیں!"
عابد نے خاموشی سے سر جھکایا، پھر اپنی داڑھی کو تھام کر بولا: "کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز کا سوال کر رہے ہو؟"
"جی ہاں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اللہ دکھا دیں!"
عابد نے اپنی گہری اور شیریں آواز میں کہا:"اے انسان! اللہ ہماری آنکھوں یا جسمانی حواس سے نظر نہیں آتا۔ کیا تم اس انگلی سے، جو پیالے کی تہہ ناپتی ہے، سمندر کی گہرائی معلوم کر سکتے ہو؟"
"تو پھر میں اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں؟"
"جب وہ خود تمہاری روح پر منکشف ہو جائے۔"
"اور وہ کب منکشف ہوگا؟"
"جب تم اس کی محبت پا لوگے۔"
یہ سن کر وہ شخص سجدے میں گر گیا۔ اس کی پیشانی خاک سے بھر گئی۔ اس نے عابد کا ہاتھ تھام کر ملتجیانہ لہجے میں کہا: "اے نیک عابد! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اپنی محبت کا کچھ حصہ عطا فرمائے۔"
عابد نے نرمی سے ہاتھ چھڑایا اور کہا: "عاجزی اختیار کرو اور محبت میں سب سے کم درجہ مانگو۔"
"تو میں اللہ کی محبت میں ایک درہم بھر مانگتا ہوں۔"
""واہ! کتنی حرص ہے تم میں! یہ بہت زیادہ ہے۔"
"پھر ایک چوتھائی درہم؟"
"اور بھی کم مانگو۔"
"تو پھر ایک ذرہ محبت؟"
"تم ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکو گے۔"
"آدھا ذرہ؟"
"شاید..."
"تو پھر محبت کا ایک ذرہ؟"
تب عابد نے آسمان کی طرف سر اُٹھایا اور نہایت انکساری سے دعا کی: "اے میرے رب! اس بندے کو اپنی محبت کا آدھا ذرہ عطا فرما۔"
اس کے بعد وہ شخص خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔
دن گزرتے گئے، یہاں تک کہ اس کا خاندان، اس کا بیٹا اور اس کے دوست عابد کے پاس آئے اور غمگین ہو کر کہنے لگے: "جس دن وہ آپ سے ملا، اس کے بعد کبھی واپس نہیں آیا۔ کہیں گم ہو گیا ہے، اس کا کچھ پتا نہیں۔"
سب مل کر اسے عرصہ تک تلاش کرتے رہے، یہاں تک کہ یہ سن کر عابد ان کے ساتھ تلاش میں نکل پڑا۔ سب مل کر اسے عرصہ تک ڈھونڈتے رہے، ایک دن چرواہوں کا گروہ ملا، جنہوں نے بتایا: "وہ شخص تو پاگل ہو گیا ہے اور پہاڑوں میں نکل گیا ہے۔"
جب وہ سب اس مقام پر پہنچے تو دیکھا، وہ شخص ایک چٹان پر کھڑا ہے، نظریں آسمان پر جمی ہوئی ہیں اور وہ بالکل بےخود ہے۔ سب نے سلام کیا، مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ عابد قریب گیا اور پکارا: "میں عابد ہوں، توجہ کرو۔"
مگر وہ ساکت و جامد رہا۔
بیٹا بےقراری سے آگے بڑھا اور اپنے ننھے، درد بھرے لہجے میں بولا: "ابا جان! کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟"
مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
اہل خانہ اور عزیز چیخنے لگے، اسے جگانے کی کوشش کی، مگر عابد نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا: "یہ سب لاحاصل ہے! جس کے دل میں اللہ کی محبت کا آدھا ذرہ آ جائے، وہ لوگوں کی بات کیسے سن سکتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر تم اسے آری سے کاٹ دو، تب بھی اسے خبر نہ ہوگی۔"
بیٹا رونے لگا: "قصور میرا ہے، میں نے ہی اللہ کو دیکھنے کی فرمائش کی تھی۔"
عابد نے اس کی طرف دیکھا اور جیسے خود سے کہا: "دیکھا؟ اللہ کے نور کا آدھا ذرہ بھی انسان کے دل و دماغ کو بےخود کر دینے کے لیے کافی ہے۔"
............................................
دیدبان شمارہ- 30, نومبر
عربی افسانہ توفیق الحکیم
اردو ترجمہ : اسد اللہ میر الحسنی
مجھے اللہ دکھا دیجیے!
پرانے زمانے کی بات ہے، ایک شخص تھا جس کا باطن نہایت پاکیزہ اور ضمیر بالکل صاف تھا۔ اللہ نے اسے ایک ذہین، نیک دل اور فصیح زبان والے بیٹے سے نوازا تھا۔ اس شخص کی سب سے خوشگوار ساعتیں وہ تھیں جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھتا اور دونوں اس طرح باتیں کرتے جیسے دو جگری دوست ہوں۔ یوں محسوس ہوتا کہ عمر کا فرق اور وقت کی دیوار ان کے درمیان سے ریشم کے ایک خیالی پردے کی طرح اٹھ گئی ہے۔ دونوں اس قدر ہم آہنگ تھے کہ ایک ہی لمحے میں وجود کی حقیقت اور اشیاء کے جوہر کو علم و جہل کی نگاہ سے دیکھتے۔
ایک دن اس شخص نے اپنے بیٹے پر محبت بھری نظر ڈالی اور کہا: "الحمدللہ! تو میرے لیے اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔"
بیٹے نے معصومیت سے کہا: "ابا جان! آپ اکثر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کیا مجھے اللہ دکھا سکتے ہیں؟"
"کیا کہہ رہے ہو، بیٹا؟"
یہ سن کر وہ حیران رہ گیا، زبان گنگ ہو گئی اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ وہ دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا، پھر آہستہ سے بولا: "بیٹا! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں اللہ دکھاؤں؟"
بیٹے نے فوراً کہا: "جی ہاں، مجھے اللہ دکھائیں!"
باپ نے کہا: "بیٹا، میں نے خود بھی کبھی اللہ کو نہیں دیکھا، پھر تمہیں کیسے دکھا سکتا ہوں؟"
"آپ نے اللہ کو کیوں نہیں دیکھا، ابا جان؟"
"کیونکہ میں نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔"
"تو اگر میں کہوں کہ آپ پہلے خود اللہ کو دیکھیں، پھر مجھے دکھائیں؟"
"ٹھیک ہے بیٹا، میں ضرور کوشش کروں گا۔"
یہ کہہ کر وہ شخص فوراً اُٹھا اور اللہ کی تلاش میں شہر بھر کے لوگوں سے پوچھنے لگا۔ لوگ اس پر ہنسنے لگے؛ وہ دنیاوی مصروفیات میں ایسے گم تھے کہ ان کے نزدیک اللہ اور اس کی دید کی بات محض مذاق بن چکی تھی۔ پھر وہ اہلِ دین کے پاس گیا، ان سے سے گفتگو و مناظرہ کیا، مگر انہوں نے صرف رٹے رٹائے نصاب اور روایتی دلائل سنائیں۔ وہاں سے بھی اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔ وہ مایوس و افسردہ سڑکوں پر آوارہ گھومتا رہا اور سوچنے لگا: "کیا میں اپنے بیٹے کے سوال کا جواب دیے بغیر خالی ہاتھ لوٹ جاؤں؟"
اسی دوران اسے ایک بوڑھا ملا جس نے کہا: "شہر کے کنارے ایک بزرگ عابد رہتے ہیں، ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ شاید تمہاری مراد بھی وہیں پوری ہو جائے۔"
وہ شخص فوراً اس عابد کے پاس پہنچا اور عرض کی: "میں ایک اہم ضرورت لے کر آیا ہوں، امید ہے آپ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹائیں گے۔"
عابد نے پُرسکون لہجے میں کہا: "اپنی حاجت بیان کرو۔"
اس نے کہا: "اے عابد! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اللہ دکھا دیں!"
عابد نے خاموشی سے سر جھکایا، پھر اپنی داڑھی کو تھام کر بولا: "کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز کا سوال کر رہے ہو؟"
"جی ہاں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اللہ دکھا دیں!"
عابد نے اپنی گہری اور شیریں آواز میں کہا:"اے انسان! اللہ ہماری آنکھوں یا جسمانی حواس سے نظر نہیں آتا۔ کیا تم اس انگلی سے، جو پیالے کی تہہ ناپتی ہے، سمندر کی گہرائی معلوم کر سکتے ہو؟"
"تو پھر میں اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں؟"
"جب وہ خود تمہاری روح پر منکشف ہو جائے۔"
"اور وہ کب منکشف ہوگا؟"
"جب تم اس کی محبت پا لوگے۔"
یہ سن کر وہ شخص سجدے میں گر گیا۔ اس کی پیشانی خاک سے بھر گئی۔ اس نے عابد کا ہاتھ تھام کر ملتجیانہ لہجے میں کہا: "اے نیک عابد! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اپنی محبت کا کچھ حصہ عطا فرمائے۔"
عابد نے نرمی سے ہاتھ چھڑایا اور کہا: "عاجزی اختیار کرو اور محبت میں سب سے کم درجہ مانگو۔"
"تو میں اللہ کی محبت میں ایک درہم بھر مانگتا ہوں۔"
""واہ! کتنی حرص ہے تم میں! یہ بہت زیادہ ہے۔"
"پھر ایک چوتھائی درہم؟"
"اور بھی کم مانگو۔"
"تو پھر ایک ذرہ محبت؟"
"تم ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکو گے۔"
"آدھا ذرہ؟"
"شاید..."
"تو پھر محبت کا ایک ذرہ؟"
تب عابد نے آسمان کی طرف سر اُٹھایا اور نہایت انکساری سے دعا کی: "اے میرے رب! اس بندے کو اپنی محبت کا آدھا ذرہ عطا فرما۔"
اس کے بعد وہ شخص خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔
دن گزرتے گئے، یہاں تک کہ اس کا خاندان، اس کا بیٹا اور اس کے دوست عابد کے پاس آئے اور غمگین ہو کر کہنے لگے: "جس دن وہ آپ سے ملا، اس کے بعد کبھی واپس نہیں آیا۔ کہیں گم ہو گیا ہے، اس کا کچھ پتا نہیں۔"
سب مل کر اسے عرصہ تک تلاش کرتے رہے، یہاں تک کہ یہ سن کر عابد ان کے ساتھ تلاش میں نکل پڑا۔ سب مل کر اسے عرصہ تک ڈھونڈتے رہے، ایک دن چرواہوں کا گروہ ملا، جنہوں نے بتایا: "وہ شخص تو پاگل ہو گیا ہے اور پہاڑوں میں نکل گیا ہے۔"
جب وہ سب اس مقام پر پہنچے تو دیکھا، وہ شخص ایک چٹان پر کھڑا ہے، نظریں آسمان پر جمی ہوئی ہیں اور وہ بالکل بےخود ہے۔ سب نے سلام کیا، مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ عابد قریب گیا اور پکارا: "میں عابد ہوں، توجہ کرو۔"
مگر وہ ساکت و جامد رہا۔
بیٹا بےقراری سے آگے بڑھا اور اپنے ننھے، درد بھرے لہجے میں بولا: "ابا جان! کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟"
مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
اہل خانہ اور عزیز چیخنے لگے، اسے جگانے کی کوشش کی، مگر عابد نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا: "یہ سب لاحاصل ہے! جس کے دل میں اللہ کی محبت کا آدھا ذرہ آ جائے، وہ لوگوں کی بات کیسے سن سکتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر تم اسے آری سے کاٹ دو، تب بھی اسے خبر نہ ہوگی۔"
بیٹا رونے لگا: "قصور میرا ہے، میں نے ہی اللہ کو دیکھنے کی فرمائش کی تھی۔"
عابد نے اس کی طرف دیکھا اور جیسے خود سے کہا: "دیکھا؟ اللہ کے نور کا آدھا ذرہ بھی انسان کے دل و دماغ کو بےخود کر دینے کے لیے کافی ہے۔"
............................................

