افسانچہ کیا ھے۔ ایک عمومی جائزہ
افسانچہ کیا ھے۔ ایک عمومی جائزہ
Aug 6, 2025


افسانچہ کیا ھے۔ ایک عمومی جائزہ : تبصرہ
نعیم بیگ
(اردو ادب کے معروف فورم انحراف پر خاکسار کے لکھے چند الفاظ یہاں دوستوں کے لیئے نقل کر رھا ھوں)
افسانچہ کے بارے مییں کچھ کہنے سے پہلے افسانے کی تاریخی حثیت کو دیکھنا ھو گا۔ مغرب سے سفر کرتی آئی شارٹ سٹوریز جیسی صنف جب ایشیائی روائتی کہانی کا سامنا کرتی ھے تو یہاں کا ادیب اسے افسانے کے نام سے اپنے رنگوں میں سجاتا ھے۔
پریم چند کے زمانے میں بھی افسانہ نگاروں کی خوب بھیڑ تھی۔ گو اس دور کے ادبی رسالے اب میسیر نہیں اور نہ ہی محققین نے اس سلسلے میں کوئی فہرست ترتیب دی ھے تاھم جو نام لیئے جاتے ہیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، نیاز فتحپوری ، سجاد حیدر یلدرم مجنوں گھورکھپوری وغیرہ بھی تھے۔ اس وقت دوسری طرف ٹیگور اور سرت چندر بنگالی کہانیاں لکھ رھے تھے۔
بظاھرمنشی پریم چند سے شروع ھوتا سفر اپنے اولین ارتقائی مراحل کچھ تیزی سے طے کرتا ھے اور پھر بیسویں صدی کی پچاس کی دھائی میں وہ کہانی کے ہوش ربا طلسم سے نکل کر انسانی المیوں اور سماجی ٹیبوز کو چھوتا ھے۔ اس دور میں جب خواجہ احمد عباس معاشرتی کہانیوں کو ’’ماں کا دل ‘‘ ’’ دل ہی تو ھے ‘‘ بارہ گھنٹے ‘‘ ’’ ابابیل‘‘ لکھ رھے تھے جہاں آزادی کے بعد انکا افسانہ ’’ میجر رفیق مارا گیا ‘‘ نے شہرت حاصل کی۔ دوسری طرف عصمت چغتائی کے ’’لحاف‘‘ نے ادبی نقادوں کو جکڑ رکھا تھا۔ منٹو پر پہلےہی متنازع ھونے کی چھاپ لگ چکی تھی ۔ تاھم افسانے کی ادبی دنیا ان کے بغیر نامکمل تھی کہ انکے اسلوب نے ایک دھوم بھرحال مچا رکھی تھی۔ لاھور سے نکلنے والے ادبی جریدے ادب لطیف ،شاھکار ، ادبی دنیا اور ساقی نکل رھے تھے۔ ان سب کی مشترکہ کوشش سے افسانہ اپنے بامِ عروج تک پہنچ گیا۔
غلام عباس لاھور میں ’’ اورکوٹ‘‘ اور ’’ آنندی‘‘ لکھ کرعالمی شہرت پا چکے تھے۔
اس ارتقائی سفر سے ھوتا ھوا افسانہ پھر ساٹھ اور ستر کی دھائی میں علامتی اور تجریدی سفر پرنکلا تھا۔ یہیں سے افسانہ قدرے مختصر ھونا بھی شروع ھوا لیکن نقادوں نے اس کے طوالت اب نفسِ مضمون کی مناسبت سے طے کرنی شروع کر دی۔ ھندوستان میں ایک طرف فکشن کے نقاد وارث علوی تھے تو دوسری طرف یہاں کے نقادوں نے پروگریسوازم کو میٹا فزکس کے طرف موڑ دیا اور اسکے ڈانڈے عقائید کی بنیاد پر طے کرنے شروع کر دیئے۔ ان میں فتح محمد ملک ، جیلانی کامران وغیرہ تھے دوسری طرف وزیر آغا اسکول آف تھاٹ نے مغرب سے آئی نئی اصطلاحات جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر مضامین لکھ کر ھلچل مچا دی تھی۔ اس سارے ارتقائی عمل میں جو کام کی بات ھوئی کہ افسانہ نہ صرف مزید اپنے بیانیہ میں سادہ اسلوب کے ساتھ لکھا جانے لگا بلکہ اختصار اسکی پہچان بن گیا۔
عالمی منظر نامے پرمیڈیا ایلکٹرونک میڈیا پھر کمپیوٹر اور اب سمارٹ فون نے جو انقلاب بپا کیا ھے اس میں فطری طور پر تحریریں نہ صرف مختصر ھوتی گئیں بلکہ لسانی اور ثقافتی پابندیوں سے آزاد بھی ھوتی گئیں ہیں۔
اس منظر نامہ میں جب ھم اردو ادب کی صنف افسانچہ کو دیکھتے ہیں جو بظاھر افسانہ کا اختصار نویسی پر مبنی بیانیہ ھے ۔ اس پر ھم نصف صدی پہلے بھی منٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے ’’جوتا‘‘ ’’مزدوری‘‘ اور ’’ جائز استعمال ‘‘ اور مزید کئی ایک لکھ کر مختصر افسانہ کی صنف کو معتبر کر دیا۔
معروف نقاد محمد حسن عسکری لکھتے ہیں ’’ منٹو کے فسادات کے متعلق لکھے افسانوں میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے سب سے زیادہ ھولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں۔ منٹو کی دھشت اور منٹو کی رجائیت سیاسی لوگوں یا انسانیت کے نیکو کار خادموں کی دھشت اور رجائیت نہیں بلکہ ایک فن کار کی دھشت اور رجائیت ھے اس کا تعلق بحث و تمحیص یا تفکر سے نہیں بلکہ ٹھوس تخلیقی تجربہ سے ، اور یہی منٹو کے افسانوں کا طرہ امتیاز ھے۔ ‘‘
تاھم اب عالمی منظر پر رونما ھوتےعصری انسانی المیوں سے نبٹتا عالمی ادب بذات خود اپنی ھیئت میں اختصار کی جانب رواں دواں ھے اسی کے پیشِ نظر ھمارے ھاں اردو ادب کی اصناف جو روائتی ھیئت اور تکنیکی عمل یا روش تیزی سے روبہ زوال ہیں ان میں طوالت پر منبی کہانی بھی ایک عنصر ھے۔ ناول سے زیادہ ناولٹ اور افسانے سے زیادہ افسانچے ھماری آنے والی ادبی تحریروں کا نشان ھونگے ۔
افسانچہ کیا ھے۔ ایک عمومی جائزہ : تبصرہ
نعیم بیگ
(اردو ادب کے معروف فورم انحراف پر خاکسار کے لکھے چند الفاظ یہاں دوستوں کے لیئے نقل کر رھا ھوں)
افسانچہ کے بارے مییں کچھ کہنے سے پہلے افسانے کی تاریخی حثیت کو دیکھنا ھو گا۔ مغرب سے سفر کرتی آئی شارٹ سٹوریز جیسی صنف جب ایشیائی روائتی کہانی کا سامنا کرتی ھے تو یہاں کا ادیب اسے افسانے کے نام سے اپنے رنگوں میں سجاتا ھے۔
پریم چند کے زمانے میں بھی افسانہ نگاروں کی خوب بھیڑ تھی۔ گو اس دور کے ادبی رسالے اب میسیر نہیں اور نہ ہی محققین نے اس سلسلے میں کوئی فہرست ترتیب دی ھے تاھم جو نام لیئے جاتے ہیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، نیاز فتحپوری ، سجاد حیدر یلدرم مجنوں گھورکھپوری وغیرہ بھی تھے۔ اس وقت دوسری طرف ٹیگور اور سرت چندر بنگالی کہانیاں لکھ رھے تھے۔
بظاھرمنشی پریم چند سے شروع ھوتا سفر اپنے اولین ارتقائی مراحل کچھ تیزی سے طے کرتا ھے اور پھر بیسویں صدی کی پچاس کی دھائی میں وہ کہانی کے ہوش ربا طلسم سے نکل کر انسانی المیوں اور سماجی ٹیبوز کو چھوتا ھے۔ اس دور میں جب خواجہ احمد عباس معاشرتی کہانیوں کو ’’ماں کا دل ‘‘ ’’ دل ہی تو ھے ‘‘ بارہ گھنٹے ‘‘ ’’ ابابیل‘‘ لکھ رھے تھے جہاں آزادی کے بعد انکا افسانہ ’’ میجر رفیق مارا گیا ‘‘ نے شہرت حاصل کی۔ دوسری طرف عصمت چغتائی کے ’’لحاف‘‘ نے ادبی نقادوں کو جکڑ رکھا تھا۔ منٹو پر پہلےہی متنازع ھونے کی چھاپ لگ چکی تھی ۔ تاھم افسانے کی ادبی دنیا ان کے بغیر نامکمل تھی کہ انکے اسلوب نے ایک دھوم بھرحال مچا رکھی تھی۔ لاھور سے نکلنے والے ادبی جریدے ادب لطیف ،شاھکار ، ادبی دنیا اور ساقی نکل رھے تھے۔ ان سب کی مشترکہ کوشش سے افسانہ اپنے بامِ عروج تک پہنچ گیا۔
غلام عباس لاھور میں ’’ اورکوٹ‘‘ اور ’’ آنندی‘‘ لکھ کرعالمی شہرت پا چکے تھے۔
اس ارتقائی سفر سے ھوتا ھوا افسانہ پھر ساٹھ اور ستر کی دھائی میں علامتی اور تجریدی سفر پرنکلا تھا۔ یہیں سے افسانہ قدرے مختصر ھونا بھی شروع ھوا لیکن نقادوں نے اس کے طوالت اب نفسِ مضمون کی مناسبت سے طے کرنی شروع کر دی۔ ھندوستان میں ایک طرف فکشن کے نقاد وارث علوی تھے تو دوسری طرف یہاں کے نقادوں نے پروگریسوازم کو میٹا فزکس کے طرف موڑ دیا اور اسکے ڈانڈے عقائید کی بنیاد پر طے کرنے شروع کر دیئے۔ ان میں فتح محمد ملک ، جیلانی کامران وغیرہ تھے دوسری طرف وزیر آغا اسکول آف تھاٹ نے مغرب سے آئی نئی اصطلاحات جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر مضامین لکھ کر ھلچل مچا دی تھی۔ اس سارے ارتقائی عمل میں جو کام کی بات ھوئی کہ افسانہ نہ صرف مزید اپنے بیانیہ میں سادہ اسلوب کے ساتھ لکھا جانے لگا بلکہ اختصار اسکی پہچان بن گیا۔
عالمی منظر نامے پرمیڈیا ایلکٹرونک میڈیا پھر کمپیوٹر اور اب سمارٹ فون نے جو انقلاب بپا کیا ھے اس میں فطری طور پر تحریریں نہ صرف مختصر ھوتی گئیں بلکہ لسانی اور ثقافتی پابندیوں سے آزاد بھی ھوتی گئیں ہیں۔
اس منظر نامہ میں جب ھم اردو ادب کی صنف افسانچہ کو دیکھتے ہیں جو بظاھر افسانہ کا اختصار نویسی پر مبنی بیانیہ ھے ۔ اس پر ھم نصف صدی پہلے بھی منٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے ’’جوتا‘‘ ’’مزدوری‘‘ اور ’’ جائز استعمال ‘‘ اور مزید کئی ایک لکھ کر مختصر افسانہ کی صنف کو معتبر کر دیا۔
معروف نقاد محمد حسن عسکری لکھتے ہیں ’’ منٹو کے فسادات کے متعلق لکھے افسانوں میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے سب سے زیادہ ھولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں۔ منٹو کی دھشت اور منٹو کی رجائیت سیاسی لوگوں یا انسانیت کے نیکو کار خادموں کی دھشت اور رجائیت نہیں بلکہ ایک فن کار کی دھشت اور رجائیت ھے اس کا تعلق بحث و تمحیص یا تفکر سے نہیں بلکہ ٹھوس تخلیقی تجربہ سے ، اور یہی منٹو کے افسانوں کا طرہ امتیاز ھے۔ ‘‘
تاھم اب عالمی منظر پر رونما ھوتےعصری انسانی المیوں سے نبٹتا عالمی ادب بذات خود اپنی ھیئت میں اختصار کی جانب رواں دواں ھے اسی کے پیشِ نظر ھمارے ھاں اردو ادب کی اصناف جو روائتی ھیئت اور تکنیکی عمل یا روش تیزی سے روبہ زوال ہیں ان میں طوالت پر منبی کہانی بھی ایک عنصر ھے۔ ناول سے زیادہ ناولٹ اور افسانے سے زیادہ افسانچے ھماری آنے والی ادبی تحریروں کا نشان ھونگے ۔