افسانچہ : بیلا
افسانچہ : بیلا
Dec 9, 2025
پینثنگ-اسرار فاروقی


افسانچہ :
__ بیلا __
[ خالد قیوم تنولی ]
ابھی عشائے کا دستر خوان بچھا ہی تھا کہ بےبے جی نے مجھے آواز دی۔ میں گیا تو دیکھا وہ تندور میں سے روٹیوں کا آخری پراگا نکال رہی تھیں۔ بولیں : ”بچہ نٹھ کے جا ، ماسی تیری دا کوٸی سنہیا اے۔“
میں انہی قدموں مڑا اور ماسی کے گھر کی طرف نکل گیا۔
ماسی ، بے بے جی کی بڑی بہن اور مزاج کی نہایت سخت مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ مجھے لاڈ سے بلانا بھولی ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی اگرچہ وہ اپنے جوڑوں کے درد سے نڈھال بیٹھی تھیں ، کِھل سی گٸیں اور کھنڈ جیسے شیریں لہجے میں بولیں : ”اولاد ہووے تے شہریار جٸ ۔۔۔ بات منہ سے نکلی نہیں اور فوراً حاضر۔“
میں ان کے پاس ہی پاٸنتی بیٹھ گیا اور پوچھا : ”ماسی خیریت ؟“
”خیر ای خیر اے پُترا ، گُل میرا گراں جانا ھے ، زینت کے گھر۔ عید قربان سر پہ آ پہنچی ھے۔ تم اگر اوکھے نہ ہو تو اس تک درکسانا دے آٶ کل ، تیہہ تیہانڑی ھے۔ ایسے خوشی کے موقعے پہ تیہانڑیوں کو اپنے میکے کی طرف سے بڑا مان اور امید لگی رہتی ھے۔“
”جی بہت بہتر ۔ کل سویرے ہی روانہ ہو جاٶں گا۔“ میں نے سعادتمندی کے طور پر سر تسلیم خم کیا تو انھوں نے دعاٶں کی جھڑی لگا دی۔
میں اٹھا اور اندھیرے میں باہر صحن پار کرنے لگا تو ماسی کے لادو گدھے نے مجھے پیچھے سے دو لتی مارنا چاہی۔ جب تک میں اپنا بچاٶ کرتا اس نے بہ سرعت مار بھی دی۔ میں لڑکھڑایا ضرور مگر فوراً سنبھلا اور جواب میں دو کافی زوردار لاتیں اسے رسید کر دیں۔ پھر باور بھی کرایا کہ ۔۔۔ ”تجھ سے کم میں بھی نہیں۔“
واضح کرتا چلوں کہ زینت ، ماسی کی اکلوتی نند تھی جو بہت دور کے ایک گاٶں گل میرا میں بیاہی ہوٸی تھی۔ درکسانا (تحاٸف کی وہ گٹھڑی جو میکے کی طرف سے تہواروں پر بہنوں اور بیٹیوں کے لیے بھیجی جاتی ھے)
اگلی صبح سویرے میں درکسانہ اٹھا ، چل پڑا تھا۔ کم و بیش سترہ یا اٹھارہ میل کی وہ مسافت مجھ جیسے کھلنڈرے اور بے فکرے نوجوان کے سامنے ہیچ تھی۔ میں لڑکپن میں ایک بار ماسڑے (خالو جان) کے ساتھ جا چکا تھا اس لیے راہ بالکل نہ بھولا۔ سارے نشیب و فراز مجھے ازبر تھے۔
ظہر کی اذان ہو رہی تھی جب میں نے زینت خالہ کے گھر کی باہرلی دہلیز عبور کی۔ سارے کنبے نے جو میرا سواگت کیا وہ میں قیامت کی چاند رات تک بھی نہیں بھولوں گا۔ زینت خالہ نے میرے ماتھے ، آنکھوں اور گالوں پر بوسے دیے۔ بار بار کہتی جاٸیں ۔۔۔ ”او کتنا سوہنڑا تے تکڑا ہو گٸیا ایں توں۔ میں صدقے واری جُلاں۔“
زینت خالہ کی چاروں بیٹیوں نے آگے بڑھ کر مجھ سے نکے نکے مصافحے کیے۔ مجھ پر پکھیاں جَھلیں۔ ایک کم سن بچے نے میری مُٹھی چاپی کرنا چاہی لیکن سچ تو یہ ھے کہ مجھے بالکل بھی سفر کی تکان نہ تھی حالانکہ درکسانے کا بوجھ پندرہ سیر تو ضرور رہا ہو گا ، سو اسے منع کر دیا۔
رات ہوٸی تو بڑے کشادہ صحن میں آمنے سامنے بچھی چارپاٸیوں پر بستر لگے۔ صحن کی منڈیر سے کافی نیچے نیلے ڈل ڈل کرتے پانیوں والی جھیل تھی اور ہوا کے خنک و خوشگوار جھونکے جھیل کی سمت سے ہم سب تک پہنچ رہے تھے۔ سیاہ آسمان پر ان گنت ستاروں بھری کہکشاں سجی ہوٸی تھی۔ ستاروں کی چھاٶں میں ہم سب خوش گپیوں میں مگن تھے کہ عمر میں اندازاً میری ہم عمر بیلا نے کھنکتی فرماٸش کی ۔۔۔ ”کوٸی کہانی تو سناٸیے پڑھاکو جی !“
اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ میں نے عنبر ، ناگ اور ماریا نامی کہانی چھیڑ دی اور اس میں سرقے اور جھوٹ کی ایسی خود ساختہ آمیزش کی کہ ماحول میں صرف رکے رکے سے سانسوں کی آواز تھی۔ ایک تو میں نے لہجہ ڈراماٸی سا رکھا اور پھر تجسس کی آنچ خوب تیز۔ مکالموں کی اداٸیگی ایسی چُست اور رواں کہ کٸی مکالموں پر ”مکرر مکرر مکرر “ کے غلغلے بپا ہوۓ۔ کہانی دو گھنٹے کھینچ لے گٸ۔ شب بھیگنے لگی تھی۔ فاریہ جو سب سے چھوٹی تھی ، نے گویا خبر دی : ”شہری بھیا ! بیلا اپیا گیت بھی گاتی ہیں۔“
میری نظر بیلا کی طرف اٹھی تو اس کی پلکوں کی چلمنیں گر گٸیں اور ہونٹوں کے کنول وا ہونے لگے۔ میں نے فاریہ کی صلاح پر صاد کیا۔ انگریزی زبان کے کسی قدیم رومانوی ناول کے سر ورق کی وکٹوریاٸی حسینہ کی تصویر بنی بیلا کچھ سوچنے لگی تھی۔ پہلے اس نے اطالوی گاتو (بلی) کی طرح ایک پیاری سی چھینک ماری اور پھر ایک مدھر لَے زیست کی اوج گاہوں سے دھیرے دھیرے اترنے لگی ۔۔۔۔
دس میریا دلبرا وے
تُوں کیہڑے عرش دا تارہ
آواز میں وہ غضب کا لوچ اور بانکپن تھا کہ مجھے وہ جھرجھری سی آ گٸ جو برفاب کو چُھونے سے آتی ھے۔ اس پر مستزاد اس مغنیہ کی اداۓ دلفریبی کہ مخاطبیہ نہاں بھی نہ ہو اور عیاں بھی نہ ہو۔
مَندھری (منجھلی) نیلو جو سب سے زیادہ نٹ کھٹ تھی ۔۔۔ اس لافانی ردھم میں مخل ہوٸی ۔۔۔ ”ارے تان اٹھاٸیے نا بھیا جی !“
میں تو بیتے ہوۓ نصابی امتحانات میں ان سوالات کے جوابات بھی لکھتا آیا تھا جو کمپلسری بالکل بھی نہ تھے مگر انا کی مسابقت لاحق ہو جایا کرتی تھی ، اور یہ تو ریڈیو پہ متعدد بار میرا سُنا ہوا گیت تھا لہذا ڈوٸٹ کے متقاضی چِھڑ گیا :
میں اجے ناں دسنا نی کہ جد تک ساڈا پیار کوارا
باقی مخلوط سامعین نے دُھن کے مطابق تالیاں بجانا شروع کی ہی تھیں کہ بیلا بھرا میلہ چھوڑ کر اٹھی اور دالان پھلانگ کر کسی کمرے میں اوجھل ہو گٸ۔
باقی رات آکاش کے تارے گنتے بیتی اور نجانے کب روٹھی نیند نے سچ سے سپنے میں جا چھوڑا۔
وسیع و عریض جھیل جس میں نیلا آسمانی رنگ گُھل مِل رہا تھا اور جھیل کی اطرافی ڈھلوانی سطح سفید برف سے ڈھکی ہوٸی تھی اور دیودار کے پیڑوں نے بھی برفابی گھونگھٹ کر رکھے تھے۔ زمستانی ہواٶں کے جھونکے وجود کو چھیلتے ہوۓ گزر رہے تھے ۔۔۔ دفعتاً بیلا کی صدا انجانی سمت سے ابھر کر مجھ تک پہنچی ۔۔۔”بُوجھو تو میں کہاں ہوں؟“ میں چہار اطرف لٹو کی مانند گھوم جاتا ہوں تاہم وہ دھرتی پہ کہیں بھی نہیں تھی سواۓ اپنی گونجیلی سسکیوں کے ۔۔۔ اور تبھی میں ان سسکیوں کے تعاقب میں تھک کر سپنے کے چوکھٹے سے باہر آ گیا۔
بیلا بولی : ” اتنی بے خبری اچھی نہیں ہوتی۔ اٹھیے نا ، دھوپ نکل آٸی ھے۔“
کسلمندی کے مارے انگڑاٸی لے کر میں اٹھ بیٹھا اور کہا : ”عجب بے نیازی ھے۔ سُندری اوٹ میں ، ڈھنڈورا کوٹ (قلعے) میں۔“
ناشتے کے بعد میں گھر واپسی بارے سوچ ہی رہا تھا کہ چند لڑکے بالے گیند اور بلا اٹھاۓ آ گۓ کہ بھاٸی جان ، سنا ھے آپ کالج میں کرکٹ ٹیم کے بہت ماہر بلے باز ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوٸی تگڑا سا عذر تراشتا کہ فاریہ کہنے لگی : ”ارے بھیا ہمارے کوٸی ایسے ویسے بلے باز ہیں ، باٶلر کی جان نکال لیتے ہیں ، ٹُلے مار مار کر۔ ویسے بھی اب یہ چند دن تو رہیں گے ہی۔ لے جاٶ انھیں ساتھ۔ ہم بھی دیکھنے آٸیں گی آج ان کی مہارت۔“
جب میں نے اوپر تلے دو چھکے اور ایک چوکا مارا تو دور و نزدیک کوٸی نسوانی تماشبین نہ تھی لیکن اگلے اوور میں پہلی گیند پر جب میری وکٹ اڑی تو کھیت کے ابتداٸیے میں بیلا ، فاریہ اور نیلو کی جھلک دکھاٸی دے گٸ۔ تینوں اپنی چُنریوں میں ہنسی چھان رہی تھیں۔
میچ کے اختتام پر گھر پہنچا تو ڈیوڑھی میں زینت خالہ کی سسرالی برادری کی کچھ خواتین میرے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ مجھے ان سے ملوایا گیا۔ روایت کی رُو سے عمر میں بڑی عورت کے آگے تعظیماً سر جھکایا جاتا ھے اور داٸیں ہاتھ کی پشت آگے بڑھاٸی جاتی ھے جس پر بزرگ خاتون اپنا مشفق بوسہ ثبت کرتی ھے اور اگر مقابل عمر میں کم ہو تو مرد اس کے سر پہ احتراماً ہاتھ دھرتا ھے۔ زینت خالہ نے مجھے ان سب سے اور پھر ان کا بلحاظ رشتہ تعارفیہ بیان کیا۔ میں نمازی بچے کی سی جبری سعادت مندی کے ساتھ ہر سوال کے جواب میں جی بس ایسا ھے ، ویسا ھے ، یوں ھے ، وُوں ھے ، کہتا گیا۔ کچھ دیر خود کو ڈسپلے ہونے دیا۔ آخر کار جب بہت سی توصیفی نظروں اور ستاٸشی کلمات سے قدرے گبھرا گیا تو اجازت لے کر باہر صحن میں گھنے شہتوت کی چھاٶں میں جمی منڈلی میں اٹھ آیا۔
اگلی رات حسب معمول وسیع صحن میں پھر رونق لگی۔ ماہیے ، گیت اور بجھارتی مقابلہ ہوا۔ بیسیوں پُر مزاح واقعات کا تبادلہ ہوا۔ بیلا میرے متوازی پلنگ پہ دراز تھی۔ ہم دونوں شاید اسی ایک ستارے کو دیکھ رہے تھے جو اچانک ٹوٹا اور لا متناہی کاٸنات کی رفعتوں اور وسعتوں میں کہیں معدوم ہوتا چلا گیا۔ میں نے اُس نظارگی سے پلٹ کر ناگاہ بیلا کی جانب دیکھا تو وہ پہلے ہی مجھے دیکھے جاۓ۔ اس دید بازی میں اس کی داہنی آنکھ کے گوشے سے جونہی ایک ننھا سا روشن آنسو نکلا ، اس نے رخ پھیر لیا۔
وہ گویا دوھری اور حتمی معدومیت تھی۔
___ 🌟 ___
افسانچہ :
__ بیلا __
[ خالد قیوم تنولی ]
ابھی عشائے کا دستر خوان بچھا ہی تھا کہ بےبے جی نے مجھے آواز دی۔ میں گیا تو دیکھا وہ تندور میں سے روٹیوں کا آخری پراگا نکال رہی تھیں۔ بولیں : ”بچہ نٹھ کے جا ، ماسی تیری دا کوٸی سنہیا اے۔“
میں انہی قدموں مڑا اور ماسی کے گھر کی طرف نکل گیا۔
ماسی ، بے بے جی کی بڑی بہن اور مزاج کی نہایت سخت مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ مجھے لاڈ سے بلانا بھولی ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی اگرچہ وہ اپنے جوڑوں کے درد سے نڈھال بیٹھی تھیں ، کِھل سی گٸیں اور کھنڈ جیسے شیریں لہجے میں بولیں : ”اولاد ہووے تے شہریار جٸ ۔۔۔ بات منہ سے نکلی نہیں اور فوراً حاضر۔“
میں ان کے پاس ہی پاٸنتی بیٹھ گیا اور پوچھا : ”ماسی خیریت ؟“
”خیر ای خیر اے پُترا ، گُل میرا گراں جانا ھے ، زینت کے گھر۔ عید قربان سر پہ آ پہنچی ھے۔ تم اگر اوکھے نہ ہو تو اس تک درکسانا دے آٶ کل ، تیہہ تیہانڑی ھے۔ ایسے خوشی کے موقعے پہ تیہانڑیوں کو اپنے میکے کی طرف سے بڑا مان اور امید لگی رہتی ھے۔“
”جی بہت بہتر ۔ کل سویرے ہی روانہ ہو جاٶں گا۔“ میں نے سعادتمندی کے طور پر سر تسلیم خم کیا تو انھوں نے دعاٶں کی جھڑی لگا دی۔
میں اٹھا اور اندھیرے میں باہر صحن پار کرنے لگا تو ماسی کے لادو گدھے نے مجھے پیچھے سے دو لتی مارنا چاہی۔ جب تک میں اپنا بچاٶ کرتا اس نے بہ سرعت مار بھی دی۔ میں لڑکھڑایا ضرور مگر فوراً سنبھلا اور جواب میں دو کافی زوردار لاتیں اسے رسید کر دیں۔ پھر باور بھی کرایا کہ ۔۔۔ ”تجھ سے کم میں بھی نہیں۔“
واضح کرتا چلوں کہ زینت ، ماسی کی اکلوتی نند تھی جو بہت دور کے ایک گاٶں گل میرا میں بیاہی ہوٸی تھی۔ درکسانا (تحاٸف کی وہ گٹھڑی جو میکے کی طرف سے تہواروں پر بہنوں اور بیٹیوں کے لیے بھیجی جاتی ھے)
اگلی صبح سویرے میں درکسانہ اٹھا ، چل پڑا تھا۔ کم و بیش سترہ یا اٹھارہ میل کی وہ مسافت مجھ جیسے کھلنڈرے اور بے فکرے نوجوان کے سامنے ہیچ تھی۔ میں لڑکپن میں ایک بار ماسڑے (خالو جان) کے ساتھ جا چکا تھا اس لیے راہ بالکل نہ بھولا۔ سارے نشیب و فراز مجھے ازبر تھے۔
ظہر کی اذان ہو رہی تھی جب میں نے زینت خالہ کے گھر کی باہرلی دہلیز عبور کی۔ سارے کنبے نے جو میرا سواگت کیا وہ میں قیامت کی چاند رات تک بھی نہیں بھولوں گا۔ زینت خالہ نے میرے ماتھے ، آنکھوں اور گالوں پر بوسے دیے۔ بار بار کہتی جاٸیں ۔۔۔ ”او کتنا سوہنڑا تے تکڑا ہو گٸیا ایں توں۔ میں صدقے واری جُلاں۔“
زینت خالہ کی چاروں بیٹیوں نے آگے بڑھ کر مجھ سے نکے نکے مصافحے کیے۔ مجھ پر پکھیاں جَھلیں۔ ایک کم سن بچے نے میری مُٹھی چاپی کرنا چاہی لیکن سچ تو یہ ھے کہ مجھے بالکل بھی سفر کی تکان نہ تھی حالانکہ درکسانے کا بوجھ پندرہ سیر تو ضرور رہا ہو گا ، سو اسے منع کر دیا۔
رات ہوٸی تو بڑے کشادہ صحن میں آمنے سامنے بچھی چارپاٸیوں پر بستر لگے۔ صحن کی منڈیر سے کافی نیچے نیلے ڈل ڈل کرتے پانیوں والی جھیل تھی اور ہوا کے خنک و خوشگوار جھونکے جھیل کی سمت سے ہم سب تک پہنچ رہے تھے۔ سیاہ آسمان پر ان گنت ستاروں بھری کہکشاں سجی ہوٸی تھی۔ ستاروں کی چھاٶں میں ہم سب خوش گپیوں میں مگن تھے کہ عمر میں اندازاً میری ہم عمر بیلا نے کھنکتی فرماٸش کی ۔۔۔ ”کوٸی کہانی تو سناٸیے پڑھاکو جی !“
اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ میں نے عنبر ، ناگ اور ماریا نامی کہانی چھیڑ دی اور اس میں سرقے اور جھوٹ کی ایسی خود ساختہ آمیزش کی کہ ماحول میں صرف رکے رکے سے سانسوں کی آواز تھی۔ ایک تو میں نے لہجہ ڈراماٸی سا رکھا اور پھر تجسس کی آنچ خوب تیز۔ مکالموں کی اداٸیگی ایسی چُست اور رواں کہ کٸی مکالموں پر ”مکرر مکرر مکرر “ کے غلغلے بپا ہوۓ۔ کہانی دو گھنٹے کھینچ لے گٸ۔ شب بھیگنے لگی تھی۔ فاریہ جو سب سے چھوٹی تھی ، نے گویا خبر دی : ”شہری بھیا ! بیلا اپیا گیت بھی گاتی ہیں۔“
میری نظر بیلا کی طرف اٹھی تو اس کی پلکوں کی چلمنیں گر گٸیں اور ہونٹوں کے کنول وا ہونے لگے۔ میں نے فاریہ کی صلاح پر صاد کیا۔ انگریزی زبان کے کسی قدیم رومانوی ناول کے سر ورق کی وکٹوریاٸی حسینہ کی تصویر بنی بیلا کچھ سوچنے لگی تھی۔ پہلے اس نے اطالوی گاتو (بلی) کی طرح ایک پیاری سی چھینک ماری اور پھر ایک مدھر لَے زیست کی اوج گاہوں سے دھیرے دھیرے اترنے لگی ۔۔۔۔
دس میریا دلبرا وے
تُوں کیہڑے عرش دا تارہ
آواز میں وہ غضب کا لوچ اور بانکپن تھا کہ مجھے وہ جھرجھری سی آ گٸ جو برفاب کو چُھونے سے آتی ھے۔ اس پر مستزاد اس مغنیہ کی اداۓ دلفریبی کہ مخاطبیہ نہاں بھی نہ ہو اور عیاں بھی نہ ہو۔
مَندھری (منجھلی) نیلو جو سب سے زیادہ نٹ کھٹ تھی ۔۔۔ اس لافانی ردھم میں مخل ہوٸی ۔۔۔ ”ارے تان اٹھاٸیے نا بھیا جی !“
میں تو بیتے ہوۓ نصابی امتحانات میں ان سوالات کے جوابات بھی لکھتا آیا تھا جو کمپلسری بالکل بھی نہ تھے مگر انا کی مسابقت لاحق ہو جایا کرتی تھی ، اور یہ تو ریڈیو پہ متعدد بار میرا سُنا ہوا گیت تھا لہذا ڈوٸٹ کے متقاضی چِھڑ گیا :
میں اجے ناں دسنا نی کہ جد تک ساڈا پیار کوارا
باقی مخلوط سامعین نے دُھن کے مطابق تالیاں بجانا شروع کی ہی تھیں کہ بیلا بھرا میلہ چھوڑ کر اٹھی اور دالان پھلانگ کر کسی کمرے میں اوجھل ہو گٸ۔
باقی رات آکاش کے تارے گنتے بیتی اور نجانے کب روٹھی نیند نے سچ سے سپنے میں جا چھوڑا۔
وسیع و عریض جھیل جس میں نیلا آسمانی رنگ گُھل مِل رہا تھا اور جھیل کی اطرافی ڈھلوانی سطح سفید برف سے ڈھکی ہوٸی تھی اور دیودار کے پیڑوں نے بھی برفابی گھونگھٹ کر رکھے تھے۔ زمستانی ہواٶں کے جھونکے وجود کو چھیلتے ہوۓ گزر رہے تھے ۔۔۔ دفعتاً بیلا کی صدا انجانی سمت سے ابھر کر مجھ تک پہنچی ۔۔۔”بُوجھو تو میں کہاں ہوں؟“ میں چہار اطرف لٹو کی مانند گھوم جاتا ہوں تاہم وہ دھرتی پہ کہیں بھی نہیں تھی سواۓ اپنی گونجیلی سسکیوں کے ۔۔۔ اور تبھی میں ان سسکیوں کے تعاقب میں تھک کر سپنے کے چوکھٹے سے باہر آ گیا۔
بیلا بولی : ” اتنی بے خبری اچھی نہیں ہوتی۔ اٹھیے نا ، دھوپ نکل آٸی ھے۔“
کسلمندی کے مارے انگڑاٸی لے کر میں اٹھ بیٹھا اور کہا : ”عجب بے نیازی ھے۔ سُندری اوٹ میں ، ڈھنڈورا کوٹ (قلعے) میں۔“
ناشتے کے بعد میں گھر واپسی بارے سوچ ہی رہا تھا کہ چند لڑکے بالے گیند اور بلا اٹھاۓ آ گۓ کہ بھاٸی جان ، سنا ھے آپ کالج میں کرکٹ ٹیم کے بہت ماہر بلے باز ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوٸی تگڑا سا عذر تراشتا کہ فاریہ کہنے لگی : ”ارے بھیا ہمارے کوٸی ایسے ویسے بلے باز ہیں ، باٶلر کی جان نکال لیتے ہیں ، ٹُلے مار مار کر۔ ویسے بھی اب یہ چند دن تو رہیں گے ہی۔ لے جاٶ انھیں ساتھ۔ ہم بھی دیکھنے آٸیں گی آج ان کی مہارت۔“
جب میں نے اوپر تلے دو چھکے اور ایک چوکا مارا تو دور و نزدیک کوٸی نسوانی تماشبین نہ تھی لیکن اگلے اوور میں پہلی گیند پر جب میری وکٹ اڑی تو کھیت کے ابتداٸیے میں بیلا ، فاریہ اور نیلو کی جھلک دکھاٸی دے گٸ۔ تینوں اپنی چُنریوں میں ہنسی چھان رہی تھیں۔
میچ کے اختتام پر گھر پہنچا تو ڈیوڑھی میں زینت خالہ کی سسرالی برادری کی کچھ خواتین میرے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ مجھے ان سے ملوایا گیا۔ روایت کی رُو سے عمر میں بڑی عورت کے آگے تعظیماً سر جھکایا جاتا ھے اور داٸیں ہاتھ کی پشت آگے بڑھاٸی جاتی ھے جس پر بزرگ خاتون اپنا مشفق بوسہ ثبت کرتی ھے اور اگر مقابل عمر میں کم ہو تو مرد اس کے سر پہ احتراماً ہاتھ دھرتا ھے۔ زینت خالہ نے مجھے ان سب سے اور پھر ان کا بلحاظ رشتہ تعارفیہ بیان کیا۔ میں نمازی بچے کی سی جبری سعادت مندی کے ساتھ ہر سوال کے جواب میں جی بس ایسا ھے ، ویسا ھے ، یوں ھے ، وُوں ھے ، کہتا گیا۔ کچھ دیر خود کو ڈسپلے ہونے دیا۔ آخر کار جب بہت سی توصیفی نظروں اور ستاٸشی کلمات سے قدرے گبھرا گیا تو اجازت لے کر باہر صحن میں گھنے شہتوت کی چھاٶں میں جمی منڈلی میں اٹھ آیا۔
اگلی رات حسب معمول وسیع صحن میں پھر رونق لگی۔ ماہیے ، گیت اور بجھارتی مقابلہ ہوا۔ بیسیوں پُر مزاح واقعات کا تبادلہ ہوا۔ بیلا میرے متوازی پلنگ پہ دراز تھی۔ ہم دونوں شاید اسی ایک ستارے کو دیکھ رہے تھے جو اچانک ٹوٹا اور لا متناہی کاٸنات کی رفعتوں اور وسعتوں میں کہیں معدوم ہوتا چلا گیا۔ میں نے اُس نظارگی سے پلٹ کر ناگاہ بیلا کی جانب دیکھا تو وہ پہلے ہی مجھے دیکھے جاۓ۔ اس دید بازی میں اس کی داہنی آنکھ کے گوشے سے جونہی ایک ننھا سا روشن آنسو نکلا ، اس نے رخ پھیر لیا۔
وہ گویا دوھری اور حتمی معدومیت تھی۔
___ 🌟 ___

