مختصر افسانہ:زرد پھول

مختصر افسانہ:زرد پھول

Oct 14, 2025

مصنف

اعجازالحق

مختصر افسانہ:زرد پھول

اعجازالحق

دسمبر کی دھند نے پورے شہر کو ایک خوابناک منظر میں لپیٹ دیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی پرانی عمارت پر لٹکتے زرد بلب کی مدھم روشنی دھند میں تحلیل ہو رہی تھی۔ پلیٹ فارم کے ایک کنارے ایک لڑکی تنہا بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ دھند میں دھندلا سا نظر آ رہا تھا، لیکن اس کے اداس وجود کی گونج دور تک سنائی دے رہی تھی۔ اس نے سرخ کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی گود میں زرد پھولوں کا ایک چھوٹا سا گلدستہ رکھا تھا، جس کے رنگ دھند میں مزید گہرے ہو گئے تھے۔

کیفے ٹیریا سے دھند کے پار ریلوے اسٹیشن کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ لڑکا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، اور اس کی نظریں اس تنہا لڑکی پر ٹک گئیں۔

"تم نے زرد پھول کیوں چُنے؟"

لڑکی نے میز پر رکھے پھولوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

لڑکا لمحہ بھر کے لیے خاموش رہا، پھر مدھم آواز میں بولا۔۔۔۔۔

"کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ زرد پھول امید اور خوش قسمتی کی علامت ہیں۔ شاید گارسیا مارکیز کے کسی ناول میں۔"

لڑکی ہلکے سے مسکرائی، مگر وہ مسکراہٹ اداسی کے کسی بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔

"یہ تو بس کتابی باتیں ہیں زندگی اس سے بالکل مختلف ہے" وہ دھیرے سے بولی۔

"لیکن کتابیں ہمارے حالات پر ہی لکھی جاتی ہیں یا ہمارے حالات کتابوں میں لکھے جاتے ہیں ،ادب زندگی کا آئینہ ہے، جو نہ صرف ہماری حقیقت کو منعکس کرتا ہے بلکہ ان پہلوؤں کو بھی آشکار کرتا ہے جو ہم خود سے چھپاتے ہیں۔"

لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔

باہر کرسمس کے قمقمے جھلمل کر رہے تھے، اور برف کے نرم گالے زمین پر ایک خاموش چادر بچھا رہے تھے۔ وہ دونوں چائے کے کپ تھامے اپنی اپنی یادوں میں گم تھے، مگر ان کے درمیان کسی ان دیکھی جدائی کی خلیج حائل تھی۔

ریلوے اسٹیشن کی طرف ایک گاڑی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی پہنچی۔ تنہا لڑکی نے اپنا سر اٹھایا، جیسے کسی کا انتظار ہو۔ مگر کوئی نہ آیا۔ وہ گلدستہ تھامے دھند میں مزید چھپ گئی، اور لڑکے نے کیفے ٹیریا کی کھڑکی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا:

"محبت شاید اسی دھند میں بیٹھی لڑکی جیسی ہے۔ دکھ اور انتظار سے گوندھی ہوئی، مگر پھر بھی خوبصورت، اپنی خاموشی میں۔"

لڑکی نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور میز پر رکھے زرد پھولوں کی پنکھڑیوں کو چھوا۔

"محبت کا انجام شاید ایسا ہی ہوتا ہے،" وہ بولی، "دھند، اداسی اور ایک بے سمت انتظار۔"

باہر برف کا طوفان شدت اختیار کر چکا تھا۔ ریلوے اسٹیشن خالی ہو چکا تھا، اور زرد بلب کی روشنی اب مدھم پڑنے لگی تھی۔ کیفے ٹیریا کی خاموشی میں صرف ان کی سانسوں کی گونج باقی تھی۔ محبت، زرد پھولوں کی طرح، دھیرے دھیرے جھڑ رہی تھی۔


مختصر افسانہ:زرد پھول

اعجازالحق

دسمبر کی دھند نے پورے شہر کو ایک خوابناک منظر میں لپیٹ دیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی پرانی عمارت پر لٹکتے زرد بلب کی مدھم روشنی دھند میں تحلیل ہو رہی تھی۔ پلیٹ فارم کے ایک کنارے ایک لڑکی تنہا بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ دھند میں دھندلا سا نظر آ رہا تھا، لیکن اس کے اداس وجود کی گونج دور تک سنائی دے رہی تھی۔ اس نے سرخ کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی گود میں زرد پھولوں کا ایک چھوٹا سا گلدستہ رکھا تھا، جس کے رنگ دھند میں مزید گہرے ہو گئے تھے۔

کیفے ٹیریا سے دھند کے پار ریلوے اسٹیشن کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ لڑکا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، اور اس کی نظریں اس تنہا لڑکی پر ٹک گئیں۔

"تم نے زرد پھول کیوں چُنے؟"

لڑکی نے میز پر رکھے پھولوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

لڑکا لمحہ بھر کے لیے خاموش رہا، پھر مدھم آواز میں بولا۔۔۔۔۔

"کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ زرد پھول امید اور خوش قسمتی کی علامت ہیں۔ شاید گارسیا مارکیز کے کسی ناول میں۔"

لڑکی ہلکے سے مسکرائی، مگر وہ مسکراہٹ اداسی کے کسی بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔

"یہ تو بس کتابی باتیں ہیں زندگی اس سے بالکل مختلف ہے" وہ دھیرے سے بولی۔

"لیکن کتابیں ہمارے حالات پر ہی لکھی جاتی ہیں یا ہمارے حالات کتابوں میں لکھے جاتے ہیں ،ادب زندگی کا آئینہ ہے، جو نہ صرف ہماری حقیقت کو منعکس کرتا ہے بلکہ ان پہلوؤں کو بھی آشکار کرتا ہے جو ہم خود سے چھپاتے ہیں۔"

لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔

باہر کرسمس کے قمقمے جھلمل کر رہے تھے، اور برف کے نرم گالے زمین پر ایک خاموش چادر بچھا رہے تھے۔ وہ دونوں چائے کے کپ تھامے اپنی اپنی یادوں میں گم تھے، مگر ان کے درمیان کسی ان دیکھی جدائی کی خلیج حائل تھی۔

ریلوے اسٹیشن کی طرف ایک گاڑی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی پہنچی۔ تنہا لڑکی نے اپنا سر اٹھایا، جیسے کسی کا انتظار ہو۔ مگر کوئی نہ آیا۔ وہ گلدستہ تھامے دھند میں مزید چھپ گئی، اور لڑکے نے کیفے ٹیریا کی کھڑکی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا:

"محبت شاید اسی دھند میں بیٹھی لڑکی جیسی ہے۔ دکھ اور انتظار سے گوندھی ہوئی، مگر پھر بھی خوبصورت، اپنی خاموشی میں۔"

لڑکی نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور میز پر رکھے زرد پھولوں کی پنکھڑیوں کو چھوا۔

"محبت کا انجام شاید ایسا ہی ہوتا ہے،" وہ بولی، "دھند، اداسی اور ایک بے سمت انتظار۔"

باہر برف کا طوفان شدت اختیار کر چکا تھا۔ ریلوے اسٹیشن خالی ہو چکا تھا، اور زرد بلب کی روشنی اب مدھم پڑنے لگی تھی۔ کیفے ٹیریا کی خاموشی میں صرف ان کی سانسوں کی گونج باقی تھی۔ محبت، زرد پھولوں کی طرح، دھیرے دھیرے جھڑ رہی تھی۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024