افسانہ:صبح۔کاذب
افسانہ:صبح۔کاذب
Sep 29, 2025


افسانہ:صبح۔کاذب
یوسف عزیز زاہد
آنکھ کھلنے کا سبب کوئی درد بھری آواز تھی یا کسی خواب نے میری آنکھوں سے نیبد نوچ لی تھی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو بڑھیا بدستور کمرے کے مٹیالے فرش پر بیٹھی سیاہ سوت کات رہی تھی۔ایک تو یہ سیاہ سوت کاتنے والی بڑھیا ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئی ہے،جب دیکھو،چرخے پر سیاہ سوت کات رہی ہوتی ہے ۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کرنا چاہا تو اس نے میرا ہاتھ تھام لیا
سوئچ آف تو نہیں کیا تھا میں نے لیمپ کا۔خواب آلود لہجے میں بیزاری کی کرواہٹ بھی تھی
تو پھر یہ اندھیرا۔۔۔۔
ہمارے مقدروں میں لکھا ہوا ہے اس لئے ہمیں آنکھ کھلنے پر بھی اندھیرا ہی ملتا ہے
میری بات بیچ میں سے اچک کر اس نے طنزیہ انداز میں کہا
تو تم بھی جاگ رہی ہو؟ کیا منا رویا تھا ابھی؟
منا۔۔؟ وہ اٹھ بیٹھی اور مجھے حیرت سے تکنے لگی
ہاں ہاں منا۔۔ہمارا بیٹا۔۔۔میں نے اس کا سرد ہاتھ سہلاتے ہوئے سرگوشی کی تو بڑھیا کا برف آلود قہقہہ کمرے میں گونجنے لگا
میری بات سن کر وہ بھی ہنسنے لگی اور میرے بدن کی کپکپاہٹ میں اضافہ ہو گیا۔اس کی ہنسی عجیب سی ہے جیسے کوئی اکیلی عورت اپنے جوان بیٹے کی میت پر بین کر رہی ہو
کمرے میں اچانک ہی کافور کی بو پھیل گئی
اچھا،تو تم اس کی بات کر رہے ہو جو میری خشک چھاتیوں میں دودھ تلاش کرتے کرتے بوڑھا ہو چکا ہے
اس کے لہجے میں بیزاری کیساتھ اب دکھ بھی شامل تھا
کیا ؟۔میں چیخ پڑا،ہمارا منا بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔اس کے سرد اور کھردرے ہاتھوں کی پشت پر ابھری لکیروں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کپکپاتے ہوئے سوال کیا تو اس کی ہنسی کمرے میں برف کا طوفان لے آئی۔بس اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ میں اس کا اور منے کا چہرہ ایک بار دیکھ کر تسلی کرلوں کہ سیاہ سوت کاتنے والی بڑھیا کے علاوہ بھی کوئی اس برفیلے کمرے میں موجود ہے۔مگر میں کیسے دیکھ سکتا ہوں ان دونوں کا کا چہرہ؟ کمرے میں تو برف کے طوفان کیساتھ بڑھیا کا کاتا ہوا سوت بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔آخر یہ بڑھیا اس برفیلے کمرے سے نکلتی کیوں نہیں جب بھی میں خواب توڑ کر اپنے وجود میں واپس آتا ہوں بڑھیا کا چرخہ گھوں گھوں کی آوازوں کیساتھ سیاہ سوت کاتنا شروع کر دیتا ہے
یار یہ بتائو ماچس اور لالٹین کہاں رکھی ہے۔بہت نرم لہجے اور مدھم آواز میں میں اس سے سوال کرتا ہوں مگر بڑھیا کا مکروہ قہقہہ پوری قوت سے کمرے کی دیواروں سے ٹکراتا ہے۔ساتھ ہی اس کی برفیلی اور بےہنگم ہنسی بھی کمرے کی دیواروں سے سر پٹختی ہے
تو تمھیں سچ مچ کچھ یاد نہیں؟ جانتے ہو ہم نے سیاہ حروف والی زرد کتاب کو گواہ بنا کر عہد کیا تھا کہ جب چاند ہمارے آنگن میں اترے گا تو ہم چاند کو سیاہ سوت کی کاتی ہوئی چادر میں چھپا لیں گے کہ اس کا چہرہ کوئی نہ دخکھ سکے۔اسی لئے تو میں نے بڑھیا کو چرخے پر سیاہ سوت کاتنے اور منے کو صبح کاذب سے پہلے اندھیرے میں جنم دینے کا عہد نبھایا
آں۔۔ہاں۔۔ہاں مجھے کچھ کچھ یاد آرہا ہے،تمھیں یاد ہے؟ ہم نے منت مانی تھی کہ تمھاری گود ہری ہوگی تو ہم شاہ ولی کے مزار پر سیاہ سوت کی چادر چڑھائیں گے اور گھر کی ساری بتیاں ،چراغ گل کر دیں گے اور کسی کو یہ بات نہیں بتائیں گے کہ ہمارے آنگن میں چاند اترا ہے۔تو کیا تم نے کسی کو بتایا ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو بانچھ نہیں کہتے؟میں نے کچھ دیر پہلے آنگن میں کھٹکا سنا تھا اسی لئے تو میرا خواب کسی نے نوچ لیا ہے۔
میں نے؟۔۔۔میں تو کبھی اس برف آلود اندھے کمرے سے باہر نکلی ہی نہیں۔ اب اس کے لہجے میں خوف کا عفریت بھی چنگھاڑنے لگا تھا
تو پھر؟پھر دیوی ہم سے کیوں ناراض ہے،ابھی تو ڈھروں رات آنگن میں لیٹی ہے اور صبح کاذب کی منزل ابھی بہت دور ہے۔جانتی ہو، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنگن میں کھٹکا ہوا تھا اور شاید کسی نے میرا نام لیکر مجھے پکارا بھی تھا
تو تمھیں بھی کسی نے نام لیکر پکارا تھا۔اس کے لہجے میں حیرت تھی۔میں سمجھی صرف میرا نام لیکر کسی نے مجھے پکارا تھا۔ہمارا نام کیسے لوگوں تک پہنچا؟ اب تو۔۔اب تو منا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اس کا بدن بھی میری طرح کپکبانے لگا تھا۔بستر پر لیٹے لیٹے میں اپنی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
تو تمھیں بھی۔۔۔۔۔۔
میری بات ادھوری ہی رہ گئی،اب کے کسی نے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا تھا اور ہم دونوں کو نام لیکر پکارا تھا۔پکار میں دکھ اور رنجیدگی واضح تھی۔کمرے میں خوف کے عفریت بڑھیا کے کاتے ہوئے سیاہ سوت کیساتھ الجھنے لگے
کوئی جواب نہ دینا۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی مگر بڑھیا کا قہقہہ پھر گونج اٹھا
تم اس بڑھیا کو کمرے سے نکال کیوں نکیں دیتے؟ اب کے اس کی آواز میں غصہ اور بے بسی بھی شامل تھی
میں دیکھتا ہوں دروازے پر کون دستک دے رہا ہے آدھی رات کے وقت
اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہا
باہر نہ جانا،اس وقت بد روحیں گلیوں میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہوتی ہیں
کاش ہمارا کوئی پڑوسی ہوتا،تھوڑی سی روشنی ہی مانگ لیتے اس اندھیرے میں تو دم گھٹنے لگا ہے
اس کی بے ہنگم ہنسی پھر سے دیواروں سے سر پٹخنے لگی
اس شہر میں جہاں سیاہ سوت کاتا جارہا ہے روشنی کس کے پاس ہوگی،اور اگر ہوئی بھی تو کون ہمیں روشنی دینے کی حامی بھرے گا۔ وہ بالکل مایوس ہو چکی تھی
اچانک دروازہ دھڑا دھڑ پیٹا جانے لگا
کون ہو سکتا ہے،اتنی رات گئے،اس برف آلود سردی اور گہری تاریکی میں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔وہ کانپتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی
میں دیکھنا ہوں ،شاید کوئی ضرورت مند ہو
سیاہ سوت سے الجھتے ہوئے میں نے سلیپر تلاش کئے اور کمرے سے باہر جانے کا راستہ تلاش کرنے لگا
جو کوئی بھی ہو اسے یہ نہ بتانا کہ ہمارے آنگن میں چاند اترا ہے
اس کے لہجے میں چنگھاڑتا عفریت دہم سے بستر سے اترا اور میرے ساتھ چلنے لگا۔اپنے پیچھے جب میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا توانکشاف ہوا کہ سیاہ سوٹ کے تار میرے کمرے تک ہی محدود ہیں آنگن میں پورے چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور نرم نازک کرنیں چھپن چھپائی کھیل رہی تھیں
چھپنے والا چھپ جائے،چھپنے والا چھپ جائے چندا کی کرنیں روشنی لائیں
ہو سکتا ہے دروازے پر دودھ والا ہو ،مگر ابھی تو صبح کاذب کے آثار بھی نہیں دودھ والا تو فجر کے بعد آتا ہے
سٹڈی سے گزرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے میں رکا،ساری کتابیں اوندھے منہ فرش پر بکھری ہوئی تھیں، تھکے ہارے لفظ آنسو بہا رہے تھے،سارے حرف روشنی کی تلاش میں سرگرداں تھے۔کتابوں کو پھلانگتا،روتے ہوئے لفظوں سے دامن کو بچاتا،روشنی کی تلاش میں سرگردان حرفوں کو پیروں تلے مسلتا میں گھر کے میں گیٹ تک پہنچا اور" کون " کا صدیوں پرانا لفظ عادتا" دہرا کر گیٹ کھول دیا
سیڑھیوں پر سیاہ چادر میں لپٹا ہوا کوئی انجان سا وجود سردی سے کانپ رہا تھا۔میری آہٹ پاکر اس نے چادر کے اندر سے ہی مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
چند گھنٹوں کے لئے مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دو،لوگوں نے مجھ سے میرا آسمان چھین لیا ہے
تمھارا آسمان؟ میں نے حیرت سے سر اٹھا کر آسمان پر نگاہ ڈالی تو انکشاف ہوا کہ آسمان کو تو بڑھیا کے کاتے ہوئے سوٹ نے ڈھانپ رکھا ہے
مگر سیاہ چادر میں لپٹا ہوا یہ وجود کس کا ہے ؟ جو آسمان چھن جانے کا شکوہ بھی کر رہا ہے
زیادہ مت سوچو،مجھے چند گھنٹوں کے لئے تمھاری چھت کے نیچے پناہ درکار ہے۔صبح۔کاذب کے آثار نمایاں ہوتے ہی میں روشن ہو جائوں گا اور میرے بدن سے حرارت پھوٹ پڑے گی دیر نہ کرو ورنہ تم کبھی صبح۔کاذب کو نہیں پاسکو گے
اوہ۔۔۔۔تو تو سورج ہو۔میں نے دھیمے لہجے میں کہا
ہاں ،میں سورج ہوں مجھ سے میرا آسمان چھن گیا ہے روشنی اور حرارت نوچ لی گئی ہے۔بس چند گھنٹوں کی بات ہے آس پاس کوئی چھت بھی نہیں اور بارود کی بارش بھی ہو رہی ہے ،مجھے پناہ نہ ملی تو دنیا برف کا جہنم بن جائے گی
وہ گڑگڑا رہا تھا اور میں سوچ رہاتھا کہ اگر اپنی چھت کے نیچے سورج کو پناہ دیتا ہوں تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ میرے آنگن میں چاند اترا یے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ مت سوچو،میرے اور تمھارے دشمن میری تلاش میں تمھارے پڑوسی کے دروازے تک پہنچنے والے ہیں
سورج بھی میری طرح خوف کے عفریت کی مٹھی میں قید تھا میں نےہمت کر کے کہا۔۔
فکر نہ کرو میرا پڑوسی میرے مکان سے تمھارے ایک دن اور آدھی رات کی مسافت پر ہے ۔یہ بتائو کیا میرے پڑوسی نے تمھیں پناہ دینے سے معذرت کر لی تھی؟
ہاں ،تمھارے پڑوسی نے بھی اور تمھارے پڑوسی کے پڑوسی نے بھی۔۔۔۔میں ہر دروازے سے مایوس ہوکر تمھارے دروازے تک آیا ہوں
میں سوچنے لگا کسی نے بوڑھے اور بجھے ہوئے سورج کو اپنی چھت تلے پناہ نہیں دی ۔شاید سب لوگ اپنی چھت بچانے کی فکر میں ہیں کسی کو احساس نہیں کہ سورج کی حرارت اور روشنی اسے واپس نہ ملی تو دنیا برف کا جہنم بن جائے گی۔اگر میں اس کو اپنی چھت تلے پناہ دے دوں ۔۔تو۔۔۔۔؟
فیصلہ کرنے میں اتنی دیر نہ کرو کہ میں راکھ ہو جائوں،شور کی آواز سن رہے ہو تم،قدموں کی دھمک، ڈھول بجانے کی آوازیں۔۔۔۔وہ لوگ پہنچنے ہی والے ہیں
اچانک سیڑھیوں سے آٹھ کر بوڑھے سورج نے میرے وجود کو جھنجھوڑ ڈالا اور ہانپتے ہوئے گلی کے فرش پر گر گیا۔مجھے اس کی بے بسی پر ترس آرہا تھا مگر میں بھی مجبور تھا اگر سورج کو میں اپنی چھت تلے پناہ دے دوں تو خود میری چھت محفوظ نہیں رہے گی۔بہتر ہے میں گیٹ میں قفل ڈال کر اندر چلا جائوں۔مایوس ہوکر سورج خود ہی میرے دروازے سے آٹھ کر کوئی اور دروازہ تلاش کرے گا
ایک لمحے کے لئے میں نے اسے غور سے دیکھا اور کہا
تم کچھ دیر یہیں ٹھہرو میں اپنی بیوی سے مشورہ کرتا ہوں
تو ۔۔۔تم بھی
اس نے مایوسی س کہا اور سر جھکا کر آگے بڑھنے لگا
میں نے گیٹ بند کیا،پورا چاند اب مغرب کی سمت ڈھلنے لگا تھا آنگن کی دیواروں پر اب سیاہی پھیل رہی تھی سٹڈی سے کتابوں کے بین کرنے کی آوازیں آنے لگیں اور کمرے میں سیاہ سوٹ کاٹنے والی بڑھیا اب اپنا چرخہ میرے آنگن میں لے آئی تھی۔
صبح۔کاذب کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ:صبح۔کاذب
یوسف عزیز زاہد
آنکھ کھلنے کا سبب کوئی درد بھری آواز تھی یا کسی خواب نے میری آنکھوں سے نیبد نوچ لی تھی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو بڑھیا بدستور کمرے کے مٹیالے فرش پر بیٹھی سیاہ سوت کات رہی تھی۔ایک تو یہ سیاہ سوت کاتنے والی بڑھیا ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئی ہے،جب دیکھو،چرخے پر سیاہ سوت کات رہی ہوتی ہے ۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کرنا چاہا تو اس نے میرا ہاتھ تھام لیا
سوئچ آف تو نہیں کیا تھا میں نے لیمپ کا۔خواب آلود لہجے میں بیزاری کی کرواہٹ بھی تھی
تو پھر یہ اندھیرا۔۔۔۔
ہمارے مقدروں میں لکھا ہوا ہے اس لئے ہمیں آنکھ کھلنے پر بھی اندھیرا ہی ملتا ہے
میری بات بیچ میں سے اچک کر اس نے طنزیہ انداز میں کہا
تو تم بھی جاگ رہی ہو؟ کیا منا رویا تھا ابھی؟
منا۔۔؟ وہ اٹھ بیٹھی اور مجھے حیرت سے تکنے لگی
ہاں ہاں منا۔۔ہمارا بیٹا۔۔۔میں نے اس کا سرد ہاتھ سہلاتے ہوئے سرگوشی کی تو بڑھیا کا برف آلود قہقہہ کمرے میں گونجنے لگا
میری بات سن کر وہ بھی ہنسنے لگی اور میرے بدن کی کپکپاہٹ میں اضافہ ہو گیا۔اس کی ہنسی عجیب سی ہے جیسے کوئی اکیلی عورت اپنے جوان بیٹے کی میت پر بین کر رہی ہو
کمرے میں اچانک ہی کافور کی بو پھیل گئی
اچھا،تو تم اس کی بات کر رہے ہو جو میری خشک چھاتیوں میں دودھ تلاش کرتے کرتے بوڑھا ہو چکا ہے
اس کے لہجے میں بیزاری کیساتھ اب دکھ بھی شامل تھا
کیا ؟۔میں چیخ پڑا،ہمارا منا بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔اس کے سرد اور کھردرے ہاتھوں کی پشت پر ابھری لکیروں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کپکپاتے ہوئے سوال کیا تو اس کی ہنسی کمرے میں برف کا طوفان لے آئی۔بس اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ میں اس کا اور منے کا چہرہ ایک بار دیکھ کر تسلی کرلوں کہ سیاہ سوت کاتنے والی بڑھیا کے علاوہ بھی کوئی اس برفیلے کمرے میں موجود ہے۔مگر میں کیسے دیکھ سکتا ہوں ان دونوں کا کا چہرہ؟ کمرے میں تو برف کے طوفان کیساتھ بڑھیا کا کاتا ہوا سوت بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔آخر یہ بڑھیا اس برفیلے کمرے سے نکلتی کیوں نہیں جب بھی میں خواب توڑ کر اپنے وجود میں واپس آتا ہوں بڑھیا کا چرخہ گھوں گھوں کی آوازوں کیساتھ سیاہ سوت کاتنا شروع کر دیتا ہے
یار یہ بتائو ماچس اور لالٹین کہاں رکھی ہے۔بہت نرم لہجے اور مدھم آواز میں میں اس سے سوال کرتا ہوں مگر بڑھیا کا مکروہ قہقہہ پوری قوت سے کمرے کی دیواروں سے ٹکراتا ہے۔ساتھ ہی اس کی برفیلی اور بےہنگم ہنسی بھی کمرے کی دیواروں سے سر پٹختی ہے
تو تمھیں سچ مچ کچھ یاد نہیں؟ جانتے ہو ہم نے سیاہ حروف والی زرد کتاب کو گواہ بنا کر عہد کیا تھا کہ جب چاند ہمارے آنگن میں اترے گا تو ہم چاند کو سیاہ سوت کی کاتی ہوئی چادر میں چھپا لیں گے کہ اس کا چہرہ کوئی نہ دخکھ سکے۔اسی لئے تو میں نے بڑھیا کو چرخے پر سیاہ سوت کاتنے اور منے کو صبح کاذب سے پہلے اندھیرے میں جنم دینے کا عہد نبھایا
آں۔۔ہاں۔۔ہاں مجھے کچھ کچھ یاد آرہا ہے،تمھیں یاد ہے؟ ہم نے منت مانی تھی کہ تمھاری گود ہری ہوگی تو ہم شاہ ولی کے مزار پر سیاہ سوت کی چادر چڑھائیں گے اور گھر کی ساری بتیاں ،چراغ گل کر دیں گے اور کسی کو یہ بات نہیں بتائیں گے کہ ہمارے آنگن میں چاند اترا ہے۔تو کیا تم نے کسی کو بتایا ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو بانچھ نہیں کہتے؟میں نے کچھ دیر پہلے آنگن میں کھٹکا سنا تھا اسی لئے تو میرا خواب کسی نے نوچ لیا ہے۔
میں نے؟۔۔۔میں تو کبھی اس برف آلود اندھے کمرے سے باہر نکلی ہی نہیں۔ اب اس کے لہجے میں خوف کا عفریت بھی چنگھاڑنے لگا تھا
تو پھر؟پھر دیوی ہم سے کیوں ناراض ہے،ابھی تو ڈھروں رات آنگن میں لیٹی ہے اور صبح کاذب کی منزل ابھی بہت دور ہے۔جانتی ہو، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنگن میں کھٹکا ہوا تھا اور شاید کسی نے میرا نام لیکر مجھے پکارا بھی تھا
تو تمھیں بھی کسی نے نام لیکر پکارا تھا۔اس کے لہجے میں حیرت تھی۔میں سمجھی صرف میرا نام لیکر کسی نے مجھے پکارا تھا۔ہمارا نام کیسے لوگوں تک پہنچا؟ اب تو۔۔اب تو منا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اس کا بدن بھی میری طرح کپکبانے لگا تھا۔بستر پر لیٹے لیٹے میں اپنی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
تو تمھیں بھی۔۔۔۔۔۔
میری بات ادھوری ہی رہ گئی،اب کے کسی نے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا تھا اور ہم دونوں کو نام لیکر پکارا تھا۔پکار میں دکھ اور رنجیدگی واضح تھی۔کمرے میں خوف کے عفریت بڑھیا کے کاتے ہوئے سیاہ سوت کیساتھ الجھنے لگے
کوئی جواب نہ دینا۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی مگر بڑھیا کا قہقہہ پھر گونج اٹھا
تم اس بڑھیا کو کمرے سے نکال کیوں نکیں دیتے؟ اب کے اس کی آواز میں غصہ اور بے بسی بھی شامل تھی
میں دیکھتا ہوں دروازے پر کون دستک دے رہا ہے آدھی رات کے وقت
اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہا
باہر نہ جانا،اس وقت بد روحیں گلیوں میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہوتی ہیں
کاش ہمارا کوئی پڑوسی ہوتا،تھوڑی سی روشنی ہی مانگ لیتے اس اندھیرے میں تو دم گھٹنے لگا ہے
اس کی بے ہنگم ہنسی پھر سے دیواروں سے سر پٹخنے لگی
اس شہر میں جہاں سیاہ سوت کاتا جارہا ہے روشنی کس کے پاس ہوگی،اور اگر ہوئی بھی تو کون ہمیں روشنی دینے کی حامی بھرے گا۔ وہ بالکل مایوس ہو چکی تھی
اچانک دروازہ دھڑا دھڑ پیٹا جانے لگا
کون ہو سکتا ہے،اتنی رات گئے،اس برف آلود سردی اور گہری تاریکی میں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔وہ کانپتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی
میں دیکھنا ہوں ،شاید کوئی ضرورت مند ہو
سیاہ سوت سے الجھتے ہوئے میں نے سلیپر تلاش کئے اور کمرے سے باہر جانے کا راستہ تلاش کرنے لگا
جو کوئی بھی ہو اسے یہ نہ بتانا کہ ہمارے آنگن میں چاند اترا ہے
اس کے لہجے میں چنگھاڑتا عفریت دہم سے بستر سے اترا اور میرے ساتھ چلنے لگا۔اپنے پیچھے جب میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا توانکشاف ہوا کہ سیاہ سوٹ کے تار میرے کمرے تک ہی محدود ہیں آنگن میں پورے چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور نرم نازک کرنیں چھپن چھپائی کھیل رہی تھیں
چھپنے والا چھپ جائے،چھپنے والا چھپ جائے چندا کی کرنیں روشنی لائیں
ہو سکتا ہے دروازے پر دودھ والا ہو ،مگر ابھی تو صبح کاذب کے آثار بھی نہیں دودھ والا تو فجر کے بعد آتا ہے
سٹڈی سے گزرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے میں رکا،ساری کتابیں اوندھے منہ فرش پر بکھری ہوئی تھیں، تھکے ہارے لفظ آنسو بہا رہے تھے،سارے حرف روشنی کی تلاش میں سرگرداں تھے۔کتابوں کو پھلانگتا،روتے ہوئے لفظوں سے دامن کو بچاتا،روشنی کی تلاش میں سرگردان حرفوں کو پیروں تلے مسلتا میں گھر کے میں گیٹ تک پہنچا اور" کون " کا صدیوں پرانا لفظ عادتا" دہرا کر گیٹ کھول دیا
سیڑھیوں پر سیاہ چادر میں لپٹا ہوا کوئی انجان سا وجود سردی سے کانپ رہا تھا۔میری آہٹ پاکر اس نے چادر کے اندر سے ہی مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
چند گھنٹوں کے لئے مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دو،لوگوں نے مجھ سے میرا آسمان چھین لیا ہے
تمھارا آسمان؟ میں نے حیرت سے سر اٹھا کر آسمان پر نگاہ ڈالی تو انکشاف ہوا کہ آسمان کو تو بڑھیا کے کاتے ہوئے سوٹ نے ڈھانپ رکھا ہے
مگر سیاہ چادر میں لپٹا ہوا یہ وجود کس کا ہے ؟ جو آسمان چھن جانے کا شکوہ بھی کر رہا ہے
زیادہ مت سوچو،مجھے چند گھنٹوں کے لئے تمھاری چھت کے نیچے پناہ درکار ہے۔صبح۔کاذب کے آثار نمایاں ہوتے ہی میں روشن ہو جائوں گا اور میرے بدن سے حرارت پھوٹ پڑے گی دیر نہ کرو ورنہ تم کبھی صبح۔کاذب کو نہیں پاسکو گے
اوہ۔۔۔۔تو تو سورج ہو۔میں نے دھیمے لہجے میں کہا
ہاں ،میں سورج ہوں مجھ سے میرا آسمان چھن گیا ہے روشنی اور حرارت نوچ لی گئی ہے۔بس چند گھنٹوں کی بات ہے آس پاس کوئی چھت بھی نہیں اور بارود کی بارش بھی ہو رہی ہے ،مجھے پناہ نہ ملی تو دنیا برف کا جہنم بن جائے گی
وہ گڑگڑا رہا تھا اور میں سوچ رہاتھا کہ اگر اپنی چھت کے نیچے سورج کو پناہ دیتا ہوں تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ میرے آنگن میں چاند اترا یے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ مت سوچو،میرے اور تمھارے دشمن میری تلاش میں تمھارے پڑوسی کے دروازے تک پہنچنے والے ہیں
سورج بھی میری طرح خوف کے عفریت کی مٹھی میں قید تھا میں نےہمت کر کے کہا۔۔
فکر نہ کرو میرا پڑوسی میرے مکان سے تمھارے ایک دن اور آدھی رات کی مسافت پر ہے ۔یہ بتائو کیا میرے پڑوسی نے تمھیں پناہ دینے سے معذرت کر لی تھی؟
ہاں ،تمھارے پڑوسی نے بھی اور تمھارے پڑوسی کے پڑوسی نے بھی۔۔۔۔میں ہر دروازے سے مایوس ہوکر تمھارے دروازے تک آیا ہوں
میں سوچنے لگا کسی نے بوڑھے اور بجھے ہوئے سورج کو اپنی چھت تلے پناہ نہیں دی ۔شاید سب لوگ اپنی چھت بچانے کی فکر میں ہیں کسی کو احساس نہیں کہ سورج کی حرارت اور روشنی اسے واپس نہ ملی تو دنیا برف کا جہنم بن جائے گی۔اگر میں اس کو اپنی چھت تلے پناہ دے دوں ۔۔تو۔۔۔۔؟
فیصلہ کرنے میں اتنی دیر نہ کرو کہ میں راکھ ہو جائوں،شور کی آواز سن رہے ہو تم،قدموں کی دھمک، ڈھول بجانے کی آوازیں۔۔۔۔وہ لوگ پہنچنے ہی والے ہیں
اچانک سیڑھیوں سے آٹھ کر بوڑھے سورج نے میرے وجود کو جھنجھوڑ ڈالا اور ہانپتے ہوئے گلی کے فرش پر گر گیا۔مجھے اس کی بے بسی پر ترس آرہا تھا مگر میں بھی مجبور تھا اگر سورج کو میں اپنی چھت تلے پناہ دے دوں تو خود میری چھت محفوظ نہیں رہے گی۔بہتر ہے میں گیٹ میں قفل ڈال کر اندر چلا جائوں۔مایوس ہوکر سورج خود ہی میرے دروازے سے آٹھ کر کوئی اور دروازہ تلاش کرے گا
ایک لمحے کے لئے میں نے اسے غور سے دیکھا اور کہا
تم کچھ دیر یہیں ٹھہرو میں اپنی بیوی سے مشورہ کرتا ہوں
تو ۔۔۔تم بھی
اس نے مایوسی س کہا اور سر جھکا کر آگے بڑھنے لگا
میں نے گیٹ بند کیا،پورا چاند اب مغرب کی سمت ڈھلنے لگا تھا آنگن کی دیواروں پر اب سیاہی پھیل رہی تھی سٹڈی سے کتابوں کے بین کرنے کی آوازیں آنے لگیں اور کمرے میں سیاہ سوٹ کاٹنے والی بڑھیا اب اپنا چرخہ میرے آنگن میں لے آئی تھی۔
صبح۔کاذب کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔