افسانہ: سانڈ کا تجزیہ: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

افسانہ: سانڈ کا تجزیہ: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

Dec 8, 2021

افسانہ سانڈ اور تجزیہ

مصنف

ڈاکٹر ریاض توحیدی

Address:Wadipora Handwara Kashmir193221 Cell:7006544358   Email:drreyaztawheedi777@yahoo.com

افسانہ: سانڈ کا تجزیہ: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

بڑے تخلیق کار کی تخلیق پر لکھنے کے دوران ایک بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کی تخلیق کے وزن کے سامنے لکھنے والے کی تحریر کہیں بے وزن ہوکر نہ رہ جائے۔بہرحال‘ پچھلے کئی برسوں کی تخلیقات اور تنقیدات کا مطالعہ ایک حوصلے کومہمیز دیتا رہاہے کہ جو بھی تخلیق فنی و موضوعاتی طور پر اپیل کرتی ہے تو اس پر کچھ نہ کچھ لکھنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ نہیں توبیشتر افسانوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بقول پروفیسر غضنفر:

زباں‘ماجرا‘ واقعہ سب مگر

کہانی میں کوئی کہانی نہیں

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بیشتر افسانے واقعہ نگاری کی مثال ہی پیش کرتے ہیں۔افسانہ کسی ایک تاثر کو واقعاتی انداز میں پیش کرنے کا نام نہیں ہے‘ بلکہ کسی بھی موضوع کو تخلیقی ڈسکورس بنانے کا فن ہے‘جوکہ متن /پلاٹ سازی میں فکر وخیال اور ایک یا کئی واقعاتی تسلسل کو قائم رکھنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ پروفیسر غضنفر ایک معروف فکشن نگار کے ساتھ ساتھ خاموش شاعر بھی ہیں‘اسی لئے زیرتحریر مضمون کی شروعات ان کے ہی شعر سے مناسب لگی اوریہاں پر ان کے ایک اہم افسانے ”سانڈ“ پر گفتگو کرنا مقصود ہے۔

افسانے کامتن تخلیقی نوعیت کا ہونا چاہئے نہ کہ سطحی خیالات کا صحافتی بیان اور افسانہ چاہئے راست بیانیہ میں ہو یا کہ علامتی اسلوب میں‘اس میں تخلیقی تخئیل

(Creative Imagination)

کا ہونا ضروری ہے۔ایک اور بات یہ کہ افسانے میں کسی واقعہ یاکہانی کو ہی آگے نہیں بڑھانا ہوتا ہے بلکہ منظری اسلوب کے تحت بنیادی تھیم کی ترسیل کا خاص خیال رکھنا پڑھتا ہے۔ان باتوں کے پیش نظر‘ پروفیسر غضنفر علی کے بیشتر افسانے تخلیقی تخئیل کے ساتھ ساتھ منظری اسلوب کے توسطہ سے بنیادی تھیم کو پلاٹ میں ماہرانہ تشکیل کا عمدہ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔اس لئے ان افسانوں کی بنت کاری میں کہانی کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری کا دلچسپ تجربہ نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں ان کا افسانہ”سانڈ“ایک خاص مقام رکھتا ہے۔یہ افسانہ اسلوب اور کرداری نگاری کے تعلق سے ایک علامتی افسانہ ہے اور موضوعاتی طور پر ایک سماجی افسانہ‘جو کہ ابہامی اساس پر ایک طرح سے ملک کے سیاسی نظام پر دانشورانہ طنزاور اس نظام کے زیر سایہ سیاست دانوں کی غنڈہ گردی‘لوٹ مار اور طاقت کے نشے میں چور سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے والے مکارانہ اپروچ کا علامتی احتجاج ہے۔موضوعاتی طور ہر کہانی کی ابتدا خوبصورت منظری اسلوب کے زیر اثر تجسس آمیز استفہامیہ انداز سے یوں ہوئی ہے:

”یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟“

سورج پور کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا……

ایک نوجوان نے رک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا:

”چاچا! گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔“

”سانڈ پھر گھس آیا ہے!“ بوڑھے کی سفید لمبی داڑھی اوپر سے نیچے تک ہل اٹھی۔“

تو افسانے کی اٹھان ہی قاری کے سامنے علامتی کردار ”سانڈ“کا حیرت انگیز منظر پیش کررہی ہے اور پھر سانڈ کو دیکھ کر لوگوں کا جان بچانے کے لئے بھاگنا‘نوجوان کا ہانپتے ہوئے بوڑے کو جواب دینا اور یہ سن کربوڑھے کا حیرت انگیز لہجے میں دوہرانا کہ ”سانڈ پھر گھس آیا ہے!“ اور خوف کے مارے اس کی سفید لمبی داڑھی کا ہل اٹھنا وغیرہ۔یعنی گاوں میں سانڈ کی آمداور تباہی کی وجہ سے پیر وجوان پریشاں ہیں۔اور ڈرامائی انداز کا یہ اسلوب قاری کے تجسس کو کہانی پڑھنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔فن افسانہ نگاری میں یہ بات بھی بڑھی اہمیت رکھتی ہے کہ افسانے کی اٹھان قاری کو پورا افسانہ پڑھنے کے لئے اکسائے اور یہ افسانہ اس میں کامیاب نظر آتا ہے۔اس کے بعدسیاسی طور پر مرکزی کردار”سانڈ“ کی تباہی مچانے کا ماجرا‘یعنی نتھو کی بچھیا کو خراب کرنا(جنسی استحصال)‘چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مارنا‘بھولو کے بیل کو ٹکر مار مار کر لہو لہان کرنا(غنڈ ہ گردی‘قتل و غارت گری)‘ بھینس کے چارہ پانی کے برتن کی توڑ پھوڑ اور تیار سبزیوں کی تباہی(نفسیاتی واقتصادی استحصال)اور سماجی طور پر سورج پور والوں کی مظلومیت اور احتجاج‘ بھگوان پور والوں کی ظالم کی طرف داری کے علاوہ سرکاری سطح پر کانجی ہاوس کے افسروں کا بہانہ بازی سے اپنے فرض سے آنکھیں چرانا اور پھرسورج پور والوں کا تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مثل طاقت کے خلاف طاقت کاحربہ استعمال کرکے اپنا سانڈ پالنالیکن اس کے بعد دونوں سانڈوں کی دوستی اور دونوں گاؤں کی مل جل کرتباہی کرنا اور آخر پر دونوں گاؤں والوں کا سانڈوں کو ختم کرنے کافیصلہ اور یہ سن کر”محکمہئ تحفظِ وحشیان“ کا سانڈوں کے پیٹھ پراپنا حفاظتی ٹھپہ لگانا کہ اب ”انہیں کوئی بھی مار پیٹ نہیں سکتا“ ہے‘وغیرہ کئی مسائل‘موضوعات اور واقعات کو ماہرانہ اسلوب میں پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس افسانے کے موضوعاتی پہلو پر توجہ دیں تو تنقیدی نقطہ نگاہ سے اس کی کہانی سیاسی اور سماجی نشانات

(Political and social signs)

کے علامتی اظہار کی طرف اشارہ کرتی ہے اس لئے سماجیاتی تھیوری

(Socialogical Theory)

کے پیش نظر اس کے متن کو ساختیاتی طور پر ردتشکیل تھیوری کے زیر اثر کھولنے کی کوشش مناسب رہے گی تو اس تناظر میں اگر افسانے کی کہانی کی کثیرالجہت موضوعاتی معنویت کا اطلاق ہندوستان کی عصری تشویشناک سیاسی و سماجی صورتحال پر کریں تو اگرچہ افسانہ غالباََ اس قسم کی صورتحال سے پہلے تخلیق ہوا ہے لیکن ایک عمدہ شعر یا افسانے کی طرح یہ افسانہ زمانی و مکانی حدود کے اندر مقید نظر نہیں آتا ہے بلکہ کئی برسوں سے ملک میں جو سیاسی جنگل راج اور لوٹ کھسوٹ کا دور چل رہا ہے اور مخصوص طبقوں کو سیاسی‘قانونی اور تہذیبی طور پر ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو یہ دیکھ کر آج ہر جگہ اس قسم کے بدمست سیاسی سانڈ بلا خوف و خطردنددناتے ہوئے گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں اور انہیں ہر جگہ سیاسی اور قانونی حمایت و تحفظ بھی حاصل ہے۔ چاہئے دہلی کے حالیہ دل دوز واقعات ہوں یا ان سیاسی سانڈوں کے ہاتھوں پہلو خان کوسر عام قتل کرنے کے بعد عدالت سے رہائی کا شرم ناک المیہ ہو یا دلتوں یا پچھڑے طبقوں کی حالت زار ہو وغیرہ‘ہر معاملے میں افسانے کی موضوعاتی اطلاقیت کی گنجائش در آتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افسانے کی کہانی راست انداز میں ہونے کے باوجود بین المتن علامتی ابہام کے تخلیقی بیانیہ کی حامل ہے۔جس میں سماجی سطح پر دوگاؤں کی الگ الگ سوچ۔ کردارنگاری میں سانڈ سیاسی لیڈر یا غنڈہ‘ کانجی ہاوس اور سانڈ کے بعد ایک اہم علامت ”محکمہ ئ تحفظِ وحشیان“ ہے جو کہ سیاسی مکروفریب کے حامل افراد اور اداروں کے لئے ایک اہم اختراعی علامت ہے۔کیونکہ ان لوگوں کی نظر صرف اپنے سیاسی مفادات پر ہوتی ہے‘اسی لئے جب دونوں گاؤں کے لوگ یک جٹ ہوکر سانڈوں کو ختم کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہی سیاسی مگرمچھ عام شہری کو تحفظ دینے کی بجائے سانڈوں کے محافظ بن کر سامنے آتے ہیں اور ان کی سیاہ کاریوں کو اس اعلان کے ساتھ قانونی ٹھپہ لگا دیتے ہیں کہ”یہ جانور محکمہئ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔“ یعنی خود بھی یہ لوگ انہیں جانور تسلیم کرتے ہیں لیکن پھر اپنے مقاصد کے خاطر قانون کو بالائی طاق رکھ کر ان کی پشت پناہی سرعام کرتے ہیں۔

کوئی بھی معیاری متن خصوصاََ متحرک علامتی متن‘ اپنی معنوی جہات میں آزاد ہوتا ہے اوراس کے معنی انگیز کرنے کا تصور ذہن کی متحرک کاوش

(Dynamic Activity)

پر انحصار رکھتا ہے اور متنی ماحول کے اندر ہی اس کی موزوں تفہیم و ترسیل ہوسکتی ہے جیسا کہ درید ا کا کہنا ہے کہ:

''A text is nothing more than what is  in it for the reader.''                

یعنی متن کا مواد ہی قاری کے لئے تفہیم و توضیح کی راہیں استوار کرتا ہے۔اس لئے کسی بھی تخلیق کی تفہیم وتوضیح کے دوران بنیادی سورس ’متن‘پر ہی ارتکاز کرنا پڑتا ہے کہ کیا وہ خود معنی انگیزی میں اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اس کی توضیح وسیع تناظر میں ہوسکے تو اس تعلق سے افسانہ”سانڈ“ کا کردار”سانڈ“ ”کانجی ہاوس“اور”محکمہ ئ تحفظِ وحشیان“ جیسی علامتیں ایک متحرک علامتی کردار کے طور پر سامنے آتی ہیں اور سانڈ بطور ظالم اور کانجی ہاوس اور محکمہئ تحفظِ وحشیان بحیثیت استحصالی مراکز وغیرہ تو اب اگر ان علامتوں کی متحرک معنوی جہات کو مقامی سطح سے ذرا اٹھ کر دیکھیں تو ان کا اطلاق عالمی سطح کے سانڈوں یعنی امریکہ اور اسرائیل وغیرہ‘جنہوں نے دنیا میں سانڈ کی طرح تباہی مچائی ہوئی ہیں اورکانجی ہاوس‘امریکہ کے ہر اقدام پر مصلحت پسند رول نبھانے والے اتحادی ممالک اورمحکمہئ تحفظِ وحشیان یعنی استحصالی مراکز اقوامی متحدہ وغیرہ ادارے‘ جو ان سانڈوں کے ہر غلط اقدام یا مشن پر یا تو خاموشی اختیار کرتے ہیں یا دباؤ میں آکر انصاف کا گلہ گھونٹ کر انہیں صحیح قرار دیتے ہیں۔اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کے منفی رول پر اس پر طنز کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ”یہ ادارہ امریکہ کی لونڈی بن گیا ہے۔“

اب اگر بیانیہ پر استدلالی فکر سے غور کریں تو افسانے کا پلاٹ منطقی طور پر علت و معلول

(Cause and effect)

کے ارتسام سے موضوع کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے جس کی ساخت بیانیہ کے واقعات کے منظم اور مربوط استعمال سے چست ہوجاتی ہے۔ اس پہلو پر نظر رکھیں توافسانے کی مذکورہ تخلیقی اور موضوعاتی خوبیوں کے باوجود فنی اور تکنیکی طور پرکہانی میں ایک قابل غور خامی نظر آتی ہے جس نے افسانے کے مرکزی کردار”سانڈ“کی ابہام انگیز علامتی ساخت کو کچھ حد تک متاثر بھی کیا ہے اور وہ افسانے کے درجہ ذیل اقتباس سے بخوبی ظاہر ہورہا ہے:

”ہاں بیٹے! بات تو سچ ہے۔لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لئے بھگوان یا دیوی دیوتا سیمنت مانتے ہیں کہ اگر ان کی مراد پوری ہوگئی تو وہ بھگوان یا دیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈچھوڑدیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یا کسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزادچھوڑ دیتے ہیں۔چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کرکے پوجا پاٹ کرتے ہیں اور سب کے سامنے بچھڑے کے جسم یاماتھے پر بھگوان یا دیوی دیوتا کا کوئی پکا نشان بنا دیتے ہیں۔اس کے بعدوہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کردیتے ہیں۔“

اگر مذکورہ اقتباس میں سانڈ سے متعلق پیش ہوئے مذہبی اور سماجی رسومات اور اس کو کھونٹے سے آزاد کردینے کے مسئلے کوافسانے کے دو سرے موضوعات سے جوڑ دیں تو لوجیکل بنیاد پر افسانے کی پوری علامتی عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔کیونکہ اس اقتباس میں سانڈ کوئی علامت نہیں رہتا بلکہ ایک عام سا جانور جس کو مذہبی اور سماجی رسم ورواج کے مطابق سجا کر خود ہی بھگوان کے نام پر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے پھر بعد میں افسانے میں سانڈ کی ہنگامہ آرائی پر کونسا واویلہ۔۔۔؟اور موضوع کی کونسی پائیدار علامتی جہت پائیدار رہ سکتی ہے۔اگر یہاں پر سانڈ کو خود اپنے ہاتھوں سے سجانے کا عمل ہی دکھانا مقصود ہوتا تو پھر تخلیقی طور پر یہاں بھی ابہامی منظر کشی کی ضرورت تھی۔

بہرکیف‘ چونکہ یہ تنقیدی مضمون ہے اس لئے تجزیے کے دوران افسانے کی ہر جہت یا پہلو پر نظر رکھنا پڑتی ہے‘اگر یہ چیز افسانے میں نظر نہیں آتی تو پھر بلا وجہ افسانے کے کسی کمزور پہلو کو اجاگر کرنے کی بہت کم گنجائش نکلتی۔مجموعی طور پر افسانہ ”سانڈ“کی بنت‘اسلوب‘موضوعاتی پیش کش‘علامتی برتاؤ‘ کردارنگاری اور تفہیم وترسیل ایک شاندار افسانے کی عکاسی کرتے ہیں اورافسانہ‘ زبان‘ماجرا اور واقعہ کے ساتھ کہانی بھی پیش کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے یہ افسانہ اردوکے چند بہترین افسانوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نظر آتاہے۔

...........................................................................................


افسانہ: سانڈ

افسانہ نگار:پروفیسر غضنفر(علی گڑھ)

”یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟“

سورج پورگاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رْک کرہانپتے ہوئے جواب دیا۔“

”چاچا!گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔“

”سانڈ پھرگھس آیاہے!“بوڑھے کی سفیدلمبی داڑھی اوپرسے نیچے تک ہل اٹھی —

”ہاں چاچا!پھرگھس آیاہے اورآج تواس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیاکو خراب کردیا۔چھیدی کے بچھڑے کو سینگ ماردیا۔بھولو کے بیل کو ٹکریں مارمار کر لہولہان کردیا۔کالوکی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑپھوڑدیا۔بدھو اوربھولاکی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کرملیامیٹ کردیا۔اب بھی بورایاہوا اینڈتاپھررہاہے۔ نہ جانے اورکیا کیاکرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟“

”تم لوگ دھام پوروالوں سے کہتے کیوں نہیں کہ و ہ اپنے سانڈ کوروکیں۔ادھر نہ آنے دیں۔“

”کہاتھاچاچا!گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہاتھا۔ان سے بتایاتھاکہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہماراکتنانقصان کررہاہے۔مگر جانتے ہیں اْنھوں نے کیاجواب دیا۔“

”کیاجواب دیا؟“

”اْنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کررکھاجاسکتا ہے۔سانڈ تو دیوی دیوتا کاپرسادہوتاہے۔اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ اجاتاہے اوربھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیامیں کہیں بھی بنا روک ٹوک جاسکتاہے۔بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔سب میں اس کا حصہ ہے۔وہ جوچاہے کھاسکتاہے۔ اسے روک کراپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھوگی بنانا ہے کیا ——؟چاچا!میری سمجھ میں نہیں آیاکہ دھام پورکے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیاسچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے؟“‘

”ہاں بیٹے!بات تو سچ ہے۔لوگ اپنی کسی مراد کوپانے کے لیے بھگوان یادیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگران کی مرادپوری ہوگئی تو وہ بھگوان یادیوی دیوتاکے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اوراپنی گائے کے بچھڑے کو یاکسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خریدکرآزادچھوڑدیتے ہیں۔چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کرنہلاتے ہیں۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔گاؤں والوں کوایک جگہ جمع کرکے پو‘جاپاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یاماتھے پر بھگوان یادیوی،دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنادیتے ہیں۔اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کردیتے ہیں۔

چونکہ وہ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے۔اس لیے اس کے کھانے پینے اورگھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اوروہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھاپی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتاہے۔“

”پھرتودھام پوروالوں نے ٹھیک ہی کہاتھاچاچا؟“

”ٹھیک توکہاتھا،مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی توکچھ کرنا ہی پڑتاہے۔“

”تواب ہمیں کیاکرنا چاہیے چاچا؟“

”تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔گاؤں کا حال بتاؤ۔ اوران سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہوگیاہے۔اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کردیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔“

”ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کوتیارکرتاہوں۔“

سورج پوروالے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔

کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کرکہا۔

”آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دْکھ ہوا۔مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مددنہیں کرسکتے۔“

”کیوں صاحب؟“گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

”اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لاوارث سانڈ کو بندکرنے کا چلن نہیں ہے۔یہاں تو ایسے جانوروں کوبندکیاجاتاہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتاہے۔جوکچھ دنوں کے اندراندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھرکرچھڑاکرلے جاتاہے۔اگرہم ایسے جانوروں کو باندھ کررکھنے لگے توکچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بندہوجائے گا۔“اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔

افسر کاجواب سن کرگاؤں والے گڑگڑاکربولے‘

”صاحب!کچھ کیجیے۔“ورنہ توہمارا ستیاناس ہوجائے گا۔ہم کنگال ہوجائیں گے۔“

افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھرکہا۔

”ہم مجبورہیں۔ہم ایسے جانورکوکانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔آپ لوگوں کو میری بات پر شایدیقین نہیں آرہاہے۔آئیے میرے ساتھ۔“

افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔

گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پربندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جوبہت ہی کمزوراوردبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندرکودھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہرکونکلی ہوئی تھیں۔

کانجی ہاؤس کے اندرکاحال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اوراپنے کو قسمت کے حوالے کرکے بیٹھ گئے۔

ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھرتباہی مچائی۔اس کے بعدایک باراورگھس آیا۔ پریشان ہوکرگاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس باریہ مشورہ دیاکہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپروالے محکمے میں جاکر اپنی فریادسنائیں۔گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پرسنجیدگی سے غورکیااورکانجی ہاؤس کے افسران کو زوردے کرلکھا کہ وہ دھام پوروالوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اورگاؤں والوں سے کہاکہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کریں گے۔

گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے—افسران نے ان سے کہا۔

”ٹھیک ہے۔آپ لوگ سانڈ کوپکڑکرلائیے۔ہم اسے یہاں بندکرلیں گے۔“

گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اورگاؤں آکرانہوں نے سانڈ کوپکڑنے کی تیاری شروع کردی۔

گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیارہوکر سانڈ کا انتظارکرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آگیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑپڑی۔

نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گراکرپکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہوگئے۔مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کراپنے گاؤں یعنی دھام پورکی طرف بھاگا۔نوجوان بھی اس کے پیچھے

دوڑے۔ دھام پوروالوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑارہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کوبچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی،بھالے اوربندوقیں لیے باہرنکل آئے اورپیچھا کرنے والوں کوللکارتے ہوئے چلائے۔

”خبردار!وہیں رک جاؤ!آگے مت بڑھو۔اگرتم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑڈالیں گے۔تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔یہیں زمین پرڈھیرکرکے رکھ دیں گے۔جانتے نہیں،یہ سانڈ ہمارے دیوتا پرچڑھایاگیاپرسادہے۔“  

سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پورکے نوجوانوں نے جب دھام پوروالوں کی دھمکی سنی اوران کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں،لاٹھیوں اورتنی ہوئی بندوقوں کودیکھاتوان کے پاؤں تھراکرتھم گئے اوروہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔

اس حادثے کے بعد دھام پوروالے اورشیرہوگئے۔اوراب وہ اپنے سانڈ کوآئے دن جان بوجھ کر سورج پورگاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔ سورج پورگاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں توایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کوبلاکرکہا۔

”میرے گاؤں کے پیارے لوگو!ہم نے ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاسکے اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر ہم سانڈ کوپکڑنے کے لیے زیاوہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہوگا اور تباہی مچے گی۔اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتاہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑدیں اورجلد سے جلد اسے سانڈ بنادیں۔“

”اس سے کیا ہوگا چاچا؟“——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پرمرکوز ہوگئیں۔

”اس سے یہ ہوگا کہ ہماراسانڈ بھی دھام پوروالوں کا وہی حال کرنے لگے گاجواپنے سانڈ سے وہ ہماراکرواتے ہیں۔اْدھربھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پرمجبور ہوں گے۔“

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔“ نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔مگر بعض بزرگوں کے چہروں پرسنجیدگی طاری ہوگئی۔

سور ج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایادھلایا۔گلے میں ہارپہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پردیوتاکے نام کا ایک ٹھپّہ لگاکراسے آزادچھوڑدیا۔ کمزوربچھڑاکھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اوربے فکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اورسارے گاؤں کا چارہ پانی کھاپی کربہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔

سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنااورسینگ مارنا شروع کیاتوسورج پوروالوں نے اس کا رخ دھام پوروالوں کی طرف موڑدیا۔ دھام پورگاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اورتہس نہس کرنا شروع کردیا۔وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ان کے چارہ،پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اورکھلیان بھی تباہ وبربادہونے لگے۔

دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔کچھ دنو ں بعد ایک روز ایک عجیب وغریب منظررونما ہوا۔دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پورگاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کرگاؤں کوروند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھروہاں سے ایک ساتھ نکلے اوردھام پور میں گھس کر توڑپھوڑمچانے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔ اس دن کے بعددونوں سانڈوں کاایک ساتھ گھومنااورمل جل کرگاؤں کوروندنا معمول بن گیا۔دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔ اپنی بربادی سے تنگ آکرآس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کرسانڈوں کومارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگرکسی طرح یہ خبرمحکم تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اوراس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگادیا جو اس بات کا اعلان تھاکہ یہ جانورمحکم؟تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔

لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈ وں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنااپناسرپیٹ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانہ: سانڈ کا تجزیہ: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

بڑے تخلیق کار کی تخلیق پر لکھنے کے دوران ایک بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کی تخلیق کے وزن کے سامنے لکھنے والے کی تحریر کہیں بے وزن ہوکر نہ رہ جائے۔بہرحال‘ پچھلے کئی برسوں کی تخلیقات اور تنقیدات کا مطالعہ ایک حوصلے کومہمیز دیتا رہاہے کہ جو بھی تخلیق فنی و موضوعاتی طور پر اپیل کرتی ہے تو اس پر کچھ نہ کچھ لکھنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ نہیں توبیشتر افسانوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بقول پروفیسر غضنفر:

زباں‘ماجرا‘ واقعہ سب مگر

کہانی میں کوئی کہانی نہیں

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بیشتر افسانے واقعہ نگاری کی مثال ہی پیش کرتے ہیں۔افسانہ کسی ایک تاثر کو واقعاتی انداز میں پیش کرنے کا نام نہیں ہے‘ بلکہ کسی بھی موضوع کو تخلیقی ڈسکورس بنانے کا فن ہے‘جوکہ متن /پلاٹ سازی میں فکر وخیال اور ایک یا کئی واقعاتی تسلسل کو قائم رکھنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ پروفیسر غضنفر ایک معروف فکشن نگار کے ساتھ ساتھ خاموش شاعر بھی ہیں‘اسی لئے زیرتحریر مضمون کی شروعات ان کے ہی شعر سے مناسب لگی اوریہاں پر ان کے ایک اہم افسانے ”سانڈ“ پر گفتگو کرنا مقصود ہے۔

افسانے کامتن تخلیقی نوعیت کا ہونا چاہئے نہ کہ سطحی خیالات کا صحافتی بیان اور افسانہ چاہئے راست بیانیہ میں ہو یا کہ علامتی اسلوب میں‘اس میں تخلیقی تخئیل

(Creative Imagination)

کا ہونا ضروری ہے۔ایک اور بات یہ کہ افسانے میں کسی واقعہ یاکہانی کو ہی آگے نہیں بڑھانا ہوتا ہے بلکہ منظری اسلوب کے تحت بنیادی تھیم کی ترسیل کا خاص خیال رکھنا پڑھتا ہے۔ان باتوں کے پیش نظر‘ پروفیسر غضنفر علی کے بیشتر افسانے تخلیقی تخئیل کے ساتھ ساتھ منظری اسلوب کے توسطہ سے بنیادی تھیم کو پلاٹ میں ماہرانہ تشکیل کا عمدہ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔اس لئے ان افسانوں کی بنت کاری میں کہانی کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری کا دلچسپ تجربہ نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں ان کا افسانہ”سانڈ“ایک خاص مقام رکھتا ہے۔یہ افسانہ اسلوب اور کرداری نگاری کے تعلق سے ایک علامتی افسانہ ہے اور موضوعاتی طور پر ایک سماجی افسانہ‘جو کہ ابہامی اساس پر ایک طرح سے ملک کے سیاسی نظام پر دانشورانہ طنزاور اس نظام کے زیر سایہ سیاست دانوں کی غنڈہ گردی‘لوٹ مار اور طاقت کے نشے میں چور سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے والے مکارانہ اپروچ کا علامتی احتجاج ہے۔موضوعاتی طور ہر کہانی کی ابتدا خوبصورت منظری اسلوب کے زیر اثر تجسس آمیز استفہامیہ انداز سے یوں ہوئی ہے:

”یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟“

سورج پور کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا……

ایک نوجوان نے رک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا:

”چاچا! گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔“

”سانڈ پھر گھس آیا ہے!“ بوڑھے کی سفید لمبی داڑھی اوپر سے نیچے تک ہل اٹھی۔“

تو افسانے کی اٹھان ہی قاری کے سامنے علامتی کردار ”سانڈ“کا حیرت انگیز منظر پیش کررہی ہے اور پھر سانڈ کو دیکھ کر لوگوں کا جان بچانے کے لئے بھاگنا‘نوجوان کا ہانپتے ہوئے بوڑے کو جواب دینا اور یہ سن کربوڑھے کا حیرت انگیز لہجے میں دوہرانا کہ ”سانڈ پھر گھس آیا ہے!“ اور خوف کے مارے اس کی سفید لمبی داڑھی کا ہل اٹھنا وغیرہ۔یعنی گاوں میں سانڈ کی آمداور تباہی کی وجہ سے پیر وجوان پریشاں ہیں۔اور ڈرامائی انداز کا یہ اسلوب قاری کے تجسس کو کہانی پڑھنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔فن افسانہ نگاری میں یہ بات بھی بڑھی اہمیت رکھتی ہے کہ افسانے کی اٹھان قاری کو پورا افسانہ پڑھنے کے لئے اکسائے اور یہ افسانہ اس میں کامیاب نظر آتا ہے۔اس کے بعدسیاسی طور پر مرکزی کردار”سانڈ“ کی تباہی مچانے کا ماجرا‘یعنی نتھو کی بچھیا کو خراب کرنا(جنسی استحصال)‘چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مارنا‘بھولو کے بیل کو ٹکر مار مار کر لہو لہان کرنا(غنڈ ہ گردی‘قتل و غارت گری)‘ بھینس کے چارہ پانی کے برتن کی توڑ پھوڑ اور تیار سبزیوں کی تباہی(نفسیاتی واقتصادی استحصال)اور سماجی طور پر سورج پور والوں کی مظلومیت اور احتجاج‘ بھگوان پور والوں کی ظالم کی طرف داری کے علاوہ سرکاری سطح پر کانجی ہاوس کے افسروں کا بہانہ بازی سے اپنے فرض سے آنکھیں چرانا اور پھرسورج پور والوں کا تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مثل طاقت کے خلاف طاقت کاحربہ استعمال کرکے اپنا سانڈ پالنالیکن اس کے بعد دونوں سانڈوں کی دوستی اور دونوں گاؤں کی مل جل کرتباہی کرنا اور آخر پر دونوں گاؤں والوں کا سانڈوں کو ختم کرنے کافیصلہ اور یہ سن کر”محکمہئ تحفظِ وحشیان“ کا سانڈوں کے پیٹھ پراپنا حفاظتی ٹھپہ لگانا کہ اب ”انہیں کوئی بھی مار پیٹ نہیں سکتا“ ہے‘وغیرہ کئی مسائل‘موضوعات اور واقعات کو ماہرانہ اسلوب میں پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس افسانے کے موضوعاتی پہلو پر توجہ دیں تو تنقیدی نقطہ نگاہ سے اس کی کہانی سیاسی اور سماجی نشانات

(Political and social signs)

کے علامتی اظہار کی طرف اشارہ کرتی ہے اس لئے سماجیاتی تھیوری

(Socialogical Theory)

کے پیش نظر اس کے متن کو ساختیاتی طور پر ردتشکیل تھیوری کے زیر اثر کھولنے کی کوشش مناسب رہے گی تو اس تناظر میں اگر افسانے کی کہانی کی کثیرالجہت موضوعاتی معنویت کا اطلاق ہندوستان کی عصری تشویشناک سیاسی و سماجی صورتحال پر کریں تو اگرچہ افسانہ غالباََ اس قسم کی صورتحال سے پہلے تخلیق ہوا ہے لیکن ایک عمدہ شعر یا افسانے کی طرح یہ افسانہ زمانی و مکانی حدود کے اندر مقید نظر نہیں آتا ہے بلکہ کئی برسوں سے ملک میں جو سیاسی جنگل راج اور لوٹ کھسوٹ کا دور چل رہا ہے اور مخصوص طبقوں کو سیاسی‘قانونی اور تہذیبی طور پر ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو یہ دیکھ کر آج ہر جگہ اس قسم کے بدمست سیاسی سانڈ بلا خوف و خطردنددناتے ہوئے گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں اور انہیں ہر جگہ سیاسی اور قانونی حمایت و تحفظ بھی حاصل ہے۔ چاہئے دہلی کے حالیہ دل دوز واقعات ہوں یا ان سیاسی سانڈوں کے ہاتھوں پہلو خان کوسر عام قتل کرنے کے بعد عدالت سے رہائی کا شرم ناک المیہ ہو یا دلتوں یا پچھڑے طبقوں کی حالت زار ہو وغیرہ‘ہر معاملے میں افسانے کی موضوعاتی اطلاقیت کی گنجائش در آتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افسانے کی کہانی راست انداز میں ہونے کے باوجود بین المتن علامتی ابہام کے تخلیقی بیانیہ کی حامل ہے۔جس میں سماجی سطح پر دوگاؤں کی الگ الگ سوچ۔ کردارنگاری میں سانڈ سیاسی لیڈر یا غنڈہ‘ کانجی ہاوس اور سانڈ کے بعد ایک اہم علامت ”محکمہ ئ تحفظِ وحشیان“ ہے جو کہ سیاسی مکروفریب کے حامل افراد اور اداروں کے لئے ایک اہم اختراعی علامت ہے۔کیونکہ ان لوگوں کی نظر صرف اپنے سیاسی مفادات پر ہوتی ہے‘اسی لئے جب دونوں گاؤں کے لوگ یک جٹ ہوکر سانڈوں کو ختم کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہی سیاسی مگرمچھ عام شہری کو تحفظ دینے کی بجائے سانڈوں کے محافظ بن کر سامنے آتے ہیں اور ان کی سیاہ کاریوں کو اس اعلان کے ساتھ قانونی ٹھپہ لگا دیتے ہیں کہ”یہ جانور محکمہئ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔“ یعنی خود بھی یہ لوگ انہیں جانور تسلیم کرتے ہیں لیکن پھر اپنے مقاصد کے خاطر قانون کو بالائی طاق رکھ کر ان کی پشت پناہی سرعام کرتے ہیں۔

کوئی بھی معیاری متن خصوصاََ متحرک علامتی متن‘ اپنی معنوی جہات میں آزاد ہوتا ہے اوراس کے معنی انگیز کرنے کا تصور ذہن کی متحرک کاوش

(Dynamic Activity)

پر انحصار رکھتا ہے اور متنی ماحول کے اندر ہی اس کی موزوں تفہیم و ترسیل ہوسکتی ہے جیسا کہ درید ا کا کہنا ہے کہ:

''A text is nothing more than what is  in it for the reader.''                

یعنی متن کا مواد ہی قاری کے لئے تفہیم و توضیح کی راہیں استوار کرتا ہے۔اس لئے کسی بھی تخلیق کی تفہیم وتوضیح کے دوران بنیادی سورس ’متن‘پر ہی ارتکاز کرنا پڑتا ہے کہ کیا وہ خود معنی انگیزی میں اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اس کی توضیح وسیع تناظر میں ہوسکے تو اس تعلق سے افسانہ”سانڈ“ کا کردار”سانڈ“ ”کانجی ہاوس“اور”محکمہ ئ تحفظِ وحشیان“ جیسی علامتیں ایک متحرک علامتی کردار کے طور پر سامنے آتی ہیں اور سانڈ بطور ظالم اور کانجی ہاوس اور محکمہئ تحفظِ وحشیان بحیثیت استحصالی مراکز وغیرہ تو اب اگر ان علامتوں کی متحرک معنوی جہات کو مقامی سطح سے ذرا اٹھ کر دیکھیں تو ان کا اطلاق عالمی سطح کے سانڈوں یعنی امریکہ اور اسرائیل وغیرہ‘جنہوں نے دنیا میں سانڈ کی طرح تباہی مچائی ہوئی ہیں اورکانجی ہاوس‘امریکہ کے ہر اقدام پر مصلحت پسند رول نبھانے والے اتحادی ممالک اورمحکمہئ تحفظِ وحشیان یعنی استحصالی مراکز اقوامی متحدہ وغیرہ ادارے‘ جو ان سانڈوں کے ہر غلط اقدام یا مشن پر یا تو خاموشی اختیار کرتے ہیں یا دباؤ میں آکر انصاف کا گلہ گھونٹ کر انہیں صحیح قرار دیتے ہیں۔اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کے منفی رول پر اس پر طنز کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ”یہ ادارہ امریکہ کی لونڈی بن گیا ہے۔“

اب اگر بیانیہ پر استدلالی فکر سے غور کریں تو افسانے کا پلاٹ منطقی طور پر علت و معلول

(Cause and effect)

کے ارتسام سے موضوع کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے جس کی ساخت بیانیہ کے واقعات کے منظم اور مربوط استعمال سے چست ہوجاتی ہے۔ اس پہلو پر نظر رکھیں توافسانے کی مذکورہ تخلیقی اور موضوعاتی خوبیوں کے باوجود فنی اور تکنیکی طور پرکہانی میں ایک قابل غور خامی نظر آتی ہے جس نے افسانے کے مرکزی کردار”سانڈ“کی ابہام انگیز علامتی ساخت کو کچھ حد تک متاثر بھی کیا ہے اور وہ افسانے کے درجہ ذیل اقتباس سے بخوبی ظاہر ہورہا ہے:

”ہاں بیٹے! بات تو سچ ہے۔لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لئے بھگوان یا دیوی دیوتا سیمنت مانتے ہیں کہ اگر ان کی مراد پوری ہوگئی تو وہ بھگوان یا دیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈچھوڑدیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یا کسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزادچھوڑ دیتے ہیں۔چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کرکے پوجا پاٹ کرتے ہیں اور سب کے سامنے بچھڑے کے جسم یاماتھے پر بھگوان یا دیوی دیوتا کا کوئی پکا نشان بنا دیتے ہیں۔اس کے بعدوہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کردیتے ہیں۔“

اگر مذکورہ اقتباس میں سانڈ سے متعلق پیش ہوئے مذہبی اور سماجی رسومات اور اس کو کھونٹے سے آزاد کردینے کے مسئلے کوافسانے کے دو سرے موضوعات سے جوڑ دیں تو لوجیکل بنیاد پر افسانے کی پوری علامتی عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔کیونکہ اس اقتباس میں سانڈ کوئی علامت نہیں رہتا بلکہ ایک عام سا جانور جس کو مذہبی اور سماجی رسم ورواج کے مطابق سجا کر خود ہی بھگوان کے نام پر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے پھر بعد میں افسانے میں سانڈ کی ہنگامہ آرائی پر کونسا واویلہ۔۔۔؟اور موضوع کی کونسی پائیدار علامتی جہت پائیدار رہ سکتی ہے۔اگر یہاں پر سانڈ کو خود اپنے ہاتھوں سے سجانے کا عمل ہی دکھانا مقصود ہوتا تو پھر تخلیقی طور پر یہاں بھی ابہامی منظر کشی کی ضرورت تھی۔

بہرکیف‘ چونکہ یہ تنقیدی مضمون ہے اس لئے تجزیے کے دوران افسانے کی ہر جہت یا پہلو پر نظر رکھنا پڑتی ہے‘اگر یہ چیز افسانے میں نظر نہیں آتی تو پھر بلا وجہ افسانے کے کسی کمزور پہلو کو اجاگر کرنے کی بہت کم گنجائش نکلتی۔مجموعی طور پر افسانہ ”سانڈ“کی بنت‘اسلوب‘موضوعاتی پیش کش‘علامتی برتاؤ‘ کردارنگاری اور تفہیم وترسیل ایک شاندار افسانے کی عکاسی کرتے ہیں اورافسانہ‘ زبان‘ماجرا اور واقعہ کے ساتھ کہانی بھی پیش کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے یہ افسانہ اردوکے چند بہترین افسانوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نظر آتاہے۔

...........................................................................................


افسانہ: سانڈ

افسانہ نگار:پروفیسر غضنفر(علی گڑھ)

”یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟“

سورج پورگاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رْک کرہانپتے ہوئے جواب دیا۔“

”چاچا!گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔“

”سانڈ پھرگھس آیاہے!“بوڑھے کی سفیدلمبی داڑھی اوپرسے نیچے تک ہل اٹھی —

”ہاں چاچا!پھرگھس آیاہے اورآج تواس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیاکو خراب کردیا۔چھیدی کے بچھڑے کو سینگ ماردیا۔بھولو کے بیل کو ٹکریں مارمار کر لہولہان کردیا۔کالوکی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑپھوڑدیا۔بدھو اوربھولاکی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کرملیامیٹ کردیا۔اب بھی بورایاہوا اینڈتاپھررہاہے۔ نہ جانے اورکیا کیاکرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟“

”تم لوگ دھام پوروالوں سے کہتے کیوں نہیں کہ و ہ اپنے سانڈ کوروکیں۔ادھر نہ آنے دیں۔“

”کہاتھاچاچا!گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہاتھا۔ان سے بتایاتھاکہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہماراکتنانقصان کررہاہے۔مگر جانتے ہیں اْنھوں نے کیاجواب دیا۔“

”کیاجواب دیا؟“

”اْنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کررکھاجاسکتا ہے۔سانڈ تو دیوی دیوتا کاپرسادہوتاہے۔اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ اجاتاہے اوربھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیامیں کہیں بھی بنا روک ٹوک جاسکتاہے۔بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔سب میں اس کا حصہ ہے۔وہ جوچاہے کھاسکتاہے۔ اسے روک کراپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھوگی بنانا ہے کیا ——؟چاچا!میری سمجھ میں نہیں آیاکہ دھام پورکے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیاسچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے؟“‘

”ہاں بیٹے!بات تو سچ ہے۔لوگ اپنی کسی مراد کوپانے کے لیے بھگوان یادیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگران کی مرادپوری ہوگئی تو وہ بھگوان یادیوی دیوتاکے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اوراپنی گائے کے بچھڑے کو یاکسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خریدکرآزادچھوڑدیتے ہیں۔چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کرنہلاتے ہیں۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔گاؤں والوں کوایک جگہ جمع کرکے پو‘جاپاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یاماتھے پر بھگوان یادیوی،دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنادیتے ہیں۔اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کردیتے ہیں۔

چونکہ وہ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے۔اس لیے اس کے کھانے پینے اورگھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اوروہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھاپی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتاہے۔“

”پھرتودھام پوروالوں نے ٹھیک ہی کہاتھاچاچا؟“

”ٹھیک توکہاتھا،مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی توکچھ کرنا ہی پڑتاہے۔“

”تواب ہمیں کیاکرنا چاہیے چاچا؟“

”تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔گاؤں کا حال بتاؤ۔ اوران سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہوگیاہے۔اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کردیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔“

”ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کوتیارکرتاہوں۔“

سورج پوروالے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔

کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کرکہا۔

”آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دْکھ ہوا۔مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مددنہیں کرسکتے۔“

”کیوں صاحب؟“گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

”اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لاوارث سانڈ کو بندکرنے کا چلن نہیں ہے۔یہاں تو ایسے جانوروں کوبندکیاجاتاہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتاہے۔جوکچھ دنوں کے اندراندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھرکرچھڑاکرلے جاتاہے۔اگرہم ایسے جانوروں کو باندھ کررکھنے لگے توکچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بندہوجائے گا۔“اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔

افسر کاجواب سن کرگاؤں والے گڑگڑاکربولے‘

”صاحب!کچھ کیجیے۔“ورنہ توہمارا ستیاناس ہوجائے گا۔ہم کنگال ہوجائیں گے۔“

افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھرکہا۔

”ہم مجبورہیں۔ہم ایسے جانورکوکانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔آپ لوگوں کو میری بات پر شایدیقین نہیں آرہاہے۔آئیے میرے ساتھ۔“

افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔

گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پربندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جوبہت ہی کمزوراوردبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندرکودھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہرکونکلی ہوئی تھیں۔

کانجی ہاؤس کے اندرکاحال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اوراپنے کو قسمت کے حوالے کرکے بیٹھ گئے۔

ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھرتباہی مچائی۔اس کے بعدایک باراورگھس آیا۔ پریشان ہوکرگاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس باریہ مشورہ دیاکہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپروالے محکمے میں جاکر اپنی فریادسنائیں۔گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پرسنجیدگی سے غورکیااورکانجی ہاؤس کے افسران کو زوردے کرلکھا کہ وہ دھام پوروالوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اورگاؤں والوں سے کہاکہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کریں گے۔

گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے—افسران نے ان سے کہا۔

”ٹھیک ہے۔آپ لوگ سانڈ کوپکڑکرلائیے۔ہم اسے یہاں بندکرلیں گے۔“

گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اورگاؤں آکرانہوں نے سانڈ کوپکڑنے کی تیاری شروع کردی۔

گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیارہوکر سانڈ کا انتظارکرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آگیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑپڑی۔

نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گراکرپکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہوگئے۔مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کراپنے گاؤں یعنی دھام پورکی طرف بھاگا۔نوجوان بھی اس کے پیچھے

دوڑے۔ دھام پوروالوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑارہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کوبچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی،بھالے اوربندوقیں لیے باہرنکل آئے اورپیچھا کرنے والوں کوللکارتے ہوئے چلائے۔

”خبردار!وہیں رک جاؤ!آگے مت بڑھو۔اگرتم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑڈالیں گے۔تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔یہیں زمین پرڈھیرکرکے رکھ دیں گے۔جانتے نہیں،یہ سانڈ ہمارے دیوتا پرچڑھایاگیاپرسادہے۔“  

سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پورکے نوجوانوں نے جب دھام پوروالوں کی دھمکی سنی اوران کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں،لاٹھیوں اورتنی ہوئی بندوقوں کودیکھاتوان کے پاؤں تھراکرتھم گئے اوروہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔

اس حادثے کے بعد دھام پوروالے اورشیرہوگئے۔اوراب وہ اپنے سانڈ کوآئے دن جان بوجھ کر سورج پورگاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔ سورج پورگاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں توایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کوبلاکرکہا۔

”میرے گاؤں کے پیارے لوگو!ہم نے ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاسکے اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر ہم سانڈ کوپکڑنے کے لیے زیاوہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہوگا اور تباہی مچے گی۔اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتاہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑدیں اورجلد سے جلد اسے سانڈ بنادیں۔“

”اس سے کیا ہوگا چاچا؟“——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پرمرکوز ہوگئیں۔

”اس سے یہ ہوگا کہ ہماراسانڈ بھی دھام پوروالوں کا وہی حال کرنے لگے گاجواپنے سانڈ سے وہ ہماراکرواتے ہیں۔اْدھربھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پرمجبور ہوں گے۔“

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔“ نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔مگر بعض بزرگوں کے چہروں پرسنجیدگی طاری ہوگئی۔

سور ج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایادھلایا۔گلے میں ہارپہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پردیوتاکے نام کا ایک ٹھپّہ لگاکراسے آزادچھوڑدیا۔ کمزوربچھڑاکھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اوربے فکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اورسارے گاؤں کا چارہ پانی کھاپی کربہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔

سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنااورسینگ مارنا شروع کیاتوسورج پوروالوں نے اس کا رخ دھام پوروالوں کی طرف موڑدیا۔ دھام پورگاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اورتہس نہس کرنا شروع کردیا۔وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ان کے چارہ،پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اورکھلیان بھی تباہ وبربادہونے لگے۔

دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔کچھ دنو ں بعد ایک روز ایک عجیب وغریب منظررونما ہوا۔دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پورگاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کرگاؤں کوروند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھروہاں سے ایک ساتھ نکلے اوردھام پور میں گھس کر توڑپھوڑمچانے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔ اس دن کے بعددونوں سانڈوں کاایک ساتھ گھومنااورمل جل کرگاؤں کوروندنا معمول بن گیا۔دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔ اپنی بربادی سے تنگ آکرآس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کرسانڈوں کومارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگرکسی طرح یہ خبرمحکم تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اوراس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگادیا جو اس بات کا اعلان تھاکہ یہ جانورمحکم؟تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔

لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈ وں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنااپناسرپیٹ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024