ابو العلاء المعری: وقت کی قبر کا متلاشی

ابو العلاء المعری: وقت کی قبر کا متلاشی

Dec 10, 2025

مصوّر-اسرار فاروقی


دیدبان شمارہ -30، نومبر

ابو العلاء المعری: وقت کی قبر کا متلاشی

(عظیم عربی شاعر اور مفکر کا فلسفہ دہریات اور زمانے کا قنوطی و جبری تصور )

تحریر : حنظلہ خلیق

~ ما حَفَرَ شابٌّ قَبْرَ الزَّمانِ، وَلكِنْ

حَفَرَ الزَّمانُ لِكُلِّ شابٍ قُبورَهُمُ

“کسی جوان نے کبھی بوڑھے وقت کی قبر نہیں کھودی؛ اس کے برعکس یہی بوڑھا وقت ہر ایک جوان کی قبر کھود چکا ہے۔”

(المعري)

انسان ہمیشہ اپنی حالت پر غور کرتا ہے، اور اسی کے ساتھ وہ کائنات، اس کے اسرار اور بھیدوں کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کے پیچھے بےچینی، اضطراب اور ایک گہرا خوف چھپا ہوتا ہے۔ یہ سوالات کچھ یوں ہیں: "میں کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور آخر کہاں جا رہا ہوں؟" یہ خوف دراصل اُس نامعلوم اور پراسرار مستقبل کا خوف ہے، جس سے انسان ازل سے خائف چلا آ رہا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ اُس کی زندگی مختصر ہے، بدلتی رہتی ہے، جس کے دامن میں بڑھاپا ہے، بیماری ہے، اور آخرکار ایک یقینی انجام — فنا بھی۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ بقاء ممکن نہیں،

ہر زندہ شے کا مقدر فنا ہے۔ یہی شعور اُسے ایک گہرے وجودی اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اسی نقطۂ نظر سے، کچھ لوگ اس انجام کا سبب "دَہر" (زمانہ یا وقت) کو سمجھتے ہیں —

یہی اُن کے فکری انتشار اور روحانی بےچینی کی جڑ بنتا ہے۔ زمانہ اُن کی نظر میں ایک غالب قوت ہے جو ہر چیز پر ناظر ہے۔ وہ اپنی ہر مصیبت، ہر حادثے کا الزام اسی پر رکھتے ہیں، جیسے وہ ان کی زندگیوں کے تمام اعمال کا ذمہ دار ہو۔

یہی لوگ بدگمانی میں مبتلا ہوتے ہیں — یعنی بدگمان اور مایوس۔ مگر ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عقل کی پختگی اور فکری کمال کو پا لیتے ہیں۔وہ تقدیر اور قضا و قدر پر یقین رکھتے ہیں،اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ دہر اُنہیں ہلاک نہیں کرتا، بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا رویّہ مثبت اور پُرامید ہوتا ہے۔

اسی فکری اور ادبی رجحان کو جس میں زمانے• کی شکایت اور شکوہ بیان کیا جاتا ہے، ادب میں "شکوہِ دَہر" یا "دہریات" کہا گیا ہے۔ یہ اندازِ سخن عباسی دور کے تیسرے عہد میں ایک مستقل صنفِ شعر کی صورت اختیار کر گیا تھا، جس کی طرف بہت سے شعراء نے توجہ دی اور اسے خوب برتا۔ انسان کی زندگی زمانے کی گردش اور دَہر کے حوادث کے تابع ہے — یہ سچ ہے کہ آدمی اپنی مرضی کے مطابق جینے کی کوشش کرتا ہے،

اپنے انداز میں زندگی کو سنوارنا چاہتا ہے،

لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے ایسے حالات آتے ہیں جو انسان کی خواہش اور ارادے کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ زندگی کبھی۔خوشگوار ہوتی ہے، اور کبھی تلخ و ناگوار انسانوں میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں

جو عقلی بلوغت اور کمالِ نظر کو پا لیتے ہیں،

اور دنیا کو خوش امیدی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو زندگی میں صرف بدحالی، فساد اور محرومی دیکھتے ہیں، اور یوں رفتہ رفتہ مایوسی اور بدگمانی اُن کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایسے افراد کی زندگی کا فلسفہ ہی تشاؤم (مایوسی) پر قائم ہوتا ہے۔ عباسی خلافت کے زوال، خاص طور پر اُس کے تیسرے دور میں سیاسی انحطاط کے سبب جب حکومت کا نظام بکھرنے لگا، تو اس کا اثر معاشرتی اور معاشی بدحالی پر بھی پڑا۔

فتنے اور انتشار بڑھنے لگے — اور لوگوں کے دلوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی پس منظر میں بہت سے لوگوں نے زمانے کی شکایت کو اپنا شعار بنا لیا — انہوں نے ایسی نظمیں اور اشعار کہے جن میں صرف دَہر کا شکوہ اور مذمت ہوتی تھی۔ یہ اندازِ سخن رفتہ رفتہ اتنا عام ہوا کہ ایک مستقل شعری صنف بن گیا جسے "الدهريات" یعنی "شکوہِ دَہر" کہا جانے لگا۔ شعرائے دہریات کا کلام دراصل اُن کے دل کا حال تھا۔ یہ ایک وجدانی شاعری تھی، جو انسان کی روح کی گہرائیوں، اس کے درد، اس کے کرب اور اس کی مایوسی سے اُبھری تھی۔ یہ وہ شاعری نہیں تھی جو کسی عہدے یا منصب کی طلب میں کہی جائے، نہ ہی کسی سلطان یا امیر کی خوشنودی کے لیے لکھی گئی تھی — بلکہ یہ تو دل کی دھڑکن اور روح کا اضطراب تھا، جس نے اُس وقت کی نفسیاتی، سماجی اور سیاسی حالتوں کے کئی پہلو روشن کر دیے۔ یہ اشعار اس عہدِ اسلامی کی اُس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہیں

جو عباسی دور میں مسلمانوں نے جھیلی۔ چنانچہ عباسی دور کے شعرا، اپنے پہلے گزرے ہوئے شعرا کی راہ پر چلے — جنہوں نے زمانے کی سختیوں اور حادثات کا بھرپور شکوہ کیا،

اور ہر دکھ، ہر مصیبت کو دہر کے ذمے ڈال دیا۔یہاں تک کہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول گئے کہ شریعت میں دَہر کو گالی دینا منع ہے۔ زمانے کو انہوں نے آزاد اور غیرت مند انسانوں کا دشمن سمجھا، جیسا کہ ہم المتنبی کی شاعری میں واضح طور پر دیکھتے ہیں — جس نے دہر سے ایسی دشمنی مول لی جیسے وہ کوئی زندہ دشمن ہو جو ہر قدم پر اُس کا پیچھا کرتا ہے اور اُسے ستاتا ہے۔ المتنبی کے خیال میں یہ دہر ہی ہے

جو نصیب اور ہنر انسانوں میں تقسیم کرتا ہے —

لیکن اس کی سرشت ہی ظلم و ناانصافی سے بنی ہے۔

ابو العلاء معری، جن کا پورا نام احمد بن عبداللہ• بن سلیمان بن محمد التنوخی ہے، 363 ہجری میں معرّہ النعمان میں پیدا ہوئے اور 449 ہجری میں وفات پائی۔ چار برس کی عمر میں جدری (چیچک)ہوا اور اسی مرض نے ان کی بینائی چھین لی۔ وہ کہا کرتے تھے: «لا أعرف من الألوان إلا الأحمر لأني ألبست في الجدري ثوباً مصبوغاً بالعصفر» — میں رنگوں میں صرف سرخ کو پہچانتا ہوں، کیوں کہ جدری کے دنوں میں مجھے زعفران سے رنگا ہوا کپڑا پہنایا گیا تھا۔ معرّہ کی گوشہ نشینی میں انہیں وہ شہرت ملی جو بغداد میں نہ مل سکی۔ علما، ادبا اور امراء نے خط و کتابت کی، اور دور دور سے طالبانِ علم ان کے پاس آئے تاکہ ان کے علوم و فنون سے فیض یاب ہوں۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے درمیان شدید ٹکراؤ تھا؛ یہ ٹکراؤ امت کے دل میں ایسے جوش کھول رہا تھا جیسے دیگ میں پانی ابلتا ہو۔ ابو العلاء نے بویہیوں، حمدانیوں، مرداسیوں اور فاطمیوں کا خونیں تصادم اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان سیاسی حالات میں عدل و انصاف مفقود ہو گیا، ظلم و استبداد نے جگہ لے لی، اور حاکم کی رعایا پر شفقت ختم ہو کر سختی اور تندی میں بدل گئی۔ معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی؛ ٹیکس بڑھے، فاطمی گورنروں کی کثرت سے نظام بگڑا، اور ہر حاکم نے جتنا ہوسکا دولت اپنی جھولی میں ڈالی جرمانوں اور تاوانوں میں بے جا اضافہ ہوا جس نے عوام کو نڈھال کر دیا۔ ابو العلاء نے اس ظلم کو یوں نقش کیا:

وأرى ملوكاً لا تحوط رعية

فعلام تؤخذ جزية ومكرس

میں ایسے بادشاہ دیکھتا ہوں جو رعایا کی خبرگیری نہیں کرتے،

پھر جزیہ اور مختلف محصول آخر کس لیے وصول کیے جاتے ہیں؟

سماجی زندگی بھی بے جان ہو چکی تھی؛ افراد کا باہمی اعتماد ٹوٹ گیا، فساد پھیلا اور ملک میں انتشار عام ہو گیا۔ انہی حالات نے دین و فرائض میں ڈھیلاپن پیدا کیا؛ مذہب اتنا کمزور پڑ گیا کہ دلوں اور ضمیروں پر اس کی گرفت باقی نہ رہی، اور انسان نے اپنی مصلحت کو ہر شے پر مقدم جانا، چاہے دوسروں کے حق میں نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ ابو العلاء نے ایک طویل، بےچین اور تلخ زندگی گزاری جس میں شک اور شکوہ کی آمیزش تھی۔ ان کی شخصیت کے عناصر نے ان کے افکار کو خاص رنگ دیا؛ گھر میں گوشہ نشینی اختیار کر کے وہ ہر شے کو طنز و تنقید کی نظر سے دیکھتے، اصلاح کو ناممکن سمجھتے اور جو اس کی کوشش کرے اسے ناکامی کا سزاوار گردانتے۔ ان کا تشاؤم شدید تھا؛ وہ زندگی اور اس کی لذتوں سے سخت بیزار رہے۔ اس مایوسی کے کئی اسباب تھے: بچپن کا اندھا پن، والد کا سایہ اٹھ جانا، بغداد کی آزمائشیں، والدہ کا انتقال، سوداوی مزاج اور عہد کی سیاسی خرابی۔ بظاہر صبر کا جو لبادہ اوڑھتے تھے، وہ اکثر اُتر جاتا اور وہ اندھے پن کی شکایت زبان پر لے آتے:

وكم اشتكت أشفار عين سهدها

وشفاؤها مما ألم شفار

ولطالما صابرت ليلا عاتما

فمتى يكون الصبح والإسفار

میری پلکوں نے کتنی ہی بے خوابی کا رونا رویا،

اور جو دکھ پلکوں کو پہنچا ہے، اس کی دوا کہاں؟

میں نے کتنی ہی تاریک راتیں ضبط سے گزار دیں،

اب سحر کب آئے گی، کب اجالا ہوگا؟

وہ مزید کہتے ہیں:

عمي العين يتلده عمى الدين والهوى

فليتني القُصرى ثلاث ليال

آنکھ کا اندھا پن دین اور خواہش کے اندھے پن سے بھی بڑھ کر ہے؛

کاش میں تین رات کے لیے ساری حسوں سے ہی محروم ہو جاتا۔

یہ تمام عوامل ابو العلاء کی نفسیات پر اثر انداز ہوئے، انہیں زندگی سے بدظن کیا، تنہائی اور گھر کی قید تک محدود کر دیا۔ یہی سوچ ان کی تصانیف اور شاعری، خصوصاً «لزومیات» میں جھلکتی ہے، جہاں وہ زندگی کے راز، خیر و شر کے مسائل، حیات کی مشقت اور موت کے سُکھ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے اُس دور کی مادہ پرستی اور طبقاتی تفاخر کو بے نقاب کیا اور علم و تحقیق کو اپنی ذات کی تکمیل کا وسیلہ بنایا۔ اس راہ میں وہ اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے اور حقیقی معنوں میں ایک عظیم علمی انسائیکلوپیڈیا بن کر ابھرے۔ ابو العلاء المعری کے نزدیک دنیا کی تمام مصیبتوں کی جڑ خود انسان ہے — اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور وہ برائیاں جن پر وہ ڈٹا رہتا ہے۔ معری نے اس پر بہت غور و فکر کیا، مگر اس کا حاصل صرف یہ رہا کہ انسان اپنی فطرت میں بُرا ہے، اور فساد اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اس کے نزدیک تمام انسان — خواہ وہ کسی قوم، نسل یا مرتبے سے ہوں — فساد میں برابر ہیں، کیونکہ وہ خود فساد کی پیداوار ہیں۔ یوں گویا ہر جاندار، ہر انسان، اس زمین پر شر پسند اور جھوٹا ہے۔ انسانی فطرت معری کی نظر میں پہلے دن سے بگڑی ہوئی ہے، فساد اس کی خمیر میں ہے، اور برائی ایسی حقیقت ہے جو سب انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ خواہ وہ مال میں مختلف ہوں یا غربت میں، خوبصورتی میں ہوں یا بدصورتی میں، مگر فطری برائی میں سب برابر ہیں۔

إن مازت الناس أخلاق يعاش بها

فإنهم عند سوء الطبع أسواء

اگر لوگوں میں کچھ ایسے اخلاق بھی ہوں جن سے زندگی بسر ہو،

تو بھی برے مزاج میں وہ سب برابر ہیں۔

أوكان كل بني حواء يشبهني

فبئس ما ولدت في الدهر حواء

اگر حوا کی ساری اولاد میرے جیسی ہو،

تو حوا نے بڑی ہی بری اولاد کو جنم دیا!

معری اس فاسد فطرت کو الٰہی قضا کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانوں پر اللہ کا یہ فیصلہ نافذ ہو چکا ہے کہ وہ اسی گندی فطرت کے ساتھ جئیں، اور دنیا میں ان کی مثال کتوں کی سی ہے جو ایک گلی سڑی لاش پر جھگڑتے ہوں۔

رأيت قضاء الله أوجب خلقه

وعاد عليهم في تعرفه سلباً

میں نے دیکھا کہ اللہ کی قضا نے انسان کو پیدا کیا،

مگر وہ پہچانے جانے میں خود ہی محروم رہا۔

وقد غلب الأحياء في كل وجهة

هواهم وإن كانوا غطارفة غلباً

زندہ انسان ہر میدان میں اپنی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہوتے ہیں،

چاہے وہ بظاہر بہادری کے دعوے دار ہوں۔

كلاب تغاوت أوتعاوت لجيفة

وأحسبني أصبحت الأمها كلباً

یہ سب کتے ہیں جو ایک لاش پر جھپٹ رہے ہیں یا بھنبھنا رہے ہیں،

اور میرا گمان ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ بے قرار کتا ہو چکا ہوں۔

أبينا سوى غش الصدور وإنما

ينال ثواب الله أسلمنا صدراً

ہم نے دلوں کی مکاری کے سوا کچھ نہیں اپنایا،

حالانکہ اللہ کا ثواب ان ہی کے لیے ہے جن کے سینے سلامت ہوں۔

وأي بني الأيام يحمد قائل

ومن جرب الأقوام أوسعهم ثلباً

کون سا زمانے کا بیٹا تعریف کے قابل ہے؟

جس نے قوموں کو آزمایا، وہ سب سے زیادہ ان کی برائی کرے گا۔

انسان، چاہے جتنا بھی دوسرے کے لیے خیر ظاہر کرے، اصل میں مکاری سے کام لیتا ہے۔ اور جب اپنی تعریف کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اپنی جڑ کو برا بھلا کہتا ہے، لیکن دعویٰ تقویٰ، روزہ داری اور وفا کا کرتا ہے۔

إذا أقبل الإنسان في الدهر صدقت

أ توهمني بالمكر أنك نافعي

جب کوئی شخص دنیا میں میری طرف بڑھتا ہے،

تو کیا تُو یہ سمجھتا ہے کہ میں تجھے فائدہ مند مان لوں گا —

محض تیری چالاکی کی بنیاد پر؟

وتأكل لحم الخل مستعذبا له

أحاديثه عن نفسه وهو كاذب

تو دوست کا گوشت کھاتا ہے اور اسے لذیذ سمجھتا ہے،

اور اپنی باتوں میں جھوٹ بولتا ہے۔

وما أنت إلا في حبك جاذب

وتزعم للأقوام أنك عاذب

تو خود لالچ میں کھینچتا ہے،

اور قوموں سے دعویٰ کرتا ہے کہ تو پاکباز ہے!

ابو العلاء کے نزدیک انسان بہترین ہم نشین بھی نہیں، کیونکہ وہ دھوکہ، فریب اور بدگوئی کا خوگر ہے:

بني آدم بئس المعاشر أنتم

وجدتكم لا تقربون إلى العلى كما

اے بنی آدم! تم بہت ہی برے ہم نشین ہو،

میں نے پایا کہ تم بلندیوں کے قریب بھی نہیں آتے۔

فما فيكم واف لمقت ولا حب

أنكم لا تبعدون عن السب

نہ تم میں کوئی نفرت کا وفادار ہے نہ محبت کا،

تم بدزبانی سے دور ہی نہیں ہوتے۔

دنیا میں چھوٹا ہو یا بڑا — سب گناہ گار، سخت دل، اور شر پسند ہیں۔ کوئی نیکی کرے بھی، تو اس پر فخر جتاتا ہے اور احسان جتاتا ہے:

لعمرك ما في الأرض كهل مجرب

ولا ناشىء إلا لإثم مراهق

تیری جان کی قسم! زمین پر کوئی عمر رسیدہ تجربہ کار ہے نہ کوئی نوخیز

مگر یہ کہ وہ گناہ کے قریب ہے۔

إذ بض بالشيء القليل فإنه

سوء السجايا بالتبجّج فاهق

وہ معمولی سی چیز دے کر بھی جتاتا ہے،

اور یہ بدترین خصلت ہے — فخر کے ساتھ دینا۔

معری انسان کی اس فطرت کو دیکھ کر حسرت سے کہتا ہے: کاش آدم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہوتی، یا اُس پر حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا،

تاکہ یہ نسل ہی پیدا نہ ہوتی!

يا ليت آدم كان طلق أمهم

أوكان حرمها عليه ظهار

کاش آدم نے اُن کی ماں کو طلاق دے دی ہوتی،

یا اُسے اپنے لیے حرام کر دیا ہوتا!

ولدتهم في غير طهر عاركا

فلذاك تفقد فيهم الأطهار

وہ طہارت کے بغیر، لڑتے جھگڑتے پیدا ہوئے،

اسی لیے ان میں پاکیزہ لوگ عنقا ہیں۔

ابو العلاء کی نظر میں انسان کی فطرت سراپا شر ہے، اور اسی لیے اصلاح ممکن نہیں، اور جو بھی اس کی کوشش کرے گا، ناکام ہو گا۔ معری نے اپنی زندگی میں جو درد سہے، اور جس عہد کا زوال اور ظلم اُس نے دیکھا، اسی نے اُس کے دل میں یہ نظریہ مضبوط کیا کہ انسان سراپا شر ہے، اس میں خیر ناپید ہے، اسے درست کرنا عبث ہے — اور بہتر یہی ہے کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ ابو العلاء المعری کا دنیا کے بارے میں تصور انسان کے بارے میں اس کے تصور سے بہتر نہ تھا؛ وہ دنیا پر برہم تھا اور اسی کی پستی سے انسان کی پست خصلت نکلتی دیکھتا تھا، چنانچہ وہ اسے برابر ملامت کرتا اور بد صورتی کی صفات سے یاد کرتا، یہاں تک کہ اسے دنیا کے سب سے بڑے مذمت نگار شاعروں میں شمار کیا گیا۔ وہ دل پر چھائے ہوئے اندھیرے کے پردے سے دنیا کو دیکھتا اور ہر چیز میں فساد ہی فساد پاتا۔ اسی لیے اس کے تشاؤم میں دبی ہوئی اذیت اور کچلا ہوا جوش جھلکتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب «لزومیات» کو اسی وسیع بدگمانی سے بھر دیا؛ دنیا کو دکھ اور عذاب کا گھر قرار دیتے ہوئے، زندگی کے ہر گوشے کا جائزہ لیا اور بےباکی اور صراحت کے ساتھ اس پر طنزیہ نقد کیا۔

خسئت يا أمنا لها

لنا بنوالخسيسة أوباش أخساء

دور ہو جا، اے ہماری بدطینت ماں،

ہم تیرے کمینے فرزند، رذیل اور پست!

وقد نطقت بأصناف العظات لنا

وأنت فيما يظن القوم خرساء

تو نے ہمیں وعظ و نصیحت کی بہت سی قسمیں سنائیں،

حالانکہ لوگ تجھے گونگا سمجھتے تھے!

طہ حسین «لزومیات» کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دیوانِ شعر سے بڑھ کر ایک فلسفیانہ کتاب معلوم ہوتی ہے؛ جس میں معری نے کائنات، ریاضیات، الوہیت اور اخلاق سے متعلق نظریات شعری صورت میں پیش کیے ہیں۔

أتروم عن زمن وفاءً مُرضياً

إن الزمان كأهله غدار

کیا تو زمانے سے دل پسند وفا چاہتا ہے؟

زمانہ بھی اپنے لوگوں کی طرح غدار ہے۔

اس کے نزدیک اصلاحِ دنیا کی کوئی امید نہیں، بلکہ اسے ناممکن سمجھتا ہے:

فلا تأمل من الدنيا صلاحاً

فذاك هو الذي لا يستطاع

دنیا سے کبھی درستی کی آس نہ رکھ،

یہ وہ چیز ہے جو ہو ہی نہیں سکتی۔

وہ مانتا ہے کہ زمانہ مادّہ کی طرح قدیم ہے، اور یونانی فلسفے کے قدمِ عناصر و قدمِ زمان و مکان کے تصور سے جڑا نظر آتا ہے:

قالوا لنا خالق قديم

قلنا صدقتم كذا نقول

ان لوگوں نے کہا: ہمارا خالق قدیم ہے،

ہم نے جواب دیا: تم نے سچ کہا، ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

زعمتموه بلا زمان

ولا مكان ألا فقولوا

لیکن تم نے اسے بے زمان و مکان بتایا—

تو ذرا بتاؤ یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟

شاعر جبر کا قائل ہے؛ انسان مجبورِ محض ہے، نہ پیدائش اس کے اختیار میں ہے، نہ بڑھاپا، نہ زندگی، نہ قدم اٹھانا:

ما باختياري ميلادي ولا هرمي

ولا حياتي، فهل لي بعد تخيير

میری پیدائش میرے اختیار سے نہ تھی،

نہ بڑھاپا، نہ زندگی— تو کیا پھر میرا کوئی انتخاب باقی رہا؟

ولا إقامة إلا عن يدي قدر

ولا مسير إذا لم يقض تيسيير

ٹھہرنا بھی تقدیر کے ہاتھ میں ہے،

اور چلنا بھی اگر تقدیر میسر نہ کرے تو ممکن نہیں۔

قضا و قدر کے بارے میں اس کا قول ہے:

نبكي ونضحك والقضاء مسلّط

ما الدهر أضحكنا ولا أبكانا

ہم روتے ہیں اور ہنستے ہیں جبکہ قضائے الٰہی مسلّط ہے؛

زمانے نے نہ ہمیں ہنسایا، نہ رلایا۔

نشكوالزمان وما أتى بجناية

ولو استطاع تكلماً لشكانا

ہم زمانے کی شکایت کرتے ہیں، حالاں کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا؛

اگر وہ بول سکتا تو شاید ہم سے شکایت کرتا۔

والدهر لا يدري بمن هو كائن

فيه، فكيف يلام فيما كانا

زمانہ نہیں جانتا کہ اس میں کون رہتا ہے،

تو پھر ماضی کی باتوں پر اسے ملامت کیسے؟

اس کی فلسفیانہ اساس ہر شے میں شک پر قائم ہے، سوائے دو حقیقتوں کے: خدا اور عقل۔ موت، وجود اور تخلیق کی غایت پر وہ حیران ہے؛ «لزومیات» میں درد کی چیخیں اور غم کی صدائیں ہیں جن سے اس کا یاس اور قنوط صاف جھلکتا ہے۔ ابو العلاء المعری نے اللہ کے ساتھ ایک اور قوت کو بھی تسلیم کیا— اور وہ ہے تقدیر،

ایسی طاقت جو ظالم، غالب، اور انسان کے تمام معاملات پر مسلط ہے۔ اس کی قوت ایسی ہے کہ نہ اسے روکا جا سکتا ہے، نہ مغلوب کیا جا سکتا ہے، نہ ہی اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ معری اس حوالے سے شدید اضطراب کا شکار نظر آتا ہے۔

بعض اوقات وہ ظلم کو تقدیر اور زمانے کی طرف منسوب کرتا ہے، جیسے وہ کہتا ہے:

وهو الزمان قضى بغير تناصف

بين الأنام وضاع جهد الجاهد

یہ زمانہ ہے جو انصاف کے بغیر فیصلے کرتا ہے

لوگوں کے درمیان، اور سعی کرنے والے کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

معری کا تقدیر پر یقین دراصل اس کی جبری فلسفہ حیات سے پھوٹتا ہے۔ وہ بار بار اس نظریے کا اظہار کرتا ہے کہ انسان مجبور ہے،

تقدیر کے ہاتھوں ایک پر کی مانند جو ہوا میں اڑتا ہے— اس کے لیے نجات کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہے:

يغدو على درعه الزراد يحكمها

وهل يُنجّيه، مما قُدّر الزّردُ

وہ اپنی زرہ پر خود تنگی سے بندھن چڑھاتا ہے،

لیکن جو کچھ مقدر میں لکھا ہے، کیا وہ زرہ اسے بچا سکتی ہے؟

معری اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ انسان کی تخلیق کا راز نہیں جانتا، لیکن وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ ایک قدرت رکھنے والا خدا ہے،

جو اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے، خواہ وہ اس کے لائق ہوں یا نہ ہوں، خواہ وہ اس پر ایمان لائیں یا انکار کریں:

تورعوا يا بني حواء عن كذب

فما لكم عند رب صاغكم خطر

اے بنی حوا! جھوٹ سے بچو،

اس رب کے حضور تمہاری کوئی وقعت نہیں جس نے تمہیں بنایا۔

لم تجدبوا لقبيح من فعالكم

ولم يجئكم لحسن التوبة المطر

نہ تمہاری برائی پر قحط نازل ہوا،

نہ تمہاری اچھی توبہ پر رحمت برسی۔

معری اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ انسان کو جو کامیابی یا نعمت ملتی ہے، وہ محض اللہ کے فضل سے ہوتی ہے، نہ کہ انسانی سعی و کوشش سے:

لم تبلغ الآراب شدة ساعد

ما لم يعنها الله بالإسعاد

طاقتور بازو بھی منزل تک نہیں پہنچتے،

جب تک اللہ خود اسے کامیاب نہ کرے۔

معری اللہ کے وجود، عظمت اور احسان کا اقرار کرتا ہے۔ ساتھ ہی وہ عقل کو آزادی کا ذریعہ تسلیم کرتا ہے، کیونکہ عقل کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان سوچنے، پرکھنے، اور انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر زندگی مکمل طور پر جبر ہو، تو عقل کا ہونا ایک فضول شے بن جائے۔ پھر بہتر ہوتا کہ انسان بےعقل پیدا ہوتا۔

مگر اس کے نزدیک عقل کے باوجود تقدیر کا غلبہ اتنا شدید ہے کہ عقل کا اثر ختم ہو جاتا ہے:

الصمت أولى، وما رجل ممنعة

إلا لها بصروف الدهر تعثير

خاموشی بہتر ہے،

ہر طاقتور انسان بھی زمانے کے تھپیڑوں سے ہی گرتا ہے۔

والعقل زين، ولكن فوقه قدر

فما له في ابتغاء الرزق تأثير

عقل ایک زینت ہے، مگر اس سے بالاتر تقدیر ہے،

اور رزق کے معاملے میں عقل کی کوئی تاثیر نہیں۔

لہٰذا عقل اگر اثر نہ ڈال سکے، تو پھر اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ معری نے دنیا کو بہ شدت حقیر جانا۔ اس کے نزدیک دنیا سے لطف اندوز ہونا فضول ہے، خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو، وہ نصیحت کرتا ہے:

فلا تطلب الدنيا وإن كنت ناشئاً

فإني عنها بالأخلاء أرباً

دنیا کی طلب نہ کر، چاہے ابھی نیا نیا جوان ہوا ہو،

کیونکہ میں نے اس سے کنارہ کش ہو کر سکون پایا ہے۔

وهي ليست دار قرار إقامة

والرحيل منها أولى من البقاء

یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں،

اس سے روانگی باقی رہنے سے بہتر ہے۔

ایک اور مقام پر کہتا ہے:

لعمرك ما الدنيا بدار إقامة

ولا الحيّ في حال السلامة آمن

تیری عمر کی قسم! دنیا رہنے کی جگہ نہیں،

اور زندہ انسان کبھی بھی امن میں نہیں۔

وإنّ وليداً حلّها لمعذب

جرت لسواه بالسعود الأيامن

جو بچہ بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ عذاب کا شکار ہوتا ہے،

اور خوشی کے دن تو دوسروں پر ہی بیتتے ہیں۔

معری دنیا میں خیر کے وجود کا منکر ہے—

یہ سراسر برائیوں اور گناہوں سے بھری ہوئی ہے۔

وہ موت کو سکون جانتا ہے:

حياتي تعذيب وموتي راحة

وكل ابن أنثى في التراب سجين

میری زندگی عذاب ہے اور موت راحت،

ہر عورت کا بیٹا مٹی میں قید ہو کر ہی سکون پاتا ہے۔

موت اس کے نزدیک عید ہے! کیا اس سے بڑا تشاؤم ہو سکتا ہے؟ اس کا کہنا ہے:

أنا صائم طول الحياة وإنما

فِطري الحمامُ ويوم ذاك أعيد

میں ساری زندگی کا روزہ رکھے ہوں،

اور میری افطار موت ہے— اور وہی دن میری عید ہو گا۔

اور معری کے نزدیک وہ عاقل جو زندگی کے اخلاقی زوال کو دیکھ چکا ہو، اسے سکون صرف موت میں مل سکتا ہے:

تعالى رازق الأحياء جمعاً لقد

وهت المروءة والحياء

سب انسانوں کو رزق دینے والا پاک ہے،

مگر غیرت اور حیاء ختم ہو چکی ہے۔

فمالي لا أكون وصي نفسي

ولا تعصي أموري الأوصياء

تو میں خود اپنی وصیت کیوں نہ بنوں،

جبکہ دوسرے میری باتوں پر عمل ہی نہیں کرتے؟

زندگی جتنی بھی طویل ہو، یا جتنا بھی مال و دولت ہو— موت اس سے بہتر ہے:

موت يَسيرٌ معه رحمةٌ

خير من اليسر وطول البقاء

وہ آسان موت جس میں رحمت ہو،

دولت اور عمر کی درازی سے بہتر ہے۔

وقد بلونا العَيش أطوارهَ

فما وجدنا فيه غير الشقاء

ہم نے زندگی کے ہر روپ کو آزمایا،

اور اس میں صرف دکھ ہی پایا۔

معری موت سے نہیں ڈرتا— بلکہ اسے چاہتا ہے، تلاش کرتا ہے:

إن يقرب الموت مني

فلست أكره قربه

اگر موت میرے قریب آ جائے،

تو میں اس سے نفرت نہیں کرتا۔

وذاك أمنع حصن

يصير القبر دربه

اور وہ موت سب سے محفوظ قلعہ ہے،

جس کا راستہ قبر ہے۔

من يلقه لا يراقب

خطباً ولا يخشى كربه

جو اس سے ملتا ہے، وہ نہ کسی مصیبت سے ڈرتا ہے، نہ کسی رنج سے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف موت کو اپنی نجات جانتا ہے، بلکہ اولاد پیدا کرنا بھی ظلم سمجھتا ہے— کیونکہ اس سے ایک اور روح کو دنیا کے عذاب میں دھکیلا جاتا ہے:

فليت وليداً مات ساعة وضعه

ولم يرتضع من أمه النّفساء

کاش کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی مر جائے،

اور اپنی ماں کا دودھ نہ پائے۔

اسی سوچ کے باعث وہ شادی سے باز رہا اور اولاد سے اجتناب کیا، اور یہ بیت اپنی قبر پر لکھوانے کو کہا:

هذا جناه أبي عليَّ

وما جنيت على أحد

یہ زندگی دینا وہ جرم تھا جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا، مگر میں نے کسی پر یہ جرم نہیں کیا۔

معری کے تشاؤم کی انتہا یہ ہے کہ جب زندگی میں اسے موت بھی نہ ملی، تو اس نے خود کو گھر میں قید کر لیا، لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اور نبات خور بن گیا تاکہ کسی جاندار کو نہ ستائے۔ اس کا ماننا تھا کہ انسان نے صرف انسان کو ہی نہیں ستایا— بلکہ جانوروں پر بھی ظلم کیا ہے۔ اس ظلم سے بچنے کے لیے وہ حیوانی غذا سے کنارہ کش ہو گیا اور اپنے ماضی پر شرمندہ بھی ہوا۔ جب یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا— نہ تنہائی، نہ عبادت، نہ زہد— تو اس نے ہر شے کو آنسوؤں اور نالہ و فغاں میں دیکھا،

حتیٰ کہ پرندوں کے گیت بھی اسے نوحہ لگنے لگے:

لعمرك ما بي نجعة فأرومها

وإني على طول الزمان لمجدب

تیری عمر کی قسم! میں ایسی زمین نہیں ہوں جس سے کچھ اگے،

میں طویل زمانے سے بنجر ہوں۔

حملت على الأولى الحمام فلم أقل

يغني ولكن قلت: يبكي ويندب

پرندوں کی آوازوں کو سنا،

تو کہ

......................................



دیدبان شمارہ -30، نومبر

ابو العلاء المعری: وقت کی قبر کا متلاشی

(عظیم عربی شاعر اور مفکر کا فلسفہ دہریات اور زمانے کا قنوطی و جبری تصور )

تحریر : حنظلہ خلیق

~ ما حَفَرَ شابٌّ قَبْرَ الزَّمانِ، وَلكِنْ

حَفَرَ الزَّمانُ لِكُلِّ شابٍ قُبورَهُمُ

“کسی جوان نے کبھی بوڑھے وقت کی قبر نہیں کھودی؛ اس کے برعکس یہی بوڑھا وقت ہر ایک جوان کی قبر کھود چکا ہے۔”

(المعري)

انسان ہمیشہ اپنی حالت پر غور کرتا ہے، اور اسی کے ساتھ وہ کائنات، اس کے اسرار اور بھیدوں کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کے پیچھے بےچینی، اضطراب اور ایک گہرا خوف چھپا ہوتا ہے۔ یہ سوالات کچھ یوں ہیں: "میں کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور آخر کہاں جا رہا ہوں؟" یہ خوف دراصل اُس نامعلوم اور پراسرار مستقبل کا خوف ہے، جس سے انسان ازل سے خائف چلا آ رہا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ اُس کی زندگی مختصر ہے، بدلتی رہتی ہے، جس کے دامن میں بڑھاپا ہے، بیماری ہے، اور آخرکار ایک یقینی انجام — فنا بھی۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ بقاء ممکن نہیں،

ہر زندہ شے کا مقدر فنا ہے۔ یہی شعور اُسے ایک گہرے وجودی اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اسی نقطۂ نظر سے، کچھ لوگ اس انجام کا سبب "دَہر" (زمانہ یا وقت) کو سمجھتے ہیں —

یہی اُن کے فکری انتشار اور روحانی بےچینی کی جڑ بنتا ہے۔ زمانہ اُن کی نظر میں ایک غالب قوت ہے جو ہر چیز پر ناظر ہے۔ وہ اپنی ہر مصیبت، ہر حادثے کا الزام اسی پر رکھتے ہیں، جیسے وہ ان کی زندگیوں کے تمام اعمال کا ذمہ دار ہو۔

یہی لوگ بدگمانی میں مبتلا ہوتے ہیں — یعنی بدگمان اور مایوس۔ مگر ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عقل کی پختگی اور فکری کمال کو پا لیتے ہیں۔وہ تقدیر اور قضا و قدر پر یقین رکھتے ہیں،اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ دہر اُنہیں ہلاک نہیں کرتا، بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا رویّہ مثبت اور پُرامید ہوتا ہے۔

اسی فکری اور ادبی رجحان کو جس میں زمانے• کی شکایت اور شکوہ بیان کیا جاتا ہے، ادب میں "شکوہِ دَہر" یا "دہریات" کہا گیا ہے۔ یہ اندازِ سخن عباسی دور کے تیسرے عہد میں ایک مستقل صنفِ شعر کی صورت اختیار کر گیا تھا، جس کی طرف بہت سے شعراء نے توجہ دی اور اسے خوب برتا۔ انسان کی زندگی زمانے کی گردش اور دَہر کے حوادث کے تابع ہے — یہ سچ ہے کہ آدمی اپنی مرضی کے مطابق جینے کی کوشش کرتا ہے،

اپنے انداز میں زندگی کو سنوارنا چاہتا ہے،

لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے ایسے حالات آتے ہیں جو انسان کی خواہش اور ارادے کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ زندگی کبھی۔خوشگوار ہوتی ہے، اور کبھی تلخ و ناگوار انسانوں میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں

جو عقلی بلوغت اور کمالِ نظر کو پا لیتے ہیں،

اور دنیا کو خوش امیدی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو زندگی میں صرف بدحالی، فساد اور محرومی دیکھتے ہیں، اور یوں رفتہ رفتہ مایوسی اور بدگمانی اُن کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایسے افراد کی زندگی کا فلسفہ ہی تشاؤم (مایوسی) پر قائم ہوتا ہے۔ عباسی خلافت کے زوال، خاص طور پر اُس کے تیسرے دور میں سیاسی انحطاط کے سبب جب حکومت کا نظام بکھرنے لگا، تو اس کا اثر معاشرتی اور معاشی بدحالی پر بھی پڑا۔

فتنے اور انتشار بڑھنے لگے — اور لوگوں کے دلوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی پس منظر میں بہت سے لوگوں نے زمانے کی شکایت کو اپنا شعار بنا لیا — انہوں نے ایسی نظمیں اور اشعار کہے جن میں صرف دَہر کا شکوہ اور مذمت ہوتی تھی۔ یہ اندازِ سخن رفتہ رفتہ اتنا عام ہوا کہ ایک مستقل شعری صنف بن گیا جسے "الدهريات" یعنی "شکوہِ دَہر" کہا جانے لگا۔ شعرائے دہریات کا کلام دراصل اُن کے دل کا حال تھا۔ یہ ایک وجدانی شاعری تھی، جو انسان کی روح کی گہرائیوں، اس کے درد، اس کے کرب اور اس کی مایوسی سے اُبھری تھی۔ یہ وہ شاعری نہیں تھی جو کسی عہدے یا منصب کی طلب میں کہی جائے، نہ ہی کسی سلطان یا امیر کی خوشنودی کے لیے لکھی گئی تھی — بلکہ یہ تو دل کی دھڑکن اور روح کا اضطراب تھا، جس نے اُس وقت کی نفسیاتی، سماجی اور سیاسی حالتوں کے کئی پہلو روشن کر دیے۔ یہ اشعار اس عہدِ اسلامی کی اُس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہیں

جو عباسی دور میں مسلمانوں نے جھیلی۔ چنانچہ عباسی دور کے شعرا، اپنے پہلے گزرے ہوئے شعرا کی راہ پر چلے — جنہوں نے زمانے کی سختیوں اور حادثات کا بھرپور شکوہ کیا،

اور ہر دکھ، ہر مصیبت کو دہر کے ذمے ڈال دیا۔یہاں تک کہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول گئے کہ شریعت میں دَہر کو گالی دینا منع ہے۔ زمانے کو انہوں نے آزاد اور غیرت مند انسانوں کا دشمن سمجھا، جیسا کہ ہم المتنبی کی شاعری میں واضح طور پر دیکھتے ہیں — جس نے دہر سے ایسی دشمنی مول لی جیسے وہ کوئی زندہ دشمن ہو جو ہر قدم پر اُس کا پیچھا کرتا ہے اور اُسے ستاتا ہے۔ المتنبی کے خیال میں یہ دہر ہی ہے

جو نصیب اور ہنر انسانوں میں تقسیم کرتا ہے —

لیکن اس کی سرشت ہی ظلم و ناانصافی سے بنی ہے۔

ابو العلاء معری، جن کا پورا نام احمد بن عبداللہ• بن سلیمان بن محمد التنوخی ہے، 363 ہجری میں معرّہ النعمان میں پیدا ہوئے اور 449 ہجری میں وفات پائی۔ چار برس کی عمر میں جدری (چیچک)ہوا اور اسی مرض نے ان کی بینائی چھین لی۔ وہ کہا کرتے تھے: «لا أعرف من الألوان إلا الأحمر لأني ألبست في الجدري ثوباً مصبوغاً بالعصفر» — میں رنگوں میں صرف سرخ کو پہچانتا ہوں، کیوں کہ جدری کے دنوں میں مجھے زعفران سے رنگا ہوا کپڑا پہنایا گیا تھا۔ معرّہ کی گوشہ نشینی میں انہیں وہ شہرت ملی جو بغداد میں نہ مل سکی۔ علما، ادبا اور امراء نے خط و کتابت کی، اور دور دور سے طالبانِ علم ان کے پاس آئے تاکہ ان کے علوم و فنون سے فیض یاب ہوں۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے درمیان شدید ٹکراؤ تھا؛ یہ ٹکراؤ امت کے دل میں ایسے جوش کھول رہا تھا جیسے دیگ میں پانی ابلتا ہو۔ ابو العلاء نے بویہیوں، حمدانیوں، مرداسیوں اور فاطمیوں کا خونیں تصادم اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان سیاسی حالات میں عدل و انصاف مفقود ہو گیا، ظلم و استبداد نے جگہ لے لی، اور حاکم کی رعایا پر شفقت ختم ہو کر سختی اور تندی میں بدل گئی۔ معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی؛ ٹیکس بڑھے، فاطمی گورنروں کی کثرت سے نظام بگڑا، اور ہر حاکم نے جتنا ہوسکا دولت اپنی جھولی میں ڈالی جرمانوں اور تاوانوں میں بے جا اضافہ ہوا جس نے عوام کو نڈھال کر دیا۔ ابو العلاء نے اس ظلم کو یوں نقش کیا:

وأرى ملوكاً لا تحوط رعية

فعلام تؤخذ جزية ومكرس

میں ایسے بادشاہ دیکھتا ہوں جو رعایا کی خبرگیری نہیں کرتے،

پھر جزیہ اور مختلف محصول آخر کس لیے وصول کیے جاتے ہیں؟

سماجی زندگی بھی بے جان ہو چکی تھی؛ افراد کا باہمی اعتماد ٹوٹ گیا، فساد پھیلا اور ملک میں انتشار عام ہو گیا۔ انہی حالات نے دین و فرائض میں ڈھیلاپن پیدا کیا؛ مذہب اتنا کمزور پڑ گیا کہ دلوں اور ضمیروں پر اس کی گرفت باقی نہ رہی، اور انسان نے اپنی مصلحت کو ہر شے پر مقدم جانا، چاہے دوسروں کے حق میں نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ ابو العلاء نے ایک طویل، بےچین اور تلخ زندگی گزاری جس میں شک اور شکوہ کی آمیزش تھی۔ ان کی شخصیت کے عناصر نے ان کے افکار کو خاص رنگ دیا؛ گھر میں گوشہ نشینی اختیار کر کے وہ ہر شے کو طنز و تنقید کی نظر سے دیکھتے، اصلاح کو ناممکن سمجھتے اور جو اس کی کوشش کرے اسے ناکامی کا سزاوار گردانتے۔ ان کا تشاؤم شدید تھا؛ وہ زندگی اور اس کی لذتوں سے سخت بیزار رہے۔ اس مایوسی کے کئی اسباب تھے: بچپن کا اندھا پن، والد کا سایہ اٹھ جانا، بغداد کی آزمائشیں، والدہ کا انتقال، سوداوی مزاج اور عہد کی سیاسی خرابی۔ بظاہر صبر کا جو لبادہ اوڑھتے تھے، وہ اکثر اُتر جاتا اور وہ اندھے پن کی شکایت زبان پر لے آتے:

وكم اشتكت أشفار عين سهدها

وشفاؤها مما ألم شفار

ولطالما صابرت ليلا عاتما

فمتى يكون الصبح والإسفار

میری پلکوں نے کتنی ہی بے خوابی کا رونا رویا،

اور جو دکھ پلکوں کو پہنچا ہے، اس کی دوا کہاں؟

میں نے کتنی ہی تاریک راتیں ضبط سے گزار دیں،

اب سحر کب آئے گی، کب اجالا ہوگا؟

وہ مزید کہتے ہیں:

عمي العين يتلده عمى الدين والهوى

فليتني القُصرى ثلاث ليال

آنکھ کا اندھا پن دین اور خواہش کے اندھے پن سے بھی بڑھ کر ہے؛

کاش میں تین رات کے لیے ساری حسوں سے ہی محروم ہو جاتا۔

یہ تمام عوامل ابو العلاء کی نفسیات پر اثر انداز ہوئے، انہیں زندگی سے بدظن کیا، تنہائی اور گھر کی قید تک محدود کر دیا۔ یہی سوچ ان کی تصانیف اور شاعری، خصوصاً «لزومیات» میں جھلکتی ہے، جہاں وہ زندگی کے راز، خیر و شر کے مسائل، حیات کی مشقت اور موت کے سُکھ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے اُس دور کی مادہ پرستی اور طبقاتی تفاخر کو بے نقاب کیا اور علم و تحقیق کو اپنی ذات کی تکمیل کا وسیلہ بنایا۔ اس راہ میں وہ اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے اور حقیقی معنوں میں ایک عظیم علمی انسائیکلوپیڈیا بن کر ابھرے۔ ابو العلاء المعری کے نزدیک دنیا کی تمام مصیبتوں کی جڑ خود انسان ہے — اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور وہ برائیاں جن پر وہ ڈٹا رہتا ہے۔ معری نے اس پر بہت غور و فکر کیا، مگر اس کا حاصل صرف یہ رہا کہ انسان اپنی فطرت میں بُرا ہے، اور فساد اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اس کے نزدیک تمام انسان — خواہ وہ کسی قوم، نسل یا مرتبے سے ہوں — فساد میں برابر ہیں، کیونکہ وہ خود فساد کی پیداوار ہیں۔ یوں گویا ہر جاندار، ہر انسان، اس زمین پر شر پسند اور جھوٹا ہے۔ انسانی فطرت معری کی نظر میں پہلے دن سے بگڑی ہوئی ہے، فساد اس کی خمیر میں ہے، اور برائی ایسی حقیقت ہے جو سب انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ خواہ وہ مال میں مختلف ہوں یا غربت میں، خوبصورتی میں ہوں یا بدصورتی میں، مگر فطری برائی میں سب برابر ہیں۔

إن مازت الناس أخلاق يعاش بها

فإنهم عند سوء الطبع أسواء

اگر لوگوں میں کچھ ایسے اخلاق بھی ہوں جن سے زندگی بسر ہو،

تو بھی برے مزاج میں وہ سب برابر ہیں۔

أوكان كل بني حواء يشبهني

فبئس ما ولدت في الدهر حواء

اگر حوا کی ساری اولاد میرے جیسی ہو،

تو حوا نے بڑی ہی بری اولاد کو جنم دیا!

معری اس فاسد فطرت کو الٰہی قضا کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانوں پر اللہ کا یہ فیصلہ نافذ ہو چکا ہے کہ وہ اسی گندی فطرت کے ساتھ جئیں، اور دنیا میں ان کی مثال کتوں کی سی ہے جو ایک گلی سڑی لاش پر جھگڑتے ہوں۔

رأيت قضاء الله أوجب خلقه

وعاد عليهم في تعرفه سلباً

میں نے دیکھا کہ اللہ کی قضا نے انسان کو پیدا کیا،

مگر وہ پہچانے جانے میں خود ہی محروم رہا۔

وقد غلب الأحياء في كل وجهة

هواهم وإن كانوا غطارفة غلباً

زندہ انسان ہر میدان میں اپنی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہوتے ہیں،

چاہے وہ بظاہر بہادری کے دعوے دار ہوں۔

كلاب تغاوت أوتعاوت لجيفة

وأحسبني أصبحت الأمها كلباً

یہ سب کتے ہیں جو ایک لاش پر جھپٹ رہے ہیں یا بھنبھنا رہے ہیں،

اور میرا گمان ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ بے قرار کتا ہو چکا ہوں۔

أبينا سوى غش الصدور وإنما

ينال ثواب الله أسلمنا صدراً

ہم نے دلوں کی مکاری کے سوا کچھ نہیں اپنایا،

حالانکہ اللہ کا ثواب ان ہی کے لیے ہے جن کے سینے سلامت ہوں۔

وأي بني الأيام يحمد قائل

ومن جرب الأقوام أوسعهم ثلباً

کون سا زمانے کا بیٹا تعریف کے قابل ہے؟

جس نے قوموں کو آزمایا، وہ سب سے زیادہ ان کی برائی کرے گا۔

انسان، چاہے جتنا بھی دوسرے کے لیے خیر ظاہر کرے، اصل میں مکاری سے کام لیتا ہے۔ اور جب اپنی تعریف کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اپنی جڑ کو برا بھلا کہتا ہے، لیکن دعویٰ تقویٰ، روزہ داری اور وفا کا کرتا ہے۔

إذا أقبل الإنسان في الدهر صدقت

أ توهمني بالمكر أنك نافعي

جب کوئی شخص دنیا میں میری طرف بڑھتا ہے،

تو کیا تُو یہ سمجھتا ہے کہ میں تجھے فائدہ مند مان لوں گا —

محض تیری چالاکی کی بنیاد پر؟

وتأكل لحم الخل مستعذبا له

أحاديثه عن نفسه وهو كاذب

تو دوست کا گوشت کھاتا ہے اور اسے لذیذ سمجھتا ہے،

اور اپنی باتوں میں جھوٹ بولتا ہے۔

وما أنت إلا في حبك جاذب

وتزعم للأقوام أنك عاذب

تو خود لالچ میں کھینچتا ہے،

اور قوموں سے دعویٰ کرتا ہے کہ تو پاکباز ہے!

ابو العلاء کے نزدیک انسان بہترین ہم نشین بھی نہیں، کیونکہ وہ دھوکہ، فریب اور بدگوئی کا خوگر ہے:

بني آدم بئس المعاشر أنتم

وجدتكم لا تقربون إلى العلى كما

اے بنی آدم! تم بہت ہی برے ہم نشین ہو،

میں نے پایا کہ تم بلندیوں کے قریب بھی نہیں آتے۔

فما فيكم واف لمقت ولا حب

أنكم لا تبعدون عن السب

نہ تم میں کوئی نفرت کا وفادار ہے نہ محبت کا،

تم بدزبانی سے دور ہی نہیں ہوتے۔

دنیا میں چھوٹا ہو یا بڑا — سب گناہ گار، سخت دل، اور شر پسند ہیں۔ کوئی نیکی کرے بھی، تو اس پر فخر جتاتا ہے اور احسان جتاتا ہے:

لعمرك ما في الأرض كهل مجرب

ولا ناشىء إلا لإثم مراهق

تیری جان کی قسم! زمین پر کوئی عمر رسیدہ تجربہ کار ہے نہ کوئی نوخیز

مگر یہ کہ وہ گناہ کے قریب ہے۔

إذ بض بالشيء القليل فإنه

سوء السجايا بالتبجّج فاهق

وہ معمولی سی چیز دے کر بھی جتاتا ہے،

اور یہ بدترین خصلت ہے — فخر کے ساتھ دینا۔

معری انسان کی اس فطرت کو دیکھ کر حسرت سے کہتا ہے: کاش آدم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہوتی، یا اُس پر حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا،

تاکہ یہ نسل ہی پیدا نہ ہوتی!

يا ليت آدم كان طلق أمهم

أوكان حرمها عليه ظهار

کاش آدم نے اُن کی ماں کو طلاق دے دی ہوتی،

یا اُسے اپنے لیے حرام کر دیا ہوتا!

ولدتهم في غير طهر عاركا

فلذاك تفقد فيهم الأطهار

وہ طہارت کے بغیر، لڑتے جھگڑتے پیدا ہوئے،

اسی لیے ان میں پاکیزہ لوگ عنقا ہیں۔

ابو العلاء کی نظر میں انسان کی فطرت سراپا شر ہے، اور اسی لیے اصلاح ممکن نہیں، اور جو بھی اس کی کوشش کرے گا، ناکام ہو گا۔ معری نے اپنی زندگی میں جو درد سہے، اور جس عہد کا زوال اور ظلم اُس نے دیکھا، اسی نے اُس کے دل میں یہ نظریہ مضبوط کیا کہ انسان سراپا شر ہے، اس میں خیر ناپید ہے، اسے درست کرنا عبث ہے — اور بہتر یہی ہے کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ ابو العلاء المعری کا دنیا کے بارے میں تصور انسان کے بارے میں اس کے تصور سے بہتر نہ تھا؛ وہ دنیا پر برہم تھا اور اسی کی پستی سے انسان کی پست خصلت نکلتی دیکھتا تھا، چنانچہ وہ اسے برابر ملامت کرتا اور بد صورتی کی صفات سے یاد کرتا، یہاں تک کہ اسے دنیا کے سب سے بڑے مذمت نگار شاعروں میں شمار کیا گیا۔ وہ دل پر چھائے ہوئے اندھیرے کے پردے سے دنیا کو دیکھتا اور ہر چیز میں فساد ہی فساد پاتا۔ اسی لیے اس کے تشاؤم میں دبی ہوئی اذیت اور کچلا ہوا جوش جھلکتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب «لزومیات» کو اسی وسیع بدگمانی سے بھر دیا؛ دنیا کو دکھ اور عذاب کا گھر قرار دیتے ہوئے، زندگی کے ہر گوشے کا جائزہ لیا اور بےباکی اور صراحت کے ساتھ اس پر طنزیہ نقد کیا۔

خسئت يا أمنا لها

لنا بنوالخسيسة أوباش أخساء

دور ہو جا، اے ہماری بدطینت ماں،

ہم تیرے کمینے فرزند، رذیل اور پست!

وقد نطقت بأصناف العظات لنا

وأنت فيما يظن القوم خرساء

تو نے ہمیں وعظ و نصیحت کی بہت سی قسمیں سنائیں،

حالانکہ لوگ تجھے گونگا سمجھتے تھے!

طہ حسین «لزومیات» کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دیوانِ شعر سے بڑھ کر ایک فلسفیانہ کتاب معلوم ہوتی ہے؛ جس میں معری نے کائنات، ریاضیات، الوہیت اور اخلاق سے متعلق نظریات شعری صورت میں پیش کیے ہیں۔

أتروم عن زمن وفاءً مُرضياً

إن الزمان كأهله غدار

کیا تو زمانے سے دل پسند وفا چاہتا ہے؟

زمانہ بھی اپنے لوگوں کی طرح غدار ہے۔

اس کے نزدیک اصلاحِ دنیا کی کوئی امید نہیں، بلکہ اسے ناممکن سمجھتا ہے:

فلا تأمل من الدنيا صلاحاً

فذاك هو الذي لا يستطاع

دنیا سے کبھی درستی کی آس نہ رکھ،

یہ وہ چیز ہے جو ہو ہی نہیں سکتی۔

وہ مانتا ہے کہ زمانہ مادّہ کی طرح قدیم ہے، اور یونانی فلسفے کے قدمِ عناصر و قدمِ زمان و مکان کے تصور سے جڑا نظر آتا ہے:

قالوا لنا خالق قديم

قلنا صدقتم كذا نقول

ان لوگوں نے کہا: ہمارا خالق قدیم ہے،

ہم نے جواب دیا: تم نے سچ کہا، ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

زعمتموه بلا زمان

ولا مكان ألا فقولوا

لیکن تم نے اسے بے زمان و مکان بتایا—

تو ذرا بتاؤ یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟

شاعر جبر کا قائل ہے؛ انسان مجبورِ محض ہے، نہ پیدائش اس کے اختیار میں ہے، نہ بڑھاپا، نہ زندگی، نہ قدم اٹھانا:

ما باختياري ميلادي ولا هرمي

ولا حياتي، فهل لي بعد تخيير

میری پیدائش میرے اختیار سے نہ تھی،

نہ بڑھاپا، نہ زندگی— تو کیا پھر میرا کوئی انتخاب باقی رہا؟

ولا إقامة إلا عن يدي قدر

ولا مسير إذا لم يقض تيسيير

ٹھہرنا بھی تقدیر کے ہاتھ میں ہے،

اور چلنا بھی اگر تقدیر میسر نہ کرے تو ممکن نہیں۔

قضا و قدر کے بارے میں اس کا قول ہے:

نبكي ونضحك والقضاء مسلّط

ما الدهر أضحكنا ولا أبكانا

ہم روتے ہیں اور ہنستے ہیں جبکہ قضائے الٰہی مسلّط ہے؛

زمانے نے نہ ہمیں ہنسایا، نہ رلایا۔

نشكوالزمان وما أتى بجناية

ولو استطاع تكلماً لشكانا

ہم زمانے کی شکایت کرتے ہیں، حالاں کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا؛

اگر وہ بول سکتا تو شاید ہم سے شکایت کرتا۔

والدهر لا يدري بمن هو كائن

فيه، فكيف يلام فيما كانا

زمانہ نہیں جانتا کہ اس میں کون رہتا ہے،

تو پھر ماضی کی باتوں پر اسے ملامت کیسے؟

اس کی فلسفیانہ اساس ہر شے میں شک پر قائم ہے، سوائے دو حقیقتوں کے: خدا اور عقل۔ موت، وجود اور تخلیق کی غایت پر وہ حیران ہے؛ «لزومیات» میں درد کی چیخیں اور غم کی صدائیں ہیں جن سے اس کا یاس اور قنوط صاف جھلکتا ہے۔ ابو العلاء المعری نے اللہ کے ساتھ ایک اور قوت کو بھی تسلیم کیا— اور وہ ہے تقدیر،

ایسی طاقت جو ظالم، غالب، اور انسان کے تمام معاملات پر مسلط ہے۔ اس کی قوت ایسی ہے کہ نہ اسے روکا جا سکتا ہے، نہ مغلوب کیا جا سکتا ہے، نہ ہی اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ معری اس حوالے سے شدید اضطراب کا شکار نظر آتا ہے۔

بعض اوقات وہ ظلم کو تقدیر اور زمانے کی طرف منسوب کرتا ہے، جیسے وہ کہتا ہے:

وهو الزمان قضى بغير تناصف

بين الأنام وضاع جهد الجاهد

یہ زمانہ ہے جو انصاف کے بغیر فیصلے کرتا ہے

لوگوں کے درمیان، اور سعی کرنے والے کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

معری کا تقدیر پر یقین دراصل اس کی جبری فلسفہ حیات سے پھوٹتا ہے۔ وہ بار بار اس نظریے کا اظہار کرتا ہے کہ انسان مجبور ہے،

تقدیر کے ہاتھوں ایک پر کی مانند جو ہوا میں اڑتا ہے— اس کے لیے نجات کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہے:

يغدو على درعه الزراد يحكمها

وهل يُنجّيه، مما قُدّر الزّردُ

وہ اپنی زرہ پر خود تنگی سے بندھن چڑھاتا ہے،

لیکن جو کچھ مقدر میں لکھا ہے، کیا وہ زرہ اسے بچا سکتی ہے؟

معری اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ انسان کی تخلیق کا راز نہیں جانتا، لیکن وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ ایک قدرت رکھنے والا خدا ہے،

جو اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے، خواہ وہ اس کے لائق ہوں یا نہ ہوں، خواہ وہ اس پر ایمان لائیں یا انکار کریں:

تورعوا يا بني حواء عن كذب

فما لكم عند رب صاغكم خطر

اے بنی حوا! جھوٹ سے بچو،

اس رب کے حضور تمہاری کوئی وقعت نہیں جس نے تمہیں بنایا۔

لم تجدبوا لقبيح من فعالكم

ولم يجئكم لحسن التوبة المطر

نہ تمہاری برائی پر قحط نازل ہوا،

نہ تمہاری اچھی توبہ پر رحمت برسی۔

معری اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ انسان کو جو کامیابی یا نعمت ملتی ہے، وہ محض اللہ کے فضل سے ہوتی ہے، نہ کہ انسانی سعی و کوشش سے:

لم تبلغ الآراب شدة ساعد

ما لم يعنها الله بالإسعاد

طاقتور بازو بھی منزل تک نہیں پہنچتے،

جب تک اللہ خود اسے کامیاب نہ کرے۔

معری اللہ کے وجود، عظمت اور احسان کا اقرار کرتا ہے۔ ساتھ ہی وہ عقل کو آزادی کا ذریعہ تسلیم کرتا ہے، کیونکہ عقل کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان سوچنے، پرکھنے، اور انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر زندگی مکمل طور پر جبر ہو، تو عقل کا ہونا ایک فضول شے بن جائے۔ پھر بہتر ہوتا کہ انسان بےعقل پیدا ہوتا۔

مگر اس کے نزدیک عقل کے باوجود تقدیر کا غلبہ اتنا شدید ہے کہ عقل کا اثر ختم ہو جاتا ہے:

الصمت أولى، وما رجل ممنعة

إلا لها بصروف الدهر تعثير

خاموشی بہتر ہے،

ہر طاقتور انسان بھی زمانے کے تھپیڑوں سے ہی گرتا ہے۔

والعقل زين، ولكن فوقه قدر

فما له في ابتغاء الرزق تأثير

عقل ایک زینت ہے، مگر اس سے بالاتر تقدیر ہے،

اور رزق کے معاملے میں عقل کی کوئی تاثیر نہیں۔

لہٰذا عقل اگر اثر نہ ڈال سکے، تو پھر اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ معری نے دنیا کو بہ شدت حقیر جانا۔ اس کے نزدیک دنیا سے لطف اندوز ہونا فضول ہے، خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو، وہ نصیحت کرتا ہے:

فلا تطلب الدنيا وإن كنت ناشئاً

فإني عنها بالأخلاء أرباً

دنیا کی طلب نہ کر، چاہے ابھی نیا نیا جوان ہوا ہو،

کیونکہ میں نے اس سے کنارہ کش ہو کر سکون پایا ہے۔

وهي ليست دار قرار إقامة

والرحيل منها أولى من البقاء

یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں،

اس سے روانگی باقی رہنے سے بہتر ہے۔

ایک اور مقام پر کہتا ہے:

لعمرك ما الدنيا بدار إقامة

ولا الحيّ في حال السلامة آمن

تیری عمر کی قسم! دنیا رہنے کی جگہ نہیں،

اور زندہ انسان کبھی بھی امن میں نہیں۔

وإنّ وليداً حلّها لمعذب

جرت لسواه بالسعود الأيامن

جو بچہ بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ عذاب کا شکار ہوتا ہے،

اور خوشی کے دن تو دوسروں پر ہی بیتتے ہیں۔

معری دنیا میں خیر کے وجود کا منکر ہے—

یہ سراسر برائیوں اور گناہوں سے بھری ہوئی ہے۔

وہ موت کو سکون جانتا ہے:

حياتي تعذيب وموتي راحة

وكل ابن أنثى في التراب سجين

میری زندگی عذاب ہے اور موت راحت،

ہر عورت کا بیٹا مٹی میں قید ہو کر ہی سکون پاتا ہے۔

موت اس کے نزدیک عید ہے! کیا اس سے بڑا تشاؤم ہو سکتا ہے؟ اس کا کہنا ہے:

أنا صائم طول الحياة وإنما

فِطري الحمامُ ويوم ذاك أعيد

میں ساری زندگی کا روزہ رکھے ہوں،

اور میری افطار موت ہے— اور وہی دن میری عید ہو گا۔

اور معری کے نزدیک وہ عاقل جو زندگی کے اخلاقی زوال کو دیکھ چکا ہو، اسے سکون صرف موت میں مل سکتا ہے:

تعالى رازق الأحياء جمعاً لقد

وهت المروءة والحياء

سب انسانوں کو رزق دینے والا پاک ہے،

مگر غیرت اور حیاء ختم ہو چکی ہے۔

فمالي لا أكون وصي نفسي

ولا تعصي أموري الأوصياء

تو میں خود اپنی وصیت کیوں نہ بنوں،

جبکہ دوسرے میری باتوں پر عمل ہی نہیں کرتے؟

زندگی جتنی بھی طویل ہو، یا جتنا بھی مال و دولت ہو— موت اس سے بہتر ہے:

موت يَسيرٌ معه رحمةٌ

خير من اليسر وطول البقاء

وہ آسان موت جس میں رحمت ہو،

دولت اور عمر کی درازی سے بہتر ہے۔

وقد بلونا العَيش أطوارهَ

فما وجدنا فيه غير الشقاء

ہم نے زندگی کے ہر روپ کو آزمایا،

اور اس میں صرف دکھ ہی پایا۔

معری موت سے نہیں ڈرتا— بلکہ اسے چاہتا ہے، تلاش کرتا ہے:

إن يقرب الموت مني

فلست أكره قربه

اگر موت میرے قریب آ جائے،

تو میں اس سے نفرت نہیں کرتا۔

وذاك أمنع حصن

يصير القبر دربه

اور وہ موت سب سے محفوظ قلعہ ہے،

جس کا راستہ قبر ہے۔

من يلقه لا يراقب

خطباً ولا يخشى كربه

جو اس سے ملتا ہے، وہ نہ کسی مصیبت سے ڈرتا ہے، نہ کسی رنج سے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف موت کو اپنی نجات جانتا ہے، بلکہ اولاد پیدا کرنا بھی ظلم سمجھتا ہے— کیونکہ اس سے ایک اور روح کو دنیا کے عذاب میں دھکیلا جاتا ہے:

فليت وليداً مات ساعة وضعه

ولم يرتضع من أمه النّفساء

کاش کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی مر جائے،

اور اپنی ماں کا دودھ نہ پائے۔

اسی سوچ کے باعث وہ شادی سے باز رہا اور اولاد سے اجتناب کیا، اور یہ بیت اپنی قبر پر لکھوانے کو کہا:

هذا جناه أبي عليَّ

وما جنيت على أحد

یہ زندگی دینا وہ جرم تھا جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا، مگر میں نے کسی پر یہ جرم نہیں کیا۔

معری کے تشاؤم کی انتہا یہ ہے کہ جب زندگی میں اسے موت بھی نہ ملی، تو اس نے خود کو گھر میں قید کر لیا، لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اور نبات خور بن گیا تاکہ کسی جاندار کو نہ ستائے۔ اس کا ماننا تھا کہ انسان نے صرف انسان کو ہی نہیں ستایا— بلکہ جانوروں پر بھی ظلم کیا ہے۔ اس ظلم سے بچنے کے لیے وہ حیوانی غذا سے کنارہ کش ہو گیا اور اپنے ماضی پر شرمندہ بھی ہوا۔ جب یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا— نہ تنہائی، نہ عبادت، نہ زہد— تو اس نے ہر شے کو آنسوؤں اور نالہ و فغاں میں دیکھا،

حتیٰ کہ پرندوں کے گیت بھی اسے نوحہ لگنے لگے:

لعمرك ما بي نجعة فأرومها

وإني على طول الزمان لمجدب

تیری عمر کی قسم! میں ایسی زمین نہیں ہوں جس سے کچھ اگے،

میں طویل زمانے سے بنجر ہوں۔

حملت على الأولى الحمام فلم أقل

يغني ولكن قلت: يبكي ويندب

پرندوں کی آوازوں کو سنا،

تو کہ

......................................


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024