ابھی جینا ہے بہت

ابھی جینا ہے بہت

Dec 15, 2021

مائیکرو فکشن

مائکروفکشن :

”ابھی جینا ہے بہت“

مصنفہ : ناہید اختر بلوچ

کھڑکی کے پار برستی بارش کی جلترنگ میں بھی اداسی کی ہلکی سی آمیزش ہے ۔ لگتا ہے بارش بھی سہمی ہوئی ہے کیونکہ ان دنوں یہاں اس کا استقبال کرنے کے لیے ایک خالی سڑک ہے جو کسی ذی روح کی توانا سانسوں اور گنگناتے قدموں کی چاپ سے خالی پڑی ہے ۔۔کچھ دم سادھے کھڑے پیڑ ہیں جو کسی انہونی کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں ۔اور  خاموش قبرستانوں جیسے خالی مکانات ہیں ۔جن کے مکین بہت پہلے وبا پھیلنے کے خدشے سے کہیں اور کوچ کر چکے ہیں ۔۔۔ اور بھلا وبا کے دنوں میں یہ مناظر آسمان سے اترتی بارش کو کیا خوشی دے سکتے ہیں۔۔!

اس لیے وہ بھی اداس ہے، حد درجہ اداس ہے ۔۔۔لیکن ماحول میں گھلی یاسیت کے باوجود بھی کمرے کی مغربی کھڑکی کے سامنے بیٹھے اس بوڑھے کو دیکھتے ہوئے میرے لبوں کو ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا ہے۔۔ویسی ہی الوہی مسکراہٹ جو اس سے پہلی ملاقات کے وقت میرے ہونٹوں پر خداوند نے اتاری تھی مقدس کنواری مریم کی مسکراہٹ جیسی پاکیزہ اور ان چھوئی ۔۔۔۔میں کافی کے مگ کو ہاتھوں میں تھامے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ۔۔۔اس کے کندھوں کے عقب سے سفید کاغذ کے سینے پر محبت کی اور نظم اپنی بانہیں کھولے میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔

ہمیں جینا ہے اس سمے تک

جب آسمان کے افقی کنارے پر

ایک ستارہ نیند سے بیدار ہو کر

ہمارے کمرے کی مشرقی کھڑکی پر

مسکراتا ہوا اترے گا

ہمیں ایک دوسرے کی بانہوں میں دیکھ کر

اپنے سینے پر مقدس صلیب کا نشان بناتے ہوئے

محبت پر ایمان لے آئے گا ۔۔۔۔!!

آخری مصرعہ پڑھتے پڑھتے میرے لہجے کی نمی اس سے چھپی نہ رہ سکی ۔۔میرے ہاتھ سے کافی کا مگ لے کر اس نے میز پر رکھا اور میرے کان کے پاس گنگناتے ہوئے بولا :

”ہمیں ابھی بہت جینا ہے اے اداس حسینہ“

اس کے شرارتی انداز پر میرا جھریوں بھرا چہرہ یکدم روشن ہوا مگر میں نے مصنوعی ناراضی سے اسے گھورا :

”کافی کا یہ آخری کپ ہے ۔۔اور سب سے بری خبر یہ ہے کہ آج ڈنر کے لیے ہمارے پاس بریڈ بھی نہیں رہی جو ہم پچھلے کئی دنوں سے کھا کر گزارا کر رہے تھے “

میری بات سن کر اس نے گہری سانس لی ۔۔۔میز پر دھرا کافی کا مگ پہلے میرے ہونٹوں سے لگایا اور پھر خود کافی کا ایک سپ لیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا :

”تو بس پھر فیصلہ ہوا کہ اب تم مجھے باہر جانے سے ہرگز نہیں روکو گی ۔میں گلی کے آخری کونے پر موجود اسٹور سے کافی اور بریڈ لے کر فوراً واپس آ جاٶں گا کیونکہ میں ابھی اتنا بھی بوڑھا نہیں ہوا کہ یہ عام سی وبا مجھے اپنی لپیٹ میں لے سکے “

اس کا قدرے شرارت آمیز لہجہ یقیناً فضا کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے تھا مگر میں بخوبی جانتی تھی کہ ان دنوں اس کے باہر نکلنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

وبا کے ان دنوں میں ہم جیسے بوڑھوں کو دیکھ کر لوگ کوسوں دور بھاگتے تھے ۔۔جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ چلتے پھرتے ٹائم بم ہوں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں ۔

ہم دونوں زندگی سے بھرپور ایک ایسا جوڑا ہیں جن کے آنگن میں کوئی پھول نہیں کھل سکا ۔۔۔مگر ہمارا چھوٹا سا گھر بلڈنگ میں رہنے والے تمام بچوں کے لیے ایک پیارا سا ڈزنی لینڈ تھا جہاں وہ ہر شام ہمارے ساتھ ہوتے تھے ۔۔۔مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب انہی بچوں کے والدین کو ہم دو بوڑھے فرشتوں کے بجائے خطرناک زومبیز دکھائی دیتے تھے جو ان کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے ۔قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی قیدِ تنہائی ہمارا مقدر ہو چکی تھی ۔

اور بالآخر اس کی ضد کے آگے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔۔۔ ۔۔اس کے چہرے پر حفاظتی ماسک پہناتے ہوئے میں نے اس چہرے کی سلامتی کے لیے دل ہی دل میں ان گنت دعائیں کرتے ہوئے اسے مقدس مریم کے خدا کے سپرد کیا ۔اس کے بوڑھے ہاتھوں میں سفید دستانے پہناتے ہوئے میرے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش تھی ۔ان ہاتھوں نے میرے عام سے حسن پر محبت بھرے لاکھوں قصیدے لکھے تھے ۔۔۔۔اپنے آنسو چھپاتے ہوئے میں نے انہیں ہونٹوں سے لگایا۔اور اپنے سینے پر مقدس صلیب کا عکس بناتے ہوئے اسے رخصت کر دیا ۔

اور جب وہ ہلکا ہلکا لنگڑاتے ہوئے گھر سے روانہ ہوا تو مجھے یاد آیا کہ اس کی دوائی ختم ہوئے کتنے روز ہو چکے تھے ۔۔۔۔ہمارے ارد گرد رہنے والے دوسرے لوگوں کی نسبت ہماری قیدِ تنہائی بہت خوفناک تھی ۔۔

اس کے گھر سے نکلتے ہی وقت جیسے رک گیا ۔۔میں پچھلے کئی گھنٹوں سے کھڑکی سے نظر آتے منظر پر اپنی آنکھیں ٹکائے بیٹھی ہوں اور وہ ابھی تک واپس نہیں آیا ۔سوچ کے اندیشے کینچوں سے بڑھتے بڑھتے اب زہریلے سانپ بننے لگے ہیں ۔۔مگر اس کی واپسی کے آثار نظر نہیں آتے ۔

اگر اسے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اس سے آگے میرے لیے سوچنا ممکن نہیں تھا ۔۔اپنی مٹھی میں دبی اس ننھی سی صلیب کو مضبوطی سے تھامے میں زیرِ لب دعائیں پڑھ رہی تھی ۔

جب دن کی روشنی دھیرے دھیرے بڑھتی رات کی اندھی کھائی میں گرنے لگی تو مجھے یوں محسوس ہوا میرے جسم سے قطرہ قطرہ جان نکل رہی ہے ۔۔دیوار سے ٹیک لگائے میں نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔

جدائی کا غم میرے رخساروں پر آنسو بن کر بہنے لگا ۔میں نے اپنے بہت پاس موت کی دستک سنی ۔۔۔وہ میری طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے دبوچ لیتی میں نے اس کے قدموں کی مخصوص چاپ سنی ۔

اس کے چہرے پر موجود زخم کو صاف کرتے ہوئے میں خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں رو رہی ہوں ۔۔۔اور میز پر پڑے کافی کے مگ سے نکلنے والی بھاپ اس کی آواز سے آواز ملا کر گنگنا رہی ہے ۔۔

”ابھی جینا ہے بہت“

ختم شد ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

”آئی ہے قضا لیکن“

آئی ہے وبا ایسی

چپ چاپ سسکتی ہے

گھر کے سبھی کونوں میں

وحشت بھری تنہائی

تنہائی بھی ایسی ہے

لگتی ہے قضا جیسی

آتا ہے نہ جاتا ہے

گھر میں کوئی ملنے کو

اک خوف کا پہرا ہے

اور کان ترستے ہیں

مانوس سی آہٹ کو

چپ چاپ سے بیٹھے ہیں

رستے سبھی گلیوں کے

دوری ہے بڑی دوری

اب ہاتھ ملانا بھی

خطرے سے نہیں خالی

ہونٹوں پہ پڑی چپ ہے

اور دور بہت ہی دور

اس کھیل تماشے سے

اک قبر کے کتبے پر

لکھا ہوا دیکھا ہے

دشمن سے گلہ کیا ہو

جب یار نہیں آئے

آئی ہے قضا لیکن

غمخوار نہیں آئے

#ناہیداختربلوچ

مائکروفکشن :

”ابھی جینا ہے بہت“

مصنفہ : ناہید اختر بلوچ

کھڑکی کے پار برستی بارش کی جلترنگ میں بھی اداسی کی ہلکی سی آمیزش ہے ۔ لگتا ہے بارش بھی سہمی ہوئی ہے کیونکہ ان دنوں یہاں اس کا استقبال کرنے کے لیے ایک خالی سڑک ہے جو کسی ذی روح کی توانا سانسوں اور گنگناتے قدموں کی چاپ سے خالی پڑی ہے ۔۔کچھ دم سادھے کھڑے پیڑ ہیں جو کسی انہونی کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں ۔اور  خاموش قبرستانوں جیسے خالی مکانات ہیں ۔جن کے مکین بہت پہلے وبا پھیلنے کے خدشے سے کہیں اور کوچ کر چکے ہیں ۔۔۔ اور بھلا وبا کے دنوں میں یہ مناظر آسمان سے اترتی بارش کو کیا خوشی دے سکتے ہیں۔۔!

اس لیے وہ بھی اداس ہے، حد درجہ اداس ہے ۔۔۔لیکن ماحول میں گھلی یاسیت کے باوجود بھی کمرے کی مغربی کھڑکی کے سامنے بیٹھے اس بوڑھے کو دیکھتے ہوئے میرے لبوں کو ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا ہے۔۔ویسی ہی الوہی مسکراہٹ جو اس سے پہلی ملاقات کے وقت میرے ہونٹوں پر خداوند نے اتاری تھی مقدس کنواری مریم کی مسکراہٹ جیسی پاکیزہ اور ان چھوئی ۔۔۔۔میں کافی کے مگ کو ہاتھوں میں تھامے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ۔۔۔اس کے کندھوں کے عقب سے سفید کاغذ کے سینے پر محبت کی اور نظم اپنی بانہیں کھولے میری منتظر تھی ۔۔۔۔۔

ہمیں جینا ہے اس سمے تک

جب آسمان کے افقی کنارے پر

ایک ستارہ نیند سے بیدار ہو کر

ہمارے کمرے کی مشرقی کھڑکی پر

مسکراتا ہوا اترے گا

ہمیں ایک دوسرے کی بانہوں میں دیکھ کر

اپنے سینے پر مقدس صلیب کا نشان بناتے ہوئے

محبت پر ایمان لے آئے گا ۔۔۔۔!!

آخری مصرعہ پڑھتے پڑھتے میرے لہجے کی نمی اس سے چھپی نہ رہ سکی ۔۔میرے ہاتھ سے کافی کا مگ لے کر اس نے میز پر رکھا اور میرے کان کے پاس گنگناتے ہوئے بولا :

”ہمیں ابھی بہت جینا ہے اے اداس حسینہ“

اس کے شرارتی انداز پر میرا جھریوں بھرا چہرہ یکدم روشن ہوا مگر میں نے مصنوعی ناراضی سے اسے گھورا :

”کافی کا یہ آخری کپ ہے ۔۔اور سب سے بری خبر یہ ہے کہ آج ڈنر کے لیے ہمارے پاس بریڈ بھی نہیں رہی جو ہم پچھلے کئی دنوں سے کھا کر گزارا کر رہے تھے “

میری بات سن کر اس نے گہری سانس لی ۔۔۔میز پر دھرا کافی کا مگ پہلے میرے ہونٹوں سے لگایا اور پھر خود کافی کا ایک سپ لیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا :

”تو بس پھر فیصلہ ہوا کہ اب تم مجھے باہر جانے سے ہرگز نہیں روکو گی ۔میں گلی کے آخری کونے پر موجود اسٹور سے کافی اور بریڈ لے کر فوراً واپس آ جاٶں گا کیونکہ میں ابھی اتنا بھی بوڑھا نہیں ہوا کہ یہ عام سی وبا مجھے اپنی لپیٹ میں لے سکے “

اس کا قدرے شرارت آمیز لہجہ یقیناً فضا کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے تھا مگر میں بخوبی جانتی تھی کہ ان دنوں اس کے باہر نکلنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

وبا کے ان دنوں میں ہم جیسے بوڑھوں کو دیکھ کر لوگ کوسوں دور بھاگتے تھے ۔۔جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ چلتے پھرتے ٹائم بم ہوں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں ۔

ہم دونوں زندگی سے بھرپور ایک ایسا جوڑا ہیں جن کے آنگن میں کوئی پھول نہیں کھل سکا ۔۔۔مگر ہمارا چھوٹا سا گھر بلڈنگ میں رہنے والے تمام بچوں کے لیے ایک پیارا سا ڈزنی لینڈ تھا جہاں وہ ہر شام ہمارے ساتھ ہوتے تھے ۔۔۔مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب انہی بچوں کے والدین کو ہم دو بوڑھے فرشتوں کے بجائے خطرناک زومبیز دکھائی دیتے تھے جو ان کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے ۔قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی قیدِ تنہائی ہمارا مقدر ہو چکی تھی ۔

اور بالآخر اس کی ضد کے آگے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔۔۔ ۔۔اس کے چہرے پر حفاظتی ماسک پہناتے ہوئے میں نے اس چہرے کی سلامتی کے لیے دل ہی دل میں ان گنت دعائیں کرتے ہوئے اسے مقدس مریم کے خدا کے سپرد کیا ۔اس کے بوڑھے ہاتھوں میں سفید دستانے پہناتے ہوئے میرے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش تھی ۔ان ہاتھوں نے میرے عام سے حسن پر محبت بھرے لاکھوں قصیدے لکھے تھے ۔۔۔۔اپنے آنسو چھپاتے ہوئے میں نے انہیں ہونٹوں سے لگایا۔اور اپنے سینے پر مقدس صلیب کا عکس بناتے ہوئے اسے رخصت کر دیا ۔

اور جب وہ ہلکا ہلکا لنگڑاتے ہوئے گھر سے روانہ ہوا تو مجھے یاد آیا کہ اس کی دوائی ختم ہوئے کتنے روز ہو چکے تھے ۔۔۔۔ہمارے ارد گرد رہنے والے دوسرے لوگوں کی نسبت ہماری قیدِ تنہائی بہت خوفناک تھی ۔۔

اس کے گھر سے نکلتے ہی وقت جیسے رک گیا ۔۔میں پچھلے کئی گھنٹوں سے کھڑکی سے نظر آتے منظر پر اپنی آنکھیں ٹکائے بیٹھی ہوں اور وہ ابھی تک واپس نہیں آیا ۔سوچ کے اندیشے کینچوں سے بڑھتے بڑھتے اب زہریلے سانپ بننے لگے ہیں ۔۔مگر اس کی واپسی کے آثار نظر نہیں آتے ۔

اگر اسے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اس سے آگے میرے لیے سوچنا ممکن نہیں تھا ۔۔اپنی مٹھی میں دبی اس ننھی سی صلیب کو مضبوطی سے تھامے میں زیرِ لب دعائیں پڑھ رہی تھی ۔

جب دن کی روشنی دھیرے دھیرے بڑھتی رات کی اندھی کھائی میں گرنے لگی تو مجھے یوں محسوس ہوا میرے جسم سے قطرہ قطرہ جان نکل رہی ہے ۔۔دیوار سے ٹیک لگائے میں نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔

جدائی کا غم میرے رخساروں پر آنسو بن کر بہنے لگا ۔میں نے اپنے بہت پاس موت کی دستک سنی ۔۔۔وہ میری طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے دبوچ لیتی میں نے اس کے قدموں کی مخصوص چاپ سنی ۔

اس کے چہرے پر موجود زخم کو صاف کرتے ہوئے میں خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں رو رہی ہوں ۔۔۔اور میز پر پڑے کافی کے مگ سے نکلنے والی بھاپ اس کی آواز سے آواز ملا کر گنگنا رہی ہے ۔۔

”ابھی جینا ہے بہت“

ختم شد ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم

”آئی ہے قضا لیکن“

آئی ہے وبا ایسی

چپ چاپ سسکتی ہے

گھر کے سبھی کونوں میں

وحشت بھری تنہائی

تنہائی بھی ایسی ہے

لگتی ہے قضا جیسی

آتا ہے نہ جاتا ہے

گھر میں کوئی ملنے کو

اک خوف کا پہرا ہے

اور کان ترستے ہیں

مانوس سی آہٹ کو

چپ چاپ سے بیٹھے ہیں

رستے سبھی گلیوں کے

دوری ہے بڑی دوری

اب ہاتھ ملانا بھی

خطرے سے نہیں خالی

ہونٹوں پہ پڑی چپ ہے

اور دور بہت ہی دور

اس کھیل تماشے سے

اک قبر کے کتبے پر

لکھا ہوا دیکھا ہے

دشمن سے گلہ کیا ہو

جب یار نہیں آئے

آئی ہے قضا لیکن

غمخوار نہیں آئے

#ناہیداختربلوچ

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024