عید لاشوں کے دیس میں
عید لاشوں کے دیس میں
Nov 23, 2020
سولو ڈرامہ
سولو ڈرامہ: عید لاشوں کے دیس میں
مصنف :جاوید دانش، کناڈا
میرا نام ڈاکٹرغسان حبیب صباوی ہے۔ میں ایک کمزور مجبور اور بے بس ڈاکٹر ہوں۔ دنیا کے سب سے برے، غلیظ اورٹوٹے پھوٹے جیل غازہ کے الشفا ہاسپٹل کا ایمرجنسی روم ڈاکٹر۔ جی غازہ 1.8 ملین محصور لوگوں کا کھلا جیل، جس سے فرار ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ہے۔ اس روز مرّہ کی مرتی اور زخمی آبادی میں زیادہ تر روتے سسکتے سہمے ہوئےیتیم بچے ہیں جو بنا روٹی، کپڑا اور مکان کے راستوں پر بھٹک رہے ہیں۔ دو تہائی زخمی جوان اور رفوجی ہیں۔ مرنے یا زخمی ہونے سے جو بچ گئے ہیں، وہ رات دن اپنے یادوستوں کے رشتہ داروں کی میت کے کفن دفن میں مصروف ہیں۔ عورتوں کی حالت سب سے نازکہے۔ ڈری ڈری روتی سسکتی عورتیں جو ہر وقت اپنے سپوتوں کی حفاظت کی دعا میں گم ہیں۔
ہاسپٹل میں ایک آبادی ذہنی مریضوں کی بھی ہے جو جنگ اور ظلم کی دہشت سے اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ شایدیہی لوگ سب سے بہتر ہیں کہ اب انھیں کسی قسم کا ڈر یا خدشہ نہیں ہے۔ یہ لوگ بس حیرت سے دوسرے روتے سسکتے مریضوں کو دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں یا رات کے اندھیرے میں نیند سے چونک کر زور زور سے چیخنے لگتے ہیں۔ نہ ان کو چپ کرایا جاتا ہے، نہ ہی نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے کہ دوائی اور انجکشن کا کوئی اسٹاک بچا نہیں۔ نہ کسی ڈاکٹر کو فرصت ہے کہ ان کو اٹینڈ کرے کیوں کہ رات دن زخمی اور لاشوں کی آمد و رفت جاری ہے۔
میں شرمندہ ہوں، ان تمام یتیم اور معصوم بچوں سے جن کے باپ کو میں نہیں بچا سکا۔۔۔ میں شرمندہ ہوں ان ہزاروں بیواؤں سے جن کے سہاگ کو میں کوشش کے باوجود نہیں بچا سکا۔ بچاتا بھی کیسے،ان میں سے اکثر اتنے زخمی تھے کہ شاید ہاسپٹل آنے سے پہلے ہی ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔
میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم ماؤں سے جن کے سپوتوں کو میں نہ بچا سکا، نہ ان کی شناخت کروا سکا کہ ان کےجنازے بارود میں جھلس کر کوئلہ ہوچکے تھے۔ میں شرمندہ ہوں ان تمام باپ سے جن کی بیٹیوں کی حرمت ہم نہیں بچا سکے اور جن میں سے اکثر نے ذلت سے بچنے کے لیے خودکُشی کرلی تھی۔۔۔ میں شرمندہ ہوں غازہ کے مجبور، محصور اور بے بس ریفیوجیزسے جو عالمِ برزخ میں زندہ ہیں اور اکثر نے ہمارے ہاسپٹل کے کمپاؤنڈ میں یہ سمجھ کر پناہ لی تھی شاید بم یہاں نہیں برسے گا
مگر پچھلی رات کی بمبارینے اس ہاسپٹل کو بھی نہیں بخشا۔اب یہ پہچان مشکل ہے کہ زخمی ہاسپٹل کے مریض ہیں یایہاں کے پناہ گزیں۔۔۔ جو بھی ہو موت کا رقص جاری ہے، خدا خاموش اور شیطان ہنس رہاہے۔۔۔
میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم بہنوں سے جن کے بھائیوں کو آئی ۔ڈی ۔ایف کے بھیڑئیے اٹھا کر لے گئے ۔
ان کا جرم یہ تھا کہ گولیوں کا جواب وہ پتھر سے دے رہے تھے۔۔میں سب سے زیادہ شرمندہ اپنی ماں سے ہوں جس کی آبروریزی میری آنکھوں کے سامنے ہوتی رہی۔ میں چیخنا تو درکنار، رو بھی نہ سکا۔۔۔ میں کوئی دس برس کا تھا۔۔۔ خوف اوردہشت سے میری آواز نہیں نکلی۔۔۔وہ اذیت ناک منظر آج تک میرے ذہن میں کل کی طرح تازہ ہے۔۔۔ ۱۹۷۶ کی جنگ بلیک آؤٹ اور رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی سائیرن کی آواز، گولیوں کی بوچھار،بارش کی طرح بمباری اوراچانک حملہ، گھروں میں گھس کر اندھادندھ مشین گن کی فائرنگ اورنہتھے لوگوں پر ظلم کی انتہا۔۔۔ میرے باپ کو رسی سے باندھ کر صحن میں پھینک دیاگیا، دو بھائیوں کو گرفتار کرکے باہر لے گئے اور پھر یکے بعد دیگرے سات فوجی جوانوں نے ماں کی آبروریزی ایسے کی کہ جسم کے چیتھڑے کر ڈالے اور شاید آخری جوان کی ہوس سے پہلے اس کی جان نکل چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی ایک وحشی کی طرح اس کونوچتا بھنبھوڑتا رہا۔ میں پلنگ کے نیچے سہما یہ دلسوز اور اذیت ناک منظر خاموشی سےدیکھتا رہا۔ ڈر سے آواز حلق میں اٹکی تھی، آنکھوں میں آنسو جم گئے تھے۔ باپ نےاپنا سر زمین پر پٹخ پٹخ کر لہولہان کرڈالا۔ وہ لوگ ہنستے رہے اور اپنی ہوس پوری کر تے رہے۔ پھر باپ کے بے ہوش جسم کو گھسیٹتے ہوئے باہر پھینک دیا اور جاتے ہوئےاسے گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔
میں اپنے مجبور باپ سے بھی شرمندہ ہوں کہ اس کی نمازِ جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ یہ بھی نہیں پتا کہ اس کیآخری رسومات ادا کی گئیں یا (ماس گریو) اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔کہ اکثر کےساتھ یہی ہو رہا تھا ۔ لاشوں کے سڑنے اورایپیڈیمک کا خطرہ تھا۔ دوسری صبح میرے چچاعبداللہ زبردستی مجھے شہر سے دور لے گئے۔ پھر مجھے ایک رشتہ دار کے یہاں جارڈن بھیج دیا گیا۔ چچا عبداللہ کا پورا خاندان شہید ہوچکا تھا۔ بقول ان کے میں واحدصباوی خاندان کا زندہ فرد ابچا تھا۔ آخری بار جب ملاقات ہوئی، انھوں نے مجھ سےوعدہ لیا کہ میں بندوق نہیں اٹھاؤں گا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔۔۔ اور ایک ڈاکٹربنوں گا کہ اپنے لوگوں کو نئی زندگی دے سکوں۔۔۔
میں چچا عبداللہ سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں ان کی آخری خواہش کے مطابق غازہ کے زخمیوں کو نئی زندگی نہیں دےسکتا۔۔۔ اب کون بتائے کہ ان زخمی لوگوں کو دوائیں نہیں روٹی چاہیے، علاج سے بڑھ کرصاف پینے کا پانی چاہیے، سر پر ایک چھت چاہیے، لاکھوں فلسطینی خانہ بدوش زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غازہ کا بارڈر سیل کردیا گیا ہے۔ اسرائیل اور ایجپٹ کا بارڈربند ہے۔ عالمِ اسلام کے شاہ اور صدور خاموش تماشائی ہیں، اسرائیلی آرمی گھر،بازار، ہاسپٹل
، اسکول،کھیت کھلیان ،ہر جگہ بم برسا رہے ہیں۔ غازہ کے محصور موت کی آنکھ میں آنکھیں ڈالےلڑ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں مگر فلسطینی سخت جان نسل ہیں۔ مرنے سے نہیں گھبراتے، اس امید پر ڈٹے ہیں کہ ایک دن مادرِ وطن کو آزاد کرائیں گے۔۔۔ مگر کیسے؟
میں شرمندہ ہوں خود سے کہ ہمنے ہتھیار کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا میں بزدل ہوں یا اپنے والدین کی موت سے ڈر گیاتھا؟ میرے ڈاکٹر بننے سے میرے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔ مجھ سے بہترتو سامنے کےقبرستان کا گورکن ہے جو اپنے لوگوں کے جنازے عزت کے ساتھ دفنا تو رہا ہے۔ مرنےوالے کے گھر والوں کو سکون تو فراہم کررہا ہے۔۔۔ مجھ سے میرے لوگ خائف ہیں کہ میں ان کے زخمیوں کو بچا نہیں پاتا۔۔۔ مگر میں ان معصوم لوگوں کو کیا بتاؤں کہ اکثرزخمی، کٹے پھٹے، جلے جھلسے اور مرے ہوئے آتے ہیں، ہم تو بس ان کی تسلی کے لیے ان کی لاشوں کو دیکھ بھال کر لیتےہیں۔۔۔ دس میں سے شاید ایک خوش قسمت زندہ واپس جاتا ہے۔ ہم کتنے مجبور ہیں کیابتائیں۔۔۔
الشفا غازہ کا سب سے بڑاہاسپٹل ہے مگر آج اس میں صر ف۲۱/ بیڈ ایمرجنسی روم میں ہیں اور مریض اور زخمی ہر منٹ پر12 لائے جارہے ہیں۔۔ نتیجہ! ہر جگہ کوئی نہ کوئی لیٹا، بیٹھا اورکھانس رہا ہے۔ مریضوں کے پیشاب کی بدبو اور دوسری غلاظت سے سانس لینا دوبھر ہے۔گرمی اور حبس سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا ہے۔ ہم پچھلے بارہ روز سے چوبیس گھنٹےڈیوٹی پر ہیں۔ بھوک تھکن اور الجھن سے ختم ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے کے روزے سے ہیں۔
،میڈیکل سپلائی ،پانی اور کھانے کے پیکٹ یو۔این۔ کے کارکن لارہے ہیں مگر زخمیوں کے ساتھ جوخون میں نہائے ہیں اور پانی اور کھانے پر بھی خون کے چھینٹے ہیں، اس پانی اورکھانے کو کون کھا سکتا ہے۔۔۔ ہاسپٹل ایک مقتل، ایک ذبیح خانہ بن چکا ہے۔ ہر طرف خون اور جلے ہوئے انسانی گوشت کی بوٗ، ٹوٹے پھوٹے انسانی جسم، کٹے پھٹے ہاتھپیر۔۔۔ کسی کی انتڑیاں باہر کو جھول رہی ہیں تو کسی کا سر گولیوں سے چھلنی۔۔۔ مرہم پٹی کریں بھی تو کہاں۔۔۔نہ بینڈج بچا ہے نہ کوئی مرہم۔۔۔ بستر کی چادریں خون سےسرخ۔۔۔ زمین سرخ۔۔۔آسمان سرخ۔۔۔ کربلا کا عجیب منظر ہے۔۔۔ یاربِ کعبہ! اس آزمائش سے تو بہتر تھا، میں بھی بندوق اٹھاتا اور ایک دن مارتے مارتے خود بھی ختم ہوجاتا۔۔۔
مجھے نہیں معلوم دنیا کی چیخ و پکار اور دھرنے جلوس کا کیا ہوگا۔ آج کی خبر کے مطابق ۱۱۰۰/ لوگ مارے گئے ہیں اور کوئی ۵۲۰۰/زخمی۔۔۔ جس میں ۷۱۰۰/معصوم بچے ہیں جو گھروں سےباہر کھیلنے نکلے تھے اور بندوق کا نشانہ بنے۔۔۔ مگر ہم اور آپ جانتے ہیں، لوگہزاروں کی تعداد میں ختم ہوئے ہیں۔۔۔ ہزاروں زخمی۔۔۔ اور ہزاروں گم شدہ ہیں۔۔۔ انکی کوئی گنتی نہیں جنھیں فوجی اٹھا لے گئے ہیں اور ٹارچر سیل میں ان پر کیا قیامتگزر رہی ہوگی، وہ جانتے ہیں یا خدا۔۔۔مجھ سے پوچھیے، یہ ٹارچر سیل کیا ہوتا ہے،مجھےبھی تین مہینے تک جیروسیلم کے جیل میں روندا گیا تھا۔
میرا قصور صرف اتنا تھاکہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ مجھے چار دن تک سونے نہیں دیا گیا۔ جب نیند آتی سر پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جاتا۔ جب جسم پوری طرح تھکن سے چور ہوگیا اور نیندسے نڈھال ہوگیا توانٹیروگیشن شروع ہوئی کہ انتفادہ کب جوائن کیا،کون ہے ہمارا گروپلیڈر، ہمارا اگلا قدم کیا ہے؟ میں یہی کہتا رہا کہ میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں، جارڈن سےچھٹیوں پر آیا ہوں، کسی انتفادہ کا ممبر نہیں مگر میری کسی بات کا ان کو یقین نہیں آتا۔۔۔ مارنے کے ساتھ ساتھ ایک نے میری انگلیوں سے ایک ناخن گھسیٹ کر اس میں نمک لگا دیا۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، درد سے بلبلاتا رہا پھر بھی جب میں نے جواب نہیں دیا تو آخر ان لوگوں نے مجھے برف کی سل پر باندھ کر چھوڑ دیا۔۔۔ گھنٹے بھرمیں جسم سُن ہوگیا، کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور ہڈیاں چٹخنے لگیں، پیشاب بندہوگیا، آواز بند ہوگئی اور بے ہوشی کے عالم میں پتا نہیں کیا کیا ہوا۔۔۔ کوئی تین مہینے کی ذلت اور ٹارچر کے بعد پتا نہیں کیسے مجھے چھوڑ دیا گیا۔۔۔ مگر مجھے اس کابھی انکشاف ہوا کہ مولوی جہنم کی آگ اور سزا کی جو بات کرتے ہیں،ان کو نہیں معلوم جہنم کا ایک حصہ برف کا بھی ہے جس کو میں جھیل چکا ہوں۔
گذشتہ رات میری میڈیکل زندگی کی سب سے لمبی رات تھی۔ باہر گولیاں ہوا کی طرح چل رہی تھیں،ٹینک ہر طرف گڑگڑا رہے تھے۔ فضا میں بارود کی بوجھل بوٗ گلے میں رندھ رہی تھی۔بلیک آؤ ٹ کی وجہ سے ہم کینڈل لائیٹ میں کام کر رہے تھے ۔
رات دیڑھ بجے ایک مریضہ مریم کو ایمرجنسی میں لایا گیا۔ پریگننٹ اور درد سے کراہتی ہوئی،نیم بے ہوشی میں سسک رہی تھی۔۔۔ کیس سی سیکشن کا تھا اور آپریشن روم میں کوئیسہولت نہیں تھی۔۔۔
conjoined twin صبح اذان کی آواز سے پہلے مریم نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔۔۔مگر بدقسمتی سے وہ کنجوائینڈ ٹوین
تھے۔۔۔جسمدو مگر بیچ سے جڑے ہوئے، ان کا دل ایک۔۔۔ ہمیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ فوراًان کی سرجری کرکے الگ کرنا ہوگا ورنہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوجائے گی۔۔۔مگرسرجری کہاں، ہمارے پاس تو آکسیجن بھی نہیں تھا اور جڑواں
کو فوراً آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جب ہم نے او۔ٹی۔ سے باہر آکر مریم کے شوہرکو خبر سنائی تو پتا چلا، پچھلے چار بار مریم کا اسقاط )miscarriage حمل (
uncertainty ہو چکا ہے۔ شاید۔۔۔ ڈر یا جنگ کی
یاحالات۔۔۔ مگر آج اس خبر کی سچائی سے محمود رونے لگا: ”ڈاکٹر دونوں میں سے ایک کوضرور بچالو ورنہ مریم مر جائے گی۔۔۔ وہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہے“۔۔۔ میں نے صرفیہ کہا: ”اللہ پر بھروسہ رکھو، ہم پوری کوشش کررہے ہیں“۔
emergency contacts تمام تر کوشش اور
کے باوجود ہم جڑواں
کو کسی بڑے ہاسپٹل میں ٹرانسفر نہیں کرسکے کہ باہر کی حالت بہتخراب تھی۔ مگر اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی۔۔۔ پتا چلا۔۔۔ جڑواں
آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک گھنٹے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔۔۔ میں ابھی سوچہی رہا تھا کہ محمود کو یہ خبر کیسے بتاؤں، سسٹر نے آکر بتایا کہ
Mariyam is no more..۔۔۔
باہراندھادھند فائرنگ چل رہی تھی۔۔۔ فضا میں اللہ اکبر کا نعرہ گونج رہا تھا۔۔۔ ٹینکگھروں کو گرا رہے تھے، عورتوں کی دل کش چیخیں اذان میں مل کر عجیب ماحول بنا رہیتھیں۔ فریش زخمی یو۔این۔ کے ورکرس لا رہے تھے۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی۔۔۔ کوئی کراہ رہاہے۔۔۔ کوئی درد سے بے چین ہے۔۔۔ کوئی زور زور سے دعا مانگ رہا ہے، کٹے پھٹے جنازےلائے جارہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، آخر اتنے مظلوموں کی دعائیں کہاں بھٹک رہی ہیں۔ان بے گناہوں پر کرم کیوں نہیں کرتا پروردگار! یہ آزمائش کیسی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے اور ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ صبح کب آئے گی؟ آزادی کس قیمت پر ملےگی؟۔۔۔نفرت کی یہ آندھی رکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ تھکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ خون کی یہ پیا س بجھتی کیوں نہیں؟۔۔۔ آخر ہم کب تک مرتے رہیں گے؟۔۔۔ ہماری قربانیاں کب کام آئیںگی؟۔۔۔ یا اللہ! تو خاموشتماشائی کیوں ہے؟۔۔۔ ابراہیم کی یہ کیسی اولادیں ہیں۔۔۔ ان کا دل تو بدل کیوں نہیں دیتا؟۔۔۔
west bank jerusalemآج صبح سے
Free Palastine اور دیگر علاقےسے لوگوں کا اذدہام سڑکوں پر نکل پڑا ہے۔ ہر کوئی
کے نعرے لگا رہا ہے مگریہ سب کب تک؟۔۔۔ مگر میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں کب تک صرف خاموش تماشائی بنوں گا؟۔۔۔ میں اس لانگ مارچ میں کیوں نہیں ہوں؟۔۔۔ آج شاید میں اپنےبزرگوں کو دیے گئے وعدے وعید توڑ ڈالنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ تو کرنا ہوگا۔۔۔
confused میں
Resignation ضرور ہوں مگر ایک طرح کا سکون بھی دل میں ٹھنڈک پہنچا رہا ہے۔۔۔ ایک پیپر پر ہم نے اپنا
لکھا اور خاموشی سے اپنےکیبن سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا: ”عید مبارک ڈاکٹر“۔
مجھے ایسا لگا کسی نے گالیدی ہو۔۔۔ عید اور لاشوں کے دیس میں؟
عید اگر ہے شادمانی اور مسرت کا پیام
عید اگر ہے کامرانی اور محبت کا سلام
مدتوں اس سر زمیں پر آتے شرمائے گی عید
دوستوں کس دل سے آئے گی اگر آئے گی عید۔۔۔؟؟؟؟
سولو ڈرامہ: عید لاشوں کے دیس میں
مصنف :جاوید دانش، کناڈا
میرا نام ڈاکٹرغسان حبیب صباوی ہے۔ میں ایک کمزور مجبور اور بے بس ڈاکٹر ہوں۔ دنیا کے سب سے برے، غلیظ اورٹوٹے پھوٹے جیل غازہ کے الشفا ہاسپٹل کا ایمرجنسی روم ڈاکٹر۔ جی غازہ 1.8 ملین محصور لوگوں کا کھلا جیل، جس سے فرار ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ہے۔ اس روز مرّہ کی مرتی اور زخمی آبادی میں زیادہ تر روتے سسکتے سہمے ہوئےیتیم بچے ہیں جو بنا روٹی، کپڑا اور مکان کے راستوں پر بھٹک رہے ہیں۔ دو تہائی زخمی جوان اور رفوجی ہیں۔ مرنے یا زخمی ہونے سے جو بچ گئے ہیں، وہ رات دن اپنے یادوستوں کے رشتہ داروں کی میت کے کفن دفن میں مصروف ہیں۔ عورتوں کی حالت سب سے نازکہے۔ ڈری ڈری روتی سسکتی عورتیں جو ہر وقت اپنے سپوتوں کی حفاظت کی دعا میں گم ہیں۔
ہاسپٹل میں ایک آبادی ذہنی مریضوں کی بھی ہے جو جنگ اور ظلم کی دہشت سے اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ شایدیہی لوگ سب سے بہتر ہیں کہ اب انھیں کسی قسم کا ڈر یا خدشہ نہیں ہے۔ یہ لوگ بس حیرت سے دوسرے روتے سسکتے مریضوں کو دیکھ کر ہنستے رہتے ہیں یا رات کے اندھیرے میں نیند سے چونک کر زور زور سے چیخنے لگتے ہیں۔ نہ ان کو چپ کرایا جاتا ہے، نہ ہی نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے کہ دوائی اور انجکشن کا کوئی اسٹاک بچا نہیں۔ نہ کسی ڈاکٹر کو فرصت ہے کہ ان کو اٹینڈ کرے کیوں کہ رات دن زخمی اور لاشوں کی آمد و رفت جاری ہے۔
میں شرمندہ ہوں، ان تمام یتیم اور معصوم بچوں سے جن کے باپ کو میں نہیں بچا سکا۔۔۔ میں شرمندہ ہوں ان ہزاروں بیواؤں سے جن کے سہاگ کو میں کوشش کے باوجود نہیں بچا سکا۔ بچاتا بھی کیسے،ان میں سے اکثر اتنے زخمی تھے کہ شاید ہاسپٹل آنے سے پہلے ہی ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔
میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم ماؤں سے جن کے سپوتوں کو میں نہ بچا سکا، نہ ان کی شناخت کروا سکا کہ ان کےجنازے بارود میں جھلس کر کوئلہ ہوچکے تھے۔ میں شرمندہ ہوں ان تمام باپ سے جن کی بیٹیوں کی حرمت ہم نہیں بچا سکے اور جن میں سے اکثر نے ذلت سے بچنے کے لیے خودکُشی کرلی تھی۔۔۔ میں شرمندہ ہوں غازہ کے مجبور، محصور اور بے بس ریفیوجیزسے جو عالمِ برزخ میں زندہ ہیں اور اکثر نے ہمارے ہاسپٹل کے کمپاؤنڈ میں یہ سمجھ کر پناہ لی تھی شاید بم یہاں نہیں برسے گا
مگر پچھلی رات کی بمبارینے اس ہاسپٹل کو بھی نہیں بخشا۔اب یہ پہچان مشکل ہے کہ زخمی ہاسپٹل کے مریض ہیں یایہاں کے پناہ گزیں۔۔۔ جو بھی ہو موت کا رقص جاری ہے، خدا خاموش اور شیطان ہنس رہاہے۔۔۔
میں شرمندہ ہوں ان تمام مظلوم بہنوں سے جن کے بھائیوں کو آئی ۔ڈی ۔ایف کے بھیڑئیے اٹھا کر لے گئے ۔
ان کا جرم یہ تھا کہ گولیوں کا جواب وہ پتھر سے دے رہے تھے۔۔میں سب سے زیادہ شرمندہ اپنی ماں سے ہوں جس کی آبروریزی میری آنکھوں کے سامنے ہوتی رہی۔ میں چیخنا تو درکنار، رو بھی نہ سکا۔۔۔ میں کوئی دس برس کا تھا۔۔۔ خوف اوردہشت سے میری آواز نہیں نکلی۔۔۔وہ اذیت ناک منظر آج تک میرے ذہن میں کل کی طرح تازہ ہے۔۔۔ ۱۹۷۶ کی جنگ بلیک آؤٹ اور رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی سائیرن کی آواز، گولیوں کی بوچھار،بارش کی طرح بمباری اوراچانک حملہ، گھروں میں گھس کر اندھادندھ مشین گن کی فائرنگ اورنہتھے لوگوں پر ظلم کی انتہا۔۔۔ میرے باپ کو رسی سے باندھ کر صحن میں پھینک دیاگیا، دو بھائیوں کو گرفتار کرکے باہر لے گئے اور پھر یکے بعد دیگرے سات فوجی جوانوں نے ماں کی آبروریزی ایسے کی کہ جسم کے چیتھڑے کر ڈالے اور شاید آخری جوان کی ہوس سے پہلے اس کی جان نکل چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی ایک وحشی کی طرح اس کونوچتا بھنبھوڑتا رہا۔ میں پلنگ کے نیچے سہما یہ دلسوز اور اذیت ناک منظر خاموشی سےدیکھتا رہا۔ ڈر سے آواز حلق میں اٹکی تھی، آنکھوں میں آنسو جم گئے تھے۔ باپ نےاپنا سر زمین پر پٹخ پٹخ کر لہولہان کرڈالا۔ وہ لوگ ہنستے رہے اور اپنی ہوس پوری کر تے رہے۔ پھر باپ کے بے ہوش جسم کو گھسیٹتے ہوئے باہر پھینک دیا اور جاتے ہوئےاسے گولیوں سے چھلنی کر ڈالا۔
میں اپنے مجبور باپ سے بھی شرمندہ ہوں کہ اس کی نمازِ جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ یہ بھی نہیں پتا کہ اس کیآخری رسومات ادا کی گئیں یا (ماس گریو) اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔کہ اکثر کےساتھ یہی ہو رہا تھا ۔ لاشوں کے سڑنے اورایپیڈیمک کا خطرہ تھا۔ دوسری صبح میرے چچاعبداللہ زبردستی مجھے شہر سے دور لے گئے۔ پھر مجھے ایک رشتہ دار کے یہاں جارڈن بھیج دیا گیا۔ چچا عبداللہ کا پورا خاندان شہید ہوچکا تھا۔ بقول ان کے میں واحدصباوی خاندان کا زندہ فرد ابچا تھا۔ آخری بار جب ملاقات ہوئی، انھوں نے مجھ سےوعدہ لیا کہ میں بندوق نہیں اٹھاؤں گا۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔۔۔ اور ایک ڈاکٹربنوں گا کہ اپنے لوگوں کو نئی زندگی دے سکوں۔۔۔
میں چچا عبداللہ سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں ان کی آخری خواہش کے مطابق غازہ کے زخمیوں کو نئی زندگی نہیں دےسکتا۔۔۔ اب کون بتائے کہ ان زخمی لوگوں کو دوائیں نہیں روٹی چاہیے، علاج سے بڑھ کرصاف پینے کا پانی چاہیے، سر پر ایک چھت چاہیے، لاکھوں فلسطینی خانہ بدوش زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غازہ کا بارڈر سیل کردیا گیا ہے۔ اسرائیل اور ایجپٹ کا بارڈربند ہے۔ عالمِ اسلام کے شاہ اور صدور خاموش تماشائی ہیں، اسرائیلی آرمی گھر،بازار، ہاسپٹل
، اسکول،کھیت کھلیان ،ہر جگہ بم برسا رہے ہیں۔ غازہ کے محصور موت کی آنکھ میں آنکھیں ڈالےلڑ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں مگر فلسطینی سخت جان نسل ہیں۔ مرنے سے نہیں گھبراتے، اس امید پر ڈٹے ہیں کہ ایک دن مادرِ وطن کو آزاد کرائیں گے۔۔۔ مگر کیسے؟
میں شرمندہ ہوں خود سے کہ ہمنے ہتھیار کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا میں بزدل ہوں یا اپنے والدین کی موت سے ڈر گیاتھا؟ میرے ڈاکٹر بننے سے میرے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔ مجھ سے بہترتو سامنے کےقبرستان کا گورکن ہے جو اپنے لوگوں کے جنازے عزت کے ساتھ دفنا تو رہا ہے۔ مرنےوالے کے گھر والوں کو سکون تو فراہم کررہا ہے۔۔۔ مجھ سے میرے لوگ خائف ہیں کہ میں ان کے زخمیوں کو بچا نہیں پاتا۔۔۔ مگر میں ان معصوم لوگوں کو کیا بتاؤں کہ اکثرزخمی، کٹے پھٹے، جلے جھلسے اور مرے ہوئے آتے ہیں، ہم تو بس ان کی تسلی کے لیے ان کی لاشوں کو دیکھ بھال کر لیتےہیں۔۔۔ دس میں سے شاید ایک خوش قسمت زندہ واپس جاتا ہے۔ ہم کتنے مجبور ہیں کیابتائیں۔۔۔
الشفا غازہ کا سب سے بڑاہاسپٹل ہے مگر آج اس میں صر ف۲۱/ بیڈ ایمرجنسی روم میں ہیں اور مریض اور زخمی ہر منٹ پر12 لائے جارہے ہیں۔۔ نتیجہ! ہر جگہ کوئی نہ کوئی لیٹا، بیٹھا اورکھانس رہا ہے۔ مریضوں کے پیشاب کی بدبو اور دوسری غلاظت سے سانس لینا دوبھر ہے۔گرمی اور حبس سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا ہے۔ ہم پچھلے بارہ روز سے چوبیس گھنٹےڈیوٹی پر ہیں۔ بھوک تھکن اور الجھن سے ختم ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے کے روزے سے ہیں۔
،میڈیکل سپلائی ،پانی اور کھانے کے پیکٹ یو۔این۔ کے کارکن لارہے ہیں مگر زخمیوں کے ساتھ جوخون میں نہائے ہیں اور پانی اور کھانے پر بھی خون کے چھینٹے ہیں، اس پانی اورکھانے کو کون کھا سکتا ہے۔۔۔ ہاسپٹل ایک مقتل، ایک ذبیح خانہ بن چکا ہے۔ ہر طرف خون اور جلے ہوئے انسانی گوشت کی بوٗ، ٹوٹے پھوٹے انسانی جسم، کٹے پھٹے ہاتھپیر۔۔۔ کسی کی انتڑیاں باہر کو جھول رہی ہیں تو کسی کا سر گولیوں سے چھلنی۔۔۔ مرہم پٹی کریں بھی تو کہاں۔۔۔نہ بینڈج بچا ہے نہ کوئی مرہم۔۔۔ بستر کی چادریں خون سےسرخ۔۔۔ زمین سرخ۔۔۔آسمان سرخ۔۔۔ کربلا کا عجیب منظر ہے۔۔۔ یاربِ کعبہ! اس آزمائش سے تو بہتر تھا، میں بھی بندوق اٹھاتا اور ایک دن مارتے مارتے خود بھی ختم ہوجاتا۔۔۔
مجھے نہیں معلوم دنیا کی چیخ و پکار اور دھرنے جلوس کا کیا ہوگا۔ آج کی خبر کے مطابق ۱۱۰۰/ لوگ مارے گئے ہیں اور کوئی ۵۲۰۰/زخمی۔۔۔ جس میں ۷۱۰۰/معصوم بچے ہیں جو گھروں سےباہر کھیلنے نکلے تھے اور بندوق کا نشانہ بنے۔۔۔ مگر ہم اور آپ جانتے ہیں، لوگہزاروں کی تعداد میں ختم ہوئے ہیں۔۔۔ ہزاروں زخمی۔۔۔ اور ہزاروں گم شدہ ہیں۔۔۔ انکی کوئی گنتی نہیں جنھیں فوجی اٹھا لے گئے ہیں اور ٹارچر سیل میں ان پر کیا قیامتگزر رہی ہوگی، وہ جانتے ہیں یا خدا۔۔۔مجھ سے پوچھیے، یہ ٹارچر سیل کیا ہوتا ہے،مجھےبھی تین مہینے تک جیروسیلم کے جیل میں روندا گیا تھا۔
میرا قصور صرف اتنا تھاکہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ مجھے چار دن تک سونے نہیں دیا گیا۔ جب نیند آتی سر پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جاتا۔ جب جسم پوری طرح تھکن سے چور ہوگیا اور نیندسے نڈھال ہوگیا توانٹیروگیشن شروع ہوئی کہ انتفادہ کب جوائن کیا،کون ہے ہمارا گروپلیڈر، ہمارا اگلا قدم کیا ہے؟ میں یہی کہتا رہا کہ میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں، جارڈن سےچھٹیوں پر آیا ہوں، کسی انتفادہ کا ممبر نہیں مگر میری کسی بات کا ان کو یقین نہیں آتا۔۔۔ مارنے کے ساتھ ساتھ ایک نے میری انگلیوں سے ایک ناخن گھسیٹ کر اس میں نمک لگا دیا۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، درد سے بلبلاتا رہا پھر بھی جب میں نے جواب نہیں دیا تو آخر ان لوگوں نے مجھے برف کی سل پر باندھ کر چھوڑ دیا۔۔۔ گھنٹے بھرمیں جسم سُن ہوگیا، کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں اور ہڈیاں چٹخنے لگیں، پیشاب بندہوگیا، آواز بند ہوگئی اور بے ہوشی کے عالم میں پتا نہیں کیا کیا ہوا۔۔۔ کوئی تین مہینے کی ذلت اور ٹارچر کے بعد پتا نہیں کیسے مجھے چھوڑ دیا گیا۔۔۔ مگر مجھے اس کابھی انکشاف ہوا کہ مولوی جہنم کی آگ اور سزا کی جو بات کرتے ہیں،ان کو نہیں معلوم جہنم کا ایک حصہ برف کا بھی ہے جس کو میں جھیل چکا ہوں۔
گذشتہ رات میری میڈیکل زندگی کی سب سے لمبی رات تھی۔ باہر گولیاں ہوا کی طرح چل رہی تھیں،ٹینک ہر طرف گڑگڑا رہے تھے۔ فضا میں بارود کی بوجھل بوٗ گلے میں رندھ رہی تھی۔بلیک آؤ ٹ کی وجہ سے ہم کینڈل لائیٹ میں کام کر رہے تھے ۔
رات دیڑھ بجے ایک مریضہ مریم کو ایمرجنسی میں لایا گیا۔ پریگننٹ اور درد سے کراہتی ہوئی،نیم بے ہوشی میں سسک رہی تھی۔۔۔ کیس سی سیکشن کا تھا اور آپریشن روم میں کوئیسہولت نہیں تھی۔۔۔
conjoined twin صبح اذان کی آواز سے پہلے مریم نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔۔۔مگر بدقسمتی سے وہ کنجوائینڈ ٹوین
تھے۔۔۔جسمدو مگر بیچ سے جڑے ہوئے، ان کا دل ایک۔۔۔ ہمیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ فوراًان کی سرجری کرکے الگ کرنا ہوگا ورنہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوجائے گی۔۔۔مگرسرجری کہاں، ہمارے پاس تو آکسیجن بھی نہیں تھا اور جڑواں
کو فوراً آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جب ہم نے او۔ٹی۔ سے باہر آکر مریم کے شوہرکو خبر سنائی تو پتا چلا، پچھلے چار بار مریم کا اسقاط )miscarriage حمل (
uncertainty ہو چکا ہے۔ شاید۔۔۔ ڈر یا جنگ کی
یاحالات۔۔۔ مگر آج اس خبر کی سچائی سے محمود رونے لگا: ”ڈاکٹر دونوں میں سے ایک کوضرور بچالو ورنہ مریم مر جائے گی۔۔۔ وہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہے“۔۔۔ میں نے صرفیہ کہا: ”اللہ پر بھروسہ رکھو، ہم پوری کوشش کررہے ہیں“۔
emergency contacts تمام تر کوشش اور
کے باوجود ہم جڑواں
کو کسی بڑے ہاسپٹل میں ٹرانسفر نہیں کرسکے کہ باہر کی حالت بہتخراب تھی۔ مگر اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی۔۔۔ پتا چلا۔۔۔ جڑواں
آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایک گھنٹے میں ہی ختم ہوچکے تھے۔۔۔ میں ابھی سوچہی رہا تھا کہ محمود کو یہ خبر کیسے بتاؤں، سسٹر نے آکر بتایا کہ
Mariyam is no more..۔۔۔
باہراندھادھند فائرنگ چل رہی تھی۔۔۔ فضا میں اللہ اکبر کا نعرہ گونج رہا تھا۔۔۔ ٹینکگھروں کو گرا رہے تھے، عورتوں کی دل کش چیخیں اذان میں مل کر عجیب ماحول بنا رہیتھیں۔ فریش زخمی یو۔این۔ کے ورکرس لا رہے تھے۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی۔۔۔ کوئی کراہ رہاہے۔۔۔ کوئی درد سے بے چین ہے۔۔۔ کوئی زور زور سے دعا مانگ رہا ہے، کٹے پھٹے جنازےلائے جارہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، آخر اتنے مظلوموں کی دعائیں کہاں بھٹک رہی ہیں۔ان بے گناہوں پر کرم کیوں نہیں کرتا پروردگار! یہ آزمائش کیسی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے اور ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ صبح کب آئے گی؟ آزادی کس قیمت پر ملےگی؟۔۔۔نفرت کی یہ آندھی رکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ تھکتی کیوں نہیں؟۔۔۔ خون کی یہ پیا س بجھتی کیوں نہیں؟۔۔۔ آخر ہم کب تک مرتے رہیں گے؟۔۔۔ ہماری قربانیاں کب کام آئیںگی؟۔۔۔ یا اللہ! تو خاموشتماشائی کیوں ہے؟۔۔۔ ابراہیم کی یہ کیسی اولادیں ہیں۔۔۔ ان کا دل تو بدل کیوں نہیں دیتا؟۔۔۔
west bank jerusalemآج صبح سے
Free Palastine اور دیگر علاقےسے لوگوں کا اذدہام سڑکوں پر نکل پڑا ہے۔ ہر کوئی
کے نعرے لگا رہا ہے مگریہ سب کب تک؟۔۔۔ مگر میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں کب تک صرف خاموش تماشائی بنوں گا؟۔۔۔ میں اس لانگ مارچ میں کیوں نہیں ہوں؟۔۔۔ آج شاید میں اپنےبزرگوں کو دیے گئے وعدے وعید توڑ ڈالنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ تو کرنا ہوگا۔۔۔
confused میں
Resignation ضرور ہوں مگر ایک طرح کا سکون بھی دل میں ٹھنڈک پہنچا رہا ہے۔۔۔ ایک پیپر پر ہم نے اپنا
لکھا اور خاموشی سے اپنےکیبن سے باہر نکل رہا تھا کہ کسی نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا: ”عید مبارک ڈاکٹر“۔
مجھے ایسا لگا کسی نے گالیدی ہو۔۔۔ عید اور لاشوں کے دیس میں؟
عید اگر ہے شادمانی اور مسرت کا پیام
عید اگر ہے کامرانی اور محبت کا سلام
مدتوں اس سر زمیں پر آتے شرمائے گی عید
دوستوں کس دل سے آئے گی اگر آئے گی عید۔۔۔؟؟؟؟