عشق کے چالیس اصول قسط 4

عشق کے چالیس اصول قسط 4

May 1, 2020

عشق کے چالیس اصول

4 قسط

80-81

خط

بغداد سے قیصری بھیجوایا

گیا ،

29 ستمبر  1243 ئ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم سید برہان الدین

میری خواہش ہے کہ آپ پراللہ کی سلا متی ہو اورآپ اس کی پناہ میں ہمیشہ رہیں۔۔

آپ کا خط موصول ہوا ، مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ آج بھی محبت کی وادیوں میں بسیراکیے ہوئے ہیں !

جیسے آج سے کئی برس قبل کیے ہوئے تھے ، اس محبت کو آج بھی آپ سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔پہلے پہل جب میں نے آپ کا خط دیکھا تو اس نے میرے حواس بے قابو کیے رکھے ، میں شدید تذبذب کا شکار تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ۔۔آپ نے  میرے سامنے محبت کا مقدمہ رکھ کے بلاشبہ میرا ایک بہت کٹھن امتحان لیا ۔البتہ جیسے ہی مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ آپ رومی کے رفیق کو تلاش کررہے ہیں ، میں نے اسی وقت جانچ لیا تھا کہ آپ کس کے متعلق بات کر رہے ہیں  اور وہ کون ہوسکتاہے۔میرے لئے رومی کا ساتھی ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ درسگاہ کے سب لوگ میرے سامنے ایک کھلی کتاب تھے ۔پریشانی تھی تو بس یہ جاننے میں کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے ۔اس وقت ہماری درسگاہ میں ایک درویش ٹھہرا ہوا تھا۔۔ ایک آوارہ درویش ۔۔ شمس تبریزی ۔۔آپ نے جس صوفی کی خوبیاں بتلائی تھیں وہ تمام کی تمام اس میں موجو ہیں۔۔ اس ہار میں آپ کے پروئے ہوئے تمام پسندیدہ موتی موجود ہیں۔

شمس اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دنیا میں اس کا اب ایک ہی مقصد ہے کہ وہ کسی عالم کا سینہ روشن کرے ۔اس شخص کو نہ تو کوئی مرید چاہیے جو ہمہ وقت اس کی ’’جی حضوری ‘‘ کرے ۔۔ اس کے قدم کے پیچھے اپنا قدم رکھے ۔۔ اس کے گیت گنگنا تا پھرے نہ ہی اسے کسی شاگرد کی ضرورت ہے جواس کے نقش قدم پر گامزن ہو ، بلکہ اسے تو ایک رفیق خاص چاہیے جس کے لئے اس نے اللہ کے آگے کئی مرتبہ ہاتھ پھیلائے،کئی مرتبہ اس کے آگے رویا۔۔۔ کئی آنسو اپنے پروردگار کے آگے ایک خاص ساتھی کی غرض سے نظر کیے۔

اس نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ وہ کسی عام سے انسان کی تلاش میں نہیں نکلا۔۔ عام سے انسانوں سے تو یہ دنیا بھر پڑی ہے ۔۔ اسے تو ایک ایسے شخص کی تلاش جو کہ دنیا کی حق کے راستے پر راہنمائی کرے ۔۔ دنیا کو یکسر مختلف ڈگر پر چلائے ، جو دنیا کو خالق حقیقی کاراستہ بتائے۔

جب آپ کا خط ملا تو مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ رومی سے ملاقات ہی شمس کی تقدیر ہے ۔۔ اس کی قسمت ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو سمندر میں کھو چکی ہے تاہم ساحل رومی کی رفاقت ہے ۔

شمس یقینا میری پہلی اور آخری امید تھی ۔۔تاہم انصاف پر دنیا کانظام رواں دواں ہے ۔ اسی تقاضے کی تکمیل کے لئے میں نے اپنے درویشوں کو موقع دیا۔میں نے انہیں اکٹھا کیااور ان سے استفسار کیا کہ ایک عالم ہے جس کے پاس سب کچھ موجود ہوا سوائے محبت ، اور یہ احساس اس کے اندر تب ہی جگہ بنائے گا جب اس کا سینہ کشادہ کیا جائے ۔ جس کے لئے ایک ساتھی کی ضرورت ہے ۔ یہ سن کر سب پر جوش ہو گئے اور سب ادھر جانے کے امیدوار بن گئے ۔میں نے اپنی بات میں مزید اضافہ کیا کہ یہ کام جتنا دیکھنے میں آسان ہے اتنا کرنے میںنہیں ، یہ سن کرتو جیسے سب بے سود ہوگئے اوروہاں جانے کیلئے کوئی بھی امیدوار نہ رہا۔ماسوائے شمس جو ادھر جانے کو بے تاب تھا۔یہ پچھلے سال موسم سرماکی بات ہے۔یہ آخری مرتبہ نہیں تھا کہ جب میں ان سے ادھر جانے کے متعلق دریافت کیاہو۔خزاںپھر اس کے بعد بہار میں بھی ان سے یہی پوچھا۔

مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ آپ حیران ہورہے ہوں گے رومی کے ساتھی کو آپ تک پہنچانے میں نے اتنی دیری کیوں کی۔۔کیوں میں نے سوچنے میں اتناوقت لگا دیا؟

یہ بات اتنی چھوٹی نہیں تھی کہ میں نظراندز کردیتا ، اسی لئے بہت مرتبہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے خود کو بھی ٹٹولا۔میرے اندر سے ایک ہی جواب آیا کہ میں خود بھی شمس کا گرویدہ بن چکا تھا ۔مجھے یہ بات اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ میں اس شخص کو کسی خطرے میں ڈال رہا ہوں۔میں کچھ ہی دنوں میں اپنے آپ کو کمزورمحسوس کرنے لگا ہوں۔

ایک بات میری یاد رکھئے گا۔ شمس عام انسانوں کی مانند کوئی آسان سی شے نہیں کہ اس کو جس راہ پہ لگاؤ وہ اس راہ پہ چل دے۔وہ بے لگام ہے۔۔آوارہ ۔۔اپنی مرضی کا اکلوتا وارث۔جب تک اس نے خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کیے رکھی اس وقت تک وہ اپنی دنیا میں خوش باش رہا۔لیکن مجھے ڈر تھا کہ اس جیسا کھرا اور صاف جھیل کے پانی کی مانند شفاف انسان اس مادہ پرست دنیا میں نقصان سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔۔مجھے لگتا ہے کہ وہ آزاد پنچھی اپنے پر کھودے گا۔۔یہی وجہ تھا کہ اسے قو نیہ بھیجنے میں دیر کر رہاتھا۔

اس کی روانگی سے ایک دن قبل شمس میرے ساتھ شہتوت کے باغات کی سیر کو نکل گئے ۔۔وہ ہی جگہ جہاں میں نے ریشم کے کیڑے پال رکھے ہیں۔کہتے ہیں کچھ پختہ عادات انسان کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔محبت کا جذبہ بھی ریشم کے کیڑے کی مانند ہوتا ہے ، انتہائی نازک اور بے حد مضبوط ۔انتہائی بے بس اور انتہائی توانا۔ میں نے اس وقت شمس کو بتایا کہ جب ریشم کا کیڑا اپنے خول سے باہر آتا ہے توریشم کی بربادی  کا سبب بن جاتا ہے۔اب کسان کے پاس دوراستے ہوتے ہیں ۔۔یاتو وہ ریشم کے کیڑے کو بچا لے یا ریشم کو۔کچھ کسان تو ریشم کے کیڑے کی سانسیں چلنے دیتے ہیں اور کچھ ریشم کے حصول کی خاطر ان کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ایک ریشم کا رومال بنانے کے لئے تو ہزاروں ریشم کے کیڑوں کو پھانسی دینا ہوتی ہے ۔

اس وقت رات ہونے والی تھی، خنکی اپنے عروج پر تھی ۔ ایک دم ہوا کا جھونکا آیا، جس سے میرے اند ایک کپکپی طاری ہو گئی، اور جب انسان اپنی زندگی کی آخری بہاروں میں ہو تب تو سردی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے، میں بیمار بھی تو پڑسکتا تھا۔پر ایک اٹل حیقیقت تھی کہ سردی نے مجھے پریشا ن نہیں کیا تھا، مجھے اپنی عمر سے بڑا دکھا نے والی سردی نہیں بلکہ میرا صدمہ شمس کی جدائی تھی ۔ میرے لئے بھلا اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی کہ وہ آخری مرتبہ اس باغ میں کھڑ ا تھا۔۔ ہاں میرا شمس آخری مرتبہ اس جگہ موجود تھااور میں اس متعلق کچھ نہیں کر سکتا تھا۔یہ تو طے تھا کہ اس بعد ہم ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھیں گے۔۔یہ چہرہ دنیا میں کہیں کھو جائےگا ، میں ہر چہرے میں اس کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کروں گا ۔۔ہم کبھی ایک دوسرے سے مل نہیں پائیں گے ۔۔ کم از کم اس دنیا میں تو نہیں۔شمس جیسا ذی فہم انسان بھی شاید اس حقیقت سے آگاہ تھا سی لئے اس کی آنکھوںمیں دکھ کے موتی تھے۔

اگلے دن شفق نمودار ہوتے ہی صبح صبح شمس کی روانگی کا وقت آن پہنچا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ ایک بیٹے کی مانند چومے اور پےار سے آگے ہوا تاکہ میں اسے دعائیں دے سکوں۔وہ منظر میرے لئے بہت عجیب تھا، شمس نے اپنی داڑھی اور مونچھیں کاٹ لیں تھی ، جس کی وجہ نہ اس نے پوچھی اور نہ میں نتائی ۔روانگی سے قبل شمس نے ایک بات بولی ’’کہ اس کہانی میں میرا کردار ریشم کے کیڑے کی مانند ہے ‘‘

میں اور رومی عشق حقیقی کے خول میں مقفل ہونگے ۔میں رومی کو ریشم بنانے کے لئے تگ و دو کروں گا۔ ایک وقت آئیگا جب ریشم پوری طرح تیار ہوچکا ہوگا۔۔تب اس کیڑے کو جان نچھاور کرنی ہوگی ۔۔پھر وہی  ہو گا کہ ریشم کی زندگی کے لئے کیڑے کو جان کی بلی چڑھانا ہوگی ‘‘

یہ اس کے قونیہ جانے سے قبل آخری الفاظ تھے۔۔ اللہ اس کاحامی و ناصر ہو۔مجھے اس بات کی مرتے دم تک خوشی رہے گی کہ میں نے صحیح  قدم اٹھایا اور اس کیلئے آپ نے میری راہ اور آسان کی ۔معلوم نہیں کیوں میرا دل صدمے سے دوچار ہے ۔میں اس غیر معمولی انسان کی کمی بہت محسوس کرتا ہوں۔۔وہ انوکھا درویش میرے ماضی کی مضبوط یادوں کا حصہ بن چکا ہے ۔جس نے شاید پہلی اور آخری مرتبہ ہماری درسگاہ کو اپنی موجودگی کا شرف بخشا۔

’’بلاشہ ہم اللہ کی مخلوق ہیں، ہم جس کے ہیں اسی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں‘‘۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ ہی آپ کی کل کائنات ہو ، اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی کی ضرورت نہ  ہو

آمین

بابا زمان

ایلف شفق کے شہرہ آفاق ناول کا اردو ترجمہ

عشق کے چالیس اصول

4 قسط

80-81

خط

بغداد سے قیصری بھیجوایا

گیا ،

29 ستمبر  1243 ئ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم سید برہان الدین

میری خواہش ہے کہ آپ پراللہ کی سلا متی ہو اورآپ اس کی پناہ میں ہمیشہ رہیں۔۔

آپ کا خط موصول ہوا ، مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ آج بھی محبت کی وادیوں میں بسیراکیے ہوئے ہیں !

جیسے آج سے کئی برس قبل کیے ہوئے تھے ، اس محبت کو آج بھی آپ سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔پہلے پہل جب میں نے آپ کا خط دیکھا تو اس نے میرے حواس بے قابو کیے رکھے ، میں شدید تذبذب کا شکار تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ۔۔آپ نے  میرے سامنے محبت کا مقدمہ رکھ کے بلاشبہ میرا ایک بہت کٹھن امتحان لیا ۔البتہ جیسے ہی مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ آپ رومی کے رفیق کو تلاش کررہے ہیں ، میں نے اسی وقت جانچ لیا تھا کہ آپ کس کے متعلق بات کر رہے ہیں  اور وہ کون ہوسکتاہے۔میرے لئے رومی کا ساتھی ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ درسگاہ کے سب لوگ میرے سامنے ایک کھلی کتاب تھے ۔پریشانی تھی تو بس یہ جاننے میں کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے ۔اس وقت ہماری درسگاہ میں ایک درویش ٹھہرا ہوا تھا۔۔ ایک آوارہ درویش ۔۔ شمس تبریزی ۔۔آپ نے جس صوفی کی خوبیاں بتلائی تھیں وہ تمام کی تمام اس میں موجو ہیں۔۔ اس ہار میں آپ کے پروئے ہوئے تمام پسندیدہ موتی موجود ہیں۔

شمس اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دنیا میں اس کا اب ایک ہی مقصد ہے کہ وہ کسی عالم کا سینہ روشن کرے ۔اس شخص کو نہ تو کوئی مرید چاہیے جو ہمہ وقت اس کی ’’جی حضوری ‘‘ کرے ۔۔ اس کے قدم کے پیچھے اپنا قدم رکھے ۔۔ اس کے گیت گنگنا تا پھرے نہ ہی اسے کسی شاگرد کی ضرورت ہے جواس کے نقش قدم پر گامزن ہو ، بلکہ اسے تو ایک رفیق خاص چاہیے جس کے لئے اس نے اللہ کے آگے کئی مرتبہ ہاتھ پھیلائے،کئی مرتبہ اس کے آگے رویا۔۔۔ کئی آنسو اپنے پروردگار کے آگے ایک خاص ساتھی کی غرض سے نظر کیے۔

اس نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ وہ کسی عام سے انسان کی تلاش میں نہیں نکلا۔۔ عام سے انسانوں سے تو یہ دنیا بھر پڑی ہے ۔۔ اسے تو ایک ایسے شخص کی تلاش جو کہ دنیا کی حق کے راستے پر راہنمائی کرے ۔۔ دنیا کو یکسر مختلف ڈگر پر چلائے ، جو دنیا کو خالق حقیقی کاراستہ بتائے۔

جب آپ کا خط ملا تو مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ رومی سے ملاقات ہی شمس کی تقدیر ہے ۔۔ اس کی قسمت ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو سمندر میں کھو چکی ہے تاہم ساحل رومی کی رفاقت ہے ۔

شمس یقینا میری پہلی اور آخری امید تھی ۔۔تاہم انصاف پر دنیا کانظام رواں دواں ہے ۔ اسی تقاضے کی تکمیل کے لئے میں نے اپنے درویشوں کو موقع دیا۔میں نے انہیں اکٹھا کیااور ان سے استفسار کیا کہ ایک عالم ہے جس کے پاس سب کچھ موجود ہوا سوائے محبت ، اور یہ احساس اس کے اندر تب ہی جگہ بنائے گا جب اس کا سینہ کشادہ کیا جائے ۔ جس کے لئے ایک ساتھی کی ضرورت ہے ۔ یہ سن کر سب پر جوش ہو گئے اور سب ادھر جانے کے امیدوار بن گئے ۔میں نے اپنی بات میں مزید اضافہ کیا کہ یہ کام جتنا دیکھنے میں آسان ہے اتنا کرنے میںنہیں ، یہ سن کرتو جیسے سب بے سود ہوگئے اوروہاں جانے کیلئے کوئی بھی امیدوار نہ رہا۔ماسوائے شمس جو ادھر جانے کو بے تاب تھا۔یہ پچھلے سال موسم سرماکی بات ہے۔یہ آخری مرتبہ نہیں تھا کہ جب میں ان سے ادھر جانے کے متعلق دریافت کیاہو۔خزاںپھر اس کے بعد بہار میں بھی ان سے یہی پوچھا۔

مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ آپ حیران ہورہے ہوں گے رومی کے ساتھی کو آپ تک پہنچانے میں نے اتنی دیری کیوں کی۔۔کیوں میں نے سوچنے میں اتناوقت لگا دیا؟

یہ بات اتنی چھوٹی نہیں تھی کہ میں نظراندز کردیتا ، اسی لئے بہت مرتبہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے خود کو بھی ٹٹولا۔میرے اندر سے ایک ہی جواب آیا کہ میں خود بھی شمس کا گرویدہ بن چکا تھا ۔مجھے یہ بات اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ میں اس شخص کو کسی خطرے میں ڈال رہا ہوں۔میں کچھ ہی دنوں میں اپنے آپ کو کمزورمحسوس کرنے لگا ہوں۔

ایک بات میری یاد رکھئے گا۔ شمس عام انسانوں کی مانند کوئی آسان سی شے نہیں کہ اس کو جس راہ پہ لگاؤ وہ اس راہ پہ چل دے۔وہ بے لگام ہے۔۔آوارہ ۔۔اپنی مرضی کا اکلوتا وارث۔جب تک اس نے خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کیے رکھی اس وقت تک وہ اپنی دنیا میں خوش باش رہا۔لیکن مجھے ڈر تھا کہ اس جیسا کھرا اور صاف جھیل کے پانی کی مانند شفاف انسان اس مادہ پرست دنیا میں نقصان سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔۔مجھے لگتا ہے کہ وہ آزاد پنچھی اپنے پر کھودے گا۔۔یہی وجہ تھا کہ اسے قو نیہ بھیجنے میں دیر کر رہاتھا۔

اس کی روانگی سے ایک دن قبل شمس میرے ساتھ شہتوت کے باغات کی سیر کو نکل گئے ۔۔وہ ہی جگہ جہاں میں نے ریشم کے کیڑے پال رکھے ہیں۔کہتے ہیں کچھ پختہ عادات انسان کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔محبت کا جذبہ بھی ریشم کے کیڑے کی مانند ہوتا ہے ، انتہائی نازک اور بے حد مضبوط ۔انتہائی بے بس اور انتہائی توانا۔ میں نے اس وقت شمس کو بتایا کہ جب ریشم کا کیڑا اپنے خول سے باہر آتا ہے توریشم کی بربادی  کا سبب بن جاتا ہے۔اب کسان کے پاس دوراستے ہوتے ہیں ۔۔یاتو وہ ریشم کے کیڑے کو بچا لے یا ریشم کو۔کچھ کسان تو ریشم کے کیڑے کی سانسیں چلنے دیتے ہیں اور کچھ ریشم کے حصول کی خاطر ان کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ایک ریشم کا رومال بنانے کے لئے تو ہزاروں ریشم کے کیڑوں کو پھانسی دینا ہوتی ہے ۔

اس وقت رات ہونے والی تھی، خنکی اپنے عروج پر تھی ۔ ایک دم ہوا کا جھونکا آیا، جس سے میرے اند ایک کپکپی طاری ہو گئی، اور جب انسان اپنی زندگی کی آخری بہاروں میں ہو تب تو سردی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے، میں بیمار بھی تو پڑسکتا تھا۔پر ایک اٹل حیقیقت تھی کہ سردی نے مجھے پریشا ن نہیں کیا تھا، مجھے اپنی عمر سے بڑا دکھا نے والی سردی نہیں بلکہ میرا صدمہ شمس کی جدائی تھی ۔ میرے لئے بھلا اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی کہ وہ آخری مرتبہ اس باغ میں کھڑ ا تھا۔۔ ہاں میرا شمس آخری مرتبہ اس جگہ موجود تھااور میں اس متعلق کچھ نہیں کر سکتا تھا۔یہ تو طے تھا کہ اس بعد ہم ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھیں گے۔۔یہ چہرہ دنیا میں کہیں کھو جائےگا ، میں ہر چہرے میں اس کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کروں گا ۔۔ہم کبھی ایک دوسرے سے مل نہیں پائیں گے ۔۔ کم از کم اس دنیا میں تو نہیں۔شمس جیسا ذی فہم انسان بھی شاید اس حقیقت سے آگاہ تھا سی لئے اس کی آنکھوںمیں دکھ کے موتی تھے۔

اگلے دن شفق نمودار ہوتے ہی صبح صبح شمس کی روانگی کا وقت آن پہنچا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ ایک بیٹے کی مانند چومے اور پےار سے آگے ہوا تاکہ میں اسے دعائیں دے سکوں۔وہ منظر میرے لئے بہت عجیب تھا، شمس نے اپنی داڑھی اور مونچھیں کاٹ لیں تھی ، جس کی وجہ نہ اس نے پوچھی اور نہ میں نتائی ۔روانگی سے قبل شمس نے ایک بات بولی ’’کہ اس کہانی میں میرا کردار ریشم کے کیڑے کی مانند ہے ‘‘

میں اور رومی عشق حقیقی کے خول میں مقفل ہونگے ۔میں رومی کو ریشم بنانے کے لئے تگ و دو کروں گا۔ ایک وقت آئیگا جب ریشم پوری طرح تیار ہوچکا ہوگا۔۔تب اس کیڑے کو جان نچھاور کرنی ہوگی ۔۔پھر وہی  ہو گا کہ ریشم کی زندگی کے لئے کیڑے کو جان کی بلی چڑھانا ہوگی ‘‘

یہ اس کے قونیہ جانے سے قبل آخری الفاظ تھے۔۔ اللہ اس کاحامی و ناصر ہو۔مجھے اس بات کی مرتے دم تک خوشی رہے گی کہ میں نے صحیح  قدم اٹھایا اور اس کیلئے آپ نے میری راہ اور آسان کی ۔معلوم نہیں کیوں میرا دل صدمے سے دوچار ہے ۔میں اس غیر معمولی انسان کی کمی بہت محسوس کرتا ہوں۔۔وہ انوکھا درویش میرے ماضی کی مضبوط یادوں کا حصہ بن چکا ہے ۔جس نے شاید پہلی اور آخری مرتبہ ہماری درسگاہ کو اپنی موجودگی کا شرف بخشا۔

’’بلاشہ ہم اللہ کی مخلوق ہیں، ہم جس کے ہیں اسی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں‘‘۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ ہی آپ کی کل کائنات ہو ، اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی کی ضرورت نہ  ہو

آمین

بابا زمان

ایلف شفق کے شہرہ آفاق ناول کا اردو ترجمہ

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024