عامرصدیقی کےچارمائیکرو فکشن

عامرصدیقی کےچارمائیکرو فکشن

May 17, 2019

مصنف

شمارہ

شمارہ - ١٠

کارنس

تجریدی مائیکرو فکشن

عامرصدیقی، کراچی

***

’’میں اسے گڑیا سے کھیلنے نہیں دوں گی۔‘‘

کمرے کے سناٹے کو چیرتی، تین سایوں میں سے ایک کی سرگوشی ابھری۔۔۔۔۔۔اور دلوں میں اتر گئی۔۔۔۔

۔۔۔سنگدلی، سفاکیت، پختہ ارادہ

۔۔۔تذبذب، نیم دلی،پس و پیش

۔۔۔مظلومیت،بے بسی، تاریکی

’’چوں چوں چوں‘‘

’’اس کارنس کو صاف کرو۔۔۔۔سارے گھر کو بھنکادیا ہے۔جہیز میں اور تو کچھ لائی نہیں کلموہی، سوائے ان منحوس پرندوں کے۔۔۔ ‘‘

۔۔۔تہمت، بہتان، اتہام

۔۔۔تردد،نیم رضامندی، فرمانبرداری

۔۔۔نصیب، قسمت،آنسو

’’چوں چوں‘‘

’’بس میں نے کہہ دیا، اس گھر میں گڑیا نہیں آنے دوں گی۔۔۔۔‘‘

’’میں بھی۔۔۔۔۔۔‘‘

’’میں گڑیا سے ہی کھیلوں گی۔۔۔۔‘‘

’’چوں چوں چوں‘‘

’’کارنس سے گند ہٹاؤ ابھی۔۔۔۔۔‘‘

۔۔۔بدبو، تعفن، سرانڈ

۔۔۔قصد، عزم ،کارروائی

۔۔۔چیخیں، سسکیاں، کراہیں

’’چیں چیں چیں‘‘

’’چیں چیں چیں‘‘

خون،سفیدی، زردی

زردی، سفیدی، خون

***

الگنی کی تلاش میں بھٹکتا پیار

عامر صدیقی، کراچی

***

’’جھاگ نہیں بن رہا ۔‘‘

’’تھوڑا پاؤڈر اور ڈالو نا۔‘‘

’’بہت جھاگ بن جائے گا۔‘‘

’’تمہارا کیا جاتا ہے ۔‘‘

’’میرا کیا جائے گا؟ میرا ہی تو جاتاہے ۔۔۔‘‘

’’اچھا اسے بھی دھو ڈالواوراسے بھی۔‘‘

’’جھاگ مرجائے گا ۔۔۔‘‘

’’کام چل جائے گا۔ ‘‘

’’بہت مشکل ہے۔ویسے بھی الگنی چھوٹی ہے۔‘‘

’’الگنی بڑی کئے دیتا ہوں۔‘‘

’’مگر جھاگ کا کیا؟اوراب پاؤڈر بھی نہیں۔‘‘

’’تم کیا ان سے دھوتی ہو۔‘‘

’’کون میں ؟ اور کس سے بھلا۔تم کیا سمجھے؟‘‘

’’میں سمجھا۔۔۔۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ارے جھاگ نیچے گر رہا ہے ۔‘‘

’’کچھ نہیں، لاؤکیا دھونا ہے،کیازندگی؟‘‘

’’رائیگاں گئی۔‘‘

’’قسمت؟‘‘

’’وہ تو پھوٹی نکلی۔‘‘

’’روپیہ پیسہ۔‘‘

’’ہاتھوں کا میل تھا۔ سواتار پھینکا۔‘‘

’’توجوانی۔‘‘

’’اسے ادھارپرلیا تھا، واپس کردی۔‘‘

’’عزت۔‘‘

’’ٹکے بھاؤ بیچ دی۔‘‘

’’شہرت۔‘‘

’’بہت داغدار ہے۔تمہارے بس کی بات نہیں۔‘‘

’’پھرحوصلے کا کیا۔‘‘

’’ماند پڑ گیا۔‘‘

’’اورجذبات۔‘‘

’’انکا رنگ پھیکا پڑگیاہے۔‘‘

’’چلو پھرحسن ہی سہی۔‘‘

’’اب کہاں، ناپید ہوچکا۔‘‘

’’بشاشت۔‘‘

’’اس پرحالات کا پکا رنگ چڑھ چکاہے ۔اب یہ نہ اترے گا۔‘‘

’’تو پھر اپنی کھال ہی اتار کردو۔‘‘

’’کئی بار اتاری جا چکی، اب اتاری تو پھٹ جائے گی۔‘‘

’’جب کچھ دھلوانا ہی نہیں تو اتنا جھاگ کیوں بنوایا؟‘‘

’’پیار کو جو دھلوانا تھا۔‘‘

’’فقط ایک پیارکو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’پکا۔‘‘

’’پکااورہاں خوب رگڑ رگڑ کر دھونااور اچھی طرح نچوڑنا۔‘‘

’’ارے کتنا گندہ ہے۔‘‘

’’ہاں صدیوں سے یونہی جوپڑا تھا، کسی الگنی کی تلاش میں۔‘‘

***

بیر بہوٹی کی تلاش میں

عامرصدیقی،کراچی

***

میں بیر بہوٹی کی تلاش میں تھا۔

اورکہاں کہاں نہیں بھٹکا تھا۔

نامعلوم اور خوابیدہ عدم کو ممکنات میں لے آیا تھا۔

ساتوںآسمان ، تمام جنتیں، سارے جہنم۔

یہاں تک کہ تخلیق کی دیوارِ گریہ تک بھی جا پہنچا۔

چیخوں اور کراہوں کی موسلادھار بارش کی پھسلن کو ان دیکھا کرکے۔

ناامیدی کے بھنور میں امید کے پر لگا کر

روح کی بے کسی کو متاعِ عزیزجان کر

بدن کی شکستگی و کہنگی کو مومیائی بنا کر

نفس کی منہ زوری کو لگام ڈال کر

ہر خواہش، ہر امید، ہر تمنا، ہر چاہت کوپیچھے د ھکیلتے۔۔۔۔

فقط بیر بہوٹی کو پانے کی چاہ میں۔۔۔۔۔

ایک جھلک دیکھنے کی آرزو میں ۔۔۔۔۔

میں دیوار پر چڑھ گیا۔اوراب میرے سامنے تھے،تمام مناظر ،تمام موجودات۔۔۔ ساحل پر پڑی کسی مردہ سیپ کی مانند۔ ۔۔ بے ٹھور۔۔۔بے سدھ ۔۔۔بے بال وپر۔۔۔بے پا۔۔۔۔بے بود۔۔۔ مگر بیر بہوٹی۔۔۔ بیر بہوٹی کہاں تھی۔۔۔

کسی نے مجھ سے کہا تھا ۔۔۔

’’ اس کی تلاش تو بہت آسان ہے ۔۔۔

اسے پانی کی تلاش ہے۔۔۔۔

توُ اسے پانی کی بھینٹ دے اور وہ تجھے مل جائے گی۔۔۔‘‘

پر میں نہ مانا۔ میں مان بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔

’’پانی جیسی حقیر شے۔۔۔ مجھے بیر بہوٹی کے شایانِ شان نہیں لگتی۔۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے کہ تُو ماننے والا نہیں ۔۔۔اگر ماننے والا ہوتا تو بھلا بیر بہوٹی کی تلاش ہی کیوں ہوتی تجھے ،وہ خود تجھ تک پہنچ جاتی ۔ جا پھر اسے اپنے طریقے سے تلاش کر۔‘‘

سوچوں کو پرے ڈال کر میں دیوار سے نیچے اترا۔۔۔۔اور بڑبڑایا،’’اگر اسے پانی کا ہی تحفہ دینا ہے تو یہ پھر میرے مطابق ہو گا۔۔۔’’میں‘‘۔۔۔ میں ہوں ۔۔کوئی مشت غبار تو نہیں ہوں ۔۔‘‘

اب میں ساتوں سمندروں کی جستجو میں تھا۔ بیر بہوٹی کے لئے، اسکی شان کے مطابق، تحفے کی تلاش میں۔۔

اور

وہیں دور کہیں،

کسی سوکھے صحرا میں لب دم کوئی شخص ،اپنی بے بسی پر بے اختیاررو پڑا۔۔اسکی آنکھوں سے چند قطرے گرے ۔۔۔اور ریت میں جذب ہوگئے۔۔۔

بہر بہوٹی کو اسکی بھینٹ مل گئی تھی۔۔۔۔۔

***

بونگ کی بوٹی

مائیکرو فکشن

عامر صدیقی، کراچی

***

وہ دیر سے کھڑی تھی، ایک دم خاموش اورلوگ ایک ایک کرکے فارغ ہوتے چلے جا رہے تھے ۔

پٹھ، چانپیں،ڈکری۔۔۔

روکھی،سوکھی، چربیلی۔۔۔

دل ،گردے، کلیجی۔۔

قصاب کے مشاق ہاتھ، بڑی پھرتی سے چل رہے تھے ۔گوشت کے لوتھڑوں سے زائد چربی الگ کرتے ،پٹھوں اور غدودوں کو پرے پھینکتے، ہڈیاں اور نَروٹھے نکالتے ،آرڈر کے مطابق تولتے ، پسند کے مطابق بوٹیاں ،قیمہ یا پسندے بناتے اور تھیلی میں ڈالتے ہوئے وہ، گویا ایک مشین کی صورت ہی اختیار کر گیا تھا ، ایک ایسی مشین ،جوپسینے سے شرابور ہونا بھی جانتی تھی۔۔۔ا سکی کشادہ پیشانی پر، موتیوں کی لڑیاں ابھر آئیں تھیں ، بغلوں سے گیلا ہوا اسکا مہین کرتا، اس کے توانا جسم سے چپک گیا تھا اور کھلے گریبان سے جھلکتا چاندی کا بڑا سا تعویز، اس کی ہر ایک جنبش کا ساتھی بن گیا تھا۔۔۔

’’ہاں بی بی ،تمہیں کیا چاہئے۔‘‘

قصاب نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ، پھراپنا چھرا اٹھاتے اور اسے صاف کرتے ہوئے آگے کی جانب جھک گیا۔ تعویز ،نصف النہار کی کرنوں میں جھلملااٹھا تھا۔۔۔

اب وہ دکان پر اکلوتی گاہک بچی تھی۔ گرم گرم ران کے پھڑکتے گوشت سے اپنا گال لگائے ہوئے ، اس نے اپنی آنکھوں کو نیم وا کیا اورلرزتی آ واز میں بولی۔’’مجھے بونگ کی بوٹی چائیے، نلی کے ساتھ۔اور دیکھو مجھے چھچھڑے بالکل نہیں چلتے۔‘‘

***

سمندر، ڈالفن اورآکٹوپس

عامر صدیقی ، کراچی

مائیکرو فکشن

***

’’یوپی، ناگن چورنگی، حیدری ، ناظم آباد ، بندر روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن ۔۔۔"

کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔

’’کرن ؟ کیا اسکی منزل آگئی۔۔‘‘ اس نے سیٹ پر سیدھا ہوتے ہوئے باہر جھانکا۔۔۔۔

’’بندر روڈ سے اگلا اسٹاپ بولٹن مارکیٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو ابھی کچھ دور ہے۔۔۔ مگر پھر میرے ذہن میں کرن کا نام کیوں آیا۔ کیا کنڈیکٹر نے صدا لگائی تھی؟۔۔ یابس یوں ہی۔۔۔۔۔‘‘

بس ابھی بھی بولٹن مارکیٹ پر ہی رکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دوبارہ سیٹ پر ڈھے گیا۔۔ پھر، ایک گہری سانس بھرتا ہوا۔۔۔گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔۔۔۔

’’تم تو سمندر تھے۔‘‘

’’تم بھی تو اس سمندر کی واحد ڈالفن۔‘‘

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

’’تم سمندر نہ رہے۔‘‘

’’تم نے اور پانیوں کی تلاش کر لی،اس سمندر کو چھوڑ کر۔ اور میں شاید بھول گیا تھاکہ سمندر کے اطراف آکٹوپس بھی تاک میں کھڑے ہیں۔‘‘

سیٹ یکایک ،ایک ہائی ٹیک سیٹ میں اور بس خلائی راکٹ تبدیل ہوچکی تھی اور بے پناہ رفتار سے کرہ ارض سے باہر نکل کر اب چاند کے پاس سے گزر رہی۔۔۔۔۔۔

’’چاند۔۔۔۔۔۔۔کرن۔۔۔۔ چاند۔۔۔‘‘

اس نے بے اختیارہو کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا۔۔۔۔۔۔مگر چاند اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔ وہ کنی کاٹ گیا۔۔۔اورکچھ فاصلے پرجاکر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔۔اچانک خلا کی یخ بستہ تاریکی اس کے اندر سما گئی۔۔۔ وہ منجمد ہوگیا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا۔۔۔۔

"ٹاور۔۔ ٹاور "

وہ چونک پڑا۔منزل تک لیجانے والا اسٹاپ یعنی سمندر اب سامنے ہی تھا ۔ وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔۔۔اسے نیچے اترتا دیکھ کر اس کے اور کرن کے درمیان حائل خون آشام آکٹوپس چاروں جانب سے اس کی سمت لپکنے لگے۔ اور اسے نگل گئے۔۔۔۔۔

***

کارنس

تجریدی مائیکرو فکشن

عامرصدیقی، کراچی

***

’’میں اسے گڑیا سے کھیلنے نہیں دوں گی۔‘‘

کمرے کے سناٹے کو چیرتی، تین سایوں میں سے ایک کی سرگوشی ابھری۔۔۔۔۔۔اور دلوں میں اتر گئی۔۔۔۔

۔۔۔سنگدلی، سفاکیت، پختہ ارادہ

۔۔۔تذبذب، نیم دلی،پس و پیش

۔۔۔مظلومیت،بے بسی، تاریکی

’’چوں چوں چوں‘‘

’’اس کارنس کو صاف کرو۔۔۔۔سارے گھر کو بھنکادیا ہے۔جہیز میں اور تو کچھ لائی نہیں کلموہی، سوائے ان منحوس پرندوں کے۔۔۔ ‘‘

۔۔۔تہمت، بہتان، اتہام

۔۔۔تردد،نیم رضامندی، فرمانبرداری

۔۔۔نصیب، قسمت،آنسو

’’چوں چوں‘‘

’’بس میں نے کہہ دیا، اس گھر میں گڑیا نہیں آنے دوں گی۔۔۔۔‘‘

’’میں بھی۔۔۔۔۔۔‘‘

’’میں گڑیا سے ہی کھیلوں گی۔۔۔۔‘‘

’’چوں چوں چوں‘‘

’’کارنس سے گند ہٹاؤ ابھی۔۔۔۔۔‘‘

۔۔۔بدبو، تعفن، سرانڈ

۔۔۔قصد، عزم ،کارروائی

۔۔۔چیخیں، سسکیاں، کراہیں

’’چیں چیں چیں‘‘

’’چیں چیں چیں‘‘

خون،سفیدی، زردی

زردی، سفیدی، خون

***

الگنی کی تلاش میں بھٹکتا پیار

عامر صدیقی، کراچی

***

’’جھاگ نہیں بن رہا ۔‘‘

’’تھوڑا پاؤڈر اور ڈالو نا۔‘‘

’’بہت جھاگ بن جائے گا۔‘‘

’’تمہارا کیا جاتا ہے ۔‘‘

’’میرا کیا جائے گا؟ میرا ہی تو جاتاہے ۔۔۔‘‘

’’اچھا اسے بھی دھو ڈالواوراسے بھی۔‘‘

’’جھاگ مرجائے گا ۔۔۔‘‘

’’کام چل جائے گا۔ ‘‘

’’بہت مشکل ہے۔ویسے بھی الگنی چھوٹی ہے۔‘‘

’’الگنی بڑی کئے دیتا ہوں۔‘‘

’’مگر جھاگ کا کیا؟اوراب پاؤڈر بھی نہیں۔‘‘

’’تم کیا ان سے دھوتی ہو۔‘‘

’’کون میں ؟ اور کس سے بھلا۔تم کیا سمجھے؟‘‘

’’میں سمجھا۔۔۔۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ارے جھاگ نیچے گر رہا ہے ۔‘‘

’’کچھ نہیں، لاؤکیا دھونا ہے،کیازندگی؟‘‘

’’رائیگاں گئی۔‘‘

’’قسمت؟‘‘

’’وہ تو پھوٹی نکلی۔‘‘

’’روپیہ پیسہ۔‘‘

’’ہاتھوں کا میل تھا۔ سواتار پھینکا۔‘‘

’’توجوانی۔‘‘

’’اسے ادھارپرلیا تھا، واپس کردی۔‘‘

’’عزت۔‘‘

’’ٹکے بھاؤ بیچ دی۔‘‘

’’شہرت۔‘‘

’’بہت داغدار ہے۔تمہارے بس کی بات نہیں۔‘‘

’’پھرحوصلے کا کیا۔‘‘

’’ماند پڑ گیا۔‘‘

’’اورجذبات۔‘‘

’’انکا رنگ پھیکا پڑگیاہے۔‘‘

’’چلو پھرحسن ہی سہی۔‘‘

’’اب کہاں، ناپید ہوچکا۔‘‘

’’بشاشت۔‘‘

’’اس پرحالات کا پکا رنگ چڑھ چکاہے ۔اب یہ نہ اترے گا۔‘‘

’’تو پھر اپنی کھال ہی اتار کردو۔‘‘

’’کئی بار اتاری جا چکی، اب اتاری تو پھٹ جائے گی۔‘‘

’’جب کچھ دھلوانا ہی نہیں تو اتنا جھاگ کیوں بنوایا؟‘‘

’’پیار کو جو دھلوانا تھا۔‘‘

’’فقط ایک پیارکو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’پکا۔‘‘

’’پکااورہاں خوب رگڑ رگڑ کر دھونااور اچھی طرح نچوڑنا۔‘‘

’’ارے کتنا گندہ ہے۔‘‘

’’ہاں صدیوں سے یونہی جوپڑا تھا، کسی الگنی کی تلاش میں۔‘‘

***

بیر بہوٹی کی تلاش میں

عامرصدیقی،کراچی

***

میں بیر بہوٹی کی تلاش میں تھا۔

اورکہاں کہاں نہیں بھٹکا تھا۔

نامعلوم اور خوابیدہ عدم کو ممکنات میں لے آیا تھا۔

ساتوںآسمان ، تمام جنتیں، سارے جہنم۔

یہاں تک کہ تخلیق کی دیوارِ گریہ تک بھی جا پہنچا۔

چیخوں اور کراہوں کی موسلادھار بارش کی پھسلن کو ان دیکھا کرکے۔

ناامیدی کے بھنور میں امید کے پر لگا کر

روح کی بے کسی کو متاعِ عزیزجان کر

بدن کی شکستگی و کہنگی کو مومیائی بنا کر

نفس کی منہ زوری کو لگام ڈال کر

ہر خواہش، ہر امید، ہر تمنا، ہر چاہت کوپیچھے د ھکیلتے۔۔۔۔

فقط بیر بہوٹی کو پانے کی چاہ میں۔۔۔۔۔

ایک جھلک دیکھنے کی آرزو میں ۔۔۔۔۔

میں دیوار پر چڑھ گیا۔اوراب میرے سامنے تھے،تمام مناظر ،تمام موجودات۔۔۔ ساحل پر پڑی کسی مردہ سیپ کی مانند۔ ۔۔ بے ٹھور۔۔۔بے سدھ ۔۔۔بے بال وپر۔۔۔بے پا۔۔۔۔بے بود۔۔۔ مگر بیر بہوٹی۔۔۔ بیر بہوٹی کہاں تھی۔۔۔

کسی نے مجھ سے کہا تھا ۔۔۔

’’ اس کی تلاش تو بہت آسان ہے ۔۔۔

اسے پانی کی تلاش ہے۔۔۔۔

توُ اسے پانی کی بھینٹ دے اور وہ تجھے مل جائے گی۔۔۔‘‘

پر میں نہ مانا۔ میں مان بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔

’’پانی جیسی حقیر شے۔۔۔ مجھے بیر بہوٹی کے شایانِ شان نہیں لگتی۔۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے کہ تُو ماننے والا نہیں ۔۔۔اگر ماننے والا ہوتا تو بھلا بیر بہوٹی کی تلاش ہی کیوں ہوتی تجھے ،وہ خود تجھ تک پہنچ جاتی ۔ جا پھر اسے اپنے طریقے سے تلاش کر۔‘‘

سوچوں کو پرے ڈال کر میں دیوار سے نیچے اترا۔۔۔۔اور بڑبڑایا،’’اگر اسے پانی کا ہی تحفہ دینا ہے تو یہ پھر میرے مطابق ہو گا۔۔۔’’میں‘‘۔۔۔ میں ہوں ۔۔کوئی مشت غبار تو نہیں ہوں ۔۔‘‘

اب میں ساتوں سمندروں کی جستجو میں تھا۔ بیر بہوٹی کے لئے، اسکی شان کے مطابق، تحفے کی تلاش میں۔۔

اور

وہیں دور کہیں،

کسی سوکھے صحرا میں لب دم کوئی شخص ،اپنی بے بسی پر بے اختیاررو پڑا۔۔اسکی آنکھوں سے چند قطرے گرے ۔۔۔اور ریت میں جذب ہوگئے۔۔۔

بہر بہوٹی کو اسکی بھینٹ مل گئی تھی۔۔۔۔۔

***

بونگ کی بوٹی

مائیکرو فکشن

عامر صدیقی، کراچی

***

وہ دیر سے کھڑی تھی، ایک دم خاموش اورلوگ ایک ایک کرکے فارغ ہوتے چلے جا رہے تھے ۔

پٹھ، چانپیں،ڈکری۔۔۔

روکھی،سوکھی، چربیلی۔۔۔

دل ،گردے، کلیجی۔۔

قصاب کے مشاق ہاتھ، بڑی پھرتی سے چل رہے تھے ۔گوشت کے لوتھڑوں سے زائد چربی الگ کرتے ،پٹھوں اور غدودوں کو پرے پھینکتے، ہڈیاں اور نَروٹھے نکالتے ،آرڈر کے مطابق تولتے ، پسند کے مطابق بوٹیاں ،قیمہ یا پسندے بناتے اور تھیلی میں ڈالتے ہوئے وہ، گویا ایک مشین کی صورت ہی اختیار کر گیا تھا ، ایک ایسی مشین ،جوپسینے سے شرابور ہونا بھی جانتی تھی۔۔۔ا سکی کشادہ پیشانی پر، موتیوں کی لڑیاں ابھر آئیں تھیں ، بغلوں سے گیلا ہوا اسکا مہین کرتا، اس کے توانا جسم سے چپک گیا تھا اور کھلے گریبان سے جھلکتا چاندی کا بڑا سا تعویز، اس کی ہر ایک جنبش کا ساتھی بن گیا تھا۔۔۔

’’ہاں بی بی ،تمہیں کیا چاہئے۔‘‘

قصاب نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ، پھراپنا چھرا اٹھاتے اور اسے صاف کرتے ہوئے آگے کی جانب جھک گیا۔ تعویز ،نصف النہار کی کرنوں میں جھلملااٹھا تھا۔۔۔

اب وہ دکان پر اکلوتی گاہک بچی تھی۔ گرم گرم ران کے پھڑکتے گوشت سے اپنا گال لگائے ہوئے ، اس نے اپنی آنکھوں کو نیم وا کیا اورلرزتی آ واز میں بولی۔’’مجھے بونگ کی بوٹی چائیے، نلی کے ساتھ۔اور دیکھو مجھے چھچھڑے بالکل نہیں چلتے۔‘‘

***

سمندر، ڈالفن اورآکٹوپس

عامر صدیقی ، کراچی

مائیکرو فکشن

***

’’یوپی، ناگن چورنگی، حیدری ، ناظم آباد ، بندر روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن ۔۔۔"

کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔

’’کرن ؟ کیا اسکی منزل آگئی۔۔‘‘ اس نے سیٹ پر سیدھا ہوتے ہوئے باہر جھانکا۔۔۔۔

’’بندر روڈ سے اگلا اسٹاپ بولٹن مارکیٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو ابھی کچھ دور ہے۔۔۔ مگر پھر میرے ذہن میں کرن کا نام کیوں آیا۔ کیا کنڈیکٹر نے صدا لگائی تھی؟۔۔ یابس یوں ہی۔۔۔۔۔‘‘

بس ابھی بھی بولٹن مارکیٹ پر ہی رکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دوبارہ سیٹ پر ڈھے گیا۔۔ پھر، ایک گہری سانس بھرتا ہوا۔۔۔گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔۔۔۔

’’تم تو سمندر تھے۔‘‘

’’تم بھی تو اس سمندر کی واحد ڈالفن۔‘‘

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

’’تم سمندر نہ رہے۔‘‘

’’تم نے اور پانیوں کی تلاش کر لی،اس سمندر کو چھوڑ کر۔ اور میں شاید بھول گیا تھاکہ سمندر کے اطراف آکٹوپس بھی تاک میں کھڑے ہیں۔‘‘

سیٹ یکایک ،ایک ہائی ٹیک سیٹ میں اور بس خلائی راکٹ تبدیل ہوچکی تھی اور بے پناہ رفتار سے کرہ ارض سے باہر نکل کر اب چاند کے پاس سے گزر رہی۔۔۔۔۔۔

’’چاند۔۔۔۔۔۔۔کرن۔۔۔۔ چاند۔۔۔‘‘

اس نے بے اختیارہو کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا۔۔۔۔۔۔مگر چاند اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔ وہ کنی کاٹ گیا۔۔۔اورکچھ فاصلے پرجاکر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔۔اچانک خلا کی یخ بستہ تاریکی اس کے اندر سما گئی۔۔۔ وہ منجمد ہوگیا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا۔۔۔۔

"ٹاور۔۔ ٹاور "

وہ چونک پڑا۔منزل تک لیجانے والا اسٹاپ یعنی سمندر اب سامنے ہی تھا ۔ وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔۔۔اسے نیچے اترتا دیکھ کر اس کے اور کرن کے درمیان حائل خون آشام آکٹوپس چاروں جانب سے اس کی سمت لپکنے لگے۔ اور اسے نگل گئے۔۔۔۔۔

***

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024