اعجاز ملک کی مجسمہ سازی اور مصوری پہ نقد و نظر
اعجاز ملک کی مجسمہ سازی اور مصوری پہ نقد و نظر
Oct 7, 2023
دیدبان شمارہ -٢٠ اور٢١
اعجاز ملک کی مجسمہ سازی اور مصوری پہ نقد و نظر
شاہد حسین
اعجاز ملک صاحب آپ کا شکریہ آپ نے مجھے رائے دینے کے لیے مدعو کیا اس کام پر رائے دینا میرے لیے بھی خوشی کی بات ہے ۔
مجھے آپ کے کام نے ہمیشہ متاثر کیا ہے چاہے وہ پینٹنگز ہوں یا مجسمے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اپ کون سے میڈیم میں زیادہ انجوائے کرتے ہیں ، اور ان میں کسی
بھول بھلئیوں میں الجھے کھیل کی طرح راستہ تلاش کرتے ہیں ، لیکن جیسے کہ میرے بطور مجسمہ ساز مجھ پر یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جیسے آپ مجسمہ بناتے ہوئے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں ،
مجسمہ سازی میں آپ کے کام میں جو خصوصیات بہت منفرد اور متاثر کن ہیں وہ یہ کہ آپ کسی بھی شخصیت کے صرف چہرے ، خدوخال کو پورٹرے نہیں بلکہ اس کی شخصیت کے ساتھ ایک مکالمہ کرتے ہیں اس پر ایک مقالہ لکھتے ہیں ،
جسے پھر کسی پورٹریٹ مجسمے کو ایسی شکل میں سامنے لاتے ہیں ،
جیسے کہ یہاں ہم گلزار حیدر صاحب کے مجسمے کو ایک مونومنٹ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں اور اگر کوئی نہیں بھی جانتا کہ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس میں شعبہ تعمیرات سے وابستہ ہیں تو وہ اس مجسمے میں ایک بلند مضبوط اور خوبصورت تعمیراتی ایلیمنٹ کو بہت آسانی سے دیکھ سکتا ہے ،
اور ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے دیگر کئی پہلو اور ان کا وسیع تناظر میں دیکھنے اور سوچنے کے بارے بخوبی جان سکتا ہے ۔
بلاشبہ یہ ہر لحاظ سے اپنے موضوع کی خوبصورت اور جامع وضاحت دیتا ایک قابل فخر لاجواب کام ہے ۔
شاہد حسین
17 اگست 22
۔۔۔۔۔
اعجاز ملک کا شمار پاکستان کے عہد حاضر کے ان بڑے مصوروں میں ہوتا ہے جو اپنے کام میں قدیم اسکول کی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید اور عہد حاضر کے عالمی فکری بدلاؤ اور رجحانات پر بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے کام میں اسے بطور مکالمہ استعمال اور اظہار کرتے ہیں ۔
بلاشبہ ان کا کام بہت ہی سنجیدہ اور وسیع تر تحقیقی مطالعہ کی آنکھ سے تنقیدی نظر کا متقاضی ہے ۔
اور یہاں ان کے کام پر میری رائے بطور ایک مصور کے جمالیاتی نقطہ نظر سے ہوگی ،
میں نے اب تک ان کا جو کام دیکھا ہے اس میں وہ مجھے بیسویں صدی کے رئیل ازم اور کنٹمپریری فکری ملاپ کے ساتھ نظر آتے ہیں ،
جبکہ ان کا یہ موجودہ کام جس کا میں نے ابھی صرف ایک ہی امیج دیکھا ہے اگر صرف اسی کے حوالے سے بات کروں تو یہ سابقہ سے کچھ مختلف ہے ۔
شاید اعجاز ملک کا شمار بھی آرٹسٹوں کے اس گروپ سے ہے جو توانائی کی کسی ایک ہی سورس پر اکتفا نہیں کرتے چاہے وہ کس قدر بھی وسیع ہو۔
بلکہ وہ اپنے کام میں نئی کھوج اور دریافت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ،
لیکن مزے کی بات ہے کہ اس بار ان کی یہ کھوج شاید لاشعور میں چھپی بچپن کی یادوں سے اخذ شدہ ہے ۔
جس میں کسی پزلنگ امیج میں چھپی ہوئی تصاویر
یا اشیاء تلاش کرنی ہوتی ہیں ،
یا ان ایکسرے قسم کی ڈرائنگز میں رنگ بھرنے ہوتے ہیں ،
شاید اس کی وجہ ان کا موضوع عورت بھی ہے ، ویسے تو عورت جمالیاتی اعتبار سے مصوری کی دنیا پر
حکمرانی کرتا ہوا موضوع ہے ،
اسی طرح سے عورت اور بیل ، خواہشات کی توانا تکمیل کی بھی قدیم علامت رہا ہے
لیکن اس موضوع کی دیگر بہت سی پیچیدگیوں پر کھل کر بات کرنا ہمیشہ سے کسی معمے کو حل کرنے یا شاید اس سے بھی مشکل امر رہا ہے ۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کلرڈ ڈرائینگ یا پینٹنگ ، کی کچھ واضح اور کچھ غیر واضح اشکال نہ صرف اپنے بیان کرنے والے فنکار کی اس موضوع پر فکر اور مہارت کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتی ، بلکہ یقین دلاتی ہیں کہ اگر آپ اعجاز ملک سے اس پزل کے الجھاؤں پر گفتگو کریں گے تو وہ اس میں موجود دنیا کے چپے چپے سے آپ کو روشناس کروائیں گے ۔
لیکن اگر گفتگو نہ بھی ہو سکے تب بھی یہ تصویر اپنے دیکھنے والوں کی فکر کو مہمیز کرنے اور انہیں دعوت خیال دینے کی مکمل طاقت رکھتی ہے ۔
اعجاز ملک کو اس نئی سیریز پر میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات ۔
شاہد حسین
14/دسمبر 22
۔۔۔۔۔
جی اعجاز ملک صاحب ،
گزشتہ روز جہاں ایک طرف میں واشنگٹن کے میوزیم نیشنل گیلری آف آرٹس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے عظیم فنکاروں کے کام کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ،
وہیں دوسری طرف آپ کے کام کو بالکل کسی انٹر نیشنل میوزیم کے ہی معیار
پر موجود ،
اسی حیرت کے عنصر کے ساتھ دیکھ رہا تھا ،
وہ حیرت جسے نا صرف کوئی دیکھنے والا محسوس کر سکتا ، بلکہ خود آپ اپنے کام میں بھی انجوائے کر رہے تھے ،
ایک مکالمہ جو ہمیشہ جاری رہا ہے کہ کیا کوئی بھی مصوری کا شاہکار اپنی حثیت میں مکمل جامعیت رکھنے کے بعد بھی مزید کسی گفتگو کا متقاضی رہتا ہے ؟
ہمارے خطے کے زیادہ تر آرٹسٹوں کا یہی کہنا ہے کہ کوئی بھی کام ،
اصل میں تو کسی ایسی جامع تخلیق کی طرح سے ہوتا ہے
جہاں مزید کوئی مکالمہ اور اس کا اخراج ختم ہو کر
اس کے جمالیاتی طمانیت و تسکین کو خاموشی سے جذب کرنے کا بصری عمل شروع ہو جاتا ہے ۔
جبکہ پھر اسی خیال کے زیادہ تر حامی آرٹسٹ ،
اکثر اس خاموشی کے کشف کا کوئی لفظی یا تحریری مکاشفہ بیان کرنے پر بھی بات کرنا اہم سمجھتے ہیں ،
یعنی یہاں ان کا ایک تضاد سامنے آتا ہے
جب کہ میں اس معاملے میں کبھی بھی کنفیوز نہیں رہا ،
میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے ،
کے کچھ کام ایسے ضرور ہوتے ہیں ،
یا کسی ایسے اسکول سے تعلق رکھتے ہیں
جو واقعی اپنے اندر کسی فل سٹاپ کی سی اہمیت رکھتے ہیں ،
اسے بس دیکھیئے اور محسوس کیجئے اور محظوظ ہوئیے ،
جبکہ ایک اسکول میں کوئی بھی شاہکار اپنی حیثیت میں مکمل جامع ہونے کے باوجود ، اپنے اندر ،
کہانی ، پہیلی ، تجسس ، حیرانی ،
تلاش ، دریافت اور مکالمے کے پہلو رکھ سکتا ہے ،
کسی ہزار داستان کی طرح جاری رہ سکتا ہے ،
کسی فن پارے کو مکمل کرنے کے بعد بے شک کوئی فنکار اپنا برش رکھ بھی سکتا ہے توڑ بھی سکتا ہے ،
لیکن ضروری نہیں کہ اس پر مکالمہ کا قلم بھی توڑ دیا جائے ،
گو کہ اپ مزاجاً خاموش طبع ہیں اور شاید پبلک میں بات کرنا پسند نہیں کرتے لیکن ،
مجھے آپ کے کام میں ہمیشہ مکالمہ اور اس میں آپ کے وسیع تر مطالعے اور مشاہدے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے جو خیال کو جاری و ساری رکھنے کی دعوت دیتا ہے ،
خود آپ کا اپنے مجسمہ کے تنگ اور تاریک خانوں میں جھانکنے کا عمل بھی یہی بتا رہا ہے
کہ بے شک آپ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اطمینان سے اپنے کوئی بھی اوزار رکھ دیتے ہیں
لیکن خود آپ کے اندر اس کے حوالے سے گفتگو جاری رہتی ہے ،
اور یہاں میرا اور آپ کا ایک ہی اسکول ہے ۔
شاہد حسین
18/جنوری 23
۔۔۔
دیدبان شمارہ -٢٠ اور٢١
اعجاز ملک کی مجسمہ سازی اور مصوری پہ نقد و نظر
شاہد حسین
اعجاز ملک صاحب آپ کا شکریہ آپ نے مجھے رائے دینے کے لیے مدعو کیا اس کام پر رائے دینا میرے لیے بھی خوشی کی بات ہے ۔
مجھے آپ کے کام نے ہمیشہ متاثر کیا ہے چاہے وہ پینٹنگز ہوں یا مجسمے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اپ کون سے میڈیم میں زیادہ انجوائے کرتے ہیں ، اور ان میں کسی
بھول بھلئیوں میں الجھے کھیل کی طرح راستہ تلاش کرتے ہیں ، لیکن جیسے کہ میرے بطور مجسمہ ساز مجھ پر یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جیسے آپ مجسمہ بناتے ہوئے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں ،
مجسمہ سازی میں آپ کے کام میں جو خصوصیات بہت منفرد اور متاثر کن ہیں وہ یہ کہ آپ کسی بھی شخصیت کے صرف چہرے ، خدوخال کو پورٹرے نہیں بلکہ اس کی شخصیت کے ساتھ ایک مکالمہ کرتے ہیں اس پر ایک مقالہ لکھتے ہیں ،
جسے پھر کسی پورٹریٹ مجسمے کو ایسی شکل میں سامنے لاتے ہیں ،
جیسے کہ یہاں ہم گلزار حیدر صاحب کے مجسمے کو ایک مونومنٹ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں اور اگر کوئی نہیں بھی جانتا کہ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس میں شعبہ تعمیرات سے وابستہ ہیں تو وہ اس مجسمے میں ایک بلند مضبوط اور خوبصورت تعمیراتی ایلیمنٹ کو بہت آسانی سے دیکھ سکتا ہے ،
اور ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے دیگر کئی پہلو اور ان کا وسیع تناظر میں دیکھنے اور سوچنے کے بارے بخوبی جان سکتا ہے ۔
بلاشبہ یہ ہر لحاظ سے اپنے موضوع کی خوبصورت اور جامع وضاحت دیتا ایک قابل فخر لاجواب کام ہے ۔
شاہد حسین
17 اگست 22
۔۔۔۔۔
اعجاز ملک کا شمار پاکستان کے عہد حاضر کے ان بڑے مصوروں میں ہوتا ہے جو اپنے کام میں قدیم اسکول کی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید اور عہد حاضر کے عالمی فکری بدلاؤ اور رجحانات پر بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے کام میں اسے بطور مکالمہ استعمال اور اظہار کرتے ہیں ۔
بلاشبہ ان کا کام بہت ہی سنجیدہ اور وسیع تر تحقیقی مطالعہ کی آنکھ سے تنقیدی نظر کا متقاضی ہے ۔
اور یہاں ان کے کام پر میری رائے بطور ایک مصور کے جمالیاتی نقطہ نظر سے ہوگی ،
میں نے اب تک ان کا جو کام دیکھا ہے اس میں وہ مجھے بیسویں صدی کے رئیل ازم اور کنٹمپریری فکری ملاپ کے ساتھ نظر آتے ہیں ،
جبکہ ان کا یہ موجودہ کام جس کا میں نے ابھی صرف ایک ہی امیج دیکھا ہے اگر صرف اسی کے حوالے سے بات کروں تو یہ سابقہ سے کچھ مختلف ہے ۔
شاید اعجاز ملک کا شمار بھی آرٹسٹوں کے اس گروپ سے ہے جو توانائی کی کسی ایک ہی سورس پر اکتفا نہیں کرتے چاہے وہ کس قدر بھی وسیع ہو۔
بلکہ وہ اپنے کام میں نئی کھوج اور دریافت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ،
لیکن مزے کی بات ہے کہ اس بار ان کی یہ کھوج شاید لاشعور میں چھپی بچپن کی یادوں سے اخذ شدہ ہے ۔
جس میں کسی پزلنگ امیج میں چھپی ہوئی تصاویر
یا اشیاء تلاش کرنی ہوتی ہیں ،
یا ان ایکسرے قسم کی ڈرائنگز میں رنگ بھرنے ہوتے ہیں ،
شاید اس کی وجہ ان کا موضوع عورت بھی ہے ، ویسے تو عورت جمالیاتی اعتبار سے مصوری کی دنیا پر
حکمرانی کرتا ہوا موضوع ہے ،
اسی طرح سے عورت اور بیل ، خواہشات کی توانا تکمیل کی بھی قدیم علامت رہا ہے
لیکن اس موضوع کی دیگر بہت سی پیچیدگیوں پر کھل کر بات کرنا ہمیشہ سے کسی معمے کو حل کرنے یا شاید اس سے بھی مشکل امر رہا ہے ۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کلرڈ ڈرائینگ یا پینٹنگ ، کی کچھ واضح اور کچھ غیر واضح اشکال نہ صرف اپنے بیان کرنے والے فنکار کی اس موضوع پر فکر اور مہارت کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتی ، بلکہ یقین دلاتی ہیں کہ اگر آپ اعجاز ملک سے اس پزل کے الجھاؤں پر گفتگو کریں گے تو وہ اس میں موجود دنیا کے چپے چپے سے آپ کو روشناس کروائیں گے ۔
لیکن اگر گفتگو نہ بھی ہو سکے تب بھی یہ تصویر اپنے دیکھنے والوں کی فکر کو مہمیز کرنے اور انہیں دعوت خیال دینے کی مکمل طاقت رکھتی ہے ۔
اعجاز ملک کو اس نئی سیریز پر میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات ۔
شاہد حسین
14/دسمبر 22
۔۔۔۔۔
جی اعجاز ملک صاحب ،
گزشتہ روز جہاں ایک طرف میں واشنگٹن کے میوزیم نیشنل گیلری آف آرٹس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے عظیم فنکاروں کے کام کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ،
وہیں دوسری طرف آپ کے کام کو بالکل کسی انٹر نیشنل میوزیم کے ہی معیار
پر موجود ،
اسی حیرت کے عنصر کے ساتھ دیکھ رہا تھا ،
وہ حیرت جسے نا صرف کوئی دیکھنے والا محسوس کر سکتا ، بلکہ خود آپ اپنے کام میں بھی انجوائے کر رہے تھے ،
ایک مکالمہ جو ہمیشہ جاری رہا ہے کہ کیا کوئی بھی مصوری کا شاہکار اپنی حثیت میں مکمل جامعیت رکھنے کے بعد بھی مزید کسی گفتگو کا متقاضی رہتا ہے ؟
ہمارے خطے کے زیادہ تر آرٹسٹوں کا یہی کہنا ہے کہ کوئی بھی کام ،
اصل میں تو کسی ایسی جامع تخلیق کی طرح سے ہوتا ہے
جہاں مزید کوئی مکالمہ اور اس کا اخراج ختم ہو کر
اس کے جمالیاتی طمانیت و تسکین کو خاموشی سے جذب کرنے کا بصری عمل شروع ہو جاتا ہے ۔
جبکہ پھر اسی خیال کے زیادہ تر حامی آرٹسٹ ،
اکثر اس خاموشی کے کشف کا کوئی لفظی یا تحریری مکاشفہ بیان کرنے پر بھی بات کرنا اہم سمجھتے ہیں ،
یعنی یہاں ان کا ایک تضاد سامنے آتا ہے
جب کہ میں اس معاملے میں کبھی بھی کنفیوز نہیں رہا ،
میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے ،
کے کچھ کام ایسے ضرور ہوتے ہیں ،
یا کسی ایسے اسکول سے تعلق رکھتے ہیں
جو واقعی اپنے اندر کسی فل سٹاپ کی سی اہمیت رکھتے ہیں ،
اسے بس دیکھیئے اور محسوس کیجئے اور محظوظ ہوئیے ،
جبکہ ایک اسکول میں کوئی بھی شاہکار اپنی حیثیت میں مکمل جامع ہونے کے باوجود ، اپنے اندر ،
کہانی ، پہیلی ، تجسس ، حیرانی ،
تلاش ، دریافت اور مکالمے کے پہلو رکھ سکتا ہے ،
کسی ہزار داستان کی طرح جاری رہ سکتا ہے ،
کسی فن پارے کو مکمل کرنے کے بعد بے شک کوئی فنکار اپنا برش رکھ بھی سکتا ہے توڑ بھی سکتا ہے ،
لیکن ضروری نہیں کہ اس پر مکالمہ کا قلم بھی توڑ دیا جائے ،
گو کہ اپ مزاجاً خاموش طبع ہیں اور شاید پبلک میں بات کرنا پسند نہیں کرتے لیکن ،
مجھے آپ کے کام میں ہمیشہ مکالمہ اور اس میں آپ کے وسیع تر مطالعے اور مشاہدے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے جو خیال کو جاری و ساری رکھنے کی دعوت دیتا ہے ،
خود آپ کا اپنے مجسمہ کے تنگ اور تاریک خانوں میں جھانکنے کا عمل بھی یہی بتا رہا ہے
کہ بے شک آپ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اطمینان سے اپنے کوئی بھی اوزار رکھ دیتے ہیں
لیکن خود آپ کے اندر اس کے حوالے سے گفتگو جاری رہتی ہے ،
اور یہاں میرا اور آپ کا ایک ہی اسکول ہے ۔
شاہد حسین
18/جنوری 23
۔۔۔